علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
آغا حشر کاشمیری ۔ تحریر: چراغ حسن حسرت ۔ آواز: محمد ضیاء محی الدین
Читать полностью…مولانا احسان احمد شجاع آبادی(وفات ۲۳ نومبر ۱۹۶۶ء) تحریر انیس شاہ جیلانی
Читать полностью…*بات سے بات: کچھ ذکر اجازت و نسبت کا*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*
مولانا محمد ادریس سندھی صاحب نے دو روز قبل ایک ساتھ بہت ساری کتابوں کے سر ورق پوسٹ کئے تھے، پھراڈمن کی پوسٹ پر سبھی سرورق ہٹا دئے، ہماری خواہش تھی کہ مولانا روزانہ دو ایک اہم کتابوں کے سرورق ساتھ ہی کتابوں کے نام اور مصنف کے نام ٹائپ کرکے انہیں پوسٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے تو اس کا قارئین کو فائدہ ہوتا، کتابوں کے سرورق سامنے آجائیں تو ذہن میں ان کا ایک نقش بیٹھ جاتا ہے جو فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔
مولانا نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ آپ کو اجازات اور اسانید سے نسبت ہے، اور یہ آپ کی دلچسپی کا موضوع ہے، کتابوں کی توثیق اور مصنف کی طرف نسبت کے تعلق سے اس فن کی بڑی اہمیت ہے، شیخ عبد الحی کتانیؒ کی کتاب فھرس الفھارس اس میں اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، مولانا ادریس صاحب سرزمین سندھ کے شیخ کتانی ہیں، اور ان کے کاموں کی ہماری دلوں میں بڑی عزت ہے۔
مولانا ادریس صاحب اسانید کے ساتھ ایک قیمتی کتب خانے کے کرتا دھرتا بھی ہیں، اور یہ کتابیں آئندہ نسلوں کی امانت ہے، لیکن کتب خانوں کی جو حالت بن رہی ہے انہیں دیکھ کر خوف سا لگا رہتا ہے، پیٹ کاٹ کر جمع کی گئی کتابیں اور مخطوطات صاحب خانہ کے آنکھ بند ہوتے ہی کباڑ یوں کے یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ اللہ کرے کہ آئندہ آنے والوں کو ان علمی سرمایہ کی قدر وقیمت کا احساس رہے اور تاقیامت یہ شمعیں جلتی رہیں۔ اور اجالا باقی رہے۔
کتابوں کی اجازات اور اسانید کی اپنی ایک اہمیت ہونے کے باوجود اس ناچیز کو ان سے زیادہ مناسبت نہیں رہی ہے، ٹھیک ہے چند سرپھرے اس کام میں لگے رہیں، لیکن طلبہ اور علماء کو کتابوں کی اسانید اور اجازات جمع کرنے سے زیادہ ان کے مطالعہ پر توجہ دینی چاہئے، پتہ نہیں کبھی کبھار کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اجازتوں کے پیچھے پڑے رہنے والی اچھی خاصی تعداد اپنے تشخص کے سلسلے میں احساس کمتری میں مبتلا ہے، اور غیر ضروری طور پر اجازتوں اور اسانید کو جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اجازتیں اور سندیں جمع کرنے میں کوتاہی کے باوجود اللہ تعالی نے اس ناچیز کو اعلی اسانید و اجازتوں سے محروم نہیں کیا، ۱۹۷۶ء میں حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ جب بھٹکل تشریف لائے تو ہم نے اپنے مشفق استاد مولانا محمد اقبال ملا ندوی مرحوم کے کان میں بات پھونک دی، اور قاری صاحب نے ہم خوردوں کو اپنی اجازت حدیث ومسلسلات سے نوازا، اسی طرح حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۹۸ میں دبی تشریف لائے تو ہمارے ایک دوست نے اس جانب متوجہ کیا اور حضرت سے ہم نے اس کی فرمائش کردی، اور آپ نے تہجد کے وقت ہمارے دوست مظفر کولا مرحوم کے مکان پر ہمیں طلب کیا، اور اجازت وسند حدیث سے نوازا، اس کے بعد ہمارے دل میں مزید کسی سند کی ضرورت کا احساس نہیں ہوا، کیونکہ یہ دونوں شخصیات اپنے وقت میں برصغیر کی عظیم ترین شخصیات تھیں، اوربرصغیر میں دیوبند، اہل حدیث بریلوی سبھی مکاتب فکر کی اسانید او اجازات کی یہ جامع تھیں، پھر بغیر طلب کے مولانا سید محمد انظرشاہ کشمیریؒ اور ایک یمنی عالم دین نے بھی اجازت وسند دی تھی،البتہ اس بات کا احساس رہتا ہے کہ جنوبی ہند کے عظیم بزرگ مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسیؒ (شرف الملک مولانا محمد غوث مدراسی کے فرزند قاضی بدر الدولۃ محمد صبغۃ اللہ مدراسیؒ کے پوتے ) سے اجازت اور مسلسلات لینے کا شعور دوران طالب علمی نہ رہا، حالانکہ آپ کی خدمت میں ہفتے دوہفتے کے دوران جانا ہوتا تھا، ہمارے استاد مولانا عبد الباری حاوی معدنیؒ کی سند بھی عالی تھی، وہ ایک واسطے سے حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہیؒ کے شاگرد تھے، ان سے اجازت وسند لینا قسمت میں نہیں لکھا تھا، آپ ہماری درجہ عالمیت کی تکمیل سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
لوگ جب یہ جانتے ہیں تو پھر ہم سے سند و اجازت طلب کرنے لگتے ہیں، چونکہ ہمارا تدریس سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت برکت سے زیادہ نہیں ہے، اور ان جھمیلوں میں نہیں پڑتے۔ویسے دور حاضر کے دو مسندین ڈاکٹر عبد الحکیم الانیس اور ڈاکٹر محمد مطیع الحافظ کا کئی سال سے ایک ہی شعبہ میں ساتھ رہا اور صبح وشام آنا جانا رہا ہے، یہ دونوں اساتذہ اجازتوں اور اسانید کے سلسلے میں عالمی شہرت رکھتے ہیں، اور ان کی اجازات اور اسانید کی کتابیں بھی متداول ہیں۔
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=athar-tum-nay-ishq-kiamjg9, Athar tum nay ishq kia
Читать полностью…*جب حضور آئے ( ۲۸)۔۔۔کس شان سے وہ نورِ خدا جلوہ گر ہوا۔۔۔ ڈاکٹر نصیر احمد نصیر*
عالم انسانی اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔ کاروان زندگی اپنی راہ و منزل کو گم کر کے بھول بھلیوں میں سرگرداں تھا۔ چونکہ جرم و گناہ تاریکی ہی میں نشوونما پاتے اور کھل کھیلتے ہیں، اس لیے حیات انسانی مجرموں، ظالموں اور استحصالی قوتوں کی محکوم و غلام تھی۔ کوئی فریاد رس و غم خوار نہ تھا۔ راہنما خود گم کردہ راہ تھے۔ تشتت و افتراق اور تضاد و تخالف کی وجہ سے ہر گوشہ حیات میں فساد برپا تھا۔ حیات انسانی کا وجود شرک و بت پرستی سے پارہ پارہ ہوچکا تھا۔ خوف و حزن کے موت افگن سائے پھیل کر کل حیات انسانی کو محیط ہو چکے تھے۔ انسان تضادات کا شکار تھا اور ہر گوشہ حیات میں ابتری و برہمی پھیل چکی تھی۔ رُوح انسانی بلکہ رُوح کائنات ہی مضطرب و پریشان اور آتش خوف و حزن میں جل رہی تھی۔ اسے اس نجات دہندہ ہستی کا انتظار تھا جس نے رحمتہ للعالمین بن کر ظہور کرنا تھا۔ وہ عظیم ہستی جو منتظر حیات و زمانہ تھی، انسانیت کے لیے ہی نہیں، بلکہ تمام عوالم کے لیے رحمت تمام تھی۔ وہ ختم الرسل، اور خاتم النبیین تھی اور اسے دُنیا میں عالمگیر و ہمہ گیر اور مثالی و لاثانی انقلاب لانا اور حسین و منور مثالی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرنا تھی جس سے تمام بنی نوع انسان نے بالخصوص ابد تک کے لیے مستفید ہونا تھا۔ وہ ہستی تاریخ ساز و عہد آفریں تھی، لہٰذا ربّ رحیم و جمیل کی نگاہ میں تھی اور رُوح انسانیت کو صدیوں سے اس کا انتظار تھا:
عمر ہا در کعبہ و بتخانہ می نالد حیات
تا ز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
آخر وہ ساعت سعید اور مبارک دن آگیا، جس کا زمانہ منتظر تھا۔ صحرائے عرب کی دوشیزہ سرزمین، بیت اللہ کے امین مکہ معظمہ کا مقدس شہر، حضرت عبدالمطلبؓ کا گھر، واقعہ فیل کا پہلا سال، ربیع الاوّل کی 9 تاریخ اور دو شنبہ کی صبح سعادت تھی کہ صاحب جمال و جلال، نبی رحمت، پیغمبر اعظم و آخرﷺ کا ظہور ہوا۔
عالم انسانی پر قیامت کی طویل و سیاہ رات چھائی ہوئی تھی اور وہ جرم و گناہ کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ رشد و ہدایت کا آفتاب درخشاں طلوع ہوا اور انسان پر دنیوی و اخروی کامیابیوں کی راہ و منزل وا ہوگئی۔ اس طرح کارروان انسانیت نبی رحمت، پیغمبر اعظم و آخرﷺ کی قیادت و متعابعت میں ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ اس اعتبار سے یہ انسانیت کے مقدر کی رات اور خیر و برکت میں ان گنت راتوں سے افضل و اعلیٰ تھی۔
/channel/ilmokitab
تاریخ دارالعلوم دیوبند ۔ سعید احمد اکبرآبادی.pdf
Читать полностью…الثمرة الحقيقة للنهي عن المنكر هي تنفير القلوب من المنكر، وليست تنفيرها من النهي عن المنكر.
Читать полностью…زاہدہ حنا کے آج کے کالم سے ایک انتخاب
اس کے علاوہ وہ’’ گلستان ہند‘‘ جو تصنیف منشی بال مکند کی ہے اردو، گورمکھی اور فارسی میں ہے۔ 1871میں طبع ہوئی تھی تحفہ ٔخاص ہے۔
منشی بال مکند کی تصنیف ’’ گلستان ہند‘‘ پڑھتے ہوئے ساٹھ سترکی دہائی کے جو لوگ ہیں انھیں ’’ گلستان سعدی‘‘ اور ’’ بوستان‘‘ کی بطور خاص یاد آئے گی۔ یہ کتاب 1871 میں شہر سہارن پور میں لکھی گئی اور میرٹھ سے طبع ہوئی۔….
‘اور اب کچھ ذکر ان کے دوسرے تحفے ’’ گلستان ہند‘‘ کا ہوجائے۔ یہ مختصر سی کتاب گلستان بوستان کی یاد دلاتی ہے۔ اس کی چند حکایتیں آپ کی ضیافت کے لیے:
کہتے ہیں کہ جن دنوں دلی کی جامع مسجد تعمیر ہوتی تھی۔ بعض متعصب امیروں نے شاہ جہاں کو یہ صلاح دی کہ اکثر مندروں میں بیش قیمت سنگ اور جواہرات خوش رنگ نصب ہیں، مندر توڑکر نکلوائے اور منگوائے جاویں اور مسجد میں لگوائے جاویں کہ مسجد کو آب و تاب ہو اور ظل سبحانی کو ثواب۔ بادشاہ نے کہا ’’ اول تو غصب کا مال لینا غضب ہے اور بادشاہوں کی ذات سے عجب۔ اور مفت کا مال مسجد میں لگانا بڑا عذاب ہے نہ کہ ثواب۔ دوسرے جو زمانے کے انقلاب سے مسلمانی سلطنت کو زوال ہوا اور ہندوئوں کا اقبال، تو کیا عجب ہے وہ مسجد کو ڈھادیں اور اپنے اور ہمارے قیمتی پتھر لے جاویں اور مندروں میں لگاویں، عقل کے نزدیک دور اندیشی ضروری ہے اور تھوڑے نفع کے لیے بہت نقصان اٹھانا عقل سے دور۔‘‘
ایک دن شاہ جہاں بادشاہ باغ میں سیر کرتا تھا۔ ایک شخص اجنبی کو درختوں میں پھرتا دیکھا۔ سعداللہ وزیر سے پوچھا ’’ یہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے؟‘‘ کہا کہ ’’ میں اس کو نہیں جانتا لیکن اتنا بتلا سکتا ہوں کہ قوم کا نجار اور اس کا نام سعداللہ ہے۔‘‘ بادشاہ نے اس کو بلا کر جو پوچھا تو اس نے ذات اور نام اپنا وہی بتایا جو وزیر نے کہا تھا۔
بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ ’’ تم نے بے جان پہچان اس کی ذات اور نام کوکیسے جان لیا ؟ ‘‘ جواب دیا کہ ’’ جب سے یہاں آیا ہوں اس کی نگاہ جڑ اور شاخ پر درختوں کی دیکھتا ہوں۔ اسی سے جانا کہ وہ بڑھئی ہے اور آپ نے جو مجھے پکارا تھا تو اس نے پیچھے کو دیکھا تھا اس سے پہچانا کہ اس کا نام سعد اللہ ہے‘‘ بادشاہ نے اس کی دانائی کی داد دی اور آفرین و تحسین کی۔
شاہ جہاں کو دریافت ہوا کہ راج پوت عربی یا پارسی لغت زبان پر نہیں لاتے ہیں۔ واسطے امتحان کے پردہ اور مشک کہ جس کی کچھ ہندی نہیں، منگوا کر دیوان خاص میں رکھوائی اور جسونت سنگھ راٹھور، جودھ پور کے راجہ سے پوچھا کہ ’’ ان چیزوں کے کیا نام ہیں۔‘‘ بلاتامل کہا کہ ’’ یہ کپڑے کی اوٹ ہے اور یہ پانی کی پوٹ ہے۔‘‘
اورنگ زیب عالمگیر نے بعد فتح ہونے کے گول کنڈہ کے، وہاں کے بادشاہ ابوالحسن معروف تانا شاہ سے فخریہ یہ کہا تھا کہ میں نے ملک اور مال کی طمع سے یہ فساد نہیں کیا بلکہ توکافر ہے تجھ پر جہاد کیا ہے۔ وہ سن کر چپ ہورہا۔ اس وقت کچھ نہ کہا۔ جب خزانوں کی ضبطی کا وقت آیا ۔ جہاں جہاں خزینہ اور دفینہ تھا۔ ابوالحسن نے بتلایا۔ جب دفینہ کہیں باقی نہ رہا اور عالمگیر نے واسطے بتانے کے مجبورکیا تو اس نے ایک مسجد کی نیو میں دفینہ اور بتادیا۔ حکم ہوا کہ مسجد کو ڈھا دو اور خزانہ نکال لو۔ غرض کہ مسجد مسمارکی گئی۔ اینٹ سے اینٹ مار دی گئی۔
انھیں پڑھیے اور سر دھنیے کہ کیا لوگ تھے اور ان کی کہی ہوئی کیا کہانیاں تھیں۔
/channel/ilmokitab
تحریک استشراق اور علامہ شبلی نعمانی کی کتاب سیرۃ النبیﷺ
از: حافظ محمد یاسین بٹ
مجلہ الثقافۃ الاسلامیہ : ۲۰۰۷،ش۱۷ /۱تا۴۴
أبو الأسود وزوجته أمام الوالي!
تخاصم أبو الأسود الدؤلي وطليقَتهُ في ابنٍ لهُما أرادَ أخذهُ منها، فتحاكما إلى "زياد" وهو والٍ بالبصرة، فقالت المرأة: أصلحَ الله الأمير، هذا ابني كان بطني وعاءهُ، وحِجري فِناءهُ وثَديي سِقاءهُ، أكلؤه إذا نام، وأحفظه إذا قام، فلم أزل كذلك سبعة أعوام حتى كَمِلَتْ خِصالُه، واستوكَفَت أوصالُه، فحين أمِلتُ نَفعَهُ، ورجوتُ دَفعَهُ أرادَ أبوه أنْ يأخُذهُ مِنّي بالكرهِ والعُنوة.
فقال أبو الأسود: أصلحك الله أيها الأمير، هذا ابني حملتُهُ قبلَ أن تَحمِله، ووضَعتُهُ قبل أنْ تَضَعَهُ، وأنا أقومُ عليه في أدبِه، وأنظرُ في أَوَدِه، أمنَحهُ حِلمي، وأُلهمهُ عِلمي، حتىّ تَحكَّمَ عَقلُهُ واستحكم فَتلُهُ.
فقالت المرأة: لقد صدق، ولكنه حَمَلَهُ خِفّاً وحَمَلتُهُ ثِقلاً ووَضَعَهُ شَهوَةً ووَضَعتُهُ كُرهاً!
فقال زياد: والله وازَنتُ بين الحُجتين وقارَنتُ الدليل بالدليل فما وجدتُ لكَ عليها مِن سبيلٍ، وقضى بالولدِ لأمهِ.
شرافت شجاعت شہادت
بیان وآواز: قاضی احسان احمد شجاع آبادی
(وفات ۲۳ نومبر ۲۰۲۳ء )
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=sharafat-shujaat-shahadat, Sharafat Shujaat Shahadat
اس طرح اللہ تعالی نے زندگی میں کئی بڑے عظیم بزرگوں سے بیعت وارشاد کا تعلق پیدا کرنے کے مواقع دئے، اسے بد بختی کہئے یا پھر احساس ذمہ داری، ہمیشہ یہ لگا کہ ہم جیسے الول جلول آدمی اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے، اگر یہ پابندیاں قبول کررہے ہوتے تو پھر بہت سی وہ باتیں جو اپنے زبان و قلم سے بے ساختہ نکل پڑتی ہیں، وہ کہاں سے آتیں، ان پر قدغن نہیں لگ جاتا؟۔ اب اس کا احساس زیاں کرنے کا موقعہ آئندہ زندگی میں ملے گا یا نہیں، اس کا پتہ مستقبل ہی میں چلے گا۔
اللہ تعالی نے سب باغوں سے پھول چننے کا موقعہ دیا، تضادات کے ملغوبے سے گذشتہ زندگی بھری ہوئی ہے، عالم سفلی ، سحر وجن کے ماحول کو بھی بہت قریب سے دیکھنے اور جاننے کے مواقع ملے، اگر انہیں بیان کرنے لگیں تو شاید شہاب نامے کے ایک مخصوص باب کی طرح ہمیں آب بیتی کا ایک باب لکھنا پڑے، جسے چند لوگ کمزوری عقیدہ کا مظہر سمجھیں، اورہم پر ان کے اعتماد متزلزل ہونے لگے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے وقت کے ایک عظیم ترین عامل کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، شاید عام لوگ ان سے واقف نہ ہوں، وجے واڑہ کے مولانا محمد اسماعیل مرحوم سے بڑا عامل ان آنکھوں نے نہیں دیکھا، آپ مسلکا اہل حدیث تھے، اور تقسیم ہند سے قبل جامعہ رحمانی دہلی کے سند یافتہ تھے ،مولانا میر ابراہیم سیالکوٹی، مولانا عبد الستار دہلوی، اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کو قریب سے دیکھے ہوئے۔ پابند شرع اور زاہد وعابد شخصیت، ممبئی آتے تو بڑے بڑے ساہوکاروں کے مہمان بننے کے بجائے ہمارے تایا الحاج محی الدین منیری مرحوم کی محبت میں ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل ایجنسی تاج کمپنی میں ہم لوگوں کے ساتھ رہتے، بھٹکل آتے تو منیری صاحب کے مکان ( غریب خانہ) کے نماز کے کمرے میں پڑجاتے۔ بارہا ہم سے کہا کہ دنیا ہم سے یہ علم سکھانے کو کہتی ہے، لیکن ہم نہیں سکھاتے، لیکن تم سے کہتاہوں اسے سیکھو، لیکن تم دلچسپی نہیں لیتے، میں مولانا سے کہتا کہ اس علم کی پابندیاں مجھ ناچیز سے اٹھائی نہیں جاتیں، اوراس سے غیر محرموں سے اختلاط کا دھڑکا لگا رہتا ہے، اب کب تک روئی کو آگ سے بچایا جائے، اور بات ہنسی میں ٹل جاتی۔ قدرت نے کئی بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے مواقع دئے، حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اس کے حقدار نہیں تھے۔
2023-11-22
/channel/ilmokitab
سؤال اليوم :
عندما لا يوقظك أحدٌ في الصباح، وعندما لا ينتظرك أحدٌ بالليل، وعندما يمكنك فعل ما تريد حقاً...ماذا تسمي هذا؟ حرية أم وحدة؟! .
بوكوفسكي
هاملت: كم يستغرق الجسد حتى يتعفّن بعد الدفن؟
حفّار القبور: الناس في هذا العصر يتعفنون قبل أن يموتوا..!
هاملت - شكسبير
اطہر نفیس(وفات ۲۱ نومبر ۱۹۸۰ء)۔۔۔ تحریر اسد محمد خان
Читать полностью…تاریخ دارالعلوم دیوبند۔ ضیاء الرحمن جالندھری.pdf
Читать полностью…فیض احمد فیض(وفات ۲۰ نومبر ۱۹۸۴ء) ۔ تحریر ساقی فاروقی
Читать полностью…فَسَمِعتُ صَوتاً مِن بَعيدٍ قائِلاً
يا أَيُّها الساري مَكانَكَ تُحمَدِ
.
لا تَقنَطَنَّ مِنَ النَجاحِ لِعَثرَةٍ
ما لا يَنالُ اليَومَ يُدرَكَ في غَدِ
.
بِالذِكرِ يَحيا المَرءُ بَعدَ مَماتِهِ
فَاِنهَض إِلى الذِكرِ الجَميل وَخَلَّدِ
.
إيليا أبو ماضي
نواب علی حسن خان سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنو، وفات ۱۹ نومبر ۱۹۳۶ء تحریر: رئیس احمد جعفری
Читать полностью…علامہ شبلی (وفات ۱۴ نومبر ۱۹۱۴ء) تحریر: آصف جیلانی
Читать полностью…دل یہ کہتا ہے ہر دم مدینے چلو
کلام: بہزاد لکھنوی
آواز: گل ناز وشہناز گل
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=dil-yeh-kehta-hai-hardam-madinay-chalo-voice-others, Dil Yeh Kehta Hai Hardam Madinay Chalo (Voice: Others)