ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

مولانا طارق جمیل صاحب کے فرزند کی وفات پر ان کے بھائی کا بیان

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت تھانوی کی مجلس ارشاد
خدا تعالیٰ سے محبت کا ملہ کی ضرورت
اور اس کی تحصیل کا سہل طریقہ:
اپنے قلوب کوٹٹو لو کہ خدا تعالیٰ سے محبت کاملہ ہے یانہیں؟ اگر نہیں ہے تواس کی تحصیل کی تدبیر کرو۔ اور تدبیر بھی میں بتلاتا ہوں۔ لیکن یہ نہ سمجھ لینا کہ محبت امرِ غیر اختیاری ہے۔ اس کا پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ پھر اس کی تدبیر کیا ہو؟ یہ گمان غلط ہے۔ محبت گوخودغیراختیاری ہو،مگر اس کے اسباب اختیاری ہیں، جن پرتر تب محبت کا ]یعنی ان کے نتیجے میں محبت پیدا ہو جانا[ عادۃً ضروری ہے۔ اور ایسے امور میں خداتعالیٰ نے ہرامرکی تدبیر بتلائی ہے۔ سو وہ تدبیر یہ ہے کہ تم چند باتوں کا التزام کرلو۔
(۱) ایک تو یہ کہ تھوڑی دیر خلوت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرلیا کرو۔ اگر چہ پندرہ بیس منٹ ہی ہو۔ لیکن اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو۔
(۲) دوسرے یہ کیا کرو کہ کسی وقت تنہائی میں بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو سوچا کرو۔ اور پھر اپنے برتاؤ پرغور کیا کرو، کہ ان انعامات پر خدا تعالیٰ کے ساتھ ہم کیا معاملہ کررہے ہیں؟ اور ہمارے اس معاملے کے باوجودبھی خدا تعالیٰ ہم سے کس طرح پیش آرہے ہیں۔
(۳) تیسرے یہ کرو کہ جولوگ محبّانِ خدا ہیں ان سے تعلق پیدا کر لو۔ اگر ان کے پاس آنا جانا دشوار ہو، تو خط وکتابت ہی جاری رکھو۔ لیکن اس کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ اہل اللہ کے پاس اپنے دنیا کے جھگڑے نہ لے جاؤ۔ نہ د نیا پوری ہونے کی نیت سے ان سے ملو۔ بلکہ خدا کا راستہ ان سے دریافت کرو۔ اپنے باطنی امراض کا ان سے علاج کراؤ۔ اور ان سے دعا کراؤ۔
(۴) چوتھے یہ کرو کہ خدا تعالیٰ کے احکام کی پوری پوری اطاعت کرو۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جس کا کہنا مانا جاتا ہے۔اس سے ضرور محبت بڑھ جاتی ہے۔
(۵) پانچویں یہ کہ خداتعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ اپنی محبت عطا فرماویں۔ یہ پانچ جزو کانسخہ ہے۔ اس کو استعمال کر کے دیکھیے، ان شاء اللہ تعالیٰ بہت تھوڑے دنوں میں خداتعالیٰ سے کامل محبت ہوجائے گی۔ اور تمام امراض باطنی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
(ملفوظات جلد۲۷ ۔ص:۲۷۔۲۸)

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ششدرسا رہ گیا ہوں*
- *احمد حاطب صدیقی* -

قیامت نامے داغؔ ہی کے نام نہیں آتے تھے، اِس داغ دار کے نام بھی آتے ہیں۔ نہیں، رنجش کے نہیں … خط میں لکھے ہوئے ’بخشش‘ کے کلام آتے ہیں۔ بخشش کو شاید انگریزی میں ‘Tip’ کہتے ہیں اور ’ٹپ‘ وہ رقم ہے جو خدمت گاروں (مثلاً کالم نگاروں) کو انعام کے طور پر دی یا ’بخش دی‘ جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے ’بخشیش‘ بھی لکھتے یا کہتے ہیں ’لو یہ بخشیش‘۔ اس اِملا اور تلفظ کی مدد سے شاید کم رقم بخش کر زیادہ احسان دھرا جاسکتا ہو۔ ’بخش دینے‘ کا مطلب ہے عطا کردینا، ہبہ کردینا یا بلامعاوضہ دے دینا۔ بخش دو کا ایک مطلب ’ہماری جان چھوڑدو‘ بھی ہے۔ مثل مشہور ہے ’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘۔ اُدھر قبلہ قمرؔ فاروقی بھی پُرسشِ غم کرنے والوں سے سخت پریشان ہیںکہ

میرے غم کو غمِ مسلسل کر ہی دیا غم خواروں نے
بخشو صاحب، باز آئے ہم، اچھی یہ غم خواری کی


مغلوں کے دور میں تنخواہ بھی شاید بخشش ہی سمجھی جاتی تھی۔ لہٰذا تنخواہ تقسیم کرنے والے دفتر کو ’بخشی خانہ‘ کہا جاتا تھا اور تنخواہ بانٹنے والے افسر کو ’بخشی‘۔ اس عہدے پرکام کرنے کو ’بخشی گری‘ کہا جاتا تھا۔ برصغیر میں ثواب پہنچانے یا ایصالِ ثواب کرنے کے معنے میں بھی ’بخشنا‘ بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ داغؔ نے اپنے محبوب سے مطلب اور مراد بر نہ آنے پر سفرِ آخرت کا قصد کرتے ہوئے بصد حسرت و یاس کہا:

سونپا تمھیں خدا کو، چلے ہم تو نامراد
کچھ پڑھ کے بخشنا جو کبھی یاد آئیں ہم

معاف کیجیے گا، ایک مطلب رہ گیا، وہ ہے ’معاف کردینا‘۔ ’’بس اب اس غریب کو بخش دو‘‘۔ معاف کردینے کے معنوں میں ’بخشش‘کا لفظ گناہوں کی معافی یا مغفرت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے ’’یااللہ! ابونثرؔ کو بخش دیجو، کالم نگاری پر اس کی پکڑنہ کیجو‘‘۔ غالب ؔکو فرشتوں کے لکھے پر پکڑدھکڑ کا خوف تھا، اِس مغلوب کو اپنے ہی لکھے پر پکڑے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔

ہاںتو ہوا یوں کہ ہمارا ایک پچھلا کالم پڑھ کر ایک معلّمہ نے ایک مختصر اور پُراثر پیغام ارسال کیا جس میں لکھا تھا:

’’واہ، ایک کالم میں اتنی معلومات، ہم توآپ کا کالم پڑھ کر ششدر رہ گئے‘‘۔

ہم اُستانی جی کے ششدر رہ جانے پر ششدر ہوگئے۔ ’شش در‘ کا لفظی مطلب ہے ’چھے دروازے‘۔ جو لوگ ششدر ہوا کرتے ہیں وہ چھے دروازوں کی دلچسپ توضیح پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ لومڑی اپنے گھر کے چھے در بناتی ہے۔ اگر شکاری یا کوئی اور دشمن لومڑی کو دوڑالے اور وہ دوڑ کر اپنے بھٹ میں گھس جائے تو دشمن گڑبڑا جاتا ہے کہ چھے دروازوں میں سے جانے کس دروازے سے وہ نکل بھاگے۔ میں اِس در پرجاؤں کہ اُس در پر؟ گھات لگاؤں تو لگاؤں آخر کس در پر؟ حیرانی اور پریشانی کی اسی کیفیت کو ’ششدر رہ جانا‘ کہتے ہیں۔


دوسری تشریح لغات میں ملتی ہے۔ نرد، تختۂ نرد یا نرد شیر وہ کھیل ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً پانچ ہزار سال پُرانا کھیل ہے۔ نَرَد کے ’ن‘ اور ’ر‘ دونوں پر زبر ہے۔ اس کھیل کو ’نَرَد شیر‘ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کا موجد ’ارد شیر‘ تھا۔ یہ کھیل گوٹیوں اور پانسوں کی مدد سے کھیلا جاتا ہے۔ ہمارے بچپن تک بچے بارہ گوٹی یا نو گوٹی کھیلا کرتے تھے۔ اس کھیل کی مختلف شکلوں میں سے چوسر، شطرنج، ڈرافٹ، نوگوٹی، بارہ گوٹی اور لوڈوکے کھیل ہیں۔ ان کھیلوں میں کوڑیاں، مُہرے یا گوٹیں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ سب کھیل کسی نہ کسی بساط پر کھیلے جاتے ہیں۔ کوڑیوں، پانسوں یا چھکوں کی مدد سے چال کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چال نرد یا گوٹ سے چلی جاتی ہے۔ شطرنج اور ڈرافٹ میں زیادہ تر ذہانت اور حکمت عملی کا دخل ہوتا ہے۔ باقی کھیل قسمت کے کھیل ہیں۔ تختہ نرد کی بازی میں چھے گھر ہوتے ہیں۔ جس وقت نرد (یعنی گوٹ یا گوٹی) آخری گھر میں جا کر پھنس جاتی ہے، چال رُک جاتی ہے اور چھے کے چھے گھربند ہوجاتے ہیں۔ تب کھیلنے والا ’ششدر‘ رہ جاتا ہے، یعنی عاجز، حیران، پریشان اور سرگرداں۔ بہرحال، پس منظر جو بھی ہو، ’ششدر رہ جانا‘ وہ کیفیت ہے جس سے نکلنا دشوار اور رہائی مشکل ہو۔ بندہ بھونچکّا ہوکر بھنویں اُچکانے لگے کہ اب کروںتو کیاکروں؟ ایک بار شیخ قلندر بخش جرأتؔ بھی ششدر رہ گئے تھے:

کہیں ہے کاغذ، کہیں قلم اور کہیں دوات، آپ چپ ہے جرأتؔ
کسی کا خط اس کو ایسا آیا کہ جس سے ششدر جواب میں ہے

اسی کیفیت میں ایک روز شیخ امام بخش ناسخؔ بھی پائے گئے۔ جب وہ محبوب کے در پر حاضری لگانے پہنچے تو وہاں دیوار کھڑی تھی:

ششدر سا رہ گیا ہوں درِ یار دیکھ کر
دیوار بن گیا ہوں میں دیوار دیکھ کر


مشتاق احمد یوسفی مرحوم نے اپنی ’’زرگزشت‘‘ بیان کرتے ہوئے ایک صاحب کا قصہ سنایا ہے جن کو انگریز اکاؤنٹنٹ نے کچھ اس طرح پُکارا کہ اُس کی پُکار سن کر وہ عمر بھر کے لیے ششدر ہوگئے۔ ’’زرگزشت کے باب ’’پروٹوکول‘‘ میں ’’چہار درویش‘‘ کے عنوان سے شامل شہ پارے میںیوسفی صاحب لکھتے ہیں:

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلامی لاہور نے جب ہمارے کام کو دیکھا توانہیں یہ بہت پسند آیا اور اپنا ایک ادارہ الابلاغ لمیٹڈ کے نام سے قائم کیا اور وہاں سے پیغام قرآن کیسٹ سیریز کا سلسلہ جاری کیا، جوانی کے دن تھے، کام کرنے کی ایک دھن تھی، رات گئے دو دوبجے تک کام کرتے تو وقت کا پتہ نہیں چلتا تھا، اسی زمانے میں شیخ علی باجابر، شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی، اور شیخ عبد الرحمن السدیس نے پہلے پہل حرم مکی میں تراویح اور صلاۃ اللیل کی امامت شروع کی تھی، بھٹکل ریسٹورنٹ کے سامنے ایک عمارت کی تیسری منزل پررمضان کے آخری عشرے میں ٹیلیویژن سے ان کی روح پرور امامت کی ریکارڈنگ کے لئےرات دو بجے ہم ساتھ بیٹھتے،اور ان کی رکارڈنگ کرتے، اس طرح محنت کرکے اس ریکارڈنگ سے مصحف مرتل کی شکل میں اجزاء کو ترتیب دیا گیا ، ہماری معلومات کی حد تک اس زمانے میں سعودیہ میں بھی نمازوں سے تلاوت محفوظ کرکے مکمل مصحف کی شکل دینے کا تصور نہیں تھا، *اس طرح ۱۹۸۸ء تک اس ناچیز نے پیغام اسلام کیسیٹ سیریز کے ابتدائی چار سو دس (۴۱۰ )کیسٹ ترتیب دئے،ان تمام کیسٹوں میں تاریخوں کے اہتمام کے ساتھ ہماری اناؤنسمنٹ اب بھی سنی جاسکتی ہے*۔ اس وقت ہمارے ایک کرم فرما عرب دوست شیخ ابو بکر مدنی نے آڈیو ایڈیٹنگ کے لئے ایک قیمتی شارپ کا ڈبل کیسٹ ریکارڈر فراہم کیا تھا، اور ہم لوگوں نےجمعیت بچت اسکیم میں جمع شدہ پونجی سے اسپیڈ رکارڈنگ مشین کی خرید کی گئی تھی، اس زمانے میں محتشم عبد الرحمن جان صاحب ہمارے رفیقوں میں تھے،اور ان چیزوں کی ہمت افزائی کرتے تھے، آپ کے توسط سے ہانگ کانگ سے سونی کی سپیڈ رکارڈنگ مشین ۱۲ ہزار درہم میں منگوائی گئی تھی، جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔
مورخہ ۲ اگسٹ ۱۹۸۲ء مولانا محمد یوسفؒ سابق امیر جماعت کی دعا سے پیغام اسلام ویڈیو کیسٹ سیریز کا آغاز ہوا، ان کے حصول کے لئے بھی وہی کوششیں ہوئیں جو آڈیو کیسٹوں کے حصول کے لئے کی گئی تھیں، *اس سلسلے کے ابتدائی ایک سو ( ۱۰۰) ویڈیو کیسٹ بھی اس ناچیز کے تیار کردہ ہیں*، اس زمانے میں ویڈیو کیسٹوں کی نمبرنگ ایک مشکل کام تھا، اس کا حل اس طرح نکالا گیا کہ ایک خوبصورت کیلنڈر منتخب کیا گیا، جس کی چوکھٹ بڑی بڑی خوبصورت تھی، درمیان سے عبارتوں کا حصہ کاٹا گیا، اللہ سلامت رکھے ہمارے دوست محمد ناظم محتشم منڈے ، مارکر سے ہر ویڈیو کیسٹ کے لئے تین تین ٹائٹل لکھتے تھے، ایک دیوار پر اس کیلنڈرکی چوکھٹ کو چسپان کیا جاتا، اورتحریر کردہ ٹائٹل اس میں داخل کیا جاتا، جس سے چوکھٹ کے درمیان صرف ٹائٹل نظر آتا، اور پھر اسے ویڈیو پر ریکارڈ کرکے پوس کیا جاتا، ٹائٹل کومزید دلچسپ بنانے کے لئے پس منظر میں ایک عربی نظم (قرآننا نور یضیء طریقنا ) کے ابتدائی اشعار شامل کئے جاتے، اس زمانے میں جب آلات دستیاب نہیں تھے، جس خوبصورت انداز سے ان ویڈیوز کوتیار کیا گیا تھا انہیں دیکھ کرآج حیرت ہوتی ہے۔ اس سلسلے کے ابتدائی ایک سو ویڈیوز پر جہاں بھی ہاتھ سے لکھے ہوئے پیغام اسلام ویڈیو سیریز پر یہ ٹائٹلس نظر آتے ہیں، یہ سبھی ہمارے ترتیب کردہ ہیں۔
اس کام کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لئے،ہم نے جمعیت کو اوقاف دبی میں رجسٹرڈ کروانے کی کاروائی کی، پھروزارۃ الاعلام سے بھی اس کے لئے لائسنس لیا گیا، لیکن ہماری علحدگی کے کچھ عرصہ بعد یہ جمعیت ختم ہوگئی، اور ہمارے ترتیب کردہ جملہ آڈیوز اور ویڈیوز میراں صاحب کی تحویل میں رہ گئے،جسے انہوں نے ذاتی طور پر حفاظت سے رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ اور جب مرکز اسلامی ہند کے نام سے ایک حلقہ قائم ہوا تو اس سے وابستہ ہوکر یہ کام جاری رکھا۔بھٹکل آنے اور نظم سے علحدگی کے بعد انہوں نے انفرادی طور پر ایک یوٹیوب چینل بھی قائم کیا، جس میں ہماری ترتیب کردہ اور اپنی کوششوں سے اضافہ کردہ ویڈیوز بھی شامل کیں۔
جمعیت سے وابستگی کے دوران ہمیں شدید احساس تھا کہ ہمارے لکھنے پڑھنے کا وقت کیسٹوں کی نذر ہورہاہے، تو پھر ہم نے ہمارے تعلیمی معیار میں جو خامیاں رہ گئی تھیں انہیں دور کرنے پرزیادہ توجہ دی،اجتماعی زندگی سے بھی وابستہ رہے، علماء و مشاہیر پروگراموں کی ریکارڈنگ ،آڈیوز اور ویڈیوز اکٹھا کرنے کا سلسلہ مزید چند سال جاری رکھا، *میراں صاحب اس دوران ہمارے ریکارڈ کردہ کیسٹ ہم سے لیتے رہے*، ان میں سے اچھے خاصے کیسٹ آپ کے چینل پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن *جب ہم نے ۲۰۰۲ء میں بھٹکلیس ڈاٹ کام شروع کیا تو ڈبلیکیشن سے بچنے کے لئے ہمارے ان ترتیب کردہ ان میں سے دو چار ہی کیسٹ بھٹکلیس پر شامل کئے*، چونکہ ایک دینی حلقہ دوسرے حلقوں سے اپنے دینی ودعوتی مواد کی اشاعت کو پسند نہیں کرتا،اسے دعوت کی اشاعت سے زیادہ کریڈٹ لینے کی فکر رہتی ہے، اور چونکہ ہمارے پاس اتنا مواد موجود تھا جسے ہم بیس سال سے مسلسل اپلوڈ کرنے کے باوجود اب بھی ختم نہیں کرسکے ہیں تو پھر جمعیت کے دور میں ہمارے تیار کردہ کئی سارے مواد کو بھٹکیس سے ڈیلیٹ کرنا ہی مناسب سمجھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

یہ مضامین و خطابات کسی ایک موضوع پر مرتب و مربوط انداز میں خیالات کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کے بارے میں مختلف النوع مسائل و مشکلات اور مغرب کے حوالے سے عالمِ اسلام کو درپیش چیلنجز کے بارے میں مختلف مواقع اور مقامات پر کی گئی گفتگو اور تحریر کیے گئے تاثرات و احساسات کا مجموعہ ہیں۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو غیر معمولی صبر اور دوراندیشی کی ضرورت ہے، مگر اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے متعلق غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کرسکیں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کے حل کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے، کیوں کہ اب وہ بھی اسی معاشرے کا لازمی جزو ہیں۔
مصنف کی یہ نگارشات بہت ہی پُراثر اور نہایت ہی اچھے خیالات کی عکاسی کرتی ہیں جن کو عمل میں لاکر مغرب کے مسلمان ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں جن کی انہیں ضرورت بھی ہے۔
پیلے گلیزڈ کاغذ پر کتاب بہت ہی خوب صورت اور اچھی طبع ہوئی ہے، قیمت بھی نہایت مناسب ہے۔
بہ شکریہ: فرائیڈے اسپیشل

Читать полностью…

علم و کتاب

کتاب نما: دیارِ مغرب کے مسلمان خطبات و نگارشات
-مبصر: عرفان جعفر خان

کتاب : دیارِ مغرب کے مسلمان
خطبات و نگارشات
مصنف : ابو عمار زاہد الراشدی
ترتیب و : محمد عمار خان ناصر
تدوین محمد یونس قاسمی
صفحات : 301 قیمت : 600 روپے( کارڈ)
ناشر : اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ
اینڈ ڈائیلاگ، بین الاقوامی اسلامی
یونیورسٹی ، فیصل مسجد ، اسلام آباد
فون : 9261760-52-92+

اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ بنیادی طور پر ایک تھنک ٹینک ہے، جس کا مقصد پاکستان اور عالمِ اسلام میں مکالمے اور بات چیت کے ذریعے معاشرے کو درپیش سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، تکثیریت، معاشرتی و ثقافتی تنوع، جمہوریت، مسلم معاشرے، مغرب اور دورِ جدید کے دیگر ایسے اہم عنوانات پر تحقیق اور ان کے حوالے سے مکالمہ اس ادارے کے اہم موضوعات ہیں۔ بین المذاہب و بین المسالک، مذاہب کے درمیان باہمی تعلقات کا فروغ، تشدد اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات اور حکمتِ عملی بھی اس ادارے کے دائرۂ موضوعات میں شامل ہیں۔

’’دیارِ مغرب کے مسلمان‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے مصنف علامہ ابوعمار زاہد الراشدی مدظلہ العالی ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے درمیان مولانا زاہد الراشدی جیسے جلیل القدر عالم و فقیہ موجود ہیں جو درج بالا سوالات پر نہ صرف یہ کہ علمی پہلو سے غور و فکر کرتے ہیں بلکہ ان مسائل و سوالات کا جامع حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب مولانا زاہد الراشدی کی اُن نگارشات و مضامین کا مجموعہ ہے جو آپ کے مغربی ممالک کے اسفار کے دوران پیش آنے والے مشاہدات و تاثرات پر مبنی ہیں۔ اسلوبِ تحریر اتنا سادہ اور دل نشین ہے کہ قاری ان تحریروں کو پڑھتے ہوئے ایک خوش گوار حیرت سے دوچار رہتا ہے اور کہیں بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔ دین اور کلچر کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے نہایت دل نشین انداز اختیار کیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’میرے نزدیک مغربی دنیا اور غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں اہلِ علم و دانش کی علمی تگ و تاز کا تیسرا دائرہ دین اور کلچر کے درمیان فرق کو سمجھنے اور اسے حکیمانہ اسلوب کے ساتھ سمجھانے کا ہے۔ دین و مذہب کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے جب کہ کلچر علاقائی تعلقات، ضروریات اور باہمی مفادات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور اس میں علاقائی ماحول، آب و ہوا اور موسمی صورتِ حال کا دخل ہوتا ہے۔ اسلام خود کو نہ کسی علاقائی کلچر کا تابع اور پابند بناتا ہے، نہ ہی وہ اس کلچر کی مکمل نفی کرتا ہے۔ اس بارے میں اسلام کا طرزِ عمل’’صحیح بات جہاں سے ملے، لے لو‘‘ کا ہے۔‘‘


ڈاکٹر حسن الامین لکھتے ہیں: ’’آپ ایک معتدل مزاج عالم دین ہیں۔ آپ کا شمار گنتی کے اُن چند رجالِ کار عالمِ دین میں ہوتا ہے جو اصلاً روایتی مکتب ِفکر کے ترجمان و نمائندہ ہونے کے باوجود معاصر موضوعات اور جدید مسائل و سوالات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ آپ مغرب میں مسلمانوں کے دینی تشخص کے حوالے سے توجہ مبذول کراتے ہوئے ایک نوجوان کی مشکل کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں برطانیہ کے سفر کے دوران ایک روز لندن سے بذریعہ ٹرین مانچسٹر جارہا تھا۔ ایک نوجوان میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور پوچھا کہ کیا آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہاکہ لوگ یہی کہتے ہیں۔ اس نے کہاکہ آپ اجتہاد کرسکتے ہیں؟ میں نے کہاکہ آپ کی پرابلم کیا ہے؟ اس نے کہاکہ اگر آپ کے پاس اجتہاد کی اتھارٹی ہے تو میں اپنی ایک مشکل آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہاکہ اتھارٹی کی بات چھوڑو، مسئلہ بتائو۔ اگرمیری سمجھ میں آگیا تو کوئی نہ کوئی حل بتادوں گا۔ کہنے لگا کہ میں بحمداللہ مسلمان ہوں اور نماز پابندی سے پڑھتا ہوں، لیکن یہاں مجھے یہ مشکل درپیش ہے کہ ملازمت کے اوقاتِ کار کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نماز کے لیے وقت نہیں ملتا جس کا حل میں نے یہ نکالا ہے کہ ظہر کی نماز صبح فجر کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں اور عصر کی نماز شام کو مغرب کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔ اس نوجوان کے ذہن میں اجتہاد کا مطلب ’’صوابدیدی اختیار‘‘ تھاکہ جس طرح مسیحیت میں پاپائے روم کو دینی احکام کی تعبیر و تشریح میں صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں، شاید مسلمان علما کے پاس بھی اس طرز کا کوئی صوابدیدی اختیار ہوتا ہوگا، اس لیے اگر اس اتھارٹی کے حامل کوئی مولانا صاحب مجھے اجازت دے دیں تو میرا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

چھوڑ کر اس قوم کی جانب توجہ کرنا یقینا کوئی دانشمندی نہیں، جس سے مسلمانان عالم کے صرف ایک جزو کو خطرہ ہے۔ پھر یہ بھی ہے ، کہ خاص ہندوستان میں بھی، ہندووں کا آخر کیا اقتدار و اختیارہے ؟ یہ مانا کہ ان میں مسلمانوں سے زیادہ قوت ہے ، لیکن حکومت کی قوت سے ان کی قوت کو کوئی مناسبت ہے ؟ جس طرح ہم ایک بیرونی طاقت کے غلام ہیں، ٹھیک ہماری ہی طرح تو غلامی کی ز نجیروں میں وہ بھی جکڑے ہوئے ہیں ؟ کیا ان کے پاس فوج ہے ؟ جنگی جہاز ہیں ؟ مملکت ہند کا خراج ہے ؟ ڈا کخانہ ، ریل، افیون، شراب، مالگذاری و غیرہ کی آمدنی سے بھرا ہوا خزانہ ہے ؟ قانون بنانا یا منسوخ کرنا اُن کے اختیار میں ہے ؟ فوج میں مسلمانوں کو بھرتی کرکے ، خود مسلمانوں ہی کے مقابلہ میں لیجانا ۔ یہ اُن کے بس کی چیز ہے ؟ بس جب ہماری ہی طرح وہ بھی بے دست وپا اور بے اختیار ہیں، تو یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ اپنے پیر کی بیٹریوں کے کاٹنے اور ہا تھوں کی ہتکڑیوں کے توڑنے کے بجائے، ہم اپنے ساتھ کے اُس قیدی سے مقابلہ اور زور آزمائی میں اپنی ساری قوت و فرصت کو صرف کرنے لگیں، جوکبھی کبھی ہمیں منہ چڑھا دیتا ، یا ایک آدھ سخت بات کہہ بیٹھتا ہے ؟
خود ہم کو جومذہبی آزادی ہندوستان میں حاصل ہے ، اس کا انداز ہ روز مرہ کی چند مثالوں سے فرمائیے ۔ ہم میں سے ایک شخص حرام کاری کا مرتکب ہوتا ہے، اس کے بعد وہ اپنے تئیں حد شرعی کے لیے پیش کرتا ہے ، کیا قانون وقت ہمیں اس کی اجازت دےگا، کہ ہم اُسے سنگسار کر سکیں ؟ ایک مسلمان چوری کرتا ہے، دوسرے مسلمان اُسکا ہاتھ کاٹ ڈالنا چاہتے ہیں، کیا اسے اسلامی سزا کے دینے کے بعد وہ مسلمان خود سر کاری مجرم نہ قرار پا جائیں گے ؟ شراب کی آزادانہ تجارت اور آبکاری وافیون کے محکموں کو مسلمانان ہند اگر توڑنا چاہیں تو ازروے قانون تو ڑ سکتے ہیں ؟ ایک مسلمان رئیس اپنی جائداد میں لڑکیوں، بہنوں وغیرہ کو شرعی حصہ دینا چاہتا ہے ، انگریزی عدالتیں، رواج ،خاندانی دستور کے خلاف اس شرعی حق کا نفاذ ہونےدیں گی ؟ بہت سے مخلص مسلمان اس وقت مضطر و بے چین تھے، کہ جس طرح ممکن ہو،حجازپہونچیں، اور نجد و حجاز کےمعاملات کے سلجھانے میں عملی حصہ لیں ، کیا سرکارنے پاسپورٹ وغیرہ کے لیے اپنی طرف سے شرائط عائد کر کے اُن مسلمانوں کو خدمت اسلام سے باز نہیں رکھا ؟ کیا فوج اور پولیس میں داخل ہو جانے کے بعد کوئی مسلمان سپاہی دوسرے مسلمان پر گولی چلانےاور اس کو ہلاک کرنے سے انکار کر سکتا ہے ؟ یہ چند مثالیں تھیں، صدہا مثالیں اسی طرح کی اور مل سکتی ہیں۔ کیاجس نظام حکومت نے اس طرح ہر سمت اور ہر پہلو سے ہماری مذہبی آزادی کو مقید کر رکھا ہے ، اُس سے آزاد ہونے کے لیے پوری جدو جہد کرنا ہمارا سب سے پہلا اور سب سے پچھلا فرض نہیں ؟ کیا اس بڑی اور اہم ضرورت کے مقابلہ میں چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر قوت کو منتشرکرنا قرین عقل ہے ؟ کیا بے بسی بے کسی و بے اختیاری کے ابھی کچھ درجے طے کرنا باقی ہیں، جن کے بعد ہم میں آزادی کا صحیح جذبہ پیدا ہو گا ؟ اے خدا ! تو ہم سب کو توفیق دے کہ بغیر تیری مخلوقات سے نفرت کیے ہوئے، سب کی غلامی سے آزاد ہو کر ، تیری غلامی میں آنے کو ہم اہم و مقدم سمجھیں !"
(سچ لکھنؤ، ۱۳ فروری ۱۹۲۵ء ، ص۴۔۵)

Читать полностью…

علم و کتاب

Follow this link to join my WhatsApp community: https://chat.whatsapp.com/GgHfHWPT3FzGQG4YWCkZ10

Читать полностью…

علم و کتاب

اودھ کے معاشرہ وثقافت کی خصوصیات۔۔۔۔ ڈاکٹر سید عبد الباری (شبنم سبحانی)۔۔۔۔ آج اودھ کے شیوخ، سید اور راجپوتوں پر خاصی بحث ہوئی ہے، اس تناظر میں ڈاکٹر سید عبدالباری مرحوم کے تحقیقی مقالے لکھنو کے شعر وادب کا معاشرتی وثقافتی پس منظر سے ایک باب پیش خدمت ہے، امید کہ احباب اسے سنجیدگی سے پڑھیں گے، دلچسپی کی صورت میں اس نوعیت کے چند مزید مضامین پوسٹ کرنے کی کوشش ہوگی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے تین لوگوں سے زیادہ بدنصیب کسی کو نہیں پایا......

پہلا وہ جس کے پاس نئے کپڑے ہیں مگر وہ پرانے کپڑے پہنتا ھے

دوسرا وہ جسکے پاس بھرپور کھانا ھے مگر وہ بھوکا سوتا ھے

پھر بزرگ کی آنکھیں نم ہوگئیں ......
تو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تیسرا بدنصیب شخص کون ھے ہمیں بتائیے
اس پر بزرگ نے دردناک آواز سے شکستہ خاطر ہوکر روتے اور بلبلاتے ہوئے عرض کیا تیسرا وہ شخص ھے جس کے پاس پیسہ اور صحت ہونے کے باوجود دوسری شادی نہ کرے اور صرف اور صرف ایک ہی بیوی پر ساری زندگی گزار دے......
*اتنا سنتے ہی محفل میں زور زور سے رونے کی آوازیں بلند ہوگئیں.....*😂😂😂

یہ ایک خفیہ تحقیق ہے🤣

Читать полностью…

علم و کتاب

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ اُس کی بیٹی نے اُٹھا رکھی ہے دُنیا سر پر۔۔۔- احمد حاطب صدیقی

ہفتۂ رفتہ کے کالم کی آخری سطور میں ہم لکھ بیٹھے تھے:

’’مُغ کیا ہوتا ہے؟ اس کی تفصیل پھر سہی‘‘۔

نہیں معلوم تھا کہ ٹالم ٹول کی نیت سے لکھا ہوایہ ننھا سا فقرہ پیچھے پڑ جائے گا۔ ٹالے نہیں ٹلے گا۔ امریکہ، کینیڈا، بھارت اور خود وطنِ عزیز پاکستان کے مختلف شہروں سے متعدد خواتین و حضرات نے اصرارکیا کہ

’’مُغ کے متعلق ضرور بتائیے اور فی الفور بتائیے‘‘۔

فرداً فرداً اور تفصیل سے سب کو بتانا محنت طلب کام تھا۔ محنت سے ہم جی چراتے ہیں اورکہولت سے کا م چلاتے ہیں کہ سہولت اسی میں ہے۔ پس ہماری کاہلی نے ہر سائل کو الگ الگ جواب دینے کے بجائے کالم کی جھولی بھردینا زیادہ سہل سمجھا۔ مگر اس سے پہلے کہ پڑھنے والے پھر پیچھے پڑجائیں، ’ٹالم ٹول‘ کا مسئلہ بھی ابھی نمٹاتے چلیں کہ ’’مسائل ایسے سائل ہیں جو ٹالے سے نہیں ٹلتے‘‘۔ کسی کام کو ٹالنے، لیت و لعل سے کام لینے اور حیلے حوالے یا بہانے کرنے کے لیے ہندی ترکیب ’ٹال ٹول‘ استعمال ہوا کرتی تھی۔ سو، رشکؔ نے بھی استعمال کرلی:

پہن کے ٹُول کے کپڑے نہ ٹالیے وعدہ
ہمیں پسند نہیں ٹال ٹول کی باتیں

متوازی وِتری لکیروں سے بُنا ہوا انگریزی کپڑا ‘Twill’ یا ‘Tweel’ جب اُردو بولنے والی بیبیوں نے پہنا تو ٹُول بروزنِ پھول کہلایا۔ ٹول کا یہ کپڑا بالعموم سرخ رنگ کا دوسوتی کپڑا ہوتا تھا جس میں بناوٹ کی لکیریں نمایاں ہوتیں۔ اِسے ’شال باف‘ بھی کہتے تھے۔


’ٹال‘ ویسے تو لکڑیوں کے ڈھیر یا لکڑیوں کی دُکان کوکہا جاتا ہے، مگر ایک قسم کا ’گھنٹا‘ بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ گائے، بھینس، بکروں اور دنبوں کے گلے میں اگر گھنٹیاں باندھی جاتی ہیں تو ہاتھی کے گلے میں ’گھنٹ‘ یا گھنٹا باندھا جاتا ہے جو ’ٹال‘کہلاتا ہے۔ اس کی تصغیر ’ٹالی‘ ہے، اسی پر اکتفا کیجیے، مزید چھوٹی کریں گے تو ’ٹَلّی‘ کہلائے گی اور ’شیدا ٹلّی‘ کے ہاتھ لگ جائے گی۔ ’ٹالنا‘ ٹرخانے یا حیلے بہانے سے جھانسا دینے کے معنوں میں مستعمل ہے۔ کسی اہلِ غرض کا کام بے رشوت کرنا پڑ جائے تو کام میں ’دیر لگانے کے لیے‘ بھی سرکاری اہل کار سائل کو ٹالتے رہتے ہیں۔ دور ہوجانے یا دفع ہوجانے کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے کہ ’اب یہاں سے ٹل بھی جاؤ‘ یا یوں کہ ’اللہ کا شکر ہے مصیبت ٹل گئی‘۔ شادی کی تاریخ طے ہوجانے کے بعد ملتوی ہوجائے توکہتے ہیں کہ ’تاریخ ٹل گئی‘۔ کا م نہ کرنا بھی کام ٹالنا ہے، بقولِ امیرؔ:

میں جس کو دیتا ہوں اُس فتنہ گر کے نام کا خط
وہ ٹالتا ہے کہ مجھ کو تو گھر نہیں معلوم

بات ہو رہی تھی ’ٹال ٹول‘ کی۔ٹال ٹول حد سے بڑھی تو اس لفظ کو ’ٹالم ٹول‘ کر دیا گیا۔ملا کرلکھنے کی عادت سے مجبورلوگ اسے ’ٹالَمٹول‘ لکھنے لگے۔ پھرکسی نے اس جُڑی ہوئی ترکیب کے جوڑ،تَڑ سے، توڑ دیے۔پَر اس بے ہنگم طریقے سے توڑے کہ ’م‘ ٹوٹ کر ٹال کے بجائے ٹول سے جا ملا۔ پھر کیا تھا، ٹالم ٹول کرنے والوں کونیا بہانہ مل گیا۔اب وہ ’ٹال مٹول‘ سے کام لینے لگے۔مگر شادؔ جیسے اَٹل لوگ بھلا ٹال مٹول سے کب ٹلنے والے تھے۔ ہرگز ہرگز نہ ٹلے۔ بعدکو بڑے فخر سے اپنی شان میں آپ قصیدے پڑھا کیے کہ

وہ مست ہیں جب در پہ اَڑے پیرِ مُغاں کے
بے مے کے پیے پھر نہیں ٹالے سے ٹلے ہم

لوجی! اس ساری ٹال ٹول، ٹالم ٹول اور ٹال مٹول کے باوجود پیرِمُغاں پھر آن ٹپکے۔ مجبوراً اب مُغ ہی پر بات کرلیتے ہیں۔ باتونی آدمی کو بات کا بتنگڑ بنانے کے لیے بہت پیچھے تک پلٹنا پڑتا ہے۔ سو ہم بھی اب پلٹا کھائیں گے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت تک دوڑے چلے جائیں گے۔ عمر فاروقِ اعظمؓ کے زمانے میں برپا ہونے والے معرکۂ قادسیہ (14ھ بمطابق 635ء) میں آگ پوجنے والوں پر علَم بردارانِ توحید غالب آگئے۔گویا پارساؤں کی فتح ہوئی اور پارسیوں کو شکست۔ جب آخری ساسانی بادشاہ یزدگردکے اقتدار کا خاتمہ ہوا توساتھ ہی 400 سالہ طویل خاندانی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ زرتشتیوں کو اس شکست کا شدید صدمہ تھا۔ خاندانِ ساسان اور اُس کی رعایا اپنے کو زرتشت کا پیروکہتی تھی۔ مگریہ لوگ آتش پرست تھے۔ ان کی عبادت گاہیں ’آتش کدہ‘کہی جاتی تھیں۔ ہر آتش کدے کا پروہت یا بڑا پجاری مُغ کہلاتا تھا۔ مُغ کی جمع مُغاں ہے۔ اِنھیں آتش پرست پروہتوں (یعنی مُغوں) کا پیشوا ’’پیرِ مُغاں‘‘کا لقب پاتا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ہر جابرِ وقت سمجھتا ہے محکم ہے مری تدبیر بہت
پھر وقت اسے بتلاتا ہے تھی کند تری شمشیر بہت

دشمن سے کہو، اپنا ترکش چاہے تو دوبارہ بھر لائے
اِس سمت ہزاروں سینے ہیں اُس سمت اگر ہیں تیر بہت

اس پاک لہو کی تابانی ہر لمحہ فزوں تر ہوتی ہے
جو رنگ وفا سے بنتی ہے ہوتی ہے حسیں تصویر بہت

نکلے جو مجاہد کے لب سے وہ چیز ہی دیگر ہوتی ہے
کہنے کو تو ہم بھی کہتے ہیں ہر مسجد میں تکبیر بہت

اے راہروان راہ وفا ہم تم سے بہت شرمندہ ہیں
تم جان پہ اپنی کھیل گئے اور ہم سے ہوئی تاخیر بہت

اے شمع وفا کے پروانو! اس دور سے تم کو کیا نسبت
یہ دور نمائش خو جس میں اخلاص ہے کم تشہیر بہت

تم کوہکن دوراں ہو تمہیں پرویز کا قصر بھی ڈھانا ہے
تیشے کی دھمک یہ کہتی ہے نزدیک ہے جوئے شیر بہت

سیلاب لہو سے خوف زدہ قاتل حیرت سے کہتا ہے
حلقوم پہ خنجر چلنے پر تڑپے تو نہ تھے نخچیر بہت

تُم تیغ و تفنگ پر نازاں ہو مظلوم کی آہ کو کیا جانو
یہ برق کی صورت گرتی ہے اس آہ میں ہے تاثیر بہت

اے ساغر جبر کے متوالو انجام کو روس کے مت بھولو
ہے اک جھٹکے کا کھیل فقط لمبی ہی سہی زنجیر بہت

کلام: مولانا نعیم صدیقی

Читать полностью…

علم و کتاب

*ایک شام مولانا منیری صاحب کے نام*


*از : محمد عفان منصورپوری*
2 ربیع الثانی 1445ھ
18 اکتوبر 2023ء


*دوسری اور آخری قسط*



*4 ۔۔۔ زبان پڑھنے سے نہیں آتی ، کوئی بھی شخص کتابیں پڑھنے سے اچھی زبان نہیں بول سکتا چاھے وہ عربی زبان ھو یا کوئی دوسری ، زبان پر قدرت حاصل کرنے کے لئے ضروری ھے کہ صحیح تلفظ کے ساتھ آپ زبان کو سنیں چنانچہ اسی چیز کو پیش نظر رکھتے ھوئے اسلامی اور عربی ادب کا بہترین شاہکار " صور من حیاۃ الصحابہ " کی چھوٹی چھوٹی کلپس جو صاحب کتاب دکتور عبد الرحمن رافت باشا کی ھی آواز میں ھیں ھم گذشتہ چھ سال سے گروپ میں پیش کررھے ھیں ، تاکہ صحت اعراب ، تلفظ اور عربی لہجے پر قدرت حاصل ھوسکے ، اسی طرح اردو زبان کے معیاری شعراء کے کلام بھی ان کی آواز میں وقتا فوقتا پیش کئے جاتے ھیں اور اردو کے معیاری قاری جناب ضیاء محی الدین صاحب کی آواز میں دلچسپ مزاحیہ شذرات بھی عام کئے جاتے ھیں ، یہ سب کوششیں اسلئے ھورھی ھیں تاکہ صحیح زبان بولنے میں جو نقص پیدا ھوتا جارھا ھے اس کا ازالہ ھو اور معیاری زبان بولنے اور لکھنے کا ماحول عام ھو ۔*
*مدارس اسلامیہ میں رائج نصاب پر سالہا سال سے مثبت و منفی بحث و مباحثہ کا دور جاری ھے لیکن اس کا کوئی حل نکلتا محسوس نہیں ھوتا وہ اداروں کا اور ذمےداران کا مسئلہ ھے ھم نے سوچا کہ پھول نہ سہی پھول کی پتی ھی سہی علم و کتاب گروپ کے ذریعہ وہ مواد قارئین کو فراہم کرنے کی برابر کوشش کی جارھی ھے جس سے اچھی زبان کو بولنے ، سننے اور سمجھنے کا مزاج عام ھو ۔*

*5 ۔۔۔ خاکے دینی مزاج رکھنے والے لوگوں کے ھوں یا کسی اور کے ان کی زبان بہت اچھی اور اسلوب متاثر کن ھوتا ھے ، اسلئے پڑھے لکھے اور پختہ علم حضرات کو ھر طرح کے خاکے پڑھنے چاھئیں البتہ بچوں کی رھنمائی دیندار لوگوں کے خاکے پڑھنے کی طرف کرنی چاھئے ، ابتداء ھم نے محض ادبی شخصیات کے خاکے شیئر کئے اس کے بعد توازن کا خیال رکھتے ھوئے وفیات کی بنیاد پر ھم نے خاکے جمع کئے جن میں علماء ، شعراء اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خاکے شامل ھیں ، ان خاکوں کو جمع کرنے کے لئے ھم نے بڑی محنت کی ھے ، دارالعلوم ، البرھان ، الفرقان ، المعارف ، سچ وغیرہ کی سیکڑوں فائلیں ھمارے پاس موجود ھیں جن سے ھم تاریخ کی بنیاد پر روزانہ وفات پانی والی شخصیات کے اسماء ذکر کرتے ھیں اور کسی پر لکھا گیا کوئی ایک اچھا خاکہ بھی شیئر کردیتے ھیں ، سب کے خاکے روزانہ نہیں پوسٹ کرتے اسلئے کہ ھمارے خیال میں زیادہ لکھنے پڑھنے سے اھم طلب پیدا کرنا ھے کیونکہ جب طلب پیدا ھوجاتی ھے تو کسی نہ کسی طرح انسان اپنی پیاس بجھانے کا نظم کر ھی لیتا ھے ، تو ھم دو ایک خاکے پیش کرکے طلب پیدا کرنا چاھتے ھیں اور پھر یہ اعلان کر دیتے ھیں کہ جو صاحب کسی بھی شخصیت پر خاکے کا مطالعہ کرنا چاھتے ھوں وہ ھم سے رابطہ کریں یا گروپ پر پوچھیں ھم انہیں معلومات مہیا کرائیں گے ، الحمد للہ اس وقت تک ھمارے پاس دس ھزار افراد کے سلسلہ میں ایسا انڈکس اور اشارات تیار ھوچکے ھیں کہ ھم سیکنڈوں میں یہ بتا سکتے ھیں کہ فلاں کا کب انتقال ھوا ، ان کے تعارف اور احوال و خدمات کے سلسلہ میں کس نے کیا لکھا ھے اور وہ کہاں اور کس مجلہ میں دستیاب ھے ۔*

*6 ۔۔۔ ھم پی ڈی ایف کلچر کو عام نہیں کرنا چاھتے البتہ جو لوگ تحقیقی اور ریسرچ کا کام کررھے ھیں یا مدارس میں علمی مقالات لکھ رھے ھیں اور انہیں لائبریریوں میں متعلقہ موضوع پر کتاب دستیاب نہیں ھورھی ھے تو وہ ھم سے رابطہ کریں ھم انہیں مطلوبہ کتاب کی پی ڈی ایف فراہم کرنے کی حتی المقدور سعی کریں گے صرف شوقیہ مطالعہ کے لئے پی ڈی ایف کا سہارا لینا اچھا مزاج نہیں ھے ھاں اگر کوئی واقعی طالب ھے اور علمی کام کے لئے اسے پی ڈی ایف کی ضرورت ھے تو ھم مہیا کرائیں گے مثلا ھمارے ایک دوست نے مسئلہ حجاب پر مولانا حبیب احمد صاحب کیرانوی کے مضمون کا مطالبہ کیا ھم نے تلاش کیا تو پتہ چلا کہ 1945 کے " صدق " میں دس قسطوں پر مشتمل مولانا کا مضمون طبع ھوا ھے چنانچہ ھم نے اس کی پی ڈی ایف تیار کرکے انہیں مہیا کرادی ۔*

مولانا منیری صاحب کا یہ معلومات افزا محاضرہ جس کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا گیا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ھے کہ علم و کتاب گروپ کے پلیٹ فارم کو مفید سے مفید تر بنانے کے لئے وہ کس حد تک کوشاں رھتے ھیں ، وہ اس میدان کی سرگرمی کو اپنی ثقافت سے تعبیر کرتے ھیں جس کو زندہ رکھنا ھم سب کی مشترکہ ذمے داری ھے ۔
اللہ پاک مولانا کو صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھیں اور ان کے فیضان علمی کو عام اور ٹام فرمائیں ۔
مولانا منیری صاحب کی گفتگو کے بعد مولانا ندیم الواجدی صاحب ، مولانا انوار بستوی صاحب ، اور مولانا فتح محمد صاحب کھجناوری نے اپنے گرانقدر تاثرات کا اظہار فرمایا ، اخیر میں حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری مدظلہ العالی نے مولانا منیری صاحب کی صلاحیتوں کا بڑے وقیع الفاظ میں اعتراف کیا ، پروگرام کو خوب سراھا اور مطالعہ کے

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبدالمتین صاحب منیری مدظلہ اور مفتی ساجد صاحب کھجناوری آج ظہر کے وقت سرہند پنجاب پہنچے تھے اور حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ کے مزار پر حاضری اور سرہند درگاہ کے موجودہ سجادہ نشین خلیفہ صادق رضا صاحب اور مفتی اعظم پنجاب مفتی ارتقاءالحسن صاحب کاندھلوی سے تفصیلی ملاقات اور دل چسپ و معلوماتی گفتگو کے بعد مغرب سے کچھ دیر پہلے دہلی کے سفر پر روانہ ہوے ہیں۔یہ میری مولانا منیری صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔کل صبح اس ملاقات اور سفر کی تفصیلات گروپ میں مشترک کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ

محمد عارف قاسمی
مقیم لدھیانہ پنجاب

Читать полностью…

علم و کتاب

مجلة الروضة المجلد الرابع العدد. 119_.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

https://fb.watch/n_SAe8u1KU/?mibextid=Nif5oz

Читать полностью…

علم و کتاب

’’دائیں جانب چار پائی پر احمد اللہ ششدرؔ دراز تھے۔ فرماتے تھے کہ احمد اللہ کچھ ادھورا ادھورا، سپاٹ سا لگتا تھا۔ پینتیس سال پہلے بمبئی میں ملازمت کی تو انگریز اکاؤنٹنٹ مسٹر اُللہ کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔ لہٰذا میں نے نام کے ساتھ ششدرؔ جوڑ لیا‘‘۔

’شش‘ فارسی میں چھے کو کہتے ہیں۔ اُردو والوں کے لیے یہ لفظ اجنبی نہیں ہے۔ ابتدائی مدرسے کے امتحانات میں کامیاب ہو کر جب ہم ثانوی جماعتوں میں پہنچے تو اپنی بزرگی جتانے کو لوگوں سے کہاکرتے تھے کہ اب ہم ’جماعت ششم الف‘ کے طالب علم ہیں۔ شوال کے چھے روزوں کو ہماری والدہ محترمہ آج بھی ’شش عید‘ کے روزے کہتی ہیں۔’ششماہی امتحان‘ کی ترکیب اب بھی کہیں نہ کہیں سننے کو مل جاتی ہے۔ چھے کونوں والی شے ’شش پہلو‘ کہلاتی ہے۔ شاعری ہی میں نہیں نثر میں بھی ’شش جہات‘ کاتذکرہ ملتا ہے۔ جہات، جہت کی جمع ہے۔ ’جہت‘ سمت، طرف یا جانب کو کہتے ہیں۔ چار سمتیں تو معلوم ہی ہیں۔ اوپر اور نیچے کی جہت بھی شامل کرلیجیے تو کُل شش جہات ہوجاتی ہیں۔’شش جہات‘ سے مراد ’تمام عالم‘ لیا جاتا ہے۔ مگر متقدمین نے ’شش جہات‘ نہیں، ’شش جہت‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ مثلاً جرأتؔ کا دعویٰ ہے کہ ’’جو شش جہت میں نہیں ہے وہ لکھنؤ میں ہے‘‘۔دلّی میں میر تقی میرؔعشق کرکر ششدر ہو ئے توآپ اپناسر پیٹا:

شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر
اُس سے ہوتے نہ ہم دوچار اے کاش

جب کہ غالبؔ کسی نامعلوم طوطی کو ششکار ششکار کر ششدر کیے دے رہے ہیں:

از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو ’شش جہت‘ سے مقابل ہے آئینہ

’شش و پنج میں پڑنا‘ بھی پانسوں ہی کے کھیل کا حصہ ہے۔کھلاڑی چھے اور پانچ کے پھیر میں پڑ جاتا ہے۔ چھکا لاؤں یا پنجی؟ لغت نامۂ دھخدا کے مطابق ’شش و پنج‘ میں پڑنا نرد بازی میں قمار بازی کرنے والوں کا مسئلہ تھا۔ مگر اب توکوئی شخص جواری نہ ہوتب بھی شش و پنج میں پڑ جاتا ہے۔اس کا مطلب ہے اُدھیڑبُن (یعنی اُدھیڑوں یا بُنوں)

تردد، اندیشہ، دُبدھا، گومگو اورتذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہو جانا۔
اب ہم بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ورق تمام ہوا۔ مزیدلکھیں توکہاں لکھیں؟
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
https://bhatkallys.com/articles/?author=ahmed-hatib-siddiqui

Читать полностью…

علم و کتاب

محمد میراں مرحوم ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ایک زمانے میں بھٹکل مزارات کا مرکز ہوا کرتا تھا، قاضی محلہ میں آپ کے گھر میں خود ایک پایا جاتا تھا، یہ سعدا خاندان کا پشتینی گھر تھا، آپ کے والد منگلور بندر پر اپنے بھائیوں کے ساتھ تجارت میں شریک تھے، ان کی وہاں دکانیں تھیں، جب بٹوارہ ہوا تو آپ کے والد کے حصے میں یہ گھر آیا تھا۔
آپ کے والد ماجد پرانی طرز کے بڑے مذہبی انسان تھے، اطمئنان و سکون سے نماز پڑھنے کے تعلق سے مذہب شافعی کی طرف جو مسائل منسوب کئے جاتے ہیں، آپ اس کا نمونہ تھے، اس انداز سے وضو کرتے اور نمازیں پڑھتے بارہا ہم نے دیکھا ہے۔
بھٹکل میں رائج نظام کے تحت محمد میراں مرحوم کی ابتدائی قرآنی قاعدہ اور ناظرہ کی تعلیم گھر کے مقابل واقع مدرسہ صالحہ میں ہوئی تھی، جہاں ایک زمانے میں مولانا محمد اسماعیل اکرمی ( دھاکلو بھاؤ خلفو)، اور مولانا ابوبکر خطیبی (اوپا خلفو ) مرحوم پڑھایا کرتے تھے۔ بقیہ اسکول اور کالج کی تعلیم آپ نے منگلور میں پوری کی، چونکہ اس زمانے میں کامرس کی اعلی تعلیم کا نظام سنیٹ ایلوشیش کالج میں ہی تھا، تو آپ نے یہاں سے بی کام مکمل کیا، اور پھر اپنے والد کے کاروبار سے کچھ عرصے کے لئے وابستہ ہوگئے، اور تریچور تا ممبئی نیشنل ہائی وے (۱۷ ) کے نتیجے میں منگلور بندر کی تجارت جب ماند پڑگئی، تودوسرے لوگوں کی طرح آپ کے والد کا کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا۔
۱۹۷۰ء کے آغاز تک منگلور بندر کا علاقہ بھٹکلی تاجروں کا ایک اہم مرکز ہوا کرتا تھا، ان کی بہت ساری دکانیں یہاں پر قائم تھیں، اب ان کا وجود ختم ہوگیا ہے، اس زمانے میں یہاں کی کچھی میمن مسجد ایک اہم دینی مرکز ہوا کرتی تھی، پہلے اس کے امام مولانا محمد یوسف ہوا کرتے تھے جن کا تعلق ارض دکن سے تھا، ان کے انتقال کے بعد آپ کے شاگرد مولانا سید یوسف صاحب نے اس مسجد کی امامت اور خطابت کا منصب سنبھالا، آپ کا تعلق قریبی علاقے مڈبدری سے تھا، آپ فکری طور پر جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے، ہمارے استاد احمد نوری ماسٹر مرحوم وغیرہ آپ کے رفقاء میں تھے، کچھی میمن مسجد اردو زبان کی سرگرمیوں کا مرکز تھی، مولانا محمد یوسف ( مڈبدری) کی کوششوں سے کئی ایک بھٹکلی نوجوان جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہوئے، کرناٹک کے کنڑی زبان کے حلقوں میں جناب ابراہیم سعید وغیرہ نے جماعت کے کام کو جس طرح آگے بڑھایا اس میں مولانا سید محمد یوسف مرحوم کی تربیت کا بڑا اثر رہا ہے۔
محمد میراں مرحوم کو بھی ابتدائی زندگی ہی میں آپ کی صحبت مل گئی، اور ایک مشنری کالج میں تعلیم پانے کے باوجود ان کی زندگی میں خاندانی دینی روایات اور تحریک اسلامی کے اثرات پیوستہ ہوگئے، جو آخری عمر تک آپ سے جڑے رہے۔
جن لوگوں نے تحریک اسلامی کی پرانی شخصیات کو دیکھا ہے، وہ شہادت دیتے ہیں کہ ان میں اخلاص، نام ونمود سے بیزاری، معاملات کی درستگی، اور حلال وحرام کی تمییز، لٹریچر کی اشاعت کی جنون کی حد تک فکر نمایاں اوصاف ہوا کرتے تھے، میراں صاحب کا پالا بھی ابتدا میں ایسی ہی شخصیات سے پڑا تھا، اور ان کی زندگی میں بھی یہی اوصاف آخری حد تک سرایت کرگئے تھے۔
وہ ایک عبادت گذار اور کفایت شعار شخصیت رکھتے تھے، اپنے درون خانہ بھی آپ نے اسلامی تربیت کا خصوصی خیال رکھا، مالی دیانت اور معاملات میں شفافیت کے وہ آخری حد تک پابند رہے۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ جب بھٹکل میں مقیم ہوئے تو آپ نے خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کے جنرل سکریٹری اور پھر سرپرست کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، وہ جماعت اسلامی ہند کے امیر حلقہ بھی منتخب ہوئے، لیکن جب اپنے وابستہ حلقے میں انہیں بے ضابطگیوں کا احساس ہوا تو انہوں نے جماعت کے نظم سے مکمل علحدگی اختیار کی، اسی دوران آپ نے اپنے ذاتی صرفہ اور کوششوں سے اپنے پاس محفوظ صوتی اور مرئی ذخیرے کی اشاعت کے لئے ایک چینل بھی شروع کیا۔ اب وہ اپنی رائے میں کہاں تک درست تھے اس کا فیصلہ کرنا ہماری ذمہ داری نہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ایک صاف وشفاف شخصیت کے مالک تھے، ایک ایسی شخصیت جن کا وجود تحریکات کی بقا کا ضامن ہوتا ہے، اور طوفان باد وباراں کیسا ہی ہو وہ ان تحریکات کا قدم آگے ہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
جس نظم سے ہم ۱۹۸۰ء کے عشرے میں آپ کے ساتھ وابستہ تھے، اس رفاقت کے چھوٹنے کو انہوں نے ہمیشہ محسوس کیا، لیکن آپ سے ہمارے ذاتی تعلقات میں اس دوران کوئی فرق نہیں آیا، اب جب کہ وہ دائمی سفر پر روانہ ہوچکے ہیں، گاہے بہ گاہے ان کی یاد آتی رہے گی، اور دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھتے رہیں گے،اور ایک داعی اور کارکن کا جو اعلی نمونہ ہماری نظروں سے گذرا ہے اسے آنکھیں تلاش کرتی رہیں گی۔ اللہ آپ کی مغفرت کرے، اور جنت کے اعلی مقامات میں انہیں جگہ دے۔ آمین۔
2023-10-28
https://bhatkallys.com/articles/?author=abdul-mateen-muniri

Читать полностью…

علم و کتاب

*محمد میراں سعدا۔۔۔ ایک مخلص داعی اور کارکن*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

۱۱/ اکتوبر کی صبح ویلفیر اسپتال میں جناب محمد میراں سعدا سے ملنا ہوا تھا،اس وقت وہ مکمل طور پر ہوش وحواس میں تھے، وہ ہمیں بتارہے تھے کہ ڈینگو بخار آکر چلا گیا ہے، اب بخار کے بعد کی کچھ کمزوری باقی رہ گئی ہے، ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائے گی، ان کی باتوں سے کہیں سے بھی معلوم نہیں ہورہا تھا کہ موت ان کے اتنے قریب آگئی ہے، اور وہ ہم سے اتنی جلد ہمیشہ کے لئے رخصت ہونے والے ہیں،اس دوران ہمارا چار پانچ روز دہلی واطراف کا سفر ہوا، واپسی پر معلوم ہوا کہ منگلور اسپتال میں داخل کئے گئے ہیں، ابھی ملاقات کے لئے جانے کا ارادہ بن ہی پارہا تھا کہ ۲۳ اکتوبر کی صبح اس خبر پرآنکھ کھلی کہ میراں سعدا صاحب اب ہم میں نہ رہے، وہ اس آخری سفر پر روانہ ہوگئے تھے، جہاں سے کوئی اس دنیا میں واپس نہیں لوٹتا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ نے اس دار فانی میں عمر عزیز کی ( ۷۸) بہاریں دیکھیں۔
میراں صاحب سے ہمارے تعلقات (۴۳ ) سال پر محیط تھے۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات دبی میں سنہ ۱۹۷۹ء میں ہوئی تھی، جب ہمارا تلاش معاش کے لئے وہاں جانا ہوا تھا، اس وقت وہ راشد اسپتال دبی میں فائلنگ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ تھے، خوش پوشاک اور خوش اندام، وہ اپنی عمر سے بہت کم نظر آتے تھے،اس زمانے میں ان کے ایک اور عزیز محمد قاسم سعدا مرحوم بھی انہی کے شعبے وا بستہ تھے، اور یہ دنوں دوست سے زیادہ اپنی وضع قطع میں بھائی لگتے تھے۔ دونوں دعوتی اور فکری مزاج کے مالک تھے۔
یہ دبی میں ہمارے مشفق صدیق محمد جعفری مرحوم کا دور شباب تھا، اس وقت برصغیر کے دینی و سماجی حلقوں میں آپ کی بڑی دھوم تھی، آپ کے تعلقات کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا، جعفری صاحب کے تعلقات دبی اوقاف کے سابق ڈائرکٹر جنرل شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم سے بڑے گہرے تھے، جنہوں نے اردو دانوں میں مختلف دینی دعوتی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے مدرسہ احمدیہ ، الراس دبی کی پرانی عمارت میں آپ کی فرمائش پر ایک کمرہ مخصوص کر دیا تھا،جس میں ایک دارالمطالعہ قائم کیا گیا تھا، جہاں روزانہ انقلاب بمبئی، جسارت کراچی اور خلیج ٹائمز وغیرہ اخبارات آتے تھے، اور علاقے کے بھٹکلی اور دوسرے اردو داں حضرات استفادے کے لئے یہاں آتے تھے، یہاں ہفتہ وار درس قرآن واجتماعات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اور کتابوں کی ایک لائبریری بھی تھی، اس نظم کو جمعیت تربیت اسلامی کا نام دیا گیا تھا۔
ابتدائی دنوں میں ہمارا قیام بر دبی میں جعفری صاحب کے اسٹاف روم میں ہی میں تھا،انہوں ہی نے شیخ عبد الجبار الماجد سے ہماری ویزا کا بندوبست کیا تھا، اس طرح جعفری صاحب کے ذریعہ اس حلقے سےہمارے تعلقات استوار قائم ہوگئے، اور یہ تعلق ۱۹۸۸ء تک قائم رہا، اور جب ہم نے محسوس کیا کہ اپنی جدو جہد کو کسی مخصوص نظریاتی حلقے تک محدود کرنے کے بجائے اسے عمومی ہونا چاہئے تو پھر اس نظم سے ہم نے علحدگی اختیار کی۔
لیکن میراں صاحب اور دوسرے بعض احباب سے ذاتی تعلقات باقی رہے، وطن حاضری پر ان سے ملاقات کا سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹنے پایا۔
یہاں یہ بتانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دبی آنے سے پہلےہماری زندگی کے پانچ سال جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس میں گذرے ، اس دوران مصر وغیرہ سے ایسے مجلات آتے تھے جن میں چوٹی کے عرب خطیبوں کے کیسٹوں کے اشتہار ہوتے تھے،ہماری خواہش ہوتی تھی کہ اس قسم کا کوئی سلسلہ اردو میں بھی ہونا چاہئے، ۱۹۷۶ء میں حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد پر چار بیانات ہوئے تھے، جنہیں ریکارڈ کرنے اور ان میں سے مکتب جامعہ کے سنگ بنیاد کے بیان کو تحریر کی شکل میں لاکر اسے اخبارات میں دینے کا شرف اس ناچیز کوحاصل ہوا تھا،پھر دبی آنے کے بعد یہاں کے بعض ایسے دینی مراکز میں جانے کا موقعہ ملا ، جن سے عرب نوجوان وابستہ تھے،اور یہاں سے ہر ہفتہ ہزاروں تقاریر کے کیسٹ ریکارڈ ہوکر تقسیم ہوتے تھے، اس سے اس تمنا کو مزید مہمیز ملی، اور ہم نے میراں صاحب سے اس کا تذکرہ کیا اور ہمارے درمیان طے پایا کہ دینی وعلمی مجالس کی حصولیابی، ان کی ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ کی ذمہ داری اس ناچیز کی ہوگی، البتہ مارکیٹنگ اور پھیلانے کی ذمہ داری ہم سے ممکن نہیں ہوگی، تو آپ نے ہمت دلائی کہ یہ دوسرا کام میں اپنے ذمہ لیتا ہوں، اس طرح پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے نام سے دینی وادبی اردو کیسٹوں کے سلسلے کا ۱۹۸۰ء میں آغاز ہوا،چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا، اور ہمارے پاس مواد کی کمی تھی، لہذا *ہم نے اس زمانے میں دنیا بھر کی شخصیات اور اداروں سے مراسلت شروع کی، مولانا قاری محمد طیبؒ اور مولانا سید ابو الحسن ندویؒ جیسی شخصیات کوان کی ریکارڈنگس کی فراہمی کے لئے خطوط لکھے، اس سلسلے میں خصوصیت سے ندوۃ العلماء لکھنو سے مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ سے بڑی ہمت افزائی اور تعاون ملا*، مولانا خلیل احمد حامدیؒ مدیر ادارہ معارف

Читать полностью…

علم و کتاب

میں اُسے اس مختصر ملاقات میں یہ تو نہیں سمجھا سکا تھا کہ اجتہاد کسی صوابدیدی اختیار کا نہیں، بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں کسی مسئلے کا حل نکالنے کے لیے علمی کاوش کا نام ہے اور اس کے کچھ اصول و قواعد ہیں جن کے دائرے میں رہ کر ہی اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس قسم کی بحث اُس کے سر کے اوپر سے گزر جائے گی اور میں اُسے مزید کنفیوژ کردوں گا۔ اس لیے میں نے اسی کی ذہنی سطح پر اُس سے بات کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور یہ کہاکہ برخوردار! میں اس مسئلے میں ففٹی ففٹی اجتہاد کرسکتا ہوں۔ اس طرح کہ عصر کی جو نماز آپ مغرب کے ساتھ پڑھتے ہیں، مجبوری کے درجے میں اس کی اجازت دے سکتا ہوں کہ قضا ہوگی لیکن نماز ہوجائے گی، مگر ظہر کی نماز پیشگی فجر کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس لیے میرا مشورہ ہے کہ اگر اس درجے کی مجبوری ہے تو عصر کے ساتھ ظہر کی نماز بھی مغرب کے وقت میں پڑھ لیا کرو کہ دونوں نمازیں قضا کی صورت میں ہوں گی، لیکن نماز ہوجائے گی، اور اس کے ساتھ ساتھ کوشش کرتے رہو کہ تمہیں دفتری اوقات کے دوران نماز پڑھنے کی اجازت مل جائے یا کوئی ایسی متبادل ملازمت مل جائے کہ تم یہ نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرسکو۔


یہ مغربی دنیا کے ماحول میں ایک ایسے مسلم نوجوان کی پرابلم تھی جو نماز پابندی سے پڑھنا چاہتا تھا اور اس سلسلے میں درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہا تھا، ورنہ عام طور پر اس طرح کی مشکل دیکھ کر بہت سے لوگ نماز ہی ترک کردیتے ہیں، اور صرف نماز کا مسئلہ نہیں بلکہ عبادات و فرائض، حلال و حرام اور تعلقات و معاملات کے بیسیوں پہلو ایسے ہیں جن میں روزمرہ ضروریات کے ساتھ شرعی احکام کو ملحوظ رکھنا مشکل دکھائی دیتا ہے، تو مشکل کا حل تلاش کرنے کی تگ و دو کے بجائے سرے سے شرعی احکام کی پابندی چھوڑ دی جاتی ہے، اور یہی رویہ بتدریج دین سے انحراف اور ایک دو نسلوں کے بعد اسلام سے لاتعلقی کی باعث بن جاتا ہے۔ مجھے برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جاتے ہوئے ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ کم و بیش ہر سال جانے کا اتفاق ہوتا ہے، ہفتوں وہاں رہتا ہوں، مختلف شہروں میں گھومتا پھرتا ہوں، دینی اجتماعات اور مسلمان بھائیوں کی تقریبات میں شریک ہوتا ہوں، دینی مدارس کے مشاورتی اجتماعات میں بھی شرکت کرتا ہوں، اور اس طرح مجھے مسلمانوں کے حالات و واقعات سے براہِ راست واقفیت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ صحیح دینی راہ نمائی میسر نہ ہونے اور دین سے لاتعلق ہوتے چلے جانے کے نتائج خاص طور پر امریکہ میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

نگارشات یہ ہیں:

’’مغرب کے مسلمانوں کا دینی تشخص: چند اہم پہلو‘‘، ’’مغرب میں مقیم مسلمانوں کے لیے دینی لائحہ عمل‘‘، ’’مغربی ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسل کا مستقبل‘‘، ’’شرعی قوانین اور برطانیہ کا قانونی نظام‘‘، ’’شریعہ بورڈ آف امریکہ‘‘، ’’برطانوی مسلمان اور مسٹر ڈیوڈ کیمرون کے خیالات‘‘، ’’جبری شادیاں اور برطانیہ کی مسلم کمیونٹی‘‘، ’’مغربی معاشرے میں دعوت و مکالمہ کے امکانات‘‘، ’’مغربی ممالک میں اصلاحِ معاشرہ اور مسلمانوں کی ذمہ داری‘‘، ’’برطانیہ میں مسلم فرقہ واریت کے اثرات‘‘، ’’مسلمانوں کے باہمی اختلافات: ایک نومسلم کے تاثرات‘‘، ’’امریکہ میں رویتِ ہلال کا مسئلہ‘‘، ’’برطانیہ میں مساجد کا نظام: چند اصلاح طلب پہلو‘‘، ’’مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم‘‘، ’’مغربی معاشرے میں دینی تعلیم‘‘، ’’دینی مدارس کا تعلیمی نصاب: چند ناگزیر جدید تقاضے‘‘، ’’مسلمان ملکوں پر مغربی طاقتوں کی فوج کشی‘‘، ’’مغربی ممالک کی پالیسیاں اور مسلمانوں کا ردعمل‘‘، ’’نائن الیون: لندن میں علما کا مشترکہ اعلامیہ‘‘، ’’نائن الیون کے برطانوی مسلمانوں پر اثرات‘‘، ’’فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت‘‘، ’’مسلم خواتین، حجاب اور ردعمل‘‘، ’’امریکی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردارکشی‘‘، ’’اسلام اور شہری حقوق و فرائض غیر مسلم معاشرے کے تناظر میں‘‘

خطبات: ’’امریکہ میں لکڑ ہضم، پتھر ہضم معاشرہ‘‘، ’’امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے چند گزارشات‘‘، ’’مسلم پرسنل لا اور موجودہ عالمی صورتِ حال‘‘، ’’بچیوں کی تعلیم اور نصابِ تعلیم‘‘، ’’عصرِ حاضر کے چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں‘‘، ’’فکری بیداری کے مختلف دائرے اور ہماری ذمہ داری‘‘، ’’دورِ جدید کے فکری تقاضے اور علمائے کرام‘‘، ’’انسانی حقوق کا چارٹر اور مسلماوں کے تحفظات‘‘، ’’نفاذِ شریعت اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمان‘‘

مولانا زاہد الراشدی نے اپنی کتاب میں دیگر اپنے ہم عصر اہلِ علم کو بھی اس جانب متوجہ کیا ہے کہ وہ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات کا خالصتاً علمی اور تہذیبی بنیادوں پر جائزہ لیں۔ قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں ان کا حل تلاش کریں اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی علمی و فکری راہ نمائی کریں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
کلام وآواز: سید اقبال عظیم
پیشکش اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=mana-keh-zindagi-say-hamay-kuchh-mila-bhi-hai, Mana Keh Zindagi Say Hamay Kuchh Mila Bhi Hai
شاعر کی آواز میں مزید کلام
https://audio.bhatkallys.com/speakers/iqbal-azeem/
لنک اردوآڈیو موبائل ایپ
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.bhatkallys.urduaudio

Читать полностью…

علم و کتاب

ہماری بے بسی
از مولانا عبد الماجددریابادیؒ
(محور بدلتے رہتے ہیں! حالات کا جائے وقوع کچھ بھی ہو! ترمیم و تنسیخ زمانے سے مرہون منت ہے!دریابادی ؒ کی یہ تحریر آج بھی داغ ہائے سینہ کو تازہ کر رہی ہے۔ اقصیٰ اور اہل اقصیٰ ، کلمہ گو عرش کے بعد فرش سے بھی اپنے حقوق کا مطالبہ رکھنے میں حق بجانب ہیں ! کاش غفلت کی قید سے آزاد ہوکر ہم حسب استطاعت اپنے فرائض مذہبی سے رجوع ہوں ۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ زبیر احمدصدیقی)
مسلمان اس وقت صرف ہندوستان ہی میں نہیں، دنیا کے بہت سے مختلف حصوں میں آباد ہیں ، لیکن کسی ایک مقام پر بھی پوری طرح آزاد ہیں ؟
"مصر و سوڈان، جاوا وسماترا ، ٹیونس و طرابلس، الجیریا و مراکش ، یف و قفقاز ، عراق و شام ، ان میں سے کون سا ملک ایسا ہے، جہاں ہمارے ہم مذہب ہماری شریعت پر ایمان رکھنے والے، ہمارے قرآن کو کلام الہی ماننے والے، ہمارے رسولؑ کا کلمہ پڑھنے والے، بہت بڑی تعداد میں آباد نہ ہوں، لیکن ان میں سے کہیں بھی وہ آزاد و خود مختار ہیں؟ اٹلی و ہالینڈ، روس و اسپین، انگلستان و فرانس کے اثر و اقتدار سے کہیں بھی مفر ہے؟ روس کا اقتدار تو الحمدللہ اب رخصت ہو رہا ہے، اور بڑی حد تک رخصت ہو چکا ہے، لیکن اسپین ہالینڈ، اور اٹلی اب تک لاکھوں کروروں مسلمانوں کو اپنے زیر فرمان رکھے ہوئے ہیں۔ اور انگلستان و فرانس (پھر ان میں بھی علی الخصوص (انگلستان) کلہ گویان اسلام کو جس بڑی تعداد میں اپنی غلامی میں رکھے ہوئے ہے، اس کی مثال اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں تو کہیں نہیں ملتی۔
پھراُن مالک کو لیجیے، جنھیں آپ آزاد اسلامی حکومتیں کہتے ہیں، مثلا ایران، بخارا، افغانستان اورٹر کی ، کیا وہ بھی پوری طرح آزاد ہیں؟ کیا وہ غیر مسلموں کے اثر و دائرہ ٔ اقتدار سے باہر ہیں؟ کیا وہ ہر معاملہ میں شریعت اسلامی کے نفاذ پر پوری طرح قادر ہیں؟ کیا وہ اپنے بیرونی بھائیوں کی مدد و دستگیری کی قوت رکھتے ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے ، تو کیا ان آزاد و خود مختار حکومتوں کی اس بے دست و پائی اور اس بیچارگی بے اختیاری پر آپ کادل نہیں کڑھتا؟
سب سے بڑھ کر عبرتناک حال اس سر زمین کا ہے، جوہمارے عقیدہ میں گویا عرش الہی کے ہمسایہ ہے۔ وہ خطہ زمین جہاں خدا کے دوستؑ نے آج سے ہزار ہا سال قبل خالص اُسی خدائے واحد کی یاد و پرستش کے لیے، خود معمار بن کہ ایک گھر تعمیر کیا تھا، وہ ارض مقدس جس کے ایک گھرکی طرف ہم سب نمازہ پڑھتے وقت منہ کر لینے پرمجبور ہیں، وہ خاک پاک ، جہاں خدا کے سب سے زیادہ محبوب و برگزیدہ بندہ کا جسد اطہر آسودہ ہے، وہ ملک جہاں اسلام پیدا ہوا، جہاں سے اسلام پھیلا، اور جہاں آج مسلمانان عالم کی سب سے زیادہ قابل قدر یادگاریں محفوظ و مدفون ہیں، خود اُس ملک کا کیا حال ہے؟ کیا شریعت معزول انگریزی اثر سے آزاد ہو کر کوئی بھی کارروائی کر سکتے تھے؟ کیا اب جو ایک مخلص مسلمان (سلطان نجد) حجاز پر آزاد اسلامی حکومت قائم کرانے کی فکر میں ہے، اس کی کوششوں کو مغربی طاقتیں اپنے امکان بھربارور ہونے دیں گی ؟
اسلام، محض مسلمانان ہند کے مرادف تو نہیں۔ اسلامی آبادی میں توتمام دنیا کے مسلمان داخل ہیں، خواہ کسی ملک میں آباد ہوں۔ پھر کیا اس کھلی ہوئی حقیقت کے ماننے میں کسی کو تامل ہو سکتا ہے، کہ ساری دنیا کے مسلمان اس وقت مغربی طاقتوں کی براہ راست یا بالواسطہ غلامی میں ہیں، اور ان طاقتوں میں درجہ اول کی طاقت برطانیہ ہے؟ جب یہ واقعہ روز روشن کی طرح مسلم ہے، اور اس میں کسی بحث و اختلاف کی گنجایش ہی نہیں، تو یہ کیا خدا کاغضب ہے ، کہ آپ ساری قوت کا مرکز اسی بڑی غلامی سے کوشش آزادی کو نہیں بناتے! یہ کیسا اندھیر ہے، کہ آپ اس سب سے اہم ضرورت سے غافل ہو کر اپنی توجہ کوبعض بہت چھوٹی ضرور توں کی جانب پھیرے ہوئے ہیں! ذرا اپنے دل میں غور فرمائیے ، کہ یہ وقت مسلمانان عالم کی آزادی میں مدد دینے اور خانۂ خدا و دیاررسولؑ کو غیر مسلموں کے اقتدار سے چھڑانے کا ہے، یا آپس کے فروعی اختلافات میں قوت
منتشر کرنے کا ؟
اس موقع پر ہمارے بعض بھائی بول اٹھیں گے ، کہ ابھی تو ہندووں سے فیصلہ کرنا ، اور اُن کی زیادتیوں کا جواب دینا باقی ہے ، اس سے فرصت ہولے، تو بیرونی مخالفت سے بھی مقابلہ کیا جائے گا ۔ لیکن ذرا غور کرنے سے اس خیال کی غلطی خودروشن ہو جائے گی ۔ اول تو اس وقت معاملہ تنہا ہندوستانی مسلمانوں کا نہیں ، مسلمانان عالم کا ہے ۔ ہندووں سے جو کچھ سابقہ ہے، اسی ہندوستان کے اندر محد ود ہے ، باقی دنیا کی اور تمام اسلامی آبادی کی آزادی کون سلب کیے ہوئے ہے ؟ مصر وسوڈان کے مسلمان اگر غلام ہیں، تو اس میں ہندوؤں کا کیا قصور ہے ؟ جاوا سماترا کے مسلمانو ں کی آزادی ہندووں نے کب سلب کی ہے ؟ حجازو عراق پر ہندووں نے کب قبضہ جمایا ہے ؟ حرمین شریفین کی طرف ہندووں نے کب آنکھ اٹھا کر دیکھا ہے؟ پھر جس قوت کی وجہ سے مسلمانان عالم کی آزادی خطرہ میں ہے، اُسے

Читать полностью…

علم و کتاب

Follow this link to join my WhatsApp community: https://chat.whatsapp.com/GgHfHWPT3FzGQG4YWCkZ10

Читать полностью…

علم و کتاب

*تعارف علم وکتاب گروپ*
*بیان: مولوی عبد المتین منیری*
چھٹمل پور میں ہوئے پروگرام میں ہوا محاضرہ
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=introduction-ilm-o-kitab-group, Introduction Ilm O Kitab Group

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلام کی آمد ہوئی تو اہلِ فارس غلامی کی اُن زنجیروں سے آزاد ہوگئے جن میں اُس وقت کے ظالم بادشاہوں نے اپنی رعایا کو جکڑ رکھا تھا۔ مسلم فاتحین نے مفتوحین کو اُن کی زمینوں سے بے دخل نہیں کیا۔ اُن کی املاک پر قبضہ نہیں کیا۔ عدل و انصاف کا نظام قائم کیا۔ تمام انسان مساوی ہوگئے۔ حاکم و محکوم کے حقوق میں کوئی فرق نہ رہا۔ سب یکساں طور پر ایک اللہ کے بندے قرار پائے۔ نتیجہ یہ کہ مساجد آباد ہوئیں اور آتش کدے ویران ہونے لگے۔ ساسانی زمانے کے بچے کھچے آتش پرست زیرِ زمین چلے گئے۔ ان کی طاقت ٹوٹ چکی تھی۔ اب اُن کے پاس اس کے سوا کوئی کام نہیں رہ گیا تھا کہ کسی تہ خانے میں بیٹھ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ تدابیر اور سرگوشیاں کرتے رہیں۔ شراب پینا، رکھنا اور بیچنا (شرعاً و قانوناً) ممنوع قرار پایا تو مے خانے بھی تہ خانے میں چلے گئے۔ وہاں آتش کدے کے مُغ، مُغاں اور پیرِ مُغاں پہلے سے موجود تھے۔ سو،آتش کدے کے مغوں کے القاب مزاحاً مے کدے کے ساقیوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگے۔

تہ خانے میں مجوسی و مے خوار یکجا بلکہ یکجان ہوئے تو رندانہ شاعری میں شیخ اور زاہد پر لعن طعن کی روایت بھی پڑی۔ پھر یہی روایت اُردو شاعری میں در آئی۔ میرؔ کہتے ہیں:

تھے بُرے مُغبچوں کے تیور لیکر
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا

شیخ کو تواپنے بھلے کے لیے کھسکنا ہی تھا۔ بھلا دیکھیے تو سہی کہ میرؔ صاحب کے مغبچوں نے اِن علامہ زاہد کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا تھا:

مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا
اِک مُغبچہ اُتار کے عمامہ لے گیا

مجوسیوں کا مجاور تو شاید اب بھی مُغ ہی کہلاتا ہو۔مگر’مُغ بچہ‘ جو پروہتوں کی خدمت پر مامور کیا جانے والالڑکا تھا، اب ساقی کا خادم ہو گیا۔گاہکوں کو شراب پلانے والے خوب صورت کم عمر لڑکے ’مُغ بچے‘ کہے جانے لگے۔اسیرؔ کو شراب سے زیادہ لگاؤ اُنھیں سے تھا:

مُغ بچے دُخترِ رِز سے ہیں لگاوٹ میں سوا
تاکتے رہتے ہیں یہ میکدے والے دل کو

’دُخترِ رِز‘ انگور کی بیٹی یعنی شراب کو کہتے ہیں۔اکبرؔ الٰہ آبادی، اس بے کہی بیٹی کے شر سے سب کی خیر مناتے ہوئے،فرماتے ہیں:

اُس کی بیٹی نے اُٹھا رکھی ہے دُنیا سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا

ایمرجنسی کے زمانے میں خان آصف مرحوم نے دوسرے مصرعے میں انگور کی جگہ ’نہروجی‘ لکھ دیا تھا۔کیا غضب کیا تھا!
https://bhatkallys.com/articles/?author=ahmed-hatib-siddiqui

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت مولانا مفتی محمد عفان منصور پوری دامت برکاتہم
شیخ الحدیث جامع مسجد امروہہ کا مورخہ ۱۶ اکتوبر ۲۰۲۳ء
چھٹمل پور ( اتر پردیش) میں علم وکتاب گروپ کے ممبران سے ہوا خطاب
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=ilm-o-kitab-kay-nam, Ilm O Kitab Kay nam

Читать полностью…

علم و کتاب

حوالہ سے ناصحانہ کلمات ارشاد فرمائے ، حضرت مولانا کی دعاء پر مجلس بحسن و خوبی اختتام پذیر ھوئی ۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

علم وکتاب حلقے کے مدیرِ محترم جناب مولانا عبدالمتین منیری زیدمجدہ کے حوالے سے استاذِ محترم حضرت مولانا سلمان بجنوری زیدمجدہ استاذِ دارالعلوم / دیوبند کے زریں کلمات۔ اللہ تعالیٰ دونوں بزرگوں کو سلامت رکھے۔ اس وقت مولانا منیری صاحب کا ایک اہم سفر مفتی ساجد صاحب کھجناوری کی زیرِ امارت مغربی یوپی کا جاری ہے، اللہ اس سفر کو بارآور فرمائے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

پروفیسر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن علی گڑھ کی اردو تفاسیر پر چند اہم کتابیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

یہ بیس منٹ کی گفتگو ہے جو دو ماہ قبل بنجمن نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کی ہے۔ اس میں اس نے اسرائیل فلسطین قضیے کے ضمن میں اپنا پورا بیانیہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حریف کا بیانیہ ویسے بھی علم میں ہونا چاہیے، لیکن یہاں اس کی اہمیت اس پہلو سے بھی ہے کہ یہ بیانیہ عالمی آڈیئنس کو کیسے متاثر کرتا ہے۔

نیتن یاہو کے استدلالی مقدمات کو ترتیب سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

1۔ اس قضیے کی اصل جڑ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک یہودی ریاست کا وجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا یہ موقف اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی، 67 کی جنگ سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی۔ اس لیے ریاست کی حدود کا تعین اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہودی ریاست کے وجود کو قبول نہ کرنا ہے۔

2۔ فلسطینیوں کا داخلی اختلاف صرف اس حوالے سے ہے کہ اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے یا سیاسی حکمت عملی سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔ حماس پہلے طریقے کی اور باقی فلسطینی دوسرے طریقے کے قائل ہیں، لیکن بنیادی مقصد دونوں کا ایک ہے۔

3۔ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اس لیے قابل عمل نہیں کہ فلسطینی اس ریاست کو مرکز بنا کر اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل نے جب غزہ کا علاقہ خالی کر دیا تو حماس نے اقتصادی ترقی اور امن پر توجہ دینے کے بجائے غزہ کو اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا۔ (یہی کچھ لبنان کا علاقہ خالی کرنے کے بعد ہوا جہاں حزب اللہ نے قبضہ کر لیا جو اسرائیل کو نقشے سے مٹانا چاہتی ہے)۔

4۔ اسرائیل جو بھی علاقہ خالی کرتا ہے، وہاں سے اسے جواب میں امن کے بجائے تشدد ہی ملتا ہے۔ اس لیے آزاد فلسطینی ریاست جیسے ہی قائم ہوگی، وہ ایران کی ایک پراکسی قوت بن جائے گی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے کام کرنا شروع کر دے گی۔ پس دریائے اردن اور بحر متوسط کے درمیان واقع اس چھوٹے سے علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

5۔ یہودیوں اور عربوں کو یہیں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہوگا۔ علاقے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس رہے گی۔ فلسطینیوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے، لیکن مکمل خود مختاری نہیں دی جا سکتی جس سے وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس لیے پورے علاقے کی سیکیورٹی کا بندوبست اسرائیل کے ہاتھوں میں رہنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل قابل عمل نہیں۔

6۔ جو یہودی آبادیاں 1967 کے بعد تعمیر ہو چکی ہیں، ان کو گرایا نہیں جا سکتا۔ یہ ناقابل عمل ہے۔ یہ بڑے بڑے رہائشی بلاک ہیں جن پر کثیر سرمایہ صرف ہوا ہے اور کوئی بھی ہوشمند شخص یہ نہیں سمجھتا کہ کسی حل تک پہنچنے کے لیے ان کو گرانا ضروری ہے۔ جیسے اسرائیل کے شہروں میں عرب یہودیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، اسی طرح عربوں کے علاقے میں یہودی بھی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

7۔ اب تک عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے جا سکتے۔ میری سوچ اس کے بالکل الٹ ہے۔ میں نے کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب ہوا ہوں کہ عرب دنیا کے ساتھ تعلقات بنائے بغیر فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی، عرب دنیا کا 2 فیصد ہیں۔ بجائے اس کے کہ 98 فیصد سے تعلقات کو 2 فیصد کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے، براہ راست 98 فیصد عرب دنیا سے رابطے استوار کرنے چاہییں۔

8۔ ابراہیمی معاہدات کے ذریعے سے میں نے فلسطینیوں کو الگ رکھ کر کئی عرب حکومتوں کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کیے ہیں اور بہت بڑی کامیابی کے طور پر سعودی عرب کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ پہلے فلسطینیوں کے ساتھ امن کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ کبھی امن نہ ہو، کیونکہ فلسطینی ہمیشہ توقع کرتے رہیں گے کہ عرب دنیا کی مدد اور پشت پناہی سے وہ اسرائیل کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر عرب دنیا سے ہمارے تعلقات قائم ہو جائیں گے تو فلسطینیوں کی امید دم توڑ جائے گی اور وہ بھی اسرائیل کے ساتھ پرامن طور پر رہنا قبول کر لیں گے۔

عمار خان ناصر

https://youtu.be/oFYi0SaShuk?si=W0OX_oJ0zrQOihlz

Читать полностью…
Subscribe to a channel