علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
جب حضور آئے ( ۳۰) محسنِ انسانیتﷺ۔۔۔۔۔ نعیم صدیقی
محسنِ انسانیتﷺ کا ظہور ایسے حالات میں ہوا جب کہ پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کہیں دور وحشت چل رہا تھا اور کہیں شرک اور بت پرستی کی لعنتوں نے مدنیت کا ستیا ناس کر رکھا تھا۔ مصر اور ہندوستان، بابل اور نینوا، یونان اور چین میں تہذیب اپنی شمعیں گل کر چکی تھی۔ لے دے کے فارس اور روم تمدنی عظمت کے پھریرے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ رومی اور ایرانی تمدنوں کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی مگر ان شیش محلوں کے اندر بد ترین مظالم کا دور دورہ تھا اور زندگی کے زخموں سے تعفن اُٹھ رہا تھا۔ بادشاہ خدا کے اوتار ہی نہیں، خدا بنے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاگیر دار طبقوں اور مذہبی عناصر کی ملی بھگت قائم تھی۔ روم اور ایران کے دونوں خطوں میں اس تگڑم نے عام انسان کا گلا اچھی طرح دبوچ رکھا تھا۔ یہ لوگ ان سے بھاری ٹیکس، رشوتیں، خراج اور نذرانے وصول کرتے تھے اور ان سے جانوروں کی طرح بیگاریں لیتے تھے لیکن ان کے مسائل سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی، ان کی مصیبتوں میں ان سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور ان کی گھتیوں کا کوئی حل ان کے پاس نہ تھا۔ ان بالادست طبقوں کی عیاشیوں اور نفس پرستیوں نے اخلاقی رُوح کو ہلاک کر دیا تھا۔ بادشاہوں کے ادل بدل، نت نئے فاتحین کے ظہور اور خون ریز جنگوں کی وجہ سے حالات میں جو تموج پیدا ہوتا تھا، اس میں بھی کوئی راہ نجات عام آدمی کے لیے نہ نکلتی تھی۔ عام آدمی کو ہر تبدیلی کی چکی اور زیادہ تیزی سے پیستی تھی۔ ہر قوت اسی کو آلہ کار بنا کر اور اسی کا خون صرف کر کے اور اسی کی محنتوں سے استفادہ کر کے اپنا جھنڈا بلند کرتی تھیں اور پھر غلبہ و اقتدار پانے کے بعد وہ پہلوں سے بھی بڑھ چڑھ کر ظالم ثابت ہوتی تھی۔ خود روم و ایران کے درمیان مسلسل آویزش کا چکر چلتا تھا اور مختلف علاقے کبھی ایک حکومت کے قبضے میں جاتے اور کبھی دوسری سلطنت ان کو نگل لیتی لیکن ہر بار فاتح قوت عوام کے کسی کسی طبقے کو خوب اچھی طرح پامال کرتی۔ مثلاً رومی حکومت آتی تو آتش کدے کلیسائوں میں جاتے اور ایرانی راج چھا جاتا تو پھر کلیسا آتش کدے بن جاتے۔ پھر دُنیا کے اکثر حصوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ نت ٹکرائو ہوتے، بار بار کشت و خون ہوتے، بغاوتیں اُٹھتیں، مذہبی فرقے خون ریزیاں کرتے اور ان ہنگاموں کے درمیان انسان بہ حیثیت انسانی بری طرح پامال ہو رہا تھا۔ وہ انتہائی مشقتیں کر کے بھی زندگی کی ادنیٰ ضرورتیں پوری کرنے پر قادر نہ تھا۔ اسے مظالم کے کولہو میں پیلا جاتا تھا مگر تشدد کی خوف ناک فضا میں وہ صدائے احتجاج بلند نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تلخ احساسات رکھتا ہوگا مگر اسے ضمیر کی آزادی کسی ادنیٰ درجے میں حاصل نہ تھی۔ اس کی مایوسیوں اور نامرادیوں کا، آج ہم مشکل ہی سے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ ماحول کے ایک ایسے آہنی قفس میں بند تھا جس میں کوئی روزن کسی طرف نہیں کھلتا تھا۔ اس کے سامنے کسی اُمید افزا اعتقاد اور کسی فلسفے یا نظریے کا جگنو تک نہیں چمکتا تھا۔ اس کی رُوح چیختی تھی مگر پُکار کا کوئی جواب کسی طرف سے نہ ملتا تھا۔ کوئی مذہب اس کی دستگیری کے لیے موجود نہ تھا، کیونکہ انبیا کی تعلیمات، تحریف و تاویل کے غبار میں گم کی جاچکی تھیں اور باقی جو شے مذہب کے عنوان سے پائی جاتی تھی، اسے مذہبی طبقوں نے متاع کاروبار بنا لیا تھا اور اُنھوں نے وقت کی ظالم طاقتوں کے ساتھ سودے گانٹھ لیے تھے۔ یونان کا فلسفہ سکتے میں تھا، کنفیوشس اور مانی کی تعلیم دم بخود تھی، ویدانت اور بدھ مت کے تصورات اور منوشاستر کے نکات سربگریباں تھے، جسٹینن کا ضابطہ اور سولن کا قانون بے بس تھا۔ کسی طرف کوئی روشنی نہ تھی۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان حالات کے ایک آہنی قفس میں بند ہو جاتا ہے اور اسے کسی طرح سے نجات کا راستہ دکھائی نہیں دیتا تو تمدنی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ خوف ناک ترین بحران کا ایک عالم گیر دور تھا، جس کی اندھیاریوں میں محسنِ انسانیتﷺ کی مشعل آ اُبھرتی ہے اور وقت کے تمدنی، بحران کی تاریکیوں کا سینہ چیر کر ہر طرف اُجالا پھیلا دیتی ہے۔
*حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی(۲۸ دسمبر ۱۹۶۷ء)*
*حریر: مولانا قاضی اطہر مبارکپوری*
حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتح پوری کے ماتم میں قلم کی دیدہ تر ی ابھی تک ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت علامہ جامع المعقول والمنقول مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی مدرس اعلی دارالعلوم دیو بند کا ماتم کرنا پڑ گیا، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب ۲۵ / رمضان المبارک ۱۳۸۷ھ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۷ء پنج شنبہ کو فالج کے مرض میں فوت ہوئے ۔ رَحِمُهُ اللَّهُ رَحْمَةً وَاسِعَةً
اگر اپنے اپنے زمانہ میں ہندوستان کے علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی اور علامہ محمود جون پوری (جن کا مولد بھیر اضلع اعظم گڑھ تھا) پورے عالم اسلام میں علوم عقلیہ کے بلا اختلاف سب سے بڑے امام تھے تو بلا شبہ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اپنے زمانہ میں اسی حیثیت کے مالک تھے، ان کے بعد ہندوستان میں غزالی، رازی، جوینی و ماتریدی، اور اشعری کے علوم وفنون کا سمجھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
حضرت مولا نا محمد ابراہیم صاحب دارالعلوم دیو بند کی بزم علم وفن کی آبرو تھے، اور ان کی ذات پر جامعیت ختم تھی، ان کے حلقہ درس میں ہندوستان سے لے کر سمر قند و بخارا تک کے طالبان علم وفن یکساں فیض یاب ہوئے اور تقریبا نصف صدی تک ان کی نظر سے ہزاروں اہلِ علم کیمیا گر بن گئے، علوم دینیہ، فقہ، حدیث ، تفسیر میں مہارت تامہ رکھتے ہوئے منطق ، فلسفہ، ریاضی، ہیئت، اور علم کلام میں عبقریت کے مالک تھے، اب تو ہماری درس گاہوں میں توضیح تلویح، شرح
مطالع ، الافق المبین، ملاجلال، میر زاہد، مسامرہ، خیالی قطبی ،اقلیدس سبع شداد، شرح چغمینی ، تصریح، صدرا شمس بازغہ کے نام تک سننے میں نہیں آتے ،مگر حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب کے دم سے یہ کتابیں ان کی بزم تدریس کی زینت تھیں، در آں حالاں کہ جس شان سے مولانا ان کتابوں کو پڑھاتے تھے اور اپنے درس میں میر باقر داماد اور طوسی نہیں بوعلی سینا، ابونصر فارابی بل کہ افلاطون اور ارسطو سے ٹکراتے تھے، اسی شان سے احادیث رسول کا درس دیتے ،صحیح مسلم شریف ، اور جامع ترمذی شریف کا درس تو کہنا چاہیے کہ ان ہی کا حصہ تھا۔ دار العلوم دیو بند کے اساتذہ و شیوخ کی خصوصیت خاصہ روحانی نسبت ہے، اس میں بھی مولانا مرحوم اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے، آج مولا نا دنیا میں نہیں رہے، مگر کئی ہزار کی تعداد میں ان کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ دنیائے اسلام میں اپنے شیخ کی علمی ودینی وراثت تقسیم کر رہے ہیں ،ساتھ ہی مولانا مصنف بھی تھے سلم کی شرح چھپ چکی ہے، ترمذی شریف کی نہایت جامع شرح عربی زبان میں کئی جلدوں میں لکھی ہے، جس سے ان کے علم حدیث رسول میں تبجر اور مہارت و بلوغت کا پتہ چلتا ہے۔
برصغیر ہند و پاکستان کا علمی دینی نقصان بڑا سانحہ عظیم ہے، اللہ تعالی حضرت مولانا کوان کی دینی و علمی خدمات کی بہترین جزا دے اور جنت الفردوس کے غرفہ میں وہ خوش ہوں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ ہمیں نعم البدل دے۔ (البلاغ جنوری ۱۹۷۹ء)
/channel/ilmokitab
جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( ۵) میرے ایک امریکی شاگرد
تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم
یہ کچھ چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں ان دنوں جامعہ اسلامیہ میں شعبۃ اللغۃ کا director تھا، برٹش گیانا کا ایک نیا طالب علم انٹر ویو کے لیے میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے کہا: ما اسمك ؟(یعنی تمہارا نام کیا ہے؟) ۔ یہ سن کر اس نے اپنے ساتھی سے کہا: ?What is this guy saying ( یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟) اس کو عربی کا ایک لفظ بھی معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ اس کا داخلہ Arabic Language Programme میں ہو گیا۔ اس پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد اس کی عربی اتنی اچھی تھی کہ اس نے Faculty of Arabic میں داخلہ لیا۔ جامعہ اسلامیہ سے .B.A کرنے کے بعد اس نے Manchester University سے M. Phil اور Ph.D کی ڈگریاں حاصل کیں۔
اس کے بعد وہ امریکا گیا اور فورا ہی اسے امریکی شہریت مل گئی۔ فلوریڈا کے شہر Fort Lauderdale میں مسلمانوں کی قائم کردہ ایک High School ہے۔ میرے شاگر د اس اسکول کے پرنسپل بن گئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ اس اسکول میں عربی پڑھائی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مدرسہ کے عربی اور اسلامی مضامین کے consultant کے سامنے تجویز رکھی۔ ان کا تعلق شام سے تھا، انہوں نے تجویز کو پسند کیا اور درسی کتاب کے بارے میں ان سے مشورہ کیا۔ میرے شاگرد نے جن کا نام ڈاکٹر کیم کمال الدین ہے ان کو بتایا کہ جب جامعہ اسلامیہ میں میرا داخلہ ہوا اس وقت عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا تھا۔ عربی کی جو بھی قابلیت میرے اندر ہے اس کا سہر اجامعہ کے Arabic Language Programme کے سر ہے۔ جس کتاب کے ذریعہ میں نے عربی سیکھی اس کا نام ہے "دروس اللغة العربية"۔ اس کے تین حصے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ یہی کتاب ہمارے مدرسے میں پڑھائی جائے۔ یہ کہہ کر انہوں نے کتاب کا ایک نسخہ ان کو پیش کیا۔ دوسرے دن جب کمال الدین صاحب ان سے ملنے گئے ، ان کو بہت خوش پایا، انہوں نے کتاب کی بہت تعریف کی اور اس کو مدرسہ میں پڑھانے کی پر زور تائید بھی کی۔
جب کمال الدین صاحب جانے لگے تو consultant صاحب کتاب کے مولف کے بارے میں پوچھنے لگے، کہا کہ ان کا کچھ عجیب سا نام ہے، وہ ہیں کہاں کے ؟ جب کمال الدین نے بتایا کہ وہ ہندوستان کے ہیں، ان کا موڈ فورا بدل گیا، انہوں نے سخت لہجے میں کہا: ہمارے یہاں کسی ہندوستانی کی لکھی ہوئی عربی کتاب نہیں پڑھائی جائے گی۔ کمال الدین نے سمجھا کہ اس tension بھرے ماحول میں اس موضوع پر مزید بات کرنا مناسب نہیں، چنانچہ وہ خاموش ہو گئے اور چند ہی دنوں میں شامی استاذ نے "دروس اللغة العربیة" پڑھانے کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد ایک اہم مرحلہ باقی تھا، وہ یہ تھا کہ اس کتاب کے تین حصوں کو امریکی اسکول سلبس کے مطابق آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کام کے لیے کمال الدین صاحب نے ۲۰۰۱ء میں مجھے ان کے یہاں آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ میں وہاں تقریبا دو ماہ رہا اور کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مدرسہ والوں نے کتاب کو اس نئی ترتیب میں شائع کرنے کا کام Goodword Books کو سونپا جہاں سے اس کتاب کے سات حصے Madinah Arabic Reader کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
جب مدرسہ کے سلیبس میں کسی نئے مضمون کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ منظوری Department of Education سے لی جاتی ہے۔
امریکہ میں ہر چیز نجی ہوتی ہے۔ وہاں سلبس کی منظوری کے لیے بھی ایک نجی کمپنی ہے جو Accrediton Committee کہلاتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر کمال الدین صاحب نے اس کمیٹی کو درخواست دے دی۔ کمال الدین صاحب نے بتایا کہ کمیٹی کا طریقہ کار یہ ہے کہ ان کے ماہرین تعلیم جس مضمون کی منظوری درکار ہے اس کے نصاب تیار کرنے والے سے discuss کرتے ہیں اس لیے کمیٹی کے visit کے وقت میر اوہاں رہنا ضروری ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جب visit کی تاریخ طے ہو جائے تو مجھے بتادیں میں آنے کا انتظام کرلوں گا۔ جب مجھے visit کی تاریخ کی اطلاع ملی تو میں نے کمال الدین صاحب سے کہا کہ میرا ان تاریخوں میں سفر کرنا نا ممکن ہے، آپ وزیر شئون اسلامیہ سے درخواست کریں، وہ اگر اجازت دے دیں تو میں آسکتا ہوں، انہوں نے وزیر کو لکھا، لیکن فورا ہی نفی میں جواب آگیا، چنانچہ میں سفر نہ کر سکا۔
بعد میں کمال الدین صاحب نے بتایا کہ کمیٹی آئی اور انہوں نے میرا تیار کردہ paper work دیکھا اور اس وقت منظوری دے دی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مرحلہ بھی بخیر و خوبی انجام پا گیا۔
/channel/ilmokitab
*پروفیسر عبد الغفور احمد (وفات : ۲۶ دسمبر ۲۰۱۲ء)۔۔۔ تحریر احمد حاطب صدیقی*
ایسا بھی کوئی آئے کہ تجھ سا کہیں جسے(پروفیسر عبدالغفور احمد سے وابستہ یادیں)
پروفیسر عبدالغفور احمد سے اِس طالب علم کا تعلق بہت پراناہے۔ابھی یہ تعلق ختم تو نہیں ہوا۔ ’رفتید ولے نہ از دلِ ما‘۔ گئے تو کیا مِری بزمِ خیال سے بھی گئے؟
پہلی بار اُنھیں اُس وقت دیکھا اور سناتھا جب۱۹۷۰ء میں وہ کراچی کی اُس وقت کی سب سے فعال اور سب سے فیصلہ کُن بستی لیاقت آباد سے رُکن قومی اسمبلی کے لیے جماعتِ اسلامی کے اُمیدوار کے طورپر کھڑے کیے گئے تھے۔ ۱۹۷۳ء کی اسمبلی میں وہ آئین ساز کمیٹی کے رُکن تھے۔ اُنھوں نے آئین میں اسلامی دفعات شامل کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک میں اُنھوں نے قومی سطح پربہت اہمیت حاصل کی۔ وہ پاکستان قومی اتحادکے سکریٹری جنرل اور اُس کی مذاکراتی کمیٹی کے رُکن تھے۔ آئی جے آئی بنی تو اس کے بھی سکریٹری جنرل وہی بنائے گئے۔ انھوں نے اپنے سیاسی مشاہدات پر مشتمل پانچ کتابیں تصنیف کیں۔
پاکستان کے ایک اہم قومی لیڈر ہونے کے باوجود اُنھوں نے نہایت سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی۔ اُن کی درویش منش طبیعت کے عینی شاہدین تو بہت ہیں، مگر اپنا ذاتی مشاہدہ جس سلیقے سے ہمارے دوست وسعت اﷲ خان نے بیان کیا ہے، اُس سے اچھا نقشہ شاید ہی کوئی کھینچ سکے۔ وسعت کی تحریر سے آپ کے لیے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:
’’مجھے واقعی یادنہیں کہ غفور صاحب سے پہلی بار کس تقریب میں ملا تھا۔مگریہ یاد ہے کہ جب ایک دفعہ ان کے گھر فون کیاتو:
پہلی حیرت یہ ہوئی کہ کسی سکریٹری کے بجائے اُنھوں نے فون اٹھایا۔
دوسری حیرت یہ ہوئی کہ فوراً اُسی روز شام کا وقت دے دیا۔
تیسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر تالا تو کجا، مین گیٹ کے دونوں دروازے بھی چوپٹ[ کھلے]
چوتھی حیرت یہ ہوئی کہ گھنٹی کا بٹن دباتے ہی کوئی اور گیٹ پر نہیں آیاخود غفور صاحب باہر نکل آئے۔
پانچویں حیرت یہ ہوئی کہ اپنے بیڈروم میں ایک معمولی سی مسہری پر بٹھا دیا اور خود اندر چلے گئے۔ بیڈروم میں فرنیچر کے نام پر بید کی دو آرام کرسیاں، ایک سیدھی سی میز،ایک رائٹنگ ٹیبل، چند کتابیں، ایک جاء نماز …
چھٹی حیرت یہ ہوئی کہ نائب امیر جماعت اسلامی،دو دفعہ کا منتخب رُکن قومی اسمبلی،ایک دفعہ کا منتخب سینیٹر،انیس سو تہتر کی آئین ساز کمیٹی کا رُکن،پی این اے اور آئی جے آئی کا سابق سکریٹری جنرل،ستترکے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کا کلیدی رُکن اور ترجمان، سابق وفاقی وزیرپیداوار، چارٹرڈاینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کا اُستاد،پانچ کتابوں کا مصنف، ہاتھ میں چائے کی ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتا ہے، میز پر رکھتا ہے اور مجھ جیسے چھٹ بھیئے صحافی سے کہتا ہے کہ معاف کیجیے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے، لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے …زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ‘‘۔ (بی بی سی اُردو۔۲۷دسمبر۲۰۱۲ء)
اُن کی جو ادا ہم طالب علموں کو سب سے زیادہ پسند آتی اور بہت زیادہ بھاتی تھی وہ یہ تھی کہ پروفیسر صاحب بڑے حاضر جواب تھے۔ہم جیسے کاغذی اور کالمی دانشوروں کو وہ از رہِ تفنن ’دانش ورے‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
اعلیٰ درجہ کا علمی، ادبی اور شعری ذوق رکھتے تھے۔ اپنے یا نعمت اﷲ خان ایڈوکیٹ کے گھر پر اکثر محدود شعری نشستوں کا انعقاد کیا کرتے تھے، جن میں از رہِ حوصلہ افزائی اِس تُک بند کو بھی بلالیا کرتے۔ایک دفعہ جب بھارت سے ڈاکٹر تابشؔ مہدی تشریف لائے تھے تو نعمت اللہ خان صاحب کے گھر شعری نشست ہوئی۔ ’نظامت‘ کے فرائض خود پروفیسر غفور صاحب نے سنبھال لیے۔ڈاکٹر صاحب سے قبل ہمیں نظم سنانے کے لیے طلب کیا اور اُن کے سامنے اس عاجز کا تعارُف از رہِ حوصلہ افزائی بہت اچھے الفاظ میں پیش کیا۔ایک بار اسلام آباد میں جی ٹین ون بھی تشریف لائے تھے اور ایک گھریلو نشست میں کئی گھنٹے تک ہم جیسے خردوں کو اپنے خیالات اور تجربات سے فیضیاب کرتے رہے۔
وہ پاکستان کے اُن چند بچے کھچے لوگوں میں سے ایک تھے جن کوصحیح معنوں میں ’خطیب‘ کہا جاسکتا تھا۔ اُن کے خطاب کا آغاز ہوتاتواُن کے کسی سامع کے بس میں نہ رہتا کہ وہ اپنی توجہ کسی اور سمت مبذول کرسکے۔ اُن کی زبان سے نکلا ہوا ہرلفظ حاضرین کی سماعتوں کو اپنی طرف کھینچتا چلاجاتا۔ ہر بات دل میں اُترتی جاتی۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ پروفیسر صاحب کا طرزِ تخاطب ہمیں نواب بہادر یار جنگ کے لہجہ اور اندازِ خطابت کی یاد دِلاتا ہے۔اُن کے بعض فقرے بہت مشہور ہوئے۔
''Justice delayed is justice denied'' یعنی ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘‘۔ اس مقولے کو پیشِ نظررکھ کر (ہرچند کہ عملاً ممکن تو نہیں، مگر )وہ کہا کرتے تھے :
’’ہم ایسا نظامِ انصاف چاہتے ہیں، جس میں قاتل و مقتول کے جنازے ایک ساتھ اُٹھیں‘‘۔
صور من حياة الصحابة--عمير بن سعد. بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا
Читать полностью…سچی باتیں (۱۶؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ لہو ولعب
حریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
انَّا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ
کلام پاک میں بعض بدترین قسم کے منافقین کا ذِکر آتاہے، کہ یہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور اللہ کے دین کے ساتھ تمسخر میں لگے رہتے ہیں، اور جب ان سے سوال کیاجاتاہے کہ یہ کیا حرکتیں ہیں، تو جواب میں کہتے ہیں، کہ کچھ نہیں، ہم تو یوں ہی بطور مشغلہ وحکایت ، ہنسی اور تفریح کی باتیں کررہے تھے، کچھ ہمیں انکار تھوڑے ہی مقصود تھا!
ولئن سألتہم لیقولنّ انّما کنا نخوض ونلعب۔
اگر تم اُن سے پوچھو، تو یہ کہہ دیں گے، کہ ہم تو بس مشغلہ اور دل لگی کی باتیں کررہے تھے۔
سبحان اللہ! کیا معقول جواب دیتے ہیں! ارے بدبختو، تمہیں مذاق اور تفریح، ہنسی اور دل لگی کے لئے وہی موضوع رہ گیاہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے! وہی آیات الٰہی، وہی اللہ کے بھیجے ہوئے اور رسول کے لائے ہوئے دین کی تعلیمات!
قل اَبِاللہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن۔
کہہ دو ، کہ کیا تم اللہ کے ساتھ اور اُس کی آیتوں کے ساتھ اور اُس کے رسول کے ساتھ تمسخر کررہے تھے؟
’لعب‘ کے معنی کھیل تماشہ کے کھُلے ہوئے ہیں۔ ’خوض‘ کا لفظ جب گفتگو کے لئے آتاہے، تو مراد ایسے کلام سے ہوتی ہے، جس میں سنجیدگی اور واقعیت کے بجائے جھوٹ اور لغویت ہو۔ الخوض من الکلام ما فیہ الکذب والباطل (لسان العرب) ۔ آج جس نوع کلام کے لئے ، فرنگیوں نے لائٹ لٹریچر، اور ’فکشن‘ کی اصطلاحیں گڑھ رکھی ہیں، یعنی افسانے اور قصّے ، گب شپ، حکایتیں اور کہانیاں ، جنھیں واقعیت اور اصلیت سے علاقہ نہ ہو، محض دل بہلاؤ، اور نشاطِ خاطر مقصود ہو، یہ سب اس کی تحت میں آجاتاہے، منافقوں کا کہنا یہی تھا، کہ اب کیا ہنسنا بولنا بھی منع ہے؟ ہم تو آپس میں ہنس بول رہے تھے، افسانہ خوانی وحکایت طرازی کررہے تھے، محض انبساطِ ونشاط مقصود تھا۔ مذہب پر سنجیدگی سے کوئی اعتراض ہم کب کررہے تھے؟ اس کے جواب میں ارشاد ہواہے، کہ تمہاری عقلیں کیسی غارت گئی ہیں، ہنسی کے لئے انتخاب کیا، تواُسی ایک چیز کا، جو کسی طرح اور کسی درجہ میں بھی ہنسی کے قابل نہ تھی!
اگلے منافقوں نے جو کچھ کیا، اور جو کچھ کہا، اُسے چھوڑئیے۔ قرآن مجید، تاریخ کا رجسٹر نہیں۔ ہدایت وحکمت کا درس ہے۔ یہ دیکھئے، کہ آج آپ کے اِردگِرد کیا ہورہاہے؟ جنت کے تخیل پر مضحکہ علانیہ ہوتاہے، جہنم اور عذاب جہنم کے تصور پر ٹھٹھے لگائے جاتے ہیں۔ حوروں پر شہدوں کی زبان میں پھبتیاں کہی جاتی ہیں۔ مالک ورضوان کے نام لے لے کر قہقہے بلند ہوتے ہیہں۔ ملائکہ پر تالیاں پٹتی ہیں، انبیاء کرام پر طرح طرح کے آوازے کسے جارہے ہیں، نماز اور روزہ، طاعت وعبادت پر تمسخر کھلّم کھلّا جاری ہے، خود حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی شان میں ہر طرح کی گستاخی اور دریدہ دہنی کھُلے خزانے ہورہی ہے، اور جب کوئی اللہ کا بندہ روک ٹوک شروع کرتاہے، تو جواب کیا ملتاہے، وہی انَّما کُنّا نَخُوضُ ونَلعَبُ ۔ یہ مضامین تو محض افسانہ کے رنگ میں لکھے گئے تھے، محض تخئیل تھے، محض شاعرانہ خیال بندی تھی، ان کی گرفت کرنا کیسی خشک ملامت ہے، کیسی ناقابلِ برداشت دقیانوسیت ہے………سوچئے اور غور کیجئے، کہ منافق کی نفسیت، منافق کی ذہنیت، منافق کی سرشت وفطرت، اِس ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں کچھ بدلی ہے؟
https://bhatkallys.com/articles/?author=abdul-majid-daryabadi
*مشفق خواجہ کا ادبی رسالہ ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کراچی*
*(محمد شاہد حنیف یم اے لائبریری سائنس)*
اردو زبان و ادب میں نثر اور شاعری کی ترویج و اشاعت میں کتب کے علاوہ سب زیادہ اہم کردار رسائل وجرائد کا کررہا ہے۔ بلکہ ایک طرح سے اگر یہ کہا جائیکہ اردو زبان و ادب کی اس حوالے سے جو خدمت رسائل نے کی ہے وہ شاید کتب نہ کرسکیں۔ اُنیسویں صدی کے اخیر سے لے کے آج تک اردو ادبی رسائل ادب کی اشاعت میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ رسائل قدیم و جدید ادیبوں، مصنّفین، شعرا، نقادوں، محققین، افسانہ نگاروں، ناول نگاروں اور دیگر اہل قلم کو نہ صرف متعارف کرواتے ہیں بلکہ اُن کی نظم و نثر پر مشتمل تخلیقات کو عوام الناس میں پھیلاکر اُن کی حوصلہ افزائی اور اصلاح کرتے ہیں۔
اگر تاریخ ادب میں رسائل و جرائد کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے لوگوں نے رسائل وجرائد کی تاریخ کے حوالے سے مضامین و کتب پیش کی ہیں، لیکن ابھی تک سیکڑوں ایسے رسائل و جرائد موجود ہیں جن کی ادبی خدمات میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن ادب کی ناقدری خاص طور پر قدیم رسائل وجرائد کی بازیافت اور اُن سے استفادہ کرنے اور طلبا و محققین کے سامنے لانے کے لیے کوئی باقاعدہ سرکاری و غیرسرکاری نظام موجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ علمی، ادبی، تحقیقی اور تخلیقی جرائد لائبریروں کے ایسے قبرستانوں میں دفن ہورہے ہیں جہاں پر کوئی جاکر دعائے خیر بھی نہیں کرسکتا۔ حالانکہ ان رسائل میں ایسی ایسی تخلیقات موجود ہیں جو کہ سیکڑوں کتب میں بھی نہیں ملتی۔ اس لیے یہ بات بھی کہنا غیرمناسب نہ ہوگا کہ کہ اردو رسائل کی تاریخ درحقیقت ’’مسائل کی تاریخ‘‘ نظر آتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد بہت سے رسائل و جرائد کی وقتاً فوقتاً اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اُن میں سے ایک رسالہ کراچی کا ’’تخلیق‘‘ بھی ہے جو کہ معروف محقق، ادیب، نقاد اور مصنف جناب مشفق خواجہ کی زیر ادارت شائع ہوا ہے۔
ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کا پہلا شمارہ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا، جس پر ’’پہلاسال، پہلا شمارہ‘‘ درج ہے۔ مشفق خواجہ صاحب کا نامِ نامی بطور ’’مرتب‘‘ درج ہے، جب کہ پہلے شمارے پر پتا یوں درج ہے۔ ’’دفتر تخلیق‘‘، ۳؍۲۲، جہانگیر روڈ، کراچی۵۔ شمارے میں کے آغاز میں ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے اس رسالے کی اشاعت کی بارے میں لکھا گیا ہے: ’’یہ تخلیق کا پہلا شمارہ ہے۔ دوسرے پرچوں کی طرح اس میں بھی وہ تمام مواد جمع کر دیا گیا ہے جس کی بنا پر کوئی پرچہ ادبی کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس میں کسی ادبی گروہ کی نمائندگی نہیں کی گئی، بلکہ کسی حد تک اچھی تحریروں کا نمائندہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ [صفحہ۵] اداریے بعنون ’’حرفے چند‘‘ میں شمارہ اوّل کی ترتیب و تدوین میں ممتاز حسین، ابن انشاء اور خلیق ابراہیم کی مدد کا شکریہ بھی ادا کیا گیا ہے۔
’’تخلیق‘‘ کے اس پہلے شمارے میں محمد حسن عسکری، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر سیدعبداللہ، ممتاز حسین، یرزا ادیب، محمد خالد اختر، شوکت صدیقی، دیوندر اِسر، صادق حسین کے ادبی مضامین شائع کرنے کے علاوہ جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، حفیظ ہوشیارپوری، ابن انشا، ظہور نظر، ضمیر اظہر، عبدالمجید سالک، شاد عارفی، قتیل شفائی، جعفر طاہر، خلیل الرحمن اعظمی، مصطفی زیدی، سلیم واحد سلیم، من موہن تلخ، کرار نوری… کی رُباعیات و غزلیات شائع کی گئی ہیں۔ آخیر میں ’’نئی کتابیں‘‘ کے عنوان سے ممتاز حسین، باقر مہدی، خلیق ابراہیم کے تبصرے شائع کیے گئے ہیں۔
شمارہ اوّل میں خاص طور پر غالب کی فارسی مثنوی ’’مغنی نامہ‘‘ کا اردو ترجمہ شامل اشاعت ہے یہ ترجمہ رفیق خاور نے کیا تھا۔ مزید برآں معروف نثرنگار چودھری محمد علی رودلوی کے غیرمطبوعہ خطوط شائع کیے گئے ہیں۔
ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کا دوسرا شمارہ نومبر ۱۹۵۶ء میں حسب بالا پتا سے مشفق خواجہ کی زیر نگرانی (بطورِ مرتب) شائع ہوا۔ اس میں ممتاز حسین، سیّد عابد علی عابد، قاضی عبدالودود، شمیم احمد کے مقالات کے علاوہ اے حمید کا مزاحیہ مضمون بھی پیش کیا گیا۔ جبکہ شاعری میں رفیق خاور، فارغ بخاری، جمیل الدین عالی، شور(علیگ)، ڈاکٹر وحید قریشی، تمہید الاسلام سیّد، اثر لکھنوی، امتیاز علی عرشی، شاد عارفی، غلام ربانی تاباں، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر وزیر آغا، باقر مہدی، کرار نوری کا کلام شاملِ اشاعت ہے۔ اس شمارے میں ممتاز مفتی، دیورندر اِسر، حمید کاشمیری اور واجدہ تبسم کے افسانے بھی پیش کیے گئے۔ حسبِ معمول اخیر میں بعنوان ’’تبصرے‘‘ کتابوں کا تعارف بھی شائع کیا گیا ۔
مگر بدقسمتی سے یونیورسٹی کی اُس تقریب کی صدارت کے لیے چوں کہ ایک ’وفاقی وزیر باتدبیر‘ مدعو کر لیے گئے تھے (اور رات کو پی ٹی وی کے خبرنامے میں نمایاں اہمیت بھی اُن ہی کی تقریرو تصویر کو ملی جب کہ ڈاکٹر حمیداﷲ کا ذکرضمنی طور پر ’دیگر مقررین‘ میں آیا) چناں چہ مووی کیمرے والوں اور اخباری فوٹو گرافروں نے ’بڑے میاں کی بڑ‘ کو چنداں اہمیت نہ دی اور منع کرنے کے باوجود اپنے شغل میں مشغول رہے۔ڈاکٹر حمید اﷲ نے ایک دلچسپ حرکت کی۔ اُنھوں نے میز پر سے ایک فائل اُٹھائی اور عروسِ نو کی طرح اس کا گھونگھٹ اپنے چہرے پر کاڑھ لیا۔پھر اسی حالت میں اپنا باقی خطاب مکمل کیا۔اُن کے خطاب کے بعد بڑی دلچسپ باتیں ہوئیں۔کسی نے پوچھا:
’’خلیفۃ الارض کو پہلے تخلیق کیا گیا، یا تخلیقِ ارضی پہلے عمل میں آئی؟‘‘
ایک لمحے کا تامل کیے بغیر جواب دیا:’’قرآن کے ارشاد کے مطابق حضرت آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا گیا تھا، اس سے میں گمان کر سکتا ہوں کہ اِس کرۂ خاکی کو پہلے تخلیق کیا گیا‘‘۔
ایک اور سوال یہ کیا گیا:’’حضرت آدمؑ کی پسلی سے آخر حضرت حوا ؑ کی پیدائش کیسے ہوگئی؟‘‘
اس سوال کا جواب گوکہ اُنھوں نے ازرہِ تفنن دیا، مگر یہ جواب بھی اہلِ تدبر کے لیے دعوتِ غور و فکرثابت ہوا۔ فرمایا:
’’حضرت آدمؑ جنت کے باغات میں سکونت پزیر تھے۔اُن کے ارد گرد اشجار تھے۔ماحول کا اثر پڑتاہے۔جس طرح درختوں کے تنوں سے شاخیں پھوٹ نکلتی ہیں،ممکن ہے کہ امّاں حوا کی پیدائش بھی اِسی طور پر ہوئی ہو‘‘۔
ڈاکٹر حمیداﷲ کے کچھ مزید دلچسپ جوابات آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں، جن سے آپ کو ان کے طرزِ فکر کا اندازہ ہوگا۔ ایک نوجوان نے مسلمانوں کی فرقہ بندیوں پراعتراض کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارا اﷲ ایک، رسولؐ ایک، قرآن ایک، مگر ہمارے علمائے کرام نے متعدد فرقے بنائے ہوئے ہیں، مثلاً شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی وغیرہ۔ہمارا ہر عالم ہم کو ’’واعتصمو بحبل اﷲ جمیعاً و لاتفرقو‘‘ کی تبلیغ کرتاہے، مگر یہ فرقے بھی خود عالموں ہی نے بنائے ہوئے ہیں۔ میرا ایک دوست ان فرقوں سے تنگ آکر طنزیہ کہاکرتاہے کہ میں عیسائی بننا چاہتاہوں۔ کیوں کہ عیسائیت میں کوئی فرقہ نہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب میں فرمایا:’’ دوسرے جزو کا میں پہلے جواب دوں گا کہ ’عیسائیت میں کوئی فرقہ نہیں ہے‘۔ میں نے جرمن زبان میں لکھی ہوئی ایک کتاب دیکھی ہے۔جس میں بارہ سو عیسائی فرقوں کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے یہ دوست عیسائی بن کر مایوس ہی ہوں گے کہ اسلام ہی بہتر تھا۔ وہاں شاید صرف بارہ ہی فرقے ہوں‘‘۔
اس کے بعدڈاکٹر صاحب نے فرقہ وارانہ محاذ آرائی کا ایک حل پیش فرمایاجسے اختیار کرلیا جائے تو حالات ہی بدل جائیں:
’’فرقہ بندی کا حل میرے نزدیک ایک ہی ہے۔آپ دوسروں پر نہ جائیں۔اپنے پر توجہ دیں۔ آپ خود فرقہ پرستی کے مرض میں مبتلا نہ ہوں۔اپنے آپ کو صدفی صد درست اور دوسروں کو بالکل غلط نہ کہیں۔ دوسروں کو اُن کے خدا کے سپرد کر دیجیے۔وہ اپنے اعمال اور عقاید کے بارے میں خدا کو براہِ راست خود جواب دے لیں گے‘‘۔
ڈاکٹر حمیداﷲ نے مزید بتایا:’’پیر س میں بعض نومسلم فرانسیسی مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے فقہی مذاہب (Schools of Law) ہیں۔حنفی، شافعی، مالکی وغیرہ۔ ہم کسے اختیار کریں؟ مالکی مذہب میرا مذہب نہیں ہے۔ لیکن فرانس میں اسّی ، پچاسی فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ لوگ مالکی مذہب کے ہیں۔ لہٰذا میں اُن سے کہتا ہوں کہ مالکی مذہب تمھارے ماحول کے لیے موزوں تر ہے۔ میں خود مالکی مذہب کا نہیں ہوں۔لیکن میرا خیال ہے کہ تم اس ماحول میں جذب ہونے کے لیے مالکی مذہب کے رہو تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔یہ میرا طرزِ عمل رہاہے‘‘۔
ایک بار فرانس کے ایک چرچ میں اُنھیں مدعو کیا گیا کہ اپنے دین کا تعارُف پیش کیجیے،مگر دوسروں کے ادیان پر حملہ کیے بغیر۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص دِل نشین انداز میں اسلامی تعلیمات کا تعارُف اور تجزیہ پیش کیا۔بالخصوص اسلامی عبادات کا ذکر انتہائی مدلل سائنسی انداز میں کیا۔لیکچر ختم ہوا تو ایک خاتون ڈاکٹر صاحب کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:’’آپ اپنی عبادت کا طریقہ مجھے سکھا دیجیے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے اُن سے پوچھا:’’کیا آپ مسلمان ہونا چاہتی ہیں؟‘‘
خاتون نے کہا:’’نہیں، میں ہولی کرائسٹ کو نہیں چھوڑنا چاہتی۔عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہوئے عبادت کے اِس پُر تاثیر طریقے پر عمل کرنا چاہتی ہوں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ہم مسلمان بھی سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہوئے سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کے سکھائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہیں‘‘۔
خاتون بہت حیران ہوئیں۔جب مزید چند ملاقاتوں میں اُنھوں نے ڈاکٹر صاحب سے سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے متعلق مسلمانوں کے عقاید اورسیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن کی فراہم کردہ معلومات سنیں تو وہ مسلمان ہوگئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کا نام عائشہ رکھا۔
حضرت مولانا پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑوی ایک عظیم عالم، بہت بڑے مرشد و مصلح، کہنہ مشق شاعر اور تقریباً ڈیڑھ درجن تصانیف کے مصنف تھے. سات زبانوں میں مہارت رکھتے تھے. حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گیلانی گولڑوی کے پڑپوتے تھے. مسلکی لحاظ سے اُس مسلک پر عامل تھے، جسے ہندستان میں خانقاہی یا درگاہی مسلک کہا جاتا ہے. جو دیوبند و بریلی کے درمیان کی چیز ہے. خانقاہ مجیبیہ، پٹنہ، خانقاہ نظامیہ، دہلی کا بھی یہی مسلک رہا ہے. پیر نصیر الدین نصیر نے اپنی زندگی کے آخری کچھ برسوں میں درگاہوں پر ہونے والی خرافات کے خلاف سخت محاذ کھول دیا تھا. اس لیے ان کا وجود اُن کے حلقے والوں کو بھی کھٹکنے لگا تھا. یہی وجہ ہے کہ 2009 میں 59 برس کی عمر میں جب انھوں نے اچانک وفات پائی تو اسے قتل بھی کہا گیا. مجھ طالب علم کو ان سے ملاقات اور استفادے کا شرف حاصل رہا ہے.
اجمل فاروق
کے یہاں تصوف میں تزکیہ نفس کا پہلو غالب تھا، لیکن بعض وہ لوگ جنہوں نے صرف ان اکابر کی چند ایک کتابیں ہی پڑھی ہیں، اور انہیں ان کی مجلسوں میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا ہے، وہ کبھی کبھار عمومی انداز سے تصوف پر نقد کرتے ہیں، اور کبھی کبھار ان کے رویوں سے محسوس ہوتا ہے کہ تصوف ان کی ایک چڑ بن گئی ہے، اس محفل کی حد تک ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ انداز درست نہیں ہے، کیونکہ یہاں آپ کے مخاطب وہ حضرات ہیں، جنہوں نے تصوف میں تزکیہ نفس اور سلوک کے پہلو ہی کو دیکھا ہے۔ ان سے مخاطب ہوتے ہوئے گھن کے ساتھ گیہوں کو پیسنا سنجیدہ عمل نہیں ہوسکتا، یہ رویہ منافرت اور بدگمانی کو جنم دیتا ہے۔
(علم وکتاب گروپ پر سید مہر علی شاہ گولڑوی کے بارے میں ایک استفسار پر اظہار خیال )
2023-12-23
/channel/ilmokitab
مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور کے استاذ شعبۂ عربی
مولانا احمد مرتضیٰ
ایک سوانحی خاکہ
آج مؤرخہ9؍جمادی الثانی 1445ھ مطابق 23؍دسمبر2023ء قبیل نماز فجر مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور کے استاذ مولانا احمد مرتضیٰ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
مولانا کافی دنوں سے شوگر اور بلیڈ پریشر کے مریض تھے ،علاج معالجہ کا سلسلہ چل رہا تھا ،مغرب بعد تنفس کی شکایت ہوئی ،اے سی جی کرایا گیا ،کوئی زیادہ دقت کی بات نہیں تھی ،رات کے آخری پہر میں سانس میں کافی دقت محسوس کی گئی ،مدرسہ میں موجود ڈاکٹر نے صورت حال کا جائزہ لے کر کسی بڑے ڈاکٹر اور اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا ،اور اسی کے مطابق انھیں شہر کے مشہور ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا ،ڈاکٹر نے دیکھنے کے بعد ڈکلیر کردیا کہ اب ان کی حیات مستعار پوری ہوچکی ہے اور دنیا سے ان کا تعلق ختم ہووچکا ہے ۔
ان کے انتقال کی خبر سے مظاہرعلوم میں اور خود ان کے سیکڑوں شاگردوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ،مدرسہ کے ذمہ داران خاص طور سے امین عام مولانا مفتی سید محمد صالح الحسنی نے ان کے ورثاء سے فون پر رابطہ کیا اور ان کو اِس المناک حادثہ کی اطلاع دی ،ورثہ نے اجازت دی کہ تجہیزو تکفین کا نظم وہیں مدرسہ میں کرلیا جائے ،اس لئے کہ ان کی میت کو چترا جھارکھنڈ لایا منشائے شریعت کے خلاف بھی ہے اور مشکل ترین امر ہے ،اس لئے حضرت ناظم صاحب مدظلہ سے مشورہ کے بعد نماز جنازہ کا وقت بعد نماز ظہر دو بجے کا تجویز ہوا،نماز جنازہ مدرسہ مظاہرعلوم کے صحن میں ادا کی جائے گی ۔
حضرت مولانا احمد مرتضیٰ صاحب ضلع چترا ،جھارکھنڈ کے گاؤں گیروا میں 12؍مئی 1946ء میں پیدا ہوئے ،آپ کے والد کا نام محمد اظہار حسین ،ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم القرآن رانی گنج گیا بہار میں حاصل کی ،شوال 1389ھ مطابق دسمبر 1969ء میں مظاہرعلوم سہارنپور میں داخلہ لے کر عربی چہارم سے تعلیم کا آغاز کیا ،شعبان 1394ھ مطابق اگست 1974ء میں یہاں سے فاغ ہوئے اس کے بعد مدرسہ تعلیم القرآن گیا میں چھ سال تدریسی خدمات انجام دے کر شوال 1416ھ مطابق مارچ 1996ء سے مظاہرعلوم میں شعبۂ عربی کی تدریس سے متعلق ہوگئے ۔
دوران تعلیم مظاہرعلوم سہارنپور میں حضرت شاہ اسعدا للہ صاحب ناظم مظاہرعلوم سے خاص عقیدتمندانہ و ارادتمندانہ تعلق رہا اور انھیں سے بیعت و ارشاد کا تعلق قائم ہوا،آخر میں حضرت ناظم صاحبؒ نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی تھی،پوری زندگی آپ نے اس کا پاس و لحاظ رکھا اور اس راہ سے بھی مخلوق خدا کی رہنمائی اور دستگیری فرماتے رہے
مولانا مرحوم ایک جید استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ ، نہایت نیک ، پرہیزگار، متواضع خصائل حمیدہ اور اخلاق عالیہ سے متصف، نمونہ سلف ،نہایت ہی مخلص وغیورعالم دین تھے۔
اللّٰہ رب العالمین مولانا مرحوم کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان و شاگردان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے
سوگوار:عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
شعبۂ صحافت مظاہرعلوم سہارنپور
7895886868
منوراعظمی کوفن خطاطی سے بچپن ہی سے لگاؤ تھا۔1976میں جب وہ درجہ سوئم میں پڑھ رہے تھے تو اس وقت مولانا مجیب اللہ ندوی نے مسلم انٹر کالج میں خطاطی کا مقابلہ کرایا، جس میں منور اعظمی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وہیں سے ان کے شوق نے جلا پائی اورانھوں نے اس فن کو باضابطہ سیکھنے کے لیے ایک استاد کی تلاش شروع کردی۔ مؤ شہر کے استاد خطاط فیض الحسن سے اصلاح لینی شروع کی اور نستعلیق کا فن سیکھا۔ اسی دوران اپنے استاد کے ساتھ دہلی آئے اور مایہ ناز خطاط محمدخلیق ٹونکی سے ملاقات کی۔خلیق ٹونکی انھیں اپنے شاگردوں میں شامل کرنا چاہتے تھے، لیکن تعلیمی سلسلہ منقظع ہونے کے خوف سے انھوں نے مؤ میں رہنے کو ترجیح دی۔تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے پھوپھی زاد بھائی ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی کے ایماء پر سعودی عرب کا سفر کیا اور سنہ 2000تک وہیں فن خطاطی کے جوہر دکھاتے رہے۔جب ہندوستان واپس آئے تو یہاں صورتحال بدل چکی تھی اور لوگ کمپیوٹر کی کتابت سے رجوع ہوچکے تھے،اس لیے دس سال کا عرصہ ایسا گزرا کہ منور اعظمی کو کوئی کام ہی نہیں ملا، لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے اور مشق جاری رکھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خطاطی کے شوقین ان کی طرف رجوع ہونے لگے اور آج صورتحال یہ ہے کہ انھیں فرصت نہیں ملتی۔ کتابوں کے ٹائٹل،طغرے، پوسٹر وغیرہ بنوانے کے لیے دوردراز کے لوگ ان سے رجوع ہوتے ہیں۔ان کے فن کی گونج سرحدوں کے پار بھی سنائی دے رہی ہے۔ وہ اب تک جن ملکوں میں خطاطی کی نمائشوں میں حصہ لے چکے ہیں، ان میں ایران، انڈونیشیا، ملیشیا اور مراکش شامل ہیں۔منور اعظمی کا فن بتدریج ترقی کررہا ہے اور اگر یہ رفتار جاری رہی تو وہ ترقی کی مزید منزلیں طے کریں گے۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار عقیق کٹا،تب نگیں ہوا
علامہ محمد طاسینؒ ایک طویل عرصے تک مرحوم خالد اسحاق کے حلقۂ احباب میں بھی شامل رہے۔ خالد اسحاق صاحب کے ہاں ایک ہفتے وار فکری نشست ہوا کرتی تھی۔ مولانا اس میں باقاعدگی سے شامل ہوتے تھے۔ خالد اسحاق مرحوم ایک بڑے وکیل اور قانون دان تھے۔ سیاسیات کے ماہر تھے۔ ان کے ہاں باقاعدگی سے آنے والے احباب میں بعض دانش ور بھی ہوتے تھے۔ علمائے دین بھی ہوتے تھے۔ وکلا، ادیب اور شاعر حضرات بھی ہوتے تھے۔ ان میں بعض ایسے حضرات بھی ہوا کرتے تھے جو مذہب اور خاص طور پر اسلام کے بارے میں اپنے رویوں کی وجہ سے عام مذہبی طبقوں میں زیادہ نیک نام نہیں تھے۔ ان ہفتے وار نشستوں کا مقصد خالد اسحاق صاحب مرحوم کی نظر میں نہ صرف اہم معاملات پر تبادلۂ خیال تھا، بل کہ ملک کے مختلف فکری رجحانات کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرکے حتی الامکان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بھی تھا۔ علامہ محمد طاسینؒ باقاعدگی سے ان محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کی قوت کے ساتھ توازن، اخلاق اور بہت دھیمے انداز میں بیان کرتے تھے۔ ان کا لب و لہجہ ہمیشہ انتہائی دھیما، آواز انتہائی نرم، دلائل انتہائی مضبوط اور گفت گوانتہائی عالمانہ ہوتی تھی۔ اگرچہ اُن کی مادری زبان اُردو نہیں تھی، لیکن جب وہ اُردو لکھتے تھے تو اتنے ادبی انداز سے لکھتے تھے کہ پڑھنے والوں میں سے شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوتا ہوگا کہ اُن کی مادری زبان اُردو نہیں بل کہ پشتو ہے۔نہ صرف زبانی گفت گو میں بل کہ تحریر میں بھی مولانا کا قلم اتنا خوب صورت اور اتنا صاف تھا کہ خیال ہوتا تھا کہ لکھنے والا شاید کوئی کاتب ہے۔ ان کے پاس غالباً پوری زندگی ٹائپ رائٹر نہیں رہا۔ آخری عمر میں بھی ان کو کمپیوٹر کی سہولت حاصل نہیں رہی۔ وہ اپنا سارا کام بہ راہِ راست اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ چالیس، پچاس اور پچاس پچاس صفحات کے طویل مقالات اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ وہ اتنے خوش خط تھے کہ ان کے ہاتھ کی تحریر دیکھ کر کتابت شدہ مواد کا گمان ہوتا تھا۔
افسوس یہ کہ ان کی تحریریں شائع نہیں ہوسکیں۔ ان کو اپنے مقالات و تحقیقات کی اشاعت سے کوئی خاص دل چسپی بھی نہیں رہی۔ ان کے مخاطبین عامتہ الناس نہیں بل کہ اہلِ علم ہی ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ کوئی تحقیق کرتے تھے اور اپنی تحقیق کے نتائج کو کسی مقالے کی شکل میں مرتب کرتے تھے تو یا تو کسی علمی رسالے مثلاً فکر و نظر یا اس طرح کے کسی رسالے میں شائع کرادیا کرتے تھے اور اگر کوئی رسالہ ان کی تحقیقات کو شائع نہیں کرتا تھا تو اس کی عکسی نقول ملک کے منتخب اہلِ علم کو بھیج دیا کرتے تھے۔ اس طرح لوگ ان کے خیالات سے استفادہ کرسکتے تھے اور ان کے خیالات کو محفوظ بھی کرلیا کرتے تھے۔ میرے پاس بھی وقتاً فوقتاً ان کے مقالات کی عکسی نقول آتی رہتی تھیں اور میں حسب ِ موقع ان سے استفادہ بھی کیا کرتا تھا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جس زمانے میں شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن کے طور پر کام کر رہا تھا اور بینچ کے سربراہ جناب جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے ربا کے مشہور فیصلے کی تدوین کی ابتدائی ذمے داری مجھے ہی سونپی تھی اور میں اس فیصلے کا ابتدائی مسودہ تیار کرنے میں مصروف تھا۔ اس زمانے میں مولانا کے صاحب زادے عامر طاسین نے مولانا کے مقالات پر مشتمل ایک وقیع علمی مواد مجھے فراہم کیا۔ جس سے کماحقہ تو فیصلے میں استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ اس لیے کہ فیصلہ کرنے والا بینچ جن نتائج تک پہنچا تھا، ان میں کئی نتائج ان سے مختلف تھے جن تک مولانا پہنچے تھے۔ لیکن اس مواد سے مولانا کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ جہاں جہاں مولانا کی تحقیقات سے استفادہ کیا جاسکتا تھا، شریعت بینچ کے فیصلوں میں ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا گیا۔
افسوس ہے کہ آج وطنِ عزیز میں علامہ محمد طاسینؒ مرحوم کی صلاحیت کے اہلِ علم موجود نہیں ہیں۔ وہ اہلِ علم جو خاموشی کے ساتھ علم کی خدمت کے لیے آمادہ رہتے ہوں۔ جو اپنی تحقیقات کو علمی استدلال اور شواہد کی بنیاد پر منوانا چاہتے ہوں۔ جو اپنے نقطۂ نظر کو عالمانہ اور مہذب انداز میں بیان کرسکتے ہوں۔ جن کے دلائل مؤثر اور وقیع ہوں۔ جن کی پشت پر سال ہاسال کی تحقیق اور مطالعہ ہو۔
علامہ محمد طاسینؒ مرحوم نے جو کچھ لکھا، آج اس کو مرتب کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ان کے مقالات اگر سیکڑوں نہیں تو درجنوں کی تعداد میں ضرور ہوں گے۔ اگر ان تمام علمی تحریروں کو شائع کیا جائے تو ان سے کئی جلدیں مرتب کی جاسکتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا کے صاحب زادگان، خاص طور پر عزیزم محمد عامر طاسین سلمہ مولانا کے اس علمی ورثے کو محفوظ کرنے کا اہتمام کریں گے۔ وہ مجلس ِ علمی کے کتب خانے کو اسی طرح چلائیں گے جیسا علامہ محمد طاسینؒ نے چلایا، اور اس کتب خانے سے وہی کام لیں گے جس مقصد کے لیےیہ کتب خانہ قائم کیا گیا تھا۔
/channel/ilmokitab
۸۱۔۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۲ء کے برسوںمیں کراچی میں قیام کے یہ وقفے کئی کئی ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں پر محیط ہوتے تھے۔ ان ہی وقفوں کے دوران پہلی بار ۱۹۸۰ء میں اور اس کے بعد بھی کئی بار علامہ محمد طاسینؒ ؒ سے تفصیل سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ ان ملاقاتوں میں مولانا کے علم و فضل کا بھی اندازہ ہوا، ان کے اخلاق اور مہمان نوازی کا بھی تجربہ ہوا اور بہ راہِ راست اُن کی شخصیت کو دیکھنے کا وہ موقع ملا جو اس سے پہلے نہیں ملا تھا۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں میرے اور مولانا کے درمیان ایک قریبی، ذاتی دوستی کا تعلق قائم ہوگیا۔ دوستی کا لفظ میں بڑے تأمل کے ساتھ استعمال کر رہا ہوں۔ علم و فضل، عمر اور مقام و مرتبے کے اعتبار سے میرے اور اُن کے درمیان بہت نمایاں فرق تھا۔ لیکن اُنہوں نے اپنی بزرگانہ شفقت سے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا۔ جب بھی ملاقات ہوئی، یا خط لکھا یا کسی تحریر میں میرا ذکر کیا تو اتنے اچھے الفاظ کے ساتھ کیا جن کا میں کبھی بھی مستحق نہیں تھا۔اس کے بعد جب بھی مولانا اسلام آباد تشریف لاتے تو مجھ سے ملاقات کے لیے میرے دفتر یا غریب خانے پر تشریف لاتے۔ اسی طرح میرا بھی جب کراچی جانا ہوتا تو میں مولانا سے ملنے ان کے کتب خانے میں، جو اُن کا گھر بھی تھا، حاضر ہوتا۔ اور مختلف موضوعات پر ہمارے درمیان تبادلۂ خیال ہوتا۔
مولانا کے دل چسپی کے موضوعات بھی تقریباً وہی تھے، جو میری دل چسپی کے تھے، یعنی جدید دنیائے اسلام میں اسلامی احکام کے مطابق جب کوئی نظام بنایا جائے گا تو اس کی جزئیات و تفصیلات کیا ہوں گی؟ اس معاملے میں خاص طور پر مولانا کی دل چسپی کا جو میدان تھا وہ اسلامی معاشیات کا میدان تھا۔ مولانا کے ذہن میں اسلامی معاشیات کے اپنے تصورات تھے۔ جن سے دورِ جدید کے بہت سے اہلِ علم اتفاق نہیں کرتے۔ مجھے بھی بعض معاملات میں مولانا کی تحقیقات پر شرحِ صدر نہیں تھا اور میں ادب کے ساتھ وقتاً فوقتاً ان سے اختلاف کا اظہار بھی کرتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتے یا کسی اختلاف رائے کی وجہ سے ان کے تعلقات میں کوئی فرق آسکتا ہے۔ ان کی محبت، شفقت اور غیر معمولی نرم گفتاری کی کیفیت وہی رہی جو روزِ اول سے تھی۔ لیکن علمی مسائل پر گفت گو اور تبادلۂ خیال کا عمل ان سے جاری رہتا تھا۔جب میں دعوۃ اکیڈمی کی انتظامی ذمےداریوں پر فائز ہوا، تو میری تجویز پر یونیورسٹی نے علامہ محمد طاسینؒ صاحب کو دعوۃ اکیڈمی کی انتظامی کونسل کا رکن بھی مقرر کیا۔ اس تعلق سے مولانا سے ملاقاتوں کے وقفے کثرت سے آنے لگے۔ ان کا اسلام آباد آنا جانا بھی بڑھ گیا اور مختلف موضوعات پر مولانا کے خیالات سے استفادے کے زیادہ مواقع پیدا ہوئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میرے مشورے اور تجویز پر اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی علامہ محمد طاسینؒ کو کئی مرتبہ مختلف موضوعات پر رائے اور مشورے کے لیے اپنے اجلاس میں بلایا اور کونسل نے مختلف معاملات پر مولانا سے مشورہ کیا۔
مولانا پاکستان تشریف لانے کے بعد اپنی زندگی کا پورا عرصہ یعنی تقریباً سو فیصد عرصہ مجلس ِ علمی سے وابستہ رہے۔ مجلس ِ علمی کے نام سے یہ ادارہ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے بعض مخیّر حضرات نے قائم کیا تھا۔ یوں تو یہ ادارہ ہندوستان کے علاقے گجرات میں قائم ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی موضوعات پر بالعموم اور فقۂ حنفی پر بالخصوص جو قدیم مخطوطات ابھی تک طبع نہیں ہوئے تھے، ان کو طبع کرایا جائے اور جدید انداز میں تحقیق اور تدوین کی ضروریات کی تکمیل کے بعد اہلِ علم کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس ادارے نے ہندوستان میں قیام کے دوران خاصا کام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ ادارہ اس انداز میں کام نہیں کرسکا۔ اس وقت محسوس کیا گیا کہ اس ادارے کی ایک شاخ پاکستان میں بھی قائم کی جائے۔ چناں چہ کراچی میں اس ادارے کی ایک شاخ قائم کی گئی، جس کی نگرانی اور سرپرستی کی ذمے داری مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کے سپرد کی گئی۔ انہوں نے اس ادارے کو عملاً چلانے اور اس میں کتب خانہ قائم کرنے کے لیے علامہ محمد طاسینؒ کو مامور کیا۔
خود عرب کا قریب ترین ماحول جو حضورﷺ کا اوّلین میدان کار بنا، اس کا تصور کیجیے تو دل دہل جاتا ہے۔ وہاں عاد و ثمود کے ادوار میں سبا اور عدن اور یمن کی سلطنتوں کے سائے میں کبھی تہذیب کی روشنی نمودار بھی ہوئی تھی تو اب اسے گل ہوئے مدتیں گزر چکی تھیں۔ بقیہ عرب پر دور وحشت کی رات چھائی ہوئی تھی، تمدن کی صبح ابھی تک جلوہ گر نہیں ہوئی تھی اور انسانیت نیند سے بیدار نہ ہو پائی تھی، ہر طرف ایک انتشار تھا، انسان اور انسان کے درمیان تصادم تھا، جنگ و جدل اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا، شراب اور زنا اور جوئے سے ترکیب پانے والی جاہلی ثقافت زوروں پر تھی، قریش نے مشرکانہ اور بت پرستانہ مذہبیت کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چلا رکھا تھا، یہود نے کلامی اور فقہی موشگافیوں کی دُکانیں کھول رکھی تھیں، باقی عرب فکر کے لحاظ سے ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا، مکہ اور طائف کے مہاجنوں نے سود کے جال پھیلا رکھے تھے، غلام سازی کا منحوس ادارہ دھوم دھڑلے سے چل رہا تھا، حاصل مدعا یہ کہ انسان خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گر کر درندوں اور چوپایوں کی شان سے جی رہا تھا، جو زور والا تھا اس نے کمزوروں کو بھیڑ، بکریوں کے گلوں کی طرح قابو میں کر رکھا تھا اور کمزور، قوت والوں کے قدموں میں سجدہ پاش تھے۔
یہ تھے حالات جن میں حضرت محمدﷺ عظیم ترین تبدیلی کا پیغام لے کر یکہ و تنہا اُٹھتے ہیں۔ ایسے مایوس کن حالات میں کوئی دوسرا ہوتا تو شاید زندگی سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ دُنیا میں ایسے نیک اور حساس لوگ بکثرت پائے گئے ہیں جنھوں نے بدی سے نفرت کی مگر وہ بدی کا مقابلہ کرنے پر تیار نہ ہوسکے اور اپنی جان کی سلامتی کے لیے تمدن سے کنارہ کش ہو کر غاروں، کھوہوں میں پناہ گزیں ہوئے اور جوگی اور راہب بن گئے، مگر حضورﷺ نے انسانیت کی نیا کو طوفانی موجوں میں ہچکولے کھاتے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کی، بلکہ بدی کے ہلاکت انگیز گردابوں سے لڑ کر ساری اولاد آدم کے لیے نجات کا راستہ کھولا، تمدن کی کشتی کی پتوار سنبھالی اور پھر اسے ساحل مراد کی طرف رواں کر دیا۔
روم اور ایران کی دو بڑی ٹکراتی ہوئی تمدنی طاقتوں نے جو بحران پیدا کر دیا تھا، اسے توڑنے کے لیے آپﷺ ایک تیسری طاقت بن کر اُٹھے اور آہستہ آہستہ یہ تیسری طاقت جب اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی تو اس نے روم و ایران دونوں کو چیلنج کیا، دونوں کی مرعوب کن قیادتوں کے تخت اُلٹ دیے اور عوام الناس کو خوفناک تمدنی قفس سے نکال کر آزاد فضائوں میں اُڑان کا موقع دیا۔ اولاد آدم کے سامنے ایک راہ نجات کھل گئی، کاروان زندگی جو رہزنوں کے درمیان گھرا کھڑا تھا، وہ پھر فلاح و ارتقا کی راہوں پر گامزن ہوگیا۔ یوں رسول پاکﷺ خلق خدا کے لیے نجات دہندہ بن کر تشریف لائے۔
دُنیا میں اگر آج ہم مسلمانوں کا وجود ہے تو یہ اسی ہستی کی جانفشانیوں کے طفیل ہے۔ آج اگر سچائی اور نیکی کا کلمہ ہمارے سینوں میں نور افگن ہے تو یہ اسی مقدس وجود کا فیضان ہے۔ آج اگر زندگی کی صلاح و فلاح کے لیے ایک اُصولی ضابطہ انسانیت کے سامنے موجود ہے تو یہ محمدﷺ کی جدو جہد کا ثمرہ ہے۔ آج اگر زندگی کا ایک بہترین نمونہ و معیار ہماری نگاہوں کے سامنے پر تو انداز ہے تو یہ نبی اکرمﷺ کا ہی پیش کردہ ہے۔ آج اگر ہمارے سینوں میں تحریک اسلامی کے احیا کے ولولے کروٹ لے سکتے ہیں، تو اسی محبوب شخصیت کی قربانیوں کی جذبہ انگیز یاد ہی سے لے سکتے ہیں۔ آج اگر ہم اسلامی انقلاب برپا کرنے کا انداز و اُسلوب سیکھ سکتے ہیں، تو اسی خدائی راہنما کی کشمکش کی روداد ہی سے سیکھ سکتے ہیں۔ آج اگر ابنائے آدم کو حقیقت کی شعور افزا کرنیں اخلاق کی لازوال قدریں اور زندگی کی فلاح کے اٹل اُصول ہاتھ آسکتے ہیں تو حضرت محمدﷺ کی بارگاہ ہی سے ہاتھ آسکتے ہیں۔ محسنِ انسانیت جیسا داعی اور معلم اور مربی اور قائد اگر نہ مبعوث ہوا ہوتا تو کبھی کار عظیم اس دور ظلمت و جہل میں سر انجام نہ پاسکتا۔ حضورﷺ ہی سارے انقلاب کی رُوح تھے!!
/channel/ilmokitab
عدلیہ میں علماء کا کردار
بیان وآواز: ڈاکٹر محمد الغزالی مرحوم
( سابق پروفیسر اسلاک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=adliyah-may-ulama-ka-kirdar, Adliyah May Ulama Ka Kirdar
علامہ محمد ابراہیم بلیاوی(وفات ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء) تحریر مولانا محمد یوسف بنوریؒ
Читать полностью…یہ فقرہ سنتے ہی حاضرین و سامعین کی طرف سے داد و تحسین کا شور مچ جاتا۔ دیر تک تالیاں بجتی رہتیں۔
قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حزبِ اختلاف کا اخبار روزنامہ’جسارت‘عوامی جمہوری حکومت کے عتاب کا مسلسل شکار رہا۔ اِدھر عدالت اخبار کا ڈیکلریشن بحال کرتی، اُس کے پبلشر سید ذاکرعلی (مرحوم) اور ایڈیٹر محمد صلاح الدین (شہید) کو جیل سے رہا کرتی، اُدھر جیل کے دروازے ہی پر کوئی پولیس آفیسر اخبار کی بندش کا ایک نیا حکم نامہ اور نئے وارنٹ گرفتاری لیے موجود رہتا۔ اخبار کے ملازمین اور قارئین پروفیسر عبدالغفور احمد سے اجتماعات میں اکثر پوچھا کرتے :
’’جسارت کب نکلے گا؟‘‘
پروفیسر صاحب فرمایاکرتے:
’’بھٹو اور جسارت ساتھ نکلیں گے‘‘۔
اور یہی ہوا۔ وہ حقیقی معنوں میں ’قومی رہنما‘ تھے۔قوم کے درمیان رہتے تھے۔ مسجدوں میں، محلے کی گلیوں میں،بعض اوقات بسوں میں اور خود اُن کے گھرپر قوم کا ہر فرد اُن سے بے روک ٹوک مل سکتاتھا۔کہیں کوئی دربان، کوئی محافظ، کوئی مسلح گارڈیاکوئی ’سکریٹری‘ اُن کے اور عوام کے درمیان کی دیوار نہ تھا۔تمام قومی جماعتوں کے رہنما اور کارکنان اُن کا یکساں احترام کرتے تھے۔ وہ پوری قوم کے تمام طبقات کے یکساں بہی خواہ،یکساں ہمدرد اوریکساں غم گسار تھے۔
ہمارے جن قومی رہنماؤں نے اُن کے انتقال پر تعزیتی بیان جاری کرتے ہوئے پروفیسر صاحب کی ان صفات کی تعریف کی ہے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ ان صفات کی محض تعریف کرنے کی بجائے انھیں اپنے اندر پیدا کرنے کی بھی کوشش کریں؟
/channel/ilmokitab
شمس الرحمن فاروقی(وفات ۲۵ دسمبر ۲۰۲۰ء) ۔۔۔ تحریر غلام رضوی گردش
Читать полностью…*کیا ہم مسلمان ہیں (۲۶) ۔۔۔ اسلام ایک بے پناہ سچائی (دوسری قسط) *
*تحریر: شمس نوید عثمانی*
یہ سہیل کی زندگی کا وہ پہلا دن تھا جب ان کی زبان نے حضور کے اخلاق کو بے ساختہ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا " محمد (ﷺ) کبھی بھی برے نہ تھے - میں نے اُن کو بچپن میں بھی نیک دیکھا تھا اور بڑے ہو کر بھی ان کو نیک ہی پارہا ہوں ۔" یہ الفاظ کسی شاعر کے الفاظ نہ تھے___ یہ کسی چاہنے والے کی مبالغہ آرائی نہ تھی___ یہ کسی عزیز دوست کی اندھی محبت کا جوش نہ تھا___یہ دشمن جاں کے الفاظ تھے___ جو گھر کی خطرناک تنہائی میں چُھپا ہوا ایک انسان خود ہی کہ رہا تھا اور خود ہی سن رہا تھا___ نہیں! یہ زبان کی چند جنبشوں سے ڈھلے ہوئے الفاظ نہ تھے ۔ یہ دل کی دھڑکنیں تھیں___ یہ احساس حق کی زلزلہ انگیز دھمک تھی__ پہلی دھمک جو باطل اور جھوٹ کی ہٹ دھرمیوں کی ایک عمرِ دراز کی بنیادیں ہلا چکی تھی یہ نفرت و انتقام کی وہ آخری ہچکی تھی جو صرف حق آشنا ہونٹوں پر سنائی دیتی ہے آخر حق و صداقت کا یقینی اثر شروع ہوا اور اپنی تکمیل کے مرحلے طے کرنے لگا اور جنگ حنین سے واپسی پر آں حضرتﷺ نے دیکھا کہ سہیل کے لیے حق کی تڑپ اب نا قابلِ برداشت ہو چکی ہے ۔ وہ آئے___ عمر بھر کا دشمن آیا اور اس اسلام کے قدموں کو فرطِ شوق سے لپٹ گیا جس پر کبھی وہ ٹھوکروں کے نشانے لگانے میں زندگی کا واحد لطف محسوس کیا کرتا تھا ۔
احساسِ حق___ اعترافِ حق ہی کی منزل پر نہیں ٹھیرا اب وہ حق و صداقت کی قیمت چکانے کے لیے تلافیِ مافات کی حدت میں سلگ رہے تھے۔ وہ زندگی جو انہوں نے پورے فخرو تکبر کے ساتھ اسلام کی دشمنی میں گزاری تھی وہی زندگی اب ان کی نظر میں ایک "فرد جرم" تھی جس کا خیال کر کے وہ اس طرح بے کل ہو جاتے جیسے ان کے دل کی ایک ایک دھڑکن میں نشتر اُتر گئے ہوں ۔ عملی گناہوں کا کفارہ زبانی دینا منظور نہ تھا___عملی کفارے کے بعد بھی ان کی روح کسی طرح تسکین نہ پاتی تھی آخر قسمت نے ان کو وہ عظیم مواقع دیے جن کے ذریعہ ان کو ضمیر کی یہ پھانس نکال دینے کی حسین فرحت حاصل ہوئی حضورﷺ کی وفات کے بعد جب منافقوں اور ڈھلمل عقیدہ لوگوں نے ارتداد کا فتنہ اُٹھایا تو یہ سہیل تھے جو تلواروں کی چھاؤں میں جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے " اسلام___ اسلام !“ کا نعرۂ شوق بلند کرتے سنے گئے ۔ وہی سہیل جو اسلام کی بنیا دیں ڈھایا کرتے تھے اسلام کی گرتی ہوئی دیواروں کو اپنے پورے وجود کے سہارے روکنے کی دھن میں لپے جارہے تھے ۔ وہ شخص جو اسلام اور کفر کے دوراہے پر ننگی تلوار اٹھائے کبھی ایمان لانے والوں پر "بزن" بولنے کی وحشت ناکیوں میں گم تھا آج پوری قوت سے گرج رہا تھا "یا د رکھو"! جس شخص نے اسلام سے باہر ایک قدم نکلنے کا ارادہ کیا اس کا سر تن سے جدا کر کے خاک و خون میں لتھیڑ دوں گا" وہی سہیل جو کبھی اپنے بیٹے ابو جندل کو اسلام لانے کے جرم میں پابجولاں کر کے وحشیانہ مظالم ڈھایا کرتے تھے___ ہاں اسی سہیل ؓ نے اسلام کی راہ میں اپنے بیٹے عبداللہ ؓ کی گردن کٹا دی اور تعزیت کرنے والوں کو اس نعرۂ مستانہ سے گنگ کر دیا " میرا بیٹا شہادتِ حق کی راہ میں کام آیا ۔ مجھے مبارک باد دو ! میں کیسا خوش نصیب ہوں___ میں ایک شہید کا باپ ہوں جس کا بٹیا رسول کریم ﷺ کے ارشادات کے مطابق وہاں کام آئے گا جہاں کوئی کام نہیں آسکتا !___"
اسلام نے اس انسان کے سینے میں جذبات کا جوش ہی نہیں بصیرت و ہوش کا ٹھنڈا نور بھی بھر دیا تھا۔ کفر کی دولت میں جو شخص عصبیت کے زہر یلے ناگ کی طرح پھنکارتا تھا وہ خدا کی بندگی اور حق کی حلقہ بگوشی کے بعد اپنی انصاف پسندی اور حقیقت پسندانہ اعتدال میں اپنا جواب آپ تھا ۔ معرکۂ شام کے سلسلے میں جب حضرت عمر ابن الخطاب ؓ نے اپنی بزم مشاورت میں اس ترتیب سے لوگوں کو مشورے کے لیے بُلایا جس ترتیب سے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اس طرح غلاموں نے اپنے آقاؤں کے مقابلے میں شرفِ فضیلت اور تقدیم کا اعزاز حاصل کیا تو ابو سفیان ؓ کے اندازِ طبیعت پر یہ بات گراں گزری، سہیل کے لیے یہ واقعہ غیرتِ حق کو جوش میں لانے کے لیے کافی تھا۔ اگر چہ وہ خود اس مشورے میں تقدیم سے محروم لوگوں میں تھے لیکن اعلائے حق میں پہل کا شرف یہاں اُن کی تقدیر میں لکھا تھا۔
"اے لوگو!" سہیل ؓ کی نوائے حق بلند ہوئی___ ان سابقون الاولون ۔ کی تقدیم پر بگڑنے کے بجائے تمہیں اپنے آپ پر خفا ہونا چاہیے ! یہ وہ خوش نصیب ہیں جو اس وقت اسلام کے دوست تھے جب ہم اسلام کے بدترین دشمن تھے-" اسلام اب ایک مقناطیسی کشِش کی طرح ان کے قلب و دماغ کو مطالعۂ حق کی طرف کھینچے لیے جارہا تھا ۔ ایک طرف وہ جہاد کی راہوں میں خونِ حیات کے قطرے پیش کر رہے تھے تو دوسری طرف ان کی آنکھیں کتاب اللہ کے اوراق پر آنسوؤں کی بارش کر رہی تھیں .
/channel/ilmokitab
مندرجہ بالا شمارہ دوم میں خاص طور پر ’’سخن در سخن‘‘ کے عنوان سے مولانا ابوالکلام آزاد کے غیر مطبوعہ خطوط اس رسالے کی خاص سوغات ہے۔ جس کے بارے میں اداریے بعنوان ’’حرفے چند‘‘ میں لکھا گیا ہے: ’’اس بار ’’سخن درسخن‘‘ کی زینت مولانا کے غیرمطبوعہ خطوط ہیں۔ اگرچہ ان خطوں میں ’’غبارِ خاطر‘‘ اور ’’کاروانِ خیال‘‘
جیسا اُسلوبِ نگارش نہیں ملتا، مگر پھر بھی یہ خط قابلِ توجہ ہیں، کیونکہ ان میں چند علمی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ [صفحہ۴]
ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘ نے نومبر ۱۹۵۶ء کے شمارے میں ’’تخلیق‘‘ کے شمارہ کا تعارف ان الفاظ میں پیش کیا: ’’پہلا شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کی حقیقتوں سے فرار رکھنے والے ادب سے ہٹ کر ’’اچھا ادب‘‘ پیش کرنے کے ارادے ہیں۔ کسی نظریہ کی بندشوں سے ’’تخلیق‘‘ آزاد ہے۔ پہلے شمارے میں مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے نامور اور نوخیز دونوں ہی قسم کے احباب شریکِ ترتیب ہیں۔ مواد خاصا دلچسپ اور اشاعتی معیار بہتر ہے۔‘‘ [صفحہ۴۸]
٭٭٭٭
/channel/ilmokitab
ایک روز ایک دلچسپ واقعہ رُونما ہوا۔ یہ واقعہ خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں سنیے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ایک مرتبہ ایک فرانسیسی نَن نے تعدّد ازدواج کے متعلق اعتراض کیا۔میں نے اسے جواب دیا کہ اگراور لوگ مجھ پر یہ اعتراض کریں تو قبول، لیکن مجھے تم سے اِس اعتراض کی توقع نہیں تھی، کیوں کہ تمھارے اپنے عیسائی مذہب کے مطابق نن خدا کی بیوی کہلاتی ہے۔ اس طرح تمھارے شوہرکی تو لاکھوں بیویاں ہیں، جب کہ تم صرف چار بیویوں کے باعث مجھ پر معترض ہو‘‘۔
(واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ایک بھی بیوی نہیں تھی۔ اُنھوں نے تمام عمر شادی ہی نہیں کی۔اُن کی شادی تحقیق و تصنیف و تالیف سے جو ہوگئی تھی۔ اُنھوں نے اپنی تمام عمر اِسی مشغلے میں کھپادی)۔
اوپر کا واقعہ سنانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا:’’اِس بات کا اُس کے دل پر اتنا اثرہوا کہ دوسال کی خط و کتابت کے بعد اُس نے اپنا کانونٹ (Convent)چھوڑ دیا اور مسلمان ہوگئی۔ الحمدﷲ اب وہ حاجی طاہرہ کے نام سے پکاری جاتی ہے‘‘۔
ایک بار اپنے لیکچر میں اُنھوں نے بتایا کہ Astrology (علمِ نجوم) اور Astronomy (علم فلکیات) میں بڑا فرق ہے۔ ضمناً اپناایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا:
’’ایک مرتبہ پیرس میں میرا ہاتھ دیکھ کرکسی نے کہا کہ تمھیں دو بیویاں ہونی چاہییں۔دوسرے نے کہا تم وزیر اعظم بنوگے۔ان میں سے ایک بات بھی اب تک تحقیق پزیر نہیں ہوئی۔ظاہر ہے کہ مجھے اس علم پر اعتقاد نہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے ’عدم اعتقاد‘ کے اعلان کے باوجود ایک صاحب نے پوچھ لیا:
’’کہتے ہیں کہ ستاروں کا اثر انسان کی عملی زندگی پر بہت گہرا ہے۔اس سلسلے میں مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں نجومیوں کی باتوں پر کہاں تک یقین کرنا چاہیے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات کی دوبارہ وضاحت کی اوریہ دلچسپ قصہ سنایا:
’’چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ ایک عیسائی انجمن نے پیرس میں مجھے ایک جلسے میں شرکت کی دعوت دی اور وہاں پر ایک فرانسیسی عیسائی عورت نے مجھ سے سوال کیا:’آج کل مسلمانوں کے یہاں دینی عبادات کا کیا حال ہے؟‘میں نے کہا: ’کچھ عرصہ پہلے پیرس کے مسلمان نماز روزے پر کم توجہ دیتے تھے، اب ان میں روز افزوں شوق نظر آتاہے‘۔[وہ بولی] ’ہمارے یہاں بھی یہی حال ہے۔پہلے گرجے خالی رہتے تھے۔اب گرجے میں جگہ بھی نہیں ملتی۔اس کی کیا توجیہ کریں گے؟ اس کو سوائے ستاروں کی گردش کے اثرکے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب کی جگہ اگر ہم ہوتے تو اُس ’مادام‘ کی فوراً تائید کرتے کہ:
’’اگر پیرس کے لوگ ’اوپیرا‘ چھوڑ چھوڑکر گرجوں کی طرف بھاگنے لگے ہیں تو یقینا ان کے ستارے گردش میں آگئے ہیں‘‘۔
ایک لیکچر میں ڈاکٹر حمیداﷲ مرحوم نے مسلمانوں کے اندر رواج پاجانے والی ’قبرپرستی‘ کے خلاف کچھ باتیں کہیں۔ ایک ایسے دوست بھی وہاں موجود تھے جو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔اُنھوں نے ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا:’’اولیاء اﷲ کی قبروں پر جاکر السلام علیکم یا اہل القبور کہنا، فاتحہ پڑھنا اور اُن کے طفیل سے خدا سے فضل وکرم کی التجا کرنا، کیا یہ اُمور بھی قبرپرستی میں شامل ہیں؟‘‘
ڈاکٹرصاحب نے بڑا دل نشین اور دلچسپ جواب دیا:’’میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مزارات کی زیارت فرماتے تھے۔رسول اﷲ ؐ … ’السلام علیکم یا اہل القبور‘… کہاکرتے تھے۔ اُن کے لیے فاتحہ پڑھتے تھے۔ تو میں اگر ایسا کروں تو سنت ہی کی پیروی ہوگی۔ بدعت اور جدید چیز نہ ہوگی۔ باقی، کسی کے طفیل سے اﷲ کے فضل وکرم کی التجا کرنا یہ نیت پر منحصر ہے۔اگرآپ یہ خیال ظاہر کریں کہ میں اس صاحبِ قبر کو رشوت دے چکا ہوں، اس پر پھول چڑھا چکاہوں، لہٰذا ان کا فرض ہے کہ جو چیز اﷲ میاں نہیں چاہتے، وہ کرڈالیں، یہ چیز شرک ہوگی‘‘۔
ایک سوال یہ تھا: ’’مرحوم کی قل خوانی اور چہلم کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا:
’’میں عرض کر چکاہوںکہ اگر کسی کی وفات کے تیسرے دن،دسویں دن، چالیسویں دن ہم کچھ کرنا چاہیں تووہ کام یہ ہونا چاہیے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت کریں اور اس کا ثواب متوفیٰ شخص کو پہنچانے کی اﷲ سے دعا کریں۔ اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔چاہے ہر روز کریں چاہے ہرسال، چاہے ابتداء ً متعدد بار کریں۔کوئی امر مانع نہیں ہوتااور میرے مرنے کے بعد اگر آپ میرے لیے بھی دعا کریں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا‘‘۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِر لَہٗ (آمین)
(احمد حاطب صدیقی کے خاکوں کے مجموعے"جواکثر یاد آتے ہیں سے ایک خاکہ"
/channel/ilmokitab
*تمہارے شوہر کی تو لاکھوں بیویاں ہیں۔۔۔ (ڈاکٹر حمیداللہ سے وابستہ یادیں)۔۔۔ تحریر: احمد حاطب صدیقی*
اسلام آباد کی ایک روشن، چمکیلی صبح تھی۔نیل گُوں اور بسیط آسمان پر جابجا روئی کے گالوں جیسے بادل اُڑتے چلے جارہے تھے۔ مرگلہ کی سرسبز و شاداب پہاڑیوں سے لگی ہوئی سفید براق فیصل مسجد کے مینار اِس منظر میں ایک باوقار شان سے کھڑے تھے۔ فیصل مسجد اسلام آباد کے پورے منظر پر چھائی ہوئی تھی۔قریبی بستیوں کے اونچے مکانوں کی چھتیں نقرئی دھوپ سے جگمگا رہی تھیں۔جھومتے لہلہاتے درختوں کے کارواں سڑک کے کنارے موج زن تھے۔تارکول کی چمکتی سڑک پر قسما قسم کی گاڑیاں زنازن دوڑتی چلی جارہی تھیں۔ فضاخوش گوارتھی اور ہوا میں خوشبو رچی ہوئی تھی۔ تازہ کھلے ہوئے گلاب کے پھولوں کی مہک سے ماحول معطر تھا۔ طالب علم تیز تیز چلتا ہوا بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر دروازے سے داخل ہوااور اس کی سماعت گاہ کے پُر ہجوم دروازے سے اندر جانے کی جد و جہد میں مصروف ہوگیا۔ سماعت گاہ اپنی پوری گولائی میں سامعین سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔اسٹیج کے فرش پر بھی لوگ براجمان تھے۔کہیں اکیلا سامع دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔
نشستوں کی درمیانی راہ داری سے گزرتے ہوئے اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہے تھے کہ کہیں ذرا اٹکنے کی جگہ بھی مل جائے تو جا اٹکیں۔ اتنے میں کنارے کی ایک نشست پر قابض ایک دوست نے دست گیری بلکہ ’دامن گیری‘ کی اور کھینچ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بیٹھتے ہی اسٹیج پر نظر ڈالی اور بھونچکے رہ گئے:
’’یااﷲ! یہ ہیں ڈاکٹر حمید اﷲ پیرس؟‘‘
ہمارے دوست نے اپنے کان پر اپنے ہاتھ کا چھجا بنایا اور ہمارے کان میں اپنا منہ گھسا کر فرمایا:
’’میاں!ان کا نام ڈاکٹر محمد حمیداﷲ ہے۔ پیرس میں رہتے ہیں۔پیرس ان کے نام میں شامل نہیں‘‘۔
ہم نے بھی اُن کے ’کان میں پھسپھساتے‘ ہوئے عرض کیا:
’’اِس عاجز نے جس رسالے میں بھی ان کا نام پڑھا ’ڈاکٹر حمیداﷲ پیرس‘ ہی پڑھا۔شروع شروع میں تعجب ہوا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ تعجب ایک تفنن میں تبدیل ہوگیا۔ اب یہ حقیر جب بھی ان کا تذکرہ کر تاہے، انہیں ادب سے ’ڈاکٹر حمیداﷲ پیرس‘ ہی کہا کرتاہے‘‘۔
یہ سن کر اُنھوں نے بمشکل اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا اور فرمایا:
’’خدا تمھیں مزید حقیر کرے۔ تمھارے مسخرے پن کی مار بھی کہاں کہاں تک ہے، استغفر اﷲ!‘‘
پھر اچانک چونک کر پوچھا:
’’انھیں دیکھ کر تمھیں اس قدر شدید حیرت کیوں ہوئی ؟‘‘
عرض کیا: ’’جب پہلی بار ان کی دل میں اُتر جانے والی شگفتہ مگر عمیق تحریروں کا مطالعہ کیا تو … ’کھینچ لی اُن کی تصویر دل نے مرے‘ …کہ جسم نہایت بھاری بھرکم ہوگا … (مولانا فضل الرحمٰن سے کچھ ہی کم) …سینہ بہت چوڑا چکلا اور بہت کشادہ ہوگا…ڈاڑھی دونوں شانوں اور پورے سینے پر مورچھل بنائے پھیلی ہوگی…موٹے تازے گول چہرے پر ایک اونچا صافہ اور علمی خشونت طاری ہوگی … مگر…‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
’’یہ تو بالکل ہماری طرح سینک سلائی ہیں… بہت دُبلے، بہت پتلے …ڈاڑھی ہلکی پھلکی سی ہے … ’نقشِ چغتائی ہیں، لمبائی ہی لمبائی ہیں‘ … سرپر صافے کی جگہ جناح کیپ ہے …شیروانی اور پاجامے میں ملبوس ہیں … چہرہ بھی کتابی ہے …اﷲ جانے ہمیشہ سے ایسا ہی تھا یا کتابوں کے بیچ بسر کرتے کرتے کتابی ہوگیا ہے… ’جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد‘ … والا قصہ تو نہیں ہوگیا؟‘‘
اُس روز ڈاکٹر صاحب سے ہماری بالمشافہ اور ’بالمصافحہ‘ پہلی ملاقات تھی۔ بس وہ خوشگوار سی کیفیت یاد ہے جو ایک پُر تشکر اور پُرتفاخر احساس پیدا کر دیتی ہے۔ وہ عظیم محقق، مصنف، مؤلف، مفسر اور مبلغ جس پر … ’ہم کب سے فدا تھے بِن دیکھے‘ … اُس دِن ہم نے اپنے تئیں دیکھا کہ … ’آج اُسی کے سامنے ’’ہیں‘‘ اور بھری محفل میں ہیں‘ …بولتے سنا تو یوں محسوس ہوا کہ اُن کی اپنی لکھی ہوئی کوئی کتاب خود اپنے آپ کو پڑھ کر سنا رہی ہے۔وہی لہجہ، وہی انکسار… ’وہی ہیبت، وہی شوکت، وہی شانِ دِل آرائی‘… طرزِ تقریر بھی بالکل طرزِ تحریر جیسا۔
اُس تقریب میں ہم نے ایک دلچسپ منظر دیکھا۔ڈاکٹر حمیداﷲ، جو بہت سے معاملات میں، مثلاً موسیقی کے معاملے میں یا عورت کی (مردوں کے لیے) امامت کے معاملے میں، ’کٹر مولویوں‘ سے کچھ مختلف مجتہدانہ رائے رکھتے ہیں،اپنی تصویر کھنچوانے سے سخت محترز تھے۔ پہلے تو اُنھوں نے، سماعت گاہ میں یکایک ’بھربھرا کر‘ گھس آنے والے غول در غول کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافروں کو ڈانٹ ڈپٹ کر اپنی تصویر کھینچنے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور بہت دلچسپ فقرہ کہا:
’’اگر آپ کو میرے خیالات سننے سے دلچسپی ہے تو انھیں سُنیے۔میری تصویرکھینچنے سے آپ کو کیا دلچسپی ہے؟‘‘
ملفوظات حکیم الامت میں مولانا تھانوی کی زبانی یہ واقعہ مرقوم ہے:
’’کانپور میں ایک شخص نے میرے سامنے اہل بدعت کی برائی کرنا شروع کیا۔ میں نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ پھر اس نے غیرمقلد کی برائیاں شروع کیں۔ میں ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ اس نے متحیر ہو کر پوچھا، آخر آپ کا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا میرا مذہب یہ آیات قرآن ہیں:کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُھدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔’’ کسی قوم کا غصہ تم کو اس بات پر آمادہ نے کرے کہ نہ تم انصاف کرو بلکہ تمھیں انصاف کرنا چاہیے۔ وہی تقویٰ کے قریب ہے۔‘‘
(تحفۃ العلماء:افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ، مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۲۲۳)
پیش کش: ڈاکٹر وارث مظہری صاحب۔
*بات سے بات: سید مہر علی شاہ گولڑوی اور تصوف*
*تحریر: عبد المتین منیری ( بھٹکل)*
ہمیں کسی کے بھی بارے میں عمومی رائے دینے میں احتیاط برتنی چاہئے،اور کسی مسلک کو کسی کے مد مقابل لا کر فیصلہ نہیں کرنا چاہئے، بر صغیر میں تصوف کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، ایک تصوف وہ ہے جو ہمارے اکابر ،علمائے دیوبند کے یہاں رائج ہے، جس کی نمائندگی خاص طور پرحضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کرتے ہیں، اس میں تزکیہ نفس اور اصلاح نفس کے پہلو کو غلبہ حاصل ہے، اسے مولانا سید ابو الحسن ندویؒ اور مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے اپنی کتابوں میں تزکیہ واحسان یا تصوف وسلوک سے تعبیر کیا ہے، اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن القیم ؒ کی کتابوں میں اسے ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
انہیں چھوڑ دیں تو پھربرصغیر میں پھیلے گدی نشین اور بریلوی مکتب فکر کے ماننے والے ملتے ہیں، گدی نشینوں کا ایک بڑا طبقہ بدعات و خرافات میں گھرا ہوا ہے جو شرک کی سرحدوں کو چھوتا ہے، لیکن ان کے یہاں دوسروں کے لئے نفرت اور تکفیر کا پہلو غالب نہیں ہے،یہ اپنا پیغام محبت ہے کے داعی ہیں۔
بریلوی مکتب فکر بھی گدی نشین تصوف کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن اس میں تکفیر اور منافرت کے مادے نے اسے کریلا نیم چڑھا بنا دیا ہے، کچھ اس طرح سے کہ پہلے برادران وطن میں دوسروں سے منافرت کا پہلو نہیں پایا جاتا تھا،یہ اپنے حال میں مست ہوا کرتے تھے، لیکن آر یس یس کی تحریک نے گزشتہ ایک صدی دوران آہستہ آہستہ ان میں منافرت کا زہربھرنا شروع کیا ، اب روز بروز منافرت کے اس روئے کو اپنانے والوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے، کچھ یہی حال بریلویت کا بھی ہے، آہستہ آہستہ عام گدی نشینوں پر بھی بریلویت کی چھاپ پڑنے لگی ہے، اور یہ بھی بریلویت کی چھتر چھایا میں داخل ہوچکے ہیں،سندھ، پنجاب، گجرات ، اجمیر، حیدرآباد دکن ، چنئی (مدراس ) ، بیدر، بیجاپور، گلبرگہ، ویلور، وغیرہ بہت ساری جگہوں پر جہاں گدی نشینی پائی جاتی تھی، پہلے وہاں پر بدعات خوش عقیدگی اور محبت اور احترام میں غلو کا نام تھا، لیکن اب ان میں سے زیادہ تر بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی کرنے لگے ہیں۔
گولڑہ شریف کے مولانا سید مہر علی مرحوم کے یہاں وہ سب چیزیں پائی تھیں، جو عام طور پر گدی نشین صوفیوں میں پائی جاتی ہیں، ہمارے علماء و اکابر کو یہ معلوم ہونے کے باوجود ان کے ساتھ احترام کا معاملہ کرتے تھے، (ہمارے پاس حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری طیب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک ڈھائی گھنٹے کی مجلس ریکارڈ شدہ محفوظ ہے جس میں آپ نے علمائے دیوبند کے مختلف مسائل میں موقف کی وضاحت کی ہے، اس میں آپ نے اجمیر شریف کی زیارت اور وہاں کے سجادہ نشین کے آپ سے بڑے ہی عقیدت مندانہ سلوک کا تذکرہ کیا ہے)۔
اسی طرح مولانا منظور نعمانیؒ نے شاہ عبد العلیم میرٹھیؒ خلیفہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ ( والد ماجد مولانا شاہ احمد نورانیؒ) کا بھی احترام سے ذکر کیا ہے۔ مولانا سید مہر علی شاہؒ کو محبت رسولﷺ کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور عقیدہ ختم نبوت میں پختگی اور قادیانیت کے خلاف تحریک کے سلسلے میں ان کی خدمات کو بہت سراہا جاتا ہے۔
جب رد قادیانیت کا ذکر ہو تو پھر ہمیں مشرقی پنجاب کے (جہاں قادیان واقع ہے ) اہل حدیث علماء کی خدمات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے، مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم کی کتابوں کو دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کا سب سے بڑا نقصان اسی مکتب فکر کو ہوا ہے، کیونکہ اس وقت ان کی ساری جد وجہد امرتسر اور اطراف میں مرکوز تھی ، یہاں ان کے سینکڑوں علماء اور ادارے پائے جاتے تھے، لیکن تقسیم ہند کے فسادات نے انہیں خاکستر کردیا، اب اس مکتب فکر کے مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی خدمات کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا جاتا، ورنہ روز اول سے قادیانیت کا پیچھا کرنے، ان سے مناظرے کرنے، اور غلام احمد قادیانی سے مباہلہ تک کرنے میں ان کا موازنہ دوسروں سے کرنا بہت مشکل ہے،انہوں نے اپنی پوری زندگیاں اس مہم میں لگائی تھیں ،ہم نے حضرت مولانا عبد الستار اعظمیؒ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ) برادر مولانا عبد الجبار اعظمیؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ قاسمیہ شاہی مراد آباد سے سنا کہ اہل حدیث عالم دین مولانا میرابراہیم سیالکوٹیؒ کا درجہ مناظرے میں مولانا امرتسریؒ سے بھی بڑاتھا، مولانا سیالکوٹی جب کسی نکتہ کو دانتوں سے پکڑتے تھے، تو پھر فریق مخالف کو اس کا چھڑانا ناممکن ہو جاتا تھا۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ برصغیر میں تصوف سے نسبت رکھنے والی اکثریت کا تعلق گدی نشینوں اور مزارات کے ماننے والوں کی ہے، جس تصوف کو ہمارے اکابر تصوف وسلوک سے تعبیر کرتے ہیں، اسے ماننے والے اقلیت میں ہیں، اور ہمیشہ حکم اکثریت پر ہواکرتا ہے، اس بزم میں جتنے احباب ہیں انہوں نے ان اکابر کی کتابیں پڑھی ہیں یا ان کی مجلسوں کو سنا ہے جن
" ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ دیہاتی لوگ بعض دفعہ ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ بڑے بڑے علامہ دیکھتے ہیں رہ جاتے ہیں، میں نے ایک عامی شخص سے جو کسی کے ساتھ راستہ میں جارہا تھا، یہ سنا کہ " بھائی جب بدی ( برائی ) کرنے والا بدی ( برائی ) کو نہیں چھوڑتا، تو نیکی کو کیوں چھوڑتے ہو؟! " اسی طرح ایک شخص سے تحریک خلافت کے زمانہ میں ریل میں سنا، یہ شخص دیہاتی تھا، کسی سے کہہ رہا تھا کہ " میاں ایک رہو اور نیک رہو، پھر کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا" کتنی زبردست علمی بات کو دو لفظوں میں بیان کردیا!! " ۔
( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 3، صفحہ نمبر: 105 ) ۔
/channel/ilmokitab
فن خطاطی کا کمال
معصوم مرادآبادی
خطاطی کا فن اپنے حسنو زیبائش، دلکشی ورعنائی کے سبب صدیوں سے زندہ ہے۔ یوں تو اس فن میں کمال حاصل کرنے والے ہردور میں پیدا ہوتے رہے ہیں،لیکن جب سے خطاطی اور کتابت کا فن کمپیوٹر کے قالب میں ڈھلا ہے، تب سے اس فن کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی ہے۔ اب نہ تو ویسے خطاط ہیں اور نہ ہی اس فن کے قدردان۔ایسے نامساعد حالات میں اگر کوئی خطاط اپنے فن کا جادو جگارہا ہے تو بلاشبہ لائق تحسین ہے اور اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ آج ہم آپ کی ملاقات ایسے ہی ایک فن کا ر سے کرائیں گے جس نے کمپیوٹر کے اس دور میں دستی ہنر سے نام پیدا کیا ہے۔ یہ فن کار ہیں منوراعظمی، جو اترپردیش کے ایک دور دراز شہر مؤ ناتھ بھنجن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی انگلیوں میں قدرت نے ایسا کمال پیدا کیا ہے کہ وہ جب قرطاس پراپنے فن کے جو ہر دکھاتے ہیں تو دیدہ زیب اور دلکش فن پارے وجود میں آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی فن پاروں کو عالمی سطح کی نمائشوں میں جگہ دی گئی ہے۔منور اعظمیفن خطاطی کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے ہاں روایت وجدت کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ راقم الحروف بھی چونکہ برسوں اس فن کا اسیر رہا ہے، اس لیے وہ اس کی باریکیوں اور خوبیوں سیبخوبی واقف ہے۔منور اعظمی کے تفصیلی ذکر سے پہلے آئیے اس فن کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔
1981 میں جب اردو سافٹ وئیرنوری نستعلیق وجود میں آیا تو بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ اب دستی کتابت کا فن دم توڑ دے گااور کتابت کرنا ایک خواب بن جائے گا، لیکن کتابت اور خطاطی کے فن میں جو کشش ہے، اس سے نہ صرف اس فن میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہی بلکہ نئے نئے فن کار بھی پیدا ہوئے۔ یوں تو تمام ہی فنون لطیفہ اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان میں خطاطی ایک ایسا فن ہے جس نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اسلام میں تصویر کشی اور مصوری کی ممناعت تھی۔ مسلمانوں نے اپنے آرائش وزیبائش کے جذبہ کی تسکین کی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فن خطاطی کا سہارا لیا اور اس فن کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ یہ فن اہل ذوق کی سرپرستی میں پروان چڑھا اور بادشاہوں سے لے کر فقیروں تک کے لیے اس میں کمال پیدا کرنا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ایک اعزاز تصور کیا جانے لگا۔اگر آپ ہندوستان میں اس فن کے ارتقاء کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ جب مسلمان ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ اس فن کو بھی لائے۔ اس طرح ہندوستان میں اس فن کی تاریخ تقریباً ایک ہزار برسوں کو محیط ہے۔ہر مسلمان بادشاہ نے اس میں دلچسپی لی اور ہندوستان میں جو عظیم الشان عمارتیں بنائیں، ان پر اپنے وقت کے بہترین خطاطوں سے قرآنی آیات کندہ کرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطب مینا ر سے تاج محل تک ہمیں اس فن کے بہترین نقوش نظر آتے ہیں۔
ہندوستان میں مغلیہ عہد کواس فن کے عروج کا سنہرا دور کہا جاسکتا ہے۔ مغل دور کی جتنی بھی عمارتیں، مسجدیں، مقبرے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں اس فن کے جو ہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ خاص طور پر شاہجہاں نے اپنی تعمیرکردہ تمام ہی عمارتوں میں اعلیٰ درجہ کے خطاطوں سے کام لیا۔تاج محل ہو یا شاہجہانی جامع مسجدیا اس دور کی دیگر عمارتیں ان میں خطاطی کے شاہکار نظر آتے ہیں۔ اس دور کی عمارتیں جہاں فن تعمیر کی اعلیٰ مثال ہیں تو وہیں ان پر کی گئی خطاطی بھی اپنی مثال آپ ہے۔کئی بادشاہ ایسے بھی تھے جنھوں نے ازخود اس فن میں کمال حاصل کیا۔ یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب اپنے زمانے کا بہترین خطاط تھا اوروہ اپنا ذاتی گذر بسر قرآن پاک کی کتابت سے حاصلشدہ معاوضے سے کرتا تھا۔ قرآنی خطاطی کی بھی ایک مستقل اور توانا تاریخ ہے۔ کئی مسلم بادشاہوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے قرآن مجید عجائب گھروں اور لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔
منور اعظمی نے ایک دور دراز علاقہ میں رہ کر اپنے فن میں کمال حاصل کیا ہے۔ وہ یوں تو تمام ہی خطوط پر ملکہ رکھتے ہیں، لیکن خط ثلث میں طغرہ نویسی پرانھیں جو مہارت حاصل ہے، وہ آج کے خطاطوں میں کم ہی نظر آتی ہے۔ حالانکہ آج بھی ملک کے کئی حصوں میں کتابت اور خطاطی سکھانے کے مراکز سرگرم ہیں، لیکن یہاں وہ بات نہیں پائی جاتی۔منور اعظمی نے کسی سرپرستی کے بغیر جو کچھ کردکھایا ہے، وہ اس فن سے ان کے گہرے شغف کا ترثبوت ہے۔ ان کی پیدائش 6/جون 1964کو مؤ کے محلہ بلاقی پورہ میں ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔بعدازاں مقامی مدرسہ دارالعلوم مؤ میں پرائمری میں داخلہ لیا اور وہیں الہ آباد بورڈ سے منشی، مولوی اور کامل کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن فراغت مدرسہ جامعہ عربیہ دارالعلوم مؤ سے ہوئی۔
مولانا محمد طاسینؒ نے جس دن سے اس ادارے کی ذمے داری سنبھالی، انہوں نے اس کے کتب خانے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، اور اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال یا اس سے بھی زیادہ اس ادارے کے بنانے اور اس کی خدمت کرنے میں صرف کیے۔ وہ انتہائی محبت سے اس کتب خانے کے لیے کتابیں جمع کرتے رہتے تھے۔ ان کتابوں کو پڑھتے تھے۔ استفادہ کرتے تھے۔ دوسرے اہلِ علم کی رہ نمائی کرتے تھے اور پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے محققین، اساتذہ اور طلبہ کی مدد اور رہ نمائی کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کی ذمے داریوں میں یہ چیز شامل تھی کہ وہ ادارے میں آنے والے محقق طلبہ کی مدد کریں، لیکن جس انداز سےعلامہ محمد طاسینؒ ان کاموں کو کرتے تھے، وہ محض انتظامی ذمے داری نبھانے کے لیے نہیں بل کہ اس میں مولانا کا ذاتی ذوق، جذبہ اور علم دوستی کی جھلک بھی نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔جو شخص ایک مرتبہ علامہ طاسینؒ سے استفادے کے لیے کتب خانے میں چلا گیا، اس کی علامہ طاسین سے ہمیشہ کے لیے دوستی ہوگئی۔ پھر علامہ طاسینؒ اور ان کے درمیان تعلق کی وہ نوعیت قائم ہوئی جو صرف اہلِ علم کے درمیان قائم ہوسکتی ہے۔ جس کا محرّک کوئی مادی، انتظامی یا ذاتی فائدہ نہیں ہوتا بل کہ جس کی بنیاد صرف علم دوستی ہی ہوتی ہے۔جس زمانے میں اسلامی نظریاتی کونسل ان مختلف موضوعات پر کام کر رہی تھی، اس زمانے میں نہ صرف مولانا کی اپنی تحقیق اور اُن کے علمی کارنامے اسلامی نظریاتی کونسل کے کام آئے، بل کہ مجلس ِ علمی کا کتب خانہ بھی مولانا نے اس کام کے لیے وقف کردیا۔ اور نہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل بل کہ جو بھی ایسے ادارے تھے، جہاں اسلامی قوانین کی تحقیق اور تدوین پر کام ہورہا ہو اور وہاں کسی کتاب کی ضرورت ہو تو مولانا کا ادارہ یعنی مجلس ِ علمی اس کام کے لیے ہر وقت آمادہ اور تیار رہتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی بار وفاقی شرعی عدالت میں اور کئی دوسرے اداروں میں علامہ طاسینؒ کی خدمات سے استفادے کے مواقع پیدا ہوئے۔ ان کے ادارے سے کتابوں کی فراہمی میں مدد ملی اور ایسا تحقیقی مواد اُن کے ذریعے سامنے آیا جن کی وجہ سے مسائل کو حل کرنے میں بڑی مدد ملی۔
۱۹۹۸ء میں جب مجھے کچھ عرصے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بینچ میں کام کرنے کا موقع ملا اور اسی زمانے میں ربا سے متعلق مشہور اپیل کی سماعت شروع ہوئی تو مولانا کے بعض اہم تحقیقی مقالات جو غیر مطبوعہ تھے، شریعت اپیلٹ بینچ کی مدد کے لیے اُن کے صاحب زادے نے پیش کیے، جو مولانا کے کئی سال کے مطالعے کا نچوڑ تھے اور اُن کی طویل تحقیقات پر مبنی تھے۔ انہوں نے مضاربہ اور مشارکہ کے علاوہ اسلامی بینکاری پر اور بعض ایسے موضوعات پر جو دورِ جدید میں اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق تھے، بہت تفصیل اور گہرائی کے ساتھ غوروخوض کیا۔ اس سلسلے میں مولانا کی رائے بقیہ اہلِ علم کی رائے سے بہت حد تک مختلف تھی۔ اس لیے مولانا کی رائے سے وسیع پیمانے پر تو استفادہ نہیں کیا جاسکا لیکن جو تحقیقی مواد اُنہوں نے تیار کیا تھا، بہت سے لوگوں کو اس سے استفادے کا موقع ملا۔ کئی معاملات میں نہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان بل کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے صاحبان کو اپنے خیالات کو مزید پختہ کرنے کا موقع ملا۔
علامہ محمد طاسینؒ کی ایک خاص خوبی، جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، وہ یہ تھی کہ انہوں نے ایک طرف اپنے خیالات میں خاصی پختگی پیدا کی تھی لیکن اس کے باوجود اختلافِ رائے کو نہ صرف برداشت کرتے تھے، بل کہ اس کا خیر مقدم بھی کیا کرتے تھے۔ وہ ان تمام لوگوں سےگفت گوکے لیے تیار رہتے تھے، جو اُن سے مختلف رائے رکھتے ہوں۔ اس سے اُن کے مزاج میں ایک ایسی وسعت اور فکر میں ایسی گہرائی پیدا ہوگئی تھی، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
علامہ محمد طاسینؒ رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
پیدائش:۱۹۲۰ء،ہری پور
وفات:۲۳دسمبر۱۹۹۸ء،کراچی
ماخذ: ماہ نامہ تعمیر افکار، کراچی:اشاعت خاص بیادعلامہ محمد طاسینؒ ،جون تا اگست۲۰۰۶ء
علامہ محمد طاسینؒ رحمۃ اللہ علیہ
مجھے یہ تو یاد نہیں کہ میں نے علامہ محمد طاسینؒعلامہ محمد طاسینؒ کو پہلے پہل کب دیکھا، لیکن اتنا یاد ہے کہ جب ۱۹۶۰ء میں، میں جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹائون میں داخل ہوا تو اُس کے کچھ دنوں بعد ہی علامہ محمد طاسینؒ کا نام کانوں میں پڑنے لگا تھا۔ غالباً وہ اس وقت جامعہ علومِ اسلامیہ کے، جو اُس وقت مدرسہ عربیہ اسلامیہ کہلاتا تھا، اعلیٰ تدریسی پروگراموں میں حصہ لیا کرتے تھے، اور اگر مجھے صحیح طرح سے یاد ہے تو درجۂ تکمیل کے بعض اسباق بھی اُن کے ذمے تھے۔
اس وقت بھی اُن کی شہرت ایک غیر معمولی عالم فاضل انسان کی تھی، جو اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے بانی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کے داماد اور قریبی عزیز ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جس شخصیت کو مولانا محمد یوسف بنوری ؒ نے اپنی رفاقت کے ساتھ ساتھ اپنی دامادی کے لیے بھی منتخب کیا ہو، اس کے علم و فضل کے بارے میں جو بھی تاثر نوجوان طلبہ اور کم سن عقیدت مندوں میں قائم ہوتا وہ حقیقت سے بعید نہ تھا۔
مولانا سے تعارف کا یہ غائبانہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔ ان سے بہ راہِ راست ملاقات اور استفادے کا تعلق ۷۱،۱۹۷۰ء کے سالوں میں قائم ہوایہ وہ زمانہ تھا جب میں نے نیا نیا ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں کام کا آغاز کیا تھا۔ اور مختلف علمی موضوعات پر لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے اور تحقیق کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس زمانے میں بعض کتابوں کی نشان دہی کے لیے مولانا عبدالقدوس ہاشمی ؒ کے مشورے سے علامہ محمد طاسینؒ مرحوم و مغفور سے رجوع کرنے کی نوبت آئی۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی مولانا سے رجوع کرنے کا اتفاق ہوا، انہوں نے انتہائی شفقت اور ہم دردی کے ساتھ مطلوبہ سوال اور استفسار کا جواب دیا۔ وہ ہمیشہ طالب کے لیے اپنا دامن کشادہ رکھتے تھے۔ ان کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا، اُن کے شب و روز اور ان کی ساری سرگرمیاں صرف اور صرف علم کے لیے ہیں۔۷۱۔۱۹۷۰ء سے لے کر ۱۹۸۰ء تک دس سال کا عرصہ مولانا سے علمی مراسلت اور دور دور سے نیاز مندی کا زمانہ رہا۔ ایک آدھ مرتبہ خط و کتابت کا تبادلہ ہوا۔ اس دوران کئی بار کراچی جانا ہوا تو میں اُن سے ملنے ’’میری ویدر ٹاور‘‘ گیا ،جو اُن کا ٹھکانہ تھا۔
۱۹۸۰ء میں ایک شام میں اور مولانا ظفر احمد انصاری صاحبؒ، علامہ محمد طاسینؒؒ سے ملنے اُن کے مکان پر گئے اور چار پانچ گھنٹے تک بہت تفصیل کے ساتھ ایک اہم علمی موضوع پر تبادلۂ خیال کا اتفاق ہوا۔ اس علمی موضوع اور طویل علمی نشست کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اقتدار میں آئے تو انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک ذمے داری سونپی۔ وہ یہ کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر دورِ جدید کے سیاسی اور دستوری تجربات اور تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم کے مطابق ایک ایسا سیاسی نظام وضع کیا جائے جو پاکستان اور جدید دنیائے اسلام کے لیے قابلِ عمل اور جدید مغربی تعلیم یافتہ ذہن کے لیے قابلِ قبول ہو۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں کافی عرصے تک یہ مسئلہ زیرِ بحث رہا۔ وقتاً فوقتاً اس کے لیے کمیٹیاں بھی بنائی گئیں۔ ایک کمیٹی مولانا ظفر احمد انصاری صاحب ؒ کی سربراہی میں بنائی گئی، جس میں کام کرنے کی ذمے داری جنرل ضیا مرحوم کے حکم سے مجھے بھی دی گئی اور میں ایک طویل عرصےکراچی جاکر مولانا کے پاس رہا، جہاں اس موضوع پر خاصی تحقیق اور غوروخوض کا موقع ملا۔