علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
نام کتاب: اعلام القرآن
(مجموعہ مضامین)
✍️ تحقیق و تصنیف: مولانا ابوالجلال ندویؒ
✍️ تدوین و تہذیبِ نو: معظم جاوؔید بخاری
🔸صفحات: 460 (بڑا سائز)
🔸قیمت: 1600 روپے
🔸رعایتی قیمت: 1100 روپے
🔸ہوم ڈیلیوری فری
⭕️(نوٹ) محدود اسٹاک ہے، پہلے آئیے پہلے پائیے۔
مولانا ابوالجلالؒ ندوی، گزشتہ صدی کے معتدل مزاج اور اعلیٰ پایہ کے عالم و محقق تھے، ندوۃ العلما کے دور کمال کی پیداوار، علامہ شبلی نعمانی کی یاد گار دارالمصنفین کے رفیق، بانی دارلمصنفین علامہ سید سلیمان ندوی کے شاگرد تھے انہوں نے عمر کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس اور تحقیق علم میں گزرا۔ مولانا مرحوم نے زیرنظر کتاب ’’اعلام القرآن‘‘ سیدسلیمان ندویؒ کی فرمائش پر لکھنا شروع کی تھی مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ اسے مکمل نہیں کر پائے تھے۔ اس کتاب کے چند مقالہ جات 50ء کی دہائی میں رسالہ معارف میں شائع ہوئے تھے جنہیں پڑھ کر اہل علم اور دانشوروں نے ہر دور میں کمال فہم و بصیرت حاصل کی۔ کتاب ہذا ان کے اُنہی قرآنی مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے، رسالہ معارف کے علاوہ اس میں دیگر مشہور رسائل کے مقالات بھی شامل ہیں اور مولانا مرحوم کے نواسے محترمی یحییٰ بن زکریا کے عطا کردہ غیرمطبوعہ مقالات بھی شامل ہیں۔ تمام مضامین تاریخ و سنہ کے حوالہ کے ساتھ دئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا ابوالجلال ندویؒ کے دو اہم انٹرویو اور سیرت و حیات پر اہم مضامین بھی شامل کتاب ہیں۔ مضامین کی زبان چونکہ مشکل تھی اور آیات قرآنی کے نمبر مفقود تھے، انتہائی کوشش کے ساتھ زبان کو سلیس بنادیا گیا ہے اور آیات و احادیث کے حوالہ جات و نمبر صحت کے ساتھ درج کر دئیے ہیں۔ مولانا مرحوم کے اس قیمتی علمی سرمایے کی یہ یکجائی، علمی حلقہ اور عام قارئین کیلئے یقیناً کسی قیمتی تحفہ سے کم نہیں ہے۔
📚کتاب گھر بیٹھے منگوانے کا طریقہ:
آپ اپنا مکمل نام و پتہ اور رابطہ نمبر دئیے گئےنمبر پر واٹس ایپ یا میسج کر دیجیے،کتاب آپ کو بھجوا دی جائے گی،ان شاءاللہ 3سے 6دنوں میں کتاب آپ تک پہنچ جائے گی، آپ صرف 1100روپے دے کر وصول کر لیجیے گا۔
یہ کتاب گھر بیٹھے حاصل کرنے اور دارالمصحف کی مکمل فہرست حاصل کرنے کے لیے ابھی واٹس ایپ لنک پہ کلک کیجیے:
https://wa.me/message/KND3DDYCZIQTB1
Call Whatsapp:03351620824
ادارے کی دیگر کتب کے لیے ابھی وزٹ کیجیے ویب سائٹ
www.kitaabnagar.com
ان مساجد میں ایک مسجد فاکنور کی ہے،گزشتہ چند سالوں سےبعض لوگ فاکنور کو قدیم بھٹکل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ درست نہیں ہے، مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ اڈپی کےقریب واقع قدیم جینی ریاست کا دارالسلطنت بارکور ہے۔ ابن بطوطہ نے اس کا جو محل وقوع بیان کیا ہے، اس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، تاریخ اپنی بات ثابت کرنے کے لئے نہیں ہوا کرتی ، بھٹکل کے نوائط کی اپنی ایک شناخت اور تاریخ ہے، اسے ثابت کرنے کے لئے ان مصنوعی حوالوں کی ضرورت نہیں، ابن بطوطہ کے مطابق فاکنور سے قدیم ملیبار کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اور ملبار کے ماپلا مسلمانوں کے سلسلے میں مورخین کا اتفاق ہے کہ ان میں عربی النسل خاندان پائے جاتے ہیں، لیکن یہ سبھی عربی النسل نہیں ہیں، ان کی اکثریت بعد میں اسلام میں داخل ہوئی ہے، ۱۵۰۲ء میں ملبار کی سیاحت کرنےو الے پرتگالی سیاح دوارت بربوسا نے لکھا ہے کہ اگر پرتگالی ملبار نہ پہنچتے تو پورا ملبار مسلمان ہوگیا ہوتا۔ نوائط برادری نے جس طرح نکاح ، عائلی و معاشرتی نظام کی صدیوں تک پابندی کی ہے، اور جس طرح وہ ایک اجتماعی نظام سے وابستہ رہے ہیں، اس سے ملباری ماپلا اور نوائط کی تہذیب وثقافت میں بین فرق محسوس ہوتا ہے۔ بربوسا کی کتاب سے محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں بھٹکل کی اہمیت کوژی کوڈ (کالیکٹ) سے زیادہ تھی۔ بات درمیان میں آگئی، یہ بھی ایک مستقل بحث کا متقاضی ہے۔
۔ بارکور میں ندی کنارے اب بھی مالک بن دینار کی طرف منسوب مسجد پائی جاتی ہے، اسے ہمارے مرحوم دوست مظفر کولا صاحب نے از سر نو تعمیر کیا تھا۔اس مسجد میں اب بھی کچھ قدیم آثار پائے جاتے ہیں، لیکن انہیں سمجھنے والے اب نہیں رہے ہیں، اس مسجد کا پہلے ہم لوگوں کو علم نہیں تھا،، ورنہ اس قدیم مسجد کی عمارت کے تاریخی ورثہ کی حیثیت سے حفاظت پر شاید توجہ دلائی جاسکتی تھی۔ اللہ کی ذات بڑی حکیم ودانا ہے۔
2024-01-03
/channel/ilmokitab
رہی بات ملبار کے راجہ چیرمن پارومل کے واقعہ شق القمر کو دیکھنے، یا پھر مالک بن دینار سے ان کی ملاقات کی بات تو، تحقیق کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ان کے ثبوتوں کو قبول کرنا مشکل ہے ۔ کیونکہ ان روایتوں کے اولین مستند ترین راوی دسویں صدی ہجری کے مورخ مخدوم شیخ زین الدین المعبری الملیباری ( وفات ۹۸۷ھ)۔ دسویں صدی ہجری کے بزرگ ہیں،اور انہوں اسے عادل شاہی سلطنت کے حکمران کے سامنے پیش کردہ کتاب تحفۃ المجاہدین میں اس کا ذکر کیا ہے، مورخ ہند حکیم شید شمس اللہ قادری کے مطابق یہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا دور سلطنت بھی ہے، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب واقعہ کے نو سو سال بعد لکھی گئی ہے، اور اتنے طویل وقفہ کے بعد کسی کتاب میں اس قسم کے واقعہ کا ذکر ہو تو اسے کہاں تک قبول کیا جاسکتا ہے؟، بیان کرنے کی چندان ضرورت نہیں۔ بہر حال اس نکتہ کے علاوہ تحفۃ المجاہدین کی اپنی ایک تاریخی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ ملبار کی تاریخ کے سلسلے میں یہ ابتک دستیاب شدہ اولین کتاب ہے، قارئین کی دلچسپی کے لئے واقعہ کی تفصیل اسی کتاب سے پیش کرتے ہیں، ترجمانی عظیم مورخ ہند حکیم سید شمس اللہ قادری حیدرآبادی مرحوم کی ہے۔
" یہود و نصاری کی ایک جماعت مدت سے کدن کلور میں آباد تھی، یہ شہر ملیبار کا دارالحکومت تھا اور اسی جگہ راجہ رہا کرتا تھا ۔ یہ لوگ ایک عظیم الشان کشتی میں بیٹھ کر اپنے عیال و اطفال کے ساتھ ملیبار میں آئے اور یہاں کے راجہ سے سکونت کے لیے زمینوں مکانوں، باغوں کو طلب کیا اور اس مالک کو اپنا وطن بنا لیا ۔
اس کے مدت دراز بعد فقراء اسلام کی ایک جماعت اسی شہر میں وارد ہوئی ۔ یہ لوگ سیلان کوجا رہے تھے تاکہ حضرت آدم علیہ اسلام کے قدم کی زیارت کریں بادشا کو جب ان کی آمد کا حال معلوم ہوا تو اُن کو اپنے یہاں بلایا اور اُن سے جناب پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کا حال دریافت کیا۔ اس جماعت میں ایک معمر آدمی تھا اُس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات، دین اسلام کی حقیقت، معجزہ شق القمر کی کیفیت بیان کی۔ جب ان باتوں کو راجہ نےسماعت کیا تو پیغمبر اسلام کی صداقت کو قبول کر لیا اس کے دل میں نبی اکرم صلی الہ علیہ سلم کی محبت جاگزیں ہوگئی اور اس نے صدق دل سے اسلام کو قبول کر لیا ۔
راجہ نے فقراء سے کہا کہ جب تم قدم مبارک کی زیارت سے واپس آنا تو میں بھی تمھارے ہمراہ چلوں گا تا کہ نبی اکرم کی زیارت کروں اور تاکید کی کہ یہ واقعہ ملیبار میں کسی سے بیان نہ کرنا۔ فقراء جب سیلان سے واپس آئے تو راجہ نے بوڑھے سے ایک کشتی کے مہیا کرنے کی فرمائش کی تاکہ راجہ اور اس کے ہمرا ہی بلا تکلیف سفر کر سکیں۔ بندر پر بہت سے اجنبی تاجروں کی کشتیاں موجود تھیں ایک کشتی والے سے معاملہ ہو گیا۔ راجہ نے جب سفر کی تیاری کرلی تو اپنے اہل خاندان اور وزرا ، سلطنت کو بلا کر کہا کہ میں عبادت الہی میں مصروف ہو نا چاہتا ہوں اس لیے ایک ہفتہ تک کسی آدمی سے نہیں ملوں گا ۔ اس کے بعد ملک کا انتظام مختلف آدمیوں کے تفویض کیا اور ہر ایک کے نام حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کے مقبوضات ہے کوئی تعرض نہ کرے ۔ اہل ملیبار میں یہ واقعہ اسی طرح مشہور ہے۔ راجہ کی عملداری شمال میں کنجر کوٹ سے شروع ہو کر جنوب میں کمھری تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس کے بعد راجہ فقراء کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگیا۔ کشتی پہلے فندرینہ میں پہونچی۔ مسافروں نے اس جگہ ایک رات دن بسر کیا۔ پھر یہاں سے در مفتن پہونچے جہاں تین روز گزارے ۔ یہاں سے روانہ ہو کر شحر میں اوترے ۔ وہاں عرصہ دراز تک سکونت پذیر رہے۔ ایک جماعت اپنے رفیقوں کی مہیا کی۔ ان سبھوں نے یہ ارادہ کیا کہ ملیار جائیں اور وہاں دین اسلام کو رواج دیں۔ عبادت کے لیے مساجد تعمیر کریں۔ اسی اثنا میں راجہ بیمار ہوگیا اور اُسے زندہ رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اپنے رفیقوں کو وصیت کی کہ سفر ہند کے ارادے پر ثابت قدم رہیں۔
حسب ذیل آدمی راجہ کے رفیق تھے۔ شرف بن مالک ان کا بھائی مالک بن دینار اور ان کا بھتیجا مالک بن حبیب بن مالک وغیرہ ۔ انھوں نے راجہ سے کہا کہ ہم نہ تو تمھارے ملک کو جانتے ہیں اور نہ اس کے حدود سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ ارادہ محض تمھارے ساتھ ہونے کے باعث کیا تھا۔ راجہ نے ان کی گفتگو پر دیر تک غور کیا
اور انھیں ملیباری زبان میں ایک خط لکھدیا جس میں اُس نے اپنے عزیز و اقارب اور حکام وعمال کے پتے بتائے اور ہدایت کی کہ کدن کلور، درمفتن، فندرینہ یا کولم میں اتریں یہ بھی کہاکہ ملیبار میں کسی سے میرے بیمار ہونے اور مرنے کا حال بیان نہ کرنا ۔ یہاں تک کہ راجہ کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے دو سال بعد شرف بن مالک
مالک بن دنیا ر ، مالک بن حبیب ۔ ان کی بیوی قمریہ اور تمام آل و اولاد ملیبار کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب کدنکلور میں پہونچے تو راجہ کا خط وہاں کے حاکم کے حوالہ کیا اس نے خط پڑھا اور تحریر کے مطابق عمل کیا ان لوگوں کو زمینیں اور باغات عنایت کئے۔
نام کتاب: اعلام القرآن
(مجموعہ مضامین)
✍️ تحقیق و تصنیف: مولانا ابوالجلال ندویؒ
✍️ تدوین و تہذیبِ نو: معظم جاوؔید بخاری
🔸صفحات: 460 (بڑا سائز)
🔸قیمت: 1600 روپے
🔸رعایتی قیمت: 1100 روپے
🔸ہوم ڈیلیوری فری
⭕(نوٹ) محدود اسٹاک ہے، پہلے آئیے پہلے پائیے۔
مولانا ابوالجلالؒ ندوی، گزشتہ صدی کے معتدل مزاج اور اعلیٰ پایہ کے عالم و محقق تھے، ندوۃ العلما کے دور کمال کی پیداوار، علامہ شبلی نعمانی کی یاد گار دارالمصنفین کے رفیق، بانی دارلمصنفین علامہ سید سلیمان ندوی کے شاگرد تھے انہوں نے عمر کا بڑا حصہ تعلیم و تدریس اور تحقیق علم میں گزرا۔ مولانا مرحوم نے زیرنظر کتاب ’’اعلام القرآن‘‘ سیدسلیمان ندویؒ کی فرمائش پر لکھنا شروع کی تھی مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ اسے مکمل نہیں کر پائے تھے۔ اس کتاب کے چند مقالہ جات 50ء کی دہائی میں رسالہ معارف میں شائع ہوئے تھے جنہیں پڑھ کر اہل علم اور دانشوروں نے ہر دور میں کمال فہم و بصیرت حاصل کی۔ کتاب ہذا ان کے اُنہی قرآنی مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے، رسالہ معارف کے علاوہ اس میں دیگر مشہور رسائل کے مقالات بھی شامل ہیں اور مولانا مرحوم کے نواسے محترمی یحییٰ بن زکریا کے عطا کردہ غیرمطبوعہ مقالات بھی شامل ہیں۔ تمام مضامین تاریخ و سنہ کے حوالہ کے ساتھ دئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا ابوالجلال ندویؒ کے دو اہم انٹرویو اور سیرت و حیات پر اہم مضامین بھی شامل کتاب ہیں۔ مضامین کی زبان چونکہ مشکل تھی اور آیات قرآنی کے نمبر مفقود تھے، انتہائی کوشش کے ساتھ زبان کو سلیس بنادیا گیا ہے اور آیات و احادیث کے حوالہ جات و نمبر صحت کے ساتھ درج کر دئیے ہیں۔ مولانا مرحوم کے اس قیمتی علمی سرمایے کی یہ یکجائی، علمی حلقہ اور عام قارئین کیلئے یقیناً کسی قیمتی تحفہ سے کم نہیں ہے۔
📚کتاب گھر بیٹھے منگوانے کا طریقہ:
آپ اپنا مکمل نام و پتہ اور رابطہ نمبر دئیے گئےنمبر پر واٹس ایپ یا میسج کر دیجیے،کتاب آپ کو بھجوا دی جائے گی،ان شاءاللہ 3سے 6دنوں میں کتاب آپ تک پہنچ جائے گی، آپ صرف 1100روپے دے کر وصول کر لیجیے گا۔
یہ کتاب گھر بیٹھے حاصل کرنے اور دارالمصحف کی مکمل فہرست حاصل کرنے کے لیے ابھی واٹس ایپ لنک پہ کلک کیجیے:
https://wa.me/message/KND3DDYCZIQTB1
Call Whatsapp:03351620824
ادارے کی دیگر کتب کے لیے ابھی وزٹ کیجیے ویب سائٹ
www.kitaabnagar.com
مجلہ تدبر لاہور ( جنوری ۲۰۲۴)
مدیر: ڈاکٹر منصور الحمید
مدیر معاون: حسان عارف
ناشر: ادارہ تدبر قرآن وحدیث، رحمان اسٹریٹ،مسلم روڈ، سمن آباد، لاہور (پاکستان )
00923234015825
Tabbur72@gmail.com
مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کے شاگرد رشید مولانا خالد مسعود مرحوم پہلے یہ مجلہ نکالا کرتے تھے، اب اس مجلے کا از سر نو اجراء ہوا ہے، ابھی ہم نے اس مجلہ کے مندرجات کو پڑھا نہیں ہے، لیکن گمان غالب ہے کہ یہ مفید ہوگا۔
مولانا امین احسن اصلاحی سے افکار وخیالات سے بہت سی جگہ اختلاف کے باوجود یہ کہنے میں حرج نہیں کہ مولانا ایک عظیم عالم دین تھے، آپ کی زندگی قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے میں گذری تھی ، قریبی دور کی اہم تفاسیر میں منصوبہ بند انداز سے لکھی گئی تفاسیر میں آپ کی تفسیر تدبر قرآن کو ایک نمایاں مقام اور تشخص حاصل ہے، کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ مولانا مفتی شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر معارف القرآن ابتدا میں ریڈیو پاکستان پر پیش ہونے والے دروس سے تشکیل پائی تھی ۔ متفرق دس پاروں کے دروس کے بعد مفتی صاحب علیہ الرحمۃ کو انہیں مکمل تفسیر کی شکل دینے کا خیال آیا تھا، اسی طرح تفہیم القرآن کا مقصد ابتدا میں صرف قرآن کی ترجمانی تھا، اور مصنف کا ارادہ تھا کہ آپ کا ترجمہ قرآن شاہ عبد القادر دہلوی ؒ کے موضح قرآن کے ساتھ شائع ہوگا، لہذا ابتدائی پندرہ پاروں پر تفسیر سے زیادہ ترجمانی کا اسلوب غالب رہا، اور پھرآخری پندرہ پاروں میں اس کا اسلوب بدل گیا، آخری عمر میں جب مصنف سے ابتدائی نصف کو بھی آخری نصف کے تفسیری اسلوب میں لکھنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے بیماری اور عمر کے تقاضوں سے اس منصوبے سے معذرت پیش کردی۔ لیکن تدبر قرآن کے مصنف کا ابتدا ہی سے منصوبہ ایک مکمل تفسیر لکھنے اور اس میں اپنے استاد مولانا حمید الدین فراہی کے بکھرے ہوئے علمی افادات کو محفوظ کرنا مقصود تھا۔
موجودہ دور میں غامدی صاحب نے جس طرح خود کو عالم دین اور عربی داں ثابت کرنے کے لئے مولانا امین احسن اصلاحی کی شاگردی کا ڈھنڈورا پیٹا ہے، اور آپ کے نام کو بے دریغ استعمال کیا ہے، ہمارے خیال میں یہ درست نہیں ہے، غامدی صاحب نے مولانا اصلاحی سے کچھ پڑھا ضرور ہے، لیکن آخری دنوں میں مولانا اصلاحی کی خدمت کرنے اور آپ کی صحبت میں رہ آپ کے علوم کو محفوظ کرنے اور اسے پھیلانے کا سہرا مولانا خالد مسعود کو جاتا ہے ، جنہوں نے طالب علموں کا ایک حلقہ بنا کر مولانا اصلاحی کے دروس منظم کرنے اور انہیں حیطہ تحریر میں لانے کی شعوری کرشش کی، ان خدمات کے صلے میں آپ کو مولانا اصلاحی کی فکر کا حقیقی نمائندہ کہا جاسکتا ہے۔
جس طرح ہمارے یہاں ایک زمانے میں معرفت حق، وصیۃ العرفان، اور الابقاء نکلا کرتے تھے، اسی طرح تدبر مولانا امین احسن اصلاحی کے درس تفسیر، حدیث ، فقہ و دعوت کے نکات پر مشتمل مجلہ ہوا کرتا تھا ، اب ایک طویل عرصہ گذرنے کے بعد لاہور سے مجلہ تدبر ایک نئے انداز سے جاری ہوا ہے، امید ہے کہ یہ اپنے پیش رو کی طرح مولانا اصلاحی اور فراہی مکتب فکر کی بہترین ترجمانی کرے گا۔
عبد المتین منیری
2024-01-01
/channel/ilmokitab
سورہ عبس۔۔۔ تلاوت : قاری عادل حمید صبری https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=abas, Abas
Читать полностью…https://www.youtube.com/watch?v=-NDwlyZR7iQ&list=PL5AFF3B0018DDC975&index=95
Читать полностью…سنہ عیسوی کی اصلاحات۔ مولانا عبد الرشید نعمانی (مجلہ علوم اسلامیہ بہاولپور جولائی ۱۹۷۴ء)
Читать полностью…مولانا سید ابو الحسن ندوی(وفات ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء) تحریر: پروفیسر خورشید احمد
Читать полностью…مولانا فضل الرحمن رحمانی(وفات ۳۰ دسمبر ۲۰۱۱ء) ۔۔۔ تحریر : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
Читать полностью…جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( ۶) آخرت کی لائن میں کب آرہے ہیں ؟
تحریر: ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم
ہمارے قصبے وائم باڑی میں ایک کالج ہے جو اسلامیہ کالج کہلاتا ہے، اور وہ مدراس یونیورسٹی سے affiliated ہے، میں ۱۹۵۷ سے یہاں انگریزی پڑھا رہا تھا۔ ایک صبح میں کالج جارہا تھا۔ راستے میں ایک صاحب ملے، علیک سلیک کے بعد ان کے ساتھ حسب ذیل گفتگو ہوئی۔
آپ کیا کرتے ہیں؟۔
میں پڑھاتا ہوں۔
کہاں؟
اسلامیہ کالج میں۔
کیا پڑھاتے ہیں ؟ -
انگریزی۔
آخرت کی لائن میں کب آئیں گے ؟
وہ بہت ہی غصے کی حالت میں سوال کر رہے تھے، ملتے وقت بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ چلا گیا۔
ان کے آخری سوال کا مطلب میں سمجھ نہیں پایا، میں نے اس کا جواب نہیں دیا، اور اس کے بعد جب بھی وہ سڑک پر نظر آتے ، میں راستہ بدل کر نکل جاتا، لیکن کبھی کبھی غیر متوقعہ طور پر مڈ بھیڑ ہو جاتی، جب بھی ملاقات ہوتی، وہ وہی سوال دہراتے، اور آخر میں وہی سوال کرتے : آپ آخرت کی لائن پر کب آئیں گے ؟
ء۱۹۵۹ میں ہمارے کالج میں عربی کا ڈیپارٹمنٹ قائم ہو گیا۔ میں نے مدراس یونیورسٹی سے انگریزی زبان وادب میںB.A Hons) ( کی ڈگری لی تھی۔ پھر ۱۹۵۸ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں M.A کی ڈگری حاصل کی۔ اس طرح میں عربی پڑھانے کے لیے qualified تھا۔ چنانچہ میں اسلامیہ کالج میں عربی کا HOD بنا دیا گیا۔ اب میری بڑی خواہش تھی کہ آخرت کی لائن“ والے صاحب سے مل کر انہیں بتادوں کہ میں اب آخرت کی لائن میں منتقل ہو چکا ہوں۔
ان سے ملاقات ہوئے کافی دن ہوئے تھے، میں ان کی تلاش میں رہا، اور ایک روز ان سے ملاقات ہو گئی، وہ دور سے نظر آئے اور میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ جب ملے تو میں نے ان کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا: آپ کی دعا سے میں آخرت کی لائن میں آگیا ہوں۔
انہوں نے کہا: وہ کیسے ؟
میں نے کہا: اب میں نے انگریزی کی teaching چھوڑ دی ہے۔ انہوں نے کہا: تو کون سا مضمون پڑھا رہے ہیں؟
میں نے فخر سے کہا: عربی زبان اور اس کے ساتھ قرآن شریف، حدیث اور فقہ ۔ انہوں نے کہا: کس جگہ ؟ کہاں؟ میں نے کہا: اسلامیہ کالج میں۔ وہ بولے: یہ بھی دنیا ہی کی لائن ہے۔ آخرت کی لائن میں کب آرہے ہیں ؟
/channel/ilmokitab
قرابت کو ’قُربیٰ‘ بھی کہا جاتا ہے، قرآنِ مجید میں ’ذوی القربیٰ‘ (قریبی رشتے داروں) کا خیال رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔’اقربا‘ کے لیے ’اَقارِب‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’اعزا و اقارب‘ کی ترکیب ہمارے ہاں عام ہے۔ اگر کوئی بات اصل تک نہ پہنچے مگر اصل سے ’قریب قریب‘ ہو تو اُس کے لیے ہم ’تقریباً‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ لوگوں کو ایک جگہ قریب قریب جمع کرکے میل ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے تو اس کو ’تقریب‘ کہا جاتا ہے۔ تقریب کا کوئی سبب بھی ہوتا ہے، مثلاً تقریبِ نکاح، تقریبِ ولیمہ یا قبل از وقت صاحبِ کتاب بن جانے والوں کی تقریبِ رُونمائی و جگ ہنسائی۔ ’تقریب‘ دو سے زائد افراد کو بھی قریب کرسکتی ہے اوردو افراد کو بھی۔ غالبؔ ایسی ہی کسی قربت کے طالب تھے۔ کہتے ہیں:
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
مشہور ہے کہ ’جو کسی کے قریب ہوتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں‘۔ ایسے لوگوں کو ’مقرب‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ جنھیں قریب کیا گیا ہو یا قربت دی گئی ہو۔ اس کی جمع ’مقربین‘ ہے۔ سرکار دربارسے خصوصی قربت رکھنے والوں کو ’مقربینِ خاص‘ کہا جاتا ہے۔
قصہ مختصر ’اقرب‘ اور ’عقرب‘ کی صوتی ہم آہنگی سے مشتاق احمد یوسفی صاحب نے فائدہ اُٹھا یا۔ اگر آپ کے قریب ترین اور محبوب ترین لوگوں میں کوئی ایسا نکل آئے کہ جسے آپ اپنا ہم مشرب، ہم ذوق، ہمدم اور ہمراز جانتے ہوں،مگر وہی آپ کو بے سبب ڈنک مار بیٹھے تو اسے کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ ’نیش اقرب‘ ہی کہیں گے اور یہ بھی کہ …’نیش اقرب‘ نہ از پئے کین است!
https://telegra,m.me/ilmokitab
تعارف کتاب:
نقاط19 (جولائی 2023ء) نئے ادب کا ترجمان (ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے) خصوصی شمارہ
تحریر: عرفان جعفر خان -
کتاب : نقاط 19 (جولائی 2023ء )
نئے ادب کا ترجمان
(ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے )
خصوصی شماره
ادارت : قاسم یعقوب
معاونین : فیاض ندیم
ادارت: عرفان حیدر
صفحات : 176 قیمت: 500 روپے
ترسیل و اہتمام : کتابی دنیا پاکستان، دوسری منزل
حبیب ایجوکیشن سینٹر، نزد کتابستان
اشاعت : پلازہ، 38 اردو بازار، لاہور
0323-4251011
0343-3634502
’نقاط‘ کے اس خاص شمارے کو اس اہم سوال کے لیے وقف کیا گیا کہ ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اگرچہ یہ شمارہ خالص ادب کا نمائندہ نہیں مگر اس شمارے کے اِس سوال کا ادب سے گہرا اور بنیادی تعلق ہے۔ ہمارے خواب، ہماری خواہشیں اور مقاصد سب اسی ایک مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دانش ور حضرات نے جن مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، ان سب پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
ہم بہ حیثیت سماج ہر لمحہ تاثراتی اور جذباتی صورتِ حال میں گھرے رہتے ہیں، اور یہ ہم سب کا روزمرہ کا مسئلہ اور تجربہ ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بنیادی مسائل کا تعین خالصتاً فلسفیانہ کارگزاری ہے۔ فلسفیانہ عمل اپنی اصل میں منطقی اور عقلی ہوتا ہے، جو تاثر کے مقابلے میں زیادہ گہرا، عمیق اور معروضی ہے۔ ہمارے بہت سے سرسری مسائل شاید وقتی اہمیت کے باوجود بنیادی مسائل نہیں ہیں۔
ظواہر سے اصل تک رسائی کا مطالبہ ہر سماج میں دانش ور طبقے کی موجودگی کا جواز ہے۔ دانش ور سماجی حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور مختلف ظواہر کی تہہ میں کارفرما آئیڈیالوجی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ دانش ورانہ سطح پر مسائل کی شناخت کا مرحلہ متنوع فکری تناظرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ زندگی کی رنگارنگی اور خود سماجی مسائل کی پیچیدگی، رسائی کے مختلف النوع فکری طریقوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس شمارے کے محتویات میں ڈاکٹر ناصر عباس نیرنے ہمارے سماج کے بنیادی مسائل کی طرف گہرائی سے راہ نمائی فرمائی ہے۔ سید کاشف رضا نے زندگی کے ایک منفی اور قدامت پرستانہ رویّے کو پاکستانی سماج کا بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے۔ افتخار بیگ اور توقیر ساجد کھرل بھی ذہنی پسماندگی کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ نعیم بیگ نے تعلیمی فقدان سے جنم لینے والی صورتِ حال پر بات چیت کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق عادل مسائل کی اصل وجہ طاقت ور طبقات کے منفی اثرات کو قرار دیتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ریاست اپنے عوام پر جو ذمہ داریاں عائد کرتی ہے، ان کے بدلے میں وہ انہیں کچھ یقین دہانیاں کراتی ہے جیسے جان کے تحفظ کی یقین دہانی، روٹی، کپڑا اور مکان کے تحفظ کی یقین دہانی وغیرہ۔ عوام ان یقین دہانیوں پر اعتماد کرکے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں لیکن طاقت ور طبقات کو اپنے دیئے ہوئے وسائل پر اللے تللے کرتے دیکھتے ہیں تو ان میں ایک خوف ناک احساس جنم لیتا ہے، یہی احساس ہے جس کے نتیجے میں عوام کا اپنے ملک پر ملکیت کا احساس کمزور ہوتے ہوئے بالآخر معدوم ہوجاتا ہے۔ طارق ہاشمی نے غیر تخلیقی ماحول کو مسائل کی بنیاد قرار دیا ہے۔ نسیم سید نے سماج میں مکالمے کی تہذیب سے ناواقفیت پر توجہ مرکوز کی ہے۔ حفیظ خان مایوسی، جب کہ آغا ندیم سحر مایوسی اور اس کے نتیجے میں خودکشی کو بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ حمزہ یعقوب نے سماجی بیگانگی کے نتیجے میں افراد کے باہمی بیگانہ پن کو بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے۔ افشاں نور نے تنہائی کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ ضیا المصطفیٰ ترک نے سماج میں فرد کے انہونی خوف کو بنیادی موضوع بنایا ہے۔ تنویر زمان نے منصوبہ بندی کے فقدان کو مسئلہ قرار دیا ہے اور صائمہ کاردار نے اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر زور دیا ہے۔ محمد علی سید نے عدالتی نظام کی کمزوریوں کو آشکار کیا ہے، جب کہ سید عون ساجد نے قانون شکن ذہنیت کو مسئلہ قرار دیا ہے۔ عثمان اعجاز اور منظور اعجاز نے کمزور معیشت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو بہت اہم مسئلہ لکھا ہے۔ فارینہ الماس نے مذہبی انتہا پسندی کے رویّے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یاسر اقبال مسالک میں بکھری ہوئی قوم کا المیہ بیان کرتے ہیں۔ فیاض ندیم اپنی نسلوں کی خودغرضانہ تربیت کا بڑوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تقی سید، حنا جمشید، صفیہ حیات، اصغر بشیر، محمد شعیب، نوید نسیم، پروین طاہر، عبداللہ اور قاسم یعقوب نے ہمارے بنیادی مسائل کو بہت سلجھے ہوئے اور آسان انداز میں بیان کیا ہے۔
نقاط کا یہ شمارہ ہمارے سماجی مسائل پر مباحثے کا دعوت نامہ ہے۔ شمارہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔
بہ شکریہ: فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
قال بعض البلغاء:
من تفرد بالعلم لم توحشه خلوة، ومن تسلى بالكتب لم تفته سلوة، ومن آنسه
قراءة القرآن لم توحشه مفارقة الاخوان.
وقالوا: لا سمير كالعلم
ولا ظهير كالحلم.
الماوردي
أدب الدنيا والدين
منقول
مالک بن دینار اور ان کے بھتیجے مالک بن حبیب نے کہ کدنکلور کی سکونت اختیار کی اور وہاں ایک مسجد بنائی ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مالک بن حبیب اپنی بیوی بچے اور مال و دولت ساتھ لے کر کولم کی جانب روانہ ہوا ۔ وہاں ایک مسجد تعمیر کی اپنے بیوی بچوں کو اس جگہ چھوڑ دیا ۔ یہاں سے پہلی مارا وی میں پہونچا۔ وہاں بھی ایک مسجد تعمیر کی ۔ یہاں سے نکل کر با کنور ، منجلور اور کنجرکوٹ تک سفر کیا۔ ان مقامات پر بھی مساجد بنا ئیں اس کے بعدہیلی ماراوی میں واپس آیا ۔ اس جگہ تین مہینے قیام کیا ،پھر شالیات، جرفتن اور در فتن کوچلا گیا ۔ وہاں بھی مسجدیں تعمیر کیں، کچھ روز ان شہروں میں سفر کرتا رہا۔ پھرکدن کلور میں واپس آیا ۔ اپنے چچا مالک بن دینار کو ساتھ لے کر ان مسجدوں کا معائنہ کیا۔ ہرمسجد میں نماز پڑھی ۔ پھر کدن گلور میں دونوں واپس چلے آئے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کہ دین اسلام نے ایسے ملک میں رواج پایا۔ کفر و ضلالت سے معمور تھا۔ پھر مالک بن دینار اور مالک بن حبیب کود نکلور سے نکلے۔ کہ دوستوں اور غلاموں کو ساتھ لے کر کولم کی جانب روانہ ہوئے ۔ اور اس شہر میں آکرسکونت اختیار کی ۔ ایک مدت گزرنے کے بعد مالک بن دنیا ر، مالک بن حبیب اور اُن کے بعض فیقوں نے شحر کی طرف کوچ کیا۔ وہاں پہونچ کر متوفی راجہ کے مزار کی زیارت کی۔ اس کے بعد مالک بن دینار خراسان کی جانب روانہ ہوئے اور اسی علاقہ میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ مالک بن حبیب ملیبار واپس آئے۔ کولم میں اپنے بعض لڑکوں کو چھوڑ دیا۔ بیوی کو ساتھ لے کر کدنکلور میں سکونت اختیار کی اور اسی جگہ ان کا اور ان کی بیوی کا انتقال ہوا ۔ یہ ہے سرگزشت ملیبار میں دین اسلام کے رواج پانے کی۔ اس واقعہ کی تاریخ کا معین کرنا ہمارے لیے دشوار ہے ۔ گمان غالب ہے کہ یہ واقعہ ہجرت نبوی کے دو سو سال بعد واقع ہوا ہے۔ لیکن مسلمانان ملیبار کے یہاں مشہور ہے کہ جس راجہ نے اسلام قبول کیا وہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاصر تھا، اور جب ایک رات کو چاند کا دوٹکڑے ہونا دیکھا تو مکہ کا سفراختیار کیا تا کہ نبی اکرم کی ملاقات سے بہرہ ور ہو۔ جب راجہ اور اس کے رفیق ملیبار سے نکلے اور شحر میں پہنچے تو اس جگہ راجہ کا انتقال ہو گیا۔ اس زمانہ میں مشہور ہے کہ یہ راجہ شحر میں نہیں بلکہ ظفار میں مدفون ہے اور اس جگہ اس کی قبر خاص و عام کی زیارت بنی ہوئی ہے اور یہاں کے باشند ے اس کو سامری کی قبر بیان کرتے ہیں ہے۔"(تحفۃ المجاہدین)"
ملبار کے راجہ کو زین الدین ملباری نے سامری لکھا ہے، یہ سمدری کی تحریف شدہ شکل ہے، سمدر samudrکے معنی سمندر کے ہے، اور یہ اسی نسبت سے ہے۔ راجہ سامری یا سامدری کی طرف منسوب قبر سلطنت عمان کے قصبے صلالہ میں پائی جاتی ہے، ہمیں اس کی زیارت کا موقعہ ملا ہے۔ ملباری حضرات یہاں خاص طور پر قافلوں میں زیارت کے لئے جاتے ہیں۔
مخدوم صاحب فقہ شافعی کے ایک مستند فقیہ اور مرجع ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اچھے مورخ بھی ہوں، مالک بن دینار کے سلسلے میں آپ نے جو روایت بیان کی ہے ، تاریخ سے اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے، مالک بن دینار تاریخ کی غیر معروف شخصیت نہیں ہے، ان کے تذکرے سے کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن یہ واقعہ ان کتابوں میں دستیاب نہیں۔ہندوستان میں لکھی گئی بعض کتابوں میں اس واقعہ کی اور بھی تفصیلات موجود ہیں ، جن میں تضادات بھی بہت ہیں۔ اس کا تذکرہ ان شاء اللہ آئندہ کسی تفصیلی بحث کے لئے چھوڑتے ہیں۔
ہندوستان کے جنوبی آخری کنارہ کنیا کماری کے پڑوس میں مسلمانوں کی قدیم تاریخی بستی ہے کایل پٹنم، سراندیپ یا سری لنکا کے بالمقابل ہونے کی وجہ سے یہ وہاں جانے والوں کے لئے اہم پڑاؤ ہوا کرتا تھا، یہاں مصر سے بھی قافلے آتے تھے، کہا جاتا ہے کہ اس کا نام قاہرہ کی طرف منسوب ہو کر قاہرہ فتن بنا تھا، یہ ایک مسلم اکثریتی قصبہ ہے، اور قدیم مسلم روایات کا حامل ۔ یہاں پر بھی مورخین صحابہ کی آمد کا تذکرہ کرتے ہیں، لیکن معاملہ علمی تحقیق کی کسوٹی پر اترتا نظر نہیں آتا۔ یہ قصبہ بھی ایسا ہے کہ اس کا بھی تذکرہ ہو، ہمارا یہاں جانا ہوا ہے ، اس پر کچھ لکھنے کا ارادہ سینے میں دبا ہوا ہے، بھٹکل میں یہاں کے ایک بزرگ کا مزار واقع ہے، جس کے سامنے حافظ منزل میں اس عاجز نے آنکھیں کھولی تھیں ۔
یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ زین الدین ملیباری نے مالک بن دینار سے منسوب جن مساجد کا تذکرہ کیا ہے، ان جگہوں پر آپ کی طرف منسوب یہ مساجد اب بھی پائی جاتی ہیں، لیکن ملبار کے پاس مسلمانان ہند کی رابطے کی زبان اردو نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں،ان میں سے کئی ایک مساجد کی زیارت کا اس ناچیز کو موقعہ ملا ہے، دیکھا جائے تو صرف کوژی کوڈ میں اتنی تاریخی مساجد ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ لیکن وہاں کوئی جاننے والے اور بتانے والا نہیں ملتے، اور جو بتانے والے ہیں وہ خوش عقیدہ ادھر ادھر کی غیر مصدقہ باتیں کہنےوالے۔
*بات سے بات: جنوبی ہند میں اسلام کے اولین نقوش*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*
آج علم وکتاب گروپ پر ملبار اور معبر میں صحابہ کرامؓ کی آمد، اور یہاں کے ایک راجہ کے واقعہ شق القمر کو دیکھ کر مسلمان ہونے کی مشہور روایت کا تذکرہ ہوا ہے۔
یہ بحث سنجیدگی اور تحمل کی متقاضی ہے، اس موضوع پر ہمارے پاس کافی علمی مواد موجود ہے، اور بڑے عرصے سے دل میں یہ خواہش دبی ہوئی ہے کہ اس سلسلے میں ایک سنجیدہ، علمی تحقیق پیش کی جائے۔ یہ کالم اس قسم کی طویل اور خشک بحث کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن احباب کی فرمائش ہے، جس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، اس مناسبت سے اشارۃ چند باتیں پیش خدمت کئے دیتے ہیں۔
تاریخ میں ملبار اس کے پڑوس میں واقع معبر کے علاقے کو جو اہمیت رہی ہے، آج ان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی ہے، لہذا ان علاقوں سے وابستہ بہت سی روایتیں آج کے دور میں بڑی عجیب سی لگتی ہیں، تاریخ میں ملبار کی اہمیت بتانے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ۱۴۹۸ء میں واسکوڈا گاما نے کالیکٹ (کوژی کوڈ ) کے کاپاٹ ساحل پر جب اپنا جہاز لنگر کیا تو تلاش ہند کے اس واقعہ کو انکشافات کی تاریخ میں بر اعظم امریکہ کی تلاش سے بھی عظیم تر دن قرار دیا گیا تھا، اور اسے یورپ کے سامراجی دور اور دنیا پر غلبہ کا نقطہ آغاز مانا گیا تھا۔ ایسی اہمیت کبھی سندھ اور گجرات کونہیں دی گئی۔اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد مسلمانوں کو سب سے بڑی مار یہیں پڑی تھی،اس کی مار اتنی گہری تھی کہ مغلوں اور عثمانیوں کی عظیم سلطنتیں بھی اس کا مداوا نہ کرسکیں،علاقے کی اس اہمیت کو مد نظر رکھ کر ہی یہاں پر پڑنے والی اسلام کی اولین کرنوں کا تجزیہ ہونا چاہئے۔
ملبار میں ایک بندرگاہ رہی ہے، جو اس وقت نامانوس سی ہے، لیکن اس کی اہمیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے تینوں مذاہب یہودیوں، عیسائیوں او رمسلمانوں کے لئے یکساں رہی ہے،آزادی کے بعد جوریاست کیرالا تشکیل پائی ہے وہ ملبار اور ٹراونکورکی ریاستوں پر مشتمل ہے ، تقسیم ہند کے وقت یہ الگ الگ ریاستیں تھیں ، لیکن قدیم زمانے میں یہ آج کے کیرالا کے علاقے پر محیط تھی، اس کے حاکم خاندان چیرا (کیرا ) کی نسبت سے اس نو تشکیل شدہ ریاست کا نام کیرالا رکھا گیا ہے، ملبار اس ریاست کا شمالی حصہ ہے جس میں کوژیکود ، ملپورم وغیرہ مسلمانوں کی کثیرآبادی والے علاقے آتےہیں۔اس بندرگاہ کا نام ہے کوڈنگلور Kodungallur ۔ یہ بندرگاہ چیرا سلطنت کا صدرمقام ہوا کرتی تھی، حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے یہاں پر بحری آمد ورفت کا سراغ ملتا ہے، ایک قدیم روایت کے مطابق ایران کے بادشاہ کیخسرو نے جب یہودیوں کو ایران سے ملک بدر کردیا تھا تواسی بندرگاہ کے راستے وہ کوچین میں آکر آباد ہوئے تھے، اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۳۶۹ء عیسوی میں یہودیوں کا ایک گروہ جو سات ہزار افراد پر مشتمل تھا اندلس کے جزیرہ میورقہ سے آکر یہاں آباد ہوا تھا۔ کوچین میں اب بھی یہودی آبادی اور ان کی عبادت گاہیں اور اوقاف پائے جاتے ہیں۔
مورخین کے مطابق چودھویں صدی عیسوی سے قبل ہندوستان میں کیتھولک عیسائی فرقہ کا وجود نہیں تھا، یہاں پر سیرین چرچ کے ماننے والے یعقوبی عیسائی آباد تھے، یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری سینتٹ تھامس کو مانتے ہیں، جن کا مزار میلاپور (چنئی ) میں منسوب ہے۔ ان کے بھی اسی بندرگاہ سے ہندوستان آنے کی بات کی جاتی ہے۔ چنئی کے قصبے میلاپور میں واقع ایک مزار کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ان حواری مسیح کا ہے۔ سیرین چرچ کو ماننے والے یعقوبی عیسائیوں کے گرجا گھر اب بھی جنوبی ہند میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں، عربی زبان میں سینٹ تھامس کو مار توما کہا جاتا ہے، شامی عیسائی اور مارونی فرقے کے لوگ انہیں مانتے ہیں۔ لہذا ملبار میں عہد صحابہ وتابعین میں اسلام کے داخل ہونے کی جو بات کی جاتی ہے، قرائن وشواہد سے ان کا مکمل انکار ممکن نہیں۔ البتہ نام لے کر چنئی کے ساحل کولم میں تمیم الداری کی قبر، اور کائل پٹم میں پانچ صحابہ کی آمد کی بات کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی شواہدناکافی ہیں۔
انور جلال پوری(وفات ۲ جنوری ۲۰۱۸ء) تحریر: حفیظ نعمانی
Читать полностью…سورہ تکویر۔۔۔ تلاوت: عادل حمید صبری https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=takwir, Takwir
Читать полностью…جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( ۷)گاؤں کے تیل سے حیرت انگیز علاج
تحریر: ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم
یہ ۱۹۴۷ کی بات ہے۔ میرے بائیں قدم کے ٹخنے پر ایک چھوٹا سا پھوڑا نکلا، دو چار دن میں یہ بڑھ کر ایک چھوٹی سی طشتری کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کی گیرائی اس زمانے کے روپے کے برابر تھی۔ قصبے کے سب سے بڑے اور مشہور (ڈاکٹر (ڈاکٹر عبد اللہ کا علاج شروع ہوا، چار پانچ دن وہ مرہم پٹی کرتے رہے، لیکن ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں ہوا، میں نے ان کا علاج چھوڑ دیا اور ہمارے یہاں کے میونی سپیشل ہسپتال میں علاج شروع ہوا۔ یہ ہسپتال مدرسہ کے راستے میں پڑتا تھا۔ میں مدرسہ جانے کے لیے تقریبا آدھے گھنٹے پہلے نکل جاتا، اور ہسپتال میں مرہم پٹی کراکر مدرسہ چلا جاتا، یہ علاج ایک ماہ جاری رہا۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، ان دو ڈاکٹروں کے علاج کے بعد بھی پھوڑا اپنی پرانی حالت پر ہی رہا۔
میں اب مایوس ہو چکا تھا۔ لوگ مختلف تجویزیں دے رہے تھے ، جتنے منہ اتنی باتیں۔ ان دنوں ہمارے قصبے میں اطراف واکناف کے قریوں سے وہاں کے لوگ اپنے اپنے گاوں کی چیزیں فروخت کرنے کے لیے آیا کرتے تھے، ان میں سے ایک شخص صرف سوموار کو آیا کرتا تھا، وہ صدا لگاتا کٹڑ کا توڑ ینی" یعنی کڑکا توڑ کا تیل۔ شاید اس کے گاوں کا نام کڑکا توڑ تھا، اس کے ہاتھ میں تیل کا ایک چھوٹا سا شیشہ ہو تا تھا۔ میں نے اس کے تیل کو try کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلہ کے بعد والے سوموار کو میں اس شخص کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا، جب اس کی صدا سنائی دی تو میں بہت خوش ہوا، تھوڑی دیر بعد جب وہ میرے گھر کے سامنے سے گزرنے لگا، تو میں نے اسے بلایا۔ میں نے اسے اپنا پھوڑا دکھایا اور پوچھا کہ کیا تمہارے تیل سے اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے اس سے ایک آنے کا تیل خریدا۔ اس زمانے میں روپے کے سولہ آنے ہوتے تھے۔ میری چھوٹی سی شیشی میں اس نے تھوڑا سا تیل ڈال دیا۔ میں نے اس سے اس کا طریقہ پوچھا، اس نے کہا: تھوڑی سی روٹی کو تیل میں بھگو کر زخم پر رکھ دیں، اور اس پر پٹی باندھ لیں۔ میں نے گھر جاکر فورا علاج شروع کر دیا۔ دوسرے دن مرہم پٹی کا جب وقت آیا تو میں بیم در جاکے عالم میں تھا۔ اگر زخم کی حالت میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئے تو بڑی مایوسی ہو گی۔ کچھ دیر اسی تذبذب میں بیٹھا رہا، پھر ہمت کر کے پٹی کھولی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کا ثبوت میرے سامنے تھا۔ میں نے دیکھا کہ زخم مرجھا گیا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ دوبارہ مرہم پٹی کی۔ دوسرے دن جب پٹی کھلی تو زخم تقریبا مندمل ہو چکا تھا۔ تیسرے دن زخم بالکل بند ہو چکا تھا۔ میں نے احتیاطا علاج کچھ اور دن جاری رکھا۔ زخم کا نشان آج بھی میرے ٹخنے پر نظر آتا ہے۔
/channel/ilmokitab
مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی(وفات یکم جنوری ۲۰۰۵ء)۔۔ تحریر مولانا امین الدین شجاع الدین مرحوم
Читать полностью…*سچی باتیں (۳۰؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ انسانوں کی شقی القلبی*
*تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*
لکھنؤ اور جے پور، کلکتہ اور بمبئی کے زندہ عجائب خانے آپ نے دیکھے ہوں گے۔ شیر اور چیتے، لکڑ بگھّے اور تیندوے، ریچھ اور گینڈے، کیسے کیسے شریر اور مہیب وحشی جانور ان میں پَلے ہوئے۔ خادم اورمحافظ، بیسیوں کی تعداد میں موجود۔ اونچی اونچی تنخواہیں اور بیش قرار مشاہرے۔ خوداِن جانوروں کی خوراک اور سکونت کے انتظام میں ہزارہا ہزار روپیہ ہر سال بلا دریغ اُٹھ رہے ہیں۔ یورپ کے چڑیا گھر اُن سے بھی اعلیٰ پیمانہ پر۔ ایک ولایتی اخبار نے لکھاہے، کہ ان جانوروں زندہ پکڑ لانا کوئی ارزاں سودا نہیں، ہزارہا کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ ایک ایک جانور کی خرید میں کئی کئی ہزار اُٹھ جاتے ہیں۔ گینڈے اور اَرنے بھینسے کی قیمت، فی جانور، تین تین ہزار سے لے کر چھہ چھہ ہزار ڈالر۔ بعضے جانور صرف افریقہ ہی کے جنگلوں میں دستیاب ہوسکتے ہیں، اُن کا مول دس دس ہزار ڈالر سے بھی مہنگا! یورپ کے شہروں تک ان کے لانے کے مصارف، سب اسی اندازہ سے اوراسی پیمانہ پر۔
پر ادھر بھی کبھی آپ کا خیال گیاہے، کہ جس نظام تمدن نے آدم خورشیروں، اور خوں آشام بھیڑیوں، زہریلے سانپوں اور ہولناک اژدہوں کی پرورش وپرداخت ، راحت رسانی وخدمت گزری، ان شاہانہ اولوالعزمیوں کے ساتھ اپنے اوپر واجب کررکھی ہے، اُس کا معاملہ خود اپنے ہم جنس انسانوں اور اپنے مورثِ اعلیٰ آدمؑ کے بچوں کے ساتھ کیاہے؟ اس نظام تمدن کے سایہ میں غریبوں اور کنگالوں کا کہیں ٹھکانا ہے؟ کمزوروں اور ناطاقتوں کی عزت کا کوئی سہارا ہے؟ زیردستوں اور بیچاروں کے حقوق کی حفاظت کی کوئی صورت ہے؟ جوبے زر اور بے گھر ہیں، اُن کی رسائی لاٹ صاحب کی کوٹھی، اور بڑے صاحب کے بنگلے تک کسی طرح ممکن ہے؟ اور پھر جو قومیں محکوم ہیں،اُن کے حقوق کہیں بھی محفوظ ہیں؟……آپ کہیں گے کہ لیکن آخر محتاج خانے اور یتیم خانے بھی تو ہیں۔ دُرست۔ لیکن یہ ارشاد ہوا ، کہ وہاں تک بھی رسائی اُن کی کیونکر ہو، جو نہ وسیلے رکھتے ہیں نہ سفارشیں! سرکاروں درباروں کو چھوڑئیے، اِن غریبوں کی پہونچ تو چپراسیوں اور اردلیوں ، دربانوں اور جمعداروں تک بھی نہیں ہوپاتی۔ اور گرتے پڑتے، رینگتے گھِسلتے، کسی طرح پہونچے بھی، تو دھکّے دے کر نکالے گئے۔
کہتے ہیں کہ رومہ کا ایک شقی القلب وسنگدل فرماں روا نیرو ہوا ہے۔ سارے شہر میں آگ لگوادی، اور خود، گاتابجاتا، تماشہ دیکھتارہا۔ رعایا فاقے کرکرکے رہی، اور وہاں ابرِ کرم کی بارش گوئیوں اور سازندوں، بھانڈوں اور ڈھاریوں پر ہوتی رہی! نیروؔ کا نام سنگدلی میں ضرب المثل ہوگیا۔ لیکن جس نظام تمدن نے گھر گھر نیرو پیداکردئیے، جس نے ہمسایوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر شیروں اور تیندووں کا کھِلایا، نمک اور پانی تک پر ٹیکس باندھ باندھ کر، اژدہوں اور سانپوں کوپالا اور جِلایا، اُس کے حق میں آپ کی زبان ذرابھی نہیں کھلتی؟ اور اُس کی بھَٹّی میں ایندھن بننے کے لئے آپ اپنے مال اور اپنی اولاد کو بے اختیار جھونکے چلے جاتے ہیں!
https://bhatkallys.com/articles/?author=abdul-majid-daryabadi
شیخ الحدیث مولانا عبد الح اعظمیؒ(وفات ۳۰ دسمبر ۲۰۱۶ء) تحریر مولانا مفتی محمد شاکر قاسمی
Читать полностью…أجلس "يوليوس قيصر" واحدًا من أطفاله في حجره، فتبوّل الطفل على ملابسه، فانزعج رجال الحاشية، فضحك قائلاً: اتركوه.. معه حقّ، فأنا أحكم العالم وأمّه تحكمني، وهو يحكم أمّه، فليفعل ما يشاء ما دمتُ هكذا ضعيفًا!
Читать полностью…تلاوت سورہ النازعات
آواز: قاری عادل حمید صبری یمنی
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=al-naziat, Al Naziat
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر؟۔۔۔ تحریر: احمد حاطب صدیقی*
بہت دنوں کے بعد بہت دلچسپ سوال موصول ہوا ہے:
’’عالی جناب! نیشِ اقرب کے کیا معنی ہیں؟ میں نے بعض جگہ اس کا املا ’نیشِ عقرب‘ بھی لکھا دیکھا ہے۔ مگر مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی ’زرگزشت‘ میں اپنے بینک کے ساتھی خان سیف الملوک خان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ’’نیشِ اقرب سے بلبلا اُٹھتے‘‘۔ یہ بھی بتا دیجیے کہ دونوں میں سے درست املا کون سا ہے؟‘‘ (ساجد حسن۔ ساہیوال)
غالباً پچھلے برس اپنے کسی کالم میں یوسفی صاحب کا یہ فقرہ ہم نے سیاق و سباق کے ساتھ مکمل نقل کیا ہے۔ وہاں بھی شاید یہی بتایا تھا کہ ’نیشِ اقرب‘ کی ترکیب مشتاق احمد یوسفی مرحوم کے کرتب و کمالات کی تخلیق ہے۔ معروف ترکیب ’نیشِ عقرب‘ ہی ہے۔ یوسفی صاحب نے اسی ترکیب میں تحریف کرکے مزاح پیدا کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ یوسفی صاحب اس ضمن میں مزید فرماتے ہیں کہ
’’دشمنوں کے، حسبِ عداوت، تین درجے ہیں۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار‘‘۔
’نیش‘ فارسی میں ڈنک کو کہتے ہیں۔ مجازاً کسی دھار دار آلے کی نوک کو بھی ’نیش‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ نوک دار اوزار کو، جس سے زخم کھولتے یا فصد لگاتے ہیں ’نیشتر‘ (نیش تر)کہا کرتے ہیں۔ نیشتر ہی تخفیف کے بعد نشتر ہوگیا ہے۔ غالبؔ نے نگاہِ ناز کے نشتر سے آشنائی کی تو اس کی وکالت بھی کی۔ فرماتے ہیں:
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اُتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے
اصلاً بچھو، سانپ یا بھڑ کا ڈنک نیش کہلاتا ہے۔ بھڑ کو زنبور یا زنبوری بھی کہتے ہیں۔ پنجابی زبان میں’زنبوری‘ ہی تبدیل شدہ تلفظ کے ساتھ ’دھموڑی‘ ہوگیا ہے۔ شاید اس تلفظ کی وجہ یہ بھی ہو کہ ’دھموڑی‘ ڈنک مار دے تو ڈنک کھانے والا بلبلا کر دھما دھم کودنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اُس اوزار کو بھی زنبور کہتے ہیں جس کا کسی چیز کو پکڑنے والا منہ آگے سے گول ہوتا ہے، سنسی کی طرح۔ ‘Pliers’کو اگرچہ اُردو نے اپناکر ’پلاس‘ بنا لیا ہے، مگر اس کے لیے بھی ’زنبور‘ کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ نیش یعنی ڈنک کی شکل بھی زنبور کی سی ہوتی ہے۔ فارسی میں شہد کی مکھی کو بھی زنبور ہی کہتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کے چھتے کو ’زنبور خانہ‘۔ شاید کسی شہد کی مکھی کا ڈنک چکھ کر ناسخؔ بدک گئے تھے:
ترکِ لذت کر دِلا پہنچے نہ تا تجھ کو گزند
نوش تو پیچھے ہے پہلے نیش ہے زنبور کا
’نوش‘ کی ضد کے طور پربھی ’نیش‘ کو استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میرؔ نے فرمایا:
دیکھا یہ نا و نوش کہ نیشِ فراق سے
سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا
گویا کھانا پینا ’نوش‘ ہے توکھایا پیا نکلوا لینے کے لیے ’نیش‘ ہے۔ ’نیش زنی‘ اصل میں تو ’ڈنک مارنا‘ ہے، مگر مجازاً کسی کو کچوکے لگانے، طنز کرنے یا طعنے مارنے کو بھی ’نیش زنی‘ کہا جاتا ہے۔
’عقرب‘ بچھوکا عربی نام ہے۔ فارسی میں کژدُم کہلاتا ہے۔ عقرب کی جمع ’عقارب‘ ہے۔ فارسی ہی کی ایک مشہور ضرب المثل ہے:
نیشِ عقرب نہ از پئے کین است
مقتضائے طبیعتش این است
’’بچھو کا ڈنک مارنا کینے یا دشمنی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس کی طبیعت کا تقاضا یہی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ڈنک مارنا بچھو کی فطرت میں داخل ہے۔ دوست، دشمن جس سے بھی سابقہ پڑے گا اُس کو وہ ڈنک ہی مارے گا۔ جو لوگ اردو پر ’عربی زدگی‘ کی نیش زنی کرتے ہیں، وہ ذرا اوپر کا فارسی شعر بھی دیکھ لیں۔ دو مصرعوں میں تین عربی الفاظ استعمال ہوئے ہیں: عقرب، مقتضا اور طبیعت۔ سانپوں اور بچھوؤں کی طرح آدمی بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ بقول مولانا حالیؔ:
جانور، آدمی، فرشتہ، خدا
آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں
اس سیکڑے میں شامل ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے، جس کی فطرت میں شرارت ہی شرارت بھری ہوتی ہے۔ یہ پیدائشی شریرالنفس ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت ہی ڈنک مارتی ہے۔ یہ لوگ بزرگ دیکھتے ہیں نہ بچہ۔ نکوکار کی تمیز کرتے ہیں نہ بدکار کی۔ اُن کو بھی ڈنک مار جاتے ہیں جو اُن سے دوستی رکھتے ہیں، اور اُن کو بھی جو اُن سے کسی قسم کی کوئی دشمنی رکھتے ہیں نہ گمان کرسکتے ہیں کہ یہ حضرت کبھی دشمن کا کردار ادا کریں گے۔ ایسے ہی آدمیوں پر یہ ضرب المثل صادق آتی ہے ’’نیشِ عقرب نہ از پئے کین است، مقتضائے طبیعتش این است‘‘۔
’اقرب‘ کا لفظ قرب سے نکلا ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’ق ر ب‘ سے بننے والے بہت سے الفاظ اُردو بولنے اور اُردو لکھنے والوں کے لیے مانوس ہیں۔ قرب کا مطلب ہے نزدیکی، کسی کے پاس ہونا۔ ’قریب قریب‘ کے علاقوں کو ’قرب و جوار‘ کہتے ہیں۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’قربت‘ بنا ہے۔ قریب ہوجانے کو ’قرابت‘ کہتے ہیں۔ اِس کا مفہوم تعلق اور رشتے داری بھی لیا جاتا ہے۔ قریب ترین فرد یا رشتے دار کو ’اقرب‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع اقربا ہے۔ عموماً قاتل نامعلوم ہوتے ہیں مگر کسی مقتول نامعلوم شاعر کو اپنے اقربا کی فکرکھائے جاتی تھی:
وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر؟
تعارف کتاب: نبی ﷺ ہمارے (منظوم سیرتِ پاک ﷺ بچوں کے لیے)
- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : نبی صاله ای سالم ہمارے
( منظوم سیرت پاک سل می بینم بچوں کے لیے)
مصنف : گوہر اعظمی
صفحات : 220 قیمت: 500 روپے
ناشر : جہانِ حمد پبلی کیشنز کراچی
رابطہ : 03212664586
اردو زبان کا دامن نگارشاتِ سیرت سے نہ صرف یہ کہ باثروت ہے بلکہ عربی زبان کے بعد اردو زبان ہی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیرتِ طیبہﷺ پر سب سے زیادہ کتابیں، مضامین و مقالات اسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ عالمانہ، تاریخی اور تحقیقی کتابوں کے علاوہ سیرت ِنبی کریم ﷺ کو قصے کے انداز میں یعنی ادیبانہ اسلوب میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح منظوم کتبِ سیرت بھی اردو سیرت نگاری کا ایک اہم حصہ ہیں۔
پیش ِ نظر کتاب ”نبی ﷺ ہمارے“ بالخصوص بچوں کے لیے سیرتِ طیبہ ﷺ پر لکھی گئی منظوم کتاب ہے،جس میں آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے تقریباً تمام اہم واقعات کو 80 سے زائد عنوانات کے تحت نظم کیا گیا ہے۔ اس میں دنیا کے حالات و مذاہب کی کیفیت، چاہ ِ زم زم کی تلاش اور کھدائی، واقعہ اصحابِ فیل، آپ ﷺ کی ولادت باسعادت، پرورش، سفرِ شام، حربِ فجار اور حلف الفضول میں شرکت، تجارت،شادی، تجدیدِ تعمیر کعبہ، اعلانِ نبوت، مخالفتِ قریش، ہجرتِ حبشہ، سوشل بائیکاٹ، عام الحزن، سفرِ طائف، اسراء و معراج، ہجرتِ مدینہ، مسجدِ نبوی کی تعمیر، مواخات، میثاقِ مدینہ، اذنِ جہاد، زکوٰۃ اور رمضان کے روزوں کی فرضیت، تحویلِ کعبہ، غزوات و سرایا، صلحِ حدیبیہ، فتحِ مکہ، حجۃ الوداع، اخلاقِ نبوی اور بچوں پر شفقت وغیرہ شامل ہیں۔ آخر میں بچوں کے لیے ایک نثری تحریر بھی ہے جس میں قرآن، سنت اور حدیث کی اہمیت و ضرورت پراختصار کے ساتھ عام فہم انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چند منتخب احادیثِ نبویہ کا منظوم ترجمہ بھی شامل ہے۔علاوہ ازیں بعض مقامات پر نمبر لگا کر حاشیے میں ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں جس سے اس نظم میں بیان کردہ واقعے کو سمجھنا مزید آسان ہوجاتا ہے۔
کتاب کا نام صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی ایک نعت ”نبی ﷺ ہمارے“ سے لیا گیا ہے، اور کتاب کی ابتدا میں حمد ِ باری تعالیٰ کے بعد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی وہ نعت بھی شاملِ کتاب ہے۔
بچوں کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کرانے کی یہ ایک عمدہ کاوش ہے۔اس کی بدولت بچوں کے لیے نظم کی صورت میں حیاتِ طیبہ ﷺ کے اہم واقعات کو سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہوگا۔ چونکہ یہ کتاب بطورِ خاص بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لہٰذا اس کے اسلوب اور الفاظ کے چنائو پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی مقصدِ بعثت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔جیسا کہ پہلی نظم ”اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر“ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد صاحبِ کتاب لکھتے ہیں:
پیارے بچو! کس طرح اس کی عبادت ہم کریں
نعمتیں جو اس نے دی ہیں کیسے ان کا دم بھریں
یہ بھی خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ہمیں
اور خود اس کا طریقہ بھی سکھایا ہے ہمیں
یہ بتانے کے لیے بھیجے نبی اس نے کئی
اپنے پیغامات سے دِ یں کی انھیں تعلیم دی
حضرت ِ آدم ہیں رب کے اولیں پیغام بر
آخری حضرت محمد ﷺ سیدی، خیر البشر
سیرت کے کسی ایک واقعے کو بیان کرنے کے بعد آخری اشعار میں بچوں کے لیے اخلاقی و اصلاحی پیغام بھی دیا گیا ہے، جیسا کہ واقعہ اصحاب ِفیل کو بیان کرنے کے بعد آخری اشعار میں صاحبِ کتاب لکھتے ہیں:
ہاتھیوں والوں کا عبرت ناک ہے یہ واقعہ
اور عام الفیل کی اس سے ہوئی ابتدا
پیارے بچو! ہر برائی کابراا نجام ہے
بالمقابل حق کے باطل تو سدا ناکام ہے
اس کتاب کے مصنف بزرگ شاعر اور ادیب محترم انصار الحق قریشی (پ: 1937ء)ہیں جو علمی حلقوں میں گوہر ؔاعظمی کے قلمی نام سے معروف ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے آپ انجینئر ہیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل سروسز کے عہدے پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔علاوہ ازیں آپ نے حکومتِ سندھ کی اجازت سے بحیثیت فنی مشیر(1972ء تا 2015ء) کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں میں بہت سی کثیر المنزلہ عمارتوں، کارخانوں، فلیٹوں اور بنگلوں کے اسٹرکچر بھی ڈیزائن کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آپ علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ تقدیسی ادب اور ادبِ اطفال سے آپ کو خاص دلچسپی ہے۔ اس حوالے سے آپ کی تاحال 22 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمر میں برکتیں عطا فرمائے اور توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
مسئلہ حاضر وناظر
کلام وآواز: مولانا محمد ضیاء القاسمی مرحوم
(وفات : ۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء )
آج سے (۶۵ ) سال قبل حضور اکرمﷺ کے حاضر وناظر ہونے کے مسئلہ پر دوران خطاب بیان کردہ پیروڈی۔
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=perodi-hazir-nazir, Perodi Hazir Nazir
مولانا ابو العرفان ندوی(وفات ۲۸ دسمبر ۱۹۸۸ء)۔۔۔ تحریر مولانا مجیب اللہ ندوی
Читать полностью…