ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

انتخاب اخلاق احمد دہلوی۔۔۔ آواز: ضیاء محی الدین

Читать полностью…

علم و کتاب

غلطی ہائے مضامین۔۔۔شاباش! تم بھی خوب مین میکھ نکالتے ہو۔۔۔. احمد حاطب صدیقی

’خوض‘ کے معانی پر غور کرتے کرتے یہ کالم نگار اپنے پچھلے کالم میں لکھ بیٹھا تھا کہ ’خوض‘ کے ایک معنی مین میکھ نکالنا بھی ہیں۔ اس پر لوگ لگے ’مین میخ‘ نکالنے۔ راولپنڈی سے محترمہ تابندہ شاہد نے لکھا:

’’مین میکھ کو میں نے پہلی بار ’پڑھا‘ ہے۔ ورنہ سننے اور بولنے میں ہمیشہ مین میخ ہی سنا اور کہا‘‘۔

اُستاد اعجاز عبید نے پوری تحریر پر تبصرہ فرماتے فرماتے فرمائش بھی کرڈالی:

’’اس عمدہ مضمون نے میرے ذہن میں بھی ایک سوال پیدا کردیا۔ مین میکھ یا مین میخ؟ اس پر تحقیق کی فرمائش بھی ہے‘‘۔

جدہ سعودی عرب سے سید شہاب الدین صاحب کے ذہن میں بھی محولہ کالم پڑھ کر یہی سوال آیا:

’’اصل میں کیا ہے؟ مین میکھ یا مین میخ؟ ہم نے اکثر میخ ہی پڑھا ہے، جس کے معنی کیل کے ہیں‘‘۔

دیگر کئی قارئین بھی اس پھیر میں پڑگئے کہ آیندہ وہ مین میخ نکالا کریں یا مین میکھ؟تو اب دیکھیے ہم کیا نکالتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ’مین میکھ‘ کی ترکیب ہندی ترکیب ہے، فارسی نہیں۔ یہاں ’مین‘ بروزنِ تین بولا جائے گا۔ اس کے ساتھ لگے ہوئے لفظ ’میکھ‘ کا تلفظ ’مے کھ‘ ہے۔ میکھ کا تعلق فارسی کے لفظ ’میخ‘ (تلفظ: می خ) سے ہرگز نہیں۔ فارسی میں ’مِیخ‘ کا مفہوم کیل، کانٹا، سوئی یا کھونٹی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُردو بولنے والوں نے ’میکھ‘ ہی کا تلفظ تبدیل کرکے اپنے طور پر اسے ’میخ‘ ( مے خ) بولنا شروع کردیا جو رواج پا گیا۔ بس پھر کیا تھا، مہذب اور چقطع مقطع لوگ ’مین میکھ‘ نکالنے کی جگہ ’مین میخ‘نکالنے لگے۔ لفظ بدل گیا،کرتوت نہیں بدلے۔

’مین‘ اور ’میکھ‘ دونوں الفاظ کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ ’مین‘ سنسکرت میں ’مچھلی‘ کو کہتے ہیں۔ یہ آسمان کے بارہویں بُرج کا نام ہے جس کی شکل مچھلی سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اسے عربی میں ’حوت‘ کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کا نام ‘Pisces’ ہے۔ مگر یہ بُرج کیا ہے؟

بُرج کے لفظی معنی قلعہ، محل اور گنبدکے ہیں۔ فصیل پر بنے ہوئے گنبد کو بھی بُرج کہا جاتا ہے۔ ہمارے شہر لاہور میں چار بُرجوں والی ’چوبُرجی‘ آج بھی پائی جاتی ہے، گو کہ اس کے گنبد غائب ہوچکے ہیں۔ قدیم علمِ فلکیات یا نجومیوں اور ستارہ شناسوں کی اصطلاح میں بُرج سے مراد ستاروں کے جھرمٹ ہیں۔ مجمع النجوم۔ ان جھرمٹوں کے نام اُن خیالی شبیہوں پر رکھ دیے گئے ہیں جو انھیں دیکھتے وقت بظاہر نظر آتی ہیں۔ یعنی حقیقتاً توآسمان پر مچھلی، بچھو، دنبہ، شیر اور ترازو نہیں ہوتے، مگر ستارہ شناسوں کو یہ جھرمٹ ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے آسمان کو بارہ بروج میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۃ البروج کی پہلی آیت میں بھی بُرجوں والے آسمان کی قسم کھائی گئی ہے۔ مگر یہاں بُروج سے مراد وہ مضبوط آسمانی قلعے ہیں جن پر فرشتے متعین رہتے ہیں اور ملائِ اعلیٰ کی طرف بڑھنے والے شیطانوں کو شہابِ ثاقب مارکر بھگا دیتے ہیں۔ یعنی شیاطین کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ لہٰذا جنات یا شیاطین کی مجال نہیں کہ وہ غیب کی خبر لا سکیں یا آسمانی رازوں کی سُن گُن لے سکیں۔ نجومی لوگ جو غیب کی باتیں بتاتے ہیں وہ اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔ لگ گیا تو تیر، نہ لگا تو تُکّا۔

’میکھ‘ سنسکرت میں مینڈھے یا دُنبے کو کہتے ہیں۔ ہندی میں اس کا تلفظ ’میش‘ بھی کیا جاتا ہے۔ ’میکھ‘ بھی ایک آسمانی بُرج کا نام ہے۔ یہ آسمان کا پہلا بُرج ہے۔ اس کی شکل مینڈھے سے مشابہ ہے۔ اسے عربی میں ’حمل‘ اور انگریزی میں ‘Aries’ کہتے ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*جلوہ ہائے پابہ رکاب (35 )۔۔۔ زبان یار من ترکی *

اس سے پہلے بھی اس بات کا ذکر آیا ہے کہ میں مدینہ یونیورسٹی میں غیر عربی طلبہ کو عربی پڑھانے کے پروگرام سے منسلک تھا۔ اس پروگرام میں دنیا بھر کے طلبہ پڑھتے تھے۔
ان کی زبانیں مختلف تھیں، اس لیے عربی پڑھانے کے لیے کسی ایک زبان کی مدد نہیں لی جاسکتی تھی۔ لیکن پروگرام کے اسباق اس طرح مرتب کیے گئے تھے کہ استاذ ان کو براہ راست عربی میں پڑھا سکتا تھا۔ تاہم کبھی کبھار طالب علم کی زبان کی مدد لینی پڑتی تھی۔ اس لیے میں نے کچھ اہم زبانیں سیکھ لی تھیں۔ ان میں ترکی بھی تھی۔
ایک بار ایک یونانی طالب علم ہمارے پروگرام میں شریک ہوا۔ یاد رہے کہ یونانی مسلمان در اصل ترک ہیں اور وہ یونان کے شمال مشرق میں واقع مغربی تراقیا نامی علاقے میں بستے ہیں، اور یہ علاقہ ترکی کی سرحد سے متصل ہے۔
اس طالب علم کا نام سادات تھا۔ وہ کم عمر لڑکا تھا۔ پہلی بار جب میں اس سے کلاس میں ملا تو دیکھا کہ وہ کافی ڈرا ہو ا تھا۔ میں نے اس سے ترکی میں بات کی وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ ڈرا ہوا اس لیے تھا کہ وہ عربی نہیں جانتا تھا، اور اسے یقین تھا کہ استاذ کو نہ ترکی آتی ہو گی نہ یونانی، اور جب آپ ترکی بولنے لگے تو میر ڈر کافور ہو گیا۔
ایک بار ایک نیا طالب علم انٹرویو کے لیے آیا۔ اس کی شکل سے اس کے ملک کا اندازہ نہیں ہو پارہا تھا۔ میں نے پہلے پہل اس سے انگریزی میں پوچھا کہ تم کہاں کے ہو ؟ اس نے اشارہ سے بتایا کہ وہ کچھ سمجھا نہیں۔ پھر میں مختلف زبانوں میں اس سے پوچھتا رہا: فریچ، جرمن، اسپانش، فارسی، ٹمل، ہندی وغیرہ۔ مجھے ترکی کا خیال اس لیے نہیں آیا کہ اس کی شکل ترکوں جیسی نہیں تھی۔ آخر کار میں نے سوچا کہ ترکی try کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے
کہا: ?Turkçe biliyormisin ۔ وہ اچھل پڑا اور evet, evet کی رٹ لگانے لگا۔ اس کا تعلق شمالی قبرص سے تھا۔
ایک بار عربی پروگرام کے دو تر کی طلبہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں ان کے پاس سے گزرا۔ اس وقت ان میں سے ایک کہہ رہا تھا bu gece یعنی آج رات میں نے
Bu gece Şadan olur erbabu dil :کہا
Bu geceye can verir ashab u dil
نبی کریم صلی الی ایم کی ولادت با سعادت پر مصطفی چلبی کی ایک مشہور نظم ہے۔ یہ شعر اسی نظم سے ہے۔ اس کا ترجمہ ہے : آج رات اہل دل خوش ہو جائیں گے، اور اس رات کی
عظمت پر اپنی جان نچھاور کر دیں گے۔
ان طلبہ کو بڑا تعجب ہوا کہ میں ان کی زبان میں شعر سنا رہا ہوں۔
ایک بار ترکی کے مشہور عالم دین امین سراج مدینہ منورہ آئے ہوئے تھے۔ یونیورسٹی میں میرے ساتھی ڈاکٹر محمود میرہ صاحب مرحوم کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرہ صاحب نے مجھے دیکھا تو بلا کر اپنے ساتھ سوار کر لیا۔ انہوں نے امین سراج سے چپکے سے کہا
یہ ہمارے دوست ہیں، اور ان کو ترکی آتی ہے۔ آپ ان کا امتحان لیں۔
امین سراج صاحب سامنے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے، اور میں پیچھے کی سیٹ پر۔ میرہ
صاحب امین سراج صاحب کے ساتھ محو کلام تھے۔ اچانک مجھے ترکی کا یہ جملہ سنائی دیا ?Nasil siniz (یعنی: کیا حال ہے؟ چونکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں تھے، اس لیے میں نے سمجھا کہ شاید وہ فون میں کسی سے بات کر رہے ہوں گے ۔ لیکن جب میں نے وہی جملہ دوبارہ سنا تو مجھے خیال ہوا کہ شاید وہ مجھ سے مخاطب ہیں۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا: ?Banami soruyorsunuz یعنی کیا آپ مجھ سے مخاطب ہیں ؟ یہ جملہ سنتے ہی انہوں نے میرہ صاحب سے کہا: ان کا امتحان ہو چکا۔ یہ سو فیصد صحیح تر کی بولتے ہیں۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

کتب خانہ (02) رضا علی عابدی

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: مورخہ اپریل / 24
++++++++++++++
اسلام احمد سیفی شعلہ/ / 24/ اپریل/ 1967ء
بدرالدین اللہ دیا، استاد بابو/ / 24/ اپریل/ 1959ء
خواجہ عبدالرشید شمیم پانی پتی/ / 24/ اپریل/ 1962ء
سبین محمود/ / 24/ اپریل/ 2015ء
شہزادی (نسرین بلوچ)/ / 24/ اپریل/ 2003ء
ظفر اسحاق انصاری/ / 24/ اپریل/ 2016ء
عبداللہ اکبر/ / 24/ اپریل/ 2010ء
قاری عبدالوہاب/ / 24/ اپریل/ 2021ء
مسعود عالم / پروفیسر/ 24/ اپریل/ 2021ء
موسیٰ یوسف داگیا/ / 24/ اپریل/ 1990ء
مولانا انظر شاہ کشمیری/ شیخ الحدیث / 24/ اپریل/ 2008ء
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی/ بریلوی خطیب/ 24/ اپریل/ 1984ء
نبی احمد / پروفیسر/ 24/ اپریل/ 2021ء
نواب عزیز الہی خاں/ / 24/ اپریل/ 1999ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
/channel/ilmokiab

Читать полностью…

علم و کتاب

ملک زادہ منظور احمد
دبی مشاعرہ 1988

https://youtu.be/tFo3-x0rMRc?si=lbVE8q7A4knL5vjs

Читать полностью…

علم و کتاب

تھے مگر وہ نسل رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی تھی جو اس اعلیٰ درجے کے ادب سے استفادہ کرسکتی تھی۔اگر کسی زبان میں 30-35سال تک اچھے ادب کی تخلیق نہ ہو تو یہ کوئی بہت بڑا المیہ نہیں ہوتا۔ سانحہ یہ ہوتا ہے کہ اچھا ادب تو تخلیق ہوتا رہے مگر اس کے پڑھنے والے ختم ہوجائیں۔ ہمارے عہد کا اولین تقاضہ یہ تھا کہ ہم بادمخالف کی زد پر اردو زبان کے چراغ کو روشن رکھتے تاکہ اس کی روشنی میں ادب کی اعلیٰ وارفع قدروں کی شناخت ہوسکتی۔“
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے علمی ادبی اور شعری میدان میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اس کے مطابق ان کی پذیرائی نہیں کی گئی۔ غالباً اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ تو کسی ادبی گروہ کا حصہ تھے اور نہ ہی انہیں حاشیہ برداری پر یقین تھا۔ بلکہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ رکھتے تھے۔ معروف شاعر منور رانا نے ملک زادہ منظور احمد کے انتقال کو ایک عہد کا خاتمہ قرار دیتے ہوئے درست کہا ہے کہ ”ملک زادہ منظور احمد نے جیسا اردوادب اردو والوں کو دیا ہے، اس کا اعتراف نہ ہونا ہماری بے حسی کو ظاہرکرتاہے۔“

Читать полностью…

علم و کتاب

ملک زادہ منظور احمد کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

”ماہ وسال کی گرد چہرے پر جم رہی ہے۔ شریانوں میں دوڑتے ہوئے گرم خون کی چہچہاہٹ مدھم ہوگئی ہے۔ بالوں کی سفیدی کو خضاب کی کرشمہ سازی نے چھپا رکھا ہے۔ آنکھوں کی بینائی کمزور پڑچکی ہے۔ عمر باسٹھ برس کے کچھ اوپر ہے مگر دنیا کو دیکھنے اور برتنے کا حوصلہ ہنوز دل میں باقی ہے۔ زندگی کی ناہمواریوں کے خلاف جہاد کرنے کو جی چاہتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ استحصال کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ عیاریوں کا پردہ فاش کیاجائے۔ مگر خاموش ہوں، مصلحتوں کی زنجیر میں پیر جکڑ گئے ہیں۔ اشعار میں دل کی بھڑاس ضرور نکالتا ہوں مگر اب لہجے میں وہ تیور اور استقامت باقی نہیں ہے جو پہلے تھی۔ شعلہ نوا استعارات اور کنایات کی راکھ میں دبتا چلاجارہا ہے۔“

ممتاز شاعر ملک زادہ منظور احمد نے ان تاثرات کا اظہار اپنی دلچسپ آپ بیتی ’رقص شرر‘ کے ابتدائی صفحات میں اب سے 25برس پہلے کیا تھا۔ ان کے دل میں بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود دنیا کو برتنے کا جو حوصلہ موجود تھا، اس نے چوتھائی صدی تک ان کا ساتھ دیااور ان کے لہجے میں آخری دم تک وہ گھن گرج باقی رہی جو انہیں اپنے ہم عصر شاعروں اور دانشوروں میں ممتاز حیثیت عطا کرتی ہے۔ گزشتہ 22اپریل 2016 کو عین نماز جمعہ کے وقت جب انہوں نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپردکی توان کی عمر87 برس تھی۔ وہ اردو زبان اور تہذیب کا ایک ایسا جیتا جاگتا نمونہ تھے کہ ان کے پاس دیرتک بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ جن لوگوں نے اردو زبان کی چاشنی، شعری رچاؤ اور تہذیبی بوقلمونی کے قصے کتابوں میں پڑھے ہیں، وہ ان کی خوشبو ملک زادہ صاحب کی شخصیت اور گفتگو میں محسوس کرتے تھے۔ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ایسے نازک وقت میں آنکھیں موندھی ہیں جب اردو زبان اور تہذیب کے سامنے خود کو بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ وہ دبستان لکھنؤ کے ایسے آخری نمائندہ ادیب، شاعر اور دانشور تھے جس نے اپنی جاگتی آنکھوں سے اردو زبان وتہذیب کے عروج و زوال کو دیکھا تھا۔ اپنے نصف صدی سے زیادہ کے شعری اور ادبی سفر میں انہوں نے ان تمام قدروں کو سینے سے لگائے رکھا جو اردوزبان اور تہذیب کا خاصہ ہیں۔ وہ اردو کو محض ایک زبان اور ذریعہ اظہار نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک اردو ایک تہذیب اور طرز زندگی کا بھی نام تھا۔ انہوں نے تمام زندگی اعلیٰ انسانی اور ادبی قدروں کی پاسداری کی اور کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ آخری وقت تک اردو زبان کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔انہیں نظم اور نثر دونوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ جہاں ایک طرف ان کا شعری سرمایہ شعروسخن کے میدان میں ان کے بلند مرتبے کا گواہ ہے وہیں دوسری طرف ان کی دلچسپ اور دلنشین آب بیتی’رقص شرر‘ اردو نثر پر ان کی بہترین گرفت کی آئینہ دار ہے۔
ملک زادہ منظور احمد نے اپنی علمی اور ادبی خدمات سے اردو کو جلا بخشی اور ملک کی سب سے بڑی ریاست میں دم توڑتی ہوئی اردو زبان کو نئی زندگی عطا کرنے کی عملی جدوجہد بھی کی۔ انہوں نے اردو رابطہ کمیٹی کے پرچم تلے اس زبان کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی جدوجہد بھی کی۔ اردو رابطہ کمیٹی کے صدر ممتاز افسانہ نگار رام لال تھے اور ملک زادہ منظور احمد اس کے جنرل سکریٹری۔ 1988میں اردو رابطہ کمیٹی کی عظیم الشان کانفرنس لکھنؤ میں منعقد ہوئی تھی جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں اردو کے اکابرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہی کانفرنس ان سے قلبی تعلق کا وسیلہ بنی۔ وہ راقم الحروف کی ادارت میں گزشتہ چوتھائی صدی سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ اخبار ’خبردار‘ کے مستقل قاری تھے اور اکثر اپنی تحریریں اشاعت کے لئے روانہ کرتے تھے۔
عام طورپر ہمارے شعراء اپنی تمام ترتوجہ اپنی نرگسی شخصیت کی تعمیر اور تدوین پر صرف کرتے ہیں اور اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ مشاعروں کے عوض حاصل ہونے والی شہرت اور عوامی مقبولیت سے وہ اپنے گردوپیش کو بارونق بناتے ہیں۔ بڑے بڑے اعزازات حاصل کرکے سکہ رائج الوقت بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ لیکن ملک زادہ صاحب نے مشاعروں کے حوالے سے شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی، اس کا استعمال انہوں نے اردو تحریک کو توانائی بخشنے کے لئے کیا۔ مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے انہوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں اور اس فن میں جو ملکہ حاصل کیا، وہ کسی دوسرے شاعر کا حصہ نہیں بن سکا۔ انہوں نے نظامت کے فن کو بام عروج پر پہنچایا۔ وہ جس مشاعرے کی نظامت کا فریضہ انجام دیتے تھے، اس کی کامیابی یقینی تصور کی جاتی تھی۔ وہ مشاعرے کے سامعین کو جہاں اردوزبان وتہذیب کی تسبیح میں پروئے رکھتے تھے، وہیں شعرائے کرام کو بھی اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ وہ شعر وسخن کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ نظامت کے دوران جو نپے تلے اور تراشیدہ جملے ان کی زبان سے ادا ہوتے تھے، وہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد ایسے ہی زبان زدخاص وعام ہوجاتے تھے، جیسا کہ اس مشاعرے کے مقبول اشعار۔ ان کے لہجے میں جو ایک خاص

Читать полностью…

علم و کتاب

اشرف صبوحی
وفات: 22-04-1990
تحریر: مقبول جہانگیر
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/ashraf-sabuhi-by-maqbul-jahangir/Ashraf%20Sabuhi%20By%20Maqbul%20Jahangir.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : اپریل / 22
+
احسان اللہ فہد / پروفیسر/ 22/ اپریل/ 2021ء
اشرف صبوحی دہلوی (سید ولی اشرف)/ / 22/ اپریل/ 1990ء
اظہار الحسن برنی/ / 22/ اپریل/ 2014ء
امیتاز عالم حنفی، محمد/ / 22/ اپریل/ 2015ء
جامی بدایونی (مولانا محمد عبدالجامع)/ / 22/ اپریل/ 1965ء
ڈاکٹر کرنل عبدالرحمٰن / / 22/ اپریل/ 1955ء
رچرڈ نکسن/ صدر U.S.A/ 22/ اپریل/ 1994ء
زیڈ اے سلہری (ضیاء الدین احمد)/ صحافی/ 22/ اپریل/ 1999ء
سید جمال احسن گیلانی/ / 22/ اپریل/ 2021ء
کرنل عبد القادر دگروال/ افغانستان/ 22/ اپریل/ 2014ء
محمد ایوب بھاگل پوری/ / 22/ اپریل/ 1994ء
محمد حبیب اللہ، قادری/ / 22/ اپریل/ 1980ء
معین اختر/ / 22/ اپریل/ 2011ء
ملک زادہ منظور احمد/ / 22/ اپریل/ 2016ء
منشی احتشام علی/ / 22/ اپریل/ 1943ء
منشی محمد احتشام علی کاکوروی/ / 22/ اپریل/ 1943ء
مولانا انیس احمد اصلاحی/ / 22/ اپریل/ 1975ء
مولانا شاہ محی الدین پھلواروی/ / 22/ اپریل/ 1947ء
واحد بخش سیال چشتی صابری/ / 21/ اپریل/ 1995ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: مورخہ اپریل / 21
------------------------------------------------
اختر تلہری،سید اختر علی: 21، اپریل 1971ء
اقبال بانو/ گلوکار: 21، اپریل 2009ء
جہاں آراء سعید: 21، اپریل 1997ء
جوہر دودایوف (چیچنیا): 21، اپریل 1996ء
ڈاکٹر محمد اقبال (علامہ): 21، اپریل 1938ء
روئیداد خان (سول سروس): 21، اپریل 2024ء
سید اقبال علی (پروفیسر) 21، اپریل 2021ء
سید امیر حیدرمنصرم رضوی: 21، اپریل 1980ء
سید محمد علی: 21، اپریل 1991ء
شاہد علی خان (مکتبہ جامعہ دہلی) 21، اپریل 2021ء
شکنتلا دیوی (انسانی کلکولیٹر) 21، اپریل 2013ء
عبد اللہ قطب شاہ (سلطان گولکنڈہ) 21، اپریل 1672ء
علیم اختر مظفر نگری: 21، اپریل 1972ء
محمد عبد العلیم صدیقی (مبلغ اسلام): 21، اپریل 1972ء
محمد علی جالندھری: 21، اپریل 1971ء
محمد علی شیخ (بیرسٹر): 21، اپریل 1990ء
مصطفی علی ہمدانی (اناونسر): 21، اپریل 1980ء
مفتی محمد علی لطفی علیگڑھی: 21، اپریل 1989ء
مولا بخش (پروفیسر) 21، اپریل 2021ء
مولانا سراج الدین مظاہری: 21، اپریل 2006ء
مولانا شمشیر علی فلسفی: 21، اپریل 1986ء
مولانا محمد باقر حسین: 21، اپریل 2011ء
مولانا محمد چراغ (شیخ الحدیث): 21، اپریل 1989ء
مولانا محمد علی جالندھری: 21، اپریل 1971ء
مولانا وحید الدین خان): 21، اپریل 2021ء
نواب سید یوسف علی خان ناظم: 21، اپریل 1865ء
واحد بخش سیال چشتی صابری: 21، اپریل 1995ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ (زیر ترتیب) از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مَیں اسے بچانے کی کوشش کروں گا“۔ پھر شاہ صاحب کو سہارا دیتے ہوئے ہم اوپر کی منزل پر لے گئے۔
سید سبط حسن بیماری اور ضعف کے باعث مضمحل سامنے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کو اچانک اپنے دفتر میں دیکھہ کر والہانہ انداز میں اٹھہ کر شاہ صاحب کا مودبانہ خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: شاہ صاحب! آپ نے اس بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں کیوں زحمت اٹھائی اور میری جانب متوجہ ہو کر کہا، آپ مجھے حکم دیتے ہم شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری کی سعادت پاتے۔ آپ حضرات کی تشریف آوری میرے لئے ناقابل فراموش سعادت ہے۔ سبط حسن کی آواز گلوگیر تھی، آنکھیں اشک آلود اور ہونٹوں میں کپکپاہٹ تھی ۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
*قند مکرر*
* سبط حسن نے جیل میں ہم سے عربی اور ترجمہ قران پڑھا اور ہم نے ان سے انگریزی
* سید عطا اللہ شاہ بخاری کمیونسٹ پارٹی کے دفتر پہنچ گئے

لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی ۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ ان سے سنئیے زمانۂ اسیری کی کچھ یادیں ۔۔۔

سید سبط حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔
وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چار پائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے مَیں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔ اس پر مَیں نے کہا:”دُنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“.... مصرعہ سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھہ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھہ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران مَیں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھہ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟....اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھہ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا:
یہ کیا؟
مَیں نے کہا، میری کمر میں کھچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چار پائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور مَیں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چار پائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حُسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھہ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیات قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران مَیں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا، چنانچہ ایک سال ہم نے کیسے گزارے۔ اس سلسلے کی معلومات مَیں نے اپنی کتاب ”آخری جیل کے آخری قیدی“ میں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

1953ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران صرف علماءاور مشائخ ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق حضرات عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی خاطر مختلف جیل خانوں میں قید تھے۔ خود مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی بھی تحریک کے موئیدین میں شامل اور پابند جیل کر دئیے گئے تھے۔ سال کے بعد ہماری تو رہائی عمل میں آگئی تھی، لیکن سید سبط حسن چونکہ سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار تھے، وہ ہمارے اسی دیوانی احاطے میں خان عبدالغفار اور فیض احمد فیض کے ساتھ قیدی رہ چکے تھے اور تحریک کے قیدیوں کی آمد پر انہیں منٹگمری جیل میں چند ماہ کے لئے رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں جب وہاں بھی تحریک کے قیدیوں کی کثرت ہوگئی تو انہیں پھر لاہور جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اپنی رہائی کے چند روز بعد ہی مَیں نے سبط حسن صاحب کے ساتھہ خط و کتابت کے ذریعے خیر خیریت دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ نیز کام و دہن کے لئے مَیں نے گھر میں ہی انڈوں اور بیسن وغیرہ سے تیار کردہ بسکٹ نما میٹھی روٹیاں اور چند کتب جیل میں بھجوا دی تھیں، جنہیں وصول کر کے سبط حسن صاحب نے میرے نام جو خطوط لکھے تھے ، اُن کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل / 20
------------------------------------------------
ابوبکر احمد حلیم (پروفیسر): 20، اپریل 1975ء
اخگر فیروزپوری، نند کشور: 20، اپریل 1967ء
اصغر علی: 20، اپریل 1970ء
بیگم عائشہ باوانی: 20، اپریل 1961ء
ثانیہ حسین: 20، اپریل 2005ء
حمیدہ اختر حسین رائے پوری (ادیبہ): 20، اپریل 2009ء
سید سبط حسن (ادیب، نقاد): 20، اپریل 1986ء
سید علوی مالکی (مکہ مکرمہ): 20، اپریل 1971ء
شکیل بدایونی، شکیل احمد (شاعر): 20، اپریل 1970ء
ظفر اللہ خاں( مفتی): 20، اپریل 1998ء
فیروزخان (کھلاڑی): 20، اپریل 2005ء
محمد فاضل بن عاشور (تونس) 20، اپریل 1970ء
منشی عبد الکریم (ملکہ وکٹوریہ) 20، اپریل 1909ء
مولانا محبوب الرحمن ازہری: 20، اپریل 2010ء
نصیر پرواز: 20، اپریل 2021ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ (زیر ترتیب) از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میری بیوی (بانو قدسیہ ) یونیورسٹی میں پڑھاتی تھی، میں ہر روز گاڑی میں اسے چھوڑ نے یونیورسٹی جاتا، یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچ کر گاڑی سے اترتا اور دوسری طرف سے آکر دروازہ کھولتا،

میری بیوی ( بانو قدسیہ ) اترتی اور سہیلیوں کے ساتھ یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر داخل ہو جاتی۔ پھر چھٹی کے ٹائم دوبارہ بیوی ( بانو قدسیہ ) کو لینے آتا اور اسے گاڑی میں بٹھا کر واپس گھر لے آتا۔

میری بیوی کی سہیلیاں ہر روز یہ منظر دیکھتی اور کہتیں کہ ان کے درمیان کتنی محبت اور چاہت ہے۔ وہ دعا کرتیں کہ اللہ تعالی انہیں بھی ایسا ہی شوہر دے۔ یہ پریکٹس ہر روز جاری رہتی،

میں شاہی نوکر کی طرح دروازہ کھولتا اور میری بیوی شہزادی کی طرح اتر کر یونیورسٹی میں داخل ہوتی اور اس کی سہیلیاں حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر اپنے لی بھی ایسے ہی خاوند کی دعائیں کرتیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ در حقیقت ہمارے درمیان کوئی ایسی ویسی محبت نہیں تھی،

در اصل ہماری گاڑی کا دروازہ خراب تھا جو اندر سے نہیں کھلتا تھا اس لئے مجھے اتر کر باہر سے کھولنا پڑتا تھا۔۔

Читать полностью…

علم و کتاب

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نجومی اور ستارہ شناس اِنھیں بُرجوں کے نام لے لے کر قسمت کا حال بھی بتاتے ہیں اور فال بھی نکالتے ہیں۔ دُور کی کوڑی ہی نہیں، غیب کی کوڑی بھی لے آتے ہیں۔ تو اصلاً مین میکھ نکالنے کا مفہوم بات بات پر ’مین‘ اور’ میکھ‘ سے مستقبل کا حال معلوم کرنا اور ہرکام سے پہلے ستاروں کی چال سے فال نکالنا تھا۔ شبھ گھڑی کون سی ہے؟ اِس گھڑی ہم یہ کام کریں یا نہ کریں؟ اور جس گھڑی ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں وہ اچھی گھڑی ہے یا بُری گھڑی؟ گھڑی گھڑی اچھی گھڑی یا بُری گھڑی جاننے کی کوشش کرنا ہی مین میکھ نکالنا تھا۔ ہندوؤں کے ہاں آج بھی شادی بیاہ کی تاریخ طے کرتے وقت یا دیگر اہم مواقع پر جیوتشی بلا کر اُس سے فال نکلوائی جاتی ہے۔ بات بات پر شگون لیا جاتا ہے۔ ہندی میں اس عمل کو شُگن بِچارنا یا شُگن کرنا بولا جاتا ہے۔ نجومی’ شگنیا‘ کہلاتا ہے۔ بہت سی چیزوں سے بہت سا شگون ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ آج تک لیتے ہیں۔ جانوروں کے چلنے اور پرندوں کے بولنے سے شگون لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو سمجھیے کہ آپ جس کام سے جا رہے تھے وہ کام خراب ہوا (بلی کا کام بنا؟ یا وہ بھی بگڑ گیا؟ اس باب میں راوی خاموش ہے)۔گھر کی دیوار پر بیٹھ کر کوئی کوا کائیں کائیں کرگیا تو یہ جانیے کہ وہ اپنی بولی ٹھولی میں آپ کے گھر مہمانوں کی آمد کی اطلاع دے گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں یہی شگون لیا ہے:

وہ آتے کب ہیں؟ مگر ہم نے اُن کے آنے کا
شگون سُن کے کچھ آوازِ زاغ لے تو لیا

اسی طرح ایک اور شاعر نے (جس کا نام ہم بھول گئے اوراس کا شعر یاد رہ گیا) اسی شگون پر ایمان کا اظہار یوں کیا ہے:

گھر کی دیوار پہ کوّے نہیں اچھے لگتے
مفلسی میں یہ تماشے نہیں اچھے لگتے

تو صاحب اسی قسم کی باتوں کو بات کو بات بات پر مین میکھ نکالنا کہا جاتا تھا۔

مسلمان مکمل ایمان رکھتے ہیں کہ خیر اور شر صرف اور صرف اللہ رب العزت کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ کے سوا کسی ہستی، کسی شے یا کسی گھڑی کے اختیار میں نہیں کہ وہ کسی کو یا خود اپنے آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکے۔ اسی وجہ سے مسلمان اپنے فیصلہ کُن مواقع پر ’استخارہ‘ کرتے ہیں یعنی اللہ سے خیر طلب کرتے ہیں، کیوں کہ خیر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کے اختیار میں ہے۔ کسی ستارہ شناس یا کسی ستارے کو کیا خبر کہ کسی معاملے میں اللہ کی مرضی، مشیت اور ارادہ کیا ہے؟ اقبالؔ کہتے ہیں:

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

ستاروں سے اپنی تقدیر وابستہ کر رکھنے کا وہم خود ہمارے ہاں بھی اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ ہمارے لوگ اپنی ہر ’دختر‘ کو ’نیک اختر‘ بتانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ’اختر‘ ستارے کو کہتے ہیں اور ’نیک اختر‘ وہ ہے جس کے ستارے اچھے ہوں۔ مراد اچھی قسمت یا اچھی تقدیر سے ہے۔ بالخصوص شادی بیاہ کے دعوت ناموں میں بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ’’ہماری دختر نیک اختر کی شادی فلاں تاریخ کو فلاں شخص سے ہورہی ہے‘‘۔ تعجب ہے کہ ہر دختر ’نیک اختر‘ ہی بتائی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے اپنی ’دخترِ بداختر‘کی شادی کسی اور ’بد اختر‘سے کردی ہو۔ حالاں کہ ہوتی ہی ہوگی۔ ہمارے بھائی اختر عباس شادیوں کے موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہی یہ گتھی سلجھا سکتے ہیں۔

صاحبو! یہ تو تھا ’مین میکھ‘ کا پس منظر۔ مگراُردو قواعدکی رُو سے ’مین میکھ نکالنا‘ ایک فعلِ متعدی ہے۔ کسی متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے۔ محاورے میں اس کا مفہوم نکتہ چینی کرنا، عیب نکالنا، خُردہ گیری کرنا، فی نکالنا، وہم ڈالنا، خواہ مخواہ اعتراض کرنا اور بے کار حجت کرنا یعنی بے بات کی بات پر بحث کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ہمارے لکھتے لکھتے ہی ہمارے کندھے پر سے جھانک جھانک کر پورا کالم پڑھ جانے کے بعد ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نے چہک کر داد دی: ’’شاباش! تم بھی خوب مین میکھ نکالتے ہو۔‘‘
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة...مجزاه بن ثور السدوسي... بصوت الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل / 25
++++++++++++++
امان اللہ خان / شاہ افغانستان/ 25/ اپریل/ 1960ء
حاجی محمد داؤد خاں / بہرائچ/ 25/ اپریل/ 2008ء
حشمت علی یوسفی/ / 25/ اپریل/ 1986ء
ڈاکٹر عبرت بہرائچی (عبد العزیز خان)/ / 25/ اپریل/ 2021ء
رخشاں ابدالی (سید محمد عثمان)/ / 25/ اپریل/ 1982ء
سید اکبر علی واحدی/ / 25/ اپریل/ 2011ء
سید نصیر حیدر/ / 25/ اپریل/ 2006ء
مطلوب الحسن سید/ / 25/ اپریل/ 1984ء
میکش اکبر آبادی (محمد علی شاہ)/ / 25/ اپریل/ 1991ء
ابراہیم سامرائی/ عراق/ 25/ اپریل/ 2001ء
فواد شہاب/ صدر لبنان/ 25/ اپریل/ 1973ء
ڈاکٹر محمد باقر/ / 25/ اپریل/ 1993ء
جی یم سید (غلام مرتضی)/ / 25/ اپریل/ 1995ء
میر سلطان خان/ شطرنج / 25/ اپریل/ 1966ء
پرکاش سنگھ بادل/ وزیر اعلی پنجاب/ 25/ اپریل/ 2023ء
سید امتیاز الدین/ / 25/ اپریل/ 2023ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اگر آپ کو علم وکتاب چینل کا مواد پسند ہے تو اسے باذوق احباب میں پروموٹ کرنا نہ بھولیں

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل / 23
++++++++++++++
ایم کے بیگ/ / 23/ اپریل/ 2008ء
سیف الدین ولیکا بھائی/ / 23/ اپریل/ 1990ء
شیخ عبدالقدوس / / 23/ اپریل/ 2015ء
مولانا عبدالقیوم چترالی/ / 23/ اپریل/ 2007ء
عزیز حامد مدنی/ / 23/ اپریل/ 1991ء
عقیل ترابی / شیعہ ذاکر/ 23/ اپریل/ 2009ء
محمد یوسف بجلی والا/ / 23/ اپریل/ 1984ء
ستیہ جیت رے/ / 23/ اپریل/ 1992ء
شارق اجمیری (شفیق الدین)/ / 23/ اپریل/ 2016ء
قاسم امین/ مصری دانشور، آزادی نسوان / 23/ اپریل/ 1908ء
محمد جونپوری/ بانی مہدوی تحریک/ 23/ اپریل/ 1505ء
بڑے غلام علی خان/ گلوکار/ 23/ اپریل/ 1968ء
ملا عمر/ اٖفغانستان/ 23/ اپریل/ 2013ء
رحمت خان روہیلہ/ روہیل کھنڈ/ 23/ اپریل/ 1774ء
شمشاد بیگم/ گلوکارہ/ 23/ اپریل/ 2013ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*ذی استعداد استاذ ہی طلبہ کو بناسکتا ہے*

حضرت الاقدس مولانا عبداللّٰه کاپودروی علیہ الرحمہ نے فرمایا:

طلبا کی استعداد، وہی عالم بنا سکتا ہے، جس کا اپنا علم، وسیع ہو اور اس میں سے وہ لے لے کر، منتخب کرکے، طلبا کو پلاتا ہو اور ان کو مراجع سے واقف کراتا ہو کہ اس کتاب کے سلسلہ میں تم لوگ فلانی کتاب دیکھو، فلانی کتاب دیکھو، استاذ کی معمولی رہنمائی ہی بچے کو حرکت میں لاتی ہے، اس کے ذہن کو کشادہ کرتی ہے، اس میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرتی ہے اور استاذ کی شخصیت ہی متعلم کو زمانہ کے تقاضوں سے واقف کار بناتی ہے۔

صدائے دل/جلد: چہارم/صفحہ: ۵۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

قسم کی گھن گرج تھی اس سے مشاعرے کا پورا پنڈال گونجتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا اردو زبان اور تہذیب کا جادوگر سامعین سے ہم کلام ہے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ انہوں نے پورے پچاس برس دہلی میں بزم شنکر وشاد کے مشاعرے کی نظامت کا فریضہ انجام دیا اور اپنے انتقال سے ڈیڑھ ماہ پیشتر یعنی 5مارچ 2016 کو وہ اسی آب وتاب کے ساتھ اس مشاعرے میں آخری بار شریک ہوئے۔ ہرچند کہ ان کے اعضاء جواب دینے لگے تھے اور ان کا جسم کمزور ہڈیوں کا ایک ہار محسوس ہوتا تھا لیکن ان کی جاگتی آنکھوں اور بیدار ذہن میں ماضی، حال اور مستقبل کے سارے مناظر کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔ پروفیسر وسیم بریلوی کے بقول:
”انہوں نے شعری روایات کو نئی زندگی اور مشاعروں کے آداب کو نئی بلندی عطا کی۔ ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے پچاس سالہ سفر میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنی زبان سے کوئی کمزور جملہ ادا کیا ہو۔“
مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے خود اپنے بارے میں ملک زادہ منظور احمد کی رائے یہ تھی:
”مجھے اس بات پر فخر ہے کہ آزادی وطن کے بعد میری شناخت کا امتیازی پہلو مشاعرہ اور مشاعروں میں شعراء کا تعارف کرانا رہا ہے۔“
(شہر ادب: صفحہ94)
ملک زادہ منظور احمد نے محض شہرت، دولت اور ثروت کے لئے مشاعروں کی دنیا آباد نہیں کی تھی۔ وہ خانہ بدوش قسم کے شاعر بھی نہیں تھے وہ اس معاملے میں اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اچھے اور معیاری مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ اپنے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ وہ اپنے جونیئر شعراء اور ادیبوں کے ساتھ یکساں محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کے اندر نہ تو احساس برتری تھا اور نہ ہی وہ اپنے چھوٹوں پر اپنے بڑا ہونے کا رعب دکھاتے تھے بلکہ عاجزی انکسار اور ملائمیت کے ساتھ پیش آنا ان کا وطیرہ تھا۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ ان کی پیدائش 17اکتوبر 1929کو ضلع فیض آباد کے گاؤں ’بھدہنڑ‘ میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے پیدائشی گاؤں کے نام کو غیر شاعرانہ تصور کرتے تھے۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے تاریخ، انگریزی اور اردو میں ایم اے کرنے کے بعد”مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن“کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پہلے پہل 1951میں مہاراج گنج کے ایک کالج میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں گورکھ پور اور پھر اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں 1953سے 1964تک انگریزی کے لیکچرر رہے۔ وہ فراق گورکھپوری کے بعد اردو کے غالباً دوسرے شاعر تھے جنہیں انگریزی پر بھی اردو جیسا ہی عبور حاصل تھا۔ وہ گورکھپور یونیورسٹی میں 1964سے 1968تک اردو کے لیکچرر رہے لیکن انہوں نے درس وتدریس کے میدان میں سب سے زیادہ طویل عرصہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں گزارا، جہاں انہوں نے 1968 سے 1990 تک لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر کی خدمات انجام دیں۔ ملک زادہ صاحب کو مختلف نوعیت کے تقریباً 90ایوارڈوں سے سرفراز کیاگیا۔ جن میں دوحہ کا عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی شامل ہے۔انہیں آخری ایوارڈ دسمبر 2015 میں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے عطا کیا تھا۔
متعدد طلباء نے انہیں تحقیق کا موضوع بنایا۔ ناگپور یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو”پروفیسر ملک زادہ منظور احمد شخصیت اور کارنامے‘‘ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔وہ یوپی اردو اکیڈمی کے صدر اور فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین کے علاوہ قومی اردو کونسل اور پرسار بھارتی کے بھی ممبر رہے۔ انہوں نے پاکستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، بحرین، مسقط، قطر، کناڈا، امریکہ، نیپال جیسے ملکوں میں متعدد مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کی شائع شدہ دس کتابوں میں کالج گرل (ناول) اردو کا مسئلہ، شہر سخن، مولانا ابوالکلام آزاد: فکر وفن(پی ایچ ڈی کا مقالہ) مولانا آزاد الہلال کے آئینے میں، ’غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ، رقص شرر (خود نوشت) انتخاب غزلیات اور’شعر وادب‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ماہنامہ ’امکان‘ کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی شائع کیا۔ جس کے اداریے بڑے فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔
اردو رابطہ کمیٹی کی یہ تحریک محض کوئی رسمی تحریک نہیں تھی بلکہ اس کی پشت پر اخلاص اور محبت کا بوجھ تھا۔ انٹرویو کے دوران ملک زادہ صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس وقت اردو والوں نے بغیر لڑائی کے ہی ہار مان لی ہے۔ ادھر برسوں سے اترپردیش اور دہلی میں کوئی تحریک نہیں ہے۔ وہ جمہوری طریقوں سے اردو زبان کا کھویا ہوا وقار بحال کرانے کے طرف دار تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ”آزادی وطن کے بعد جب ہم ماہ وسال کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے ملک میں اردو زبان کا مسئلہ قدم قدم پر الجھتا ہوا نظر آتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رجعت پرست عناصر نے منظم طورپر عوام سے اردو زبان کے رشتے کو کاٹنے کے لئے ایک سازش کرلی ہو۔“انہیں اردو میں اچھے ادب کی تخلیق نہ ہونے کا بھی شکوہ تھا۔ ان کاکہنا تھا ”تقسیم ملک کے سانحہ نے اچھے ادب کی تخلیق کے لئے بہت سے عنوانات فراہم کردیئے

Читать полностью…

علم و کتاب

" مجھے تو اس کی سخت ضرورت نظر آتی ہے کہ ان ممالک ( یورپ وغیرہ) کے مسلمانوں کے لئے عربی ودینی تعلیم گاہیں ان کے ملکوں میں کھولی جائیں، ان کی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے ہوں، مذہبی رسائل تالیف پائیں، ورنہ اگر آج خبر نہ لی گئی، تو کل دو ہی نتیجے ہوں گے، یا وہ عیسائیوں میں جذب ہوجائیں گے، یا جاہل وبے دین رہ جائیں گے، در حقیقت یہ بھی ایک بڑا کام ہے " ۔

( بَریدِ فرنگ - یورپ کی ڈاک - از علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ تعالی ) ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

اشرف صبوحی (وفات 22-04-1990ء) تحریر: مقبول جہانگیر

Читать полностью…

علم و کتاب

" مرزا محمد ہادی رسوا مرحوم سے میں نے کسی مشکل شعر کا مطلب دریافت کیا، جواب میں لکھا کہ میں کبھی شعر پر غور وفکر نہیں کرتا، بس جو شعر پہلی ہی نظر میں پسند آگیا، چن لیتا ہوں، باقی کو یہ سمجھ کر چھوڑ دیتا ہوں کہ میرے لیے نہیں ہیں
بات خوب اور میرے دل کی کہی، جس شعر کے سمجھنے میں زور لگانا پڑے، وہ شعر نہ رہا فلسفہ ہوگیا " ۔

( خطوط ماجدی، از مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ تعالی )

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں(3؍مئی 1935ء)۔۔۔ صدق کا ہے؟
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (32) وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴾ (1پ24۔آیت 1 و 2)
سو اس شخص سے زیادہ ناانصاف کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچی بات کو جب کہ وہ اس کے پاس پہونچی جھٹلائے۔ کیا جہنم میں ان کافروں کا ٹھکانہ نہ ہونا اور جو لوگ سچ بات لے کر آئے اور اس کو سچ جانا، تو یہ لوگ پرہیز گار ہیں۔ (ترجمہ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ)
اوپر سے ذکر حق پرستوں اور باطل پرستوں کی معرکہ آرائی کا چلا آرہاہے، کہ قیامت کے دن جو ظہور نتائج وکشف حقائق کا دن ہوگا، ان دونوں گروہوں کے درمیان فیصلہ ہوکر رہے گا کہ جو دنیا میں ناحق پرست تھے وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچادئے جائیں گے اور جو اہل حق تھے ان کا شمار متقین (پرہیزگاروں) میں ہوگا اور متقین کا اجر ومرتبہ یہ ہوگا کہ لھم ما یشاؤن عند ربھم وہ جو کچھ بھی چاہیں گے ان کے پروردگار کے پاس سب کچھ موجود ہے کمی کس بات کی ہوسکتی ہے۔
سچی بات(صدق) لیکر آنے والوں اور خود بھی اس کی تصدیق کرنے والوں سے پیغمبروں کا مراد ہونا تو ظاہر ہی کہ حقیقۃً وہی حضرات اصلی سچائی کو لے کرآئے اور اسے پھیلایا ۔ لیکن الفاظ قرآنی عام ہیں۔ اس کے تحت میں وہ امتی بھی داخل ہوسکتے ہیں جو براہ راست خدا سے نہیں لیکن خدا کے رسولوں سے سچی باتیں لے کرآئے۔ اور اسے پھیلاتے رہے ، یہ سعادت کچھ کم ہے؟ اور ان کے لئے یہ بشارت کچھ تھوڑی ہے؟ رسالت تو کسی بندہ کے اختیار کی چیز نہیں لیکن رسول کی لائی ہوئی اور بتلائی ہوئی چیز سچائیوں کو دل وجان سے قبول کرنا انھیں ماننا، انھیں جاننا، ان پر عمل کرنا، انھیں پھیلانا، ان کی طرف لوگوں کا بلانا، یہ ساری راہیں تو بہرحال کھلی ہوئی ہیں اور خوش نصیب ہیں، وہ جو ان راستوں پر چلے۔
آیت قرآنی میں سچ اور سچی باتوں کے لئے لفظ صدقؔ آیاہے اس کا اصلی مصداق یقینا قرآن مجید ہی ہے لیکن بے بس بندوں کے لئے۔ یہ لفظی شہادت بھی بہت ہے۔ آخر آفتاب کی کرنیں کیا بے نور ذرات کو بھی چمکاکر نہیں رہتیں؟ حق تعالیٰ سے بہ صد الحاح وتضرّع دعا ہے کہ ان سطور کو لکھنے والے کو ان کے چھاپنے والے کو، ان کو پڑھنے والے کو، اُن کے سننے والون کو، ہم کو آ پ کو سب کو قرآنی سچائیون اور خداوندی حقیقتوں کا عاشق وشیدا بنادے۔ سچائی پر چلائے اور سچائی ہی پر اٹھائے اور زندگی بھر قول میں، فعل میں، عقیدہ میں صدق ہی پر ثابت وقائم رکھے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

لاہور سنٹرل جیل
استاد محترم! سلام شوق، خوشی اور حیرت سے ملے ہوئے جذبات کے ساتھہ آپ کا خط پڑھا، یقین جانیں، آپ پہلے دوست ہیں جس نے جیل سے رہا ہونے کے بعد اتنی جلد ہم ”اسیرانِ قفس“ کو یاد کیا ہو اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جیل میں خط پا کر کتنی خوشی ہوتی ہے۔ بھائی! آپ کے جانے کے بعد ”دیوانی گھر“ کی فضا بالکل سنسان ہوگئی ہے، آپ کے دلچسپ فقرے، آپ کی باتیں، آپ کی ہنسیاں غرض آپ کی ساری ادائیں رہ رہ کر اور بار بار یاد آتی ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد تین چار دن تک تو مَیں نے عربی کی کتابیں اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں، اب طبیعت پر زور دے کر اور جبر کر کے پڑھائی پھرشروع کی ہے۔ استاد مولانا محمد علی صاحب ہیں جو ان دنوں روزے رکھہ رہے ہیں، یہاں کے لیل و نہار بدستور ہیں، البتہ ”تسلیات عامہ“ کا بڑا زور ہے۔ دوستوں کی رہائی کی افواہیں گرم ہیں، سب کی نگاہیں روزنِ در پر لگی رہتی ہیں، اللہ اپنا فضل کرے، (خط کا اقتباس)
سبط حسن 24-11-1953۔

اسی طرح ایک دوسرے خط میں لاہور سنٹرل جیل ہی سے لکھا :
رفیقی و حبیبی سلامِ شوق، المنجد اور میٹھی روٹیاں ملیں۔ ایک نے دیدۂ عقل کو روشن کیا تو دوسری نے کام و دہن کو لذت بخشی۔ بھائی! آپ کا اور آپ کی پُر خلوص محبتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے لائوں۔ صبح چار بجے اٹھتا ہوں، چائے کے ساتھ میٹھی روٹیاں خوب مزہ دیتی ہیں، کھاتاہوں اور بھابھی کو دعائیں دیتا ہوں ، پھر عربی پڑھتا ہوں اور المنجد کی ورق گردانی کرتا ہوں۔ میٹھی روٹیوں کے بارے میں شاہ صاحب کا فرمانا ہے کہ ان کے مقابلے میں ”محکم دین لاہور“ کے بسکٹ گوبر کے اُپلے معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال ہم قیدی، مہاجر اور یتیم و اسیر اور سید۔ آپ لوگوں کے جان و مال کو دعا دیتے ہیں، امید ہے آپ یونہی دولت کی زکوٰة نکالتے رہیں گے....(خط کا اقتباس)

.... غرض یہ کہ سید سبط حسن کے جو خطوط میرے نام ہیں۔ ان میں لاہور سنٹرل جیل کے علاوہ کیمبل پور جیل اور لاہور شہر سے بھی ہیں۔ مندرجہ بالا خط میں ”تسلّیات عامہ“ کا ذکر ہے، اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ اس تحریک میں دیگر قیدیوں کے ساتھ کئی پہلی مرتبہ آئے تھے، ان میں سے ایک صاحب ایسے تھے جو اپنی بارک سے مجھے ملنے آئے تو بار بار جیل سے رہائی کی بابت حکومتی فیصلے کا تذکرہ کرتے رہے، ہاں ہاں کہہ کر مَیں بھی ان کی تائید کرتا رہا، ان کی واپسی کے بعد سبط صاحب نے دریافت کیا۔ یہ کون صاحب تھے۔
مَیں نے کہا یہ محکمہ تسّلیات عامہ کے ڈائریکٹر ہیں، نیز حکومت نے بھی سی آئی ڈی کے افراد، قیدی کی صورت میں لوگوں کو دلبرداشتہ کرنے کے لئے بھیج رکھے تھے۔ میری بات سن کر سبط حسن صاحب کھل کھلاکر خندہ ز ن ہوگئے، نئی اصطلاح کی خوب داد دی تھی، بہر نوع سبط حسن صاحب نے میرے نام خطوط کے علاوہ امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے نام لکھے گئے، خط کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور سے ان کی صحت و عافیت معلوم کی ہے۔
لاہور جیل سے رہائی کے بعد سید سبط حسن مطبوعات پاکستان ٹائمز و امروز کے نئے ہفت روزہ لیل و نہار کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے تھے ..جب حکومت نے ادارے کی تمام مطبوعات جبراً بند کر دیں تو سبط حسن صاحب ایک انشورنس کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے، ایک نامور ادیب صحافی اور دانشور کے لئے انشورنس کا شعبہ کرب ناک تھا، معاشی تنگ دامانی نے قلب و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا کہ صاحبِ قلم، صاحب فراش ہوگیا۔ ان کی ناسازیءطبع کی خبر سن کر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی خدمت میں اس کا ذکر کیا تو سنتے ہی فرمایا:”جیل کے ساتھی سبط حسن“ کی تیمار داری کے لئے ابھی جانا چاہئے.... شاہ صاحب ان دنوں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں حاجی دین محمد کے ہاں مقیم تھے، حاجی صاحب کے فرزند حاجی احمد کی گاڑی میں ہماری روانگی ہوئی۔ شاہ صاحب کے فرزند علامہ سید ابوذر بخاری بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں شاہ صاحب نے سبط حسن کی رہائش گاہ کی بابت معلوم کیا تو مَیں نے اُس کے محل و وقوع کی بابت معلومات دیتے ہوئے عرض کیا.... میکلوڈ روڈ پر واقع علامہ اقبال کی سابقہ رہائش گاہ کی گلی میں دفتر روزنامہ ”کوہستان“ کے اوپر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں سبط حسن رہائش پذیر ہیں۔
یہ سن کر شاہ صاحب نے خاموشی اختیار کی، اتنے میں ہم دفتر کوہستان کے دروازے پر پہنچ گئے تو دفتر کے عملے نے شاہ صاحب کو دیکھتے ہی والہانہ جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھہ شاہ صاحب کا استقبال کیا۔ اپنے دفتر کے کمرے سے نسیم حجازی صاحب ایڈیٹر کوہستان بھی آگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ شاہ صاحب دفتر کوہستان دیکھنے آئے ہیں۔ اس لئے ساتھہ ہو کر پورے دفتر کا مشاہدہ کرایا۔ آخر میں شاہ صاحب نے میری جانب متوجہ ہو کر اشارتاً سبط حسن کی بابت دریافت کیا۔ مَیں نے اوپری منزل کی جانب اشارہ کیا تو نسیم حجازی صاحب فوراً بول پڑے۔ اوپر تو کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہے....شاہ صاحب! ہاں مجھے معلوم ہے ، مجھے مکان سے نہیں، مکین سے غرض ہے۔ مکین اگر جہنم کے کنارے پر بھی ہوگا، تو

Читать полностью…

علم و کتاب

سید سبط حسن تحریر حمید اختر وفات 20-04-1986ء

Читать полностью…

علم و کتاب

*محدثین اور ائمۂ اصول و کلام کے ہاں روایات کے صحیح و سقیم ہونے کا مدار*

شیخ الاسلام حضرت الاقدس مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰه علیہ، مولانا نجم الدین اصلاحی علیہ الرحمہ کو خط میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

روایات کے وضع اور سقم و صحت کا مدار، سند اور رُواۃ کے احوال اور صفات پر ہے۔ امام بخاریؒ اور دیگر محدثین اس کو معیار قرار دیتے ہیں، متن کی معقولیت اور غیر معقولیت، ان کا نصب العین نہیں۔ بخلاف ائمۂ کلام و اصول، ان کا نصب العین متن ہے، جو روایت، اِن ائمہ کی نظر میں قطعیات اور اصولِ دین اور مجمع علیہ کے خلاف ہوگی، اس کو موضوع قرار دیں گے، خواہ رُواۃ، کیسے ہی بلند پایہ کیوں نہ ہوں۔ اور محدثین اگر سند کو معیارِ وثاقت و حفظ وغیرہ پر کامل پائیں گے تو صحت کے مقرر ہوجائیں گے، متن کا کچھ حال ہو۔ ائمۂ کلام جن متون کو قطعیات کے خلاف سمجھ کر ان کے منکر ہوجاتے ہیں، ان مین بسا اوقات، غور و فکر کی کوتاہی یا صاحبِ نظر کا ضعفِ فکر بھی باعث بن جاتا ہے اور یہی امر، باعث تفاوتِ مراتب ہے۔ "رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ"۔ اور "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔ اور "فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ"۔ اس کے شواہد ہیں۔ بنا بریں تحقیق اور مکمل توجہ اور تفتیش کی ضرورت ہے، اس بارہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰه علیہ کی قدر و منزلت معلوم ہوتی ہے۔

مکتوباتِ شیخ الاسلام/جلد: اول/صفحہ: ۴۴۷/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

نعمت کی ناشکری کا نتیجہ نعمت سے محرومی ہے

مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللّٰه علیہ ایک خط میں لکھتے ہیں:

قلب پر اگر خدا کے فضل کی بارش ہو اور عمدہ جذبات اور واردات اس طرف سے آئیں تو اس کی قدر اور حفاظت ضروری ہے، ورنہ نعمت عظمی کی ناشکری ہوگی، جس کا نتیجہ حرمانِ نعمت اور قہرِ منعم ہے، اور جو نعمت ناشکری کی وجہ سے چھین لی جاتی ہے، پھر نہیں ملتی ہزار سر پٹکے، بہت ہوشیار رہنا چاہیے، حفاظت یہ ہے کہ جن اعمال کی وجہ سے وہ نعمت ملی ہے، اس پر استمرار اور دوام، شکر و عجز کے ساتھ اس کے منافیات سے اجتناب رکھے۔

سیرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللّٰه علیہ/صفحہ: ۳۱۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel