علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
ڈاکٹر صاحب کے کام سے متعلق ہماری نا واقفیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ شہرت پسند تھے اور نہ اقتدار پرست ۔ ان کی زندگی ، ان کی مصروفیات اور ان کے کارناموں کے متعلق نہ اخبارات میں کچھ آتا تھا، نہ کبھی ان کی کسی کتاب کی تقریب اجرا ہوئی۔ اصل میں دور کی نظر اور قریب کی نظر کا مسئلہ ہے۔ شہرت عام اور بقائے دوام کی بات ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ زندگی بھر خاموشی ، یکسوئی لگن اور بے نفسی کے ساتھ علم کے ذریعے سے دین اور علم کی خدمت کرتے رہے۔ ستائش اور صلے کو انھوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ نمود و نمائش میں وقت ضائع نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے مداحوں اور عقیدت مندوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ لکھا کہ مجھے اپنی سوانح لکھوانے سے چڑھ ہے ۔ انھوں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ "حمید اللہ نامی " فاضل" ابھی پیدا نہیں ہوا۔ اس کی سوانح عمری کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کریں۔"
کوئی بڑا کام یکسوئی کے بغیر نہیں ہوتا۔ یکسوئی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب دل و دماغ کی تمام قوتیں کسی ایک مقصد میں لگادی جائیں اور انسان منزل پر نظریں مرتکز کر کے ادھر ادھر دیکھے بغیر قدم جما کر استقلال کے ساتھ چلتا رہے۔ ڈاکٹر صاحب یکسوئی میں خلل ڈالنے والی ہر بات سے بحسن و خوبی بچ نکلتے تھے۔ کئی سال ہوئے ایک بار میں نے رسالہ ہمدرد نونہال کا خاص نمبر ان کی خدمت میں بھجوادی ۔ کچھ دن بعد ان کا گرامی نامہ ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کارڈ میں لکھا کہ کچھ دن پہلے آپ کا رسالہ ملا تھا۔ میں اس کو پڑھے بغیر رکھ نہ سکا، اس لیے التجا ہے کہ آئندہ یہ نہ بھیجا جائے ، توجہ بٹتی ہے اور میرے کام میں خلل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اِن ڈائرکٹ یا بالواسطہ حوصلہ افزائی کو پڑھ کر آئندہ رسالہ ڈاکٹر صاحب کو نہ بھیجنے کے ارادے پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ حکیم محمد سعید شہید نے خط پڑھ کر کہا تھا کہ اس سے بڑھ کر ہمدرد نونہال کی تحسین نہیں ہو سکتی، لیکن ڈاکٹر صاحب کی خواہش کا احترام اور ان کے کاموں کی اہمیت و عظمت کے احساس نے اس جرات کی اجازت نہیں دی کہ رسالہ ان کو پھر بھیجوں ۔
ڈاکٹر صاحب نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے لیے مقصد منتخب کیا تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھی ایک خاص راستہ اور انداز اختیار کیا۔ یہ راستہ بھی منفرد تھا۔ علم میں ڈوبا ہوا یہ انسان جیسی زندگی گزار گیا اس کی مثال بیسویں صدی میں تو مل نہیں سکتی، پچھلی صدیوں میں ڈھونڈنی پڑے گی ۔ بیسویں صدی میں ایسی زندگی گزارنا ڈاکٹر حمید اللہ کا منفردا متیاز ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ اپنی خاکستر ایسی چنگاریوں سے یکسر خالی ہو۔ اسی بیسویں صدی کے نصف اول میں مولانا حسرت موہانی بھی اپنے نقوش قدم چھوڑ گئے ہیں ۔ حسرت کی سادگی ، بے نفسی اور مشقت پسندی نے جنوبی ایشیا میں ہماری تاریخ کو ایک منور باب دیا لیکن ڈاکٹر حمید اللہ نے بیسویں صدی کا نصف آخر یورپ میں بسر کیا اور عہد جدید کی تمام سہولتوں اور راحتوں کے باوجود اور پیرس جیسے شہر کی رونقوں اور ترقیوں کے باوصف اپنے انداز اور ڈھرے پر شب و روز گزارے اور بڑی کامیابی اور استقلال کے ساتھ گزارے۔ تلاش و تحقیق کی منفرد مثالیں قائم کیں، اسلامی علوم کے آفاق کو وسعتیں عطا کیں۔
سچی باتیں (۹؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ آج کے دور میں طبابت کا پیشہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
طبابت کا پیشہ ، دنیا کے شریف ترین پیشوں میں ہے۔ پُرانے اطباء کا مقصود وخدمت خلق، اور رضائے خالق تھا۔ دوائیں کرتے اور دعائیں لیتے۔ علاج کرکے بیمار پر کوئی احسان نہ رکھتے، خود اپنی عاقبت سنوارتے ۔ کہتے ہیں، یہ علم انھیں انبیاء علیہم السلام سے ورثہ میں ملا تھا۔ جاہ وناموری، زروجواہر، سے اس پیشہ کو دُور کا بھی علاقہ نہ تھا۔ آج آپ اپنے شہر میں سب سے بڑا حکیم، یا سب سے بڑا ڈاکٹر کسے کہتے ہیں؟ یقینا اُسے نہیں، جو اپنے فن کا سب سے بڑا ماہر ہے۔ اُسے بھی نہیں، جو مریضوں پر توجہ اور شفقت سب سے زائد کرتاہے، بلکہ اُسے جس کی ’’فیس‘‘ سب سے اونچی ہے، جو اعلیٰ سے اعلیٰ موٹر رکھتاہے، اور جو بغیر ’’ڈبل فیس‘‘ کے ، رات کو قدم باہر نہیں نکالتا!
کسی بے گناہ کو سزاسے نجات دلانا ، بزرگوں اور درویشوں کا کام تھا۔ بادشاہ اور حاکم کے سامنے کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہہ کر اُسے اُس کے حقوق دلادینا، اہل اللہ کا مشغلہ تھا۔ آج آپ سب سے بڑا بیرسٹر، یا سب سے بڑا وکیل کس کو قرار دیتے ہیں؟ اُسے نہیں، جو قانون کا سب سے بڑا ماہرہے، اُسے بھی نہیں، جو مقدمات کی پیروی میں سب سے زیادہ غورومشقت کرتاہے، بلکہ اُسے جس کی ’’پریکٹس‘‘ سب سے اعلیٰ ہے، جو فیس سب سے زائد گراں لیتاہے!……اب طبیب صاحب ہون یا ڈاکٹر، وکیل صاحب ہوں یا بیرسٹر، سب کی بڑائی اور عظمت کا ، سب کی شہرت وناموری کا، سب کے کمال فن اور اعزاز کا معیار، بس یہ رہ گیا ہے، کہ کس میں جلبِ زر کا سلیقہ زائد ہے، کس کی فیس اونچی ہے، کون کماتا سب سے برھ کر ہے!
کہتے ہیں، الناس علیٰ دین ملوکہم۔ جیسا راجہ ویسا پرجا۔ جیسا بادشاہ ویسی رعایا۔ تاجر قوم کے تسلط کا اثر، زندگی کے ہر ہر شعبہ میں، ایک ایک گوشہ میں نمایاں ہے۔ دُکانداری ہماری رگ رگ ریشہ ریشہ میں حلول کرگئی ہے، اور ہر کمال، ہر عزت، ہرعظمت کا معیار بن کر رہی ہے۔ تنہا طبابت ووکالت ہی پر موقوف نہیں، جس طرف بھی آنکھ اُٹھائیے، یہی سماں نظرآئے گا۔ سب سے بڑے عالم دین آج کون سمجھے جاتے ہیں؟ وہ ، جو بڑی بڑی اونچی محفلوں میں پوچھے جاتے ہیں۔ سب سے بڑے مشائخ ودرویش کون تصور کئے جاتے ہیں؟ وہ جن کے مُرید اور معتقد، فلاں نواب صاحب، فلاں راجہ صاحب، فلاں خان بہادر صاحب ہیں! اقبال نے، کبھی اسلام اور شارع اسلام کی شان یہ بتائی تھی،
از کلیدِ دین درِ دُنیا کشاد!
امت نے اسی ترتیب کو اُلٹ دیا۔ اب ہمارے ہاں اگر دین کا دروازہ بھی کھُل سکتاہے، تو اسی دُنیا کی کُنجی سے!چک بُک کی حکومت دلوں پر اور دماغوں پر، آنکھوں پر اور دکانوں پر، ہاتھوں پر اور زبانوں پر ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتاہے، کہ اِس طُرفہ غلامی کا، ذہنی اور عقلی، مادّی اور حسّی غلامی کا، خاتمہ کب، اور کیونکر، ہوگا!
/channel/ilmokitab
بعض بڑے لکھنے والے اور ادیب قسم کے لوگ ’’خیر باد‘‘ کی جگہ ’’خیرآباد‘‘ لکھ دیتے ہیں۔ دفتر جسارت کے قریب ’’خیرآباد‘‘ کافی ہاؤس بھی ہے۔ لیکن خیرباد اور خیرآباد کے مفہوم میں فرق ہے۔ خیر آباد یو۔پی کا ایک قصبہ ہے جہاں کے مولانا فضل حق خیرآبادی اور شاعر مضطر خیرآبادی اور ریاض خیر آبادی مشہور ہوئے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی نے 1857ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر اُن کو جلاوطن کرکے کالاپانی بھیج دیا گیا۔ ان کی خودنوشت ’’کالاپانی‘‘ نے بھی خیرآباد کو شہرت بخشی۔ ’’خیرباد‘‘ کلمۂ رخصت ہے جیسے خدا حافظ، الوداع۔ ایک ادبی رسالے میں مرحوم سرشار صدیقی کی رحلت پر لکھے گئے مضمون میں ہے کہ ’’سرشار صدیقی خیر آباد کہہ گئے‘‘۔ ممکن ہے کوئی صاحب تحقیق فرمائیں کہ ’’نہیں، خیرآباد کہنا بھی صحیح ہے‘‘۔ چنانچہ ہم اسی پر بس کرتے ہیں۔
( (سنہ ۲۰۱۵ء تا ۲۰۲۰ء کالم نگار کی وفات تک یہ کالم ہفتہ وار فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوتا رہا)
/channel/ilmokitab
1۔ تاریخِ فلسطین کے اہم ماہ وسال، 2۔ امان نامہ برائے باشندگانِ بیت المقدس ازامیر المؤمنین عمرؓ بن الخطاب، 3۔ ہرتزل کاخط سلطان عبدالحمید کے نام۔
ہر وہ شخص جو مسئلہ فلسطین کےتاریخی پس منظر، جدید تاریخ اور موجودہ صورتِ حال میں دلچسپی رکھتا ہو اُسے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اردو میں یہ اپنے موضوع پر ایک عمدہ اور تازہ ترین کتاب ہے جومسئلہ زیرِ بحث کے28 اکتوبر 2023ء (طوفان الاقصیٰ کے بائیسویں دن ) تک کے اہم واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
مولانا امین احسن اصلاحی(وفات ۱۵ دسمبر ۱۹۹۷ء) تحریر۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی
Читать полностью…جلوہ ہائے پابہ رکاب (۴) خوش کلامی کے فائدے۔۔۔ ڈاکٹر ف عبد الرحیم
ایک بار میں نے برٹش ویزا کے لیے درخواست دی تھی، مجھے انٹرویو کے لیے قونصل خانہ بلایا گیا۔ وہاں ایک خاتون اہل کار نے میرا انٹر ویو لیا۔ کسی تمہید کے بغیر اس نے پوچھا: تم بر طانیہ کیوں جار ہے ہو ؟
میں نے کہا: تم نے ایک نہایت ہی عجیب و غریب سوال کیا ہے۔
وہ بولی: میرا سوال عجیب و غریب کیوں ہے؟
میں بولا: ایک برطانوی سے یہ پوچھنا کہ تم برطانیہ کیوں جارہے ہو عجیب و غریب نہیں ہے؟ وہ بولی تو کیا آپ British citizen ہیں؟ میں نے کہا: میری پیدائش برطانوی تاج کے سایہ تلے ہوئی تھی، میری پیدائش کے وقت میرے سر پر Union Jack لہرا تھا۔ جب میں مدرسہ جانے لگا تو پہلے پہل میں Union Jack کی سلامی لیتا، پھر God Save The King کا ترانہ پڑھتا، اور اس کے بعد ہی اسباق شروع ہوتے۔
جب یونیورسٹی پہنچا تو شیکسپیر، ملٹن، دور ڈسور تھ ، کولرج، جو نسن، شیلی، کیٹس وغیرہ کی کتابیں پڑھیں، اور Old English میں لکھی ہوئی طویل رزمیہ نظم Beowulf بھی پڑھی، جس کا ایک شعر مجھے ابھی تک یاد ہے:
Sigan Þæ to slæpe,
Sum săre angealt æven ræste.
اس شعر کا ترجمہ یہ ہے: ” پھر وہ لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے ، لیکن ان کو بوقت شام آرام کرنے کی بڑی قیمت چکانی پڑی۔ جس کو آج کل کوئی بھی انگریز نہیں سمجھ سکتا۔
کیا ان تمام حقائق کے علی الرغم مجھ سے یہ سوال کرنا کہ تم برطانیہ کیوں جارہے ہو ایک عجیب و غریب سوال نہیں گردانا جائے گا ؟
میری اس مسلسل تقریر کے دوران انٹرویو والی خاتون اہلکار برابر مسکرارہی تھی۔ جب میری تقریر ختم ہوئی تو اس نے کہا:
مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ آپ کو ویزا مل جائے گا۔ کل اس وقت آکر لے لینا۔
میں نے کہا: ایک اصلی برطانوی باشندے کو ویزا کے حصول کے لیے پورا ایک دن انتظار کرنا پڑے گا ؟ وہ ہنس پڑی۔ بولی: میں تمہارا ویزا ابھی نکلواتی ہوں، بس پانچ منٹ انتظار کر لیں۔ خوش کلامی کے لیے کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا۔
/channel/ilmokitab
املا سے متعلق وضاحت اس کالم میں آچکی ہے، املا کا اصول تو یہ ہے آپ جیسا بولتے ہیں، اس آواز کے مطابق حروف تہجی کا استعمال ہو، عربی عام املا میں یہی اصول رائج ہے، رسم عثمانی جہاں موجودہ رائج املا سے مخالف ہے، یہ کتابت آیات تک محدود ہے، لیکن اردو میں ایسا نہیں ہے، اردو میں صلوة اور زکوة رائج ہے، اردو لغت کبیر میں صلوة اور زکوة كو واو کے ساتھ لکھا گیا ہے، نور اللغات اور آصفیہ نے بھی اسی املا کو قبول کیا ہے، ہندوستان میں اردو املا کو مخارج کے مطابق بدلنے کی کئی ایک کوششیں ہوئی ہیں، ان میں روزنامہ قومی آواز لکھنو، سیاست حیدرآباد، اور ڈاکٹر محمد حسن کی کاوشوں سے لوگ واقف ہیں، لیکن اس میں ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے، ویسے بھی زبانیں سبھی قیاسی اصولوں پر نہیں چلتیں، اب زبان کے سبھی الفاظ کو صوتی مخارج کے اصولوں پر بدلنا ممکن نہیں ہے، کتب لغت کی مرجعیت ختم نہیں ہوا کرتی۔
Читать полностью…مرحوم کی شرح مسلم جس کا نام فتح الملہم ہے لکھنے کا کام تمام عمر جاری رہا، اتنے بڑے کام کے لیے ان کو کسی ریاست سے امداد کی فکر تھی، چنانچہ اس کے لیے حیدرآباد دکن کا خیال تھا، اس کے لیے معروضہ پیش کیا اور آخر بڑے ردوکد کے بعد ریاست نے اس کی سرپرستی منظور کی، اور ہر جلد کے لیے کچھ امداد اور مصنف کے لیے ماہانہ وظیفہ منظور ہوا، اور مولانا نے جمعیت خاطر کے ساتھ اس کی چند جلدیں لکھ کر شائع کیں، اس سلسلہ میں یہ امر ذکر کے قابل ہے کہ جب ریاست نے ان کی امداد منظور کی تو مرحوم نے مجھے دوستانہ خط لکھا کہ اہل علم کی طرف سے ریاست کی اس کرمفرمائی کا شکریہ ادا کیا جائے، چنانچہ میں نے اس کی تعمیل معارف کے شذرات میں کی افسوس ہے کہ یہ کتاب ناتمام رہی۔
مرحوم سے میری آخری ملاقات اُس سال ہوئی جب جمعیتہ علمائے اسلام کا اجلاس کلکتہ میں ہوا تھا اور اس میں ان کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا تھا، جس کی اس زمانہ میں بڑی دھوم تھی، اور جس کے بعد مرحوم مسلم لیگ کی دعوت کی صف میں اہم عنصر کی حیثیت سے شامل ہوگئے، اور روز بروز ان کا تعلق لیگ سے بڑھتا ہی چلا گیا، مرحوم اس زمانہ میں بیمار تھے، نشست و برخاست سے معذور سے رہتے تھے، گھٹیے کا گمان تھا اور میرٹھ کے کسی ہومیوپیتھ کے علاج سے فائدہ ہورہا تھا، اتفاق سے اس زمانہ میں میرا دیوبند جانا ہوا تو ملاقات کو حاضر ہوا، بشاشت سے ملے، اور مجھ سے اپنے پیغام کے متعلق رائے پوچھی، تو میں نے اس کے نرم و ملائم لہجہ اور مصالحانہ انداز کی تعریف کی، اسی زمانہ میں ان کو حیدرآباد دکن کی ریاست اپنی عربی درسگاہ مدرسہ نظامیہ کی صدرمدرسی کے لیے پانچ سو ماہوار پر بلارہی تھی، مرحوم اس کے قبول و عدم قبول میں متردد تھے، مجھ سے بھی اس میں مشورہ پوچھا، مجھے اس مدرسہ کا اندرونی حال جو معلوم تھا، وہ بیان کیا، اور عدم قبول کا مشورہ دیا، بہرحال مرحوم نے بھی وہاں جانا قبول نہیں کیا، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ لیگ کی خدمتوں میں ایسے الجھتے چلے گئے، کہ پھر دوسری طرف ان کو خیال کا موقع ہی نہیں ملا، اور آخر ۱۹۴۷ء میں لیگ کے بڑے بڑے رہنماؤں کے ساتھ مرحوم بھی کراچی چلے گئے اور وہیں کے ہوگئے۔ مرحوم نے کراچی پہنچ کر گو کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں کیا، مگر مذہبی معاملات میں ان کی حیثیت مشیر خاص کی تھی، اس لیے زبان خلق نے ان کو شیخ الاسلام کہہ کر پکارا، جو اسلامی سلطنتوں میں عموماً قاضی القضا کا لقب رہا ہے، اور زیادہ تر اس لقب کی شہرت دولت عثمانیہ میں رہی، اسی حیثیت سے مرحوم پاکستان کی مجلس آئین ساز کے رکن بھی تھے، اس جماعت کے روح رواں تھے، جو اس آئین کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاہتی ہے، اور اس راہ میں مرحوم ہی کی ابتدائی کوشش کی کامیابی کا وہ نتیجہ تھا جس کو پاکستان کی آئینی اصطلاح میں قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔
مرحوم گو مستقل طور سے پاکستان چلے گئے تھے، مگر تعجب ہوگا کہ انہوں نے نہ تو اپنا کوئی خاص گھر بنایا نہ کسی کی ذاتی کوٹھی پر قبضہ کیا، بلکہ بعض عقیدت مند اہل ثروت کے مکان میں رہے، اور اسی مسافرت میں اس مسافر نے اپنی زندگی بسر کردی۔
مرحوم مروت کے آدمی تھے اور اہل حاجت کی سعی و سفارش بدل و جان کرتے تھے، چنانچہ پاکستان کے اہل حاجت اور اہل غرض دونوں ان سے فائدہ اٹھاتے رہے، اور وہ اپنی جاہ و منزلت کا ذرا خیال کئے بغیر ہر ایک کے کام آتے رہے، اور حکام کے پاس جاجا کر بے تکلف ان کی سفارشیں کرتے رہے۔
مرحوم کا آخری کام ایک عظیم الشان عربی درس گاہ کے قیام کا خیال تھا، چنانچہ اس کے لیے انہوں نے مخلصین کی ایک جماعت بنائی تھی، میرے قیام حجاز کے آخری زمانہ میں مرحوم کی طرف سے اس جماعت کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا تھا، اور انھوں نے مجھے بھی اس مجلس کا ایک رکن بنایا تھا۔
مرحوم کی صحت آخری دنوں میں اچھی نہ تھی، امسال پاکستان سے خیر سگالی کا ایک وفد حجاز جارہا تھا، اس کے ممبروں میں خواجہ شہاب الدین وغیرہ کے ساتھ مرحوم کا نام بھی تھا، مگر وہ اسی علالت کے سبب نہ جاسکے اور ان کی جگہ مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی گئے، مرحوم پر فالج کا اثر تھا، جس سے ان کے دل و دماغ ، اور جسمانی قویٰ پر بڑا اثر تھا، اتفاق وقت یا تقدیر کا تماشہ دیکھئے کہ دسمبر میں جب سردی انتہائی نقطہ پر تھی وہ جامعہ عباسیہ کی تعلیمی ضرورت سے بھاولپور گئے، جہاں سنا ہے کہ اس وقت بڑی سردی تھی، اس کے بعد کا حال کراچی کے ایک رسالہ ندائے حرم مورخہ جنوری ۱۹۵۰ء سے نقل کرتا ہوں۔
میں مرحوم کی خدمت میں بیٹھتا، اور طرح طرح کی باتیں ہوتیں ایک منزل میں مرحوم نے غدر دہلی کے زمانہ میں حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب رحمہ اﷲ تعالیٰ اور ان کے رفقائے جہاد، مولانا محمد قاسم صاحب، مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، اور حافظ ضامن علی صاحب شہید کے واقعات اور تھانہ بھون اور شاملی پر تاخت اور مجاہدین کا حملہ اور حافظ صاحب کی شہادت کے واقعات کو اس پر اثر طریقہ سے بیان فرمایا کہ روح نے لذت پائی۔
واپسی میں مولانا جہاز پر بہت علیل ہوگئے تھے، حالت بہت نازک معلوم ہوتی تھی، دوسرے درجہ میں ان کا سفر تھا، جو جہاز کے پچھلے حصہ میں تھا، وہاں بڑی تکلیف جہاز کے بعض آلات کا دھڑ دھڑ کر کے نیچے گرنا تھا، اسی حالت میں ہندوستان پہنچے، بالآخر اُن کو صحت ہوگئی۔
اُن کی آنکھیں کمزور تھیں، ایک دفعہ تو تکلیف بہت بڑھ گئی تھی، موگا (پنجاب) کے ڈاکٹر آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے، ان سے علاج کرایا تو درست ہوگئی تھیں۔
مرحوم اب تک دارالعلوم دیوبند میں مدرس تھے، دارالعلوم دیوبند کے اکابرین میں حضرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ کی وفات کے بعد سے کچھ انتشار سا تھا، جو رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا تھا، ایک طرف مولانا حبیب الرحمن صاحب اور مولانا حافظ احمد صاحب اور کچھ مدرسین تھے، دوسری طرف مولانا انور شاہ صاحب، مفتی عزیزالرحمن، مولانا سراج احمد صاحب، مولانا شبیر احمد صاحب اور بعض نوجوان مولوی عتیق الرحمن صاحب وغیرہ تھے، آخر دوسرا گروہ دیوبند کو چھوڑ کر گجرات میں ڈابھیل ضلع سورت میں منتقل ہوگیا، جہاں پہلے سے ایک معمولی سا مدرسہ قائم تھا، مگر عمارت اچھی خاصی تھی، مولانا انور شاہ صاحب اور مولانا شبیر احمد اور مولانا سراج احمد صاحب وغیرہ نے یہاں دوسرا دیوبند قائم کیا، بہت سے سرحدی اور ولایتی اور بنگالی، اور ہندوستانی طالب علم بھی اُن کے ساتھ آئے، اور چند سال تک زور و شور سے ان صاحبوں کا درس وہاں جاری رہا۔
اسی زمانہ میں خاکسار کو کسی جلسہ کے سلسلہ میں راندھیر ضلع سورت جانے کا اتفاق ہوا، ڈابھیل قریب ہے، مولانا شبیر احمد صاحب کو معلوم ہوا تو ایک حیدرآبادی طالب علم کو خط دیکر بھیجا، میں نے آنے کا وعدہ کیا، اور دوسرے روز ڈابھیل گیا، مدرسہ کو دیکھا، حضرات مدرسین سے ملاقات ہوئی، طلبہ سے ملا، طلبہ نے میرے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا، جس میں تقریریں ہوئیں، رات کو قصبہ میں جلسہ کا انتظام ہوا، جس میں مختصر تقریر کی، اس کے بعد خود مولانا نے تقریر فرمائی، جس میں میری حقیر ذات کی نسبت ایک فقرہ استعمال کیا تھا، جو درحقیقت میری حقیقت ہے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ مجھے اُن سے بہت اُنس ہے، اس لیے کہ یہ علماء اور تعلیم یافتوں کے درمیان ایک سفیر و متوسط کی حیثیت رکھتے ہیں، پھر میری کتاب ارض القرآن کی تعریف فرمائی۔
اُن کے گجرات کے قیام کے زمانہ میں اُن کی آمدورفت حیدرآباد دکن کی طرف بہت بڑھ گئی تھی، شرح صحیح مسلم کی امدادی تحریک جاری تھی، اور کبھی کبھی میرا بھی جانا ہوجاتا تھا، ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک میلاد کی مجلس میں میرا ان کا ساتھ ہوگیا، اسی جلسہ میں خود حضور نظام بھی آنے والے تھے، میری تقریر ہورہی تھی کہ وہ آگئے، میرے بعد مولانا شبیر احمد صاحب نے تقریر شروع کی، حضور نظام نے بڑی داد دی، اور اہل محفل محظوظ ہوئے، لوگوں میں باہمی ترجیح کی اچھی خاصی ردوکد شروع ہوگئی، مگر الحمداﷲ دونوں مقروں کے دل باہم صاف رہے اور زبانیں محفوظ۔
مولانا شبیر احمد صاحب بڑے خطیب و مقرر تھے، عالمانہ استدلال کے ساتھ بڑے دلچسپ قصے اور لطیفے بھی بیان کرتے تھے، جس سے اہل محفل کو بڑی دلچسپی ہوتی تھی، اور ظریفانہ فقرے اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود نہیں ہنستے تھے، مگر دوسروں کو ہنسا دیتے تھے، ان کی تقریروں میں کافی دلائل بھی ہوتے تھے، اور سیاسی اور علمی اور تبلیغی اور واعظانہ ہر قسم کے بیان پر ان کو قدرت حاصل تھی، ذہانت و طباعی، اور بدیہہ گوئی ان کی تقریروں سے نمایاں ہوتی تھی، اکبر کے ظریفانہ اور فلسفیانہ شعر ان کو بہت یاد تھے، وہ ان کو اپنی تقریروں میں عمدگی سے کھپاتے تھے۔
ان کی تحریر بھی صاف شستہ تھی، اور اس عصر کے اچھے لکھنے والوں کے لڑیچر کو غور سے پڑھا تھا، اور اس سے فائدہ اٹھایا تھا، جمعیتہ و خلافت کے جلسوں میں علماء کی بعض تجویزوں کی انگریزی بنانے میں بڑی دقت ہوتی تھی، اس موقع پر محمد علی مرحوم نے کہا تھا کہ مولوی شبیر احمد صاحب کی عبارت کی انگریزی بنانے میں بڑی آسانی ہوتی ہے، کیونکہ اس کی ساخت انگریزی طرز پر ہوتی ہے۔
۱۹۲۳ء کے آخر میں گیا میں کانگریس اور جمعیۃ العلماء کے شاندار اجلاس ہوئے، جمعیۃ کے اعلیٰ اجلاس کے صدر مولانا حبیب الرحمان صاحب تھے، ان کے ساتھ حلقۂ دیوبند کے اکثر اساتذہ آئے ہوئے تھے، ان میں مولانا شبیر احمد صاحب بھی تھے کانگریس اور جمعیۃ کے یہ اجلاس ایک خاص حیثیت سے اہمیت رکھتے ہیں یعنی اس اجلاس میں کانگریس کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی ہوئی اور پنڈت موتی لال، سی آر داس، حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری وغیرہ کی رہنمائی، میں ترک موالات کی جگہ جس میں کونسلوں اور اسمبلیوں کا بائیکاٹ بھی تھا، یہ تجویز سامنے رکھی گئی کہ ان کونسلوں اور اسمبلیوں پر قبضہ کرکے حکومت کو بے دست و پا کردیا جائے، گویا مقصد یہ تھا کہ مقصود کے حصول کے لیے طریق جنگ اور لڑائی کے ڈھنگ کو بدلا جائے، اس تحریک کے حامیوں نے سوراج پارٹی، اپنا نام رکھا، اس وقت گاندھی جی، ابوالکلام، محمد علی وغیرہ جیل میں تھے، ان کے خالص پیرووں نے اس کی سخت مخالفت کی اور نوچنجر (نہ بدلنے والے) کا لقب پایا کانگریس کی طرح جمعیۃ میں بھی حکیم صاحب نے اس تجویز کو پیش کیا، اور اس کے فیصلہ کے لیے ارکان جمعیۃ کا خاص جلسہ ہوا، تجویز کے حامیوں کی طرف سے خاکسار نے اور مخالفوں کی طرف سے مولانا شبیر احمد صاحب نے تقریریں کیں، مولانا شبیر احمد صاحب کی اس تقریر کا صرف ایک حصہ مجھے یاد ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ حضور انور علیہ الصلوۃ والسلام خانہ کعبہ کی فتح کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتے تھے، مگر چونکہ قریش نومسلم تھے ان کو یہ بات کعبہ کی حرمت اور ادب کے خلاف نظر آئی، اس لیے حضورؐ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہاری قوم تازہ مسلمان نہ ہوتی، تو میں کعبہ کو ڈھاکر پھر اس کی بنیاد ابراہیمی اساس رکھتا، یہ واقعہ بیان کرکے مولانا نے فرمایا کہ ترک موالات کے بدولت ابھی ہماری قوم انگریزوں کی غلامی سے نئی نئی نکلی ہے، یہ کونسل اور اسمبلی کے چکر میں پڑکر پھر نہ غلام بن جائے، بہرحال ووٹ لئے گئے، اور مولانا کی مخالفت کامیاب ہوئی۔
مولانا حسین احمد صاحب کا نام اس وقت تک خواص سے نکل کر عوام تک نہیں پہنچا تھا، وہ اس تمام ہنگامہ کے وقت حضرت شیخ الہند کے ساتھ مالٹے میں تھے، ساتھ ہی ۱۹۲۱ء میں ہندوستان واپس آئے، اور سب سے پہلی دفعہ ہندوستان کی سیاست میں کراچی خلافت کانفرنس میں مقرر کی حیثیت سے نمودار ہوئے اور اس مشہور انقلابی تجویز کے مؤیدین میں تھے، جس میں مسلمان فوجیوں سے فوج کی ملازمت ترک کرنے کی تحریک تھی، اس کے محرک محمد علی اور مؤید مولانا حسین احمد، پیر غلام مجدد اور سیف الدین کچلو وغیرہ تھے، آخر سب پر مقدمے چلائے گئے، اور سب کو چند سال کی قید کی سزا ہوئی،
؎ بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
اس قید سے آزادی کے بعد حضرت مولانا حسین احمد صاحب بیش از بیش تحریکات میں حصہ لینے لگے اور آخر خلق کی زبان نے ان کو شیخ الہند کا جانشین مان لیا، اور اب حضرت شیخ الہند کے مسلک کی ترجمانی اور اُن کی جماعت کی نمائندگی مولانا موصوف فرمانے لگے، تاہم خلافت اور جمعیۃ کے جلسوں میں مولانا شبیر صاحب بھی آتے جاتے رہتے تھے، لیکن یہ آمدورفت بھی کم ہوتی رہی۔
علامہ ڈاکٹر محمد حمید الله۔۔۔ تحریر: مسعود احمد برکاتی مدیر ہمدرد نہال کراچی
(ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مورخہ ۱۷ / دسمبر ۲۰۰۲ء میں رحلت پائے ( ۲۱) سال ہورہے ہیں، اس دوران آپ کی شخصیت اور خدمات پر نہ جانے کتنے مقالات لکھے گئے اور سیمینار منعقد ہوئے، اور مجموعے شائع ہوئے، ان کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، ان میں سے کئی سارے اس ناچیز کی نظر سے گذرے ، کئی سارے نہیں گذرے، لیکن ریاست ٹونک کی علمی وراثت کے امین حکیم مسعود احمد برکاتی مرحوم نےڈاکٹر صاحب کی رحلت کے معاً بعد مرحوم مجلہ ہمدر د نونہال کراچی میں جو تاثراتی مضمون لکھا تھا، شاید ندرت ، معلومات اور تاثر میں کوئی اور مضمون اس کے مقام تک نہیں پہنچتا، یہ مضمون شاہد علی خان مرحوم نے ایک اور مرحوم مجلہ کتاب نما دہلی میں اس کے دوسرے ہی مہینے کے شمارے میں شائع کیا تھا، اس وقت یہ دونوں مجلات جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے کتب خانے میں ہماری نظر سے گذرے تھے، اور گذشتہ ( ۲۱) سال سے اس مضمون کی ہمیں تلاش تھی ، خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ مضمون ہمیں ڈاکٹر صاحب سے متعلق کسی بھی مجموعےمیں ہمیں نظر نہیں آیا، اس ہفتہ اتفاق سے یہ مضمون ایک ا اور مرحوم مجلہ افکار کراچی کے اپریل ۲۰۰۳ء کے شمارے میں منکشف ہوا، اسے ہم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں نذارانہ عقیدت کے طور پر علم وکتاب گروپ کے توسط سے (۲۱ ) سال تک فراموش ہونے کے بعد ایک علمی وادبی ورثے کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔ امید کہ احباب اس پر اپنے تاثرات کے اظہار میں بخل نہیں کریں گے۔ عبد المتین منیری)
غالباً ۱۹۴۸ء کی یعنی آج سے آدھی صدی پہلے کی بات ہے جب حیدر آباد سندھ میں پہلی بار ڈاکٹرمحمد حمید اللہ صاحب کو دیکھا تھا۔ کوئی علمی تقریب تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی اس جلسے میں تقریر فرمائی تھی، جس نے مجھے متاثر نہیں کیا تھا۔ لڑکپن تھا۔ کم علمی تھی جو ابھی تک باقی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب کم علمی کا کچھ احساس ہو گیا ہے، لیکن اعتراف جیسا ہونا چاہیے ویسا اب بھی نہیں ہے۔ بہر حال علامہ ندوی کی تقریر سے متاثر نہ ہونے کی وجہ شاید ان کا سنجیدہ، دھیما لہجہ اور مقررانہ یا خطیبانہ انداز کا نہ ہونا تھا۔ اس محفل میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کو بھی دیکھا ، ان کی طرف دل کھنچا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ایک تعلیمات اسلامی بورڈ بنایا ہے، جس کے صدر علامہ سید سلیمان ندوی ہیں ۔ مولانا مفتی محمد شفیع، ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور مولانا ظفر احمد انصاری اس کے ارکان ہیں ۔ اس بورڈ کا کام قانون سازی میں دینی رہنمائی کرنا ہے۔ کچھ ہی دن میں پتا چلا کہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب تو پاکستان سے چلے گئے۔ کہا یہ گیا کہ ان کو ارباب بست و کشاد دستور سازی میں سنجیدہ نظر نہیں آئے اور ڈاکٹر صاحب کو یہاں رہنا بے مصرف معلوم ہوا۔ ضیاع وقت ان کو بھی پسند نہیں رہا، جبھی تو انھوں نے زندگی میں اتنا کام کیا کہ ہمارے ہاں تو ادارے بھی نہیں کرتے ۔ انھوں نے زندگی کا بہت بڑا حصہ یورپ میں گزارا اور ایک سچے مسلمان کا نمونہ پیش کیا۔ ان کی زندگی ، ان کی دیانت، امانت ، ان کی سادگی ، بے نیازی اور قول و عمل میں یکسانیت نے مغرب میں اللہ سے مسلمان کا، ایک سچے عالم کا جو نمونہ پیش کیا ، اس کا اثر تھا کہ ہزاروں فرانسیسیوں نے اسلام کو عملی طور پر سمجھا اور قبول کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کارنامہ بھی غیر معمولی اور قابل تحسین ہے۔
علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب واقعی عالم تھے، جس کا اظہار ان کی تصانیف تو ہیں ہی، لیکن اس کا ایک عملی اظہار ان کا انکسار تھا۔ انکسار علم کی لازمی علامت ہے۔ ان کے انکسار اور فقر و بے نیازی کی وجہ سے یہاں عموما تعلیم یافتہ لوگ بھی ان کی زندگی کے حالات ، ان کے علمی مشاغل ، ان کی خدمات یہاں تک کہ ان کی تصنیفات، تالیفات، تراجم اور مرتبات کی اہمیت سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔ وجہ یہ بھی ہے کہ علم کو نہ ہم نے اپنی قدر اول بنایا نہ اہل علم کی کفش برداری ہمارا امتیاز ہے۔ ہماری زندگی کا محور حکومت ہو سکتی ہے، دولت ہو سکتی ہے اور شہرت ہو سکتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں علم و کمال کو اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوسکا۔
مولانا داؤد غزنوی(وفات ۱۶ دسمبر ۱۹۶۳ء) تحریر: مولانا کوثر نیازی
Читать полностью…خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔شعب ابی طالب کی گھاٹی۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی مرحوم
بعض لکھنے والے ’’بذاتِ خود‘‘ اور ’’بجائے خود‘‘ میں فرق نہیں کرتے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ جب ذات کا ذکر ہو یا زندہ وجود کا تذکرہ، تو وہاں ’’بذاتِ خود‘‘ استعمال کرنا چاہیے، اورجہاں بے جان چیز کا ذکر ہو تو وہاں ’’بجائے خود‘‘ استعمال کیا جائے۔ ایک ادبی پرچے میں ’’نقدِ سفر: ایک مختصر جائزہ‘‘ کے عنوان سے مضمون کا پہلا جملہ ہے ’’زندگی بذاتِ خود سفر ہے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہاں ’’بجائے خود‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مزید وضاحت جناب منظر عباسی کردیں گے۔ ’’اصلاحِ تلفظ و املا‘‘ میں طالب الہاشمی نے ایک عمومی غلطی کی نشاندہی کی ہے: ’’فلاں صاحب چوٹی کے اہلِ علم ہیں۔ محمود نامور اہلِ قلم ہے‘‘۔ ’’اہل‘‘ لغوی اعتبار سے بصورتِ جمع استعمال ہوتا ہے اور اس میں کثرت کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ’’اہلِ علم‘‘ کا اِطلاق اصحابِ علم یا علماء کی جماعت پر ہوگا۔ اسی طرح ’’اہلِ قلم‘‘ کا اطلاق اصحابِ قلم یا ادیبوں، صحافیوں کے ایک پورے گروہ پر ہو گا۔ ان فقروں کی صحیح صورت یوں ہوگی: ’’فلاں صاحب چوٹی کے صاحبِ علم ہیں‘‘۔ ’’محمود نامور صاحبِ قلم ہے۔‘‘ ویسے ہم اب تک یہ سمجھتے رہے کہ ’’چوٹی‘‘ کا حوالہ صرف خواتین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کسی نے توجہ دلائی کہ کتنی ہی اہلِ علم و قلم خواتین ایسی ہیں جو چوٹی سے محروم ہیں۔ ایسی ہی اہلِ علم (یا اہلیہ علم؟) خواتین کے بارے میں ایک شعر ہے حسن افزوں ہو گیا زلفیں جو ان کی کٹ گئیں
اب جسے دیکھو انہی کا بندۂ بے دام ہے
’’دام‘‘ زلفوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ مصرع اب ضرب المثل بن گیا ہے
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
یہاں ’’دام‘‘ زلفوں ہی کے لیے لایا گیا ہے۔ پہلا مصرع ہے
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
’’اہل‘‘ کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اخبارات میں عموماً اس کی جمع دیکھنے میں آتی ہے۔ مثلاً ’’اہلیانِ کراچی، اہلیانِ پاکستان، اہلیانِ محلہ۔‘‘ جمع کے لیے بھی ’’اہل‘‘ کافی ہے، یعنی اہلِ کراچی وغیرہ۔ اہلیان لکھنا نااہلی ہے۔
اَہل عربی زبان کا لفظ اور مذکر ہے۔ صاحب، مالک، خاندان، کنبہ، گھر کے لوگ، بیوی، لائق، شریف، خلیق وغیرہ۔ اہلِ بیت کی اصطلاح بہت عام ہے، یعنی گھر کے لوگ۔ اس سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے لیے جاتے ہیں اور یہاں کوئی ’’اہلیان‘‘ استعمال نہیں کرتا۔ ’’اہلِ ایمان‘‘ تمام مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’اہلِ تشیع‘‘ ہے جسے لوگ عموماً ت۔ شیع (تشی کی طرح) پڑھتے اور کہتے ہیں، بروزن شفیع، رفیع۔ جب کہ یہ تشّیع (تشی۔ یوع) ہے۔ ’’اہلیان‘‘ کی غیر ضروری ترکیب فارسی ہے۔ ایک صاحب نے اردو میں غیرضروری طور پر انگریزی الفاظ کے استعمال کے خلاف اچھا مضمون لکھا ہے۔ لیکن اس مضمون میں وہ ’’ممبران‘‘ لکھتے ہیں۔ حضرت، یہ کیا ہے، نہ اردو نہ انگریزی۔ یا تو ممبرز لکھیے یا ارکان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزی نے ہمارے ذہنوں پر کس بری طرح قبضہ جما لیا ہے۔ قبضے پر یاد آیا کہ ’’ناجائز تجاوزات‘‘، ’’ناجائز منافع خوری‘‘ بھی ذرائع ابلاغ میں عام ہے۔ جب کہ ان کے ساتھ ’’ناجائز‘‘ نہ لگایا جائے تب بھی یہ جائز نہ ہوں گے۔ البتہ ’’ناجائز منافع‘‘ درست ہے۔
انگریزی الفاظ کے غیر ضروری، بلکہ ناجائز استعمال کی چند اخباری مثالیں یہ ہیں ’’نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، ٹمبر مارکیٹ‘‘ وغیرہ۔ ان کی جگہ نئی کراچی، شمالی ناظم آباد، لکڑ منڈی وغیرہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ٹمبر مارکیٹ میں جو دبدبہ ہے وہ لکڑمنڈی میں نہیں۔ ’’اپر دیر‘‘ کو کبھی کبھی دیربالا بھی لکھا دیکھا، مگر جانے کیوں یہ عام نہیں ہورہا۔ حالانکہ دیر بالا اور دیر پائیں، دیر ہی کی طرح خوبصورت ہیں۔ لوئر دیر کو دیر زیریں بھی لکھ سکتے ہیں۔
ایک اخبار میں حکیم صاحب کا مضمون دیکھا، عنوان تھا ’’چھوٹی الائچی خورد کے فوائد‘‘۔ حکیم صاحب سے اس غلطی کا صدور نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے انہوں نے بطور وضاحت چھوٹی الائچی کے ساتھ الائچی خورد لکھا ہو، کیونکہ چھوٹی اور خورد ہم معنیٰ ہیں۔ بچوں، بڑوں کے لیے عموماً ’’خورد و کلاں‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ الائچی کو چھوٹی لکھیں یا خورد، اس کے فوائد یکساں ہی ہوں گے البتہ الائچی کلاں کے فوائد مختلف ہیں۔
ایک اور غلطی یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ جس گھاٹی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز و اقارب کے ساتھ محصور کیا گیا تھا اُس کو لوگ عموماً ’’شعب ابی طالب کی گھاٹی‘‘ لکھ دیتے ہیں، جب کہ ’’شعب‘‘ کا مطلب ہی گھاٹی ہے۔ لیکن جب تک شعب کے ساتھ گھاٹی نہ لکھا جائے، لکھنے والے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ’’ماہِ رمضان کا مہینہ‘‘ یا ’’لب دریا کے کنارے۔‘‘
تعارف کتاب: مسئلہ فلسطین۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : مسئله فلسطین
مصنف : ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
صفحات : 272
قیمت: 800 روپے
ناشر : قرطاس کراچی
رابطہ : 03213899909
انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین فلسطین محض زمین کا ایک ٹکڑا ہی نہیں بلکہ تین الہامی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا روحانی مرکز بھی ہے۔ حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور بہت سے دیگر پیغمبر علیہم السلام اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے عہد (635ء)میں مسلمانوں نے پُرامن طریقے سے اسے حاصل کیا اور بیت المقدس کے دروازے عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے لیے کھلے رکھے۔ عہدِ فاروقی سے یہ خطہ مسلسل مسلمانوں ہی کے پاس رہا، یہاں تک کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ایک ایسے خطے کو جو کبھی اُس کا نہیں رہا، اسے قبضے میں لے لیا اور ”اعلانِ بالفور“ کے ذریعے یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔واضح رہے کہ اعلانِ بالفور کے وقت فلسطین میں یہودی آبادی محض 8 فیصد تھی۔
اسی اعلانِ بالفور کی بنیاد پر 14مئی 1948ءکواسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام عمل میں آیا،جس کے ساتھ ہی عربوں اور اسرائیلیوں میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سات لاکھ فلسطینی اپنے آبائی علاقوں سے جبری جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ دیریاسین میں عربوں کا قتلِ عام ہوا۔ گزشتہ75 سال سے فلسطینی مسلمان بدترین انسانیت سوز ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ان کی نسل کُشی اور جبری انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔فلسطینی مسلمان اپنی آزادی اور بیت المقدس کے تحفظ کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔اسرائیل ان کی آواز کوخاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ مغربی میڈیا کے تعصب اور جانب داری نے بھی اس مسئلے کو دبانے،فلسطینیوں کو ‘”دہشت گرد“ اور اسرائیلیوں کو ‘مظلوم ‘ثابت کرنےکی ہر ممکن کوشش کی ہے، لیکن حالیہ ”طوفان الاقصیٰ“ نے ایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کرادی ہے۔
معروف محقق اور مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی) کی پیشِ نظر کتاب ”مسئلہ فلسطین“ اس مسئلے کے حوالے سے ان حقائق سے پردہ اٹھانے کی ایک کوشش ہے جن پر ستّر برسوں میں شکوک و شبہات اور تعصبات کی مٹی ڈال کر انہیں دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کتاب میں کھلی اور سفاک سچائیاں، تاریخی حقائق، اعداد و شمار اور دستاویزی ثبوت ہیں جن کی روشنی میں انصاف پسند قاری بآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ آیا فلسطینی جارح اور دہشت گرد ہیں یا اسرائیل؟
یہ کتاب چند مقدمات پر قائم ہے: پہلا مقدمہ تو یہ ہے کہ کیا مسئلہ فلسطین محض ایک سیاسی مسئلہ ہے، یا اس میں مذہب بھی دخل رکھتا ہے؟ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ اب تک مسئلہ فلسطین کے جو سیاسی حل پیش کیے گئے ہیں، وہ زمینی حقائق سے لگّا کھاتے ہیں یا خلاء میں تجویز کیے گئے ہیں؟ اور تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ طاقت ور ممالک اور عالمی اداروں کی ذمے داریوں میں، اقوام… خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی… کے بنیادی حقوق، جن میں خودارادیت کا حق بھی شامل ہے، کتنی جگہ پاسکے ہیں؟
اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھتر برسوں میں فلسطینیوں کے جذبہ آزادی کو زندہ رکھنے میں فلسطینیوں کی اپنی صلاحیت کیا رہی ہے اور اسرائیل کے اقدامات کا کتنا حصہ ہے۔ اس کتاب کو لکھنے میں فاضل مصنفہ کو مآخذ کے حوالے سے مشکل کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ اس موضوع پر اکثر کتابیں مغربی مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں جو ایک خاص نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ بعض عرب مورخین کی کتابیں بھی ہیں تاہم ان میں سے بیشتر میں نظریاتی پہلو غالب ہے، وہاں اسے عقیدے کے ایک مسئلے کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور جہاں تک اردو میں لکھی جانے والی کتب کا تعلق ہے تو وہ معدودے چند ہی ہیں۔
پیش نظرِ کتاب مسئلہ فلسطین کا ایک تاریخی مطالعہ ہے، جس میں اعتقادی معاملہ بقدرِ ضرورت ہی آیا ہے۔ کتاب مختصر لیکن جامع ہے جس کا اندازہ کتاب کے 13 ابواب کے درجِ ذیل عنوانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
1۔ فلسطین: قدیم تاریخ، 2۔ فلسطین اسلامی دور میں (635ء-1918ء)، 3۔ جدید تصّورات اور مسئلہ فلسطین، 4۔ پہلی جنگِ عظیم اور اعلانِ بالفور، 5۔ زیرِ انتداب فلسطین (1920-1948ء)، 6۔ مسئلہ فلسطین میں امریکہ کاکردار، 7۔ پہلی عرب-اسرائیل جنگ اور نکبۃ فلسطین، 8۔ تیسری عرب- اسرائیل جنگ اور سقوطِ یروشلم، 9۔ الفتح اورتنظیم آزادیِ فلسطین، 10۔ مزاحمتی تحریکیں -انتفادہ اور حماس کا ظہور، 11۔ حماس-عالمی واقعات کے گرداب میں، 12۔ غزہ بمقابلہ اسرائیل، 13۔ فیصلہ کن معرکہ: طوفان الاقصیٰ۔
علاوہ ازیں آخر میں درجِ ذیل تین ضمیمے بھی شامل ہیں:
سحبان الھند مولانا احمد سعید دہلویؒ(وفات ۱۵ دسمبر ۱۹۵۹ء)۔۔۔ تحریر: ضیاء الدین احمد برنی
Читать полностью…*جلوہ ہائے پابہ رکاب (۳) بھلائی کے دفاع کی ہمت۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم*
ہر انسان کے اندر خیر کا پہلو ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کے اندر اس خیر کے دفاع کی ہمت ہوتی ہے۔
رمضان کا مہینہ تھا، میں امریکن ایئر لائنز کے ذریعہ اسطنبول سے کویت جارہا تھا۔
شام چار بجے ہم جہاز میں سوار ہوئے، تھوڑی ہی دیر بعد ڈنر سرو کیا جانے لگا۔ ڈنر لیکر جب ہوسٹس میرے پاس آئی تو میں نے کہا کہ میری کچھ مجبوری ہے، میں غروب آفتاب کے بعد ہی کھا سکتا ہوں۔ اگر ایئر لائنز کے rules اس کی اجازت دیتے ہوں تو فبہا، اور اگر آپ کے rules میں اس کی گنجائش نہیں ہے تو مجھے قطعا کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ تھوڑی دیر بعد مسافر کھانے سے فارغ ہو گئے، اور in-flight فلم شروع ہو گئی۔ کچھ پندرہ بیس منٹ بعد ہوسٹس میرا ڈنر لے کر آئی اور کہا: سر! اب سورج غروب ہو چکا ہے،
آپ کا ڈنر حاضر ہے، اس نے میری سیٹ کے اوپر والی بتی جلا دی اور چلی گئی۔ میرے قریب بیٹھے ہوئے مسافروں کو بتی کے جلنے پر اعتراض تھا، وہ بلند آواز سے بتی بجھانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ جب بہت زیادہ شور و شغب ہوا تو میں نے بھی بجھا دی، اور اندھیرے میں کھانے لگا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک امریکی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ طالبہ لگتی تھی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے میری سیٹ کی بتی جلا دی اور بآواز بلند کہنے لگی:
لوگو! میں کافی دیر سے ان صاحب کو watch کر رہی ہوں۔ میں نے ان کی بات بھی سنی ، یہ ان کا دینی معاملہ ہے ، وہ غروب آفتاب سے پہلے کھا نہیں سکتے تھے ، اس لیے اب کھا رہے ہیں۔ ہمیں ان کے دینی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ پھر آواز میں سختی پیدا کرتے ہوئے اس نے کہا: ان کے ڈنر سے فارغ ہونے تک یہ بتی جلتی رہے گی۔ یہ کہہ کر وہ بیٹھ گئی۔
لڑکی کی اس پر عزم آواز نے معترضین کو بالکل خاموش کر دیا۔
/channel/ilmokitab
’’۱۷؍ صفر ۶۹ھ مطابق ۸؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو حضرت علامہ مرحوم و مغفور جامعہ عباسیہ کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی سے بھاولپور تشریک لے گئے، ۲۲؍ صفر ۶۹ھ مطابق ۱۳؍ دسمبر کی صبح تک طبیعت بالکل ٹھیک ہی معلوم ہوتی تھی، خلاف معمول اس روز ایک پیالی کے بجائے دو پیالیاں چائے پی، اور فرمایا رات کو کچھ حرارت رہی، چنانچہ اسی وقت ڈاکٹر کو ٹیلیفون کرکے طلب کیا گیا، ڈاکٹر نے بہت خفیف حرارت بتائی اور دوا دیدی، دس بجے کے قریب سینہ میں غیر معمولی گھبراہٹ محسوس ہوئی، دو بارہ ڈاکٹر کو بلایا گیا، نبض کی رفتار، اس وقت اپنی طبعی رفتار سے کچھ کم تھی، ایک طبیب اور دوسرے ڈاکٹر کو بھی طلب کرلیا گیا، بھاولپور کے وزیر تعلیم اور وزیراعظم اور وزیر مال بھی پہنچ گئے، چار پانچ انجکشن دیئے گئے، مگر نبض کی رفتار کم ہوتی گئی، آخر گیارہ بج کر ۵۰ منٹ پر یہ آفتاب علم غروب ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
میت اُسی روز شام کو بذریعہ پاکستان میل، ۷ بجے کے قریب بھاولپور سے کراچی روانہ کی گئی، اسی روز شام کو پاکستان کے اس مایہ ناز عالم باعمل کو لاکھوں اشک بار آنکھوں، اور سوگواروں نے سپرد خاک کیا، ڈیرہ نواب کے اسٹیشن پر نواب صاحب بھاولپور نے میت کی زیارت کی، اور اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا‘‘۔
کراچی کے اسٹیشن پر مسلمانوں کے بہت بڑے مجمع نے میت کو اتارا، اور پہلے مرحوم کے قیام گاہ پر لائے، اور پھر وہاں سے ان کے قیام گاہ کے سامنے ایک زمین میں جس کو عامل کالونی کہتے ہیں، دفن کیا گیا، سندھ کے اقطاع میں سے بھاولپور ہی وہ مقام ہے، جس سے دیوبند کے اکابر اور امداد اللہی سلسلہ کے مشائخ کو تعلق خاطر رہا، اس لیے اگر مرحوم کو موت اسی سرزمین پر واقع ہوئی، تو عالم مثال کے حوادث میں کوئی عجیب چیز نہیں ہوئی۔
مرحوم کی کوئی ظاہری اولاد نہ تھی، لیکن الحمداﷲ کہ انھوں نے اپنی کثیر باطنی اولاد چھوڑی ہے، یہ ان کے تلامذہ ہیں، جو زیادہ تر دیوبند اور بعض ڈابھیل میں اُن کے شرف تلمذ سے مشرف ہوئے ہیں، ان میں بعض مشاہیر کے نام جو مجھے معلوم ہیں وہ یادگار کے طور پر سپرد قلم کرتا ہوں، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ابوالماثر محمد حبیب الرحمان صاحبب اعظمی، مولانا محمد یوسف صاحب بنوری، مولانا محمد منظور صاحب نعمانی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہ ان میں سے ہر ایک بجائے خود دائرہ علم ہے۔
مرحوم کی پیدائش ۱۳۰۵ھ معلوم ہوئی ہے، اس لحاظ سے اُن کی عمر قمری حساب سے چونسٹھ سال کی ہوئی، اس وقت جب مرحوم کے نصف صدی کے واقعات کو سپرد قلم کررہا ہوں، میرا دل کانپ رہا ہے، اور لبِ معاصر مسافر عدم کے لیے مغفرت کی دعا میں مصروف ہیں، ایسے نادرۂ روزگار صاحب کمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کے مرقد کو پرنور فرمائے، اور اس پر اپنا ابر رحمت برسائے، وہ اب اس دنیا میں نہیں، مگر ان کے کارنامے دنیا میں انشاء اﷲ تعالیٰ حیاتِ جاوید پائیں گے۔
سالہا، زمزمہ پرداز جہاں خواہد بود
زین نواہا کہ دریں گنبد گردار زدہ است
(’’س‘‘، اپریل ۱۹۵۰ء)
/channel/ilmokitab
موصوف کے مضامین اور چھوٹے رسائل تو متعدد ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے تصنیفی اور علمی کمال کا نمونہ اردو میں ان کے قرآنی حواشی ہیں، جو حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ تعالیٰ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ چھپے ہیں، ان حواشی سے مرحوم کی قرآن فہمی، اور تفسیروں پر عبور اور عوام کے دلنشین کرنے کے لیے ان کی قوتِ تفہیم حدِ بیان سے بالا ہے، مجھے امید ہے کہ ان کے ان حواشی سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا ہے، ان حاشیوں میں انہوں نے جابجا اپنے ایک معاصر کی تصنیف کا حوالہ صاحب ارض القرآن کے نام سے دیکر اس بات کا ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ وہ معاصرانہ رقابت سے کس قدر بلند تھے، میں نے اپنے حلقۂ درس میں ان کے حواشی کی افادیت کی ہمیشہ تعریف کی ہے، اور ان کے پڑھنے کی ترغیب دی ہے، افسوس یہ ہے کہ یہ حاشیے بہت باریک چھاپے گئے ہیں، اس لئے اُن سے استفادہ میں مشکل پڑتی ہے، ان حواشی کی افادیت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ حکومت افغانستان نے اپنے سرکاری مطبع سے قرآنی متن کے ساتھ حضرت شیخ الہند کے ترجمہ اور مولانا شبیر احمد صاحب کے حواشی کو افغانی مسلمانوں کے فائدہ کے لیے فارسی میں ترجمہ کرکے چھاپا ہے، صحیح مسلم کی شرح لکھنے کا خیال ان کو اپنی نوجوانی کے عہد سے تھا، صحیح بخاری کی شرح تو احناف میں سے حافظ بدرالدین عینی نے بہت پہلے لکھ کر احناف کی طرف سے حق ادا کردیا تھا، مگر صحیح مسلم کی کوئی شرح حنفی نقطۂ نظر سے اب تک نہیں لکھی گئی تھی، اس کے لیے مرحوم نے اپنے دست و بازو کو آزمایا۔
انگریزوںکے عہد میں دیوبند میں جو بعض سیاسی اختلافات پیدا ہوگئے تھے، اور کانگریسی اور لیگی خیالات میں جو آویزش تھی، اس کی اطلاع حیدری صاحب صدر اعظم حیدر آبادکے کانوں تک پہنچی تھی، اس سلسلہ میں انہوں نے مناسب سمجھا کہ مولانا شبیر احمد کو مہتمم بناکر دیوبند بھیجیں، چنانچہ وہ اس صورت سے ڈابھیل سے واپس آکر دیوبند میں مقیم ہوئے، اور اہتمام کا کام شروع کیا، مگر ظاہر ہے کہ صرف تقرر اور منصب سے خیالات اور نظریوں کا اختلاف دور نہیں ہوسکتا تھا، چنانچہ طلبہ میں اسٹرایک ہوئی اور بعض نامناسب واقعات پیش آئے، جن کا نتیجہ ان کا استعفاء تھا۔
اس موقع پر مجھے ایک بات یاد آئی، ۱۹۱۳ء کی بات ہے کہ ندوہ میں مولانا شبلی کے استعفٰے پر ایک عظیم الشان اسٹرایک ہوئی تھی، جس میں علی گڑھ اور دیوبند وغیرہ ندوہ کے اہل اہتمام کے ساتھ تھے، اور ملک اور قوم کے آزاد اخبارات مولانا ابوالکلام کی رہنمائی میں طلبہ کی تائید میں تھے، اس وقت مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کا ایک مضمون ’’الاعتصاب فی الاسلام‘‘ کے عنوان سے الہلال میں نکلا تھا، اس کے جواب میں مولانا شبیر احمد صاحب کا مضمون اسی الہلال میں نکلا تھا، جس میں اسٹرائک کو خلاف اصول بتایا تھا، اس مضمون میں ایک مصرع یہ بھی تھا،
؎ لو آپ اپنے جال میں صیاد آگیا
پھر جب دیوبند کے احاطہ تک اسٹرائکوں کا سیلاب پہنچا تو ان کا یہ مضمون مجھے بہت یاد آیا، موصوف کے حیدرآباد دکن اور نظام حیدرآباد سے گوناگوں تعلقات پیدا ہوگئے تھے، مرحوم نے اس ہنگامہ میں جو آریہ تحریک کے زمانہ میں حیدرآباد کے مسلمانوں میں پیدا ہوگیا تھا، اپنی تقریر سے بہت کچھ مسلمانوں میں سکون پیدا کیا، یہاں تک کہ حیدری صاحب نے اپنی ممنونیت ان کی ذات کی نسبت ظاہر کی، اور منصب میں ترقی کی، مگر ایک وقت ایسا آیا کہ جب نظام پر تفضیلیت کا غلبہ تھا، اور اتفاق سے وہ مکہ مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے، تو مرحوم نے تقریر فرمائی، جس میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے فضائل بہت دلنشین طریقہ سے بیان کئے تھے، اس دن لوگوں کو مرحوم کی تقریر سے بڑی خوشی ہوئی، اور ان کے بے باکانہ اظہار حق کی سب نے تعریف کی۔
مجھے خیال آتا ہے کہ مرحوم ۱۹۱۶ء یا ۱۹۱۷ء میں انجمن اسلامیہ اعظم گڑھ کی دعوت پر اعظم گڑھ آئے اور شبلی منزل میں میرے ہی پاس ٹھہرے، اس وقت ان کی شرح مسلم کی کچھ اجزاء ساتھ تھے، جن میں قرات فاتحہ خلف الامام وغیرہ اختلافی مسائل پر مباحث تھے، جن کو جابجا سے مجھے سنایا، ایک اور دفعہ اسی زمانہ میں وہ اعظم گڑھ آئے، ٹھہرے کہیں اور جگہ تھے، مجھ سے ملنے آئے میں نے چائے پیش کی، تو پینے سے انکار کیا، انکار کی وجہ نہ معلوم ہوئی مگر بعد کو خیال آیا تو قیاس ہوا کہ چائے کی پیالیاں جو جاپانی تھیں ان پر جانوروں کی تصویریں بنی تھیں، اس لئے ان میں پینے سے انکار کیا، بہرحال اس سے اُن کے تقوی اور بزرگوں کی صحبت کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔
۱۹۲۶ء میں جب سلطان ابن سعود نے مکہ معظمہ میں عالمگیر اسلامی کانفرنس بلائی، اور ہندوستان کی مختلف مجلسوں کی طرف سے وفد بھیجے گئے، تو خلافت کے وفد کی صدارت حکیم صاحب اور احرار پنجاب کے اصرار سے اس خاکسار کے حصہ میں آئی، اور اس کے ممبر محمد علی، شوکت علی، شعیب قریشی ہوئے، اور جمعیۃ العلماء کے وفد کے صدر مولانا کفایت اﷲ صاحب، اور ممبر حافظ احمد سید صاحب، مولانا شبیر احمد صاحب مولانا عبدالحلیم صدیقی صاحب اور مولانا عرفان صاحب مرحوم تھے، یہ کل وفد ایک ہی جہاز پر حجاز کو روانہ ہوا، اور اس طرح اس سفر میں مرحوم کو بہت پاس سے دیکھنے کا موقع ملا طبیعت میں بڑی نزاکت تھی، اور بات بات میں وہ چیز ظاہر ہوتی تھی، اس لیے رفقائے سفر ان کی بڑی رعایت کرتے تھے ایک یمنی طالب علم جو دیوبند میں ان کے شاگرد تھے، ان کی خدمت کرتے تھے، اور یہ خدمت پورے سفرحجاز میں انہوں نے کی، جدہ سے مکہ معظمہ تک ہم سب ایک لاری میں آئے، جب مکہ معظمہ قریب آیا تو مرحوم پر عجب کیفیت تھی، انہوں نے قران کا احرام باندھا تھا اور ہم سب تمتع کے احرام میں تھے، جیسے جیسے مکہ معظمہ قریب آتا جاتا تھا، ان پر گریہ کا غلبہ ہوتا جاتا تھا، اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے، یہ ان کا دوسرا حج تھا، مکہ میں موتمر کے جلسے ایک ماہ کے قریب ہوتے رہے، ان میں ہم لوگ شریک ہوتے رہے اور اکثر مولانا شبیر احمد صاحب بھی شریک ہوتے تھے، اسی سفر میں مجھے علم ہوا کہ موصوف عربی تحریر و تقریر پر اچھی طرح قادر تھے، سلطان نے خلاف اور جمعیۃ کے دونوں وفدوں کو ایک ساتھ ملنے کو بلایا، اور مختلف موضوعوں پر گفتگو کی، مولانا شبیر احمد صاحب نے اس موقع پر خلافت توقع اپنے اکابر دیوبند کے عقائد اور فقہی مسلک پر اچھی اور شستہ گفتگو کی، اور سلطان اس کو دیر تک سنتے رہے۔
موتمر کی کاروائیوں میں تو مولانا نے کوئی خاص حصہ نہیں لیا، مگر موتمر کے آخری اجلاس میں ایک مضمون انہوں نے پڑھ کر سنایا، جس کو پہلے سے وہ لکھ لائے تھے، مگر اپنے رفقاء کو وہ پہلے سے نہیں دکھایا تھا، میں اس آخری جلسہ میں شریک نہ تھا، مگر وفد جمعیتہ کے ارکان کو مولانا کے اس تنہا بیان سے بڑی حیرانی تھی، بہرحال بات چپ چپ ختم ہوگئی۔
حج کے مناسک میں بھی ان کی رفاقت رہی، یہ زمانہ گرمی کا تھا، بادسموم کے جھونکے چل رہے تھے، ظہر کے وقت ذوق و شوق میں مسجد نمرہ میں نماز پڑھنے کی آرزو تھی، مگر آفتاب کی حدت اور دھوپ کی تمازت دیکھ کر ہمت نہیں پڑتی تھی، مگر مولانا کفایت اﷲ صاحب اور حافظ احمد سعید نے اونٹوں کا سامان کرلیا تھا، آخر مولانا کفایت اﷲ صاحب کے ساتھ اونٹ پر ان کا ردیف بن کر چلا، مجھے ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب گرا، اور تب گرا، اسی خوف سے واپسی میں پیدل آیا، اسی موسم کی شدت میں مولانا شبیر احمد صاحب پیدل ہی روانہ ہوئے، مسجد کے قریب ہی پہنچے تھے کہ بادسموم کے ایک جھونکے نے ان کو آلیا، مگر بال بال بچ گئے۔
اس نماز میں آنے کا شوق اس خیال سے بھی تھا کہ سلطان امامت کریں گے، اور ایک سلطان وقت کے پیچھے ہم ہندوستان کے غلام نماز پڑھیں گے، مگر مسجد میں جماعت تیار تھی، سلطان کا انتظار رہا، وہ نہیں آئے، تو ایک مصری شیخ نے نماز پڑھائی نماز ختم ہوئی تو دیکھا کہ سلطان اپنے نجدی ہمراہیوں کے ساتھ ننگے سر اور ننگے پاؤں لمبے لمبے قدم رکھتے ہوئے آرہے ہیں، بعد کو جب سلطان سے ملاقات ہوئی تو میں نے حاجیوں کی طرف سے شکایت پیش کی کہ نماز میں آپ کا بڑا انتظار رہا۔ سلطان نے کہا ہمارے نجدی بھائی آپ جانتے ہیں کہ چھتری نہیں لگاتے، اس لیے میں نے چاہا کہ ذرا آفتاب ڈھل جائے، توچلوں، مگر میرے پہنچنے سے پہلے ہی نماز ہوگئی، پھر کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں بچپن ہی سے بے گھر ہوگیا، تعلیم جیسی چاہیے نہیں ہوئی، بدوی ہوں، قرات نہیں جانتا، بدآواز بھی ہوں، اس لیے نماز پڑھانے سے گریز کرتا ہوں، میں نے مذاقاً کہا کہ سال میں ایک دفعہ لوگ آسانی سے اس آواز کو گوارا کرسکتے ہیں، مولانا شبیر احمد صاحب نے فرمایا کہ ہم ہندوستان کے مسلمان تو مشتاق رہتے ہیں کہ کسی بادشاہ یا امیر کے پیچھے نماز پڑھیں، امیر افغانستان جب ہندوستان آئے تھے، تو مسلمان سیکڑوں کوس سے اُن کے پیچھے نماز پڑھنے آئے تھے۔
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک سفر میں بھی رفاقت رہی، میں گو محمد علی و شوکت صاحب وغیرہ کے ساتھ تھا، مگر ہم جنسی اور ہم مذاقی کے سبب سے اکثر جمعیتہ والوں کے یہاں آکر بیٹھا کرتا تھا، اونٹوں کا سفر تھا، بارہ روز میں منزلیں تمام ہوئیں، ہر روز ایک نئی منزل میں قیام تھا۔
ہر روز مرا نیا مقام
صبح کہیں، کہیں ہے شام
عشق کی منزلیں تمام
راہِ دور و دراز میں
اس زمانہ میں مولانا عبیداﷲ صاحب سندھی حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ کے ترجمان تھے، مگر یہ حالت دیر تک قائم نہ رہی، اس حلقہ کی ایک جماعت پر مدرسہ کے مصالح مقدم تھے، اور دوسرے پر اسلام کے مصالح، مولانا محمود حسن صاحب دل سے دوسری جماعت میں شریک تھے، میں نے سُنا کہ انھوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہمارے بزرگوں نے تو مدرسہ اپنے اصلی مقصد (جہاد) پر پردہ ڈالنے کے لیے بنایا تھا، بہرحال مولانا عبیداﷲ سندھی کو دیوبند سے ہٹنا پڑا، اور دہلی میں مسجد فتح پوری کے ایک گوشہ میں دائرۃ المعارف کی بنیاد ڈالی، اور اس میں انگریزی خواں تعلیم یافتوں اور عربی کے فارغ التحصیل عالموں کو قرآن پاک کا درس اس جہادی اسپرٹ میں دینے لگے، جو سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی زندگی کی روح تھی، اور مجاہدین سرحد (یاغستان و چمرقند) سے حلقۂ اتصال قائم کیا گیا، اس وقت یورپ کی جنگ کے شعلے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے، اور ہندوستان میں بغاوت کا خیال روز افزوں تھا، انگریزی حکومت کی جاسوسی اپنا کام کررہی تھی، مولانا ابوالکلام، محمد علی، شوکت علی، حسرت موہانی وغیرہ احرارسب نظر بند تھے، یاجیل میں تھے، حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ نے ہندوستان سے ہجرت کی، اور وہ حجاز میں قید ہو کر مالٹا میں نظربند ہوئے، اور مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا سیف الرحمن اور مولانا عبداﷲ انصاری چھپ کر افغانستان چلے گئے، جو لوگ اب باقی رہ گئے تھے، ان میں بڑے لوگ حکیم اجمل خان مرحوم، ڈاکٹر انصاری مرحوم اور مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی تھے، ان لوگوں نے قوم کی باگ اپنے ہاتھ میں لی اور پہلے مجلس خلافت اور پھر جمعیۃ العلماء کی بنیاد ڈالی، اس وقت تک مولانا حسنؒ مالٹے میں تھے، ۱۹۲۰ء میں جو وفد خلافت لندن گیا تھا اس کا ایک ممبر یہ راقم الحروف بھی تھا، غالباً مارچ یا اپریل میں جب مسٹر فشر وزیر تعلیم قائم مقام وزیر ہندسے ملاقات ہوئی، تو میں نے حضرت شیخ الہندؒ کی اسیری و نظربندی کے معاملہ کو ان کے سامنے پیش کیا، یاد آتا ہے کہ موصوف اسی سال کے اخیر لیا ۱۹۲۱ء کے شروع میں مالٹا سے چھوٹ کر مع خدام کے جن میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب بھی تھے، واپس آئے مگر شاید چند ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہے،اور وفات پائی، اس درمیان میں عقیدتمندوں نے ہر سمت سے ان کو بلایا، مگر خود تشریف نہ لے جاسکے، اپنے قائم مقام یا ترجمان کی حیثیت سے مولانا شبیر احمد صاحب ہی کو بھیجا، ان مقامات میں سے خاص طور سے دہلی کے جلسہ میں ان کی نیابت نہایت یادگار اور مشہور ہے گائے کی قربانی ترک کرنے کے مسئلہ میں بھی جس کو حکیم اجمل خان مرحوم نے اٹھایا تھا، حضرت مولانا شیخ الہند کی طرف سے مولانا شبیر احمد صاحب نے نہایت و اشگاف تقریر فرمائی تھی، یہ ترجمانی اور نیابت مولانا شبیر احمد صاحب کے لئے نہ صرف فخر و شرف کا باعث بلکہ ان کی سعادت اور ارجمندی کی بڑی دلیل ہے۔
Читать полностью…