ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

آپ کے اس علم و کتاب چینل پر comment بھیجنے کا اہتمام ضرور کریں، اس سے کام کرنے والوں کو تحریک ملتی ہے

Читать полностью…

علم و کتاب

مٹی پاؤ ہمزہ یا بغیر ہمزہ کے؟۔۔۔۔ اطہر علی ہاشمی
2015-01.16
گزشتہ دنوں کراچی میں ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب کے بڑے بڑے اشتہارات بیشتر اخباروں میں دیکھے۔ ان اشتہاروں میں ’’مسجد کی سنگ بنیاد‘‘ رکھنے پر مبارک باد پیش کی گئی تھی۔ غالباً اشتہار کا مضمون بنانے والے کے پیش نظر ’’بنیاد‘‘ تھی جو مونث ہے۔ لیکن خود اس جملے کی بنیاد ہی غلط ہے۔ یہاں ’’کی‘‘ کی جگہ ’’کا‘‘ ہونا چاہیے، یعنی ’’مسجد کا سنگِ بنیاد‘‘۔ ان اشتہارات پر کروڑوں روپے صرف ہوئے ہوں گے۔ اگرکسی پڑھے لکھے کاپی رائٹر کی خدمات بھی حاصل کرلی جاتیں تو کیا حرج تھا! بات اسی ایک جملے کی نہیں، اور کئی مقامات پر دیکھنے، پڑھنے میں آیا کہ مذکر، مونث کی بنیاد دوسرے لفظ پر رکھی گئی۔ ایسے میں ترتیب کو الٹ کر دیکھ لیا جائے جیسے سنگِ بنیاد کا مطلب ہے ’’بنیاد کا سنگ‘‘۔ اس سے بات واضح ہوجائے گی۔

تیر، تکا اکثر استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: لگ گیا تیر، نہیں تو تُکّا۔ قیاس آرائی، اندازہ، اٹکل کو بھی تکا لگانا کہتے ہیں۔ طالب علموں (یا طالبانِ علم جن پر یہ تہمت ہے) سے بھی سننے کو ملتا ہے کہ سوال کا جواب تو آتا نہیں تھا، بس تکے لگائے۔ تُکّا اصل میں بغیر نوک کے تیر کو کہتے ہیں جو تیراندازی کی مشق میں کام آتا تھا۔ اب تو تیراندازی کا فن ہی ختم ہوتا جارہا ہے، اس کی جگہ آتشیں اسلحہ نے لے لی ہے۔ کلاسیکی ادب کی فرہنگ میں رشید حسن خان نے ایک مثال ’’تُکّا سی داڑھی‘‘ کی دی ہے جس کا مطلب ہے وہ بڑی ڈاڑھی جو رخساروں پر نہ ہو۔ رشید حسن خان نے ’’داڑھی‘‘ کو ’دال‘ سے لکھا ہے اور عام طور پر یہی لکھا جاتا ہے، لیکن لغت میں یہ ’ڈال‘ سے ہے یعنی ڈاڑھی۔ بابائے اردو نے بھی اپنی انگریزی اردو لغت میں BEARD کا ترجمہ ’ڈاڑھی‘ ہی کیا ہے۔ تاہم دستیاب اردو لغات میں وضاحت ہے کہ ڈاڑھی اور ڈاڑھ فصیح ہیں۔ لکھنؤ میں ’ڈال‘ کو ثقیل سمجھ کر داڑھی بولا اور لکھا جاتا ہے۔ لیکن ڈر، ڈبہ، ڈاکا، ڈومنی وغیرہ کو ’دال‘ سے ادا نہیں کیا جاتا۔ ممکن ہے اس بارے میں کوئی صاحبِ علم دلیل لے آئے کہ فلاں فلاں لغت میں ڈاڑھی دال ہی سے ہے۔ ہماری دال تو گلنے سے رہی۔ ہمارا خیال ہے کہ جس کی ڈاڑھی گھنی اور لمبی ہو وہ ’ڈال‘ ہی سے بولے اور لکھے جیسے مولانا فضل الرحمن کی ہے۔ ویسے ایک ڈاڑھی ایسی بھی ہوتی ہے جو محض ’’غبار‘‘ ہوتی ہے۔ ایسی ڈاڑھی ہمارے سابق وزیراطلاعات قمر زماں کائرہ صاحب کی ہے۔ معروف سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی ڈاڑھی بھی ’’غباری‘‘ تھی، بس شیو کرانے کی تہمت نہیں تھی۔ عام عرب بھی ڈاڑھی بڑھانے کے نام پر ہونٹوں کے نیچے چند بال چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بے اختیاری ڈاڑھی ہے۔

ایک مذہبی علمی رسالہ ’’البرہان‘‘ نظر سے گزرا۔ اس میں ایک جملہ ہے ’’ہمارا طالب علمانہ اور عاجزانہ استدعا ہے‘‘۔ گمان غالب ہے کہ یہ کمپوزنگ کا سہو ہے ورنہ استِدعا (اِس۔ تِد۔عا) مونث ہے اور اس میں ’ث‘ پر زبر نہیں ہے جب کہ کچھ لوگوں کو بولتے سنا ہے۔

آج کل ملک بھر میں بڑی پکڑ دھکڑ ہورہی ہے اور جو پکڑے جاتے ہیں اُن سے ’’پوچھ گچھ‘‘ بھی ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز پر پوچھ کے ساتھ ’’گچھ‘‘ کے مہمل کا تلفظ مختلف سننے میں آتا ہے۔ کوئی گاف پر زبر لگاتا ہے اور کوئی پیش۔ یہ گِچھ ہے یعنی گاف کے نیچے زیر۔ آپ چاہیں تو اسے ’’بالکسر‘‘ کہہ لیں۔ اصل میں ہماری تحریر کالمانہ ہوتی ہے، عالمانہ نہیں۔ اسی لیے کوئی کوئی بات عالموں کی سمجھ میں نہیں آتی، مگر بقول میرؔ ’’گفتگو لیکن مجھے عوام سے ہے‘‘۔ اور عوام ہیں کہ کسی طرح مونث سے مذکر ہونے پر تیار نہیں۔ عطاالحق قاسمی جیسا عالم زادہ اور بڑا کالم نگار بھی عوام کو مذکر کا درجہ دینے پر تیار نہیں اور ٹی وی چینلز کا تو کہنا ہی کیا۔

رشید حسن خان نے داڑھی تو دال سے قرار دی ہے لیکن بلند آواز سے رونے پیٹنے کو ’’ڈاڑھ مار کر‘‘ لکھا ہے اور سند میں ایک شعر دیا ہے:

کہاں وے کنویں اور کدھر آبشار

کوئی دل میں رووے، کوئی ڈاڑھ مار

مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاڑھ کی جمع ڈھاڑیں اور بلند آواز سے رونے کو بھی ’’ڈھاڑیں‘‘ مار کر رونا کہتے ہیں۔

’’زبان و بیان‘‘ کے عنوان سے ایک صاحب قربان انجم روزنامہ ’امت‘ میں بہت اہم اور مفید کالم لکھ رہے ہیں۔ ہم ان سے ضرور استفادہ کرتے ہیں۔ تاہم 13 جنوری کے کالم میں انہوں نے بھی ’’اغلباً‘‘ استعمال کیا جو صحیح نہیں ہے، ’’اغلب‘‘ یا ’’غالب‘‘ سے کام چلا لیتے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*میری علمی و مطالعاتی زندگی* ۔۔۔

شخصیّت نمبر 01

*محدث کبیر شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللّٰه بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک*(*قسط نمبر 06*)

*شیخ العرب العجم مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللّٰه ایک جامع الصفات و الکمالات شخصیت، ایک شفیق استاذ عظیم محدث اور ایک محبوب راہنما*

ارشاد فرمایا : شیخ العرب و العجم مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللّٰه کی شان سب سے نرالی تھی۔ علماء بہت دیکھے، مدرسین کے درس میں شریک ہوئے، ہندوستان کی قیادت کو پرکھا مگر جو چیز اور امتیازی صفات شیخ مدنی رحمہ اللّٰه میں دیکھے وہ کہیں دوسری جگہ نظر نہیں آئے۔ شیخ مدنی رحمہ اللّٰه کا تقوی، شجاعت، شرافت، تواضع، انکساری اور کسر نفسی ان کے لیے طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ جب حضرت مدنی کا نام سنا تھا اور دیکھا نہیں تھا، تو نام کی شہرت سے ان کی شخصی عظمت کا ایک نقشہ ذہن میں بن چکا تھا، خیال تھا کہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور امیرانہ رکھ رکھاؤ کے آدمی ہوں گے۔ جب ان کی مجلس دیکھی، اُن کی معاشرت دیکھی تو انہیں کچھ اور پایا، ان کا علم بھی بے مثال تھا اور حلم بھی بے مثال۔ دوسری درسگاہوں میں منطق اور فلسفہ کی بڑی کتابیں پڑھ کر جب شیخ مدنی کی درسگاہ میں حاضری دی تو ان کی درسگاہ میں سب سے بڑی خصوصیت یہ پائی کہ خود کو پہچان لیا، خودشناسی کا احساس ہوا اور علم اور علماء کی شان سامنے آئی۔ جب مجھے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا موقعہ ملا تو اس زمانہ میں بھی شیخ مدنی رحمہ اللّٰه کا درسِ حدیث ہوا کرتا تھا۔ میں نے اپنے زمانۂ تدریس میں بھی شیخ مدنی رحمہ اللّٰه کے درس میں شرکت کی کوشش کی۔ تدریس کے اوقات کے علاوہ ۱۲ بجے کے بعد، بعد العصر، بعد العشاء کے درسوں میں شریک ہوا کرتا تھا۔ شیخ مدنی رحمہ اللّٰه کا درس علمی اور مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ آسان اور سہل ہوا کرتا تھا ۔
ایک مرتبہ پندرہ روز تک مسلسل حضرت مدنی رحمہ اللّٰه سفر پر رہے، جب واپسی ہوئی تو سب کو یقین تھا کہ حضرت رحمہ اللّٰه تھکے ہوئے ہیں اور مطالعہ بھی نہیں کیا، سبق نہیں ہو گا۔ مگر آپ گاڑی سے اترے اور سیدھے دار الحدیث میں پہنچے اور سبق پڑھانا شروع کر دیا۔ نواقضاتِ وضو کا بیان تھا، ارشاد فرما رہے تھے کہ مسئلہ زیر بحث میں آٹھ مذاہب مشہور ہیں، پھر مذاہب، ان کے دلائل اور تفصیل سے بحث کی۔ طلبہ متحیر کہ تھکے ماندے ہونے کے باوجود اس قدر علمی تبحر، وسعت مطالعہ اور قوت حافظہ، یہ تو بس ان ہی کی کرامت تھی۔
ایک مرتبہ درس کے دوران ایک طالب علم نے کسی مسئلہ میں ’’شمس بازغہ‘‘ کی بحث چھیڑنا چاہی تو شیخ مدنی رحمہ اللّٰه نے متعلقہ مسئلہ میں عبارات پڑھ پڑھ کر بحث کا مکمل احاطہ کیا اور فرمایا بھائی میں نے جب ’’شمس بازغہ ‘‘ پڑھی تھی اُس زمانے میں کل نمبر پچاس ہوا کرتے تھے اور مجھے امتحان میں تریسٹھ نمبر حاصل ہوئے تھے۔
بہر حال اپنے اساتذہ میں شیخ مدنی رحمہ اللّٰه اور اکا برِ ہند میں شیخ مدنی رحمہ اللّٰه سے جو قلبی عقیدت وارفتگی اور غیر اختیاری تعلق رہا وہ کسی دوسرے سے پیدا نہ ہو سکا۔
(صحبتے با اہل حق ص ١٥٦)
ارشاد فرمایا : دارالعلوم میں آپ کو جو کچھ نظر آتا ہے یا آپ کا جو ہمارے ساتھ حسنِ ظن کا معاملہ ہے، یہ سب حضرت شیخ مدنی رحمہ اللّٰه اور حضرت لاہوری رحمہ اللّٰه کی دعاؤں کے ثمرات ہیں۔ سالانہ جلسہ کی بات ہوئی تو حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا جی چاہتا ہے کہ دارالعلوم کا سالانہ جلسہ منعقد ہو، مگر سوال یہ ہے کہ کس کو بلایا جائے؟ کون رہ گیا ہے، کس کو دعوت دی جائے؟ نہ تو شیخ مدنی رحمہ اللّٰه ہیں اور نہ ہی حضرت لاہوری رحمہ اللّٰه ہیں۔ شیخ التفسیر حضرت لاہوری رحمہ اللّٰه بڑی شفقت فرماتے تھے، مجھے علیحدہ اپنے خلوت خانہ میں بلاتے، بڑی شفقت فرماتے، سینے سے لگاتے۔ ہمارا کوئی سالانہ جلسہ حضرت لاہوری رحمہ اللّٰه کے بغیر منعقد نہیں ہوا۔ اور اب جو یہ رونقیں آپ کو نظر آتی ہیں یہ سب حضرت مدنی رحمہ اللّٰه اور حضرت لاہوری رحمہ اللّٰه کے فیوض اور برکات کے اثرات ہیں۔
(صحبتے با اہل حق ص ٢٦٣)
ارشاد فرمایا حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰه کے تلامذہ بہت تھے، مداح بھی بہت تھے، ہر شاگرد دل و جان سے نثار ہونا چاہتا ہے۔ مگر ان میں جو مقام شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللّٰه کو ملا وہ تو سب سے انوکھا اور نرالا ہے اور جتنا فیض حضرت مدنی رحمہ اللّٰه کا پھیلا اُس تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ آج برّصغیر میں علم حدیث کی جو خدمت ہو رہی ہے سب بالواسطہ یا بغیر بالواسطہ شیخ مدنی رحمہ اللّٰه کے فیوض و برکات ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ العرب والعجم حضرت مدنی رحمہ اللّٰه نے اپنے استاد کے ساتھ قرب و محبت، اخلاص و خدمت اور تعلق و اختصاص کا جو مقام حاصل کر لیا تھا وہ دوسروں کو حاصل نہ ہو سکا۔
(صحبتے با اہل حق ص ٢٥٩)

(جاری ہے)

ٹائپنگ۔ وحید اللّٰه ریحان

ٹیلی گرام چینل:
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

اس بزم علم وکتاب میں مولانا محمد مسلم مرحوم کا تذکرہ وقتا فوقتا آتے رہتا ہے، دو چار سال قبل اس بزم کے روح رواں مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری صاحب مرکز جماعت میں ہمارے ساتھ پرانے شناساؤں کے ساتھ ایک ملاقات کی غرض سے گئے تھے، تو مفتی صاحب نے جماعت کی ان عظیم شخصیات کے حالات اور ان کے مضامین کے مجموعوں کی فرمائش کی تو وہاں بیٹھے ذمہ دار نے کہا کہ جماعت کے یہاں شخصیت پرستی نہیں ہے، یہاں تنظیم اور مشن پر توجہ دی جاتی ہے۔لہذا ان شخصیات کے سلسلے میں یہاں ابتک کوئی دلچسپی نہیں دی گئی ہے، قربانی دینے والی شخصیات کی زندگیوں کا عملی نمونہ سامنے نہ ہونے اور صرف نظریات اور تنظیم پر توجہ دینے کا نتیجہ اب سامنے ہے، آج ملت کے ان محسنین کو فراموش کردیا گیا ہے، جب تک کوئی شخصیت عہدے پر ہے اس وقت تک اس کی عزت اور احترام ہوتا ہے، جب وہ منظر سے ہٹ جائیں تو ان کی حیثیت تاریخ کے ایک پھٹے ہوئے ورق سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بس کبھی کبھار زبان پر احتراما نام آگیا تو بڑی بات ہے، ورنہ ان کی قربانیوں، تدبر اور سمجھ بوجھ کی اشارۃ تعریف سے آگے بات نہیں جاتی، ہیں نا بڑے افسوس کی بات۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مسلم صاحب مرحوم پر معصوم صاحب کا مضمون پوری اردو دنیا کی طرف سے "فرض کفایہ" تھا جو انہوں نے "قرض حسنہ" کے طور پر ادا کر دیا ہے اللہ تعالیٰ مسلم صاحب مرحوم کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی ملت اسلامیہ ہند کو ایک لڑی میں پروکر "بنیان مرصوص" بنانے کی بے لوث مخلصانہ خواہش کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچادے اور معصوم صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ملت کے اس عظیم محسن کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا
مسلم صاحب کے نام سے واقفیت تو بچپن کے ان دنوں سے تھی جب دارالعلوم دیوبند کی طالب علمی کے ابتدائی زمانے (1970-71) میں لائبریری میں دعوت اخبار پڑھنے کو ملتا تھا' اس وقت میری عمر بارہ سال سے زائد نہ ہوگی "فکر ونظر" اور دعوت کے اولین صفحہ پر"محمد مسلم" ذہن کے نہاں خانوں میں ایسا مرتسم ہوا کہ ہمیشہ مسلم صاحب سے ملنے کی خواہش چھپی رہی لیکن کم عمری' اس زمانے کی سفری صعوبتیں اور دارالعلوم کے ماحول میں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد سے ملنے پر قدغن نے "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے" کے زمرے میں پہنچا دیا ۔ جب شعور بیدار ہوا' تو مسلم صاحب مرحوم نے دہلی کو الوداع کہہ دیا تھا لیکن مرحوم کے تحریکی ذہن اور تحریری سرمایہ نے وقت کے ساتھ ساتھ ان سے عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا 'اپنے بہت سے ایسے عزیزوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے ان کی سادہ زندگی'تحریکی خیالات سے براہ راست استفادہ کیا۔
معصوم صاحب لائق تحسین ہیں کہ وہ گاہے بگاہے ایسی شخصیات پر مضامین قلم بند کر کے قارئین کو استفادہ کا موقع فراہم کرتے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ عبید اقبال عاصم علی گڑھ ٣/جولائی ٢٠٢٥

Читать полностью…

علم و کتاب

اردو صحافت اور محمد مسلم

معصوم مرادآبادی

آج عہد ساز اردو روزنامے " دعوت" کے سابق ایڈیٹر محمد مسلم کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن یعنی 3 جولائی 1986 کو دہلی میں وفات پائی تھی ۔ محمد مسلم نے اپنی تمام زندگی ملی اور صحافتی خدمات میں صرف کی۔ 1953 سے لے کر تادم آخر ’دعوت‘ کے مدیر کی حیثیت سے تقریباً 34 سال وہ اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ مسلم صاحب کی پیدائش 20ستمبر 1920 کو بھوپال کے محلہ جہانگیرآباد میں ہوئی۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم گھر پر ہی اپنے نانا سے حاصل کی۔ 1935 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اور 1938میں بھوپال کے قدیم روزنامے ’ندیم‘ سے بطور سب ایڈیٹر وابستگی اختیار کی۔ یہیں سے ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1947میں باقاعدہ ’ندیم‘ کی ادارت سنبھالنے کے بعد اپنی بے باکی اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور 1948 میں قید کرلئے گئے۔ چند مہینے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد رہا ہوئے۔ اس سے قبل 1946 کی غذائی تحریک کو ناکام کرنے کی غرض سے چلائی گئی مہم میں انہیں جیل جانا پڑا تھا۔ 1953 میں بھوپال سے ’ندیم‘کی ادارت سے سبکدوش ہوکر ’دعوت‘ کے مدیر معاون کے طور پر دہلی تشریف لائے اور تمام عمر یہیں بسر کی۔ 1956 میں باقاعدہ ’دعوت‘ کے مدیر مقرر ہوئے اور اس طرح 1982 تک اپنے مخصوص طرز نگارش اور لب ولہجے کے سبب اردو صحافت میں مقبول ہوتے چلے گئے۔
میں نے محمد مسلم صاحب کی صحافتی خدمات کے بارے میں کچھ پرانے کاغذات، کتابوں اور مجلوں کی ورق گردانی شروع کی تو اس سلسلے کی سب سے کار آمد چیز وہ مجلہ محسوس ہوا جو لکھنؤ میں منعقدہ آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے دوسرے اجلاس کے موقع پر شائع ہوا تھا۔ یہ کانفرنس 17 تا 19 نومبر 1973 کو لکھنؤ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس نہایت کار آمد مجلہ کے مرتب اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے بانی صدر ہاشم رضا عابدیؔ الہ آبادی مرحوم تھے۔ مجلے کے پہلے صفحے پر محمد مسلم صاحب کا نام ہاتھ سے لکھا ہوا دیکھ کر مجھے کچھ تجسس گزرا۔ اندازہ ہوا کہ یہ مجلہ در اصل مسلم صاحب کی ملکیت تھی اور کسی نے اسے عاریتاً لیا ہوگا اور مختلف ہاتھوں سے گزر کر اس کی فوٹو کاپی مجھ تک پہنچی۔ اس مجلہ میں ہمارے عہد کے اہم ترین صحافیوں کے ساتھ محمد مسلم صاحب کا ایک مضمون بھی شامل تھا جو انہوں نے اردو اخبارات کے مسائل پر قلم بند کیا ہے اور صفحہ 63 پر موجود ہے۔ دو صفحات کے اس مختصر مضمون میں محمد مسلم صاحب نے اردو اخبارات اور اخبار نویسوں کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج سے لگ بھگ نصف صدی پہلے اردو صحافت جن مسائل سے جوجھ رہی تھی ان میں آج تک کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ اخبار سازی اور طباعت کی تکنیک یکسربدل گئی ہے اور نئی ٹکنالوجی نے اردو اخبارات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے۔ وہ اخبارات جو کسی زمانے میں لیتھو مشینوں پر دقت پسند کاتبوں کی خوبصورت مگر دیر طلب کتابت سے آراستہ ہوتے تھے ان کی جگہ اب رنگین ویب مشینوں اور کمپیوٹروں نے لے لی ہے۔ آج اردو کا اخبار نکالنا جتنا آسان ہے اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ تکنیکی انقلاب نے جہاں اردو اخبارات کو بے پناہ سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں ان سہولتوں کا فائدہ اٹھا کر اردو صحافت میں کچھ ایسے عناصر بھی داخل ہوگئے ہیں جو محض مفادات حاصلہ اور کاروبار کرنے کیلئے اخبار نکالتے ہیں۔
مسلم صاحب اردو صحافیوں کی جس اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے تھے، اس نسل کے لوگ اب قطعی ناپید ہوچکے ہیں۔ آزادی کے بعد کے صحافیوں میں مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا عثمان فارقلیط، حیات اللہ انصاری، جمیل مہدی، عشرت علی صدیقی، محمد مسلم اور ناز انصاری جیسے کہنہ مشق صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس پر نظر ڈالنے سے اردو صحافت کے شاندار ماضی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اسی صف کے ایک صحافی محمد صلاح الدین کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ ’جسارت‘ اور بعد کو ہفتہ وار ’تکبیر‘ کے ایڈیٹر ہوئے اور جنہیں پاکستان کی ظلمت پسند طاقتوں نے نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ مجھے ان سے نیاز حاصل تھا۔ 80 کی دہائی میں کراچی میں اس کے بعد دہلی میں ان کے ایک سفر کے دوران ’دعوت‘ کے دفتر واقع سوئیوالان میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ صلاح الدین صاحب کے علاوہ ہندوستان میں جن صحافیوں سے نیاز حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں حیات اللہ انصاری، سلامت علی مہدی، ظ انصاری، محمد سلیمان صابر، ناز انصاری، محفوظ الرحمن اور سعید سہروردی ایسے نام ہیں جن کی محبت اور شفقت سے مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھے کا موقع ملا، لیکن افسوس کہ محمد مسلم صاحب سے کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ البتہ ان کا تذکرہ اپنے مشفق و محترم بزرگ مولانا افتخار فریدی اور محترم دوست جاوید حبیب مرحوم کی زبانی بار بار سنتا رہا اور اس بات پر ملال رہا کہ کاش مجھے بھی مسلم صاحب سے شرف نیاز حاصل ہوتا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 261
انتخاب مطالعہ
تحریر: *جبران خلیل جؔبران*

*ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد!*

گاؤں کی آبادی سے الگ،ایک تنہا مکان میں ایک عورت انگھیٹی کے سامنے بیٹھی اون کی چادریں بن رہی تھی، پہلو میں اس کا اکلوتا بچہ تھا، جو کبھی آگ کے شعلوں کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنی ماں کے بے سکون چہرہ کو،یکا یک آندھی تیز ہوگئی اور مکان کے در و دیوار لرزنے لگے ۔ بچہ ڈر کر اپنی ماں سے اور قریب ہوگیا؛تاکہ اس کی آغوش شفقت میں عناصر کی غضب ناکی سے محفوظ ہوجائے! ماں نے اسے اپنے سینہ سے چمٹا کہ پیار کیا اور اپنے گھٹنوں پر بٹھا کر کہنے لگی :

بیٹا! ڈرو نہیں! فطرت انسان کو اس کی بے بضاعتی کے مقابلہ میں اپنی عظمت اور اس کی کمزوری کے مقابلہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے نصیحت کرنا چاہتی ہے، نہ ڈر میرے بچے کہ زمین پر گری ہوئی برف، آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں اور فضاء کو تلپٹ کر دینے والی آندھی کے جھکڑوں کے پس پردہ ایک عام اور برگزیدہ روح ہے، جو میدانوں اور پہاڑوں کی ضروریات کو جانتی ہے،ہر چیز کے پس پردہ ایک روزن ہے، جس میں سے یہ روح انسان کی بے بضاعتی کو بہ نگاہ رحمت و شفقت دیکہتی ہے،خوف نہ کھا میرے کلیجہ کے ٹکڑے! کہ فطرت _ جو بہار میں مسکراتی، گرمیوں میں قہقے لگاتی اور خزاں میں آہیں بھرتی ہے _ اب رونا چاہتی ہے؛تاکہ زمین کے انتہائی طبقہ میں پڑی ہوئی زندگی اس کے سرد آنسوؤں سے اپنی پیاس بجھائے، میرے بچے سوجا! کل جب تو بیدار ہوگا تو آسمان کو صاف اور میدانوں کو
برف کی سفید چادر اوڑھے دیکھے گا، جس طرح موت سے مقابلہ کے بعد روح پاکیزگی کا لباس پہن لیتی ہے۔
سو جا! میرے اکلوتے بچے تیرا باپ اس وقت ہمیں ابدیت کی نزہت گاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ مبارک ہے وہ آندھی اور وہ برف باری، جو ہمیں ان غیر فانی روحوں کی یاد سے ہم آغوش کر دے! میرے پیارے ، سوجا، بہار آنے پر تو انہی عناصر سے_ جو آج نہایت شدت سے آپس میں دست وگریباں ہیں _ خوب صورت پھول توڑے گا۔

جس طرح انسان الم ناک دوری ، حوصلہ فرسا صبر اور ہلاکت خیز مایوسی کے بعد پھل پاتا ہے،میری آنکھوں کے نور سوجا! کہ شیریں خواب ، رات کی ہیبت اور سردی کی شدت سے بے خوف ہوکر تجھ تک آئیں گے"۔

بچہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا ، نیند نے اس کی آنکھوں کو سرمگیں بنا دیا تھا۔ وہ کہنے لگا :

اماں! نیند نے میری پلکوں کو بوجھل بنا دیا ہے؛مجھے ڈر ہے کہیں میں صبح کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی نہ سو جاؤں"

مہرباں ماں نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا اور اشک آلود آنکھوں سے اس کے چہرہ کو دیکھنے لگی،جس پر فرشتوں کی معصومیت کھیل رہی تھی، اس نے کہا میرے بچے! میرے ساتھ دعا مانگ!! یا رب! فقیروں پر رحم کر! انہیں بے پناہ سردی
کی سنگ دلی سے بچا!! اور ان کے عریاں جسموں کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ!!! جھونپڑوں میں سوئے ہوئے یتیموں اور برف کی تیر افگنی کو دیکھ! جو ان کے جسموں کو چھیدے ڈالتی ہے ۔

یا رب! بیواؤں کی فریاد سن! جو سڑکوں پر موت کے چنگل اور سردی کے پنجوں میں گھری کھڑی ہیں۔

یا رب اپنا ہاتھ سرمایہ دار کے دل کی طرف بڑھا، اور ان کی چشم بصیرت کو وا کر! تاکہ وہ کمزوروں اور مظلوموں کی تباہ حالی دیکھ سکیں!

یا رب! ان بھوکوں پر مہربانی فرما! جو اس تیرہ و تار رات میں دروازوں کے سامنے کھڑے ہیں اور پردیسیوں کی غریب الوطنی پر رحم کھاکر گرم مسکنوں کی طرف انکی رہنمائی کر!

یارب! چھوٹی چھوٹی چڑیوں کی طرف دیکھ! اور اپنے دائیں ہاتھ سے ان درختوں کی حفاظت کر! جو ہوا کی تندی سے خائف ہیں ۔

یا رب! ایسا ہی کر کہ تجھ میں سب قدرت ہے۔

جب نیند بچے سے ہم آغوش ہو گئی،تو ماں نے اسے اس کے بستر پر لٹا دیا اور کانپتے ہونٹوں سے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ اس کے بعد لوٹی، انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر اس کے لئے اونی چادر بننے لگی ۔

( *اشک و تبسم،صفحہ: 74، طبع:آئینہ ادب،لاھور*)

مترجم: حبیب اشعر دؔہلوی
✍🏻 ... محمد عدنان وقار صؔدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

)صحبتے با اهل حق ٥٦(
ارشاد فرمایا :۔ آجکل بڑے بڑے مدارس قائم ہو گئے، طلباء کو ہر قسم کی سہولت میسر ہے اور سب کچھ تیار ملتا ہے، تاہم یہ یاد رکھو کہ عیاشی سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ ہم نے پہاڑوں اور جبال و قلل میں رہ رہ کر علوم کی تحصیل کی ہے، اس زمانے میں روٹیاں مانگ مانگ کر کھاتے تھے۔ مجھے خود یاد پڑتا ہے کہ دہلی میں مجھے ٨ میل دور جا کر روٹی کھانا پڑتی تھی، جب واپس آتا تو وہ ہضم ہو چکی ہوتی۔ تحصیل علم میں جس قدر مشقت اور تعب زیادہ ہو گا، اتنی ہی قدر، علم کی قدر و عظمت زیادہ ہوگی اور اس پر نتائج و ثمرات بھی اچھے مرتب ہوں گے۔
)صحبتے با اهل حق ٦٥(

)جاری ہے(

ٹائپنگ۔ وحید اللّٰه ریحان

واٹس چینل:

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

پروفیسر مولانا ڈاکٹر سید مظفر الدین ندوی مرحوم پر علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم کی تحریر
/channel/ilmokitab

دار العلوم ندوۃ العلماء کے گریجویٹ علما میں مولانا سید مظفر الدین صاحب ندوی (ایم اے)، پروفیسر عربی اسلامیہ کالج کلکتہ اس حیثیت سے خاص طور پر ممتاز ہیں کہ وہ ایم اے ہو کر بھی یہ نہیں بھولے ہیں کہ وہ عالم ہیں۔ چنانچہ وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی "عالمانہ کام" انجام دیتے رہتے ہیں، ہمارے مستشرقین نے اسلامی تاریخ کے تمام گوشوں کی تحقیقات سے فارغ ہو کر اب ہمارے خالص علوم دینیہ کا جائزہ لینا شروع کیا ہے، چنانچہ علم حدیث اور تصوف یہ دو علم خاص طور سے آج کل ان کی کوششوں کے آماج گاہ ہیں، اس سلسلہ میں اسلامی تصوف کے ماخذ اور تاریخ پر انگریزی میں پروفیسر نکلسن نے بحثیں کی ہیں اور کتابیں لکھی ہیں، جن میں یہ ظاہر کیا ہے کہ تصوف خود اسلام میں نہیں، بلکہ وہ اس میں باہر سے آیا ہے، پروفیسر مظفر الدین ندوی نے ابھی حال میں ایک مفصل و محقق مضمون پروفیسر نکلسن کی تردید و تنقید میں اسلامک ریویو میں انگریزی میں لکھا ہے۔ اور ہمیں یہ لکھنے میں خوشی ہے کہ اہل نظر نے عزیز موصوف کے اس مضمون کو پسند کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق مزید ارزانی فرمائے۔ آمین

ماخذ: سید سلیمان ندوی، شذرات سلیمانی (حصہ دوم)، سنہ اشاعت: 1997ء، اعظم گڑھ: دار المصنفین شبلی اکیڈمی، ص: 271۔

بہ شکریہ: مولانا طلحہ نعمت ندوی

محمد روح الامین قاسمی میُوربھنجی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

السلام علیکم ورحمةاللہ و برکاتہ.
علم وکتاب گروپ ایڈمن و روح رواں محترمی جناب عبد المتین منیری صاحب.
آپ کی فکر ونظر ہی نہیں بلکہ جذبہ و عمل کی دلیل یہ علم و کتاب کے سوشیل میڈیا کے اکاونٹس ہیں, جو اسم با مسمی ہیں, اس میں مزید خوبیوں میں عصری تقاضوں و مطالبات کا ادراک و گہرا شعور ہے. علمی زندگی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کا تطابق و توافق ہے. اہل علم کو علم و کتاب سے جوڑے رکھنے کی مستقل و کامیاب  اور مرتب و منظم کوشش ہے. اطراف و اکناف پر نظر اور حال سے آگہی, مستقبل کی فکری وعلمی اور عملی تیاری, ماضی سے واقفیت و وابستگی کے سامان کرنے والے اور مزید یہ کہ فرد کے بجاے جماعت . انفرادی کے بجاے اجتماعی خدمات انجام دینا ہے.
مذکورہ بالا جملے حقایق ہیں. شاید بہت کم احباب اس کوسمجھ پاے ہوں. ناسمجھ بہت ہوں . جن میں ایک راقم السطور بھی اپنے آ پ کو شمار کرتا ہے.

مصروفیات اور تدریس و انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سستی و غفلت اور دوسرے عوامل ہیں جو کاروان علم و کتاب کے ساتھ ہم رکاب نا ہو سکا , لیکن اس وابستگی کو اپنے حق میں ایک نعمت تصور کرتاہوں.

علم و کتاب میں بہت کچھ اور بہت خوب پڑھنے کو ملتا ہے. علمی دنیا کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا تو کتاب کے اثرات و ثمرات اور برکات و خیرات کا احساس ہوتاہے. کہ کتاب زمانہ کی حد بندیوں سے بالاتر ہے. زمینی جکڑبندیوں اور حصاروں کو توڑ کر آفاق تک پہنچ رکھتی ہے, ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مطالعہ کی انگیٹھی سرد نہ ہو. طلب کی شمع جلتی رہے, نظر بینا, فکر زندہ, اور حال و مستقبل کی فکر سوار ہو.پھر ہر لمحہ علم و عمل میں اضافہ, اور برکت ہی برکت ہوگی..

علم و کتاب میں اپنے وقت کے نبغاء و علماء, فصحاء و مصنفین اور محققین و اصحاب دانش واہل قلم کی گراں تصانیف پر تبصرے, مضامین , مقالات, اقتباسات نظر نواز ہوکر باعث اطمینان ہوتا ہے. سر دست محترمی پروفیسر عبد الرحیم قدوایی , عالم جلیل حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی کے اشھب قلم کے جلوے دیکھنے کو ملے, وہیں احمد حاطب کی فکری و قلمی نیرنگیاں دیدنی ہیں.  حضرت شیخ عبدا لحق رحمہ اللہ کے افاضات و تبحر علمی کے مظاہر دیکھنے کو ملے بے انتہا خوشی و مسرت ہویی. جزاھم اللہ خیرا.

اللہ تعالی آپ کی بے لوث خدمات کو قبول فرماے.
آمین یا رب العالمین
مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی حیدرآباد انڈیا
2 جون 2025

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 260
انتخاب مطالعہ
تحریر: سید محمد اشرف

*تیمور ایک آہن تھا*

وہ خاموشی کے ساتھ مجھے پتھرائی آنکھوں سے دیکھتا رہا، تب میں نے قدرے ہمت کرکے اس سے دریافت کیا ”تمھاری تاریخ حقیقت اور افواہوں کا پلندہ ہے؛ نظام الدین شؔامی کچھ لکھتا ہے ، عؔرب شاہ کچھ لکھتا ہے، خود تمھاری «خود نوشت» کا حال بھی ایسا نہیں جس پر مؤرخوں کو اتفاق ہو“

آج وجود کی آویزش کے سبب تم سامنے ہو تو کچھ اپنے بارے میں بتاؤ!

تؔیمور کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی، جیسے دو پتھروں کے درمیان ایک مہین سی دراڑ پڑ جائے۔

سید زادے! میں سر تا پا تلوار تھا، یہ کہہ کر اس نے نیام سے تلوار نکالی، شکستہ نیام سے چمڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین پر گرا،جس کی آواز میں نے واضح سنی، تلوار کے چوڑے پھل پر چاندنی نے صیقل کردی تھی۔

میرا تذکرہ جتنا کتابوں میں ہے کیا وہ کافی نہیں ؟

ہاں وہ ناکافی ہے!! اس میں حق کا وجود باطل کے قوام میں اس طرح سے حل ہوگیا ہے کہ اصلیت کا اندازہ نہیں ہوتا، میں نے " تمھاری نسل کے آخری بادشاہ'' کو ہندوستان میں شکستوں سے چور دیکھا ہے، تو جی چاہتا ہے کہ تم سے کچھ معلوم کروں! جس خانوادے کی انتہا میں نے لڑکپن کی آنکھ سے دیکھی، اس کی ابتدا اپنے ضعیف کانوں سے سنوں۔

یہ ممکن نہیں ہے؛ اول تو میری زندگی کا ماجرا کسی ایک رات میں سما نہیں سکتا۔ دوئم یہ کہ میرا اصل ذکر علوئے بیان کے بغیر ممکن نہیں، اور میں لاف زنی کا عادی نہیں،میں صرف ہفت اقلیم کا شہنشاہ ہی نہیں، سپہ سالار بھی تھا،سپہ سالار اصلاً سپاہی ہوتا ہے اور سپاہی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنا اور اپنے کارناموں کا ذکر اس طرح کرے کہ اس بیان پر غلو کا گمان ہونے لگے۔

چاند مرقد کے عین مقابل آگیا تھا اور گورِ امیر کی عمارت کی شکستگی اس کے حسن کے ساتھ مل کر چاندنی میں ایسی لگ رہی تھی،جیسے: ”کوئی حسینہ عالم بھرے بازار میں ضعیفی کی حالت میں اپنا نقاب کھینچ لے“۔

از برائے خدا بیان کرو!! یہ لمحات بیحد قیمتی ہیں اور پھر یہ موقع نہیں ملے گا۔
میں نے محسوس کیا کہ میں بے خوف تھا، اور یہ ایک عجیب بات تھی، لیکن اس رات ساری باتیں عجیب تھیں۔

وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر تلوار کو میان کیا اور گہری گونج دار آواز میں گویا ہوا:

”شہر دل ربا۔۔۔ شہر سبز کا گھوڑا، ہندوستانی ہاتھی کی طرح جسیم ہوتا ہے اور شہر سبز کا تربوز اس گھوڑے کے سر کے برابر ہوتا ہے، ناک کے نتھنے سے لے کر گردن کے حاشیے تک، خدا نے میری پیدائش کے لیے اس شہر کا انتخاب کیا“ـ

شیخ زؔین الدین نے میرا نام تؔیمور رکھا یعنی ”آہن“ حاشا کہ اسے کس قدر علم غیب حاصل تھا۔

مدرسے میں پہلے ہی دن جب میں نے سورہ شمس ازبر کرلی، تو میرا استاد دانتوں تلے انگلی دباتا تھا،میرے والد نے مکمل سورت کی خبر سنی تو میرے استاد کے دانتوں سے انگلی نکالی اور اس میں چاندی کا سکہ پکڑا دیا۔

اسپ سواری کے وقت بہت مشکلات کا سامنا ہوتا تھا، مجھے نہیں؛ میرے گھوڑے کو۔ کیونکہ میں واقف تھا کہ جب گھوڑے کی پیٹھ پر آجاؤ، تو اپنے زانوؤں سے گھوڑے کے دونوں پہلوؤں کو اتنی طاقت سے دباؤ کہ اس کی پسلیاں چٹخنے کے قریب آجائیں۔
میرا گھوڑا اکثر و بیشتر مطیع ہوجاتا تھا، بصورت دیگر ہمیشہ کے لیے اپاہج، میرے واسطے پہاڑ، دریا اور میدان ایسے تھے جیسے دوسروں کے لیے صحن، صنچی اور دالان۔

ــــــــــــــــــــ

بچپن میں والدہ نے مجھے کچھ کرتے دیکھا اور تشویش کے ساتھ والد کو بتایا کہ: ”تیمور چپ دست ہے؛ ہر کام بائیں ہاتھ سے کرتا ہے“ـ

دراصل میری ماں کو نظر کا دھوکا ہوا تھا! حقیقت یہ تھی کہ: میرے دونوں ہاتھ یکساں حرکت کرتے تھے، اؔصفہان میں شہر پناہ کے اندر جو جنگ لڑی گئی،اس میں مجھے خود اپنی ہی ذات کے بارے میں ایک عجیب مشاہدہ ہوا کہ: میرے دست راست کی تلوار سے دشمن کی گردن سے لہو کا فوارہ چھوٹتا تھا اور دستِ چَپ کے کلھاڑے سے دوسرے حریف کا کاسئہ سر، اسی لمحۂ واحد میں پھوٹتا تھا۔ معمول کے ان دونوں کاموں کے وقوع پذیر ہونے میں پلک جھپکنے کے برابر بھی فرق نہیں آتا تھا۔ اوقات کے اس نظم وضبط پر میں قدرے مطمئن تو تھا؛لیکن کم ظرفوں کی طرح ایسا خوش ہرگز نہ ہوا کہ دل میں گدگدی سی محسوس ہونے لگے؛ البتہ دل میں گدگدی اس دن ضرور محسوس کی جس دن انسانی سروں کے اٹھائیس مینار تیار ہوئے اور ہر مینار میں پندرہ سو سروں کا صرفہ آیا۔ جؔاکو بر لاس انھیں گنتا تھا اور تاسف کرتا تھا کہ کل پینتالیس ہزار سر کام میں آپائے،جبکہ اس دن دشمن کے دو لاکھ افراد نے جان کھوئی تھی۔ اس بے ریا، باوفا لیکن کچھ کچھ کم عقل سپاہی کو میں یہ بات ذرا مشکل سے سمجھا سکا کہ سروں کے مینار میں صرف ثابت سر ہی رونق دیتے ہیں،کچلے ہوئے،بد شکل کاسئہ سر مینار کی ایستادگی کو کمزور اور حسن کو مجروح کرتے ہیں۔ جؔاکو بر لاس میں جمالیاتی ذوق برائے نام بھی نہ تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*رہنمائے کتب: دوزی کی تکملۃ المعاجم العربیۃ (04- آخری)*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

اس نے عربی معاجم میں سے بطرس البستانی کی محیط المحیط سے استفاد کیا ہے، اس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ
"ایک اور معجم جس کی نوعیت مختلف ہے، میں نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا، وہ ہے بطرس البستانی کا "محيط المحيط" جو بیروت میں 1870ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک عمدہ مجموعہ ہے، جس میں قدیم معاجم سے بھی مواد ہے، نیز متعدد مولد الفاظ اور نئے معانی بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس میں شامی عوامی زبان (عامیۃ) سے بھی الفاظ شامل کیے گئے ہیں، جنہیں میں نے اپنے معجم میں شامل کیا، "
یہاں اسے جو بات کہی ہے وہ اس کی علمی دیانت اور نیک نیتی اور انکساری کا مظاہرہ کرتی ہے، وہ کہتا ہے کہ
"مگر جہاں تک اسلامی علوم سے متعلق اصطلاحات کا تعلق ہے — جو بستانی نے بڑی تعداد میں درج کی ہیں — میں نے اکثر کو مسترد کیا۔
اس کی دو وجوہات تھیں:
1. ان اصطلاحات کی تعریفیں اکثر مبہم ہیں، اور بغیر کسی دیگر عربی کتاب کے انہیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے؛
2. ان اصطلاحات کو سمجھنے کے لیے متعلقہ علم میں مہارت درکار ہے، جو میرے پاس نہیں۔
میں بالآخر یہ تسلیم کرتا ہوں، جیسا کہ فریتاگ نے بھی کیا، کہ ان علوم کی میری واقفیت بہت کم ہے۔ اور فریتاگ کی طرح میں بھی سمجھتا ہوں کہ انسانی عمر اتنی نہیں کہ کوئی ایک شخص ایک ساتھ زبان عربی اور تمام اسلامی علوم کو بخوبی سمجھ سکے۔ اور چونکہ میرا رجحان تاریخ کی طرف ہے، اس لیے مجھ جیسے شخص سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ میں یہاں اعتراف کرتا ہوں کہ اگر میں صوفیانہ اصطلاحات کی گہرائی میں گیا ہوتا تو شاید میرا ذہنی توازن متاثر ہو جاتا۔ لہٰذا میں یہ کام خوشی سے دوسروں کے لیے چھوڑتا ہوں۔
اس نے کتاب کے منہج کو واضح کرنے کے لئے مزید وضاحت کی ہے کہ "اور شاید میرا یہ اندیشہ کہ میرا معجم کہیں جدید عربی زبان کا معجم نہ سمجھا جائے، یہی وجہ بنی کہ میں نے معجم بوسيير سے اتنا زیادہ اقتباس نہیں کیا جتنا کر سکتا تھا، چاہے میں بروقت اس سے واقف ہو بھی جاتا۔ پھر بھی، یہ معجم جیسا کہ اب ہے، کسی حد تک جدید عربی کا رنگ رکھتا ہے، حالانکہ میں نے اسے قرونِ وسطی کی زبان کے لیے مرتب کیا تھا۔"
وہ مزید کہتا ہے کہ "میں نے بھی کوشش کی کہ میرا معجم بلاوجہ طویل نہ ہو، اس لیے میں نے ان اشیاء کے نام چھوڑ دیے جو امریکہ کی دریافت کے بعد سامنے آئیں، نیز آتشیں اسلحہ، جدید کرنسیوں کے نام، اور وہ ہسپانوی الفاظ جو مراکشی عوامی زبان میں شائع ہو چکے تھے (جن کی طرف سیمونيه نے دى لاتور اور ليرشني کی مراسلات کی بنیاد پر اشارہ کیا ہے)۔
وہ مزید کہتا ہے کہ "مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں ان تمام الفاظ کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا جنہیں میں نے جدید معاجم سے لیا۔ میں صرف انہی الفاظ کو حرکت دے کر لکھتا ہوں جن کے بارے میں مجھے پوری تحقیق ہو کہ میری حرکات درست ہوں گی۔
یورپی سیاحوں کی ایشیا اور افریقہ کی سیاحت کے دوران مرتب کردہ معلومات سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔ میں نے ان کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں، جیسا کہ اس مقدمے کے بعد دیے گئے فہرست المؤلفين میں ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم ان مصنفین نے اکثر الفاظ کو اپنی مرضی کے مطابق لکھا، جس سے مجھے الجھن ہوئی، اور میں نے ان میں سے بہت سے الفاظ کو نظر انداز کر دیا، البتہ ان کو ایک علیحدہ نوٹ بک میں درج کیا ہے جو لائبریری میں محفوظ ہے تاکہ دوسروں کے کام آ سکے۔ کچھ الفاظ غالباً دیگر زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ "میری بنیادی مآخذ وہ تصانیف تھیں جو عربوں نے قرون وسطیٰ میں لکھی تھیں، اور میں نے انہیں یا تو چھپی ہوئی حالت میں یا یورپی کتب خانوں میں موجود مخطوطات کی شکل میں پڑھا۔ ان کا موضوعات مختلف تھے۔ میں نے درج ذیل مصادر سے لغات جمع کیں، پھر اس نے ان عربی کتابوں کی تفصیل دی ہے جس سےا س نے استفادہ کیا۔
بنیادی طور پر یہ لغت مفردات کی اصل تک پہنچنے کے علم اشتقاق etymology سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں کہتا ہے کہ" میں نے ان الفاظ کی اصلیت (etymology) کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں تک میری رسائی تھی، لیکن اس مطالعے پر میں اس گہرائی سے توجہ نہ دے سکا جیسی میں دینا چاہتا تھا۔ میرے اس افسوس کو اس بات سے کچھ تسلی ملتی ہے کہ بہت سے فصیح عربی لغات بھی عجمی الاصل الفاظ کے مصادر کا تعین نہیں کرتیں۔میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میرا معجم نباتاتی ناموں کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔

”میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ کام مکمل کرنے کی توفیق دی۔ یہ کام مجھ سے طویل وقت کا متقاضی تھا۔”
”مجھے تمام حوالہ جات اور متون دوبارہ دیکھنے اور ان کی تصحیح کرنی پڑی، جن میں سے بعض چالیس سال پہلے نقل کیے گئے تھے۔ اگر میں پہلے سے جان لیتا کہ کتابت اور ترتیبِ معجم کا کام آٹھ سال مسلسل محنت کا تقاضا کرے گا، تو شاید میں اس میں قدم رکھنے سے ہچکچاتا۔”

Читать полностью…

علم و کتاب

ارشاد فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وحی کی مثال بارش کی طرح ہے کہ اس سے دل اور بارش سے زمین زندہ ہوتی ہے۔ زمین تین قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ زمین جس نے اپنے اندر پانی جذب کیا، چند دن کے بعد سبزہ اور پھول ترکاری اور قسم قسم کے باغات آگائے، زمین سر سبز و شاداب بن گئی، جیسے ہمارے علاقے کی سنگلاخ زمین کہ گویا وادی غیر ذی زرع ہے، پچھلے دنوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بارش ہوئی، زمین نے پانی جذب کیا، اب ہر طرف سبزہ اور بہار ہے۔ دوسری قسم وہ زمین ہے جس نے پانی کو جذب نہ کیا مگر پانی کو محفوظ کر لیا، نیچے کی تہہ سخت ہے پانی جذب نہیں کرتی، اور چونکہ وہ زمین پست ہے اور گڑھا ہے اور پستی تواضع کی علامت ہے۔ اب اگرچہ اس سے سبزہ نہ اُگا مگر مخلوقات کو فیض پہنچ رہا ہے، سب چرند پرند، حیوانات آکر اس سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور پانی لے جاتے ہیں۔ تیسری قسم وہ زمین ہے جس نے پانی کو نہ جذب کیا اور نہ پانی کو محفوظ رکھا، جیسے پہاڑ اور ٹیلے وغیرہ، بلکہ ادھر بارش ہوئی اور ادھر سارا پانی بہہ کر ضائع ہو گیا۔
تو وحی میں حیات کا مادہ ہے، اس کے طالب بھی تین قسم کے ہیں۔ ایک طالب وہ ہے کہ وہ علم کی راہ میں گھر سے نکلا، بے نمازی تھا، داڑھی منڈا تھا، خلاف سنت کام کرتا تھا، یہاں آکر چند دن میں بدل گیا، اب اس پر اعمال صالحہ، اتباع سنت، عاجزی اور تواضع کے پھول اور چہرہ پر سنت نبوی کا سبزہ اگ آیا۔ اب لوگ اسے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ اس کی بداخلاقی، درشت کلامی، سبّ و شتم اور بد عملی یکا یک کیسے بدل گئے، یہ وہ طالب علم ہے جس نے بارش کو اپنے اندر جذب کیا۔ بعض طلباء ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے علوم و معارف جمع کیے اور اب ان کو اوروں تک پہنچاتے ہیں گو خود زیادہ فائدہ نہ اٹھایا مگر دنیا کوفائدہ پہنچایا۔ تیسری قسم وہ ہے کہ نہ خود علم حاصل کیا اور نہ اوروں تک پہنچایا، چٹیل میدانوں اور بنجر زمین اور ٹیلوں کی مانند ہے کہ نہ علم کو جذب کیا اور نہ اوروں کے لیے محفوظ کیا۔ صحیح معنوں میں علم حاصل کرنے والے بہت کم ہیں۔ الحمد للہ بعض ایسے بھی ہیں جو علم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ اللہ تعالی راضی ہو جائے اور اس کی خوشنودی کا راستہ معلوم ہو۔

(جاری ہے)

ٹائپنگ۔ وحید اللّٰه ریحان
واٹس چینل:
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

أيها القمر المنير
كان لي حبيبٌ يملأ نفسي نورًا، وقلبي لذةً وسرورًا، وطالما كنت أناجيه ويناجيني بين سمعك وبصرك، وقد فرق الدهر بيني وبينه، فهل لك أنْ تحدثني عنه وتكشف لي عن مكان وجوده؟ فربما كان ينظر إليك نظري، ويناجيك مناجاتي، ويرجوك رجائي. وهأنذا كأني أرى صورته في مرآتك، وكأني أراه يبكي من أجلي كما أبكي من أجله، فأزداد شوقًا إليه وحزنًا عليه

#النظرات

Читать полностью…

علم و کتاب

*میری علمی و مطالعاتی زندگی* ۔۔۔

*محدث کبیر شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللّٰه بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک*(*قسط نمبر 03*)

*حضرت مولانا شاہ عبد العزیز رحمہ اللّٰه*

سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیر صاحب رحمہ اللّٰه بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے ۔ آپ ١١٥٩ھ میں پیدا ہوئے۔ علوم کی تحصیل اپنے والد ماجد شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللّٰه سے کی، سولہ سال کی عمر میں والد ماجد کا انتقال ہوگیا تو آپ نے شیخ نور اللہ اور شیخ محمد امین سے علوم کی تکمیل کی، اللہ تعالیٰ نے ان کو عجیب علمی تبحر اور ملکہ عطا فر مایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ فن تیر اندازی اور شہواری میں بھی ماہر تھے۔ آپ نے اہل تشیع کے رد اور عیسائیت کے خلاف زبر دست کام کیا۔ تحفہ اثناء عشریہ آپ کی ایسی تصنیف ہے جس کا آج تک کوئی جواب نہ لکھ سکا۔ تو شاہ عبد العزیز کو سماعت اور قرأت حدیث کی اجازت اپنے والد شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللّٰه سے حاصل ہوئی۔

*شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللّٰه*

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللّٰه عظیم محدث اور بہت بڑے فقیہ تھے، بچپن سے خدا تعالٰی نے اعلی صلاحیتوں سے نواز تھا۔ دس سال کی عمر میں شرح جامی پڑھی اور کافیہ کی شرح لکھنی شروع کی، سترہ سال کی عمر میں اپنے والد ماجد سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی اور چاروں سلسلوں میں مجاز ہوئے۔ علوم وفنون کی تکمیل میں لگے رہے، پچیس سال کی عمر میں مکمل فراغت حاصل کی، اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک درس و تدریس اور افادہ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ١١٤٣ھ میں حرمین شریفین تشریف لے گئے اور تقریباً دو سال تک وہاں قیام فرمایا، مکہ معظمہ کے اکابر علماء و مشائخ سے استفادہ کیا اور شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم مدنی سے باقاعدہ حدیث پڑھی۔ ان ہی کا مقولہ ہے، فرماتے ہیں ’’اخذ منی الفاظ الحديث واخذت منه المعانی‘‘، کہ شاه ولی اللہ نے مجھ سے الفاظ حدیث حاصل کیے اور میں نے ان سے حدیث کے معانی سیکھے۔
ابتداء میں شاہ صاحب رحمہ اللّٰه شافعیت کی طرف مائل تھے لیکن شیخ ابو طاہر المدنی رحمہ اللّٰه کی صحبت اور اعتدال سے متاثر ہوئے اور اس لیے ان کی صحبت کے بعد کی زندگی میں حنفیت کی طرف میلان رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللّٰه نے شیخ ابو طاہر مدنی رحمہ اللّٰه کے سامنے احناف کے مسائل پر اشکالات کیے تو شیخ ابو طاہر رحمہ اللّٰه نے اس کے تسلی بخش جوابات دیے اور حنفیت کا دفاع کیا اور شاہ صاحب سے فرمایا کہ آپ کے لیے حنفیت زیادہ موزوں ہے اور ہندوستان میں اکثریت احناف کی ہے۔ شیخ کی اس وصیت کو آپ نے پلّے باندھا اور تمام زندگی اسی پر کار بند رہے۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللّٰه ’’فیوض الحرمین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں نے روضہ اطہر کے پاس مراقبہ کیا تو معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا میلان چاروں مذاہب کی طرف یکساں ہے البتہ زیادہ توجہ اور نظر اصولِ مذاہب پر ہے اور وہ زیادہ تر حنفی مذہب میں پائے جاتے ہیں بلکہ ’’فیوض الحرمین‘‘ میں ایک تصریح کر دی ہے کہ اوفق الطريق بالسنة الصحيحة، طریقۂ انیفہ مذہبِ حنفی ہی ہے۔

(جاری)

ٹائپنگ۔ وحید اللّٰه ریحان

(اس سلسلے کے جملہ مضامین حاصل کرنے کے لئے جوئین کریں)
*علم وکتاب واٹس اپ چینل*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم و کتاب ٹیلی گرام چینل:
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک ٹی وی چینل پر الفاظ کو توڑ کر لکھنے کا رواج اب شاید کچھ کم ہوگیا ہے ورنہ تو ہمیں گمان تھا کہ الفاظ کو بھی توڑ کر ’’ال فاظ‘‘ لکھا جائے گا۔ دواخانے والا ہمدرد ہم درد ہوجائے گا۔ لیکن یہ توڑ پھوڑ کچھ نئی نہیں ہے۔ ہم جناب رشید حسن خان کی ’’اردو املا‘‘ دیکھ رہے تھے۔ موصوف نے ہر جگہ ’بلکہ‘ کے دوٹکڑے کرکے ’’بل کہ‘ لکھا ہے۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے ہمزہ کے ٹکڑے نہیں کیے ورنہ تو ’’ہم زہ‘‘ لکھنے سے کون روکتا۔ ’ہمزہ‘ اور ’واو‘ کے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’جن لفظوں کے آخر میں واو ہو، اور واو سے پہلے کوئی حرفِ علت ساکن ہو، اس صورت میں واو پر ہمزہ نہیں لکھا جائے گا۔ عام تحریروں میں کبھی تو اس واو کو صحیح طور پر ہمزہ کے بغیر ہی لکھا جاتا ہے اور کبھی اس پر ایک عدد ہمزہ مسلط کردیا جاتا ہے، جب کہ اس کا محل ہوتا ہی نہیں۔ وہ جو ایک خو سی پڑ گئی ہے، یہ اسی کا کرشمہ ہوتا ہے‘‘۔

یہ بات دل کو لگتی ہے۔ ہمزہ کے بغیر مزا نہیں آتا۔ جناب منظر عباسی نے ’’لئے، دئے‘‘ لکھنے کے حوالے سے یہی عذر پیش کیا تھا کہ برسوں کی عادت ہے۔ بات صرف واو کی نہیں، ایک اور جگہ بھی ہمزہ علماء کے نزدیک جائز نہیں جیسا کہ منظر عباسی نے ’’بابائے اردو‘‘ کے حوالے سے غلطی کی نشاندہی کی تھی۔

واو لکھتے ہوئے بار بار ہمزہ لگانے کو جی چاہتا ہے، لیکن ہاتھ روک لیتے ہیں۔ رشید حسن خان کہتے ہیں کہ ’’اگر واو پر ہمزہ لکھا جائے تو آخری حرف واو اور اس سے پہلے والے حرف کے بیچ میں ایک مزید متحرک حرف کا اضافہ ہوجائے گا اور اس طرح لفظ کی صورت ہی بدل جائے گی، بل کہ یوں کہیے کہ صورت مسخ ہوجائے گی‘‘ (جانے کس طرح)۔ انہوں نے مثال دی ہے کہ جیسے ایک لفظ ہے: پاو( سیر کا چوتھا حصہ) یہاں آخری حرف واو ہے اور اس سے پہلے الف ہے۔ اگر اس کو پاؤ لکھا جائے تو وہ تین حرفی لفظ (پاو) اب چار حرفی بن گیا (پا ء و) اور اب یہ پانا مصدر کا فعل ہوگیا جاؤ، آؤ، کھاؤ کی طرح۔ یعنی ایک لفظ جو اسم تھا، فعل میں تبدیل ہوگیا۔

اور ہم اس سوچ میں ہیں کہ چودھری شجاعت کا ’’مٹی پاؤ‘‘ ہمزہ کے ساتھ ہے یا بغیر ہمزہ کے۔ ۔ ۔ !
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

یادوں کا سفر (۲۰)
تحریر: اخلاق احمد دہلوی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 4۔جولائی*
1902ء سوامی وی ویکانند آریہ سماج
1961ء عبدالغفار شاہ راشدی، حکیم پیر سید حکیم، سید، پیر
1972ء عبد الواحد آدم جی صنعت کار
1974ء محمد امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین
1974ء سید اصغر علی غافل
1974ء خستہ دہلوی(ایس ایس فالس) شاعر
1981ء مرغوب احمد
1982ء رکن عالم صدیقی
1991ء مولانا محمد یوسف امیر جماعت اسلامی ہند
1994ء حنیف سولجر، محمد
1996ء محمود سروش ادیب
1998ء زہیرا کرم ندیم
2000ء الن فقیر (علی فقیر) گلوکار
2011ء عمر درا ز ساجد
2015ء عبد اللہ حسین ناول نگار
2018ء مولانا حافظ محمد طیب

(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: مولانا محمد مسلم کی یاد*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

آج مولانا محمد مسلم کی تاریخ وفات کی مناسبت سے موقر صحافی معصوم مراد آبادی کے کالم پر جناب عبید اقبال عاصم صاحب کا یہ تبصرہ حقیقت کا عکاس ہے کہ "معصوم صاحب کا مضمون پوری اردو دنیا کی طرف سے "فرض کفایہ" تھا جو انہوں نے "قرض حسنہ" کے طور پر ادا کر دیا ہے"۔
مولانا محمد مسلم ان چنندہ ملت کے محسنین میں سے تھے جنہوں نے آزادی کے بعد کے پرشوب حالات میں امت مسلمہ ہندیہ کی بڑی مخلصانہ اور دانشمندانہ انداز سے رہنمائی کی تھی۔ لیکن یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ اسے غیروں سمیت اپنوں نے بھی بھلادیا۔آپ نے 1956ء سے 1982ء تک سہ روزہ دعوت کی ادارت کی۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کے کالم سچی باتیں کی طرح آپ کا کالم خبر ونظر آپ کی شناخت بن گیا تھا۔ اور دعوت کا قاری صرف اسی ایک کالم کو پڑھ کر محسوس کرتا تھا کہ قیمت وصول ہوگئی ۔ یہ کالم بھی اردو صحافت کے ان چنندہ کالموں میں سے ایک تھا جس کا قاری کو انتظار رہتا تھا۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے آپ دماغ تھے۔ آپ نے پس منظر میں رہ بڑے ٹھنڈے دماغ سے اسے چلانے کی کوشش کی تھی۔ آپ ہی کی کوششوں سے ڈاکٹر سید محمود کو اس کا صدر بنایا گیا تھا، ڈاکٹر سید محمود کا شمار کانگریس کے چوٹی کے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ وہ جواہر لال نہرو کی حکومت میں کیبینٹ منسٹر بھی رہے تھے، اس زمانے میں مسلمانان ہند کانگریس سے برگشتہ تھے۔ اور جماعت اسلامی تو اس سے کچھ زیادہ ہی بدکتی تھی، سنا ہے کہ مولانا محمد مسلم کے قریبی لوگ آپ کو سید محمود پر اعتماد کرنے اور انہیں آگے بڑھانے کو ناپسند کرتے تھے، ان کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ سید محمود پہلے روز مسلمانوں کے حق میں بڑا زور دار بیان دیتے ہیں، اور جب ان پر حکومت اور پارٹی سے دباؤ پڑتا ہے تو دوسرے روز معذرت خواہانہ انداز میں صفائی کرنے لگتے ہیں۔ اس پر مولانا محمد مسلم صاحب فرماتے تھے کہ سیاست دان کا پہلا بیان اس کےضمیر کی آواز ہوتی ہے، اور دوسرا بیان اس کی مجبوری، لہذا کسی بھی لیڈر کے پہلے بیان کا اعتبار کرنا چاہئے صفائی اور معذرت والے بیان کا نہیں۔
اردو صحافت میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، غلام رسول مہر، دیوان سنگھ مفتون کی دیگچی سے جو تلچھٹ بچی تھی، ان میں شورش کاشمیری، مولانا عثمان فارقلیط جیسی قد آوار شخصیات شامل تھیں، اب صرف ان کی یادیں ہی رہ گئی ہیں، مولانا عثمان فارقلیط اور مولانا محمد مسلم صاحب نے خون جگر سے قلم کو بگھوکر جو تحریریں لکھی تھی ،اب یہ معدوم ہوگئی ہیں، ذاتی دلچسپی کی بنیاد پرمولانا فارقلیط کے نام کو زندہ رکھنے کی گذشتہ دنوں چند افراد کی کوششیں سامنے آئی ہیں، لیکن مولانا محمد مسلم اس توجہ سے بھی محروم رہے،ان پر شاید کوئی ارمغان چھپا تھا، جو عام قارئین کی دسترس سے باہر ہی رہا، ہمارے علم کی حد تک ان کی تحریروں کا کوئی نمائندہ مجموعہ ابتک منظر عام پر نہیں آیا ہے، جبکہ آپ نے جنہیں انگلی پکڑ کر لکھنا سیکھایا تھا ان کی تحریروں کے مجموعے شائع ہوگئے ہیں۔
اس ناچیز کو الٹا سیدھا جب اردو پڑھنا آیا تو یہ مجلس مشاورت کا عہد شباب تھا۔ اس زمانے میں مولانا محمد منظور نعمانی کا الفرقان لکھنو، ان کے فرزند حفیظ نعمانی کا ہفت روزہ ندائے ملت لکھنو اور سہ روزہ دعوت دہلی اس کی نمائندگی کرتے تھے، اور یہ پرچے ہمارے تایا محی الدین منیری کے مکان غریب خانہ میں پابندی سے آتے تھے۔ اور کچھ سمجھے اور کچھ ناسمجھے انداز سے ان پر نظر پڑجاتی تھی۔ اس وقت مولانا عامر عثمانی کا تجلی بھی مجلس مشاورت کی حمایت کرتا تھا۔
طالب علمی کے دور میں ایک بار مولانا محمد مسلم صاحب کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا، ۱۹۷۴ء میں جب جناب محمد یوسف صاحب امیر جماعت منتخب ہوئے تھے، تو اس وقت امیر حلقہ کرناٹک جناب سراج الحسن صاحب نے بنگلور میں ایک پروقار استقبالیہ دیا تھا، اس وقت کی جماعت کی پوری قیادت چنئی (مدراس) سے ہوتے ہوئے گذری تھی، مولانا سید جلال الدین انصر عمری اور جناب اعجاز احمد اسلم کا یہ عنفوان شباب تھے۔ ان حضرات نے خاص طور پر ٹریپلیکن دفتر جماعت میں اس ناچیز کی ملاقات اس وقت جماعت کی ایک ایک شخصیت سے کروائی تھی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مسلم صاحب کو قریب سے جاننے والوں نے ان کے جو شخصی اوصاف بیان کئے ہیں، ان کے مطابق وہ ایک متوازن اور سلجھے ہوئے ذہن کے انسان تھے۔ ملی مسائل کے بارے میں وہ تعمیری اور دور اندیشانہ نقطہ نگاہ رکھتے تھے۔ جذباتیت کے بجائے تحمل اور بردباری سے کام لیتے تھے۔ مزاج میں بلا کی انکساری، عاجزی اور سادگی تھی۔ اردو صحافت کیلئے ان کی خدمات کا جائزہ لیتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے ایک بڑے مشن اور مقصد کے تحت اختیار کیا تھا۔ ان کی سب سے بڑی دین سہ روزہ ’دعوت‘ کا وہ معیار تھا جو اس کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اگرچہ دعوت کے بانی مدیر اصغر علی عابدی مرحوم تھے۔ عابدی صاحب کے بعد یہ ذمہ داری پوری طرح مسلم صاحب کے کاندھوں پر آپڑی اور انہوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اسے نبھایا۔ اپنی ادارت کے زمانے میں انہوں نے اخبار کے علاوہ اپنی سرگرمیوں سے مسلم نوجوانوں میں دینی اور سیاسی بیداری پیدا کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ مسلم تنظیموں کا وفاق قائم کرنا تھا۔ اگرچہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سرخیل مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ تھے لیکن اس کی تشکیل میں مسلم صاحب کی کوششوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم صاحب اپنے دور کے صف اول کے صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ بھوپال میں ’ندیم‘ سے وابستہ ہونے سے پہلے وہ خاکسار تحریک سے وابستہ رہ چکے تھے۔ ان کا مزاج بنیادی طور پر تحریکی تھا اور مزاج کی یہی کیفیت انہیں جماعت اسلامی کے قریب لائی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا نظام الدین کے بقول ”وہ صحافت کو صرف پیشہ نہیں بلکہ ایک مقدس مشن سمجھتے تھے اور لکھتے وقت برابر ان کو یہ احساس رہتا تھا کہ قلم سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو آخرت کی رسوائی کا باعث ہو۔“
اخبار نویس کے طور پر مسلم صاحب کی نگاہ صرف اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ اردو اخبارات کے مسائل اور مصائب پر بھی بھرپور دسترس رکھتے تھے۔ اب سے 53 برس پہلے انہوں نے اردو صحافت کے مسائل پر جن خیالات کا اظہار کیا تھا ان میں سے بیشتر اب بھی جوں کے توں ہیں۔ یہ مسائل خواہ اردو اخبار ات کی توسیع اشاعت سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملہ اچھے تیز صحافیوں اور مترجموں کا ہو۔ اپنے مضمون کے آغاز میں محمد مسلم صاحب نے یہ لکھا ہے کہ:
”یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں کہ 1947 کے بعد مختلف اسباب وعوامل کی بنا پر اردو زبان کو ہمارے ملک میں زبردست محرومیوں سے واسطہ پیش آیا لیکن اسی کے ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ اردو زبان اتنی سخت جان، سخت کوش اور اتنی طاقت ور بھی ہے کہ آج بھی ملک کے ہر صوبے میں اس کو بولنے اور سمجھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس کی کتابیں ملک کے چپے چپے میں پڑھی جاتی ہیں اور کشمیر سے کیرالہ اور آسام سے کَچھ تک ان کی مانگ ہے۔“
محمد مسلم صاحب نے ملک کی مختلف ریاستوں سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی تعداد اشاعت کا جائز ہ پیش کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ:
”یہ تو اردو کا ایک پہلو ہے جو واقعی بڑا دل خوش کن ہے لیکن اس کا دوسرا تاریک پہلو بھی نگاہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو یہ ہے کہ اردو زبان کے اخبارات اتنی ہمہ گیری کے باوجوو پسماندہ ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ افسوس ناک حقیقت تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی تکلف بھی نہیں ہونا چاہئے۔ 1947میں اردو اخبارات دوسری زبانوں کے اپنے ہم عصروں سے جس طرح لوہا لیتے تھے بلکہ ان سے تیز چلنے کی کوششیں کرتے تھے، آج کے اردو اخبارات دوسرے ہم عصروں سے ہی نہیں بلکہ 25 سال پہلے کی اردو صحافت سے بھی پست تر ہوگئے ہیں۔ 1947 سے پہلے ادب، قانون، معاشیات، مذہب، معاشرت، فنون لطیفہ، صنعت و حرفت، طب، تعلیم اور مختلف علوم وفنون کا اچھا مرقعہ ہوتے تھے اور اپنے وقت کی ترقی یافتہ صحافت کے شانہ بشانہ چلتے تھے۔ اس وقت یہ سب میدان سمٹ گئے ہیں اور یہ باصلاحیت ترقی یافتہ صحافت صرف اپنے وجود کو بچائے رکھنے میں مصروف ہے۔ پسماندگی کے اس دور میں ناگزیر ہے کہ اردو صحافت کو ایک کمزور تر صحافت قرار دے کر ایک مسئلے کی حیثیت سے اس کی حالت سدھارنے کی کوشش کی جائے۔“

Читать полностью…

علم و کتاب

*اہل علم کو برباد کرنے والی چیزیں*
تحریر: حضرت مولانا نسیم احمد غازی مظاہری رحمہ اللّٰہ
اہل علم کو دو چیزیں زیادہ برباد کرتی ہیں: ایک حُبّ جاہ، دوسری چیز حبّ مال، یہی دو چیزیں تمام جھگڑوں کی بنیادیں ہیں، انہیں دو چیزوں نے ہمارے مدارس دینیہ کو خراب کیا ہے اور مدارس دینیہ کو انہیں دو چیزوں نے فتنوں اور بلاؤں سے بھر دیا ہے۔ جب اہل علم عموما جذبۂ اخلاص اور فکر آخرت سے محروم ہو گئے، تو یہ دو دھاری تلوار آپس میں چل پڑی جس نے پوری دنیا میں اُمت مسلہ کے ٹکڑے کردیے۔ مختلف طبقات و مسالک کا اختلاف فرقوں کی کثرت اور پھر ایک ایک مسلک کے ٹکڑے اسی دو دھاری تلوار سے ہوۓ ہیں۔
(اخلاص و للہیت ١٧٤-١٧٥)
انتخاب: محمد رضی قاسمی

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 3۔جولائی *
1929ء مرزا قلیچ بیگ شمس العلماء
1950ء غلام حسین قاسم حمیر خواجہ
1972ء آدم جی، اے ڈبلیو (عبدالواحد)
1979ء محمد عالم لوہار موسیقار
1986ء مولانا محمد مسلم ( دعوت دہلی) مدیر دعوت دہلی
1999ء ڈاکٹر محمد مصطفی الزرقاء فقیہ
2000ء نسیم عون جعفری
2002ء مسعود خان، محمد ،مولوی
2014ء حاجی عبدالرزاق نصیر آبادی رائے بریلوی خادم خاص مولانا سید ابو الحسن ندوی
2019ء نثار ناسک شاعر
2020ء سروج خان (نرمالا ناگ پال) گریوگرافر

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

میری علمی و مطالعاتی زندگی۔۔۔

شخصیّت نمبر 01

محدث کبیر شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللّٰه بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک(قسط نمبر 05)


طلبہ نے پوچھا کہ حضرت! یہ وظائف کس کس وقت اور کتنی کتنی مرتبہ پڑھے جائیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا آپ کو وظائف کی طرف کم اور کتاب و مطالعہ کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ اصل وظیفہ تحصیل علم کا اشتیاق اور محنت و مطالعہ اور تکرار سبق ہے۔ اب جو وظائف تمہیں بتائے گئے ہیں اللہ کی ذات پر یقین کر کے روزانہ ایک مرتبہ پڑھ لیا کریں، یہ کافی ہے کہ طالب علمی کا زمانہ ہے اور طالب علمی کے زمانہ میں طالب علم کے ساتھ اللہ کی خاص مدد شاملِ حال رہتی ہے، البتہ جب تحصیلِ علم سے فارغ ہو جائیں تو اس سے زیادہ اوراد و وظائف پڑھ لیا کریں کہ وظائف کا وقت تحصیل علم کا زمانہ نہیں بلکہ تحصیل علم سے فراغت کے بعد کا زمانہ ہے۔
)صحبتے با اهل حق ۳۲٨(
ارشاد فرمایا کہ ہماری کوئی سنتا ہی نہیں، میری اول و آخر یہی رائے ہے کہ دینی مدارس کے نصابِ تعلیم کی بنیادی اور اصولی چیزوں کو نہ چھیڑا جائے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا قائل نہیں ہوں۔ ایسے ہی نصاب تعلیم نے امام رازی رحمہ اللّٰه اور امام غزالی رحمہ اللّٰه پیدا کیے ہیں، اسی نصابِ تعلیم سے قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰه، شیخ الہند محمود الحسن رحمہ اللّٰه، شیخ العرب و العجم سید حسین احمد مدنی رحمہ اللّٰه اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللّٰه پیدا ہوئے ہیں۔ درس نظامی کو مربوط کرنے کی ضرورت تو ہے لیکن موقوف کرنے کی اجازت نہیں۔ دینی مدارس کے فضلاء کو حکومتی سندات کی تحصیل کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرنی چاہیے، اپنے اندر کی صلاحیت اور قابلیت پر محنت کرنی چاہیے، جب اپنے اندر قابلیت اور لیاقت موجود ہو گی تو ہر جگہ ممتاز اور نمایاں رہیں گے۔
ارشاد فرمایا آج سندات لیکر گریڈ اور سکیل کی باتیں ہو رہی ہیں مگر ہمارے اکابر نے سندات لیکر گریڈ اور سکیل کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ ان کا معمول تھا کہ وہ حتی الوسع تنخواہ بھی نہیں لیتے تھے، اور اگر لیتے بھی تو جو بچ جاتی اُسے واپس مدرسہ میں داخل کر دیا کرتے تھے۔
)صحبتے با اهل حق ٢٠٦(
بعض طلبہ نے عرض کیا کہ ہم دورہ حدیث میں داخلے کی غرض سے آئے ہیں، ۲۰ شوال کو حاضر ہوئے تھے، یہاں آ کر معلوم ہوا کہ دارالعلوم حقانیہ میں داخلہ بند ہو چکا ہے، تو ایک دوسرے مدرسہ میں چلے گئے اور وہاں داخلہ تو مل گیا مگر وہاں قلبی سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوا، اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ ہی میں داخلہ لینا ہے۔ امید ہے کہ آپ ہماری اس خواہش کو پورا فرمائیں گے اور داخلہ عنایت فرمائیں گے۔
ارشاد فرمایا : ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس پر پختہ رہنا ضروری ہے، جب ایک مدرسہ میں دورۂ حدیث کے لیے داخلہ لے لیا ہے تو آپ استقامت اور بلند ہمتی سے وہاں سال مکمل کر لیں تو اللہ پاک برکت عطا فرمادیں گے۔ بعض طلبہ کو مدارس بدلنے کی بیماری ہوتی ہے، میرے نزدیک جگہ جگہ پھرنا، اساتذہ کا معیار معلوم کرنا، بعض کی مدح اور بعض کی مذمت کرنا، اس سے علم کی برکتیں ختم ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات ایسی صورتیں حد درجہ بدترین نتائج سامنے لاتی ہیں۔ اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ فی الحال دارالعلوم حقانیہ میں داخلہ نہ لیں جہاں سبق شروع کیا ہے وہاں مکمل کر لیں پھر اگر مزید ضرورت محسوس کریں تو آپ کو دارالعلوم میں ضرور داخلہ مل جائے گا۔
)صحبتے با اهل حق ٧٦(
ارشاد فرمایا استاد سے پڑھے بغیر علمی مسائل پر بحث کرنا مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔ صاحبِ فن استاد سے اکتسابِ فیض ایک معروف اور مسلّم اصول ہے۔ کسی فن کو صحیح معنوں میں سیکھنے کے لیے اُس فن کے ماہر استاد کی شاگردی از بس ضروری ہے مگر آج کل کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو استاد سے پڑھے بغیر صرف اپنے مطالعہ کے زور سے علم حدیث کے دقیق اور نازک ترین مسائل میں گفتگو کرتے رہتے ہیں جو بہت بڑے وبال اور مختلف مفاسد کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
)صحبتے با اهل حق ٦٤(
ارشاد فرمایا : جب میں دارالعلوم دیوبند میں تھا اور ہمارے استاذ مولانا عبد السمیع صاحب رحمہ اللّٰه بیمار ہوئے تو ان کی تدریس کی کتابیں مشکوۃ شریف وغیرہ میرے حوالے کی گئیں اور یہ عزت مجھے بخشی کہ میں اُن کی نیابت کروں اور مشکوۃ شریف پڑھاؤں۔
ایک روز مولانا عبد السمیع صاحب رحمہ اللّٰه نے مجھے بلایا اور اپنے صاحب زادے (مولانا عبد الاحد) کے متعلق ارشاد فرمایا : ’’عبد الاحد اگرچہ لائق اور ذہین ہے مگر اسے تدریس کا تجربہ نہیں ہے، اس کو بڑی کتابیں ہر گز نہ دی جائیں اور نئے فارغ التحصیل کو ابتداء ہی سے بڑی کتابیں پڑھانا غلط اور خطر ناک طریقہ ہے، میری وصیت یاد رکھنا میرے بیٹے کو تدریجاً ترقی دی جائے اور اسے اولاً پڑھانے کے لیے ابتدائی درجات کی کتابیں دی جائیں، بعد میں جب وہ ہر کتاب کی تین بار تدریس کرلے تب تدریجی ترقی دی جائے، تین دفعہ پڑھانے سے مدرس کو کتاب اور فن سے اچھی خاصی مناسبت ہو جاتی ہے اور فن کے مبادی یا د رہتے ہیں‘‘۔

Читать полностью…

علم و کتاب

حيدرآباد دکن سے مفتی سید آصف الدین صاحب کا محنت بھرا مراسلہ ٹیلگرام گروپ میں آیا ہے، بطور نمونہ ہم نے یہاں پوسٹ کیا ہے، مضامین پر تاثرات اور تبصرے، اور احباب کے محنت سے تیار کردہ مضامین و اقتباسات سے اس بزم کے لئے محنت کرنے والوں کو تحریک اور اس چینل کو معیاری بنانے کا باعث بنتی ہے، لیکن جب جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والی بات ہوتی ہے تو پھر کام کرنے والوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے، احباب سے گذارش ہے کہ کسی پیغام پر نیچے comment پر کلک کرکے پیغام بھیجیں جس کے بعد آپ گروپ ممبر بن کر اپنے پیغامات اور فرمائشیں بھیج سکتے ہیں، امید کہ احباب زیادہ سے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کریں گے، گروپ پر آپ فرمائشیں بھی بھیج سکتے ہیں۔ شکریہ عبد المتین منیری۔ اڈمن چینل

Читать полностью…

علم و کتاب

جب ہم آؔمو دریا کے پاس پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا اور دریا ساکن تھا، یہاں سے وہاں تک کوئی حرکت نہ تھی۔ میں نے ''بسم اللہ''کہہ کر گھوڑا اندر ڈالا، تو وہ دریا کی سطح پر چلنے لگا،پورا دریا برف تھا اور ہمیں کسی نہ کسی طرح پار کرنا تھا۔ جتنا میسر ہوا اس قدر نمدہ گھوڑوں کے سموں میں باندھا گیا۔ میں نے نیام کی ضرب سے گھوڑے کو پھسلنے سے باز رکھا؛لیکن میرے پیچھے گھوڑوں کے ہنہنانے اور سپاہیوں کے چلّانے کے علاوہ دو اور آوازیں بھی مستقل سنائی دیتی تھیں: گھوڑوں کے گرنے اور ان کی ٹانگوں کی آواز۔ الحمد لله عریض دریا بخیریت پار کیا۔ آدھے سے کچھ کم گھوڑے ہم ادھر لے آئے تھے۔
میری یاد داشت تاریخی تسلسل کی پابند نہیں ہے؛ یہ کام میں نے نظام الدین شؔامی پر چھوڑ دیا تھا اور خدا گواہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھتا تھا، میری مرضی کے بغیر نہیں لکھتا تھا۔ مجھے دروغ گوئی سے نفرت ہے؛ لیکن سلطنت کی مصلحتیں تو صاحبِ قِراں ہی سمجھتا ہے۔ قرآن عظیم کے حفظ کے علاوہ یاد داشت کو میں نے کبھی تسلسل کا پابند نہیں ہونے دیا۔

(*آخری سواریاں،صفحہ: 130،طبع: عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

Читать полностью…

علم و کتاب

”ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں سخت بیماری میں مبتلا تھا، اور مجھے اندیشہ ہوا کہ شاید میں اسے مکمل نہ کر سکوں۔ مگر الحمد للہ، زندگی نے میرا ساتھ دیا، اور قوت بحال رہی۔ اب میں یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہوں کہ میرا یہ معجم، اپنی تمام خامیوں اور کمیوں کے باوجود، عربی لغت نویسی کے فن کو ایک نئی سمت دینے میں کامیاب رہا۔”
”یہ میرے شباب کا خواب تھا، جیسا کہ میری پہلی کتاب سے بھی ظاہر ہے، اور آج میں خوش ہوں، مطمئن ہوں کہ یہ خواب حقیقت میں بدل گیا۔”
دوزی کی یہ لغت المصباح المنیر کی طرح مادہ کی بنیاد پر یا القاموس المحیط کی طرح کلمات کے آخری حروف کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ یوروپین ڈکشنریوں کی طرح ابجدی ترتیب پر ہے۔ مصنف نے ہر لفظ کے معنی کے ساتھ حوالہ دینے کا اہتمام کیا ہے، جو جس میں کتاب کے مصنف کے نام کا مقررہ اختصار ، جلد اور صفحات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اختصارات کی فہرست مقدمہ کے بعد دی گئی ہے جو تقریبا پاونے چار سو مصنفین کی کتابوں پر مشتمل ہے، جو کہ اس زمانے میں جبکہ اسلامی دنیا میں پریس عام نہیں ہوا تھا، ایک بہت بڑی بات ہے۔
عربی زبان کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ مفید مرجع ہے۔ ایسے کاموں کی کماحقہ قدر ہونی چاہئے۔ (ختم شد)
2025-06-27
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 2۔جولائی *

1918ء میاں شاہ دین منصف
1950ء ہوسف مہر علی سیاسی رہنما
1982ء کامل القادری (سید شاہ محمد )
1990ء حنیف
1990ء ڈاکٹر ارشد حسین ندوی
1992ء مامین محمد ی پروفیسر
2003ء مختار زمن براڈکاسٹر، ادیب
2019ء مولانا محمد اسرائیل ندوی سلفی عالم دین

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*میری علمی و مطالعاتی زندگی* ۔۔۔

*محدث کبیر شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللّٰه بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک*(*قسط نمبر 04*)

*مذہب حنفیت کی جامعیت و ہمہ گیری*
امام شعرانی رحمہ اللّٰه فرماتے ہیں کہ ان چاروں مذاہب کی حقیقت اللہ تعالی نے مجھے ایک مثال میں دکھلا دی ہے کہ ایک تالاب ہے جس سے چار نہریں جاری ہیں، پانی ایک ہے لیکن اس کے راستے اور طرف بدلا بدلا ہے، البتہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللّٰه کی جو نہر ہے وہ زیادہ شفاف اور عریض و طویل اور عمیق ہے، فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا کہ حق تو چاروں مذاہب ہیں مگر ترجیح حنفیت کو حاصل ہے۔ ہر مذہب پر چلنے والے کو اس کی نیت کے مطابق اجر و ثواب ملے گا، جیسے اشتباہ قبلہ کی صورت میں چند آدمی تحری کر کے نماز پڑھتے ہیں، ایک کا قبلہ رخ ہونا صحیح تھا اور باقیوں کا فی الواقعہ غلط، لیکن تحری اور اجتہادی غلطی پر وہ ماخوذ نہ ہوں گے بلکہ وہ بھی اسی طرح اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے جس طرح وہ شخص مستحق ہے جس نے رو بقبلہ ہوکر نماز پڑھی ہے ۔
تو شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللّٰه سے قبل ہندوستان میں مشکوۃ شریف کا کتاب العلم پڑھ لینا کافی سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اس سے آگے بڑھنا گمراہی میں گرنا ہے۔ مگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللّٰه کی برکت سے آج تمام ہندو پاک میں علوم الحدیث کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں، جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللّٰه کو اجر و ثواب ملتا رہے گا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللّٰه کے بعد آپ کے صاحبزادوں اور خاندان نے علوم دینی کا تحفظ کیا۔ تعلیم و تدریس، اشاعت و تبلیغ، مجاہدہ وجہاد اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہر نوع اور ہر محاذ پر زبردست مورچے قائم فرمائے اور الحمدللہ کہ ولی الٰہی فکر اور ولی الٰہی جذبہ اور ولی اللٰہی علوم کو علمائے دیو بند نے حاصل کیا اور اس کے امین و محافظ بن گئے اور تقریباً ایک صدی سے پورے عالم کو دارالعلوم دیوبند سیراب کر رہا ہے۔
سلسلہ سند میں اپنے اسلاف و اکابر بالخصوص علماء دیوبند کے مختصر حالات اجمالاً ذکر کر دیے ہیں، آگے کا سلسلہ سند سارا کتاب میں موجود ہے۔ تطویل کے باعث اپنے سلسلہ سند کے اسلاف واکابر بالخصوص علماء دیوبند کے مختصر حالات اجمالاً میں نے ذکر کر دئے ہیں، مزید اسماء الرجال کی کتابیں دیکھی جائیں تا کہ سلسلہ سند کے تمام اکابرین کے حالات سے آگاہی حاصل ہو۔
بہر تقدیر سلسلہ سند کے تین حصے ہیں۔ اہلِ ہند کا سلسلہ سند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللّٰه پر ختم ہو جاتا ہے، یہ سند کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللّٰه سے امام ترمذی رحمہ اللّٰه اور امام بخاری رحمہ اللّٰه تک ہے اور یہی وہ مشہور و معروف سلسلہ ہے جو کتب حدیث میں جامع ترمذی کی ابتداء میں چھپا ہوا ہے۔ سند کا تیسرا حصہ امام ترمذی رحمہ اللّٰه اور امام بخاری رحمہ اللّٰه سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے، وہ وہی ہے جو رواۃ حدیث کی صورت میں کتابوں میں درج ہے۔
( حقائق السنن ج ١ ص ٧٢ تا ٧٦ )

*تحصیلِ علم، تعلیم و تربیت، نصابِ تعلیم اور احترامِ اساتذہ*

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 1۔جولائی *

251ء دقیانوس یونانی فلسفی
1277ء الملک الظاہر رکن الدین بیبرس منگولوں پر فاتح، مملوکی باشاہ
1941ء مولانا نجم الغنی خان رامپوری مورخ
1962ء پرشوتم داس ٹنڈن وزیر اعلی اتر پردیش
1968ء زیبا ردولوی (علی حسنین رضوی)
1981ء ڈاکٹر مقبول احمد
1983ء محمد صالح لہڑی، ملک
2002ء اقلیم اختر جنرل رانی
2007ء ڈاکٹر سید فرید احمد برکاتی
2022ء نہاد یاسین محمود الموسی شیخ النحاۃ العرب المعاصرین

(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 259
انتخاب مطالعہ
تحریر: ڈاکٹر ذاکر حسین ( سابق صدر جمہوریہ ہند)

*جوانی کوئی اکتساب نہیں؛ یہ ایک موقع ہے*

( خطبہ تقسیم اسناد جادَو پور یونیورسٹی 24 دسمبر 1957)

نوجوان دوستو! اب چند الفاظ تم سے: یعنی ان نوجوان دوستوں سے جو آج آپ کے یہاں سے سندیں لے کر جارہے ہیں ، اور جیسا کہا جاتا ہے: زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ دوستو! زندگی الفاظ سے کہیں زیادہ سخت اور کٹھن ہے، یہ لفظوں اور جملوں کے حسن محض سے کچھ زیادہ ہوتی ہے، قابل قدر اور کام کی زندگی جس دُھرے پر گھومتی ہے وہ دُھرا دکھ اور سکھ کا نہیں؛ بلکہ پیش قدمی یا پسپائی کا دُھرا ہوتا ہے، وہ نفع اور نقصان کا نہیں بلکہ خود یافتگی یا خود تحقیری کا دُھرا ہوتا ہے، وہ خود پروری یا خود غرضی کا نہیں؛خدمت کا اور ایثار و قربانی کا دُھرا ہوتا ہے۔

قابل قدر زندگی جس محور کے گرد گھومتی ہے وہ شرافت یا کمینگی کا،لیاقت یا نالائقی کا محور ہوتا ہے۔

اعلیٰ سے اعلیٰ تر کے لیے جدو جہد زندگی ہے،زندگی مشن ہے ، زندگی خدمت ہے اور زندگی عبادت ہے۔ زندگی کی بارگاہ میں ایک لائق اور پسندیدہ عبادت گزار بننے کے لیے اپنی ان صلاحیتوں کو نکھارنے اور فروغ دینے کے لیے کہ جن سے قدرت نے تم کو نوازا ہے تم کو سخت محنت کرنا ہوگی اور مسلسل کرنا ہوگی۔

تم کو سب سے زیادہ تو یہ کہ اپنے ارادے کو مضبوط کرنا ہو گا اور اسے اپنے آپ کے اظہار کی تربیت دینا ہوگی، جنونی اور طوفانی انداز سے نہیں بلکہ تسلسل اور اعتدال کے ساتھ کی جانے والی کوشش سے! جو ان مقاصد کو حاصل کرنے کی اہل ہوتی ہے جن کا حصول مدت چاہتاہے، تم کو اپنی قوت فیصلہ کو بھی تربیت دینا ہو گی؛تاکہ تم اُن مسائل پر اپنے فیصلے لے سکو جن پر فیصلہ لینے سے تم اپنا دامن بچا نہیں سکتے، تمھیں اپنی نظر کو بھی وسعت دینا ہوگی تاکہ تم دوسروں کے نقطہ نظر کو دیکھ بھی سکو اسے تسلیم کرنے یا اسے رد کرنے سے پہلے اسے سمجھ سکو، اس کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ کرسکو۔ اس کے ساتھ خود اپنے سامنے اپنے ضمیر کے سامنے سچار ہنا سیکھنا ہوگا، یوں سمجھ لو کہ خود اپنا آپ ہونا ہوگا نہ کہ کسی کی نقل یا چربہ ۔ تم کو اپنے اندر آزادانہ فیصلے لینے اور عمل پیہم کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی، قوت برداشت اور آزادی سےمحبت اور قوت و جبر کے بجائے افہام و تفہیم کو ترجیح دینا سیکھنا ہوگا۔

تمھیں اپنی ہمدردیوں کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا ، سماجی ذمہ داری کا احساس بیدار کرنا ہوگا اور ذاتی اور گروہی مفادات کو اجتماعی کُل کے فائدوں پر قربان کردینے کی عادت ڈالنی ہوگی!

اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی زندگی میں حقیقی دلچسپی لینا ہوگی اور اسے بہتر کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ایک توانا خواہش پیدا کرنا ہوگی۔ مختصر یہ ہے کہ اپنے شخصی، ذاتی اور خصوصی محاسن کی بنیادوں پر ایک ہم آہنگ،مستحکم اور حساس کردار کی عمارت تعمیر کرنے کے لیے تم کو خود اپنے اوپر محنت کرنی ہوگی! اس کردار کو زندگی کی کچھ اعلیٰ و ارفع قدروں کے تابع کرنا ہوگا اور پھر یہی کردار تمھاری زندگی کے لیے ایک ایسے معنی اور ایک ایسا مقصد فراہم کرے گا جو وقتی اور عارضی نہیں ہوگا ۔ یہ کردار تم کو ایک اخلاقی شخصیت میں ڈھال دے گا۔ کردار کے وسیلے سے انفرادیت سے شخصیت تک کہ یہی سفر ایک قابل قدر اور کار آمد انسانی زندگی کا مقدر ہوتا ہے۔ یہ زندگی بھر کی جدو جہد کا منصوبہ ہے، یہ اپنے آپ پر کام کرنے کا تہذیب نفس اور تکمیل ذات کا منصوبہ ہے اور ذاتی منفعت کے بجائے بڑے مقاصد کے حصول کے لیے شوق اور خوشی کے ساتھ جدوجہد کرنے کا منصوبہ ہے۔ اگر تم نے یہ ابھی تک نہیں کیا ہے تو یہی وقت ہے اس مہم کے آغاز کر دینے کا! اس لیے کہ تم اگر چہ ابھی کم عمر ہو اور جد جہد کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے تمہارے سامنے ابھی ساری زندگی پڑی ہے ، پھر بھی سمجھ لو کہ وقت بہت جلد گزرتا ہے اور گیا ہوا وقت واپس کبھی نہیں آتا۔ یار کھو کہ جوانی کوئی اکتساب نہیں؛ یہ ایک موقع ہے ، اس موقع کو اپنے ہاتھ سے نکلنے نہ دینا۔


(*اعلٰی تعلیم، صفحہ: 22، طبع: مکتبہ جامعہ،دہلی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

Читать полностью…
Subscribe to a channel