علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
تذكرة الظفر تذکرہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ
تالیف مفتی عبدالشکور ترمذی رحمہ اللہ
تعارف مفتی عبدالقدوس ترمذی
حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ علمی دنیا میں ایک عظیم مقام کے حامل ہیں حدیث تفسیر وفقہ تمام علوم و فنون پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔ حدیث میں اعلاء السنن فقہ میں امداد الاحکام اور تفسیر میں احکام القرآن آپ کی قابلیت اور مقبولیت پر شاہد ہیں ۲۳ ذوالقعدہ ۱۳۹۴ھ میں آپ کی وفات کا حادثہ پیش آنے کے بعد ضرورت تھی کہ آپ کی ایک مفصل سوانح حیات لکھی جائے چنانچہ اس ضرورت کو آپ کے خلیفہ ارشد احقر کے والد ماجد قدس سرہ نے پورا فرمایا اور ایک سال کی شب و روز محنت سے تذکرۃ الظفر کے نام سے ۵۲۸ صفحات پر مشتمل کتاب تحریر فرما دی جس میں درج ذیل نو باب قائم فرمائے۔
باب اول ۔ خاندانی حالات۔ باب دوم - علمی خدمات ۔ باب سوم ۔تصنیفات و تالیفات ۔ باب چہارم تبلیغی جد و جہد ۔ باب پنجم ۔ مولانا کی اصلاحات۔ باب ششم ۔ سلوک و تصوف اور تربیت باطن ۔ باب ہفتم علماء اور مشائخ زمانہ کے ساتھ تعلقات ۔ باب ہشتم مذہب و سیاست ۔ باب نہم سفر آخرت اور مرض وفات کے حالات ۔
حضرت والد صاحب نے اس میں حضرت علامہ عثمانی کی خود نوشت سوانح انوار النظر کو اصل بنیاد بنایا ہے اور مختلف رسائل وکتب کے علاوہ خانگی حالات کیلئے حضرت پیرانی صاحب رحمہا اللہ تعالیٰ سے بھی معلومات لیں اور جس رسالہ اور مضمون و کتاب سے آپ کے حالات سے متعلق مواد ملا اس کو جمع فرمایا اس کیلئے آپ نے لاہور ٹو بہ وغیرہ کے متعد د سفر فرمائے اس کی ترتیب میں جناب مولانا قمر احمد عثمانی صاحب نے بہت مدد دی حضرت کے لکھے ہوئے پورے مسودہ کو پڑھ کر اسے مرتب فرمایا: کتاب میں علامہ عثمانی کے حالات اور علمی کمالات فقہی تفسیری دینی خدمات کے علاوہ تحریک پاکستان میں آپ کی سیاسی جدوجہد کا مفصل تذکر کیا گیا ہے نیز آپ کی بلند علمی تصانیف میں اعلا السنن ، امداد الاحکام اور احکام القرآن کا مفصل تعارف بھی اس تذکرہ میں آگیا ہے۔ کتاب حضرت عثمانی کے صاحبزادگان اور حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی قدس سرہ کی خصوصی کاوشوں سے شائع ہوئی۔ علمی حلقوں اور حضرت کے متوسلین میں اس کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی حضرت شیخ الحدیث نے پوری کتاب کو سن کر اپنی خاص مسرت کا اظہار فرمایا اور پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش انڈیا سعودی عرب وغیرہ میں اس کے نسخے بھیجوائے ۔ حضرت اقدس مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:
"مولا نا مفتی عبدالشکور صاحب مہتمم مدرسہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا خلیفہ حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی تھانوی نے حضرت ممدوح کی سوانح عمری تحریر فرمائی متوسلین اور مسلمین پر احسان کیا ایسے زبر دست عالم دین اور شیخ کا تعارف کرایا جن کی مثال اس زمانہ میں مشکل ہی ہے۔ مفتی صاحب موصوف نے حضرت مولانا کے سیاسی واشر فی مسلک کی بھی خوب وضاحت کی ہے اور مہتمم حقانیہ نے اس کی حقانیت سامنے لاکر رکھدی ہے. اس مسلک کی تشریح و توضیح بہت ضروری چیز تھی اللہ تعالی جناب مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کو حق کی پیروی کی توفیق دیں ۔ ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند۔
حضرت مفتی صاحب نے اس کا تاریخی نام "مرادنظر بر جواہر ظفر" (۱۳۹۵-۱۳۹۵ھ ) تحریر فرمایا تھا یہ اس کا سن تالیف ہے اشاعت کی نوبت دو سال بعد ۱۳۹۷ھ ۱۹۷۷ء میں آئی اس تذکرہ میں حضرت علامہ عثمانی کے علمی افادات کا حصہ خاصہ کی چیز ہے جس کو علما کرام نے بہت پسند فرمایا۔ تذکرہ کی تصنیف کے وقت حضرت علامہ عثمانی کی بہت سی کتابیں غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے سامنے نہ تھیں خود اعلاء سنن بھی عربی ٹائپ پر اس وقت تک طبع نہیں ہوئی تھی اسی طرح امداد الاحکام اور احکام القرآن بھی دستیاب نہ تھا اس لئے حضرت کے بہت سے علمی افادات تفسیری حدیثی اور فقہی شہ پارے اس کتاب میں درج نہ ہو سکے اسی طرح بعض حالات اور مضامین و مقالات نیز عربی قصائد بھی بعد میں نظر سے گذرے جن کا ذکر اس وقت تذکرہ میں نہ ہوسکا اس لئے اب ضرورت ہے کہ اس پورے مواد کو سامنے رکھ کر تذکرۃ الظفر کو از سر نو مرتب کیا جائے تا کہ ایک ضخیم سوانح تیار ہو کر طبع ہو سکے والله الموفق والمعین ۔ حضرت علامہ عثمانی کے احوال اور سوانح کے سلسلہ میں اس وقت تک تذکر ة الظفر ہی ایک مستند اور بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے بعض حضرات نے اس کو سامنے رکھ کر ایم ۔ اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی اس موضوع پر حاصل کر لی ہے والحمد للہ علی ذالک۔
ھمارے خیال میں ان مدارس میں زبان ھی کے طور پر صحیح اردو زبان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رھنا چاھئے تاکہ بزرگان دیوبند کے علوم سے براہ راست استفادے کی راہیں کھلی رھیں ۔
ایک خاص بات یہ ھے کہ تمام ھی مدارس میں درس نظامی کے ساتھ عصری علوم اور اسکولی نطام تعلیم شامل ھے کیونکہ حکومت کی جانب سے مقررہ نصاب کی تعلیم دینا لازمی ھے اس کے بغیر مدرسوں کو چلانے کی اجازت نہیں مل سکتی ، چنانچہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بچوں کو لازمی عصری تعلیم کے ساتھ درس نظامی کی کتابیں پڑھا دی جاتی ھیں ، ھندوستان میں اگرچہ ابھی تک مدرسوں کو عصری تعلیم دینے پر مجبور نہیں کیا جارھا ھے لیکن پیش آمدہ حالات کو دیکھتے ھوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب اس طرح کی پابندیاں یہاں بھی عائد کردی جائیں اسلئے سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کرنے کی اور وقت سے پہلے مناسب طریقہ کار کو رو بہ عمل لانے کی ضرورت ھے ۔
لڑکوں کے لئے معیاری مدارس کے ساتھ لڑکیوں کے لئے بھی اقامتی اور غیر اقامتی اچھے اور مثالی مدارس یہاں قائم ھیں جن کے توسط سے بچیوں میں دینی شعور پروان چڑھ رھا ھے اور نسل نو کی اسلامی ماحول میں تربیت کی راہیں ھموار ھورھی ھیں ۔
*مکاتب دینیہ*
مدارس اسلامیہ کے علاوہ مکاتب دینیہ کا نظام بھی یہاں بڑا مستحکم ھے ، آج کل دن چھوٹا ھونے کی وجہ سے شام میں مکاتب میں تعلیم کا سلسلہ جاری تھا ، صبح اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بڑےاھتمام کے ساتھ والدین شام کے وقت مکاتب میں لاتے ھیں اور دو ڈھائی گھنٹے بعد واپس لے جاتے ھیں ، اھل گجرات اس سلسلہ میں بھی بڑی نمایاں خدمات انجام دے رھے ھیں اور جہاں جہاں وہ آباد ھیں مثالی اور معیاری مکاتب کا ایسا جال بچھا ھوا ھے کہ مسلمانوں کے کم ھی گھر ایسے ھوں گے جن کے بچے مکاتب سے مربوط نہ ھوں ، اسی طرح بنگلہ دیش کے احباب ملک کے جن علاقوں میں مقیم ھیں انہوں نے بھی مکاتب کا اچھا نظم قائم کیا ھوا ھے ۔
ھمارا یہ ماننا ھے کہ یہی وہ بنیادی خدمات ھیں جس کے صدقہ میں اللہ رب العزت و الجلال نے وھاں مقیم مسلمانوں کو دینی اعتبار سے بہت اچھے ماحول میں رکھا ھوا ھے ، باری تعالی اس سلسلہ کو جاری و ساری رکھیں اور مزید استحکام نصیب فرمائیں ۔
*اسلامی ماحول میں عصری تعلیم*
برطانیہ کی فضاء میں دینی اعتبار سے انقلاب لانے کا سہرا فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے سر بھی جاتا ھے جو مسلسل 27 سال بلاناغہ ھر سال برطانیہ کا سفر فرماتے رھے اور ملک کے طول و عرض میں رھنے والے مسلمانوں کے درمیان جاکر اصلاحی گفتگو فرماتے اور ان کو دینی ذمے داریوں سے آگاہ فرماتے ، اخیر کے دس بارہ سالوں میں تو حضرت کی ھر تقریر میں مسلمانان برطانیہ سے یہ مطالبہ ھوتا تھا کہ اپنے اسکول کھولو اور اسلامی ماحول میں بچوں کو عصری علوم پڑھاؤ ، بعض دفعہ تو جلال میں آکر یہ فرمادیا کرتے تھے : *اپنے بچوں کو عیسائی یا دہریہ بننے کے لئے یہاں نہ چھوڑو یا تو اپنے اسکول قائم کرو ورنہ اپنے اپنے ملک واپس چلے جاؤ*
حضرت کی اس تحریک کا اثر یہ ھوا کہ آج برطانیہ کے چپے چپے میں مسلمانوں کے اسکول قائم ھیں اور بچے اپنے ماحول میں عصری علوم حاصل کررھے ھیں ۔
جہاں بھی گئے لوگوں نے حضرت فدائے ملت رح کو یاد کیا ان کی جفاکشی ، قربانی اور نئی نسل کے دین و ایمان کے تحفظ کے حوالے سے ان کی فکرمندی کو بیان کیا ، یقینا یہ تمام ادارے حضرت رحمہ اللہ کے لئے صدقہ جاریہ بنے رھیں گے ان شاء اللہ ۔
اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کا تذکرہ بھی ضروری ھے جو حضرت فدائے ملت رح کے خلیفہ تھے اور ھرسال بڑے نظم و ترتیب کے ساتھ پورے ملک میں حضرت فدائے ملت رح کے سفر کے پروگرام طے فرماتے اور جتنے دن حضرت کا برطانیہ میں قیام رھتا مولانا ساتھ ساتھ رھتے ، باری تعالٰی مولانا کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائیں
*علماء کرام اور اھل دل*
دوران سفر مختلف مقامات پر جید علماء کرام ، صاحب نسبت بزرگ اور اللہ والوں سے ملاقات ھوتی رھی ، یہ تمام علماء اور اکابر دامت برکاتہم ماشاء اللہ مضبوطی کے ساتھ اپنے اسلاف اور بزرگان دین کے نہج پر قائم ھیں ، سادگی ، للہیت ، اتباع شریعت و سنت ، حسن خلق اور نافعیت کا مرقع ھیں ، یہ حضرات اپنے اپنے مقام پر مرجع کی حیثیت رکھتے ھیں اور علمی ، دینی ، اصلاحی اور دعوتی میدانوں میں بیش بہا خدمات انجام دے رھے ھیں ۔
سرزمین برطانیہ میں ان حضرات علماء اور اھل اللہ کا وجود بسا غنیمت اور عامۃ المسلمین کے لئے ڈھال اور نعمت عظمی ھے اور ھم تو یہ سمجھتے ھیں کہ وہ دن دور نہیں جب انہی حضرات کی مخلصانہ کاوشوں اور کوششوں کے صدقہ میں ملک کی تقدیر ایسی بدلے گی اور ایسا صالح انقلاب آئے گا کہ ان شاء اللہ دنیا دیکھے گی ۔
جنازہ۔۔۔ تحریر: فرحت اللہ بیگ۔ آواز: ضیاء محی الدین
Читать полностью…مرزا غالب دوستوں کی محفل میں بیٹھے تھے اور دہلی اور لکھنو کی اردو میں فرق پر گفتگو جاری تھی کہ کسی نے مرزا غالب سے پوچھا:
”حضور“ 'میرا قلم' صحیح ہے یا 'میری قلم '؟
مرزا غالب نے کہا :
عورت لکھےتو ”میری قلم“ مرد لکھے تو "میرا قلم"
اسی طرح کسی نے پوچھا : "جُوتا صحیح ہے یا جُوتی" ؟
ایک صاحب کہنے لگے:
"بھائی مرزا تو یہی کہیں گے کہ عورت پہنے تو جُوتی اور مرد پہنے تو جُوتا"۔
مرزا غالب نے جواب دیا :
”جی نہیں!!
زور سے پڑے تو جُوتا ، آہستہ پڑے تو جُوتی۔“
پر عمل سے محروم ھیں اور غیروں نے اس کو اپنایا ھوا ھے ۔
آج کل لندن میں اسرائیل کے ظلم و جبر اور تشدد کے خلاف اور بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بڑے بڑے مظاھرے ھورھے ھیں جس میں پورے ملک سے لاکھوں لوگ شرکت کررھے ھیں اور انسانیت کے خلاف ھونے والے مظالم پر آواز بلند کررھے ھیں ۔
*دینی صورتحال :*
یہ تو ایک حقیقت ھے کہ دینی اعتبار سے ساری دنیا کا اسلامی معاشرہ پست روی کا شکار ھے ، ماحول کی آزادی ، بے راہ روی کے اسباب اور دین سے غافل کرنے والی چیزوں کے عام ھوئے کی وجہ سے ھرجگہ کے مسلمان متاثر ھیں اور اس کا اثر برطانیہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ھے ، چنانچہ یہاں مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ بھی ھے جو غیر اسلامی کلچر سے بری طرح متاثر ھے اور اسی کے رنگ میں رنگا ھوا ھے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ یہاں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ماحول کی زھرناکی اور ھرطرح کی آزادی کے باوجود بحمدہ تعالٰی مضبوط اسلامی بنیادوں پر قائم ھے اور ھم نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کا یہ طبقہ نسل نو میں دینی جذبات کے تحفظ اور اسلامی اقدار کے بقاء کے حوالے سے مسلم اکثریتی ملکوں یا علاقوں میں رھنے والے مسلمانوں سے زیادہ حساس اور فکر مند ھے ، اس کی وجہ شاید یہ ھے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں رھنے والے مسلمان آئندہ نسلوں میں دینی جذبات کی بقاء کےسلسلہ میں یک گونہ مطمئن سے رھتے ھیں جبکہ یہاں ماحول کی آزادی اور غیر اسلامی تہذیب میں گھرے ھوئے ھونے کی بناء پر والدین بچوں کے سلسلہ میں زیادہ فکر مند رھتے ھیں اور یہی فکرمندی حتی الإمكان ان کو راہ راست پر گامزن رکھنے کا سبب بن رھی ھے ۔
*مساجد اور گرجاگھر :*
پورے ملک میں جگہ جگہ شاندار چھوٹی بڑی مسجدیں موجود ھیں جن میں گرم پانی اور صفائی ستھرائی کے بہترین نظم کے ساتھ ھر وضو کرنے والے کے لئے ٹشو یا الگ الگ دھلے ھوئے چھوٹے تولیے کا انتظام ھوتا ھے جسے استعمال کرکے مستعمل تولیوں کے خانے میں ڈال دیا جاتا ھے ، مسجدوں میں بڑی واشنگ مشین ھوتی ھے جس میں یہ تولیے دھوئے اور سکھائے جاتے ھیں ، میت کے لئے غسل و تکفین وغیرہ کا انتظام بھی بڑی مسجدوں کے ماتحت ھوتا ھے ، بعض مسجدوں کے احاطہ میں سرد خانے بھی ھیں جہاں ضرورت پڑنے پر دیر تک میت کو رکھا جاسکتا ھے ، غرضیکہ یہاں مساجد ھر طرح کے اسباب راحت سے آراستہ ھونے کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ مصلیان سے آباد بھی رھتی ھیں ، اکثر مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ھونے کی وجہ سے جمعہ و عیدین کی نمازیں متعدد مرتبہ ھوتی ھیں ، مسجدوں میں گو کہ نوجوانوں کے مقابلہ میں پختہ عمر کے لوگوں کی تعداد زیادہ ھوتی ھے مگر نئی نسل بھی اپنی حاضری اچھی خاصی درج کراتی ھے ، *اس سلسلہ میں سب سے خوش آئند پہلو یہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ پچھلے چند برسوں سے بڑے بڑے عالیشان اور صدیوں پرانے گرجاگھر مسلمان مسلسل خرید رھے ھیں پھر ان کو مسجد کی شکل دی جاتی ھے اور مکاتب قائم کئے جاتے ھیں ، ھم یہ سمجھتے ھیں کہ برطانیہ کا کوئی بڑا شھر یا علاقہ ایسا نہ ھوگا جہاں چرچ کو مسجد یا مدرسہ میں تبدیل نہ کردیا گیا ھو ، خدا کی قدرت دیکھئے یہی وہ لوگ ھیں جن کے سربراھوں نے دنیا کے کس کس ملک میں نہ جانے کتنی مسجدوں کو ڈھانے ، مسمار کرنے اور ویران کرنے کا کام کیا ھوگا اور آج ان کے اپنے عبادت خانے انہی کے ملک میں ان کے ھاتھ سے نکلتے چلے جارھے ھیں اور شرعی مسجدیں وھاں قائم ھورھی ھیں ، ایسا لگتا ھے کہ انگریز قوم کا یقین اپنے مذہب سے بھی اٹھتا چلاجارھا ھے اور الحاد و نیچریت کا دور دورہ ھے ، جو چرچ باقی بھی ھیں ان کے بارے میں بھی لوگوں کا کہنا ھے کہ اکثر ویران پڑے رھتے ھیں کوئی جھانکنے بھی نہیں آتا* البتہ جن علاقوں میں یہودی آباد ھیں ان کے عبادت خانے بھی کھلے ھوئے ھیں اور وہ اپنے روایتی لباس ، مخصوص وضع اور مذہبی شناخت کے اعتبار سے بھی ممتاز دکھائی دیتے ھیں ۔
*برطانیہ میں اسلام کا مستقبل*
تجزیہ نگاروں کا کہنا ھے کہ برطانیہ میں سب سے تیزی سے مقبول ھونے والا مذہب اسلام ھے جو ملک کا دوسرا بڑا مذھب ھے ، گذشتہ دہائی میں یہاں مسلمانوں کی تعداد میں چوالیس فیصد اضافہ ھوا ھے ، اس میں بڑی تعداد ان مسلم تارکین وطن کی بھی ھے جنہوں نے ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں سے آکر برطانوی شہریت حاصل کی ھے ۔
دوسری طرف مسیحی طبقہ میں اپنے مذہب سے بیزاری کا رجحان تیزی سے بڑھ رھا ھے ، نئے اعداد و شمار کے مطابق ھر چار میں سے ایک برطانوی باشندہ کسی مذہب سے اپنا تعلق نہیں رکھتا ، اس طرح تقریبا دس لاکھ برطانوی کسی مذہب سے اپنی وابستگی ظاھر نہیں کرتے اور ایسے افراد کی تعداد میں گذشتہ دس سالوں کے درمیان دس فیصد اضافہ ھوا ھے
صور من حياة الصحابة- أنس بن النضر النجاري— بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله
Читать полностью…ڈاکٹر محمود الحسن عارف بھی رخصت ہوئے
آپ کا درس نظامی کا سلسلہ باب العلوم۔کہڑور پکا اور جامعہ اشرفیہ لاہور سے تکمیل پذیر ہوا۔اسلامیات میں آپ پی ایچ ڈی تھے۔ مدت العمر اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔جامعہ پنجاب جیسے موقر ادارے سے وابستہ رہے۔ ایک طویل عرصے تک اپ اس کے صدر شعبہ کے منصب پر بھی فائز رہے۔ کچھ برس قبل فالج کے سخت حملے کے بعد مکمل صاحب فراش ہو کر رہ گئے تھے۔آج اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ہمارے مجلے شش ماہی السیرہ عالمی کے ابتدائی مضمون نگاروں میں سے تھے۔ ہمارا ان سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ تو اس سے بھی پرانا ہے۔ آپ نے اپنی کئی کتب بھی، جن میں قاضی ثنا اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کی خدمات پر آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی شامل ہے،اس زمانے میں ہمیں عطا کیں۔ جب ہمارا پی ایچ ڈی کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا اور ہم یہ چاہتے تھے کہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی خدمات کے کسی پہلو کو اپنی تحقیق کے لیے متعین کریں۔
السیرہ میں آپ نے صحابہ کرام کی سیرت نگاری کے حوالے سے بھی سلسلہ شروع کیا تھا،جس کی دو تین قسطیں ہی شائع ہو سکیں، پھر پہلے مصروفیت اور پھر علالت کے سبب یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔
ہمارا جب بھی لاہور جانا ہوتا تو ان کے دفتر میں ڈاکٹر صاحب سے ضرور ملاقات ہوا کرتی۔ اس کے علاوہ ویسے بھی وہ سرگرم شخصیت کے حامل تھے، اس لیے مختلف پروگراموں اور کانفرنسوں میں بھی آپ کی شرکت رہتی، یوں بھی ملاقات کا سلسلہ نکل آتا۔ ایک سے زائد بار کراچی بھی تشریف لائے، یاد پڑتا ہے کہ ایک بار آپ نے ہمارے گھر کو بھی اپنی آمد سے رونق بخشی تھی۔
آپ ایک عرصے تک بادشاہی مسجد لاہور میں جمعہ کے خطبے بھی دیتے رہے،تقریر اچھی کیا کرتے تھے، بلکہ اسی زمانے میں بادشاہی مسجد کے خطیب کے طور پر تقرر کے لیے بھی آپ کا نام زیر غور رہا، لیکن وہ بیل مینڈھے نہ چڑھ سکی۔
اپ نے کئی ایک کتب تحریر کیں، اردو دائرہ معرف اسلامیہ میں بھی آپ کے بہت سے مقالات شائع ہوئے، اس کے علاوہ امام کاسانی کی بدائع الصنائع کا اردو ترجمہ بھی آپ کے قلم سے نکلا جو دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور سے شائع شدہ موجود ہے۔
آج فیس بک کے ذریعے ان کے انتقال کی خبر ملی تو سخت افسوس ہوا اور برسوں پہلے کے واقعات انکھوں کے سامنے گزرنے لگے۔ اللہ تعالی ان کی مساعی کو قبول فرمائے۔ان کی حسنات کو ان کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے، اور مکمل مغفرت فرمائے۔
سید عزیز الرحمن
مولانا ظفر علی خان(۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء) ۔۔۔ تحریر: صادق نسیم
Читать полностью…یہاں ایک بات یاد آئی کہ قرآنی موضوعات پر کئی ایک فہرستیں آئی ہیں، جن میں فرنسی مستشرق جول لابوم کی تفصیل آیات القرآن الکریم کافی مشہور،اور اپنے موضوع پر بہت ہی مفید، کہتے ہیں شیخ محمد عبدہ جب تفسیر قرآن بیان کرتے تھے تو ایک موضوع سے متعلق آیات قرآنی کو یکجا بیان کرتے تھے، جس سے سامعین آپ کے حافظے پر عش عش کر اٹھتے تھے، بعد میں پتہ چلا کے شیخ محمد عبدہ یہ کتاب جو اب تک صرف فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی پیرس سے لے آئے تھے، اس سے دوسرے علماء ابھی متعارف نہیں ہوئے تھے۔علمی وتحقیقی موضوعات کے لئے تو یہ کتاب ٹھیک ہے، لیکن جب دعوتی موضوعات کی بات آئے گی، تو چونکہ مرتب کا قرآن اور اس کی دعوت پر ایمان ہی نہیں ہے، تو یہ کتاب بالکل پھیکی نظر آئے گی، اس کے مقابلے میں تفہیم کی ایک فہرست موضوعات قرآنی کے نام سے چھپی ہے، مرتب ہیں عرفان خلیلی اس میں دعوت سے متعلق موضوعات کو دیکھئے، اور اس قسم کی دوسری فہارس کا موازنہ کیجئے، اس زاوئے سے ان میں بین فرق نظر آئے گا۔ یہی بات حدیث کی ایک عظیم موضوعاتی فہرست مفتاح کنوز السنۃ کے ساتھ بھی وابستہ ہے، ڈچ مستشرق وینسک اس کا مرتب ہے، لیکن دعوتی موضوعات کی روح اس میں بھی ناپید ہے۔
۔ ہماری رائے میں الکمال للہ والی بات تمام کتب تفسیر کے ساتھ لگی ہوئی ہے، ایک طالب وعالم کو ان میں اپنی مطلوبہ تمام چیزین یکجا نہیں ملتیں، سر چھپتا ہے تو پیر کھل جاتا ہے، پیر بند ہوتا ہے تو سر کھل جاتا ہے، ہر مشہور تفسیر میں کچھ ایسے ضروری نکات مل جاتے ہے، جو دوسرے میں نہیں ملتے، لہذا تدبر ہو یا کوئی اور تفسیر ہر ایک سے ایک ایک صاحب فہم اور عالم دین کو استفادہ کرنا چاہئے، لیکن کسی ایک تفسیرکے مطالعہ پر انحسار نہیں کرنا چاہئے، موازناتی مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے، اس سے بات ذہن میں نہایت پختہ ہوجاتی ہے۔
۔ پہلے ہم نے کسی کالم میں تذکرہ کیا ہے کہ دبی میں ہمارا ایک اسٹدی سرکل ہوا کرتا تھا، آج سے چالیس سال قبل اس میں ہمارا مطالعہ تفسیر کا ایک حلقہ تھا،جس میں پہلے یہاں صرف تفہیم کا مطالعہ ہوتا تھا، پھر ہم نے اسے ایک موازناتی مطالعہ میں تبدیل کیا، جس میں ساتھیوں کے ہاتھ میں ایک ایک تفسیر ہوا کرتی تھی، اور ساتھی ایک ایک آیت کی تفسیر ان کتب تفاسیر سے بلند آواز سے پڑھتے، اس کا بہت فائدہ ہوا، ایک ہی آیت کی تفسیر مختلف انداز کی تفسیروں سے، ترجمے کا فرق اور تسامحات کا اندازہ بہ آسانی ہوجاتا تھا،سنا ہے اسے بعد میں کئی ایک جگہوں پر اپنایا گیا ہے، ہمارے طلبہ اور علماء میں اس طرح کے مطالعہ تفسیر کے حلقے منعقد کرنے چاہئیں۔ واللہ ولی التوفیق۔
2023-11-25
/channel/ilmokitab
*بات سے بات: مولانا امین احسن اصلاحی اور تدبر قرآن*
*تحریر: عبد المتین منیری*
علم وکتاب گروپ پر ایک دوست کی جانب سے استفسار آیا ہے کہ:
((بندہ مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تفسیر تدبر قرآن کے متعلق آپ کی راہ نمائی چاہتا ہے کہ یہ تفسیر کیا واقعی مولانا فراہی مرحوم کے قائم کردہ علمی اصولوں کے مطابق ہے؟))
ہماری رائے میں یہ سوال کسی ایک شخص کو مخاطب کرنے کے بجائے عمومی طور پر پیش کرنا زیادہ مناسب تھا، کیونکہ یہاں کئی ایسے شہسوار ہیں جو ہم سے زیادہ علم اور تجربہ رکھتے ہیں، اور درس وتدریس کے میدان سے وابستہ ہیں، اور انہیں ان امور سے ہم سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے۔
رہی بات مولانا امین احسن اصلاحی کی تو اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے دور میں تفسیر وحدیث کے دو چوٹی کے علماء مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا عبد الرحمن مبارکپوریؒ (صاحب تحفۃ الاحوذی ) کے شاگرد تھے، لیکن انہیں فراہی کے شاگرد اور ترجمان کی حیثیت سے زیادہ پہچان ملی۔
جن علماء نے مولانا فراہیؒ کے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں تدریسی زندگی گذاری ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے بجائے مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کو فراہی فکر کا نمائندہ مانتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ تدبر قرآن میں مولانا فراہیؒ کی فکر بھی پائی جاتی ہے، لیکن اس میں جو کچھ ہے ان سب کوفراہی کی طرف منسوب کرنا اور اس کی بنیاد پر آپ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا درست نہیں، کچھ اسی طرح جیسے آج کل غامدی صاحب کے افکار کو فراہی اور اصلاحی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، غامدی صاحب کی بنیاد پر جس طرح اصلاحی صاحب پر کوئی حکم لگانا درست نہیں، اسی طرح اصلاحی صاحب کی بنیاد پر فراہیؒ پر کوئی حکم لگانا درست نہیں۔ ہمارے یہاں اس کی مثال میں انوارالباری کو پیش کیا جاسکتا ہے، مولانا احمد رضا بجنوری بڑے جلیل القدر عالم دین ، مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے داماد اور مجلس علمی ڈابھیل کے رکن رکین تھے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود انوار الباری کے مندرجات کو شاہ صاحب کی طرف منسوب کرکے شاہ صاحب کے سلسلے میں کوئی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا، ہمارے مولانا شہباز اصلاحیؒ تدبرقرآن پر آج سے نصف صدی پیشتر اس وقت سے معترض تھے، جبکہ اس تفسیر کے ابھی چند اجزاء ہی چھپے تھے اور اس کتاب کی چاروں طرف دھوم مچ رہی تھی،اوراس سے وابستہ علمی وفکری تنازعات کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
ہماری یہ بساط نہیں کہ فراہی کے علم میں مین میخ نکالیں، ہماری زبان سے یہ باتیں چھوٹے منہ بڑی بات ہوگی، لیکن اتنا کہنے میں حرج نہیں کہ ہمارے دل میں فراہی کا رعب ودبدبہ علامہ شبلی کی بعض تحریروں کی وجہ سے بڑی کم عمری ہی میں پڑا تھا، جمہرۃ البلاغہ پر علامہ کا تبصرہ بہت شاندار ہے، اس نے ہمیں پہلے پہل علم فراہی کا گرویدہ بنادیا تھا، کچھ مزید شعور آیا تو مولانا فراہیؒ کی جملہ تصانیف اس وقت کے ناظم دائرہ حمیدیہ اور ترجمان فکر فراہی مولانا بدر الدین اصلاحی مرحوم کے توسط سے منگوائیں، قرآنیات کے سلسلے میں آپ سے مراسلت بھی ہوئی، چونکہ جمہرۃ البلاغہ لیتھو پرنٹ پر چھپی تھی، لہذا بڑی مرعوبیت کے ساتھ کچھ سمجھے اور کچھ نہ سمجھے اسے پڑھ ڈالی،لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے جائزۃ القرآن الدولیۃ دبی نے اس کا بڑا خوبصورت اور شاندار ایڈیشن پیش کیا ہے،اسے پڑھنے کے بعد کتاب کے بارے میں ہمارا وہ تاثر باقی نہیں رہا ہے، جو علامہ شبلی کے تبصرے سے قائم ہوا تھا۔
۔ ہمارے حلقوں میں مولانا فراہی اور ان کے تلامذہ کی عربی دانی کی بڑی شہرت ہے، کبھی کبھار اس میں مبالغہ آرائی کا احساس ہوتا ہے،
یہ بات مولانا امین حسن اصلاحی پر بھی صادق آتی ہے،لیکن اسی حلقے کے ایک بڑے عالم دین مولانا جلیل احسن اصلاحی ندویؒ نے جنہوں نے پوری زندگی درس وتدریس میں گذاری ہے، مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کی طرح جنہیں بھی وہ شہرت ومقام نہ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے، مولانا جلیل احسن ندویؒ نے تقسیم سے قبل مصباح اللغات کے مصنف کے ساتھ مصباح العلوم بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا، مدرسۃ الاصلاح اور جامعہ الفلاح نے آپ سے برسوں فیض اٹھایا، زندگی رامپور میں آپ نے تدبر قرآن کی لسانی غلطیوں کا مواخذہ شروع کیا تھا،لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی مصنف اللہ کو پیارے ہوگئے، یہ نقد وتبصرہ (۱۷۰ ) صفحات پر مشتمل ہے، اور سورہ اعراف تک کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اسے فراہی فکر کے ایک اور ترجمان مولانا نعیم الدین اصلاحی استاد تفسیر جامعۃ الفلاح نے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔
تذکیر
آپ کی اس بزم علم وکتاب کے لئے خاص طور پر پوسٹ ہونے والے مواد کو زیادہ سے زیادہ تشنگان علم تک لنک کے ساتھ فورورڈ کرنے کا اہتمام کریں
آپ کے قلمی تاثرات، نقد وتبصرہ اور رد عمل سے کام کرنے والوں کو تحریک ملتی ہے، اور اس سے گروپ کا معیار بلند کرنے میں مدد ملتی ہے
(ع۔م۔م )
*جلوہ ہائے پابہ رکاب (۱) عربی میں گفتگو کرنے کا ایک سنہرا موقع*
*تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم*
شہر چنئی میں ایک قدیم دینی درسگاہ ہے جس کا نام مدرسہ جمالیہ ہے۔ 1958 ء یا1959 میں جامعہ ازہر سے ایک مصری استاد اس مدرسے میں پڑھانے کے لیے یہاں پہنچے۔ ان کا نام الشیخ احمد الشرقاوی تھا۔ وہ نوجوان اور ملنسار آدمی تھے۔ اس مدرسے میں ان کا تقرر میرے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ مدت سے میری خواہش تھی کہ میں عربوں سے مل کر عربی زبان میں گفتگو کرنے کی مشق کروں۔ چنانچہ ان کی آمد کے فوراً بعد میں ان سے ملا، اور اس نئے ماحول میں set ہونے میں ان کی مدد کرتا رہا۔ اس طرح میری خواہش کی تکمیل ہوتی رہی۔
کچھ عرصے بعد ان کے یہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی۔ انھوں نے اس کا نام ھند
جمالیہ رکھا۔ «هند» عربی میں ایک بہت خوبصورت نسوانی نام ہے۔ اور ہندوستان میں پیدا ہونے کی وجہ سے اسم اور مسمی میں ایک معنوی مناسبت بھی پیدا ہو گئی۔ اور مدرسہ جمالیہ میں مدرس ہونے کی مناسبت سے انھوں نے «هند» کے ساتھ «جمالية» بھی جوڑ دیا۔
اس موقع پر میں نے کچھ عربی اشعار لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیسے جو ان کو بہت پسند آئے۔ قارئین کی دلچپسی کے لیے یہاں وہ اشعار لکھ رہا ہوں:
لمن طفلة تزهو وتشرق في المهد
اشبهها بالبَدْر صاح أم الورد
الا هي هند كالزَّهَير تَفتحت
تَبَسُّمُ في رَوْض الأماني والود
«((جمالية)) تُدْعَى وذا لإنتمائها
إلى عهد عبد الناصر القائد الفرد
الا رب مولودٍ يُرَافِقهُ العلى
ويعلو بهِ الآبَاءُ مَجْدًا عَلَى مَجْدِ
وأَرْجُو مِنَ الرَّحْمَنِ طُولَ حَيَاتِهَا
وإمتاعها بالعلم والحُسْن والجد
میں ان دنوں اسلامیہ کالج وانم باڑی میں عربی پڑھاتا تھا، اور کالج کے جریدے میں یہ اشعار شائع ہوئے تھے۔
/channel/ilmokitab
تعارف کتاب
کتاب: پروفیسر ہارون الرشید ...حیات و خدمات
مولف : ساجد رشید
صفحات : 128 قیمت : 700 روپے
ناشر : ہارون پبلی کیشنز کراچی
رابطہ : 03322243868
-
اسلامی ادب کے شناور اور علَم بردار پروفیسر ہارون الرشید 3 جولائی 1973ء کو کلکتہ مغربی بنگال میں پیدا ہوئے اور 26جنوری 2022ء کو کراچی میں راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ اس عرصہ حیات میں دو بار ہجرت کی صعوبتیں اٹھائیں۔ 1950ء میں کلکتہ سے مشرقی پاکستان ہجرت کی اور ڈھاکہ میں سکونت اختیار کی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت گری، لوٹ مار اور زیادتیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ خود بھی اس کا شکار ہوئے، اور ہزاروں اردو بولنے والوں کے ساتھ تقریباً ڈھائی ماہ ڈھاکہ سینٹرل جیل میں گزارے۔ جس کے بعد دوسری ہجرت ڈھاکہ سے کراچی کی۔ لیکن مشکل ترین حالات میں بھی صبر، حوصلے اور اللہ پر توکل کے ساتھ ثابت قدم رہے اور ہر آزمائش میں سرخرو ہوئے۔
پروفیسر ہارون الرشید نے اپنی زندگی صبر، شکر، سادگی اور ایسی ہی اعلیٰ اخلاقی قدروں کے ساتھ بسر کی اور ہمہ وقت تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف میں مصروفِ عمل رہے۔ آپ کی ادبی خدمات کی متعدد جہتیں ہیں… تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید، سوانح نگاری و ناول نگاری وغیرہ۔ اسلامی ادب کے فروغ میں آپ نے اپنی پوری زندگی صرف کی۔ شاعری کی تو اس میں بھی اپنے اس بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھا۔ اسی طرح ناول لکھے تو اس میں بھی معاشرتی مسائل اور اصلاحی پہلو ان کے پیش نظر رہے۔
پروفیسر صاحب تیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، جن میں سے چند کے نام درجِ ذیل ہیں:
اردو ادب اور اسلام، اردو نعت گوئی کا تنقیدی جائزہ، منقبتِ صحابہ کرام، ملّتِ واحدہ، محفل جو اجڑ گئی، دو ہجرتوں کے اہلِ قلم، نوائے مشرق، متاعِ درد، نیاز فتح پوری کے مذہبی افکار، اردو کا دینی ادب، جدید اردو شاعری، فغانِ درویش، لاک ڈائون کے روز و شب و دیگر۔ ان کے علاوہ ابھی کئی کتابیں منتظرِ اشاعت بھی ہیں۔
پیشِ نظر کتاب میں متعدد ادوار اور عنوانات کے تحت پروفیسر ہارون الرشید کی زندگی کے شب و روز اور علمی و ادبی خدمات پر اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں پروفیسر ہارون الرشید کے حالاتِ زندگی بہت اختصار کے ساتھ سات ادوار میں بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں مختلف عنوانات کے تحت پروفیسر صاحب کی شخصیت و کردار کی اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جب کہ تیسرے باب میں پروفیسر صاحب کی علمی و ادبی جہات پر گفتگو کی گئی ہے۔ آخر میں پروفیسر صاحب کی تعلیمات کا خلاصہ انھی کی ایک نظم کی صورت میں درج کیا گیا ہے اور ان کی غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست بھی شامل ہے۔
یہ کتاب پروفیسر ہارون الرشید کے لختِ جگر ساجد رشید کا اپنے والدِ مرحوم سے محبت و عقیدت کا اظہار بھی ہے اور ایک بیٹے کی جانب سے والد کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کو ایک خوبصورت خراجِ تحسین بھی۔ فاضل مصنف کی اگرچہ یہ پہلی کتاب ہے لیکن اپنے والدِ محترم کے طرزِ تحریر کی پیروی کرتے ہوئے اس کتاب میں غیر ضروری تمہید سے گریز کیا گیا ہے۔ کتاب کے ابواب مختصر ہیں اور طرزِ تحریر رواں دواں اور سلیس ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید کی حیات و خدمات پر ایک عمدہ کتاب ہے۔
تبصرہ نگار : ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
شذرات سلیمانی
اثر خامہ
مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
" صاحب معارف کی شذرات نگاری ایک خصوصی و امتیازی شان نگارش رکھتی تھی ۔ بے لاگ لیکن نہ درشت نہ کرخت ۔ عمیق لیکن نہ ادق نہ مغلق ۔ رنگین لیکن نہ پُر تکلف نہ ثقیل ۔ سلیس لیکن نہ سطحی نہ عامیانہ ۔ شگفتہ لیکن نہ ناولانہ نہ خطیبانہ ۔ جان دار لیکن نہ گرماگرم نہ پُرخروش ۔ صالح لیکن نہ خشک نہ مولویانہ ___ سلیمانی ادب و انشا کا جو اردو کی تاریخ ادب و انشا میں ایک خاص مقام ہے ، شبلیت اور ابوالکلامیت دونوں سے ، گو ایک خوش گوار حد تک دونوں کو سموٸے ہوٸے ، اس کی اصل بنیاد ہی معارف کے ادارتی صفحات سے پڑی اور معارف کے شذرات نے بہتوں کے لیے ایک نٸی راہ کھول دی۔"
( ہفتہ وار صدق جدید لکھنٶ۔ 29/ جنوری 1954)
*برطانیہ میں چند روز*
از : محمد عفان منصورپوری
*دوسری اور آخری قسط*
*مدارس اسلامیہ :*
برطانیہ میں موجود اسلامی چہل پہل اور مسلم شناخت و پہچان کے حامل افراد کی موجودگی میں بڑا کردار مدارس اسلامیہ اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعت : جماعت دعوت و تبلیغ کا ھے ، ھند و پاک کی نہج پر اسلامی مدارس اور دینی مکاتب نیز جماعت دعوت و تبلیغ سے منسلک حضرات کی سرگرمیوں نے دینی اعتبار سے ماحول میں صالح انقلاب برپا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ھے چنانچہ دعوت اور تعلیم دونوں اعتبار سے یورپ میں برطانیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ھے ۔
*ام المدارس*
1973 میں مانچسٹر کے قریب بری نامی چھوٹے سے شھر میں ھولکمب پہاڑی پر " دارالعلوم بری " کے نام سے یہاں پہلا مدرسہ قائم ھوا ، جس کی داغ بیل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کی ھدایت پر ان کے شاگرد رشید اور خلیفہ و مجاز ، ایک فعال و متحرک عالم دین حضرت مولانا محمد یوسف صاحب متالا نور اللہ مرقدہ نے ڈالی ، حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ بھی دارالعلوم بری کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے دو مرتبہ یہاں تشریف لائے ، دارالعلوم بری کو برطانیہ ھی نہیں پورے یورپ میں ام المدارس کی حیثیت حاصل ھے ، اس مدرسہ کے قیام کی برکت سے دہریت اور لادینیت کے سیلاب بلا خیز سے مسلم سماج کو محفوظ رکھنے میں بڑی کامیابی ملی ، اس کے بعد متعدد مدارس قائم ھوئے اور ماشاء اللہ علماء کی کھیپ تیار ھونی شروع ھوگئی ، حضرت مولانا محمد یوسف صاحب متالا رحمہ اللہ پوری زندگی اھل برطانیہ کے مرجع رھے اور ان کی سرپرستی و نگرانی میں بہت سے مکاتب و مدارس قائم ھوئے اور متعدد میدانوں میں امور خیر انجام دئے جاتے رھے ، یہ سب چیزیں ان شاء اللہ حضرت کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ھوں گی ۔
مولانا ابو عمار زاھد الراشدی صاحب ایک مضمون میں برطانیہ میں مدارس کے کردار سے متعلق رقمطراز ھیں :
" دارالعلوم بری کی ایک تقریب میں مجھے بھی شرکت اور خطاب کا موقع ملا ، میں نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو اچانک میرے ذہن کی اسکرین پر لارڈ میکالے کا نام بار بار ابھرنے لگا ، میں نے اس کو جھٹکنے کی بھی بہت کوشش کی مگر بالآخر اس کا نام میری زبان پر آھی گیا اور یوں گذارش کی کہ میرا جی چاہتا ھے کہ برطانیہ کے کسی چوک میں نصب کیا ھوا لارڈ میکالے کا مجسمہ تلاش کروں اور اس کے سامنے کھڑا ھوکر اسے مخاطب کرکے کہوں کہ میکالے قال اللہ اور قال الرسول کی جن درسگاہوں کی بساط لپیٹنے کے لئے تم نے برصغیر پاک وھند اور بنگلہ دیش میں ایک نئے نظام تعلیم کی تدوین پر اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردی تھیں وہ درسگاہیں آج بھی زندہ بلکہ خود تمہارے ملک میں ایک نئے فکری و معاشرتی انقلاب کی نوید بنکر ھولکمب بری کے مقام سے تاریخ کے ایک نئے سفر کا آغاز کرچکی ھیں " ۔
اس وقت برطانیہ میں لڑکوں کے لئے 12 بڑے اقامتی مدارس ھیں اور لڑکیوں کے لئے چار جن کے اسماء درج ذیل ھیں :
دارالعلوم بری
مدرسہ مدینۃ العلوم کدی منسٹر
ڈیوزبری مرکز
جامعۃ العلم و الہدی بلیک برن
مدرسہ مفتاح العلوم بلیک برن
دارالعلوم بولٹن
الہدی اکیڈمی بولٹن
دارالعلوم پریسٹن
مدرسہ دعوت الایمان بریڈفورڈ
دارالعلوم لیسٹر
اسلامک دعوہ اکیڈمی لیسٹر
دارالعلوم لندن
برائے بنات :
جامعۃ الامام محمد زکریا بریڈفورڈ
جامعۃ الکوثر لنکاسٹر
جامعہ الہدی نوٹنگھم
مدرسہ روضۃ العلم و الہدی بلیک برن
ان اقامتی مدارس کے علاوہ 118 سے زائد غیر اقامتی مدارس ھیں جس میں بچوں اور بچیوں کے لئے تعلیم کا معیاری بندوبست ھے
ماشاء اللہ جملہ مدارس میں تعلیم و تربیت کا نظام بہت پختہ اور مضبوط ھے ، استعداد سازی کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ھے ، طلبہ کی سخت نگرانی ھوتی ھے ، مختلف مفید کاموں میں ان کو مشغول رکھا جاتا ھے اور موبائل کے استعمال پر کلیۃ پابندی عائد ھے ، دوران تعلیم یا فراغت کے بعد اکثر طلبہ اپنے اساتذہ کرام یا صاحب نسبت بزرگوں سے اصلاحی تعلق بھی قائم کرلیتے ھیں جس سے ان میں عملی اعتبار سے بڑی پختگی آجاتی ھے اور بڑوں کی رھنمائی اور ان کے مشورے سے چلنے کا مزاج بن جاتا ھے جس میں بڑی خیر مضمر ھے ۔
اسے بھی حسن اتفاق کہا جائے یا خوش بختی کہ اکثر بڑے مدارس کے بانیان ، روح رواں اور ذمےدار علماء کرام سرزمین گجرات سے وطنی نسبت رکھنے والے ھیں ، یہ ان کے لئے شرف کی بات ھے کہ اللہ پاک نے ان کی جان و مال کو دینی خدمات کے لئے قبول فرمایا ھے جبکہ ھر مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ میں اکثریت بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والوں کی ھے ۔
تدریس کی زبان عام طور پر انگریزی ھی ھے جبکہ کہیں کہیں اردو میں بھی سبق ھوتا ھے کہیں سمجھانے کی ضرورت پیش آتی ھے تو انگریزی کا بھی سہارا لے لیتے ھیں ۔
مولانا محب اللہ لاری ندویؒ۔ سابق مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو(وفات ۲۹ نومبر ۱۹۹۳ء) ۔۔ تحریر : مولانا مجیب اللہ ندویؒ
Читать полностью…*اھل ایمان کے لئے یہ بہترین موقع ھے کہ یہاں کے باشندوں کے سامنے منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے اسلام پیش کرنے اور اس کے محاسن سے باخبر کرنے کا ، " توا " گرم ھے اپنے روایتی مذہب سے ان کا اعتقاد آٹھ چکا ھے اور وہ سکون کی تلاش میں شراب و کباب ، سگریٹ نوشی اور کتوں سے دل بہلانے میں مصروف ھیں ، ایسے وقت میں اسلام کی بلند اخلاقی تعلیم ، نبوی کردار کی ترجمانی اور فکر آخرت پر مشتمل معقول کلام دلوں کی دنیا بدل سکتا ھے اور ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ھوسکتا ھے*
*فکر کی بات*
سننے میں آیا کہ یوروپین ملکوں میں نام نہاد تبلیغ اسلام کے نام پر قادیانی گروہ سرگرم رھتا ھے ، باطل طاقتوں کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل ھوتی ھے اور وہ باقاعدہ مشن بناکر مختلف ذرائع سے لوگوں کے درمیان پہنچتے ھیں ، حتی کہ جیل میں بند قیدیوں تک رسائی حاصل کرتے ھیں ان کا بھی تعاون کرتے ھیں اور ان کے گھر والوں کی بھی کفالت کا ذمہ لیتے ھیں اور اس کی قیمت پورے گھرانے کو اپنا ھمنوا بنانے کی شکل میں وصول کرلیتے ھیں ، کہیں یہ صورتحال کمزور ایمان والوں کے ساتھ بھی پیش آتی ھے جو ان کو مسلمان ھی سمجھتے ھیں اور کہیں غیر مسلموں کو اپنایا جاتا ھے ، بہر حال صورتحال پر گہری نگاہ رکھنے اور مسلسل تیقظ اور بیداری کا مظاھرہ کرنے کی ضرورت ھے ورنہ غیر تو کیا راہ راست پر آتے اپنوں کا بھی دوسرے شکار کرکے ضلالت و گمراھی میں مبتلا کردیں گے ۔
*خاندانی نظام*
اسلام نے جس خوبصورت خاندانی سسٹم اور نظام اپنانے کی تلقین کی ھے اس کی افادیت اور اھمیت کا اندازہ ایسے علاقوں میں جاکر اور ھوتا ھے جہاں رھنے والے لوگ اس بیش قیمت نعمت سے محروم ھوتے ھیں ۔
جنسی بے راہ روی نے برطانیہ ھی نہیں پورے یورپ کے بیشتر غیر مسلم سماج سے خوبصورت خاندانی نظام کا جنازہ نکال دیاھے ، اولاد اور والدین کے درمیان محبت بھرے ، قدر و منزلت سے معمور اور شفقت سے لبریز رشتوں سے وہ محروم ھوتے چلے جارھے ھیں ، اولڈ ایج ھوم ( بڑی عمر کے لوگوں کے رھنے کی جگہ ) آباد ھیں اور گھر ویران ھیں ، بہت سے لوگوں کا ساتھی بڑھاپے میں کتا ھوتا ھے ، گھر میں تنہا بوڑھا مرد ھے جو کتے سے دل بہلاتا ھے یا تنہا بوڑھی عورت ھے جو صبح و شام کتے کو گھر سے باھر لیکر نکلتی ھے اور گھماپھراکر گھر واپس چلی آتی ھے ، حکومت کی طرف سے بوڑھے لوگوں کے لئے ماہانہ وظائف مقرر ھیں اسلئے انہیں کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ، اولاد یا تو ھوتی نہیں اور ھوتی بھی ھے تو وہ اپنی زندگی میں ایسے مگن ھوتے ھیں کہ انہیں ماں باپ کی کوئی پرواہ ھی نہیں ھوتی ، یہ تو اسلام ھی کی خصوصیت ھے کہ اس نے نکاح جیسے پاکیزہ عمل کی تعلیم دیکر نہ صرف زوجین کو ان کے حقوق بتائے بلکہ اولاد کے تئیں ان کی ذمے داریوں سے بھی باخبر کیا اور ساتھ ساتھ اولاد کو بتایا کہ ماں باپ اور رشتے داروں کے کیا حقوق ھوتے ھیں اور ان کی انجام دہی دنیوی و اخروی اعتبار سے کتنی بڑی سعادت کی چیز ھے ۔
/channel/ilmokitab
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
*برطانیہ میں چند روز*
از : محمد عفان منصورپوری
*قسط اول*
2 نومبر 2023ء قطر ائرویز سے دوحہ ھوتے ھوئے جب ھم لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ سے باھر آئے تو سب سے پہلے یخ اور ٹھنڈی ھواؤں کے خاصے تیز تھپیڑوں نے ھمارا استقبال کیا اور موسم کے بدلے تیور سے باخبر کردیا ، اس پر مستزاد ہلکی ہلکی بارش نے خنکی کو مزید دو آتشہ کردیا تھا ، ھمارے داعی و میزبان اور کرم فرما ، محب مکرم جناب حاجی سعید الحق صاحب ، مولانا نظام الحق صاحب اور مولانا محمد علی صاحب اپنے ساتھیوں کے ھمراہ باھری صدر دروازے پر موجود تھے ، اولا سب نے ظھر کی نماز پڑھی پھر قیام گاہ کی طرف روانہ ھوئے اور نماز عصر ادا کی ، آج کل یہاں دن چھوٹا ھے ، ظھر سے عشاء تک کی نمازوں میں وقفہ بہت کم رھتا ھے ، ساڑھے سات بجے طلوع آفتاب ھے اور ساڑھے چار بجے مغرب ھورھی ھے ، عشاء کی نماز لندن شھر کی مرکزی جامع مسجد میں ادا کی اور پہلے سے طے شدہ نظام کے مطابق تقریبا چالیس منٹ قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو کا موقع میسر ھوا ، لندن کے چند روزہ قیام کے دوران ایک مرتب نظام کے مطابق مختلف علاقوں کی مساجد میں دینی گفتگو کی سعادت نصیب ہوئی۔
ھمیں دس دن میں مجموعی طور پر برطانیہ کے 18 شھروں میں جانے کا اتفاق ھوا اور روزانہ اوسطا چار مقامات پر بات چیت کی توفیق ملی ۔
برطانیہ رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے برابر ھے البتہ اتر پردیش کی آبادی برطانیہ سے کم از کم تین گنا زیادہ ھوگی ، ھمارے پروگراموں کی یہ ترتیب خانوادہ مدنی سے گہری وابستگی رکھنے والی شخصیت اور حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کے منتسب خاص مولانا عبد الرحیم میر صاحب اور حاجی سعید الحق صاحب وغیرہ نے باھمی مشورے سے بنائی تھی ۔
لندن شھر کے سہ روزہ پروگراموں میں مولانا محمد علی صاحب ، مولانا حسن الاسلام صاحب ، مولانا اشرف صاحب اور مولانا نظام الحق صاحب کی ھمرہی میسر رھی ، یہاں سے فارغ ھوکر جب ھم برمنگھم پہنچے تو وھاں سے مولانا عبدالرحیم میر صاحب بھی ساتھ ھوگئے اور پھر انہی کی رھنمائی میں سفر کے اگلے مراحل طے ھوئے ، اس دوران جن اھم مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ میں جانا ھوا اور جن موقر علماء کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ھوا ان کی تفصیلی روئداد تو بڑی وقت طلب ھوجائے گی البتہ اجمالی انداز میں کچھ تاثرات پیش کرنا اور آنکھوں دیکھی صورتحال کو ذکر کرنا فائدے سے خالی نہ ھوگا ۔
برطانیہ ایک پر فضاء اور خوشگوار آپ و ھوا کا حامل ملک ھے ، ھرطرف سبزہ ، صاف ستھری سڑکیں اور قدیم انگلش طرز پر یکساں انداز میں تعمیر شدہ مکانات اپنا ایک الگ حسن رکھتے ھیں ، نظام قدرت کے مطابق اور جائے وقوع کے اعتبار سے موسم کے حوالے سے یہاں بڑا عدم توازن پایا جاتا ھے ، کبھی راتیں اتنی دراز ھوتی ھیں کہ کاٹے نہیں کٹتیں تو کبھی دن اتنے چھوٹے ھوتے ھیں کہ گزرنے کا پتہ ھی نہیں چلتا اور بھاگ دوڑ بہت بڑھ جاتی ھے ۔
برطانیہ میں علاج و معالجہ کی اعلی درجہ کی سہولیات فری ھیں اور معیاری تعلیم بھی بغیر کسی فیس کے دی جاتی ھے ، *لوگوں کے مزاج میں عامۃ نرمی اور ایمان داری ھے ، ایک دوسرے کا خیال رکھنا ، راہ گزرتے شخص کے لئے گاڑی روک لینا ، بات بات پر شکریہ ادا کرنا ، بغیر کسی نگراں کی ھدایت کے خود قطار اور لائن بنالینا عام بات ھے ، سڑک پر ایک سائڈ کی گاڑیاں اگر رکی ھیں تو ان کے پیچھے لمبی قطار لگتی چلی جائے گی کوئی آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گا اگر چہ دوسری سائڈ بالکل خالی ھو ، ھارن بجانے کا رواج بالکل نہیں ھے الا یہ کہ کوئی ایمرجنسی ضرورت پیش آجائے ۔*
*عبرت آمیز واقعہ*
اس سلسلہ میں یہ واقعہ بھی دلچسپی اور عبرت سے خالی نہیں ھوگا کہ ھمارا بریڈ فورڈ کے نواح میں ایک دیہات سے گزرنا ھوا ، ھمارے میزبان مولانا عبد الرحیم میر صاحب نے ایک فارم ھاؤس کے دروازے پر ایک بڑا بوکس لٹکا ھوا دکھایا جس میں مرغی کے دیسی انڈے تھے اور اس کی قیمت لکھی ھوئی تھی ، دور دور تک وھاں کوئی آدمی موجود نہیں تھا مولانا نے بتایا کہ یہاں بیچنے والا کوئی نہیں ھوتا لوگ بوکس میں سے ضرورت کے بقدر انڈے نکالتے ھیں اور پوری ایمانداری کے ساتھ پیسے اس بوکس میں ڈال کر چلے جاتے ھیں ، ایسے ھی بعض دفعہ سبزی والا تازی سبزیوں کے پیکٹ بناکر راستے کے کنارے رکھ کر چلا جاتا ھے اور اس پر قیمت لکھدی جاتی ھے لوگ آتے ھیں سبزیاں لیتے ھیں اور پیسے رکھ کر چلے جاتے ھیں ، بائع کو جب فرصت ملتی ھے آتا ھے اور پیسے لے لیتا ھے ۔
ھمارے لئے یہ عمل جہاں ایک طرف تعجب کا باعث تھا کہ نہ پیسے چوری ھوتے ھیں اور نہ کوئی بغیر پیسے رکھے انڈے اٹھاکر لے جاتا ھے وہیں عبرت کا سامان بھی تھا کہ غیر مسلم ھونے کے باوجود معاملات کی ایسی صفائی ؟ اور ایک ھم ھیں کہ اپنے سماج میں اس طرح کی مثالیں پیش کرنے سے قاصر دکھتے ھیں ، در اصل یہ کردار مسلمانوں ھی کا تھا اور یہ تعلیم بھی اسلام کی ھے لیکن ھم اس تعلیم
يحكى أن الخليفه هارون الرشيد كانت لديه جاريه تدعى خالصه وكانت فائقة الجمال والحسن وكان يحبها حبا شديدا .
استدعى أبو نواس عنده في الديوان ليلقي عليه الشعر بحضور خالصه، وعندما إنتهى أبو نواس من إلقاء
الشعر لم يلتفت إليه الخليفه أو يستحسن شعره على الرغم من أن أبا نواس قال أحسن ما عنده للخليفه... فإغتاظ أبو نواس أشد الغيظ وهو يعلم أن الخليفه مشغول بملاطفة خالصه والتغزل بها
وتجاهل شعره،
وبحضور أبو نواس أهدى الخليفه خالصه عقدا ثمينا مرصعا بأغلى الجواهر... ولم يكافىء أبو نواس نظير
إلقاءه أروع الشعر في مدح الخليفه أو حتى يستحسن الشعر... فإستأذن أبو نواس من الخليفه بالإنصراف وتوجه إلى باب غرفة خالصه وكتب عليه: لقد ضاع شعري على بابكم… كما ضاع عقد على صدر خالصه.
ذهب أبو نواس إلي بيته … وعندما رأت خالصه ما كتبه أبو نواس على باب غرفتها غضبت وذهبت تشتكى
للخليفه... فجن جنون الخليفه وأمر الحرس بإحضار أبي نواس ليعاقب على فعلته الشنيعه، وعندما علم أبو نواس أن الخليفه غاضب علما بالأمر وسبب غضب الخليفه، وذهب للخليفه مع الحرس ولكنه قبل أن يدخل على الخليفه مر على باب خالصه وقام بمسح تجويف العين من كلمة ضاع في الشطرين لتصبح ضاء
ويتغير المعنى من ذم لمدح.
عندما دخل على الخليفه سأله: لقد طلبتني أيها الخليفه لأمر هام.
فقال له الخليفه: ما هذا الذي كتبته يا أبا نواس على باب خالصه؟؟
فقال له أبو نواس بكل براءه ، لم أكتب إلا كل خير يا سيدى فلقد مدحت ولم أر سببا لكل هذا الغضب، دعنا نذهب جميعا ونرى ما كتبت بكل ثقه. فقال له الخليفه والله يا أبا نواس لو كذبت لأقطعن رأسك.
ذهبوا جميعا، وإذ بالخليفه يرى دهاء وذكاء وسرعة بديهته لتغيير معنى كلمة ضاع إلى ضاء وأصبح البيت يقرأ هكذا:
لقد ضاء شعري على بابكم…. كما ضاء عقد على صدر خالصه
فضحك الخليفه وقال لأبي نواس والله يا خبيث لقد قمت بمسح تجويف حرف العين وغيرت المعنى
وهو معجب أشد الإعجاب بذكاء أبي نواس وأمر الحاجب بأن يكافىء أبو نواس بحفنه من الدنانير وانصرف.
#طرائف_أبي_نواس.
جلوہ ہائے پا بہ رکاب ( ۲)۔۔۔ایک عجیب اتفاق۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم
انگریزی میں کہتے ہیں: .Truth is stranger than fiction جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات حقیقت قصے کہانیوں میں بیان کیے جانے والے واقعات سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہوتی ہے۔
میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ میری کتاب دروس اللغةالعربية لغير الناطقين بها کے دوسرے حصے کا تیسواں سبق منڈی کے بارے میں ہے۔ اس سبق کی ابتدا میں جو مکالمہ ہے اس کے تمام جملوں میں مثنی کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس سبق میں جو قصہ بتایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو نئے طلباء کلاس میں آتے ہیں۔ استاذ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق چین سے ہے، اور وہ جڑواں بھائی ہیں، ان میں سے ایک کا نام حسن ہے اور دوسرے کا حسین۔
میں ۱۹۹۵ میں جامعہ اسلامیہ سے مجمع الملک فہد منتقل ہو گیا، اور جامعہ سے میرا تعلق تقریبا ختم ہو گیا۔ کچھ پانچ چھ سال بعد میرے ایک قدیم شاگرد نے جو دکتوراہ (Ph.D) کر رہا تھا مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ سے آکر ملنا چاہتا ہوں اور جامعہ میں جو ایک عجیب
واقعہ پیش آیا ہے وہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہ شاگرد چینی تھا۔ وہ جب ملنے آیا تو اس نے بتایا کہ ان دنوں جامعہ میں دونئے چینی طلبہ آئے ہوئے ہیں، وہ جڑواں ہیں، ان میں سے ایک کا نام حسن ہے اور دوسرے کا نام حسین۔ یہ تفاصیل ہو بہو وہی ہیں جو آپ کی کتاب
دروس اللغة العربية کی دوسری جلد کے آخری سبق میں لکھی ہوئی ہیں۔ میں نے اس شاگر د سے درخواست کی کہ ان طلبا کو میرے یہاں لے آئے، چنانچہ وہ دو چار دن بعد ان کو لے کر آیا، انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق شہر Canton سے ہے۔
انہوں نے وہ سبق پڑھا تھا جس میں دو چینی جڑواں بھائیوں کا ذکر ہے۔ اس عجیب واقعہ کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے: (وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ) ۔
/channel/ilmokitab
مولانا وقار عظیم ندوی
ندوہ میں شیخ التفسیر مولانا اویس صاحب نگرامی رحـ درس کے دوران مولانا فراہی رحـ کا ذکر بہت احترام سے کرتے تھے، ان کی کتابیں پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ البتہ ان کی کچھ شاذ آراء پر نقد کرتے تھے۔ مولانا اویس صاحب رحـ فکر فراہی سے بہت قریب سے واقف تھے۔ مولانا کچھ عرصہ کے لئے مولانا سید سلیمان ندوی رحـ کے پاس دارالمصنفین میں رہے تھے۔ مولانا کے بڑے بھائی مولانا عبدالرحمن صاحب نگرامی رحـ کا حضرت فراہی سے قرب سب معلوم ہے۔ اس تفصیل کا ذکر میں نے اس لئے کیا کہ ان ساری وجوہ کی بنا پر مولانا اویس صاحب رحـ کی فکر فراہی سی واقفیت براہ راست تھی۔
جب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تدبر قرآن کی قسطیں چھپنا شروع ہوئیں اور تدبر کا مقدمہ چھپا تو مولانا اویس صاحب رحـ نے اس پر اپنی بےاطمینانی کا اظہار کیا۔ مولانا کا احساس تھا کہ تدبر میں منھج فراہی کا کلی التزام نہیں ہے۔
اسی طرح مولانا عبدالماجد دریابادی رحـ نے صدق جدید میں تدبر کے بارے میں اس زاویہ سے بی اطمینانی کا اظہار کیا تھا۔ مولانا عبدالماجد رحـ بھی حضرت فراہی رحـ کے منھج تفسیر سے اچھی طرح واقف تھے۔
*اشکال:*
١- کیا تدبر عین فراہی منھج پر ہے؟
٢- کیا غامدی صاحب عین فراہی منھج پر ہیں؟
٣- حضرت فراہی رحـ کی بعض آراء جن کو دوسرے لوگ تفرد یا شذوذ کہتے ہیں مثلا سورہ کوثر، سورہ فیل اور آیت رجم وغیرہ کے سلسلہ میں فراہی مکتب فکر کے اندر کبھی کسی نے اپنی عدم اطمینان کا اظہار کیا؟ یا دیگر تمام مکاتب فکر وجماعات وتنظیمات کی طرح اندرون خانہ آواز کو بغاوت پر محمول کیا گیا؟
وباللہ التوفیق
۔ مولانا امین احسن اصلاحی ، جماعت اسلامی کی تاسیس کے وقت سے اس جماعت کے ساتھ تھے، اور بھی کئی بڑے علماء ابتدا میں اس جماعت سے وابستہ ہوئے، ان میں سے ایک بڑی تعداد ان شخصیات کی تھی جو بانی تحریک کی کسی ایک فکر سے متاثر ہوکراس میں شامل ہوئے تھے، لیکن ان کا پس منظر ،ماحول اور گھریلو تربیت آپ سے مختلف تھی، لیکن مولانا امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی چند شخصیات ایسی بھی تھیں جو اپنے مزاج ، پس منظر اور فکر کے لحاظ سے جماعت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھیں،لہذا جب یہ جماعت سے الگ ہوئے تو اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے انہیں بڑے جتن کرنے پڑے، لہذا آئندہ زندگی میں جماعت اور بانی جماعت ان کی فکر پر مسلط رہے، کچھ اسی طرح کہ جب برصغیر تقسیم ہوگیا تو مملکت خداداد کے سیاست دانوں کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پاکستان کیوں ناگزیر تھا؟، سیدھے سادھے عوام کے ذہن میں یہ تاثر ڈالنا پڑا کہ تقسیم ہند کے بعد تو پڑوس میں اسلام ختم ہوگیا ہے، جو مسلمان وہاں بچ گئے ہیں وہ تو اب وہاں غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں، چونکہ تدبر قرآن لکھنے کا زمانہ جماعت سے علحدگی سے قریب کا زمانہ ہے لہذا اس میں جگہ جگہ تفسیر سے زیادہ رد عمل کا احساس ہونے لگتا ہے، اس سے تفسیر میں جگہ جگہ طوالت اور تکرار بھی ہوگئی ہے، حقیقت میں جب علمی اور فکری تحریروں میں رد عمل آجاتا ہے تو پھر اس میں اثر اور جوش تو پیدا ہو جاتا ہے، لیکن ایسی تحریریں پائیدار نہیں ہوا کرتیں، جلد ہی اپنا وزن کھودیتی ہیں، کچھ یہی حال عربی کی ایک تفسیر فی ظلال کا ہے، ہماری ملاقات ان پرانے لوگوں سے ہوئی ہے جو اس کے مصنف کو اس زمانے سے جانتے تھے جب کہ یہ ابھی پابند سلاسل نہیں ہوئے تھے، اور مصطفی الباب الحلبی کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اس تفسیر کو لکھنا شروع کیا تھا، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فی ظلال کے ابتدائی اجزاء کا اولین ایڈیشن علمی وفکری معیار اور سنجیدگی کے لحاظ سے زیادہ بلند ہے، بعد میں جیل کی کال کوٹھری نے رد عمل اور جذبات کی شدت پیدا کرکے جس نے اس کے علمی معیار اور سنجیدگی کو متاثر کیا ہے۔
۔ مولانا اصلاحی نے حدیث شریف ایک عظیم محدث سے پڑھی ہے، لیکن آپ کے فہم حدیث پر خود ساختہ درایت حاوی ہوگئی ہے، جس نے انہیں منکرین حدیث سے قریب تر کردیا ہے، کتنے تعجب کا مقام ہے کہ الشعر الجاہلی جس کے استناد پر شک کے بادل چھائے ہوئے ہیں، یہ اشعارمولانا کے یہاں کہیں کہیں ثابت شدہ احادیث سے زیادہ معتبر نظر آتے ہیں۔
۔ ایک عالم دین کے لئے مطالعہ اور کتب بینی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی سونے پر سہاگہ کا کام دیتی ہے، اور دعوت دین کے طریقہ کار کوسمجھنے کے لئے ایک عالم دین کی کھلی آنکھوں کے ساتھ مختلف اجتماعی وجماعتی کاموں میں شرکت مفید ہوا کرتی ہے، جو حضرات صبح وشام صرف درس وتدریس اور کتب بینی کے ماحول میں بند رہتے ہیں، اوربال بچوں، اڑوس پڑوس اور معاشرے سے کٹے ہوئے رہتے ہیں، وہ انسان کی نفسیات کو بھر پورانداز سے احاطہ نہیں کر پاتے، ان کے اقوال زرین کی حیثیت زیادہ تر خوبصورت نظریات کی حدوں تک رہ جاتی ہیں، عملی زندگی سے ان کا سروکار نہیں ہوا کرتا، اجتماعی کاموں اور نظریاتی جماعتوں سے ایک محدود حد تک وابستگی تجربات اور مشاہدات کے در کھولتی ہے، یہاں ہمیں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل سے سابقہ پڑتا ہے، جن میں دین کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ ہوتا ہے، ان کا اپنا ایک جدا ماحول اور نفسیات ہوتا ہے، جنہیں ہم درست طریقے سے سمجھ نہیں پاتے، دعوت دین اور اس کی نفسیات کو وہی لوگ جامعیت کے ساتھ سمجھ پاتے ہیں، جنہیں اجتماعی زندگی سے بھی سابقہ پڑا ہے۔
ہمارے ایک بزرگ تھے، مولانا نثار احمد مرحوم، مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں تھے، لیکن جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، ان کے درس قرآن کے موضوعات دعوت دین اور تزکیہ نفس کے اطراف گھومتے تھے، سیدھے سادھے انداز میں ایسا درس دیتے تھے جو دل پر اثر کرتے، وہ کہا کرتے تھے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب ''دعوت دین اور اس کا طریقہ کار'' اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے، مولانا دوبارہ ایسی کتاب نہیں لکھ سکتے، تدبر قرآن پڑھتے وقت اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ قرآن کتاب دعوت ہے، اور اس موضوع پر مولانا نے اس تفسیر میں جو موتی بکھیرے ہیں، یہ اپنی مثال آپ ہیں، خاص طور پر اس زاوئے سے آپ نے کتب سابقہ سے جو عبارتیں اور شواہد پیش کئے ہیں، اس کا جواب نہیں، مولانا اصلاحی کے علاوہ دوسرے علماء ومفسرین نے بھی کتب سابقہ سے استفادہ کیا ہے، ان کے پیش کرنے کا انداز خالص علمی یا تحقیقی ہے، لیکن مولانا اصلاحی نے کتب سابقہ کی آیات کو جس انداز سے پیش کیا ہے، وہ جیتا جاگتا لگتا ہے۔
علامہ ہاشم سندھی کے سلسلے میں مجلات میں دستیاب مواد کے تفصیل حاضر ہے، ان میں سے جو مضامین مطلوب ہیں، انہیں قسط وار طلب کریں، ان شاء اللہ فراہمی کی کوشش کی جائے گی(عبد المتین منیری)
Читать полностью…ڈاکٹر محمد ایوب قادری(وفات ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء) تحریر: ڈاکٹر اسلم فرخی
Читать полностью…علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمہ نے تاریخ کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کو پھیلایا
مولانا ڈاکٹر غلام محمد صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے فرمایا:
ہمارے مولانا شبلی (نعمانیؒ) فرمایا کرتے تھے کہ تاریخ تو ہمارے دسترخوان کی چٹنی ہے، ہم جو چیز کھلانا چاہتے ہیں وہ اس کے ذریعہ سے مرغوب بناتے ہیں۔ چناچہ مولانا (شبلی نعمانیؒ) نے پورے شعور اور قصد و ارادہ سے اس دور میں تاریخ کو اسلامی تعلیمات پھیلانے کا ذریعہ بنایا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔
ادیب، شبلی نمبر، ستمبر ۱۹٦٠/ صفحہ: ۳۳۴
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
مولانا سلمان ندوی(مدیر دعوت دہلی)۔۔۔ تحریر: مولانا مجیب اللہ ندوی، ایک مضمون مولانا سید محمد رابع صاحب کا بھی آپ پر ہے۔
Читать полностью…*جب حضور آئے (۲۹ )ہر ذرہ اسﷺ کے فیض سے لعل و گہر ہوا*۔
*تحریر: نصیر الدین ہاشمی*
وہ رات جس کی صبح کو مسیح کا سفر ہونے والا ہے، درد و الم کی مجسم تصویر ہے۔ عجب یاس و حسرت برس رہی ہے۔ نبی اپنا آخری پیغام اپنے شاگردوں کو سنا رہا ہے۔ ہر طرف سے نا اُمیدی کا ہجو م ہے، درد انگیز الفاظ وحشت خیز رات کو مہیب کر رہے ہیں۔ مسیح کا وداع ہے۔ بنی اسرائیل کی نبوت کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو رہا ہے۔ الٰہی عہد بنی اسرائیل سے ٹوٹتا ہے اور بنی اسمٰعیل سے باندھا جاتا ہے۔ آسمانی دعوت سے ایک گروہ رخصت کیا جاتا ہے اور دوسرے گروہ کے لیے جگہ خالی کی جارہی ہے۔ ایک خشک درخت کاٹا جا رہا ہے اور دوسرا نہال بار آور سبز ہوتا ہے۔ کیسی ڈرائونی غمناک رات ہے۔ مگر کتنی بڑی خوشی اس کے پیچھے کھڑی ہے:
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن اُمید کی
اس شام غربت کی صبح اُمید پونے چھ سو سال کے بعد جلوہ گر ہوتی ہے۔ فاران کی چوٹیوں پر ابر رحمت کی بارش ہوتی ہے۔ جس سے نہ صرف ریگستان عرب کی خشک زمین سیراب ہوتی ہے بلکہ اکناف عالم میں اس بارش سے شیریں نہریں جاری ہوجاتی ہیں اور اپنی آبیاری سے گلشن گیتی کے چمنوں کو سرسبز و شاداب کر دیتی ہے:
گھٹا اک پہاڑوں سے بطحا کے اُٹھی
پڑی چار سو یک بیک دھوم جس کی
کڑک اور دمک دور دور اس کی پہنچی
جو ٹیگس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہو گئی ساری کھیتی خدا کی
کاشانہ دہر کے متوالو! خواب غفلت سے ذرا چونکو، کروٹ بدلو، آنکھیں کھولو، ہدایت کی پُر نور ضیا آپہنچی، تاریکی دور ہوگئی، حق آگیا، باطل ٹوٹ گیا، دُنیا کا مصلح اعظم، ہادی برحق اس شبستان عالم کو اپنے نور سے منور کر رہا ہے۔ حق کا نہایت سیدھا اور صاف راستہ دکھلا رہا ہے۔ اس دُنیا کے لیے ایک نعمت لازوال لایا ہے۔
دُنیا پر ظلمت کی تیرہ و تاریک گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ اہل دُنیا اپنے مذہب سے نابلد ہو کر سورج، چاند ستاروں کی عبادت میں مشغول ہوگئے ہیں۔ بجائے توحید کے تثلیث کی بندگی ہوتی ہے۔ خانہ خدا بتوں کا ملجا و ماوا بنا ہوا ہے۔ حق کے متلاشی کے لیے مذہب سر چشمہ ہدایت نہ رہا۔ اعمال ذمیمہ، ان کے افعال شنیعہ، ان کے عادات و اخلاق ہیں۔ علم و ہنر سے بیگانہ ہو رہے ہیں۔ ظلم و ستم کا دور دورہ ہے۔ شراب، قمار، چوری، زنا کا زور ہے۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ایک داعی حق ہادی برحق مبعوث ہو اور اپنی ہدایت سے دُنیا کی سیاہی کو دور کردے۔ اہل دُنیا کو مذہب سے باخبر اور توحید سے واقف کر دے۔ خانہ خدا کو اس کی عبادت کے لیے مخصوص کر دے۔ اعمال ذمیمہ کو دور کرے، اخلاق حسنہ کی تعلیم دے، علم و ہنر کو مروّج کرے، ظلم و ستم کا انسداد کرے، شراب، قمار، چوری، زنا کو موقوف کرے۔
آلِ ہاشم سے ایک جوان دُنیا میں مبعوث ہوتا اور اپنی تبلیغ و ہدایت سے ان امور کی بہترین طور پر اصلاح کرتا ہے۔ وہ اپنے پیروئوں کے لیے ایک اعلیٰ و اکمل قانون اور اپنی زندگی کا بہترین نمونہ چھوڑ گیا، جس کا اتباع اور پیروی نجات کا سیدھا راستہ ہے-
/channel/ilmokitab