ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

ایک طالب علم کے لیے سب سے بڑی دعوت طالب علموں کے جلسہ کی ہوسکتی تھی، چنانچہ مولانا حبیب الرحمن صاحب نے جلسہ کا اہتمام فرمایا، یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ صدر مدرس تھے مگر اس خدمت سے علیحدگی کا خیال کررہے تھے، اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب اور حضرت مولانا حسین احمد صاحب تازہ تازہ حجاز سے ہندوستان وارد ہوئے تھے، جلسہ آراستہ ہوا، طالب علموں نے تقریریں کیں، آخر میں مولانا انور شاہ صاحب اور مولانا حسین احمد صاحب نے عربی میں تقریریں کیں، اور پھر اس کم سواد کو عربی میں تقریر کا حکم ہوا، اور اُس نے تعمیل کی۔
اس زمانہ میں آریوں کی تحریک سے شدھی کا زور تھا، اور عربی مدرسوں میں آریوں سے مناظرہ کی تعلیم دی جاتی تھی، چنانچہ جلسہ کے بعد طالب علموں نے آریہ اور مسلمانوں کے مناظرہ کا مظاہرہ کیا، طالب علموں کے دو گروہ بنے، ایک، ایک مسئلہ کا حامی تھا، دوسرا اس پر معترض، باہم سوال و جواب اور ردو قدح کا سلسلہ قائم تھا کہ ایک فریق کمزور سا پڑگیا، مولانا شبیر احمد صاحب جو مدرسین کے ساتھ میرے قریب بیٹھے تھے، مولانا حبیب الرحمن صاحب سے اجازت لے کر مدرسین کی صف سے نکل کر طالب علموں میں مل گئے، اور اس کمزور فریق کی حمایت میں فرمانے لگے، اور آخر اپنی تقریر کی قوت اور استدلال کے زور سے ہارا ہوا میدان جیت لیا، اور سب نے ان کی ذہانت اور طباعی کی داد دی، میں نے حضرت شیخ الہندؒ کی تمام عمر میں ایک دفعہ زیارت کی، اور وہ اسی موقع پر نہایت سادگی اور خاموشی کے ساتھ ایک کمرہ میں جس میں کھری چارپائی اور ایک چٹائی اور ایک مٹی کا لوٹا تھا، تشریف فرماتھے۔
اس واقعہ پر سالہا سال گزر گئے، مولانا شبیر احمد صاحب دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے، اور سال بہ سال ادنی سے اعلیٰ کتابوں کا درس دیتے ہوئے کتبِ حدیث کا درس دینے لگے، کچھ دنوں کے بعد مدرسہ فتح پوری دہلی میں صدر مدرس ہوگئے، اسی زمانہ میں میرا بھی دلی جانا ہوا، تو مدرسہ میں اُن سے ملاقات ہوئی، مگر پھر دارالعلوم دیوبند لوٹ آئے، اسی زمانہ میں مولانا عبیداﷲ سندھی حضرت مولانا شیخ الہندؒ کی طلب پر دیوبند آکر مقیم ہوئے تھے، ان کا مشن یہ تھا کہ دیوبند پر جو تعلیمی فضا محیط ہوگئی تھی، اور سید احمد شہید اور مولانا اسمعٰیل شہید کی مجاہدانہ روح جو اس حلقہ سے دبتی چلی جارہی تھی، اس کو دوبارہ زندہ کیا جائے، اور اس سلسلہ میں موتمر الانصار کی بنیاد پڑی، اور اس کا ۱۹۱۱ء؁ یا اس کے پس و پیش زمانہ میں مراد آباد میں بہت بڑا جلسہ ہوا، جس میں علی گڑھ اور ندوہ اور دیوبند کے اکثر رجالِ علم و عمل جمع ہوئے، اور تمام ہندوستان سے مسلمانوں کا بہت بڑا مجمع اس میں شریک تھا، ندوہ سے حضرت الاستاذ مولانا شبلی مرحوم شریک ہوئے تھے، اس جلسہ میں مولانا شبیر احمد صاحب نے العقل و النقل کے نام سے اپنا ایک کلامی مضمون پڑھ کر سُنایا، حاضرین نے بڑی داد دی، اس مضمون میں گو جدید معلومات حضرۃ الاستاذ کی تصنیف سے لئے گئے تھے، مگر اس کا نتیجہ اس کے برعکس نکالا گیا تھا، یہ گویا حامیانِ عقل کے اس علم کلام کا رد تھا، جس میں خرق عادت کے وجود اور معجزات کے صدور پرناک بھوں چڑھائی جاتی تھی، حضرت الاستاذ نے واپس آکر مجھ سے فرمایا تھا، کہ انھوں نے معلومات میری کتاب سے لی اور پھر میرا ہی رد کیا۔
دیوبند کے حلقہ میں اس زمانہ میں یہ بات برملا کہی جاتی تھی کہ مولوی شبیر احمد صاحب کو حضرت مولانا قاسم صاحب کے علوم و معارف پر پورا احتوا ہے، وہ حضرت مولانا کے مضامین و معانی کو لے کر اپنی زبان اور اپنی طرز ادا میں اس طرح ادا کرتے تھے کہ وہ دلنشین ہوجاتے تھے، یہ خیال رہے کہ مولانا قاسم صاحبؒ کے مضامین نہایت غامض، دقیق اور مشکل ہوتے تھے، جن تک عوام کی پہنچ نہیں ہوسکتی تھی، اس لئے اُن کے مضامین اور حقائق کو سمجھنا، پھر زمانہ کی زبان میں اس کی تعبیر و تفہیم کوئی آسان بات نہ تھی، اور اسی لیے مولانا شبیر احمد کی تقریر و تحریر کی تعریف کی جاتی تھی۔
۱۹۱۲ء؁ سے ۱۹۲۰ء؁ تک مسلمانوں کی سیاست کروٹ لے رہی تھی، یکے بادیگرے طرابلس، پھر کانپور کی مسجد، پھر بلقان کی جنگ، پھر یورپ کی پہلی جنگ عظیم کے واقعات پیش آئے، اور ہندو مسلمانوں کے میل ملاپ کی سیاسی تحریک بڑھتی اور پھیلتی گئی۔
یہاں پر ایک بات مجھے بے محاباکہنا ہے یہ وہ وقت تھا کہ جب مولانا ابوالکلام کا الہلال نکل رہا تھا، اور ان کی آتش بیانی سے مسلمانوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی، اور وہ جہاد جس کے نام لینے سے لوگ ڈرنے لگے تھے، مولانا ابوالکلام نے اس کا صور اس بلند آہنگی اور بیباکی سے پھونکا کہ یہ بھولا ہوا سبق لوگوں کی زبانوں پر آگیا، الہلال دیوبند کے حلقہ میں بھی آتا تھا، اور حضرت مولانا محمود حسن کی مجلس میں پڑھا جاتا تھا، میں نے اس زمانہ میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب کا یہ فقرہ سنا تھا کہ ہم نے جہاد کا سبق بھلادیا تھا، اور ابوالکلام نے ہم کو پھر یاد دلادیا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: قرآن میں مستعمل عربی الفاظ کا اردو املا
تحریر: عبد المتین منیری

آج علم وکتاب پر لفظ توریت کے سلسلے میں اہل علم نے تبادلہ خیال کیا ہے، بعض کی رائے میں اردو میں تورات درست ہے، اور توریت لکھنا غلط ہے۔
ہماری ناقص رائے میں اس الجھن کی اصل وجہ قرآن کے رسم املا کے سلسلے میں عموما ہماری ناواقفیت ہے۔
در اصل آج سے پندرہ سو سال قبل جب قرآن نازل ہورہا تھا توعربی زبان کی لکھائی خط کوفی کی ابتدائی شکل رائج تھی، لکھنے کے وسائل قلم دوات اور کاغذ کی متبادل چیزیں عام دسترس سے باہر تھیں۔ لہذا اس زمانے میں لکھنے کی جو زبان تھی اس میں نقطے اعراب وغیرہ نہیں پائے جاتے تھے، چونکہ زبان وعلم کا دارومدار زیادہ تر یادداشت اور حفظ پر تھا، تو نقطوں اور اعراب کے بغیر بھی عبارتیں درست پڑھی جاتی تھیں، لیکن جب اسلام جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنے لگا، اور درست عربی زبان بولنے والے ان ملکوں میں کم ملنے لگے ، تو عربی زبان کے املا کے قواعد میں تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی، اور مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، لیکن جب ہمارے ائمہ کرام نے محسوس کیا کہ املا کی تبدیلیوں کا یہ سلسلہ بند نہیں ہوگا، لہذا ان تبدیلیوں کے ساتھ قرآن کے املا میں تبدیلیاں لاتے رہنے سے اللہ تعالی کی یہ کتاب ایک کھلونا بن جائے گی، اور اس کے املا میں تغیر وتبدل ہوتا رہے گا تو دوسری تبدیلیوں کی راہ کھل جائے گی، تو انہوں نے متفقہ فتوی دیا کہ قرآن کا املا وہی رہے گا، جو نزول قرآن کے وقت تھا، اس کی آیات ماہرین قراء سے سن کر درست پڑھی اور یاد کی جائیں گی، لہذا نزول قرآن اور تدوین قرآن کے زمانے میں جو املا رائج تھا اسے امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے، اسے رسم عثمانی کہا جانے لگا، جسے غلطی سے بر صغیر میں خط عثمانی کہا جاتا ہے، خط تو نستعلیق ،رقعہ، نسخ ہوا کرتے ہیں، خط کا تعلق املاء کے قواعد سے نہیں ہے۔ لہذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی نگرانی میں جو سات مصحف تیار کرکے انہیں مختلف جگہوں پر راونہ کیا تھا، یہ قرآن کے املا کا معیار ہے۔ بعد کے ادوار میں قرآن کو درست طور پر پڑھنے کی غرض سے کھڑا الف ، کھڑی زیر، الٹی پیش وغیرہ ایجاد ہوئے، ان کا شمار حروف میں نہیں ہوتا، یہ بنیادی طور جہاں کہیں الف حذف ہوتا ہے، کہیں یاء حذف ہوتی ہے، کہیں الف ، یاء اور واو محذوف ہوتا ہے، یا یاء اور واو کی جگہ الف پڑھا جاتا ہے،وہاں پر لگایا جاتا ہے، یہ علامات عام طور پر رائج عربی زبان میں رائج نہیں ہیں، اور یہ قرآم کریم کا امتیاز بھی ہے اور اعجاز بھی، کہ قرآن کریم کے املا میں آج تک تبدیلی نہیں آئی، جوں کی توں اس کا املا بھی باقی ہے۔
یہ دیکھئے ایک نام ابراھیم ہے، قرآن میں راء کے بعد الف ، اور سورہ بقرہ میں ہاء کے بعد یاء لکھا ہوا نہیں ہے، اسے درست پڑھنے کے لئے کھڑا زبر، اور کھڑی زیر کا اضافہ ہوتا ہے، اگر ایسا عربی عبارتوں میں لکھا جائے گا تو غلط شمار ہوگا، صلوۃ، زکوۃ، جیسے الفاظ جب مضمون میں لکھے جائے گے، تو انہین صلاۃ، زکاۃ، لکھا جائے گا، عربی میں عام طور پر رسم عثمانی کے بجائے املائی کی اتباع کی جاتی ہے، لیکن عبد الرحمن جیسے بعض الفاظ اسم علم ہونے کی وجہ سے رائج قواعد املا کے خلاف بھی لکھے جاتے ہیں۔
اردو زبان میں کئی ایک الفاظ جن کا املاء قرآن میں مختلف ہے، انہیں رسم عثمانی کے مطابق لکھا جاتا ہے، جیسے صلوۃ، زکوۃ وغیرہ، لیکن چونکہ اردو زبان مین گول تاء (ۃ ) مستقل حرف تہجی میں شامل نہیں ہے، تو اسے حرف تاء (ت ) میں تبدیل کیا جاتا ہے، جیسے اردو میں (رحمۃ ) کے بجائے (رحمت ) لکھا جاتا ہے، توراۃ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے، راء کے بعد جو ( الف) پڑھا جاتا ہے، وہ بنیادی طور پر (یاء ) ہے، کھڑا زبر درست تلفظ کے لئے دیا جاتا ہے، اور اردو کے قاعدے کے مطابق ( ۃ) کو تبدیل کرکے (ت ) کردیا جاتا ہے۔
علم قراءت کی طرح علم رسم قرآن ایک مستقل علم ہے، اور اس میں بڑی تفصیلات ہیں، جنہیں بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ہے۔ گذشتہ شمالی ہند کے سفر میں علی گڑھ میں اس موضوع پر ہمارے دو محاضرے رکھے گئے تھے، جس میں ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مصاحف پروجکٹر پر پیش کرکے اس کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ ہماری دینی جامعات میں اس قسم کے تعارفی پروگرام منعقد کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔
2023-12-12
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

(166) تبصرات ماجدی(۱۶۶) صیدِ ہدف ۔۔۔ از غلام احمد فرقت
قیمت مجلد ڈھائی روپئے، ادارہ فروغ اردو ، لکھنؤ۔

اس ادارے کی مطبوعات کو اب پڑھنا اب ناظرین اور تبصرہ نگار دونوں کے لیے اچھا خاصا صبر آزما ہوگیا ہے۔سوا دوسو صفحات کی ضخامت، مضامین پندرہ بیس کی تعداد میں، اور کتاب فہرست مضامین سے یکسر خالی! دوسرے اشاعتی ادارے اب اشاریے وغیرہ بڑھا کر اپنے ناظرین کے لیے سہولتیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس ادارے نے غالبا بر بنائے کفایت شعاری فہرست جیسی ضروری چیز سے بھی اپنے ناظرین کو محروم رکھنا گویا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ شاید اسی اعتقاد پر کہ لوگ مصنف کا نام سن کر کتاب بہر حال خرید ہی لیں گے۔ فرقت کاکوری اب اردو کے پڑھے لکھے حلقوں سے خاصے روشناس ہو چکے ہیں۔ " پیروڈی" (طنزیہ نقالی) تو گویا ان کا حصہ ہو چکی ہے۔ لکھنوی زبان انہیں پہلے سے آتی تھی پر اب دہلی کا طویل قیام اور کالج میں درسی مشغلہ ان پر مستزاد ہوگئے ہیں۔ کتب ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ بعض مضمون بہت چھوٹے اور بعض اچھے بڑے۔ نوعیت سب کی تفریحی ( اور تفریح بے ضرر معصوم قسم کی) اور بعض میں ہلکا اصلاحی رنگ بھی۔ مزاح و ظرافت کا مزاج نرم و نازک ہوتا ہے۔ ذرا آنج تیز ہوئی اور قوام بگڑا۔ مزاح میں تلخی پیدا ہوگئ۔ افسوس ہے کہ اس مجموعہ میں مولانا حسرت موہانی کے ذکر میں ذرا صورت تضحیک کی پیدا ہوگئ ہے۔
سرسری نظر میں بہترین مضمون سب سے آخیر کا معلوم ہوا۔
" ایک صدی بعد نصاب اردو "۔ جس میں ایک معلوم و معروف ترقی پسند شاعر کی نظم
"لب جوئبار" کی گندہ مذاقی کی پوری تشریح کردی گئ ہے۔ چہ ر کنیت ترقی پسند کے دور میں۔

صدق جدید نمبر 29 جلد 7 مورخہ 21/جون 1957


(167) طنز و مزاح۔۔۔ از غلام احمد صاحب فرقت
جلد اول 399 صفحہ، جلد دوم از صفحہ 403 تا 824 قیمت دس روپئے ادارۂ فروغ اردو، 27 امین آباد پارک، لکھنؤ۔

کتاب کا پورا نام اردو ادب میں طنز و مزاح ہے۔ اور یہ عنوان مضمونِ کتاب کا پوری طرح مظہر ہے۔ فرقت کاکوروی خود ایک اچھے خاصے شوخ نگار ہیں اور "پیروڈی" (مضحک نقالی) میں تو کہنا چاہئیے کہ انہیں کمال حاصل ہے۔ کتاب میں طنز و مزاح کے نمونے اردو ادب سے لے کر انھیں کے جمع کئے ہوئے ہیں۔ جلد اول نظم سے متعلق ہے اور جلد دوم نثر سے۔ لیکن اصل کتاب سے قبل جو ضخیم مقدمہ ڈھائی سو صفحوں کا درج ہے وہ بجائے خود ایک کتاب کا حکم رکھتا ہے!۔ "مقدمہ" کا لفظ ابھی زبانِ قلم پر آیا ہے۔ یہ صرف فہرست مضامین سے ماخوذ ہے ورنہ اصل کتاب میں کہیں مقدمہ درج نہیں۔ اسی طرح ایک عنوان باب 11 پر ملتا ہے اور ایک دوسرا عنوان باب 23 پر لیکن فہرست مضامین ان دونوں عنوانوں سے خالی ہے! ایک لطیفہ اور صفحہ 16 تک کتاب کے صفحوں کا نمبر صفحہ کے پیچھے پڑا ملتا ہے۔ صفحہ 17 پر پہنچ کر دفعتا کاتب صاحب کو اس کی اصلاح کا خیال آتا ہے اور پھر آخر تک صفحہ کا نمبر صفحہ کے اندر ہی ملتا ہے! غرض کتاب ان کتابتی اور طباعتی نوادر و عجائب کا مجموعہ ہے۔ جواب ادارۂ فروغ اردو کی مطبوعات کا حصہ ہو چکے ہیں۔
جلد اول میں انتخاب قدیم و جدید تقریبا تیس شاعروں کا ہے۔ جعفر زٹل اور سودا سے شروع ہو کر فرقت کاکوروی اور کنہیا لال کپور تک اور درمیان میں علاوہ اکبر الہ آبادی وغیرہ کے مولانا شبلی، اقبال و ظفر علی خان بھی ہیں۔ اور جلد دوم میں کوئی 26 نثر نگاروں کا ذکر ہے۔ غالب سے لے کر فرقت کاکوروی تک اور اس فہرست میں جہاں نام سجاد حسین(ایڈیٹر اودھ پنچ) اور سرشار اور شوکت تھانوی اور قاضی عبدالستار کے ملتے ہیں وہیں منٹو اور سجاد انصاری کے بھی موجود ہیں۔ انتخاب سے قبل سب کے تمہیدی تذکرے اور تبصرے ہیں۔ اور مولف اپنا اسی قسم کا فرض مفصل مقدمے میں بھی ادا کرچکے ہیں۔
ظاہر ہے کہ سارے انتخابات ایک سطح کے نہیں۔ اور جہاں بعض اعلی نمونے مزاح و شوخی و طنز و تعریض کے درج ہوئے ہیں وہیں بعض لفظی اور بعض معنوی اعتبار سے بڑے ہی پست ہیں۔ اور فرقت صاحب نے ستم یہ کیا ہے کہ جو پیشہ ور ہنسوڑ ہیں اور جن کا کام ہی ہنسانا، دل کا بہلانا تھا(مثلا سرشار) انھیں ان لوگوں کے صف میں رکھ دیا ہے جو کوئی سیاسی یا دینی مقصد پیش نظر رکھتے تھے۔ (مثلا مولانا ابوالکلام آزاد) اور شوخی ان کے اندازِ بیان میں آ گئی تھی نہ کہ نفس مضمون میں۔ اور مولف کا تصور بھی طنز اور مزاح کے کھلے ہوئے فرق کے متعلق زیادہ صاف نہیں۔ پھر اودھ پنچ، الہلال وغیرہ کے پرانے مضامین پر توضیحی نوٹ بھی ضروری تھے۔ اب کس کے دماغ میں اتنے عرصے کی تلمیحات محفوظ ہیں؟ تاہم اتنا ضخیم مجموعہ اس موضوع پر شاید ہی کہیں اور یکجا مل سکے۔ اور مولف کی کوشش جمع و فراہمی کی حد تک تو بہرحال قابلِ داد ہے۔
صدق جدید نمبر 34 جلد 7 مورخہ 22/ جولائی 1957
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

رحم اے غم جاںاں
کلام وآواز: شمیم جے پوری
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=rahm-kar-ai-gham-e-janan, Rahm Kar Ai Gham E Janan

Читать полностью…

علم و کتاب

مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان شروانیؒ(وفات ۱۱ دسمبر ۱۹۹۲ء)۔۔ تحریر: مولانا ندیم الواجدی(تاریخ وفات ویکی سے لی گئی ہے)

Читать полностью…

علم و کتاب

حاصل المطالعة : العلم رحم بين أهله
بسم الله الرحمن الرحيم
واليوم واجهت عسرا و مشكلة في حديث أبي سعيد الذي هو مشار إليه في الترمذي في باب ماجاءأن مفتاح الصلاة الطهو. ثم أخرجه الترمذي في ابواب الصلاة مصرحا بهزوسكت عنه الترمذي ولم يحكم عليه ثم المباركفوري حكم عليه بالضعف و الشيخ بشار و صاحب كشف النقاب لم يات بشيء وانما سود الأوراق وكل هؤلاء ضعفوا هذا الحديث لان مداره على ابي سفيان مع ان الحافظ في الدراية أخرجه باسناد آخر ليس فيه أبوسفيان الضعيف عند ابي داود الطيالسي وهو صحيح فحديث ابي سعيد في الترمذي صحيح لغيره
كنت ظنت ان كشف النقاب كتا ب منفرد فإذا هو كتا نقل وجمع من غير تمحيص و لا تعليل
وتحفة الأحوذي أفضل بكثير ، و المعارف لا يتعرض لذلك كثيرا .
أنفع الشيء نفح الشذي
والمباركفور ي يحاول تضعيفه بكل قوة و حيلة لأن الحديث في عجزه مستدل الحنفية والمالكية والحنابلة في الفاتحة وسورة في فريضة و غيرها و صدر الحديث مأول عندهم اما الشافعية والحنابلة والمالكية فصدر الحديث حجة لهم من غير تأويل و الشافعية اولوا عجز الحديث بعكس الحنفية.
غدا ان شاء الله تعالى سوف أكتب فروقا بين تدريس البخاري و بين تدريس الترمذي والصعوبات الت أواجهها في الترمذي ولا أواجهها في البخاري رغم عمق البخاري
كتبه العبد الفقير / جيهان الأفغاني

Читать полностью…

علم و کتاب

قدیم علماء کی جو کتابیں مکمل نہیں ہوئی ہیں ان کی اشاعت میں زیادہ تر توجہ نہیں دی جاتی، عموما ان سے استفادے سے محرومی ہی ہوتی ہے، امام نوویؒ کی المجموع اور امام سبکیؒ کی تکملۃ المجموع کی ہہلی اشاعت ۱۹۲۵ء میں شروع ہوئی تھی، اور شامی الاصل ناشر منیر آغا نے بڑے ذوق وشوق سے اس کی اعلی معیار پر طباعت کا اہتمام کیا تھا، قاضی اکرمیؒ کے ذاتی کتب خانے میں یہ نسخہ موجود تھا، ہماری معلومات کی حد تک ایسی اعلی معیار کی طباعت اس سے پہلے کسی کتاب میں شاذ ونادر ہی پائی جاتی ہے، یہ ایڈیش تین کتابوں پر مشتمل تھا، ہر صفحہ پر یہ تینوں کتابیں پائی جاتی تھی، اوپر امام نووی کی المجموع، اس کے نیچے امام رافعی کی شرح الوجیز، اور اس کے نیچے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کی التلخیص الحبیر، چونکہ یہ ٹائپ پر چھپی تھی، لہذا طباعت کے اعلی معیار کے باوجود اس میں املائی غلطیاں بہت ساری تھیں، جو کئی کئی صفحات پر مشتمل ہوتی تھیں، جس سے کتاب پڑھنے میں بڑی اکتاہٹ محسوس ہوتی تھی، چونکہ کتاب نامکمل تھی تو نصف صدی تک اس کا کوئی دوسرا ایڈیشن نہیں نکل سکا، شیخ نجیب المطیعی کا شوافع پر احسان ہے کہ انہوں نے اس کا ایک تحقیق شدہ ایڈیشن تیارکرنے پر عمر کا ایک بڑا حصہ صرف کیا، اس ایڈیشن میں گذشتہ طباعتی غلطیوں کی اصلاح پر خصوصی توجہ دی گئی، المہذب کی شرح مکمل کی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ المجموع اب ایک سہل الحصول کتاب بن گئی ہے۔
کوئی شخص وقت اور محنت صرف کرکے کسی قدیم کتاب کا پاک وصاف ایڈیشن تیار کرتا ہے تو اس سے طلبہ و اساتذہ کے لئے دلچسپی کا سامان پیدا کرتا ہے تویہ قابل قدر بات ہے، اور اگر کوئی کسی نامکمل کتاب کی تکمیل کرتا ہے تو اس سے اس کتاب کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے، نامکمل کتابوں میں قارئین کی دلچسپی کم ہوا کرتی ہے، یہی دیکھئے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی فتح الملھم شرح مسلم کا کتنا بڑا مقام ہے، چونکہ کتاب نامکمل تھی لہذا ایک مرتبہ چھپ کر ناپید ہوگئی، لیکن جب مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اس کی تکمیل پر توجہ دی تومکمل ہونے کی وجہ سے یہ کتاب طلبہ واساتذہ میں متداول ہوگئی، اب کوئی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی شرح اور مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے تکملہ کا موازنہ کرنے بیٹھے، اور اس میں مین میخ نکالے تو کتاب کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی، کیونکہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ہم پلہ نہیں ہوسکتے، حالانکہ ان دونوں میں زیادہ سے زیادہ نصف صدی کا فاصلہ ہوگا، جبکہ نووی اور مطیعی میں چھ صدیوں کا فاصلہ ہے۔
جو علماء علم اور کتاب کے لئے اپنی زندگیاں فنا کررہے ہیں، ان کے مثبت پہلؤوں پر نظر رکھنی چاہئے، ہمیں شخصیات کے سلسلے میں اپنے ذاتی رجحانات اور جذبات کی بنیاد پر کوئی رائے پیش کرنے سے بچنا چاہئے، اس سے انصاف کا خون ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
واللہ ولی التوفیق
2023-12-10
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*چراغ آخر شب۔ حفیظ نعمانی (وفات ۸ دسمبر ۲۰۱۹ء)*

*تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل*

حفیظ نعمانی کی رحلت کے ساتھ اردو صحافت کا ایک زرین عہد ختم ہوگیا ، مرحوم صحافت کے زرین دور کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کی ہمت بندھائی، اس کے لئے انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، اس نسل کے صحافت کے عظیم میناروں میں مولانا محمد مسلم ، مولانا عثمان فارقلیط، مفتی رضا انصاری فرنگی محلی، جمیل مہدی مرحوم کے نام یاد آرہے ہیں، سنہ ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دہائی میں ندائے ملت کے ذریعہ آپ نے ملت کی رہنمائی کی ، یہ دور ہندومسلم فسادات کی آندھی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکے خاتمہ اور مسلم مجلس مشاورت کے لئے جہاں یاد رکھا جائے گا، وہیں حفیظ صاحب کے زیر ادارت ہفتہ وار ندائے ملت اور حفیظ صاحب کے زیر ادارت دوسرے اخبارات کا کردار بھی بھلایا نہیں جائے گا۔
روزنام صحافت ہمارے جن عظیم صحافیوں کی صلاحیتوں کو جس طرح کھا گئی، اور ان کی تحریروں کو زندگی نہ دے سکی ان میں حفیظ صاحب بھی شامل ہیں ۔ اس کا اندازہ مرحوم کے خاکوں کے ایک مختصر مجموعے بجھتے دیوں کی قطار سے لگا یا جاسکتا ہے، مرحوم کے تحریر کردہ خاکوں کی یہ مختصر کتاب یاد دلاتی رہے گی کہ روزانہ صحافت کی چکی میں پس کر ایک عظیم ادیب کے شاہکار یا تو ماضی کے دھندلکے میں چھپ گئے۔ یا پھرعالم وجود ہی میں ظاہر نہ ہوسکے۔
زندگی کے آخری دنوں میں حفیظ صاحب کی صحافت کی جولانی لوٹ آئی تھی،
جوانی کی بے خوفی اور بے باکی اور مصلحتوں سے بے نیازی اپنے جلوے دکھا رہی تھی، کوئی شک نہیں کہ انہوں نے بڑی دلسوزی سے ایک پس ماندہ امت کو جگانے کی کوشش کی ، ان کی آخری دنوں کی باتیں ایک بجھتے چراغ کی آخری لو کے مانند تھیں، جو پوری توانائی کے ساتھ اٹھتی ہیں اور پھرہمیشہ کے لئے سرد پڑ جاتی ہے، حفیظ مرحوم معیاری اردو صحافت کے میدان میں ایک بہترین رہنما رہیں گے، آپ کی زندگی آںے والی صحافیوں کے نسلوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی ، آپ کی یادیں مدتوں کولوں میں زندہ رہیں گی، صحافت کے عظیم کارواں کے آخری مسافر کو ہمارا سلام۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*اسلامی ،علمی اور تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا*
*تبصرہ نگار: محمد شفیق خان پسروری*

کتاب : اسلامی علمی اور تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلو پیڈیا
ترتیب و تدوین : شاہد حنیف
صفحات : 20 جلد میں ساڑھے بارہ ہزار صفحات
قیمت : 52500 روپے
ناشر: مجلس تحقیق اسلامی، 99 جے ماڈل
ٹاؤن، لاہور
فون : 4128743-0333

تاریخ نویسی اور تحقیق نگاری میں رسائل و جرائد بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ’’تحقیق نام ہے حقائق کی تلاش اور دریافت کا‘‘، جبکہ رسائل اپنے سماج کے بدلتے رجحانات اور نظریات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ فروغِ علم و ادب میں جرائد و رسائل کا کردار ہر دور میں اہم رہا ہے۔ ہر زمانے کا تخلیق کار عصری دور میں موجود خوبیوں یا خامیوں کی بھرپور عکاسی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔
رسائل و جرائد میں متنوع موضوعات پر مختلف قلم کاروں کی اپنے اپنے خاص اسلوب میں شائع شدہ نگارشات قارئین اور محققین کے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ کتاب عموماً یک موضوعی ہوتی ہے، لیکن رسائل کے مشمولات میں مختلف موضوعات کے علاوہ ایک موضوع پر کئی مصنّفین کی تحریروں سے اس موضوع سے متعلق تمام پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ اسی طرح رسالوں کی خصوصی اشاعتیں اور کسی موضوع یا شخصیت پر خاص نمبر نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند سے گزشتہ تقریباً دو صدیوں سے شائع ہونے والے لاتعداد رسائل و جرائد اپنے دور کی سیاسی، سماجی، لسانی، مذہبی و تہذیبی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان رسالوں میں نامور محققین اور مصنّفین کے ان گنت علمی، تحقیقی، ادبی، تاریخی مضامین و مقالات تک رسائی مشکل ترین بلکہ ناممکن کے قریب کام ہے۔ نادر و نایاب رسائل کی کھوج، پھر ان کی فائلوں سے متعلقہ شمارے کی تلاش آسان کام نہیں ہوتا بلکہ طویل عرصے کی جستجو کے باوجود مطلوبہ مواد نہیں ملتا۔ اس مشکل کا حل علمی و تحقیقی دنیا اور لائبریری سائنس میں اشاریہ سازی اور کتابیات ہے جس کی مدد سے تحقیق کار بہت کم وقت میں اپنے مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
کتابیات اور اشاریہ سازی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محقق کا قیمتی وقت اور سرمایہ جو مواد کی تلاش میں صرف ہوتا تھا، بچ جاتا ہے۔ اشاریہ سازی انتہائی کٹھن اور جاں گسل کام ہے۔ جن مشکلات سے محققین کو کبھی کبھار واسطہ پڑتا ہے اشاریہ ساز کو بار بار ان مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ رسالوں کی تلاش میں نجی و سرکاری لائبریریوں کے چکر لگانا اور کھنگالنا۔ اکثر ایک ایک شمارے کے لیے دوردراز کا سفر کرنا، ان کی فہرست سازی، جدید تحقیقی اصولوں پر اشاریہ سازی انتہائی مشکل عمل ہے۔
پاکستان میں ایک دو سرکاری اداروں اور جامعات میں یہ شعبہ ہونے کے باوجود فنِ اشاریہ سازی پر قابلِ تحسین کام نہیں ہورہا۔ سرکاری جامعات میں اشاریہ سازی پر سندی مقالات لکھوائے جاتے ہیں جو قابلِ اصلاح ہونے کے ساتھ ساتھ محققین کی پہنچ سے دور جامعات کے کتب خانوں میں گم بلکہ دفن رہتے ہیں۔
پاکستان میں لائبریری سائنس کے میدان میں جو لوگ اشاریہ سازی اور کتابیات کا باقاعدہ طور پر کام کررہے ہیں۔ ان میں نمایاں نام محمدشاہد حنیف کا ہے، جن کے 20 سے زائد علمی، ادبی، دینی و تحقیقی رسالوں کے اشاریے اہلِ علم و فضل سے دادِ تحسین پا چکے ہیں۔اس میدان میں وہ ربّ العزت کے فضل و کرم سے اپنے رفقائے خاص سمیع الرحمن، محمد زاہد حنیف اور دیگر چند ساتھیوں کے ہمراہ کامیابی سے سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کی تازہ مثال ’’تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ (موسوعہ فہارس مجلات علمیہ) ہے۔
محمد شاہد حنیف کا تیارہ کردہ اشاریوں کا یہ ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ جس میں برصغیر پاک و ہند کے 54 اہم دینی، ادبی، علمی و تحقیقی جرائد و رسائل شامل ہیں، کے اشاریوں کا مجموعہ ایک انوکھا تحقیقی کارنامہ ہے جس کی مثال اس سے پہلے اردو زبان کے ساتھ ساتھ کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ ایسا علمی شاہکار جس میں ملک و بیرونِ ملک کے پندرہ ہزار اہلِ علم و قلم کے 54 رسائل کے سات ہزار سے زائد شماروں کے لاکھوں صفحات میں شائع ہونے والے ایک لاکھ کے قریب مقالات و نگارشات کا سیکڑوں بنیادی موضوعات پر مشتمل اشاریہ تیار کیا گیا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ہم آج بہت سرشار سہی۔۔۔ تحریر : احمد حاطب صدیقی*

پچھلے کالم کا عنوان آنند نرائن ملا کے مشہور شعر کا معروف مصرع تھا ’’چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے‘‘۔ کالم پڑھ کر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر جناب سرشارالحق نے اپنے نامِ نامی، اسمِ گرامی کے تعلق سے تحریر فرمایا:

’’میرا نام سرشارالحق ہے۔ میرے سرکاری اسکول کے اُردو کے استاد ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے، وہ جماعت میں فرماتے تھے’’کاکا یہ بے معنی ہے‘‘۔ اب میری عمر ستّر اور اسّی کے درمیان ہے، میری عمر بھر کی الجھن دور کردیجیے۔ حق عربی میں استعمال ہوتا ہے اور سرشار فارسی میں۔ پھر میرے استادِ محترم ایسا کیوں فرماتے تھے؟ اس نام کا ایک اثر یہ ہوا کہ تمام عمر بے معنی گزاری۔ مگر حق کی سرشاری کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی‘‘۔

صاحب! جن بزرگوں کے نام بے معنی نہیں تھے اُنھوں نے کون سی بامعنی عمر گزارلی؟ اِلّا ماشاء اللہ۔ یعنی سوائے اُن بزرگوں کے جن کو خود اللہ نے چاہا کہ بامعنی عمر گزاریں۔ گنتی کے چند ہی بزرگ ایسے ہوں گے جو اپنی زندگی میں اسم بامسمیٰ نکلے۔ قبلہ! آپ نے کم از کم حق کی سرشاری میں تو عمر گزاری۔ اپنی سرشاریِ حق اور رفتہ و گزشتہ عمر کی معنویت تو آپ نے خود اپنے ایک شعر میں بیان فرما دی ہے:

سب کے اپنے نصیب ہوتے ہیں
کون چڑھتا ہے کس کی سولی پر؟

سو، آپ نے اپنے نصیب سے جو گزاری اور جیسی گزاری، اُس پر خوش رہیے اور باقی بھی گزار دیجیے۔ اُلجھن دور کرنے کی فرمائش پر ہماری تو وہ کیفیت ہوئی جو زیڈ اے بخاری کی ہوئی ہوگی۔ قصہ یہ ہے کہ ایک بار ایک مشہور عالمِ دین کو ریڈیو کے ایک نشریے میں مدعو کیا گیا۔ پروگرام ریکارڈ کرانے کے بعد مولانا کو چائے پلانے کے لیے اسٹیشن ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں لے جایا گیا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر ذوالفقار علی بخاری تھے۔ یہی صاحب زیڈ اے بخاری کے مخفف سے مشہور ہوئے۔ زیڈ اے بخاری، مشہور مزاح نگار احمد شاہ بخاری پطرسؔ کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ بڑے بخاری کہے جاتے تھے، یہ چھوٹے بخاری۔ چھوٹے بخاری اپنے بڑے بھائی کے درجے کے مزاح نگار تو نہیں تھے، مگر ’مزاح گو‘ اعلیٰ درجے کے تھے۔ شاعر بھی تھے۔ ریڈیو سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد ریڈیو پاکستان سے دلچسپ اور پُرمزاح گفتگو پر مشتمل دس منٹ کا ایک پروگرام کرتے تھے جس کا نام تھا: ’’زیڈاے بخاری کے ساتھ دس منٹ‘‘۔ تو مولانا والا قصہ یہ تھا کہ چائے پر غالباً گفتگو برائے گفتگو کی خاطر مولانا نے بخاری صاحب سے پوچھ لیا: ’’بخاری صاحب! طنبورے اور تان پورے میںکیا فرق ہوتا ہے؟‘‘


بخاری صاحب سوال سُن کر چکراگئے۔ ایک تو مولانا سے اس سوال کی توقع نہ تھی، دوسرے، فرق غالباً اُنھیں خود بھی معلوم نہ تھا۔ مگر آدمی حاضر دماغ اور حاضر جواب تھے۔ سنبھل کر پوچھا:’’مولانا! اِس وقت آپ کی کیا عمر ہوگی؟‘‘

مولانا بھی چکرا گئے۔ عمر پوچھنے کا یہ کون سا موقع تھا؟ خیر، اُنھوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا:’’یہی کوئی پچہتر برس کے لگ بھگ‘‘۔

بخاری بولے: ’’مولانا! جہاںآپ نے اپنی عمرعزیز کے 75سال طنبورے اور تان پورے کا فرق جانے بغیر گزار دیے، وہیں کچھ برس اور بھی گزار لیجیے!‘‘

بلاشبہ ’سرشار‘ فارسی کا لفظ ہے۔ فارسی میں ’شار‘ کے معنی ہیں سیلان یا بہاؤ۔ ’سرشار‘ کا مطلب ہے وہ چیز جو سر سے چھلک جائے۔ لبا لب ہونا۔ اس معنی سے کنایتہً لیے گئے معنی ہیں ’نشے سے بدمست ہوجانا‘۔ گویا بدمستی کی کیفیت ’سرشاری‘ ہوتی ہے۔ شہیدیؔ کو شبہ تھا:

مے کشو! سرخ ہیں آنکھیں جو تمھاری، شاید
شب تمھیں ساقیِ سرشار نے سونے نہ دیا

جب کہ صائبؔ کا کہنا ہے کہ ساقی کی نظرِ التفات مخمور کو سرشار کردیتی ہے اوراُس کی نگہِ عتاب بدمست کو ہُشیار:

مخمور را نگاہِ تو سرشار می کند
بد مست را عتابِ تو ہشیار می کند

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: تصوف کی چند کتابیں
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )

کل علم وکتاب کی اس بزم میں تصوف ، ابن عربی اوروحدۃ الوجود کے موضوع خوب گہما گہماری ہیں، اس سلسلے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں:
۔ علم وکتاب گروپ میں متنوع فکر کی مالک شخصیات کو یکجا کیا گیا ہے، اس کا مقصد یہ کہ ہماری معلومات کسی ایک دائرے تک محدود نہ رہیں، ہمیں معلوم ہو کہ ہم سے مختلف فکر رکھنے والے افراد کس انداز سے سوچتے ہیں، اگر وہ غلط سوچتے ہیں تو ان کو دلیل وبرہان سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے، اور یہ ممکن نہ ہوسکے تو کم از کم جس فکر کو اہم درست سمجھتے ہیں سنجیدگی اور وقار کے ساتھ انہیں پہنچایا جائے، اپنی فکر کو اپنے ماننے والوں میں پھیلا نا آسان ہے، اس کی چنداں اہمیت بھی نہیں، کیونکہ وہ تو اس کے پہلے سے قائل ہیں۔
۔ بعض دفعہ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف کوئی زبان سیکھنے سے اس کی فنی کتابیں سمجھنا آجاتا ہے،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بعض فنی کتابوں کو اساتذہ سے پڑھنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ کسی عبارت کو عمومی اور سرسری انداز سے پڑھنے اورفن کی باریکیوں کو سمجھنے میں بڑا فرق ہے، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی کتابیں اسی قبیل سے ہیں، فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم کو کم از کم اساتذہ سے پڑھنا چاہئے، اس کا اندازہ اس ناچیز کو پہلےپہل مولانا مناظر احسن گیلانی کی تدوین فقہ کے مطالعہ کے دوران ہوا تھا،( واضح رہے یہ کتاب کوئی پینتالیس سال قبل حیدر آباد سے شائع ہونے والے مجلہ علمیہ کے خاص نمبر کی حیثیت سے پڑھی تھی، یہ اردو ٹائپ پر چھپی تھی، اس وقت تک اس کتاب کا کوئی اور ایڈیشن نہیں آیا تھ، اور اس اسے قبل پروفیسر یوسف کوکن عمری ، سابق پرنسپل جمالیہ کی کتاب سیرت ابن تیمیہؒ مطالعہ سے گذر چکی تھی)، مولانا گیلانی کی تحریر سے اندازہ ہوا کہ اس قسم کی کتابوں کی عبارتوں کے ظاہری الفاظ سمجھ کر فورا کوئی فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں، اس بات سے مصنف کی حق تلفی ہوسکتی ہے، اور کسی اللہ والے کے بارے میں بدگمانی کا سبب بن سکتی ہے، جو کسی طرح مناسب نہیں، اس کے بعد مولانا عبد القدیر بدایونی کا فصوص الحکم کا ترجمہ نظر سے گذرا، جس کے صفحہ نمبر ( ۱۹) پر عقائد شیخ اکبر کے عنوان سے مولانا بدایونی نے ایک باب باندھا ہے، جس میں فتوحات مکیہ جلد اول سے شیخ اکبر کی زبانی آپ کے عقائد بیان ہوئے ہیں۔
ہمارا یہ مقام نہیں کہ ان پر کوئی فیصلہ دے سکیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسلاف میں سے کسی کے بارے میں خوش گمانی کے اسباب ہوں، تو پھر بدگمانی سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے، اگر اس کے لئے کسی ہلکی سی تاویل کا سہارا بھی ملتا ہو، تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔
۔ تزکیہ نفس ، تصوف کا ایک جزء ہے، تصوف تزکیہ نفس کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مستقل فن ہے، اور اسے سمجھنے کے لئ عربی زبان کی باریکیوں کے ساتھ قدیم فلسفہ وکلام پر مہارت بھی ضروری ہے، جن احباب نے گروپ میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے، ہماری رائے میں وہ صاحب فن نہیں ہیں، ہماری بزم میں اس کی درست تشریح کے حقدار ڈاکٹر مفتی مشتاق تجاوری، محترم احمد جاوید یا پھر ہمارے مفتی سید شاہجہاں صاحب ہیں، کیونکہ وحدۃ الوجود ، وحدۃ الشہود ، فلسفہ اشراق جیسے مسائل کی ڈور بڑی الجھی ہوئی ہے، ان حضرات کی تفہیم وتشریح کی کوششوں کے باجود ضروری نہیں کہ ہماری کوڑھ عقل میں یہ باتیں مکمل سمجھ میں آجائیں۔
۔ ہمارے اکابر نے تصوف سے تزکیہ نفس کا حصہ لیا ہے، اور اسی پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، وحدۃ الوجود اور دوسرے تصوف کے مسائل سے انہوں نے زیادہ سروکار نہیں رکھا ہے، اگر رکھا بھی ہے تو علم وتحقیق کی حد تک ہے، ان کی تبلیغ نہیں کی ہے، ان اکابر میں سے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ابن عربی اور حلاج کی طرف منسوب بہت سی باتوں کے سلسلہ میں وضاحت کی طرف خود بھی توجہ دی ہے، اور اپنے عزیز مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو بھی اس کام پر لگایا ہے،جہاں تک یاد پڑتا ہے ان کتابوں میں ان شخضیات کی طرف منسوب غلط عقائد کی تائید نہیں کی گئی ہے، بلکہ ان کی طرف منسوب باتوں کی تشریح اس انداز سے کی گئی ہے جس سے ان عبارتوں سے عمومی طور پر لیا گیا مفہوم درست ثابت نہیں ہوتا۔ دفاع اور وضاحت کا یہ انداز کہاں تک علمی وتحقیقی معیارات پر اترتا ہے، یہ ہم سے بڑوں کا مقام ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ان کی آنکھوں میں تجلی
کلام وآواز: کیف بنارسی
وفات (۶/دسمبر ۲۰۰۳ء )
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=unki-aankhou-me-tajalli, Unki Aankhou Me Tajalli

Читать полностью…

علم و کتاب

مجاز۔۔۔ تحریر: جوش ملیح آبادی و جاں نثار اختر

Читать полностью…

علم و کتاب

https://www.youtube.com/watch?v=ZTwGNqpKMFY&list=PL5AFF3B0018DDC975&index=121

Читать полностью…

علم و کتاب

شرر کی کتابوں میں ہماری پسندیدہ کتاب گذشتہ لکھنو ہے، لکھنو کے مزاج کے مطابق اس میں بھی مبالغہ آرائی کا رنگ پایا جاتا ہے، لیکن یہ ایک زوال پذیر گذشتہ تہذیب کا آئینہ ہے، ہمارے خیال میں ہندوستان کی مختلف اسلامی سلطنتوں کی تہذیب وثقافت کی تاریخ پر اس قسم کے مضامین مشکل سے ملتے ہیں، اس کتاب کو پڑھنے کا شوق ہمیں ڈاکٹر سید عبد الباری مرحوم جو شاعری کی دنیا میں شبنم سبحانی کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے "لکھنو کے شعر ادب کا معاشرتی کا معاشرتی وثقافتی پس منظر، عہد شجاع الدولۃ سے واجد علی شاہ تک " سے ہوا تھا، اس کتاب کا پہلا ایڈیش ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا تھا، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک اور کتاب کا شوق چرّایا وہ تھی مرزا قتیل کی "ہفت تماشا" اس کتاب کا ڈاکٹر محمد عمر ( استاد تاریخ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) کا کیا ہوا ترجمہ ۱۹۶۸ء میں برہان دہلی نے شائع کیا تھا، ہماری رائے میں ایک طالب علم کو ڈاکٹر سید عبد الباری، عبد الحلیم شرر اور مرزا قتیل کی ان تینوں کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے، اور اس مطالعہ کا آغاز ڈاکٹر صاحب کی کتاب سے کرنا چاہئے۔ ان کے مطالعہ سے ان بہت سی معاشرتی اور ثقافتی گتھیوں کو سلجھنے میں مدد مل سکتی ہے، جو معاشرتوں اور ثقافتی تاریخوں کو پڑھے بغیر سمجھ میں مکمل طور پر نہیں آتیں۔یہاں ایک اور کتاب یاد آئی، شاہ محی الحق بحری آبادی کی کتاب Sir گزشت، شاہ صاحب ڈاکٹر مشیر الحق بحری آبادی کے بڑے بھائی تھے، آپ نے اپنی آب بیتی میں اعظم گڑھ اور پوربی یوپی کی تہذیب ومعاشرت پر بہت خوب روشنی ڈالی ہے۔
عبد الحلیم شرر کو ممکن ہی ہماری نسل بھول گئی ہے، اور ان کے اسلوب نگارش میں وہ جاذبیت نہیں پارہی ہے جو ایک صدی پیشتر کا قاری محسوس کرتا تھا، لیکن آپ نے ناولوں کے ذریعے قوم میں اسلام او اپنے اسلاف سے محبت دل میں پیدا کرنے کی کوشش میں عمر عزیز کا جو حصہ صرف کیا ہے اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ
دسمبر ۱۹۴۹ء؁ کے وسط میں جدہ میں تھا، ۱۳؍ دسمبر کی شام کو مغرب کے بعد حکومت سعودیہ کی وزارت خارجیہ جدہ میں ایک ہندوستانی مسافر کی دعوت تھی، شہر کے کچھ معززین، اسلامی حکومتوں کے سفیر اس میں شریک تھے، ہندوستان پاکستان، مصر و عراق وغیرہ کے سفیر اور وزارت خارجہ سعودیہ کے بعض ارکان موجود تھے میں ہندوستانی کونسل کے نمائندوں پروفیسر عبدالمجید خان انڈین کونسل اور مولانا عبدالمجید الحریری کمشنر حج متعین جدہ کے ساتھ وہاں پہنچا، احباب کچھ آچکے تھے کچھ آرہے تھے، مختلف موضوعوں پر گفتگو تھی، خصوصیت سے کراچی میں اسلامی ملکوں کی جو اقتصادی کانفرنس ہورہی تھی اس میں حجاز کی طرف سے حجاز کی اقتصادی حالت کی جو مطبوعہ رپورٹ اس وقت سامنے رکھی تھی اس پر گفتگو ہورہی تھی کہ اتنے میں جدہ میں پاکستانی کونسل مسعود صاحب جو مولانا ابوالبرکات عبدالروف صاحب وانا پوری کے صاحبزادہ ہیں، تشریف لائے اور نہایت افسوس کی ساتھ یہ ذکر کیا کہ آج مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کا انتقال ہوگیا، اس خبر کے سننے کے ساتھ مجلس پر اداسی چھا گئی، میرے سامنے سے پوری نصف صدی کی معاصرانہ مسابقتوں کی ایک دنیا گزرگئی۔
۱۹۰۲ء؁ کی بات ہے وہ دارالعلوم دیوبند میں اور راقم دارالعلوم ندوہ میں تعلیم پارہے تھے، یہ زمانہ دونوں درسگاہوں کا زریں زمانہ تھا، دارالعلوم ندوہ میں میرے ساتھ میرے ایک عزیز قریب و ہم وطن (مولوی سید محمد قاسم صاحب خلف الرشید مولانا شاہ تجمل حسین صاحب خلیفہ شاہ فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی، و حضرت مولانا شاہ امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی، (رحمہم اﷲ تعالیٰ) رفیق درس تھے، وہ اپنے والد کے حکم سے ندوہ چھوڑ کر دیوبند چلے گئے تھے، اُن کو طالب علموں کی انجمن سازی اور دفتری داری کا بڑا اچھا سلیقہ تھا، چنانچہ دیوبند پہنچ کر انہوں نے اس سلیقہ کا ثبوت دیا، اور دیوبند میں طالب علموں کی تقریر و تحریر کی ایک انجمن کی بنیاد ڈالی، مولانا شبیر احمد صاحب جو ان دنوں اُنہی کی عمر کے طالب علم تھے، اور تقریر و تحریر کا فطری ذوق رکھتے تھے، ان جلسوں میں دلچسپی لیتے تھے، اور اسی مناسبت سے مولوی قاسم سے بھی ان کو محبت تھی، مولوی قاسم نے ندوہ و دیوبند کو ملانا چاہا۔ وہ میرے خطوں میں مجھ سے مولانا شبیر احمد صاحب کا تذکرہ کرتے تھے اور سلام پہنچاتے تھے، اور میرا تذکرہ ان سے کرتے تھے، اور میری طرف سے ان کو سلام پہنچاتے تھے، اس تعلق کا یہ اثر ہوا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے آشنا اور ایک دوسرے سے واقف ہوگئے، یہ وہ زمانہ تھا جب دیوبند سے القاسم اور ندوہ سے الندوہ نکل رہا تھا، اور ہم دونوں کے مضامین اپنے اپنے پرچہ میں نکلتے تھے، اور چھپتے تھے، اسی زمانہ میں مرحوم کسی تعلق سے لکھنؤ آئے، تو مدرسہ میں مجھ سے ملنے آئے، یہ میری اُن کی طالب علمانہ ملاقات کا پہلا موقع تھا یہ غالباً ۱۹۰۴ء؁ کی بات ہے۔
۱۹۰۶ء؁ میں میری دستار بندی ہوئی، اور دستار بندی کے جلسہ میں برجستہ عربی تقریر کی وجہ سے عربی مدرسوں میں ایک خاص شہرت حاصل ہوئی، اور اسی زمانہ میں مولانا کو بھی فراغت حاصل ہوئی وہ دارالعلوم دیوبند میں اور میں دارالعلوم ندوہ میں مدرس ہوگئے، اسی کے سال دو سال کے بعد کسی انجمن کی دعوت پر پنجاب جانے کا اتفاق ہوا، تو راہ میں سہارنپور اُترکر دیوبند چلا گیا، یہ میری حاضری کا پہلا اتفاق تھا، ان دونوں دارالعلوم دیوبند میں میرے عزیز دوست ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب (خلف مولانا سید حکیم عبدالحی صاحب ناظم ندوہ) ندوہ کی تعلیم سے فارغ ہو کر دیوبند میں حدیث کے دورہ میں شریک تھے، میں نے اس کا اہتمام کیا کہ مجھے کوئی پہچانے نہیں منہ چادر میں لپیٹے تھا، مدرسہ پہنچ کر سید عبدالعلی صاحب کو پوچھ کر ان کے کمرہ میں گیا، وہ مجھے یک بیک دیکھ کر زبان سے کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ میں نے اشارہ سے ان کو منع کیا اور وہ رُک گئے، اور ساتھ لے کر مدرسہ اور درس کے کمرے دکھانے لگے، اور آخر میں اوپر چھت پر دارالشوریٰ اور دارالاہتمام دکھانے لے گئے، اتفاق دیکھئے کہ ایک طالب علم جو پہلے ندوہ میں پڑھتے تھے، اور اب دیوبند میں زیر تعلیم تھے، وہ دارالاہتمام سے نکل رہے تھے، وہ مجھے دیکھنے کے ساتھ دوڑ کر مولانا حبیب الرحمان صاحب نائب مہتمم کی خدمت میں چلے گئے، اور میرا نام بتادیا، موصوف نے جو ہمہ تن متواضع اور خاکسار تھے، ایک معمولی طالب علم کے لیے یہ زحمت فرمائی کہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ اندر کمرہ میں لے گئے، اور چائے کی دعوت فرمائی جس میں اکثر حضرات مدرسین شریک تھے، دوسرے وقت حضرت مولانا حافظ احمد صاحب مہتمم مدرسہ نے اپنے فضیلت کدہ پر کھانے کی دعوت فرمائی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا معین الدین احمد ندوی(وفات ۱۲ دسمبر ۱۹۷۴ء)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد السلام قدوائی ندوی

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة- ثابت الأنصاري بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا

Читать полностью…

علم و کتاب

مسیح الامت مولانا مسیح اللّٰہ خان شیروانیؒ کی تاریخ وفات کی سر دست تحقیق (غلط نتیجے سے صحیح نتیجے تک)

اردو ویکیپیڈیا پر صفحے کے اوپر غلط تاریخ وفات درج ہو گیا ہے، درست کیے دیتا ہوں (صفحہ کسی اور نے بنایا تھا)


وفات والے خانے میں درست تاریخ وفات ہے یعنی 12 نومبر 1992ء اس حوالے کے ساتھ:⬇️
https://www.whitethreadpress.com/author/maulana-masihullah-khan-sherwani/


انگریزی پر بالکل درست ہے


پھر میں نے تاریخ وفات کی تحقیق کے لیے جب ذکر رفتگاں جلد اول کا اپریل 2020ء والا ایڈیشن دیکھا تو اس میں 13 نومبر لکھا ہوا تھا؛ مگر اگلی سطر میں لکھا ہوا تھا: ”اگلے روز جمعہ کے دن آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی“

انٹرنیٹ پر تحقیق کی کہ 12 نومبر کو کونسا دن تھا؟ معلوم ہوا کہ جمعرات تھا، جس سے خلاصہ ہوگیا کہ ذکر رفتگاں میں ٹائپنگ وغیرہ کی غلطی ہو گئی ہے شاید؛ کیوں کہ 12 نومبر 1992ء کو جمعرات تھا اور اگلے دن جمعہ کو 13 نومبر تھا۔

سوانح مسیح الامت دیکھنے سے ذکر رفتگاں میں درج تاریخ وفات کی توثیق ہو گئی کہ وہاں درست ہے

سوانح مسیح الامت (مصنفہ: مولانا سید محمد غیاث الدین مظاہری الہ آبادی، اشاعت: فروری 2005ء) کے صفحہ نمبر: 152 پر لکھا ہوا ہے:

”... کہ اچانک اللّٰہ کی آواز کے ساتھ طائر روح نے ملأ اعلیٰ میں اپنا نشیمن بنا لیا۔ جمعہ کی رات تھی، سوا بارہ بجے کا وقت تھا اور 17 جمادی الاولی 1313ھ مطابق 13 نومبر 1992ء کی تاریخ تھی...“

رات سوا بارہ بجے انتقال ہوا تھا تو بعض لوگوں نے دھوکے سے سمجھ لیا ہوگا کہ 12 کو انتقال ہوا اور اگلے دن جمعہ کے دن 13 کو جنازہ ہوئی۔

ندائے شاہی میں تاریخ تو 13 نومبر درست لکھا؛ مگر ساتھ میں لکھ دیا کہ اگلے دن جمعہ کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی۔

عبارت یوں ہے: ”...گذشتہ ۱۳ نومبر ۱۹۹۲ء کو جلال آباد میں وفات پاگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اگلے روز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی...“

”اگلے روز جمعہ کے بعد“ یہ غلط لکھا۔

خیر! تحقیق ہو گئی کہ انتقال 13 نومبر 1992ء ہی کو جمعہ کی رات سوا بارہ بجے ہوا اور اسی روز جمعہ کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی اور ویکیپیڈیا پر غلط تاریخ وفات درج ہے (وہاں بھی درست کر دیتا ہوں)۔ فللہ الحمد

محمد روح الامین میُوربھنجی
صارف:Khaatir
26 جمادی الاولی 1445ھ مطابق 11 دسمبر 2023ء، بہ روز دو شنبہ

Читать полностью…

علم و کتاب

*سچی باتیں (۱۹؍اگست ۱۹۳۲ء)۔۔۔ دعا*

*تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*

اے بسا مخلص کہ نالد در دعا
دور اخلاصش بر آید تا سما
روزمرہ کا تجربہ ومشاہدہ ہے، کیسے کیسے مخلصین کس کس طرح رورو کر گڑگڑاگڑگڑاکر دعائیں کرتے رہتے ہیں اور قبول نہیں ہوتی ہیں۔ فرشتوں تک کو ترس آجاتاہے، اور وہ عرض کرتے ہیں، کہ بارِ الٰہا، تیری رحمت تو دشمنوں تک پر ہے، پھر دوستوں کے حق میں یہ تاخیر کیسی؟
بس ملائک با خدا نالند زار
کائے مجیبِ ہر دعا و مستجار
بندۂ مومن تضرّع می کند

او نمی داند بجز تو مستند
تو عطا بیگانگاں را می وہی

از تو دارد آرزو و ہر مشتہی
جواب ملتا ہے، کہ بے شک ہم رحیم بھی ہیں اور قادر بھی، لیکن ساتھ ہی’’حکیم‘‘ بھی تو ہیں۔ مصلحتوں اور حکمتوں ، بندہ کے نفع ونقصان کا بھی علم ہم ہی کو تو ہے۔ یہ جو دیر ہورہی ہے، تو اس میں عین اسی بندہ کی مصلحت ہے۔
حق بفرماید نہ از خواریِ اوست

عین تاخیرِ عطا یاریِ اوست
بہت ہم سے بھاگا بھاگا پھر رہاتھا۔ یہ آرزو اور حاجتمندی ہی تو اسے گھر گھار کر ہماری طرف لائی ہے، اگرآرزو پوری کردی گئی، تو پھر کبھی تو ادھر رُخ کرنے کا نہیں۔ پھراُسی طرح بھاگے گا، اور کھیل کود میں پڑجائے گا۔ نالۂ وزاری سے اس کا مرتبہ بڑھ رہاہے، کچھ گھٹ نہیں رہاہے۔ آہ وفریاد ، اضطرار واضطراب، سوزوگداز ہی کی نذر تو ہمارے دربار میں مقبول ہے۔
نالۂ مومن ہمی دریم دوست

گو تضرع کن کہ ایں اعزازِ اوست
حاجت آوروش ز غفلت سوئے من

آن کشیدش موکشاں در کوئے من
گر بر آدم حاجتش او واردو

ہم دراں بازیچہ مستغرق شود
قبول دعا میں تاخیر کم التفاتی کی بناپر نہیں، عین لطف والتفات کی بناپرہے۔ عاجز وبے کس بندہ کو کیاخبر، کہ اس کی’’یارب‘‘ ’’یارب‘‘ کی صداؤں سے اس کے کیا کیا مرتبے بڑھ رہے ہیں، کیسے کیسے درجے طے ہورہے ہیں، اور اُس کی مناجات ہمیں کیسا کیسا خوش کررہی ہے!
خوش ہمی آید مرا آوازِ او

واں ’’خدایا‘‘ گفتن و آن رازِ او
آگے چل کر مولاناؒ (روم) فرماتے ہیں، کہ انسان اپنی تفریح اور دلبستگی کے لئے پنجرہ میں طوطی اور بُلبل کو بند کرتاہے، ان کی آوازوں سے لطف لیتاہے، کوّے اور اُلُّو کو قید نہیں کرتا۔ جو دیکھنے میں حبس وبند، گرفتاری واسیری ہے، وہی درحقیقت عین مقبولیت ومحبوبیت ہے۔ دو سائل سوال کرنے آتے ہیں، جو کریہ منظراور بدقوارہ ہوتاہے، اُسے فورًا کچھ دے کر رخصت کردیاجاتاہے، جو خوش منظراور قبول صورت ہوتاہے، اُس کو طرح طرح حیلے بہانے کرکے لیاجاتاہے۔ بیچارہ سمجھتاہے، کہ اُس کے سوال کے پورے ہونے میں دیر لگ رہی ہے، دینے والے کریم کا دل اُس پر آئینہ ہوتا، تو اس تاخیر وانتظار پر صدہا عجلتیں اور فوری کامرانیاں قربان کردیتا!
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ملا رموزی(وفات ۱۰ دسمبر ۱۹۵۲) ۔۔ تحریر: نصر اللہ خان

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: مذہب حنفی کی کتابوں کے نئے ایڈیشن*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

یہ ۱۹۷۵ء بات ہے،اور اس پر نصف صدی کا عرصہ بیت رہا ہے، میں قدوائی روڈ پر واقع اپنے پھوپھا مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمیؒ کے مکان اکرمی منزل سے مولانا آزاد روڈ ہوتا ہوا، مین روڈ پر مڑا، تو بائیں طرف کچھ دکانیں چھوڑ کر جہاں پہلے ملبار بیکری ہوا کرتی تھی، اور اب قاسمجی کامپلیس کھڑا ہے، وہاں مولانا محمود خیال مرحوم سے ملاقات ہوئی، خیال صاحب انجمن اسلامیہ اینگلو اسکول کے مدرس دینیات تھے ، آپ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کے قدیم فارغ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھیوں میں تھے،مولانا وہاں ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے، اس وقت میرے ہاتھ میں قرافی کی کتاب الفروق کا قدیم نسخہ تھا، مولانا نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تمھاری بغل میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب رہتی ہے،اور تمھیں کتب بینی کا شوق معلوم پڑتا ہے، میری ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ *کسی مصنف کے بارے میں مرعوبیت ، نفرت یا ذاتی رجحانات کی بنیاد پر کتاب پڑھنے سے پہلے کوئی رائے قائم نہیں کرنا، رائے کتاب پڑھ کر ہی قائم کرنا*، الحمد للہ اس وقت سے اس ناچیز کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اس سنہری نصیحت پر عمل پیرا رہوں،چاہے اس پر کوئی بھی ناراض ہوجائے، اس روئیے کا فائدہ ہمیں اپنے میدان عمل میں ہمیشہ محسوس ہوتا رہا ہے، اگر مصنفین کے بارے میں اپنے ذاتی رجحانات کی بنیاد پر چلتے،تو شاید ہمارے پاؤں جگہ جگہ لڑکھڑا جاتے اوربھیانک غلطیوں کے سرزد ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے، جس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑتا، کتابوں سے وابستہ ذریعہ معاش ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا۔ اور ایک بڑے خیر سے محرومی ہوتی۔
آج یہ بات دوبارہ ہمیں اس لئے یاد آئی اور کئی مرتبہ اس بزم میں ہم کہ بھی چکے ہیں کہ بیس تیس سال قبل تک مذہب حنفی کی ایسی کتابیں نظر نہیں آتی تھی جن کی مختلف قلمی نسخوں کو سامنے رکھ کر تحقیق وتدوین کے معیاری اصولوں کے مطابق اشاعت ہوئی ہو، ملا علی قاریؒ، شرنبلالیؒ، احمد کمال باشاؒ وغیرہ محققین کے تحقیق شدہ رسائل بھی عنقا تھے، جو ایڈیشن برصغیر کے مدارس میں رائج تھے وہ لیتھو پریس پر سوسال پرانے ایڈیشن تھے، جن میں نہ صرف طالب علموں کی بلکہ اساتذہ کرام کی بھی دلچسپی کا سامان نہیں ہوتا تھا۔
اس ماحول میں گزشتہ ایک دو عشرے کے دوران احناف کی قدیم کتابیں منظر عام پر آنے لگی ہیں، چونکہ اس میدان میں حنفی محققین کا تجربہ اتنا نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کے محققین کا ہے، کیونکہ ایک طویل عرصے سے ان کی کتابوں کی اشاعت معیاری تحقیق وتدوین کے ساتھ تسلسل سے جاری وساری ہے، اب کچھ لوگ اس کام میں آرہے ہیں تو ان میں نقائص کی تلاش سے زیادہ ان کے مثبت پہلؤوں پر ہماری نظر رہنی چاہئے۔ ہمیں ان کاموں کی ہمت افزائی کرنی چاہئے، اور امید رکھنی چاہئے کہ جب ہمارے اساتذہ وطلبہ کی نظروں سے یہ ایڈیشن گزریں گے، اور ان میں وہ چند علمی وتحقیقی خامیاں یا کمیاں پائیں گے تو اس سے آئندہ ایڈیشنوں میں ان شاء اللہ ان کی تلافی ہوسکے گی۔ کسی شخص کے سلسلے میں اپنی ذاتی رائے اور رجحانات کی بنیاد پر کتاب پڑھے بغیر منفی رائے قائم کرنا علمی دیانت شمار نہیں ہوگی۔
یہاں ایک اور بات یاد آئی، فقہ شافعی کی ایک مشہور کتاب ہے امام ابو اسحاق شیرازی (ف ۴۷۶ھ ) کی المہذب، جس کے بارے میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ قدیم فقہی لٹریچر میں یہ سب سے فصیح اور سلیس کتاب ہے، اس کی کئی ایک شرحیں ہیں جن میں امام نووی ( ف ۶۷۷ھ) کی المجموع شرح المہذب کو فوقیت حاصل ہے، شیخ محمد ناصر الدین الالبانیؒ کو ہم نے کئی بار کہتے سنا کہ یہ فقہ کی عظیم ترین کتاب ہے، لیکن امام صاحب کو یہ شرح مکمل کرنے کاموقع نہ مل سکا تھا، اس کی نویں جلد لکھ رہے تھے کہ فرشتہ اجل آ پہونچا، پھر اس کی تکمیل کی کوشش ایک دوسرے فقیہ امام تقي الدين أبي الحسن على بن عبد الكافي السُّبْكيؒ (ت 756 هـ) نے کی اور بیع المرابحہ تک مزید تین جلد یں لکھ پائے تھے کہ انہیں بھی بلاوا آگیا، پھر اس کی تکمیل کا شرف سینکڑوں سال بعد ایک مصری عالم دین شیخ محمد نجیب المطیعیؒ (وفات ۱۹۸۵ء) کو ملا۔ اور انہوں نے ۲۳ جلدوں میں اس شرح کو مکمل کیا۔
امام نوویؒ کی کتابوں میں اللہ تعالی نے بڑی برکت دی ہے، امام تقی الدین علی السبکیؒ بھی چوٹی کے فقیہ تھے، لیکن وہ امام نووی کے درجے کو نہ پاسکے، اب چھ سو سال بعد آج کے دور کا کوئی مصنف اس مقام کو پاسکے گا تو یہ سوچنا بھی غلط ہے، لیکن مطیعی کے کام کی اہمیت کو مکمل طور پر گرادینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ مطیعی کو عصر حاضر کے بہت سے جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کا سامنا قدیم علماء کو نہیں کرنا پڑا تھا، مطیعی بھی خود ایک معتبر عالم دین تھے، ان کی بھی زندگی مصر، سوڈان اور جزیرۃ العرب میں تعلیم وتعلم میں گذری ہے۔ اور اپنے دور میں ایک بڑا نام تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

’’تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ بیس جلدوں میں گیارہ ہزار کے قریب صفحات پر مشتمل ہے جس میں مختلف مکاتبِ فکر (اہلِ حدیث، دیوبندی، بریلوی)، تحریکی حلقوں اور اہم پاکستانی یونیورسٹیوں کے رسائل بھی شامل ہیں، جنہیں سیکڑوں بنیادی و ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسے علوم قرآنی، اعجاز القرآن، تدوین قرآن، علوم تفسیر، عظمت ِحدیث، حجیت حدیث، علوم سیرت النبیؐ، صحابہ کرامؓ، صحابیاتؓ، تابعین، عبادات، شعر و ادب، فقہ و اجتہاد، فقہی مسائل، سیر و سوانح، اسلام اور مستشرقین، ادبیات، تاریخ، ادبی تحریکات، اقبالیات، غالبیات، غزلیات ، تقابل فرق و ادیان، جماعتیں، ادارے، تزکیہ نفس، شاعری، صحافت وغیرہ کے بنیادی موضوعات کے علاوہ سیکڑوں ذیلی موضوعات میں ہزاروں مضامین کو علمی انداز میں سمویا گیا ہے۔
فاضل محقق محمد شاہد حنیف نے اس کثیر الجہاتی اشاریے کو لائبریری اصولوں کے مطابق (ترتیب زمانی، موضوع وار اور مصنف وار) مرتب کیا ہے۔ اس طرح کئی خصوصیات کی وجہ سے متعلقہ مواد تک کسی بھی محقق کی رسائی کو آسان تر بنا دیا ہے۔ مطلوبہ شخصیت یا موضوع پر مواد کے لیے ہر طالب علم اور تحقیق کار کو اس فہرست سے ہی رہنمائی مل جاتی ہے۔
پاک و ہند کے قدیم ترین رسالوں کی شمولیت نے اسے ’’شاہکار انسائیکلوپیڈیا‘‘ بنا دیا ہے، جن میں 1876ء میں جاری ہونے والا ’’اشاعۃ السنۃ‘ 1909 میں جاری ہونے والا ’’مرقع قادیانی‘‘ 1933ء میں جاری ہونے والا ’’محدث‘‘ جبکہ 1938ء میں جاری ہونے والے ’’برہان‘‘ کے علاوہ دیگر جرائد مثلاً علوم القرآن (علیگڑھ)، ترجمان القرآن (لاہور)، تحقیقاتِ اسلامی (علیگڑھ)، الحق (اکوڑہ خٹک)، الشریعہ (گوجرانوالہ)، محدث (لاہور)، فکرونظر (اسلام آباد)، ترجمان الحدیث (فیصل آباد)، معارف مجلہ تحقیق (کراچی)، حرمین (جہلم)، فقہ اسلامی (کراچی)، المیزان (اسلام آباد)، تحقیق (پنجاب یونیورسٹی)، تحقیق (سندھ یونیورسٹی)، معارف اسلامی (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی)، معارفِ اسلامیہ (کراچی یونیورسٹی)، الثقافۃ الاسلامیہ (کراچی یونیورسٹی) کے علاوہ پاک و ہند کے کئی اہم علمی و تحقیقی جرائد شامل ہیں۔ nn

Читать полностью…

علم و کتاب

اب رہا ’سرشاری‘ کو حق کے ساتھ جوڑنے کا معاملہ… تو ہرچند کہ اہلِ معاملہ نے فارسی عربی جوڑ اور ہندی فارسی پیوند کو سخت ناپسند کیا ہے، مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہوتا آرہا ہے۔ مثلاً ’قریب المرگ‘ اور ’لبِ سڑک‘۔ مثالیں اور بھی ہیں۔ انھیں مثالوں سے مجبور ہوکر ماہرین لسان نے جواز کی راہ نکالی اور ان تراکیب کو ’اُردو تراکیب‘ کا نام دیا گیا۔ کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جو لفظ اُردو میں آجائے، ضروری نہیں کہ جس زبان سے آیا ہے، یہاں آکر بھی وہ اُسی زبان کے قواعد کا پابند رہے۔ ترکِ وطن کرکے اس لفظ نے جس زبان کی شہریت اختیار کی ہے، اب اسی زبان کے قواعد کے تحت اسے اپنی عمر گزارنی ہوگی۔ چناں چہ ہمارے ہاں ’کتب‘ کی جگہ ’کتابیں‘ کہنے کا رواج ہے۔ ہماری عدالتوں میں ججز کے بجائے ججوں کا تقرر ہوتا ہے۔ کسی موقعے پر’شب ہا‘ کہنا ہو تو ہمارے شاعر کو ’’اس کی شبوں کا گداز‘‘یاد آجاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کو’پارلیمان‘ کہہ کر اُردو نے قبول کیا تو نامناسب الفاظ کو ’غیر پارلیمانی الفاظ‘ قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ ہمیں اخبارات میں ’بین الپارلیمانی‘ کی ترکیب بھی پڑھنی پڑ گئی۔ یہ تو سپہ سالارانِ لسان ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کے کمان داروں کو ’الپارلیمان‘ِ قبول ہے یا نہیں؟ یہاں واضح کرتے چلیں کہ یہ ہماری زبان کا ’کمان دار‘ تھا جو انگریزوں کی غلامی اختیار کر کے ‘Commander’ بن بیٹھا۔

یوں تو رتن ناتھ سرشارؔ سے لے کر سرشارؔ صدیقی تک بہت سے سرشار ہو گزرے ہیں، مگر ایک روز ایک رہ گزر پر ایک صاحب ایسے بھی ملے جن کا نام سرشارالرحمٰن تھا۔ اُن سے عرض کیا: ’’اگر کوئی شخص آپ کے عقب سے آپ کا پورا نام لے لے کر آپ کو مسلسل دو تین بار پکارنا چاہے تو اُس کے لیے آپ کے والدین نے اچھی خاصی لسانی لڑکھڑاہٹ کھڑی کردی ہے‘‘۔ اپنے والدین کی اس ہُشیاری پرنہایت سرشاری سے تادیر مسکراتے رہے۔ اُن سے مل کر یاد آیا کہ ہمارا ایک ہم جماعت ہوا کرتا تھا۔ اُس کے والدین نے خسرو پرویز جیسے دشمنِ خدا اور دشمنِ رسولؐ کے نام کے ساتھ ’الحق‘ جوڑ کر اپنے بیٹے کو ’پرویزالحق‘ بنا چھوڑا تھا۔ خدا جانے اس بے معنی نام کے ساتھ اُس کی عمر کیسی گزری ہوگی؟ مگر ہماری ان بقراطیوں سے، امید کی جاتی ہے کہ، سرشارالحق صاحب کی ’عمر بھر کی الجھن‘ کو کچھ نہ کچھ سلجھن مل ہی گئی ہوگی۔

سرشارالحق میں جو ’سر‘ ہے وہ بڑی قیمتی اور کثیرالاستعمال شے ہے۔ ’سر‘ کا عام مفہوم چندیا، کھوپڑی، مُوڑی، مُنڈی یعنی انسانی جسم میں گردن سے اوپر کا تمام علاقہ ہے۔ مگر کسی بھی چیز کے بالائی حصے، سرے، چوٹی یا آغاز کو بھی ’سر‘ کہا جاتا ہے، مثلاً ’سرِشام‘۔ ہمارے ہاں سین پر زبر ہے، مگر ہندی میں اور بیگمات کی زبان میں سین کو زیر کرکے بولا جاتا ہے۔ میر انیسؔ نے بھی سین بالکسر والا تلفظ استعمال کیا ہے:

بالائے زمیں تیغ سے کٹ کٹ کے گرے سِر
اِک چشم زدن میں صفِ اوّل ہوئی آخر

زیر ہو یا زبر، لیکن سر ہے بڑے کام کی چیز۔ یوں تو اس سے کئی کام لیے جاتے ہیں، اُٹھایا جاتا ہے، جھکایا جاتا ہے،اونچا کیا جاتا ہے اور بالآخرتھام لیا جاتا ہے۔ غرض اسی طرح کے بے شمار مصارف ہیں۔ مگرسر کا سب سے اچھا مصرف ہے ہلانا۔ حکمرانوں کی ہر بات پر سر ہلاتے رہیے، سر سلامت رہے گا۔ نہ ہلایا تو کٹانا پڑے گا۔ صاحبو! اب ہم یہیں بس کرتے ہیں۔ کیوں کہ بقول اطہر نفیسؔ’’ہم آج بہت سرشار سہی، پر اگلا موڑ جدائی ہے‘‘۔ یعنی اگرکچھ زیادہ ہی ’سرشارالحق‘ ہوگئے تواگلا مرحلہ ہے سرکا تن سے جدا ہوجانا۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ کی زبانی ہم نے سنا ہے کہ آپ کے برادر بزرگ وسرپرست مولانا ڈاکٹر عبد العلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو سن شعور کے آغاز میں ہدایت کی تھی کہ وہ مکتوبات امام ربانیؒ کی جملہ چار جلدیں مکمل پڑھیں، اور اس میں جو عبارتیں سمجھ سے بالاتر ہوں، یا قابل اعتراض ہوں انہیں چھوڑ دیں، کوئی رائے ان کے بارے میں قائم نہ کریں، ممکن ہے کہیں بعد میں ان کی تشفی بخش وضاحت مل جائے۔شاید اسی مطالعہ کا اثر تھا کہ حضرت مولانا نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں اسلاف اور معاصرین کے مثبت اور روشن پہلؤوں ہی کو اجاگر کیا ہے، یہی حضرت مولانا کی تحریر کا حسن ہے۔ سوانح نویسی کا یہ اسلوب اگر کسی کو پسند نہیں ہے تو مناسب ہے کہ ان کتابوں کے ساتھ دوسرے مصنفین کی کتابیں بھی پڑھے۔
۔ فن تصوف کے سلسلے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی کتاب تاریخ تصوف بڑی اہمیت کی حامل ہے، آپ کی ایک اور کتاب اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش بھی ہے،تصوف کی اہم کتابوں کے تعارف پر مولانا عبد الماجد دریابادی کے مضامین کے مجموعے کا نیا ایڈیش تاریخ تصوف کے عنوان سے قریبی دنوں میں شائع ہوا ہے۔
تصوف کے ایک دوسرے رخ پر ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی کی کتاب "تصوف ایک تحقیقی مطالعہ" ، اور ڈاکٹر عبید اللہ فراہی کی "تصوف ایک تجزیاتی مطالعہ" بھی ہے۔اور بھی بہت ساری کتابیں ہیں، کس کس کا تذکرہ کیا جائے؟۔
اللہ ہماری توانائیاں مفید اور مثبت کاموں میں لگائے، واللہ ولی التوفیق
2023-12-08
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی(وفات ۹ دسمبر ۱۹۹۰ٗ تحریر : عبد المتین منیری

Читать полностью…

علم و کتاب

پند نامہ برائے اصلاح مجاز۔۔۔ کلام جوش ملیح آبادی

Читать полностью…

علم و کتاب

مجاز لکھنوی(وفات ۵ دسمبر ۱۹۵۵)۔۔۔ تحریر حمیدہ سالم(بہن)

Читать полностью…

علم و کتاب

محمد صلاح الدین ۔ مدیر تکبیر کراچی(وفات ۴ دسمبر ۱۹۹۴ء) ۔ تحریر : ڈاکٹر یونس حسنی

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: شرر کے تاریخی ناول
تحریر: عبد المتین منیری(بھٹکل)


کل علم وکتاب کی اس بزم میں مولانا عبد الحلیم شرر کا کافی چرچا رہا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابدی ، مولانا رئیس احمد جعفری نے جس انداز سے آپ کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد تو یہ چرچا فطری لگتا ہے،
اردو زبان بنیادی طور پردہلی کے قلعہ معلی سے نکلی ہے، مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں فیض آباد اور لکھنو کی سلطنت اودھ نے اسے گود لیا، اور دہلی کے شعراء و ادیبوں کی سرپرستی کی جو یہاں منتقل ہوگئے تھے، یہاں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی، چونکہ سلطنت اودھ ایرانی تہذیب وثقافت کی آئینہ دار تھی، تو اس پر ایرانی ادب و ثقافت کے اثرات گہرے پڑے، اور اس کے شعر وادب میں تصنع اور تکلف داخل ہوگیا آیا، اس طرح اردو کے شعر ادب میں دو مکاتب فکر نے جنم لیا۔ اور دونوں میں مسابقت شروع ہوئی۔
جب انگریز ہندوستان آئے تو انہوں نے ابتدا میں فارسی کے بالمقابل اردو کی ترقی میں دلچسپی لی، اس میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا بڑا کردار رہا ، جس کے سربراہ گلگرسٹ کے زیر نگرانی میر امن دہلوی، سید حیر بخش حیدری، میر شیر علی افسوس، مہر بہادر علی حسینی، مظہر علی ولا، مرزا کاظم علی جوان، خلیل خان اشک، نہال چند لاہوری، بینی رائے جہاں نے نصابی کتابیں تیار کیں، جو داستانوں پر مشتمل تھیں، اور اس میں تکلف اور تصنع سے عاری سلیس زبان کا اہتمام کیا گیا، بعد میں سرسید احمد خان کی تحریک کے زیر اثر یہی اسلوب علمی کتابوں کتابوں کے لئے نمونہ ٹہرا۔
مولانا عبد الحلیم شرر اور رتن ناتھ سرشار اور مرزا رجب علی بیگ بنیادی طور لکھنوی اسلوب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مولانا شرر کے ناولوں میں لکھنو کا یہ اسلوب بہ اتم پایا جاتا ہے، اس میں عبارتوں کے تصنع، لفاظی، مترادفات اور تشبیہات میں افراط کے مظاہر واضح ہیں،شاید یہی اسلوب آئندہ نسلوں کی ان میں عدم دلچسپی کا باعث بنا، ورنہ اپنے دور میں آپ نے ادب اور اس کے ذریعے اسلام کی جو خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ مولانا کی مصر اور لبنان کی جدید عربی کتابوں تک رسائی تھی، 1281ھ / 1868ء میں بولاق سے شائع شدہ الاغانی کا نسخہ آپ کے سامنے تھا، اور آپ کی نظر سے لبنانی الاصل مصری ادیب جرجی زیدان کے ناول گذرے تھے، جن کا اسلوب تو بہت پیارا تھا لیکن ان میں اسلامی تاریخ کو مسخ کردیا گیا تھا، معلوم نہیں کسی جامعہ میں شرر اور جرجی زیدان کے ناولوں پر موازاناتی مطالعہ ہوا ہے یا نہیں، کیونکہ ان دونوں کے موضوعات میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگر واضح ہو جائے کہ شرر نے اردو میں جرجی زیدان کے زہر کا تریاق کرنے کی کوشش کی ہے تو اردو ادب پر مولانا کا بڑا احسان شمار ہوگا۔
جرجی زیدان کی وفات ۱۹۱۴ء میں ہوئی تھی اور مولانا شرر کی ۱۹۲۶ء میں، آپ کے معاصر علامہ شبلی (وفات ۱۹۱۴ء ) نے جرجی زیدان کی کتاب التمدن الاسلامی پر الانتقاد کے عنوان سے ایک رد لکھا ہے۔
اردو میں کئی سارے تاریخی ناول نگار ہیں، اور ان کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، بہت ممکن ہے ان میں جذباتی مزاج پیدا کرنے میں ان ناولوں کا بھی ہاتھ ہو جو زیادہ تر تاریخی ہونے کے ساتھ رومانوی نوعیت کے بھی ہیں، ان میں عبد الحلیم شرر، صادق حسین سردھنوی، اور نسیم حجازی اپنے اپنے ادوار میں بہت مقبول رہے ہیں، لیکن ہماری رائے میں ان میں نسیم حجازی سب سے زیادہ معیاری ہیں، ان کا شمار ایک بڑے اسلامی ادیب کی حیثیت سے ہونا چاہئے۔
ناول پڑھنے کی ایک عمر ہوتی ہے، اس کے بعد انہیں پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے، فردوس بریں اس وقت ہمارے ہاتھ لگی جب ناول ہاتھ سے چھوٹے عرصہ بیت گیا تھا، لیکن شرر کی کتابوں میں یہ ایک زندہ کتاب شمار ہوتی ہے، لہذا دو سال قبل اسے پڑھنے کی کوشش کی، اور اندازہ ہوا کہ اس کے اسلوب اور زبان میں اور آپ کے دوسرے ناولوں میں نمایاں فرق ہے، اس کی زبان زیادہ سادہ ہے، اس میں مقفی اور مسجع عبارتوں کی دوسرے ناولوں کی طرح بھر مار نہیں ہے۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel