ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

Follow this link to join my WhatsApp community: https://chat.whatsapp.com/GgHfHWPT3FzGQG4YWCkZ10

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا مرحوم کو کئی بار دیکھنا نصیب ہوا، دبی میں جب آئے تھے، تو تبلیغی جماعت اور معتقدین کے جھرمٹ میں رہتے تھے، ہم جیسے انہیں دور ہی سے دیکھ سکتے تھے، لیکن جب مولانا محمد غزالی خطیبی صاحب کی رحلت کے بعد بنگلور سے خاص طور پر آٹھ نو گھنٹے کا سفر طے کرکے صرف تعزیت کے ارادے سے بھٹکل تشریف لائے تو محسوس ہوا کہ یہ کتنے بڑے ظرف کے لوگ ہیں، اعلی خاندانی روایات کی پاسداری ان کے رگ وپے میں کتنی رچی بسی ہوئی ہے، حضرت مولانا زبیر الحسن بن حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ آپ کے یار غار تھے،دونوں کی اٹھان ایک ساتھ ہوئی تھی، دونوں ایک دوسرے کے برادر نسبی اور بہنوی تھے، اور سمدھی بھی، مولانا غزالی صاحب نے مولانا زبیر الحسن کے ساتھ مرکز نظام الدین میں ایک ساتھ تین عشروں سے زیادہ عرصہ گذاراتھا، اس نسبت کے ساتھ ذاتی روابط انہیں اتنا طویل سفر کرکے بھٹکل کھینچ لائے تھے۔
مولانا سید محمد شاہد صاحب سے مختصر سی ملاقات میں محسوس ہوا کہ اختلاف اور مخالفت کا جو باریک فرق عموما ہمارے حلقوں میں مفقود ہوتا جارہا ہے، یہ فرق آپ کے یہاں بہ اتم پایا جاتا تھا، کسی مصنف کی کتاب عام ہوجائے، تو اس سے اختلاف اور تنقید کبھی کبھار ایک فرض منصبی بن جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اختلاف دشمنی اور اس مصنف سے محبت کرنے والوں سے نفرت کا ذریعہ نہ بنے، اور بلا ضرورت ان تمام قابل اعتراض باتوں کو ان مصنفین سے کسی وجہ سے محبت کرنے والوں پر چسپان نہ کیا جائے،اور ملنے جلنے کی راہوں کو مسدود نہ کیا جائے تو یہ بھی ایک اہم ضرورت بن جاتے ہے، مولانا شاہد صاحب کی باتوں سے ان نزاکتوں کی جان کاری کا ااحساس ہوا ،یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی باتوں میں تکلف اور تصنع کی گنجائش نہیں پائی جاتی تھی ، ان کا ظاہر وباطن ایک محسوس ہوتا تھا ، تحریک آزادی میں علمائ مظاہر علوم کے کردار پر ان کی کتاب کے سلسلے میں بڑی بے تکلفی سے وہ بیان کررہے تھے کہ اس کے رسم اجراء میں سبھی مکاتب فکر کے علماء کو دعوت دی گئی تھی، جماعت اسلامی کے لوگ بھی آئے تھے، مولانا رفیق احمد قاسمی مرحوم نے بھی اسٹیج پر آکر بڑی اچھی تقریر کی تھی۔مولانا نے تو نہیں کہا لیکن ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ نہ صرف ہماری بعض دینی جماعتیں، بلکہ ہمارے اہل علم بھی بہت دفعہ اس بات کا ادراک نہیں کر پاتے کہ مسلمانوں کا سواد اعظم چاہئے وہ عوام الناس پر مشتمل ہو چاہے دانشوروں پر، دینی امور میں مرجعیت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں وہ کسی روایتی دارالعلوم کے فارغ التحصیل، اور مستند علماء ، مسجد و مدرسے سے وابستہ شخصیت ہی کی قبول کرتاہے، یہ بات صرف برصغیر تک محدود نہیں ہے، بلکہ سعودی عرب ، عراق و شام ، مراکش، مصر، سوڈان وغیرہ اسلامی ممالک میں یہی صورت حال ہے، صحافت ، میڈیا اور کتابوں میں جو بھی مشہور نام ہوں ، زمینی حقیقت تو یہی ہے محلوں محلوں او ردیہاتوں میں انہی کا ڈنکا بجتا ہے، آپ جامع ازہرمیں لاکھ نقص نکالیں، مصر کے عوام کی جذباتی وابستگی ابتک اس ادارے سے نہیں ٹوٹی، اس کا تقدس ابتک دلوں میں باقی ہے، آج بھی وہاں کوئی دینی تحریک اس ادارے سے وابستہ نہ ہو، عامۃ الناس اور دانشوروں میں اس کی پذیرائی نہیں ہوپاتی، چاہے آپ اپنے چند چاہنے والوں کی زبان پر یا اخبارات ورسائل پر مقبولیت کی بھی کہانیاں سنیں، اس وقت برصغیر میں بھی کئی ایک تنظمیں اسلام اور مسلمانوں کی قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں، لیکن سواد اعظم میں مستند مانے جانے والے دینی تعلیمی اداروں سے قیادت کے روابط اور وابستگی میں کمی اور ان میں مسجد ومحراب کو سنبھالنے والی شخضیات کے فقدان کی وجہ سے وہ نہیں کرپارہی ہیں جن کی انجام دہی کا وہ خواب دیکھا کرتی ہیں۔
حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کی یاد انہیں دیکھنے والوں کو بہت آئے گی، وہ خوش قسمت تھے جو اپنے پیچھے انہیں یاد رکھنے کے لئے بہت سا راقیمتی سرمایہ چھوڑ گئے، انہوں نے اپنے پیچھے ذریت صالحہ بھی چھوڑی، جو ان کے مشن کو ان شاء اللہ آگے بڑھائے گی، آپ کے جانشین مولانا سید محمد صالح صاحب سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ وہ شبل میں ذلک الاسد کے مصداق ثابت ہونگے، اور چراغ سے چراغ جلتا رہے گا، اور نسلہا نسل تک اس خانوادے کے فیوضات سے دنیا رہنمائی پاتے رہے گی، اللہ تعالی آپ کے درجات بلند کرے، رہے نام اللہ کا، وہی باقی اور دائم ہے۔
2023-10-10
https://bhatkallys.com/articles/?author=abdul-mateen-muniri

Читать полностью…

علم و کتاب

دسمبر ۲۰۱۹ء میں اس ناچیزکا ایک سفر ہوا تھا، جس میں ہمارے مشفق مولانا مفتی ساجد کھنجاوری مدیر صدائے گنگوہ و قدیم استاد جامعہ اشرف العلوم گنگوہ کی رہنمائی میں سہارنپور، دیوبند، گنگوہ، رائے پور، کاندھلہ، تھانہ بھون، جلال آباد ، کیرانہ وغیرہ کو ایک اچٹتی نظر سے دیکھنا نصیب ہوا، یہ وہ علاقہ ہے جس کی خاک نے برصغیر کی عظیم روحانی ہستیوں کو اپنی بانہوں میں چھپالیا ہے، اور یہاں کا چپہ چپہ ایک باشعور مسلمان کو دعوت دیتا ہے کہ اپنی دینی روح کو تازہ کرنے کے لئے ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا رہے، اس سفر کا مقصد یہ بھی تھا کہ ایک گوشہ نشیں کو علم وکتاب گروپ کے ذریعہ یہاں پر جو چند قیمتی احباب ملے ہیں، ان سے غائبانہ تعارف کےساتھ ساتھ بالمشافہ بھی ملاقات کا بھی شرف حاصل ہو۔ اس سفرکا ماحصل قحط الرجال کے اس دور میں حضرت مولانا سید محمد شاہد حسنی رحمۃ اللہ علیہ جیسے چند گنجہائے گراں مایہ سے شرف ملاقات حاصل کرنا بھی تھا۔ مولانا سے ملنے کے بعد ایک اہم سبق ہم نے یہ سیکھا کہ کسی شخصیت کے بارے میں صرف اس کی تقریروں، کتابوں کو دیکھ کر حاصل کیا گیا تصور ہمیشہ ایک مکمل تصور نہیں ہوا کرتا، شخصیت کے بارے میں کوئی منصفانہ رائے قائم کرنے کے لئے اس سے ملنا، اس کی صحبتوں میں بیٹھنا، اس کی ذات سے فیض اٹھانا بھی ضروری ہے، تقریروں اور کتابوں سے جو تصویر ذہن میں بیٹھی ہے وہ کبھی یک طرفہ اور ناقص ہوتی ہے، دینی حمیت سے کی گئی بہت سی باتیں سن کر آپ کسی شخصیت کے اخلاق اور رویوں کے بارے میں درست رائے قائم نہیں کرسکتے، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ جسی عظیم شخصیات پر یہ بات زیادہ صادق آتی ہے، انہیں دیکھنے والے جو ان کے دیوانہ وار عاشق اور ان کی ذات پر فریفتہ ہیں، اور ان سے تعرض کرتی ہوئی کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہیں، تو اس کا بڑا سبب ان شخصیات کا وہ پہلو ہے جو آپ کو کتابوں اور تقریروں میں نہیں ملتا، یہ انہیں صرف بالمشافہ اور نزدیک سے دیکھنے والوں ہی کو نظرآتا ہے، بعض شخصیات کے جمال وجلال کے بارے میں آتا ہے کہ فوٹو گرافر کی اتاری ہوئی تصویر یں ان کا ہو بہو رنگ نہیں پیش کرسکتیں، ایک استفسار پرمفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس ناچیز سے فرمایا تھا کہ الفاظ کا دائرہ محدود ہوا کرتا ہے، اور انسان کا تاثر لامحدود، محدود الفاظ لامحدود تاثر کا احاطہ نہیں کرسکتے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ کی شخصیت کچھ ایسی ہی تھی، انہیں دیکھنے کے بعد دل پر جو تاثر بیٹھتا تھا، اسے الفاظ میں محدود کرنا محال تھا۔
اللہ تعالی نے اس ناچیز کو گزشتہ چالیس سال کے دوران بڑے بڑوں کے پروگرام رکھنے اور ان کی تقاریر کا نظم کرنے کا موقعہ دیا، ان کی ہزاروں تقریریں سننے اور انہیں نشر کرنا نصیب ہوا، جس کا مشاہدہ آپ بھٹکلیس ڈاٹ کام پر کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے ہمیشہ ہماری دلچسپی ان تقاریر کے بجائے ان اکابر کی نجی مجلسوں میں رہیِ۔ اور ہمیں اس کا فائدہ تقریروں سے بہت زیادہ محسوس ہوا، ہمارا خیال ہے کہ مولانا شاہد صاحب کی مجلسوں میں جس طرح تعلیم وتربیت اور تجربات کے موتی تقسیم ہوتے تھے، اس کے نمونے شاذ ونادر ہی پائے جاتے ہیں۔
مولانا محمد شاہد مرحوم کو ہم نے ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھا، لیکن حقیقی ملاقات ایک ہی رہی دسمبر ۲۰۱۹ءمیں ،اور حقیقت تو یہ ہے اس ایک نشست نے ابتک ملاقات سے محرومی کا احساس اور شدید کردیا۔ قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے، اس نے ایک ہی ملاقات کے بعد محرومی کا احساس زندگی بھر کے لئے لگا دیا، بڑے لوگ کہا کرتے ہیں کہ علم میں طلب کی خواہش حصول علم سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، جب کسی متلاشی کو اطمئنان ہو جاتا ہے کہ اب ضروری علم حاصل ہوگیا ہے تو پھر یہاں سے علم کا زوال شروع ہوتاہے، اور جہاں محسوس ہوا کہ ابتک جو حاصل کیا ہے وہ سمندر کا ایک قطرہ ہے تو پھر علم میں اضافہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔
یاد پڑتا ہے ہم نے مولانا محمد شاہد سہارنپوری مرحوم کا نام پہلے پہل ۱۹۷۶ء میں فتنہ مودودیت نامی ایک کتابچے پر مرتب اور محشی کی حیثیت سے دیکھا تھا، اور اس وقت ہم نے اپنی عادت کے مطابق اس کی عبارتوں کو ترجمان القرآن کی فائلوں سے موازنہ کرکے پڑھنے کی کوشش کی تھی، یہ ناتجربہ کاری اور کچی عمر کا دور تھا، شعور کو بالیدگی ابھی نہیں ملی تھی، ابھی چند روز قبل فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس سے وابستگی اختیار کی تھی، ہم خوش قسمت تھے کہ مولانا شہباز اصلاحیؒ جیسی متبحر سرد وگرم دیکھی ہوئی شخصیت کی ہم لوگوں کو سرپرستی حاصل تھی،وہ اس وقت جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے منصب اہتمام پر فائز تھے،یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مولانا شہباز اصلاحیؒ کی شخصیت کے بارے میں حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی علیہ الرحمۃ کے الفاظ پیش کئے جائیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا مملوک علی نانوتوی۔ تحریر پروفیسر محمد ایوب قادری

Читать полностью…

علم و کتاب

گروپ پر مجلات سے جن مضامین کا اشاریہ پوسٹ کیا جاتا ہے، یہ سبھی مضامین دستیاب ہیں، لیکن انہیں تلاش کرکے اپلوڈ کرنا وقت طلب کام ہے، اب کو ئی اشاریہ کے جملہ مضامیں کو تھوک میں پوسٹ کرنے کو کہتا ہے تو ہمیں محسوس ہوتا کہ اس نے فہرست کو پڑھنا بھی گوارا کئے بغیر مضامین کی ڈون لوڈنگ پر ہمیں لگا دیا ہے، ان اشاریوں سے استفادہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں پڑھیں، اور ایک وقت میں ایک مضمون کی تفصیلات کے ساتھ فرمائش کریں، ان شاء اللہ وقت نکال کر انہیں فراہم کرنے کی کوشش ہوگی، مضامین کے تعیین کے بغیر ایک ساتھ بہت سارے مضامین کی فرمائش پر توجہ دینے سے معذرت خواہ ہیں(ع۔م۔م)

Читать полностью…

علم و کتاب

اس حکم کی تعمیل میں ’عبد‘ اور ’أمۃ‘ کی جگہ مسلمانوں نے اپنے خادموں اور خادماؤں کو محبت اور پیار سے غلام اور جاریہ (لڑکا اور لڑکی) کہہ کر پکارنا شروع کردیا، جو مساواتِ نوعِ انسانی کا عملی اظہار تھا۔ بالفاظِ دیگر اِن خدمت گزاروں کو بیٹا اور بیٹی کہہ کر بلایا گیا۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو ’غلام‘ کوئی ’گھٹیا‘ لفظ نہیں ہے۔ خدّام کے لیے استعمال کیا جانے والا یہ لفظ اُس اعلیٰ اخلاقی روایت کا حصہ ہے جو اسلام نے شرفِ انسانی کو بحال کرنے کے لیے حکماً رائج کی۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں ججوں اور جاگیرداروں کے گھروں میں خدمت گاروں سے جو غیر انسانی، بہیمانہ اور وحشیانہ سلوک کیا جارہا ہے، وہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلّم کے فرامین کی صریح نافرمانی ہے اور اللہ کے غضب کو بھڑکانے کی باغیانہ جسارت ہے۔
’عبد‘ عبادت گزار کو کہتے ہیں۔ انسان صرف اللہ کا عبادت گزار ہوسکتا ہے، اللہ کی کسی مخلوق کا نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی طرح ’أمۃ‘ مملوکہ کو کہا جاتا ہے۔ انسان کا مالک صرف اللہ ہے۔ کوئی انسان کسی انسان کا مالک ہوسکتا ہے نہ کوئی انسان کسی انسان کا مملوک۔ ناک، کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، دل، دماغ اور انسان کی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی ہیں، کوئی اور مالک کیسے ہوسکتا ہے؟ عبد بھی اللہ کا ہے اور أمۃ بھی اللہ کی ہے۔ اسلام نے بتدریج انسانوں کی خرید و فروخت اور ملکیت و مملوکیت کا پورا نظام ہی جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ البتہ ’’مہذب مغربی اقوام‘‘ماضیِ قریب تک غیر مہذب افریقی انسانوں کو جانوروں کی طرح جہازوں میں بھر بھر کر لاتی رہیں اورگوری چمڑی والوں کو مالک اور کالی چمڑی والے انسانوں کو مملوک بناتی رہیں۔ مغرب میں اس ’فرعونیت‘ کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔
عربی کے علی الرغم اُردو میں ’غلام‘ کا لفظ صرف ملازم، نوکر، خادم، نمک خوار، نیاز مند یا عقیدت مند کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔ چچا غالبؔ دربارِ شاہی سے فقط وظیفہ پاتے تھے۔ دربار میں جھاڑو پونچھا نہیں کرتے تھے۔ پھر بھی ’’گزارش مصنف بحضورِ شاہ‘‘ میں فرمایا:
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار

مگر دربار میں جا کرقصیدے پڑھنے کے سوا کار گزاری تھی ہی کیاچچا کی؟ روز اِک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ۔

باوجودے کہ اسلام نے انسان کو انسان سے آزاد کرایا اور بقول سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ انسانوں کو اُن کی ماؤں نے آزاد جنا، مگر انسان کے اندر سے خوئے غلامی کبھی گئی نہیں، بالخصوص ہماری دنیائے عجم سے۔ برصغیر میں جسے دیکھیے غلام بننے پر راضی بلکہ تُلا نظر آتا ہے:

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں

مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے

غلاموں کی خرید و فروخت اب اُس طرح تو نہیں ہوتی جیسی زمانہ قبل از اسلام میں ہوتی تھی، مگر بعض لوگ اب بھی بعض لوگوں کے ’’زر خرید غلام‘‘ بن جاتے ہیں، پھر اپنے عمل سے ثابت بھی کرتے ہیں۔ایسے لوگ پیسے کے غلام ہوتے ہیں۔پیسے نہ ملیں تو ’’بے دام غلام‘‘ بن جاتے ہیں۔جس شخص کی غلامی اختیار کرتے ہیں اُس کی بابت بتاتے ہیں کہ اُس نے ’’کلام جس شخص سے کیا ہے، غلام اپنا بنا لیا ہے‘‘۔ ’غلام بنا لینے‘ کا مطلب ہے اپنا مطیع اور فرماں بردار بنا لینا۔پیامِ مشرق میں ’’جمہوریت‘‘ کے عنوان سے اقبالؔ نے ایک قطعہ کہا، جس کا یہ شعر بہت مقبول و مشہور ہوا۔ اس شعر میں بھی ’غلام‘ کا لفظ مطیع اور فرماں بردار کے معنوں میں آیا ہے:

گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانے نمی آید

طرزِ جمہوری سے گریز کرو یعنی ہر کس و ناکس کی رائے کے پیچھے نہ چل پڑو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پختہ کار غلام بن جاؤ، کیوں کہ دو سو گدھوں کا دماغ یکجا کر لیا جائے تو اُن سے ایک انسان کی بھی فکر برآمد نہیں ہو سکتی۔انسان ذہنی طور پر غلام ہو جائے تو اس کی فکر گدھوں جیسی فکر ہو جاتی ہے کہ ہم تو گدھے ہیں، مغرب ہم پر جو لادے گا وہ لدوا لیں گے، کہہ دیں گے کہ لادیے صاحب! غلام حاضر ہے!
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
https://bhatkallys.com/articles/?author=ahmed-hatib-siddiqui

Читать полностью…

علم و کتاب

ہم غزل گائیں
کلام وآواز: کلیم عاجز
لنک اردو اڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=hum-ghazl-gain, Hum Ghazl Gain
شعراء کی آواز میں اپنا کلام سننے کے لئے کلک کریں
https://audio.bhatkallys.com/categories/urdu-kalam/
پیشکش
اردو آڈیو ڈاٹ کام

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا انوار الحسن شیرکوٹی۔ تحریر: مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

رحلات الحج الہندیہ👆👆

Читать полностью…

علم و کتاب

پرانے وقتوں کی یاد از مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر رحمہ اللہ

Читать полностью…

علم و کتاب

"ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی تعلیم جماعت اسلامی کی مخصوص درسگاہ مدرستہ الاصلاح میں ہوئی تھی ، پھر وہاں وہ استاد بھی رہے تھے ، اور جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے لیکن یہ بات ان کے لیے مانع نہیں بنی کہ صحیح تصوف وارشاد کے حامل بڑے علماء سے بھی وہ ربط رکھیں ، اور ان کی خصوصیات وارشاد و تربیت سے بھی فائدہ اٹھا ئیں، چنانچہ مشہور ربانی عالم اور بزرگ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتحپوری رحمتہ اللہ علیہ سے فیض اٹھایا۔ اور بعد میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ربط قائم کیا، اور جب تک صحت اس قابل رہی کہ مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے وطن تکیہ کلاں رائے بریلی میں رمضان کے زمانے میں آ کر ر ہیں، اور رمضان کے معمولات میں آکر شریک ہوں، اس کو معمول بنائے رکھا، بلکہ رمضان میں اپنے دورانِ قیام مسجد میں ہونے والی جماعتوں کی امامت بھی کرتے رہے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ دوسرے امامت کرنے والوں کی موجودگی میں انھیں کو آگے بڑھاتے تھے۔ رمضان میں ندوۃ العلماء کے طلبہ، اساتذہ اور مولانا علی میاں کے دیگر مستر شدین میں سے جو حضرات آتے علم دین کے پہلو کے لحاظ سے ان کو فائدہ بھی پہنچاتے ، اور درس کی ذمہ داری بھی
انجام دیتے ، اور یہ سلسلہ ان کی معذوری صحت تک جاری رہا(یادوں کے چراغ ۔۲۲۵)۔
مولانا شہباز اصلاحیؒ کے سامنے جب ہم نے فتنہ مودودیت کے حوالوں کے بارے میں چند اشکالات کا تذکرہ کیا تو مولانا نے فرمایا کہ:
۔ یہ کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، بلکہ ایک شیخ الحدیث کا اپنے مدرسے کے شیخ تفسیر کے نام ۱۹۵۱ء میں لکھا گیا ایک خط ہے، شیخ التفسیر کوئی ہم جیسے طفل مکتب تھوڑے ہیں کہ ان کے سامنے کتابوں سے لمبی لمبی عبارتیں پیش کی جائیں ، مدرسے کے ایک بڑے استاد نے دوسرے بڑے استاد کو خط لکھا، جس میں عبارتیں مکمل نقل کرنے کے بجائے مختصر عبارتوں اور اشاروں پر اکتفا کیا گیا۔
۔ حضرت شیخؒ پرانے طرز کے عالم دین ہیں، ان کی تحریریں موڈرن انداز کی نہیں ہوسکتیں، جبکہ مولانا مودودیؒ کا انداز عصری ہے، اور آپ تحریر میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، وہ پکڑ میں نہیں آتے، اور ان کی عبارتوں پر گرفت کرنا بہت مشکل کام ہے، آپ کی تحریروں کی حیثیت ٹائفائڈ کی گولی جیسی ہے، اس میں سردرد ، بخار، بدہضمی اور کئی ساری بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، لیکن اگر کسی کو سردرد نہیں ہے، بخار اور بدہضمی ہے تو اس میں سے سر درد کی دوا الگ کرنے کو کہا جائے تو اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے ایک ایک جزء کو الگ کرکے اسے غلط ثابت کرنا مشکل کام ہے، لیکن ان تحریروں کو پڑھنے والا جو عمومی تاثر اور ردعمل لے کر اٹھتا ہے، وہ وہی ہے جس پر پکڑ حضرت شیخ الحدیثؒ نے کی ہے۔
۔ ایک انسان کا مقصد تخلیق، عبادت ہے، اور نماز اس کی علامت ہے، نماز قائم کرنے کے لئے جہاد قائم کیا جائے گا، لیکن جہاد قائم کرنے کے لئے نماز نہیں، نماز مقصد ہے اور جہاد وسیلہ، خطبات اور خاص طور پر اس کا چھٹا حصہ حقیقت جہاد پڑھنے پر ایک قاری یہ تصور لے کر اٹھتا ہے کہ نماز روزہ زکوۃ اور حج وسیلہ ہیں اور یہ تربیت جہاد کا ذریعہ ہیں، اصل مقصود جہاد اور حکومت الہیہ ہے، حضرت شیخ الحدیثؒ نے اپنے مراسلہ میں یہی حقیقت اجاگر کی ہے کہ نماز اصل مقصود ہے ، جہاد اور حکومت الہیہ اس کے قیام کا وسیلہ، اور یہی بات درست ہے، مولانا مودودی کے اپنی تحریروں مین عبادت کے تصور کو جتنی وسعت دی گئی ہے، درست نہیں ہے، اس کی وجہ سے جماعت کے وابستگان میں بدنی عبادتوں کا وہ اہتمام نہیں رہا ہے، جو ان بزرگان کے یہاں پایا جاتا ہے۔
حضرت شیخ الحدیثؒ بڑے کثیر التصانیف بزرگ تھے، لیکن ان میں سے تبلیغی نصاب اور اوجز المسالک کو زیاہ شہرت حاصل ہوئی، مولانا شاہد صاحب نے اپنے نانا کے جملہ آثار علمیہ مکاتیب، اور دوسری کتابوں کو منظر عام پر لانے کے اور ان کے ترجمے و تعارف کےلئے زندگی وقف کردی، اور جس طرح مظاہر علوم کے اکابر کی زندگیوں کے نقوش اور تاریخ کو تحریری شکل میں مدون کیا ، اسے ان شاء اللہ صدیوں یاد رکھا جائے گا، یہ مواد مدرسہ مظاہر علوم کے تشخص اور روایات کی حفاظت کا امین بنے گا۔ کیونکہ جس طرح یہاں کے بزرگان کی سیرت کے نقوش محفوظ ہوگئے ہیں،ان نمونوں کی موجودگی سے ان پر آئندہ نسلوں کو چلنا آسان ہوگا۔ یہ مولانا کا ایسا کارنامہ ہے جس پر آئندہ نسلیں آپ کی احسان مند رہیں گی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*حضرت مولانا سید محمد شاہد حسنی رحمۃ اللہ علیہ۔ شمع روشن رہے گی*
*تحریر: عبد المتین منیری*

انسان سوچتا کچھ ہے، اور ہوتا کچھ اور،ہے، اگرانسان کا ہر سوچاہوا پورا ہونے لگے، اور اس کا ہر منصوبہ کامیابی سے ہم کنار ہو، تواس کے خدائی کا دعوی کرنے میں کونسی کسر باقی رہ جائے گی؟۔
ماہ رواں کے آغاز میں مفتی ساجد کھجناوری صاحب کے مشورے سے ۱۳/ اکتوبر کو منگلو رسے دہلی ہوتے ہوئے سہارنپور جانے کا ارادہ بن گیا تھا، اور ٹکٹ بھی لے لی تھی، جہاں حضرت مولانا سید محمد شاہد حسنی صاحب سے بھی ملاقات کرنے کی خواہش تھی، ابھی ۷/ اکتوبر کو بھٹکل کے لئے رخت سفر باندھ ہی رہا تھا کہ یہ خبر دل پر بجلی بن کر گری کہ حضرت مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا،اور اس دائمی سفر پر روانہ ہوگئے، جہاں سے کوئی اس دنیا میں پھر واپس نہیں آتا، انا للہ وانا الیہ راجعون، ان شاء اللہ اب ہمارا مظاہر علوم جانا تو ہوگا،لیکن وہاں مولانا نہیں ہونگے، اب وہاں اس بلبل خوش نوا کو ہم نہیں پائیں گے، جن کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر بھی تشنگان علم کی سیرابی کیا ہوتی ، بلکہ علمی اور روحانی پیاس اور تیز ہوجاتی تھی، جہاں گذشتہ سفر میں آپ سے شرف باریابی نصیب ہوئی تھی، اب وہاں صرف آپ کی پرچھائیاں ملیں گی، اور دل میں بسی ہوئی نشست اور میزبانی کی وہ یا د جو تھیں تو چند لمحات کی ، لیکن اس نے دل پر ایسا احساس چھوڑا تھا گویا زندگی کا کوئی طویل سفر طے کیا ہو۔
مولانا کے فراق میں ہزاروں آنکھیں اشک بار ہیں، اور دل دکھی، کیونکہ مولانا ان لوگوں میں سے تھے، جن سے ایک ملاقات بھی مشعل راہ بن کر راہ زندگی میں روشنی دیتی ہے، مولانا ان خوش نصیبوں میں سے تھے جن کے ساتھ صرف ان کے عظیم خانوادے کی روشن روایات اور شاندار ماضی ہی نہیں تھا بلکہ بلکہ وہ خود بھی ان سنہری روایات کے امین اور پاسبان تھے، وہ پدرم سلطان بود کے منادی نہیں ، بلکہ خود بھی ہزاروں دلوں پر بادشاہت کرتے تھے۔ان کی یادیں مدتوں دلوں کو جلا بخشتی رہیں گی، اور ان کی زندگی ایک روشن چراغ بن کر آئندہ نسلوں کو منور کرتی رہے گی۔ دنیا میں ایسی خوش نصیب جامع شخصیات شاذ ونادر ہی ملا کرتی ہیں، اور جب یہ دنیا سے اٹھ جاتی ہیں ، تو پھرچاروں طرف ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور ان کی غیر موجودگی مدتوں تک دل میں پھانس بن کر چھب جایا کرتی ہے۔ آپ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے ناظم عمومی کے منصب پر فائز تھے، اور مسلم پرسنل لابورڈ معزز رکن تھے، اور ملت سے وابستہ مختلف تعلیمی اداروں میں متحرک تھے،
دنیا جانتی ہے کہ آپ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے تھے، جو اپنے دور کے ایک قطب وقت تھے جن کے اطراف علم ، روحانیت ، دعوت وتربیت اور ملت کی رہنمائی کی ایک کہکشاں گھومتی تھی، آپ کی فراغت اکتوبر ۱۹۷۰ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور سے ہوئی تھی، فراغت کے سال میں آپ کے اہم اساتذہ میں حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ، مولانا محمد عاقل صاحب ، اور مولانا مفتی مظفر حسینؒ ، اور مولانا اسعد اللہ ؒ رہے، اس وقت تک حضرت شیخ الحدیثؒ کو نزول آب کی وجہ سے تدریس چھوڑے تین سال ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود آپ حضرت شیخ الحدیثؒ کی شاگردی سے یکسر محروم نہیں ہوئے، بلکہ آپ کو ابتدائی سالوں میں مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتھم کی رفاقت میں امام صغانی کی کتاب مشکوۃ الانوار کو آپ سے حرفا حرفا پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔
یہ نظام فطرت ہے کہ نواسے کو اپنے نانا کی محبت اور اعتماد سب سے زیادہ ملاکرتے ہیں ، لہذا آپ بھی اپنے عظیم نانا علیہ الرحمۃ کی محبتوں اور اعتماد کا نمونہ تھے، خدا کا شکر ہے کہ آپ نے ان کا حق ادا کردیا اور اپنے نانا کی علمی وروحانی میراث کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ ان کی اشاعت اور افادیت کو عام کرنے کا حق ادا کردیا،یہ تفصیلات کا حق ادا کرنا اس ناچیز کا منصب ومقام نہیں ہے،ان شاء اللہ انہیں بیان کرنے کا حق بہتر انداز میں آپ کے ساتھ رچنے بسنے والے بیسیوں دوسرے اہل علم و قلم ادا کریں، اور کوئی نہ بھی کرےتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ نے اپنی آب بیتی حیات مستعار سمیت ہزاروں صفحات پر محیط اتنی تحریریں یاد گاریں چھوڑی ہیں جو بہت کچھ بیان کرتی ہیں۔ ہم جیسے تو دیکھی ہوئی ایک جھلک ہی کو بیان کرسکتے ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ہیومن ازم اور ہیومن رائٹس ۔۔۔۔۔ملحدانہ افکار کا ایک طائرانہ مطالعہ ۔۔۔ از محمد احمد حافظ

Читать полностью…

علم و کتاب

Hazrat-Madani-ra-ki-Sanad-i-Hadith-Wa-Shuyookh-i-Sanad

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

Document from عُزیر فلاحی

Читать полностью…

علم و کتاب

حادثہ فاجعہ*
نواسہ اور خلیفۂ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی
اور ہم سب کے بڑے حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب سہارنپوری امین عام مظاہر علوم سہارنپور جمعہ کے مبارک دن مغرب سے پہلے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ہیں
انا للہ وانا الیہ راجعون
نماز جنازہ دارجدید مدرسہ مظاہرعلوم میں صبح
6:30 بجے ہوگی ان شاءاللہ تعالی۔
معاذ احمد کاندھلوی۔
6 اکتوبر ۲۰۲۳ بروز جمعہ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

غلام احمد پرویز سے متعلق مجلات میں دستیاب مواد

Читать полностью…

علم و کتاب

غلطی ہائے مضامین۔۔۔غلام حاضر ہے!
تحریر: احمد حاطب صدیقی
ایک پُرمزاح فقرہ بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ آپ نے بھی سنا ہوگا۔ فقرہ کسنے والے کو ہمیشہ ہنستے دیکھا اور فقرہ سننے والے کو بھی ہنس ہنس کر ہی سنتے دیکھا۔ مگر اب بڑھاپے میں یہ تماشا دیکھا کہ فقرہ تو وہی تھا مگر سننے والا کسنے والے پر غضب ناک ہوگیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز احباب کی محفل سجی ہوئی تھی۔ خوش گپیاں چل رہی تھیں۔ اتنے میں ایک صاحب تشریف لائے اور بہ آوازِ بلند فرمایا: ’’السلامُ علیکم‘‘۔

محفل میں تشریف فرما ایک خوش گو، خوش مزاج بزرگ نے بڑی خوش طبعی، خوش الحانی اور اتنی ہی بلند آوازسے سلام کا جواب دیا:

’’وعلیکم السلام۔ جنت المقام۔ دوزخ الحرام۔ آپ کا بیٹا میرا غلام‘‘۔

بس یہ سننا تھا کہ آنے والے صاحب بھڑک اُٹھے۔ طیش بھرے لہجے میں بولے:

’’دیکھیے صاحب! کتنی غلط بات کہہ دی ہے انھوں نے۔ کیوں حضرت؟‘‘ رُوئے سخن ہماری طرف تھا۔
عرض کیا: ’’جی ہاں۔ ’دوزخ‘ فارسی کا لفظ ہے اور’ الحرام‘ عربی کا۔ دونوں کو عربی قاعدے کی گوند سے جوڑنا بالکل غلط ہے‘‘۔

مزید بھڑک اُٹھے۔ کہنے لگے:
’’آپ بھی حد کرتے ہیں۔ ہر جگہ اپنی قابلیت جھاڑنے پر اُتر آتے ہیں۔آپ کو یہ تو نظر آگیا کہ انھوں نے ’دوزخ الحرام‘ بولا، یہ نہیں دیکھا کہ میرے بیٹے کو اپنا غلام بولا۔ اپنا غلام۔کتنا گھٹیا لفظ استعمال کیا… غلام… غلام… اب یہاں قابلیت جھاڑ کر دکھائیے‘‘۔
عرض کیا: ’’جھاڑے دیتے ہیں حضور! تشریف رکھیے۔‘‘
دیکھیے صاحب! عربی لغت کے مطابق ’غلام‘ کا اصل مفہوم تو ’بالغ ہونا‘ ہے۔ وہ عمر جس میں شہوت پیدا ہونے لگتی ہے۔ مگر ولادت سے بلوغت تک کی تمام عمر پر لفظِ غلام کا اطلاق ہوتا ہے۔ سبز خط نوجوان کو غلام کہا جاتا ہے، وہ لڑکا جس کی ڈاڑھی مونچھ ابھی پوری نہ نکلی ہو۔ غلام کی جمع غِلمان ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو جب ’برادرانِ یوسفؑ‘ نے گھر سے لا کر کنویں میں پھینک دیا تو ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔ قافلے والوں نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے کنویں کی طرف بھیجا۔ سقے نے جب اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو قرآنِ مجید کی سورۂ یوسف (آیت نمبر 19) کے مطابق خوشی سے چیخ اُٹھا: ’’یَا بُشْریٰ ھٰذَا غُلام‘‘ (بشارت ہو، ایک لڑکا ہاتھ آگیا ہے)

عربی میں غلام بمعنی بیٹا بھی بولا جاتا ہے۔ اہلِ فارس بھی اس لفظ کو ’پِسر‘ کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ اُردو میں بھی دیکھیے، اگر کوئی آپ سے یہ کہتا ہے کہ ’’مسعود کا لڑکا آیا ہے‘‘ تو یہی سمجھا جائے گا کہ آنے والا ’مسعودکا بیٹا‘ ہے۔ دورِ جاہلیت میں عرب خریدے اور بیچے جانے والے مرد و زن کو ’عبدی‘ (میرا بندہ) اور’ أمتی‘ (میری بندی) کہا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے انسانیت کی اس توہین کو گوارا نہیں فرمایا، سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔ لہٰذا صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5874 کے مطابق حضرت ابوہُریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے کوئی شخص کسی کو میرا بندہ اور میری بندی نہ کہے۔ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمھاری عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں۔ البتہ میرا لڑکا یا میری لڑکی کہہ سکتے ہو‘‘۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آج سنی بوہرے کے سلسلے میں ایک استفسار کے جواب مولانا محمود احمد دریابادی صاحب کا وقیع مضمون پوسٹ ہوا تھا، مولانا نے اس میں جو دیکھا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اس میں بعض معلومات ایسی ہیں جو دوسری جگہوں پر دستیاب نہیں ہیں، اس کے باوجود اسے مکمل تحقیقی نوعیت کا مضمون نہیں کہا جاسکتا ، بوہروں کی تاریخ پر مولانا نجم الغنی رامپوری اور مولانا سید ابوظفر ندوی نے لکھا ہے، لیکن ان کے پاس مراجع کی کمی کی وجہ سے اس فرقے سے وابستہ کئی ایک اہم حقائق پر ان کی نظر نہیں جاسکی ہے، ہماری خواہش تھی کہ اس موضوع پر کچھ مزید کچھ تفصیلات سے اس بزم کے احباب کو آگاہ کیا جائے، لیکن چند ایک روز میں اس کا موقعہ ملنے کی امید نہیں ہے، ہمارے پاس مذکورہ بالا دو بزرگوں کی کتابوں کے صاف ایڈیشن اور معارف اور دوسرے مجلات میں شائع شدہ مضامیں ، ان کے معتمد علی قاضی ابوحنیفۃ النعمان کی کتابیں، اور بوہرہ دعاۃ کی سیرت پر ایک اہم مرجع محفوظ ہے، سنہ ۱۹۴۴ء ماہ مئی اور نومبر کے معارف اعظم گڑھ میں بوہروں کی تاریخ پر مولانا مہر محمد خان مالیرکوٹلوی اور مولانا سید ابو ظفر ندوی کے بڑے قیمتی مراسلات شائع ہوئے تھے، ان میں سے سنی بوہرے کی تاریخ کے تعلق سے مولانا سید ابو ظفر ندوی کے مراسلے کا اقتباس پیش خدمت ہے، ہمارا خیال ہے کہ بہت سے سنی بوہروں کے لئے بھی یہ معلومات نئی ہونگی، ان شاء اللہ فرصت میں یہ مکمل مراسلت پوسٹ ہوگی۔ گجرات کے اہل علم اور خاندانوں میں شیخ محمد طاہر محدث پٹنی، خاندان نورلی، اس گروپ کے ساتھی مولانا ڈاکٹر ولی اللہ ندوی کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے، کوئی پندرہ سال قبل ہماری ظفر سریش والا سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بتاتے تھے کہ سنی بوہرے گجرات کے مسلمانوں میں اپنے حسب نسب کے لحاظ سے بڑے معزز سمجھے جاتے ہیں، اور یہ کہ اسماعیلی بوہرے بھی ان کا احترام کرتے ہیں، اور اپنے بارے میں وہ بتاتے تھے کہ وہ ان کے سلطان کے خزائن کے امین تھے، اب یہ کتنا سچ ہے یہ وہی جانیں۔ عبد المتین منیری

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: فقہ او شریعت کی بحث کے تناظر میں*

فقہ اور شریعت کے موضوع پر کل کی دو روزہ بحث سے شاید احباب تھک ہار چکے ہیں، آج عموما بزم پر خاموشی طاری رہی، اس سلسلے میں اس ناچیز کی چند معروضات
پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
۔ مفتی شاہ جہاں صاحب کی تحریر کی علمیت پر کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھا نا ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ مولوی مصعب نے کافی محنت اور مطالعہ کرکے اس بحث میں حصہ لیا تھا، انہیں اس طرح اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشتے رہنا چاہئے، اور ہمت نہیں ہارنا چاہئے۔
۔ ممکن ہے مولوی مصعب کے بعض نتائج سے ہمیں اختلاف ہو، لیکن جو محنت انہوں نے کی ہے اس کی قدر ہونی چاہئے۔ ہم نے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے سامنے حدیث پر ان کے بعض احکامات کے سلسلے میں جب اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو ہماری رائے سے اختلاف کا حق ہے، لیکن ایک قاری کو کسی محقق کے نتائج سے زیادہ یہ جاننا اہم ہے کہ اس نے یہ نتائج کس طرح اخذ کئے، اور ایک ایسے زمانے میں جب کہ بہت سارے مراجع مطبوعہ شکل میں دستیاب نہیں تھے، صدیوں پرانے دھول سے اٹے ان مخطوطات سے معلومات حاصل کرنے پر کتنی محنت کی گئی، اور یہ کہ جو نتائج نکالیں گئے ہیں وہ کس علمی و تحقیقی اساس اور بنیاد پر نکالے گئے ہیں۔
۔ ایک اہم بات جو ہم بھول جاتے ہیں وہ کہ یہاں جو احباب شریک ہیں، وہ اپنے معاشرے میں ایک وزن رکھتے ہیں، ان کے بہت سارے شاگرد اور مستفیدین ہیں، کوئی بھی تبصرہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی اپنے خوردوں اور ہم جولیوں میں سبکی نہ ہو۔ ہمارے خیال میں اس بزم سے وابستہ کئی ایک افراد جنہوں نے خود کو مستفیدین کے دائرے میں محدود رکھا ہے وہ کچھ لکھنے میں اس لئے جھجکھتے ہیں کہ پڑھے لکھے تین سو افراد کے اس مجمعے میں کوئی ان کا بھرم نہ کھول دے، اس حجاب کا نقصان ہورہا ہے، ہمارے کئی ایک محترم اور ذی استعداد احباب سے استفادے سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔ چونکہ ہمارے زیادہ تر احباب کو بچپن سے متنوع مطالعہ اور ہلکی پھلکی تحریروں کی عادت نہیں ہوتی تو جب بڑے ہونے کے بعد اس طرف توجہ کرتے ہیں، تو اپنے معیار کی مشکل کتابیں مطالعہ کے لئے منتخب کرتے ہیں، اور چونکہ لکھنے کی عادت نہیں ہوتی، وہ ایک عبارت لکھتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں کہ کوئی ہمیں کیا کہے گا، لہذا کسی کے معیار فہم پر فوری رد عمل سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے۔
۔ جو بھی لکھنے میں محنت کرے اس کی ہمت افزائی ہونی چاہئے، لیکن تعریف میں بھونڈا پن نہیں جھلکنا چاہئے، یہ انسان کی طبیعت ہے کہ اپنے مزاج اور فکر کی کوئی تائید کرے تو اسے آسمان پر اٹھانے اور تعریف کے قلابے باندھنے لگتے ہیں، یہ انداز سنجیدہ قارئین کی نگاہ میں فورا اٹک جاتا ہے، لہذا ہمت افزائی میں وقار کا پہلو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
۔ ہمارا ایک مزاج ہے، ہم صدیوں پرانے اسلاف کی رایوں سے اختلاف دھڑلے سے کرتے ہیں، اور اس میں کبھی اعتدال کی حد بھی پار کرجاتے ہیں، لیکن ہماری جو اکابر قریبی دور میں گذرے ہیں، ان کی رائے سے اختلاف برملا کرنے کی جرات نہیں پاتے، لہذا جب علمی بحث ہو اور قدما کی آراء سے ہمارے قریبی دور کے اکابر اختلاف رکھتے ہوں، تو پھر نفس موضوع پر بحث ہو، ان کے ناموں کا حوالہ پیش کرنے میں احتیاط برتی جائے، کیونکہ جب ان اکابر کا نام درمیان میں آتا ہے تو بحث کا رخ بدل جاتا ہے، وہاں شخصیت سے عقیدت منصفانہ رائے کے آڑے آجاتی ہے۔ اور بلا ضرورت بد مزگی پیدا ہوجاتی ہے۔
۔ اس ناچیز کی کوشش ہوتی ہے کہ جو باتیں پیش ہوئی ہیں ان پر ممکنہ عمل کیا جائے لیکن کبھی کبھار ہمیں بھی چڑ آجاتی ہے، یہ عموما اس وقت ہوتا ہے جب گروپ پر کوئی پیغام کاپی پیسٹ ہوتا ہے، اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے قارئین اتنی مدت ساتھ رہنے کے باوجود گروپ کا مزاج اور معیار سمجھ نہیں سکے، انہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بھی تفصیلات بتانی پڑتی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس بزم کو شاد وآباد رکھے، اور اسے خیر کا ذریعہ بنائے۔ شکریہ
عبد المتین منیری
2023-10-03
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا، سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔
’’خط ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘
’’ناخن تراش دو۔‘‘
’’بھاگ جاؤ۔‘‘
بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھئے تو سہی!

/channel/ilmokitab

Читать полностью…
Subscribe to a channel