ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

جب حضور آئے (۳۰ )خاک کو جب ستاروں کی عظمت ملی۔۔۔ مولانا نعیم الدین مرادپوری

دائرہ کائنات کا مرکز، مجموعہ مخلوقات کا حرف اوّلین، گلزار خلائق کا سب سے نفیس پھول، آسمان وجود کا نیر اعظم، وہ تاباں و درخشاں نور عالم افروز ہے جس کے ظہور نے اپنے پر تو جمال کے فیضان سے کائنات کو مالا مال کر دیا۔ اس ہستی مقدس کا کوئی نظیر ہے نہ مثیل، نہ ہمتا نہ عدیل، لاثانی نے لاثانی بنا دیا ہے، بے نظیر نے بے مثال پیدا کیا ہے۔ اس رُوح مصور، جان مجسم پر بے شمار درود جس کے وجود نے وجود بے کیف کا پتا دیا۔
کائنات میں کسی ہستی کا ظہور، کسی نئے نقش کی نمود، کسی وجود کا نہاں خانہ عدم سے قدم نکالنا بڑی پُر لطف بات ہے، جس کے لیے خوشیاں منائی جاتی ہیں، انتظار کھینچے جاتے ہیں، آنکھیں شوق دیدار کے لیے وا ہوتی ہیں، دلوں کو سرور کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ انسانی مصنوعات، جو اپنے ہی جیسے افراد کی عقل و تدبیر کا نتیجہ ہیں، ان پر کس قدر خوشیاں کی جاتی ہیں۔ جب ادنیٰ درجے کی موجودات اور اپنے وہم و خیال کی بنیادوں پر تعمیر کی ہوئی عمارت تک کا عالم ہستی میں نمودار ہونا ایک وقعت رکھتا ہے اور فرح و انبساط کا موجب ہوتا ہے، تو کسی اعلیٰ مخلوق کا پیکر وجود میں ظاہر ہونا اور صناع عالم کی قدرت کے کرشمے اور بدیع نگاری کے مرقع کا رُونما ہونا کتنی شان و شوکت، کیسی عظمت و جلالت، کس قدر فرح و طرب کے لوازم اپنے ساتھ رکھتا ہوگا اور دُنیا میں اس کے ظہور سے کیسی تجلی اور روشنی اور کیسی دھوم دھام ہوگی۔
ہر طرف کفر و ضلالت کی گھنگور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ کعبہ معظمہ اور بیت المقدس کے درو دیوار اس غم میں خونابہ فشاں تھے، حرم شریف فریاد کر رہا تھا، بیت اللہ ہمہ تن آنکھ بن کر اس مقدس آنے والے کی راہ تک رہا تھا، جس کے قدوم پاک کے ساتھ اس کی عزت و عظمت، حق کا ظہور اور خلق کی اصلاح و درستی وابستہ تھی۔ صفا و مروہ گردنیں اُٹھائے ہوئے اس ہادی اعظم کا راستہ دیکھ رہے تھے جس کی تشریف آوری کا مژدہ مسیحؑ و خلیلؑ ہی نہیں، بلکہ تمام انبیا دیتے آئے تھے۔ سرزمین حجاز کا ذرّہ ذرّہ محبوب حق کے قدموں سے پامال ہونے کی تمنا میں دل پر ارمان بنا ہوا تھا۔ زمزم کا دل ایک بحر جود و کرم کی یاد میں پانی پانی ہو رہا تھا۔ بیت المقدس کی آنکھیں اس مقتدائے عالم کا انتظار کر رہی تھیں جس کے ورود سے اس کی دوبارہ آبادی متوقع تھی اور جو اس گروہ انبیا کی امامت فرمانے والا تھا۔ بطحا کا ہر سنگریزہ اس عالم نواز ربّانی کی قدم بوسی کا تمنائی تھا جس کی جلوہ افروزی کا غلغلہ ابتدائے عالم سے تمام دُنیا میں مچا ہوا تھا۔
کار ساز قدرت نے اس وجود اقدس کو نرالے انداز کے ساتھ عجب شان و شوکت سے ظاہر فرمایا۔ دُنیا میں تبدیلیاں ہوئیں، قحط سالی رفع ہوئی، خشک اور چٹیل میدان سرسبز و شاداب ہوئے، سوکھے ہوئے درخت پھل لائے، دُبلے جانور فربہ ہوگئے، عالم کا نقشہ بدل گیا، دُنیا کی کایا پلٹ گئی، نظام قدرت کے عظیم الشان تبدل نے ایک سر الٰہی کے ظہور کا پتا دیا۔ بت خانوں میں ہلچل مچی، بت سربخاک ہوئے، جھوٹی خدائی کی جھوٹی شوکت خاک میں ملی۔ باطل معبودوں کی رسوائی و خواری نے ان کے بطلان کی شہادت دی۔ آتش خانوں کی صدہا سالہ آگ سرد ہوئی، عزت و جبروت والے بادشاہوں کے قصر و ایوان زلزلہ میں آئے۔ فلک رفعت قلعوں کی کوہ ساماں دیواریں شق ہوئیں کنگرے سربسجود ہوئے، شیاطین کے تخت اُلٹ گئے، ربّانی انوار خطہ خاک کی طرف متوجہ ہوئے، آرزو مندان جمال کی چشم تمنا وا ہوئی،نرگس منتظر کا فرش بچھا، رحمت الٰہی کا شامیانہ تنا، گلشن تمنا میں باد مراد چلی، بام کعبہ پر علم سبز نصب ہوا، کونین کے تاجدار کی آمد آمد کا غلغلہ ہوا، جہان نور سے معمور ہوا، فرح و طرب نے عالم پر قبضہ کیا، شب غم نے بستر اُٹھایا، صبح اُمید نے چہرہ دکھایا، 12 ربیع الاوّل صبح صادق کے وقت نے طلوع فرمایا!!
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

’’دل گداز‘‘ جو ان کا خاص رسالہ تھا، جس میں وہ زیادہ تر تاریخی مضامین اور قصص شائع کیا کرتے تھے، اس کا آخری نمبر جو ان کے قلم سے نکلا، وہ دسمبر ۱۹۲۶ء کا ہے، یہ ’’دلگداز‘‘ کی چھبیسویں جلد کا آخری نمبر ہے، لیکن اس کی اشاعت کا زمانہ چھبیس برس سے یقینا زیادہ ہے، حیدرآباد کی اقامت کے زمانہ میں اس کی اشاعت میں ناغہ ہوجاتا تھا، ’’دلگداز‘‘ کے علاوہ تین اور رسالے بھی اپنے نام سے نکالے ہیں، موجودہ پردہ کے خلاف پردہ عصمت انہوں نے نکالا، سب سے پہلے انہیں نے مسلمانوں میں ہندومسلم اتحاد کی باقاعدہ تحریک کی اور اس کے لئے اتحاد نکلا، کچھ دنوں کے لئے تصوف کا بھی ایک رسالہ نکالا تھا جس کا نام اس وقت یاد نہیں آتا، مہذب نام ایک اور صحیفہ نکالا تھا، بہرحال وہ جو کچھ تھے، ہماری زبان کے نامور مصنف، ہندوستان کا فخر اور لکھنؤ کی آبرو تھے، ان کے فانی جسم نے مفارقت کی، مگر ان کی ابدی زندگی انشاء اﷲ ہمیشہ قائم اور باقی رہے گی۔ (’’س‘‘، جنوری ۱۹۲۷ء)
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبد الحلیم شرر۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Читать полностью…

علم و کتاب

عبد الحلیم شرر۔۔۔ تحریر: رئیس احمد جعفری ندوی

Читать полностью…

علم و کتاب

بات قومی زبان میں رکھے جانے والے ناموں کی ہورہی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری قومی سمجھ کا سورج ایک ہی دم میں ڈوب گیا ہو۔ ڈوبا ضرور ہے ’مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب‘۔ ’اِسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کا نام تو اب بھی کم ازکم ہمارے زرِ کاغذی پر ’بینک دولتِ پاکستان‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ کراچی کے شہری اداروں کی مثال لیں تو KDA ’ادارۂ ترقیاتِ کراچی‘ ہے اور KMC ’بلدیۂ عظمیٰ کراچی‘، KW&SBکا اردو نام ’محکمۂ فراہمی و نکاسی ٔآب، کراچی‘ ہے۔ اورK. Electric جو پہلےKESC تھا ’ادارۂ فراہمی ٔ برق کراچی‘ کہا جاتا تھا۔ مگر اب یہ سب نام رفتہ رفتہ غروب ہوچکے ہیں۔ کراچی کے اضلاع کچھ عرصہ پہلے تک ساؤتھ، ویسٹ، ایسٹ اور سینٹرل وغیرہ کے بجائے کراچی جنوبی، غربی، شرقی اور وسطی کہے جاتے رہے ہیں۔ شایدآج بھی کسی کسی کے منہ سے نکل ہی جاتا ہو۔
ہمارے بچپن تک ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن ’نظامتِ تعلیمات‘ تھا۔ اِسکولز ’مدارس‘ تھے۔ گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول ’سرکاری مدرسۂ ثانویہ برائے طلبہ‘ کہلاتا تھا۔ ابتدائی مدرسے کی جماعتیں اوّل تا پنجم تھیں۔ مدرسۂ وسطانیہ (Middle School) میں جماعت ششم سے جماعت ہشتم تک تعلیم دی جاتی تھی۔ مدرسۂ ثانویہ جماعت دہم تک تھا۔ Collegeکے لیے ’کلیہ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی اور یہی اصطلاح Faculty کے لیے بھی تھی۔ ڈپارٹمنٹ کو ’شعبہ‘ کہا جاتا تھا اور یونیورسٹی کو ’جامعہ‘۔ حیدرآباد سندھ کا ایک Medical College ’کُلیۂ طِبیہ‘ کہلاتا تھا۔ انگریزی زدہ لوگ اس کالج کا نام بڑے ادب و احترام سے پڑھتے تھے: ’’کلمۂ طیبہ‘‘۔
اِسٹوڈنٹس یونین کو ’انجمنِ طلبہ‘ کہا جاتا تھا۔ صدر تو شاید آج بھی ’صدر‘ ہو، مگر سکریٹری جنرل اُس زمانے میں معتمدعام تھا اور جنرل سکریٹری کو معتمد عمومی کہا جاتا تھا۔کچھ یہی حال دیگر سکریٹریوں کا بھی تھا، شریک معتمد، معتمد نشرواشاعت، معتمد مالیات۔ وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان سکریٹریٹ اسلام آباد پر کسی زمانے میں دل کش خطِ نستعلیق میں ’’معتمدیہ پاکستان‘‘ کا تختۂ نشان آویزاں ہوا کرتا تھا۔
کراچی، ملیرٹنکی پر طبِ مشرق کے مجربات، مرکبات اور مفردات (المختصر’ ادویات‘) فروخت کرنے والی ایک دُکان تھی۔ اُس دُکان پر ایلوپیتھک دوائیں بھی مل جایاکرتی تھیں۔ مشرق ومغرب کا ملاپ تھا دُکان کے سامان ہی میں نہیں اس کے نام میں بھی۔ دُکان کا نام تھا ’فارماشرقیہ‘۔ ہمارے کتنے ہی نجی اِدارے ایسے ہیں جن کے ناموں کا آغاز اورئینٹ، اورئینٹل یا ایسٹ اورایسٹرن کے الفاظ سے ہوتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِن نجی مشرق پسندوں کو آخر کون روکتا ہے کہ وہ ’شرق، شرقی یا شرقیہ‘ کے مشرقی نام ہرگز ہرگز استعمال نہ کریں، ورنہ اُن کا ’مکُو ٹھپ‘ دیا جائے گا۔ خود ملیر ٹنکی کے بازار کا نام ’جامع بازار‘ تھا۔ یہ ’جامعیت‘ سپر اِسٹور، ڈپارٹمنٹل اسٹور یا سپرمارکیٹ جیسے نام میں نہیں۔ ایسا جامع بازار جہاں آپ کو ضرورت کی ہر چیز مل جائے۔ مگر اب ’جامع بازار‘ بھی ’جامع مارکیٹ‘ ہوگیا ہے۔ نہیں معلوم کہ کراچی کی ’جامع کلاتھ مارکیٹ‘کے ساتھ کیا ہوا۔کسی کو ’کلاتھ‘ کا کوئی اُردو متبادل مل پایا یا نہیں؟ زبان سے بڑا فرق پڑتا ہے۔ یہ بات استعماری طاقتوں کو معلوم تھی۔ اگرآپ ایک زبان کے بجائے دوسری زبان کو ذریعۂ اظہار بنا لیں تو آپ کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن ہی نہیں، طرزِ فکر بھی بدل جائے گی۔ تجربہ کرکے دیکھ لیجیے۔ آج سے اگر آپ اپنے بچوں کو آمادہ کرلیں کہ وہ مشکل مشکل انگریزی الفاظ بولنے کے بجائے آسان آسان اُردو الفاظ استعمال کیا کریں گے، تو اِس مشق کے آغاز کے بعد چند ہی ماہ میں آپ محسوس کرلیں گے کہ اُن کا اندازِ فکر بدل گیا ہے۔ اب اُنھوں نے مغرب کی ذہنی تقلید چھوڑ کر اپنے ذہن سے سوچنا شروع کردیا ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
2023-12-01
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر تاثیر(وفات ۱/دسمبر ۱۹۵۰ء) تحریر نصر اللہ خان

Читать полностью…

علم و کتاب

قرآن فہمی کا ایک کامیاب منصوبہ.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

*کاروانِ اہل ِحق(62) علمی و اصلاحی شخصیات کے تذکرہ پر مشتمل مستند مجموعہ*


*تالیف:حضرت مولانا مفتی ریاست علی قاسمی صاحب (استاذ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ)*
*تعارف:مولانا امدادالحق بختیار (استاذ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد، انڈیا)*

https://wp.me/pc6j41-iPz

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا ظفر علی خان(۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء) ۔۔۔ تحریر: صادق نسیم

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

اعجاز الحق قدوسی کی کتاب پر ترجمان القرآن دسمبر ۱۹۸۸ء میں شائع شدہ تبصرہ

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

مثال_العرب_ وافق شنٌّ طبقة، جميع القصص الواردة لهذا المثل، ومتى يُقال؟

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا شررؒ۔۔۔ تحریر: علامہ سید سلیمان ندوی*
عین اس وقت جب ہم اردو رسالوں کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈال رہے ہیں، اردو کا وہ سب سے پرانا رسالہ اور اس کا وہ اڈیٹر یاد آتا ہے جس نے سال کے آخری مہینہ کی آخری تاریخوں میں ہماری دنیا کو الوداع کہا، یعنی مولانا عبدالحلیمؔ شرر صاحب لکھنوی، اڈیٹر دل گداز، مولانا ہمارے انشاء پردازوں میں سب سے پرانے انشاء پرداز تھے، اکہتر (۷۱) برس کی عمر میں بعارضۂ فالج وفات پائی، مرحوم نے اپنی عزت اور شہرت تنہا خود اپنے قلم سے حاصل کی تھی، وہ اپنی شہرت کے لئے کسی نامور ہستی سے انتساب کے ممنون نہ تھے، انہوں نے اپنے تمام معاصرین میں سب سے زیادہ اپنی زبان کی خدمت کی فرصت پائی، ہمارے خیال میں ۱۸۸۲ء سے انہوں نے اپنے کام کا آغاز کیا اور جو اخیر زمانۂ وفات دسمبر ۱۹۲۶ء تک قائم رہا، بیچ بیچ میں کبھی کبھی حیدرآباد کے قیام کی مصروفیتیں پیش آجاتی تھیں، تاہم ان کا تسلسل کبھی ٹوٹنے نہیں پایا، ۴۶ برس کا عہد خدمت ان کے کسی معاصر کو میسر نہیں آیا، پھر ان کی ادبی اور علمی خدمات کی گوناگونی اور کثرت بھی ان کا خاص امتیاز ہے اور یہ کہنا بھی سچ ہے کہ انہیں کی تصنیفات نے اردو میں سینکڑوں انشاء پرداز پیدا کئے اور ملک میں تاریخ کا مذاق پیدا کیا اور سنجیدہ تصنیفات کے لئے حسن قبول کا راستہ صاف کیا۔
خاکسار کو مولانا کا پہلا شرف نیاز ۱۹۰۴ء میں حاصل ہوا اور یاد آتا ہے کہ وہ اس وقت حیدرآباد سے واپس آئے تھے اور اتحاد اور پردۂ عصمت نکالنا شروع کیا تھا، وہ عربی زبان کے مستند عالم تھے، بچپن میں وہ اپنے نانا کے ساتھ واجد علی شاہ کے مٹیابرج میں رہے تھے اور اس طرح جب ہوش سنبھالا، تو اپنے کو سخنورانِ اردو کی آغوش میں پایا، لکھنؤ آکر عربی علوم کی باقاعدہ تعلیم مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم فرنگی محلی کے حلقۂ درس میں پائی تھی اور حدیث کی تعلیم دہلی میں جاکر مولانا سید نذیر حسین محدث سے حاصل کی تھی، اسی لئے مولانا کا میلان زیادہ تر اہل حدیث کے مسئلہ کی طرف تھا اور عقائد میں وہ سخت اور غالی اشعری تھے، امام ابوالحسن اشعری سے ان کو خاص عقیدت تھی، عربی کے ساتھ ان کو انگریزی سے بھی واقفیت تھی اور کسی قدر فرنچ سے بھی آشنا تھے، یورپ کی بھی سیر کر آئے تھے، واپسی میں جب وہ جبرالٹر (جبل طارق) سے گزرے ہیں تو مسلمان مورخ کی آنکھوں کے سامنے اندلس (اسپین) کی تصویر کھنچ گئی، وطن پہنچ کرسب سے پہلے اس کی یاد میں آنسو گرائے اور اسپین پر ایک پردرد مضمون لکھا جو اس زمانہ میں بہت مقبول ہوا تھا۔
بظاہر وہ صرف ایک ناولسٹ یا فسانہ نگار تھے اور اسی حیثیت سے لوگ ان کو زیادہ تر جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ عربی علم و ادب، محاضرات و تاریخ کے بھی ماہر تھے، ان کے مضامین کا بڑا ماخذ آغانی کی ضخیم جلدیں ہوتی تھیں اور وہ ان کو نہایت پسند تھیں، وہ روایتوں میں تنقید اور جانچ پڑتال نہیں کیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کو اپنے موضوع کے لحاظ سے اس کی ضرورت بھی نہ تھی، ان کی تصنیفات میں منصور موہنا، درگیش نندنی، فتح اسپین، مقدس نازنین، ملک العزیز ورجنا، فردوسِ بریں اور فلورا فلورنڈا مشہور ناول ہیں، تاریخوں میں تاریخ سندھ اور تاریخ سسلی اور سوانح عمریوں میں خاتم المرسلین، ابوبکر شبلی، جنید بغدادی ان کی مشہور تالیفات ہیں، مرحوم گو شاعر تھے، شررؔ تخلص تھا مگر غیر مقفی اشعار کے نمونوں کے علاوہ آغاز شباب کے بعد کبھی انہوں نے اپنا کوئی کلام شائع نہیں کیا، ان کا آخری علمی کارنامہ تاریخ اسلام ہے۔ جس کو وہ جامعہ عثمانیہ کی فرمائش سے لکھ رہے تھے اور کچھ حصے اس کے لکھ بھی چکے تھے۔
مرحوم اخلاق کے لحاظ سے باوضع، خاکسار، پابند اوقات اور ملنسار تھے، چھوٹوں سے ملنے میں ان کی عزت اور تعظیم اور ان کے کارناموں کی قدرشناسی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے تھے، چوک میں منشی نثار حسین صاحب اڈیٹر پیامؔ یارا اور خواجہ عشرتؔ کی دکان پر ان کی شام کی نشست ان کی وضعداری کی دلیل تھی، ان کی کتابوں کی بڑی مانگ تھی اور تمام مطبع والے بے پوچھے گھچے ان کی کتابیں چھاپتے رہے، مگر انہوں نے کبھی کوئی بازپرس نہ کی، مرحوم رات کو جاگ کر کام کرنے کے عادی تھے، چنانچہ وہ رات کا کھانا ایک بجے کھا کر سوتے تھے، ان کی موت نے ۵۷ھ سے شروع ہونے والے عہد علمی کا خاتمہ کردیا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*تذکیر۔۔۔ وضاحت*

علم کا مزاج بڑا نازک ہے، یہ طلب اور جستجو کا ہمیشہ خواہان ہوا کرتا ہے،۲۰۱۶ء سے یہ جب اس مبارک علم وکتاب گروپ کا آغاز ہوا تھا، تو مقصد یہ تھا کہ *علم کی طلب اور مطالعہ کا اتنا ذوق پیدا کیا جائے کہ اس سے وابستہ افراد کا مدرسوں ، دارالعلوموں، کتب خانوں اور کتب فروشوں سے تعلق فروغ پائے*، الحمد للہ یہ چھوٹی سی کوشش کامیاب ہورہی ہے، اور علم وکتاب کے اس قافلے نے جملہ چھ ہزار چونسٹھ ۶۰۶۴ افراد کو ابتک ملادیا ہے، اس میں ہمارے پرسنل فیس بک کے اسی تعداد میں ممبران شمار نہیں کئے گئے ہیں، یہ جہاں حمد وشکر کا موقعہ ہے تو وہیں اس نے ایک بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ لہذا اس سلسلے میں چند وضاحتیں مناسب معلوم ہوتی ہیں۔

۔ علم وکتاب گروپ کی ابتدا سے یہ پالیسی رہی ہے کہ *روزانہ ایسا مواد پیش کیا جائے جو زود ہضم ہو، اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے مزید کی طلب پیدا ہوتی رہے*۔
۔ اس کے لئے ہماری کوشش رہی کہ خاص طور پر گروپ کے مقاصد کے حصول کے لئے نئی منتخب اور معیاری کتابیں خرید کر انہیں سوفٹ کاپی میں محفوظ کیا جائے، اور ان سے *منتخب چیزیں علم وکتاب کے دسترخوان پر پیش کی جاتی رہیں*، چونکہ یہ کتابیں *نئی شائع شدہ ہیں، اور ان سے مصنفین اور ناشرین کے حقوق وابستہ ہیں*، اور چونکہ خود ہماری ایک ایسے شعبہ سے وابستگی ہے، جس میں حقوق کی حفاظت فرائض منصبی میں داخل ہے، لہذا ہم نے ان تصویر شدہ کتابوں کی فراہمی میں کبھی بھی سخاوت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، البتہ *علمی وتحقیقی منصوبوں پر کام کرنے والوں کا اس سلسلے میں ہمیشہ تعاون کیا ہے*۔
لہذا کئی ایک احباب نے ہم پر اعتماد کرتے ہوئے *ان کے علمی منصوبوں اور کتابوں کی سوفٹ کاپی ہمیں فراہم کی ہے*،جن کے ہم تہ دل سے ممنون ومشکور ہیں۔
یہاں ہماری آپ سے چند گذارشات ہیں۔
۔ کئی احباب اپنے مضامین کی تصحیح اور نظر ثانی کے لئے ہمیں پیش کرتے ہیں، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ *گذشتہ نصف صدی کے دوران لکھے ہوئے ہمارے مضامین کا ایک انبار لگا ہوا ہے، جو نظر ثانی کے انتظار میں کبھی پریس کا منہ دیکھ سکے*۔

۔ گروپ پر مضامین پڑھ کر کتابوں کی پی ڈی یف کی فرمائشیں شروع ہوجاتی ہیں، یہ گروپ کے مقصد سے میل نہیں کھاتی، آپ کی فرمائشوں پر خاموشی کو معذرت سمجھیں، اپنی *معزز اور محترم شخصیات سے براہ راست معذرت میں حیا مانع آتی ہے*۔
امید کہ احباب اس علم وکتاب کے کارواں کو جاری وساری رکھنے میں احباب کا تعاون حاصل رہے گا۔ شکریہ
*عبد المتین منیری*
اڈمن علم وکتاب

Читать полностью…

علم و کتاب

#طرفة...

متى يجوز ضرب إمام المسجد ؟؟

▫️قال المتوكل لِعُبادة :
بلغني أنك ضربت إمام مسجد ، وإن لم تأتِ بعذرٍ أدّبتُك.
قال: يا أمير المؤمنين ، مررتُ بمسجد ، فأقام المؤذن ، ودخلنا في الصلاة ،
فابتدأ الإمام فقرأ الفاتحة ، وافتتح سورة البقرة ،
فقلت : لعله يريد أن يقرأ آياتٍ من هذه السورة ، فانتهى إلى آخرها في الركعة الأولى !! ،
ثم قام إلى الثانية ،
فلم أشك في أنه يقرأ مع الفاتحة سورة الإخلاص.
فافتتح سورة آل عمران حتى أتمها ! ،
ثم أقبل بوجهه على الناس ،
وقد كادت الشمس تطلع.
فقال : أعيدوا صلاتكم - رحمكم الله - فإني لم أكن على طهارة
فقمتُ إليه وصفعتُه.
فضحك المتوكل من ذلك ! .

📙 نثر الدر (ج 7 - الباب الثامن عشر)
...

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین۔۔۔چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی*


پچھلے دنوں اُردوکے ایک پرچے پر نظرپڑی۔ ’پرچے‘ کا لفظ اخبارات کے لیے شاید اب استعمال نہیں ہوتا۔ پہلے خوب استعمال ہوتا تھا۔ آج کل پرچہ کم استعمال ہوتا ہے ’پرچی‘ زیادہ استعمال ہوتی ہے، سفارشی چٹھی کے طور پر۔ پرچہ یوں تو کاغذ کے ٹکڑے کو کہتے ہیں، مگر اخبار کے علاوہ یہ رقعہ، خط، خبر اور پیغام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ شاہی ہرکارے کسی واقعے کی رُوداد اپنے دفتر میں جمع کراتے تو اُس تحریر کو بھی پرچہ کہتے تھے۔ کسی کے خلاف’رپٹ لکھوانا‘ بھی پرچہ کٹوانا کہلاتا تھا۔ امتحانی سوالات پرمشتمل کاغذ کو شاید آج بھی ’پرچۂ امتحان‘ ہی کہا جاتا ہے۔ مخبروں کو ’پرچہ نویس‘ کہتے تھے اور’ مخبری‘ کو پرچہ گزارنا‘۔ امیرؔ مینائی خزاں کی مخبری کرتے ہوئے کہتے ہیں:
خزاں غافل نہیں ہے اے جوانانِ چمن تم سے
نہیں اُڑتے ہیں پتے، یہ اُسے پرچے گزرتے ہیں
اُردوکے جس پرچے پر نظر پڑی تھی، اُس میں ’آسماں خراش‘ عمارتوں کا ذکر تھا۔ صاحبِ مضمون نے شاید ‘Sky Scraper’ کا ترجمہ ’آسماں خراش‘ کیا تھا اور بالکل ٹھیک کیا تھا۔ ‘Scraper’ چھیلنے، رگڑنے، مانجھنے اور خراش ڈالنے والی چیز کو کہتے ہیں۔ مگر اُردو کا مزاج اتنا کھردرا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ان بلند و بالا عمارات کو آسماں خراش نہیں، ’آسماں بوس‘ کہتے ہیں۔ ہماری عمارتیں آسمان پر خراش ڈالنے کو نہیں، اسے بوسہ دینے کو اوپر لپکتی ہیں۔ یہ بات شاید آسمان کو بھی معلوم ہے۔ لہٰذا ہماری عمارتوںکے ساتھ وہ خود بھی یہی سلوک کرتا ہے۔ ان کی پیشانی کو جھک کر چومتا ہے آسماں۔ آسمان سے چوماچاٹی کرنے والی ان عمارتوں کو ’فلک بوس‘ عمارات بھی کہا جاتا ہے۔
فلک بوس پر یاد آیا کہ راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوکر سید پور گاؤں تک جانے والی ایک قدیم سڑک سید پور روڈ ہوا کرتی تھی۔ سڑک تو اب بھی ہے، مگر اب اسلام آباد میں داخل نہیں ہوپاتی۔ ’پنڈوراچنگی‘ پر پڑی حسرت سے اسلام آباد کو تکتی رہتی ہے۔ ایک تیز رفتار شاہراہ نے اس کا رستہ کاٹ دیا ہے۔ اسی قدیم سڑک پر فلک بوس عمارتوں کے درمیان نیچی اور اکہری چھت کی ایک عمارت تھی۔ اس عمارت کے احاطے میں سنگ ہائے رنگا رنگ کی سنگین تختیاں سجی رہتی تھیں۔ رنگین پتھروں کی اس فروش گاہ کا نام تھا ’’عجائباتِ سنگ‘‘۔ اب یہ نام خود ایک عجوبہ معلوم ہوتا ہے۔ آج کا تاجر نام رکھتا تو شاید ‘Wonders of Stone’رکھتا اور کہتا ( بقول آنند نرائن ملا):
دیکھنا یہ ہے کہ وہ دل میں مکیں ہے کہ نہیں
چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے
قومی زبان میں نام رکھنا اب بے رواج ہوچکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان ناموں کو اب یہاں سمجھے گا کون؟ مگر جب ہمارے ہاں اُردو ناموں کی جگہ انگریزی نام رکھے جارہے تھے تو نام رکھنے والوں کو انگریزی نام رکھتے وقت کوئی جھجک نہیں ہوئی۔ وہ کبھی نہ ہچکچائے کہ سات سمندر پار کی ایک غیرملکی زبان کے اجنبی ناموں کو یہاں سمجھے گا کون؟ پھر کثرتِ استعمال سے ساری اجنبیت، اُنسیت اور مانوسیت میں بدل گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ اُردو کے لیے قائم کیے جانے والے اِدارے کا نام ’مقتدرہ قومی زبان‘ رکھا گیا تو اغیار نے نہیں، خود ہماری قوم کے اربابِ اختیار نے اعتراض کیا ’’اِس نام کو سمجھے گا کون؟ کس کی سمجھ میں آئے گا؟‘‘ چناں چہ قوم کے اربابِ اختیار کو سمجھانے کی خاطر اِس کا سرکاری نام “National Language Authority” رکھا گیا۔ مگر سمجھے وہ پھر بھی نہیں۔ یا شاید خوب اچھی طرح سمجھ لیا۔ سو، اب اس ادارے سے اس کا اختیار و اقتدار چھین لیا گیا ہے،’Authority’سلب کرلی گئی ہے۔ اسے حکومتِ پاکستان کا ایک ’بے اختیار شعبہ‘ بنا دیا گیا ہے۔ ادارے کا نام بدل کر’National Language Promotion Department’ رکھ دیا گیا ہے۔ ہماری بااختیار نوکر شاہی کا احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے’National Language’ میں بھی اس کا ایک نام رکھ دیا ہے ’ادارہ فروغِ قومی زبان‘۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بصرفِ زرِ کثیر کی جانے والی ان حرکتوں سے ’قومی زبان‘ کو کتنا ’فروغ‘ ملے گا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

خدا رحمت کند

مولانا ندیم الواجدی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

*انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز*
کے زیر اہتمام
*دو روزہ قومی سمینار/ویبنار*
موضوع:
*مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی: شخصیت، علمی سرمایہ اور قائدانہ نقوش*
🗓️ بتاريخ: 25، 26 نومبر 2023
🗒️بروز: سنیچر، اتوار
⏰ بوقت: 10 بجے صبح
🏢 بمقام: کانفرنس ہال، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، جوگابائی، جامعہ نگر، نئی دہلی

*افتتاحی اجلاس:*
(25 نومبر 2023، صبح 10 بجے)
▪️صدارت: *جناب کے رحمان خان (سابق مرکزی وزیر، حکومت ہند)*
▪️افتتاحی کلمات: *مولانا ڈاکٹر سعید فیضی ندوی (ڈائریکٹر الندوۃ ایجوکیشنل اسلامک سنٹر، کناڈا)*
▪️پیغام: *مولانا شاہ آیت اللہ قادری مجیبی (زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف، پٹنہ)*
▪️خصوصی خطبات:
*مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند)*
*پروفیسر اخترالواسع (پروفیسر ایمیریٹس شعبہ اسلامیات جامعہ ملیہ اسلامیہ)*
▪️خطاب مہمان اعزازی: *مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی (ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ)*
▪️کلیدی خطاب: *فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)*

*اختتامی اجلاس:*
(26 نومبر 2023، شام 3 بجے)
▪️خطبہء اختتامیہ:
*مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*
اختتامی کلمات:
*مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی (ناظر عام ندوۃ العلماء لکھنؤ)*

*آپ سے شرکت کی گزارش ہے.*

❗نوٹ: دو روزہ سمینار/ویبنار کا افتتاحی اجلاس آف لائن - آن لائن موڈ میں آئی او ایس کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوگا. باقی تکنیکی اجلاس بھی آن لائن - آف لائن موڈ میں ہوں گے. دہلی میں مقیم مقالہ نگاران جسمانی طور پر شرکت فرمائیں گے اور بیرون دہلی مقیم مقالہ نگاران آن لائن مقالے پیش فرمائیں گے. پورے سمینار کو نیچے دیے گئے لنک کے ذریعے آن لائن سنا جاسکتا ہے:

https://us02web.zoom.us/j/86585562483?pwd=blNpUUhMVkZVUGdRRmpWSndLYUdwdz09

Webinar ID: 865 8556 2483

Passcode: 096157
*راشد انور*
(پروگرام ایگزیکیٹو، آئی او ایس)
رابطہ:
93112 26224

Читать полностью…

علم و کتاب

ابوالوفاء_الافغانیؒ_اہل_نظر_کی_نظر_میں.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

یادہائے رفتنی (مضمون بر وفات سید محمد ازہر شاہ قیصر رحمہ اللہ. تاریخ وفات 27 نومبر 1985) از مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

Читать полностью…

علم و کتاب

ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم ماہ دسمبر2023کے اس شمارہ میں بطور خاص محترم مولانا فیصل احمد بھٹکلی کا مضمون اقصی کے امید افزا پہلو اور میم شین غازی کا تاریخ فلسطین بطور خاص پڑھنے کے لائق ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبد الصمد مقتدری

Читать полностью…
Subscribe to a channel