علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
اس بزم کی ابتدا سے ہماری کوشش رہی ہے کہ اس میں ایسے اہل علم وباذوق افراد کو شامل کیا جائے جن کا فیض ان کی حد تک نہ محدود نہ رہے بلکہ یہ عام ہو، لہذا تدریس کے پیشے سے وابستہ افراد اس سے زیادہ تر وابستہ ہوگئے ہیں، اس وجہ سے ہماری طرف سے جو مواد پوسٹ ہوتا ہے اس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس سے خاص طور پر اور نئے فارغین کی زبان دانی ، اور ادبی صلاحیتوں کو فروغ ملے، اور ان میں ذوق مطالعہ پروان چڑھے، کیونکہ ان کے پاس الحمد للہ دینی علوم کی بنیادیں تو ہوتی ہیں، لیکن موثر ابلاغ کے لئے جس زبان وبیان کی ضرورت ہوتی ہے اس میں کچھ کسر رہ جاتی ہیں، آپ سے دوبارہ گذارش ہے کہ اس قسم کے پی ڈیف میں پایا جانے والے مواد کا پرنٹ آوٹ لے کر انہیں طلبہ میں عام کریں۔ اور صوتی مواد انہیں باربار سننے کا عادی بنائیں۔ اطہر ہاشمی کے سلسلے کو ہم نے دوبارہ اسی غرض سے شروع کیا ہے۔
(علم وکتاب اصل گروپ پر پوسٹ کیا گیا پیغام جو دوسرے گروپوں سے بھی تعلق رکھتا ہے)
عبد المتین منیری
*وفیات: 3 جون*
1893ء مولوی جیون جی جمشید جی ۔ شمس العلماء
1899ء داراب پشتو تن جی سبحانه ۔ شمس العلماء
1924ء فرانز کافکا۔ جرمن ناول نگار
1926ء مولانا سید حسن بلگرامی۔ نواب عماد الملک
1953ء حکیم سید اشفاق احمد اشرفی۔
1974ء ڈاکٹر محمد فضل الرحمٰن انصاری۔ مولانا
1989ء آیت اللہ خمینی۔ ایرانی رہنما
1989ء قیوم نظر۔ شاعر
1992ء اختر حسین جعفری۔ شاعر
1992ء مولانا شاہ عبدالعزیز گمتھلوی رائپوری۔
1993ء مولوی عبدالباری۔
1994ء مولانا عبدالحلیم فاروقی۔
1999ء عزیز کارٹونسٹ (عزیز احمد)۔
2001ء انتھونی کوئن۔ امریکی اداکار
2001ء مولانا رشید الدین حمیدی۔ مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد
2002ء مولوی محمد مسعود خاں۔
2005ء مولانا شاہ شرف عالم ندوی۔
2014ء نصر اللہ شجیع۔
2016ء عبد المجید ملک۔ لیفٹننٹ جنرل
2019ء ڈاکٹر سید وسیم اختر۔ جماعت اسلامی پنجاب
2020ء شوکت مغل۔
2020ء عطا محمد بھنبھرو۔ سندھی ادیب
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
؎ ہم نے تو اپنا آپ گریباں کیا ہے چاک
اس کو سیا سیا نہ سیا، پھر کسی کو کیا؟
دن رات محبوب کی رٹ پپیہا کی طرح لگی ہے (تلبیہ پڑھ رہے ہیں) ۔
؎ انت پھرت پیو پیو کنارے
ہمرے پیا تو بدیس سدھارے
برہا بروگ سے تلپتت جیئو
اب جن بول پپیہا پیئو!
اگر غم ہے تو محبوب کا، اگر ذکر ہے تو معشوق کا ، اگر طلب ہے تو پیا کی، اگر خیال ہے تو دلبر کا ہے:
؎ عشق میں ترے کوہِ غم سر پر لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاطِ زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
کوچۂ محبوب میں پہونچتے ہیں تو اس کے درودیوار کے اردگرد دیوانہ وار پوری فریفتگی کے ساتھ چکرلگاتے ہیں ،کہیں چوکھٹ پر سر ہے تو کہیں دیواروں اور پتھروں پر لب ہیں۔
أَمُرُّ عَلى الدِيارِ دِيارِ لَيلى
أُقَبِّلَ ذا الجِدارَ وَذا الجِدارا
وَما حُبُّ الدِيارِ شَغَفنَ قَلبي
وَلَكِن حُبُّ مَن سَكَنَ الدِيارا
کسی نے اگر جھوٹ بھی خبر دی کہ معشوق کا جلوہ فلاں جگہ نمودار ہونے والا ہے تو بے سر و پیر ہوکر دوڑتے ہوئے وہاں پہونچے، نہ کانٹوں کا خیال ہے، نہ راستے کے پتھروں کی فکر ہے، نہ گڑھوں میں گرنے کا
خطرہ ہے، نہ پہاڑوں کی سختیوں کا ڈر ہے، مجنونِ بنی عامر کا سماں بندھا ہوا ہے، بدن میں اگر جوں ڈھیروں پڑی ہیں تو کیا پرواہ ہے، اہل عقل اور اہل زمانہ اگر پھبتیاں اُڑاتے ہیں تو کیا شرم؟
؎ جب پیت بھئ تب لاج کہاں سنسار ہنسے تو کیا ڈر ہے
دکھ درود پڑے تو کیا چنتا اور شکر نہ رہے تو کیا ڈر ہے
اگر ناصحِ نادان معشوق اور عشق سے روکتا ہے تو جس طرح آگ پر پانی کے چھینٹے اس کو اور بھڑکا دیتے ہیں، اسی طرح آتشِ عشق اور بھڑک جاتی ہے، نادان ناصح کو پتھر مارتے ہوئے اپنے آپ کو قربان کر دینے کے لئے بیتاب ہو جاتے ہیں:
؏ " ناصحا مت کر نصیحت دل مرا گھبرائے ہے "
وَبِمُهجَتي يا عاذِلي المَلِكُ الَّذي
أَسخَطتُ كُلَّ الناسِ في إِرضائِهِ
فَوَمَن أُحِبُّ لَأَعصِيَنَّكَ في الهَوى
قَسَماً بِهِ ― وَبِحُسنِهِ وَبَهائِهِ.
میرے محترم!
یہ تھوڑا سا خاکہ حج اور عمرہ کا ہے ، اگر دل میں تڑپ اور سینہ میں درد نہ ہو تو زندگی پیچ ہے، وہ انسان انسان نہیں جس کے دل، دماغ، روح، اعضاء رئیسہ، محبوب حقیقی کے عشق اور ولولہ سے خالی ہیں۔ یہاں عقل کے ہوش گم ہیں، جس قدر بھی بے عقلی اور شورش ہوگی، اور جس قدر بھی اضطراب و بے چینی ہوگی اسی قدر یہاں کمال شمار کیا جائے گا۔
؎ موسیا آداب داناں دیگراند
سوختہ جان و رواناں دیگراند
زہد زاہد را ودیں دیندار را
ذرۂ دردت دلِ عطار را
عقل اور حیا کے مقید ہونے والے عشاق آرام وراحت کے طلب گار محبین اپنی سچائی کے اثبات سے عاجز ہیں ۔
؎ عشق چوں خام است باشد بستۂ ناموس و ننگ
پختہ مغزان جنوں را کے حیا زنجیر پا ست
اس وادی میں قدم رکھنے والے کو سر فروشی اور ہر قسم کی قربانی کے لئے پہلے سے تیار رہنا ضروری ہے۔ آرام اور راحت ، عزت اور جاہ کا خیال بھی اس راہ میں سخت ترین بلکہ بد ترین بد نام کرنے والا گناہ ہےـ
؎ ناز پروردۂ تنعم نبرد راہ بہ دوست
عاشقی شیوۂ رنداں بلاکش باشد
یقین میداں کہ آں شاہ نکو نام
بدست سر بریدہ میدہد جام
مولانا المحترم!
اس وادئ پرخار میں قدم رکھتے ہیں اور پھر متلی کا، سر کے چکر کا، بیماری کا،ضعف کا، تکلیف کا، عزت و جاہ کا فکر ہے ؟ افسوس ہے!!
مردانہ وار قدم بڑھائیے، اگر تکلیف سامنے ہو تو خوش قسمتی سمجھئے! اگر ستائے جائیں تو محبوب کی عنایت جانئیے! پس پردہ طوطی صفت کون کراہ رہا ہے، مجنوں کو لیلی کے کاسہ توڑ دینے پر رقص ہوتا ہے، جس سے وہ اپنے خاص تعلق کا اثبات کرتا ہے، اور آپ یہاں جھجھکتے ہیں ۔ کلا والله ، كلا والله - اشد الناس بلاء الانبياء ثم الا مثل فالا مثل
قول صادق امین ہے ۔ قيمة المرء همته -
بقدر الجد تكتسب المعالي
ومن رام العلي، سهر الليالي
سوائے رضاء محبوب حقیقی اور کوئی دھن نہ ہونی چاہئے ۔
؎ دنیا و آخرت را بگزار حق طلب کن
کیں ہر دو لولیاں را من خوب می شناسم
” بـجوش و بـخروش و ہیچ مفروش “
مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی دیوانگی کی بڑ میں آپ کا بہت وقت ضائع کیا ؛مگر کیا کروں کہ اہل چِشت کا دریوزہ گر ہوں ،اُن کی نسبت اپنا کھیل اور رنگ دکھاتی ہی ہے ۔
( الفرقان، لکھنؤ، حج نمبر، ۱۳۶۹ ھ / 1950ء)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
تقول العرب في أمثالها:"تَجُوعُ الحُرَّةُ وَلاَ تَأكُلُ بِثَدْيَيْهَا".
قصة المثل: في عصر العروبة الجاهلي، حيث كانت الكرامة ميزان المرء، وكان الإنسان يُقدَّر بمروءته لا بماله، نزل القحط بأرضٍ من نجد، فجفَّت العيون، ويبست المراعي، وهلك الزرع والضرع، حتى بات الناس يقتاتون على الكفاف، إن وجدوه. وفي طرف القبيلة، عاشت امرأةٌ تعول صغارًا يتضوّرون جوعًا. قُتل زوجها في غزوةٍ منذ سنين، ولم يترك لها إلا خيمةً من وبر، وسمعةً لا يُمسُّ شرفها، فقد عُرفت بين قومها بسترها، وعفافها. وذات مساء، أتاها رجلٌ غريب من أهل التجارة، ممن يعرفون كيف تضعف النفوس إذا اشتدّ بها الضيق. وقف على باب خيمتها، وهمس بصوتٍ خفيض وقد أمال بصره:
"أعلم ما أنتم عليه من شدة، وعندي ما يسدّ جوعكم. وقد بلغني عنك ما يُفرح النظر. فما رأيك لو أعطيتني من جسدك، وأعطيتك ما يغنيك؟
الذهب كثير، ولن يعلم أحد."
لم تعلُ نبرتها، لكنها رمقته بنظرةٍ فيها من الكبرياء ما يهدم سوقه، ثم قالت بثبات: "اخرج. لا يُشترى الجسد ممن لم يبع النفس. تَجُوعُ الحُرَّةُ وَلاَ تَأكُلُ بِثَدْيَيْهَا. خذ ذهبك، وألقِه في صحرائك، فما عندنا يُغني عنك."
غادر الرجل صامتًا، يطأ الرمل بقدمٍ مثقلةٍ بالخذلان، وقد أدرك أن ليس كل جائعٍ يُساوَم. أما هي، فعادت إلى صغارها، خلعت من على رأسها ما كانت تستر به شعرها لا لتكشفه، بل لتشقّه وتخيط به ثوب الاطفال الممزق، تُدفئهم وتعلّمهم أن الكرامة لا تُشترى، وأن الفقر ليس عيبًا، إنما العيب أن يبيع المرء ذاته من أجل كسرة خبز.
المصادر: 📚
مجمع الأمثال للميداني. 📖
لسان العرب لابن منظور. 📖
كتاب نوادر العرب. 📖
*سچی باتیں (11؍جولائی 1935ء)۔۔۔ لباس کا اہتمام*
*تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*
( سچ، صدق اور صدق جدید لکھنو میں ایک صدی قبل چھپی زندہ تحریریں)
شاہی دربار میں حاضری کی قیدیں اور پابندیاں، خدا کی پناہ!الگے وقتون کے اور مشرقی دربار نہیں، اسی بیسویں صدی کے اور خاص الخاص فرنگی دربار! ہر ہر گھنٹہ ہرہر موقع کے لئے لبا س جداگانہ۔ صبح کے لئے اور دوپہر کا اور سہ پہر کا اور شام کا اور رات کا اور مجال نہیں کہ رنگ میں، وضع میں، قطع میں، کسی ادنیٰ خبر میں ادنیٰ سی بھی آزادی برتی جاسکے۔ بڑے بڑے امراء، وزراء ، داعیانِ سلطنت، یہاں تک کہ شہزادوں اور شہزادیوں کے لئے بھی ممکن تھیں، کہ کسی قاعدہ کی خلاف ورزی کرسکیں……بادشاہ سلامت کے منجھلے شاہزادہ ڈیوک آف گلوسٹر، ابھی آسٹریلیا سے واپسی میں، ساحل انگلستان پر، ٹرین پرسوار ہوئے تو ایک اور لباس میں چند منٹ بعد…وکٹوریہ اسٹیشن پر جب اترے ہیں، تو لباس دوسرا تھا۔ اس لئے کہ اسٹیشن ہی پر بادشاہ سلامت کا سامنا کرناتھا۔ دونوں موقعوں کی تصویریں چھپی ہیں۔ پہچاننا ممکن نہیں۔ شہنشاہ، ایڈورڈ ہفتم کے زمانہ میں ایک صاحب باریاب ہونے گئے۔ غلطی سے برجس (بریچز) میں گھٹنوں پر بجائے تین کے دو بٹن لگے ہوئے تھے، اتنی سی بات پر، الٹے پاؤں دربار سے واپس کردئیے گئے، ایک ولایتی اخبار نے حال میں لکھاہے ،کہ درباری لباس کے آداب وضوابط سب یکجا کئے جائیں تو کئی ضخیم جلدوں میں جاکر سماپائیں۔
لیکن کوئی چوتھا سال ہے کہ ایک گورا نہیں، کالا، اور بادشاہ سلامت کا ہمسر وہم چشم نہیں، ایک ادنیٰ رعایا، نہ امیر نہ وزیر ایک لنگوٹ بند سادھو خاص الخاص قصر شاہی (بکنگھم پیلس) میں اس وضع سے داخل ہوا ، کہ جسم پر باقاعدہ اورمناسب موقع سوٹ کیامعنی، سرے سے کوئی ثابت لباس، مشرقی قسم کا بھی موجود نہیں! نہ اچکن نہ کرتا نہ پاجامہ نہ پائتا بہ محض ایک بڑا سا لنگوٹ اور ایک ادنیٰ چادر! اسی وضع سے وہ جاکر جہاں پناہ، قیصر ہند وشاہ برطانیہ عظمیٰ سے ملا، ہاتھ ملایا، بات چیت کی اور واپس آیا اور اس کے لئے سارے آہنی قوانین کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اور کوئی قہرمانیت اس کی راہ میں حائل نہ ہوسکی!…آپ کو یاد پڑا، یہ شخص کون تھا؟۔ آپ ہی کا ہم وطن، گاندھی۔!
اس واقعہ میں ہمارے سوٹ پوش حضرات کے لئے عبرت ونصیحت کا کوئی سبق ہے؟ سوٹ اور ہیٹ اسی کو معیار عزت وذریعۂ وجاہت سمجھنے والے اس واقعہ پر غور فرمائیں گے۔ بہتر سے بہتر انگریزی پوشاک پر، اعلیٰ قسم کے سوٹوں پر، قمیص کے کپڑے پر، تراش خراش پر، کف پر، کالر پر، ٹائی پر، کوٹ پر، ویسٹ کوٹ پر، پائتابہ پر، پتلون پر، ہیٹ پر، بٹن پر، دولت جس بے دردی سے صرف کی جاتی ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ قیمتی وقت کے بیش بہا لمحے اور گھنٹے جس بے جگری سے لٹائے جارہے ہیں، کاش اس کا کوئی حصہ تو اس قوت کے حاصل کرنے میں لگایا جاتا۔ جو گاندھی نے اپنے اندر پیداکرلی ہے! آج قوم وملّت کی حالت ہی کچھ اور ہوتی! عمر فاروقؓ وعلی مرتضیٰ ؓ کے نمونے آج خدانخواستہ آپ کے لئے مردہ ہوچکے ہیں، تو کم ازکم گاندھی کا زندہ نمونہ ہی اپنی آنکھوں، اور دل کی آنکھوں کے سامنے لائیے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
بے نظیر بھٹو ۔ تحریر: کرامت اللہ غوری ۔ علم و کتاب لائبریری https://archive.org/download/banazeer-bhutto-by-karamatullah-gauri/Banazeer%20Bhutto%20By%20Karamatullah%20Gauri.pdf
Читать полностью…*وفیات: 1 جون*
1748ء میر قمر الدین خان صدیقی۔ آصف جاہ اول، نظام حیدرآباد
1961ء حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری۔ بانی جامعہ اشرفیہ لاہور
1962ء شیدا لکھنوی (سید محمد نظیر )۔
1963ء مولوی محمد سلیمان بدایونی۔
1977ء سید سعید احمد ہاشمی ۔ کرنل
1978ء ڈاکٹر خلیل الرحمٰن عظمی۔ ادیب ونقاد
1979ء حضرت مولانا مولانا اسعد الله مظاہری۔ شیخ الادب مظاہر علوم سہارنپور
1987ء خواجہ احمد عباس۔
1991ء مولانا سید رضا لقمان امروہوی۔
1993ء مولانا شاہد تھانوی۔
1995ء برگ یوسفی (شفیع اللہ خان)۔
1996ء نیلم سنجیوا ریڈی۔ صدر ہند
2003ء شاہین بدر (سید محمد ابو ہاشم عابدین)۔
2003ء فضل فتح پوری (سید افضال حسین نقوی)۔
2006ء حنیف رامے۔ سیاست دان، ادیب
2007ء مولانا ناصر علی ندوی۔ استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو
2013ء ریاض الرحمن ساغر۔
2019ء بشیر فاروقی ( بشیر الدین احمد)۔ شاعر
2020ء ڈاکٹر آصف فرخی۔ ادیب ونقاد
2021ء مفتی فیض الوحید۔
2021ء احمد سعید خان ۔ نواب آٖف چھتاری
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ميزة الحج
من ميزة الحج، الجمع بين الحسنة في الدنيا، والحسنة في الآخرة: "وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّقُوۡلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَّفِى الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ". (البقرة: ۲٠١/۲۰۲) ففي الحج منافع دنيوية للناس بجانب المنافع الأخروية. فإن الحج إذا كان بشروطه وآدابه يخرج الحاج بعد تأدية الحج، كأنه مطهر منقى يصدق عليه دعاء الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم "اللّٰهم نقنى من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس". وذلك برعاية آداب الحج واحترام شعائره، وتأدية حقوقه المشروعة، لأن الاجتماع وخاصة إذا كان ذي جنسيات مختلفة، ولغات مختلفة، وطبائع مختلفة، يحدث دوافع إلى سوء تفاهم، ويؤدي الاختلاط والتزاحم إلى نزاعات فيؤكد القرآن الكريم على أهمية اجتناب هذه الدوافع، وإذا حدث سوء تفاهم فيؤكد على ضبط الأعصاب والتحمل فيقول "فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ". (البقرة: ١٩٧) ولا يوجد نظير لمثل هذا الاجتماع الأمن المتصالح المتآخي المتعاون على البر والتقوى والإيثار، في الأمم الأخرى، فالأمن والسلامة والاحترام سمة من سمات هذا المكان والحج.
الشيخ محمد واضح رشيد الحسني الندوي رحمه اللّٰه
(الرائد: مايو٢٠٢٥م/ص: ١)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
۔ ابھی چند سال پہلے الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل بارہ جلدوں میں منظر عام پر آئی ہے، اسے دور حاضر کے مایہ ناز عالم حدیث ڈاکٹر محمد ضیاء الاعظمی علیہ الرحمۃ نے پندرہ سال کی محنت سے ترتیب دیا ہے، ڈاکٹر صاحب بذات خود علم حدیث کے مانے ہوئے ماہر فن ہیں، آپ کی کتاب "دراسات فی الجرح والتعدیل" فن حدیث کے طالب علم کو ضرور پڑھنی چاہئے۔ مصنف کی تمام قربانیوں اور جد وجہد اور مہارت کے باجود یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ آپ نے جملہ صحیح حدیث کو اپنی کتاب میں سمو دیا ہے۔ اور اس سے باہر صحیح احادیث پائی نہیں جاتیں، ہماری رائے میں ایک مدرس، عالم، مصنف وواعظ کو یہ مجموعہ اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہئے، اور حسب ضرورت اولین فرصت میں اس سے مراجعت کرنی چاہئے، لیکن اس کتاب کو اپنے موضوع پر مکمل سمجھنا بڑی فاش غلطی اور حدیث رسول ﷺ کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
۔ ہماری رائے میں ایک عالم دین کو صحیح اور درست کی جستجو جاری رکھنی چاہئے، اپنے مطالعہ اور علم پر اسے اکتفا نہیں کرنا چاہئے، جدید کی طلب اسے آنکھیں بند ہونے تک رہنی چاہئے۔ اور اپنے مخاطب کو معیاری دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے، لیکن کسی کو اپنی رائے کا پابند کرنے کی کوشش کی جائے، اور جب نہ ہوسکے تو بڑی محترم شخصیات کا نام لا کر منہ بند کیا جائے یہ مناسب علمی رویہ نہیں ہے، اس سے علمی بحثوں کو تعمیری اور سنجیدہ رنگ نہیں ملا کرتا۔
2025-05-30
Https://telegram.me/ilmokitab
*وفیات: ۲۹ مئی*
1788ء مرزا جواں بخت۔ فرزند بہادر شاہ ظفر
1935ء مولانا شاہ محمد سلیمان پھلواروی۔
1954ء اصغر علی روحی۔
1976ء سید رضی اکبر ۔
1976ء مولانا عبد العزیز مراد آبادی ۔ جامعہ اشرفیہ مبارکپور
1983ء سعید احمد۔ پروفیسر
1988ء عبدالستار اسحاق سیٹھ۔
1991ء محمود میمن۔
1998ء نیاز احمد مدنی۔
1999ء عنایت حسین بھٹی۔ ادا کار
2000ء مولانا کلیم اللہ نوری۔ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ
2003ء ظفر صدیقی۔
2006ء سبحانی بایونس۔ اداکار
2006ء عبدالقہاردہلوی۔
2009ء حنیف اخگر ملیح آبادی (سید محمد حنیف )۔ شاعر
2011ء سید سلیم شہزاد۔ صحافی
2013ء قمر علی عباسی۔ سفرنامہ نگار
2015ء رانا شمشاد علی۔
2020ء محمد یحیی رسول نگری۔
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
لسانی دُرستی کے باب میں ڈاکٹر ناشادؔ نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لسانی درستی کون کررہا ہے؟ خود اُس کی لسان کا کیا عالم ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ جیسی قدیم ضرب المثل کو درست کرنے کی کوشش میں ’’دھوبی کا کتا‘‘ بھگاکر اُس کی جگہ خود ’’دھوبی کا کتکا‘‘ لے کر کھڑا ہوجاتا ہو۔ عربی لغت سے ’غلیظ‘ کے معنی دیکھ کر آجاتا ہو، پھر سب کو ڈانٹ بتاتا ہوکہ
’’اُردو والو! تم اس لفظ کو+ بالکل غلط معنوں میں استعمال کررہے ہو‘‘۔
دنیا کی سب سے کم سن زبان ہونے کے باوجود اُردو انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس کے اپنے اُصول و قواعد ہیں۔ اپنے لغات ہیں۔ اُردو نے دوسری زبانوں سے جو الفاظ قبول کیے ہیں اُن میں سے کچھ الفاظ جوں کے توں لے لیے ہیں، تلفظ بھی وہی اور معنی بھی وہی، تاہم دوسری زبانوں کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن میں سے کچھ کا تلفظ بدل گیا ہے، کچھ کا مفہوم۔ مثلاً اسی لفظ ’غلیظ‘ کو لے لیجے۔ اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ عربی میں ’غلیظ‘ سخت اورگاڑھے کو کہتے ہیں، جو ’رقیق‘ کی ضد ہے، مگر اُردو میں یہ لفظ گندے، نجس اور ناپاک کے معنوں میں استعمال ہورہا ہے۔ غلیظ ہی سے’غلاظت‘ اور ’مغلّظات‘ بنالیا گیا ہے۔ اسی طرح فارسی میں ’مرغ‘ پرندے کو کہتے ہیں۔ اُن کے ہاں ہر طرح کا پرندہ ’مرغ‘ ہے۔گو کہ اُردو میں مرغ اِن معنوں میں بھی استعمال ہورہا ہے (تُو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا) مگر ہمارے ہاں عموماً ایک خاص گھریلو پرندے کو مرغ یا مرغا کہا جاتاہے اور اس کی مادہ کو ’مرغی‘۔ انگریزی میں’ ‘Rail کے معنی پٹری، کٹہرا، جنگلا اور شہتیر یا کڑی وغیرہ ہیں۔ لیکن اُردو میں ’ریل‘ اُس گاڑی کو کہا جاتا ہے جو پٹری پر چلتی ہے اور چھکا چھک چلتی ہے۔ بعض لوگ وضاحتاً اسے ’ریل گاڑی‘ بھی بول دیتے ہیں۔ اُردو میں تو’ریل کی پٹری‘ کی ترکیب بھی رائج ہے، جسے انگریز سنے تو سنتے ہی پٹری پر لیٹ جائے۔
حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی ایک دن اجمیر کی طرف سے جے پور جارہے تھے کہ رستے میں ایک ’’جنگل کی شہزادی‘‘ کو دیکھ کر پٹری سے اُتر گئے۔ جوشؔ صاحب نے خود بڑے جوش و خروش اور تفصیل سے اس معاشقے کا احوال سنایا ہے:
پیوست ہے جو دل میں وہ تیر کھینچتا ہوں
اِک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
صاحبو! صورت یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے لغات کی پرستش اُردو کا مزاج نہیں۔ اُردو کا اپنا مزاج ہے۔ اس کی دل کشی، اس کی شیرینی، اس کی گھلاوٹ اور اس کی جامعیت اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اُردو کے مزاج کے خلاف جب کوئی چیز آتی ہے تو کھٹکنے لگتی ہے۔ تب ہی ’لسانی درستی‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً جس بصریے سے اس کالم کا آغاز ہوا ہے اُس میں سے نمونتاً صرف دوجملے:
’’لغت نہیں اَپ ڈیٹ ہوا‘‘…’’لغت کو اپ ڈیٹ کرنے والے جو ادارے ہیں اور جو اِنڈی وی جؤَل مرتبین ہیں…‘‘وغیرہ۔
آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ’اَپ ڈیٹنگ‘ اور ’انڈی وی جؤلی ٹی‘ کو لغت پرستی کا نام دیا جائے گا یا سنتے ہی’لسانی دُرستی‘ کا کام کیا جائے گا؟
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
Https://telegram.me/ilmokitab
افادۂ آزاد
سکھر سندھ کے اجمل حسین قریشی مرحوم نے مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ سے ایک علمی سوال کیا تھا، جو اس طرح ہے: (سورۂ واقعہ کی ایک آیت کے متعلق، جس کا ترجمہ یہ ہے: "ہم نے تمہارے درمیان مقدر کر رکھا ہے اور ہمیں کوئی اس بات سے عاجز نہیں کرسکتا کہ تمہاری شکلیں تبدیل کردیں اور تمہیں ایسے مقام پر پیدا کریں، جسے تم نہیں جانتے؟" قریشی صاحب نے دریافت کیا تھا کہ اس میں موت کے بعد کسی دوسری شکل میں پیدائش کا بیان ہے، کیا اس سے آواگون اور تناسخ کے مسئلے پر استدلال کیا جاسکتا ہے؟ ۱۲/جولائی ۴۹ء)
(مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ نے اس کا یہ جواب دیا) تناسخ پر اس سے کوئی استدلال نہیں ہوسکتا، جو لوگ مرنے کے بعد کی زندگی کے منکر ہیں، ان کی طرف روئے خطاب ہے کہ خدا کی قدرت، اس سے عاجز نہیں ہے کہ ایک نشاۃ کے بعد دوسری نشاہ پیدا کرے۔
افاداتِ آزاد/صفحہ: ۵۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
خلاصۂ طریق، طاعت و ذکر ہے
فیلسوفِ اسلام، مولانا عبد الباری ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں: میزانِ کُل اور خلاصۂ طریق الی اللّٰه کا، کُل دو چیزیں ہیں۔ طاعت اور ذکر۔ معصیت سے طاعت، فوت ہوجاتی ہے اور غفلت سے ذکر، مختل ہوجاتا ہے، اس لیے اپنا اصلی کام، طاعت و ذکر پر دوام رکھنے اور معصیت و غفلت سے بچنے کو سمجھے۔
تجدیدِ تصوف و سلوک/صفحہ: ۵٦/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا سید عبد الوہاب بخاری
سابق پرنسپل نیو کالج و جمالیہ کالج چنئی
وفات ( 29-05-1986ء)
تحریر: مولانا ثناء اللہ عمری
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/abdul-wahab-bhukhari-by-sanaullah-umri/Abdul%20Wahab%20Bhukhari%20By%20Sanaullah%20Umri.pdf
صور من حياة الصحابة . كعب بن مالك بصوت الدكتور عبد الرحمن الباشا
Читать полностью…اختر حسین جعفری (وفات : 03-06-1992)
تحریر: محمد کاظم
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/akhtar-husain-jafaeri-by-sye-muhammad-kazim/Akhtar%20Husain%20Jafaeri%20By%20Sye%20Muhammad%20Kazim.pdf
*سفرِ عشق
*
از:حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی مدظلہ
ذیل میں مولانا مدنی مدظلہ کا ایک نہایت بیش قیمت مکتوب پیش کیا جاتا ہے، جس میں بڑے عارفانہ ؛بل کہ عاشقانہ انداز سے حج کی روح اور اس کے اسرار بیان کئے گئے ہیں ۔ حج کے متعلق جو کچھ کھا گیا ہے اس میں اس تحریر کو خاص امتیاز حاصل ہے۔
یہ خط مولانا نے آج سے بائیس برس پہلے مولانا عبد الماجد صاحب دؔریابادیؒ کو انکے سفرِ حج کے موقع پر لکھا تھا، لیکن خط کا اثر اور مضامین کی تازگی آج بھی قائم ہے۔
خوش قسمتی سے ہمیں اس کی ایک نقل مخدوم محترم جناب ”ڈاکٹر عبدالعلی“ صاحب کے پاس سے مل گئی ، جس کو ہم پہلی مرتبہ شائع کرنے کا فخر حاصل کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ حجاج کرام اس سے اپنے ذوق وشوق کو بڑھائیں گے، اور اس سفر عشق کا اصلی زاد راہ محبت و شوق حاصل کریں گے۔
محترما! جناب باری عزاسمہ کی وہ صفات جو کہ مقتضیٰ معبودیت ہیں، ان کا مرجع دو باتوں کی طرف ہوتا ہے ، اول مالکیتہِ نفع وضرر، دوم محبوبیت ، اول کو جلال سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ثانی کو جمال سے؛ مگر یہ تعبیر ناقص ہے؛جلال محض مالکیتہ ضرر پر متفرع ہوتا ہے جس طرح جمال اسباب محبوبیت میں سے صرف ایک سبب ہے ۔ وجوہ محبوبیت علاوہ جمال کے کمال ، قرب، احسان بھی ہیں ، سبب اول یعنی مالکیتہ نفع وضرر کا اقتضاءِ معبودیت حدود عقل میں رہ کر ہوناضروری ہے ،اس معبودیت میں عابد کی ذاتی غرض چونکہ باعث عبادت ہوتی ہے یعنی طمع یا خوف یا دونوں، اس لئے یہ عبادت اس قدر کامل نہ ہوگی جس قدر وہ عبادت جس میں محض رضاء معبود مقصود ہے ۔ ظاہر ہے کہ محبوب کی جو کچھ اطاعت اور فرمانبرداری کی جاتی ہے اس سے محض اس کی رضا اور خوشنودی مطلوب ہوتی ہے، لہذا ضروری تھا کہ دونوں قسموں کی عبادتیں دین کامل میں ملحوظ ہوں! قسم اول پر متفرع ہونے والی عبادتوں میں اصل الاصول نماز و زکوۃ ہیں اور قسم ثانی پر متفرع ہونے والی عبادتوں میں اصل الاصول روزہ اور حج ہیں، روزہ محبوبیت کی منزل اول اور حج منزل ثانی ہے ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ: عاشق پر اولین فریضہ یہی ہے کہ اغیار سے قطع تعلق کیا جائے! جو کہ روزہ میں ملحوظ رکھا گیا ہے، دن کو اگر صیام کا حکم ہے تورات کو قیام کا اور آخر میں اعتکاف نے آکر رہے سہے تعلقات کا بھی خاتمہ کر دیا،
بحکم «من شهد منكم الشهر فليصمه» اور «من قام رمضان ايمانا» الحدیث، اگر استیعاب صوم رمضان کا پتہ چلتا ہے تو بحکم «احیی لیلہ» اور «من قام رمضان» الحدیث وغیره استیعابِ قیام رمضان کا پتہ چلنا ضروری ہے اور چونکہ کمال صومی کے لئے محض مالوفات ثلٰثہ کاجو کہ اصل الاصول ہیں، ترک مطلوب نہیں؛بلکہ ان کے علاوہ معاصی اور مشتہیات نفسانیہ کا ترک بھی مقصود ہے، «من لم یدع قول الزور» الحدیث اور «رُبَّ صائم ليس له من صومہ الا الجوع» الحدیث اس کے شاہد عدل ہیں ، جب ترکِ اغیار کا اثبات (جو کہ منزل عشق کی پہلی گھاٹی ہے) ہوگیا، اس کے بعد ضروری ہے کہ دوسری منزل کی طرف قدم بڑھایا جائے، یعنی کوچۂ محبوب اور اس کے دار و دیار کی جبہہ رسائی کا فخر حاصل کیا جائے؛ اسی لئے ایام صیام کے ختم ہوتے ہی ایام حج کی ابتدا ہوتی ہے، جن کا اختتام ایام نحر (قربانی) پر ہے۔
کوچۂ محبوب کی طرف اُس عاشق کا سفر کرنا جس نے تمام اغیار کو ترک کر دیا ہو اور سچے عشق کا مدعی ہو معمولی طریقہ پر نہ ہوگا ،نہ اس کو سر کی خبر ہوگی نہ پیر کی، نہ بدن کے زیب و زینت کا خیال ہوگا نہ لوگوں سے جھگڑنے اور لڑنے کا فکر، «فلا رفت ولا فسوق ولا جدال فی الحج» کہاں عشق اور کہاں آپس کے جھگڑے اور لڑائیاں، کہاں قلبی اضطراب اور کہاں شہوت پرستی اور آرام طلبی، نہ سرمہ کی فکر ہوگی نہ خوشبو اور تیل کا دھیان، اس کو آبادی سے نفرت، جنگل اور جنگلی جانوروں سے الفت ہونی ضروری ہے، «وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما» سیر و شکار جو کہ کارِ بیکاراں ہے ایسے عشاق اور مضطرب نفوس کے لئے بے حد نفرت کی چیز ہوگی،«واذا حللتم فاصطادوا»
اس کی تو دن و رات کی سرگرمی معشوق کی یاد، اس کے نام کو جینا، اپنے تن بدن کو بھلا دینا، دوست احباب ، عزیز و اقارب، راحت و آرام کو ترک کر دینا،نہ نیند آنکھوں میں بھلی معلوم ہوگی، نہ لذائذ طعمہ اور خوشبودار اور خوش ذائقه اشربہ والبسہ کا شوق ہوگا۔
؎ یواری ھواہ ― ثم یکتم سرہ
ویخشع فی کل الامور ویخضع
جوں جوں دیار محبوب اور ایام وصال کی قربت ہوتی جائے گی، اسی قدر ولولہ اور فریفتگی اور جوشِ جنوں میں ترقی ہوتی رہے گی ـ
؎ وعدۂ وصل چوں شود نزدیک
آتشِ شوق تیز تر گردد
؎ اندنوں جوش جنوں ہے ترے دیوانے کو
لوگ ہر سو سے چلے آتے ہیں سمجھانے کو
خونِ دل پینے کو اور لختِ جگر کھانے کو
یہ غذا دیتے ہیں جاناں ترے دیوانے کو
؎ نو بہار ست جنوں چاکِ گریباں مددے
آتش افتاد بجاں جنبش داماں مددے
قریب پہونچتے ہیں (میقات پر) تو اپنے رہے سہے میلے کچیلے کپڑوں کو نکال کر پھینک دیتے ہیں، اس وادی عشق میں گریبان و دامن سے کیا کام؟
*وفیات: 2 جون*
1911ء پیر جی محمد یوسف ( جاورہ)۔
1925ء مولوی سید سبط حسن ۔ شمس العلماء
1964ء مولانا سید لقا علی حیدری ۔
1974ء نجم الدین ولی بھائی۔
1977ء مولانا شریف حسن دیو بندی ۔ شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند
1979ء محبوب الرشید۔
1982ء طاہرہ نقوی۔ ادا کاہ
1982ء فضل الہی چودھری۔ صدر پاکستان
1986ء محمد رفیع خاور۔ ادکار
1988ء راج کپور۔ اداکار
1992ء ڈاکٹراختر حسین رائے پوری۔ ادیب ، نقاد، لغت نگار
2001ء محمد شبیر قزلباش، مرزا۔
2001ء مولانا رشید الدین حمیدی۔ مہتمم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد
2004ء مجیب عالم۔
2012ء عطاء ربانی، میاں۔
2013ء مولانا حکیم شاہ محمد اختر۔ خلیفہ مولانا ابرار الحق حقی
2017ء شریف الدین پیرزادہ۔ قانون داں
2019ء مولانا افتخار الحسن کاندھلوی۔ مفسر قرآن
2020ء اوم پرکاش ملک۔ شاعر
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃ اللّٰه علیہ کی وفات پر خدام الدین کی ادارتی تحریر
(ہفت روزہ خدام الدین: ۹ جون ١٩٦١ء/مطابق ۱۷ ذی الحجہ ۱۳۸۰ھ/صفحہ: ۳)
اس پُرفتن دور اور قحط الرجال کے زمانہ میں علمبردارانِ حق و صداقت، پہلے سے ہی چند گنی چنی ہستیاں تھیں، مگر جس سرعت سے بلند پایہ قدسی نفوس، ہم سے جدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سے ہر مسلمان کا دل فگار اور مدت کے مستقبل کے بارہ میں بے قرار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک پر اللّٰه تعالیٰ کا کتنا فضلِ عظیم اور خاص کر لاہور پر کتنا بڑا احسان ہے کہ تکوینی کرشموں سے امرتسر سے ایک مایہ ناز جید عالمِ ربانی، بمع اپنے قیمتی مال و متاع، یعنی کتاب و سنت کے نشر و اشاعت والے دارالعلوم کے لاہور میں آکر، اس قحط زدہ زمین کو سیراب کرتے ہیں اور جب ان کا مشن تکمیل کے قریب پہنچتا ہے، وہ بُلا لیے جاتے ہیں، یہی سنۃ اللّٰه ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب رحمہ اللّٰه کی یادگار، صرف جامعہ اشرفیہ ہی نہیں ہے، جس کی لازوال بہاروں سے ان شاء اللّٰه تعالیٰ امتِ محمدیہ علیہ الصلواة والسلام ہمیشہ ہمیشہ خوش وقت ہوتی رہے گی، بلکہ آپ نے روحانی تربیت کے ذریعہ کثیر التعداد تشنہ کاموں کو بھی سلوکِ عالیہ چشتیہ کے آبِ حیات سے سیراب کرتے ہوئے، تھانوی جامعیت کا چراغ روشن رکھا۔
بہار عالم حسنش دل و جان تازه می دارد
برنگ اصحاب ظاہر را بہ بو ارباب معنی را
آپ لاہور میں کامیابی سے آئے اور لاہور سے کامیابی سے تشریف لے گئے۔ آخری خوش نصیبی دیکھیے کہ موتِ غربت کی فضیلت بھی عطا فرمائی گئی اور آپ کا وصال، کراچی میں ہوا اور وہیں مزار بنا۔ اگرچہ لاہور والے آپ کی قبر مبارک کے قرب سے محروم ہوئے، مگر اللّٰه تعالیٰ کی یہی مشیت تھی، جس پر ہم راضی ہیں، شاید لاہور میں اس داعی توحید کی قبر کو اللّٰه تعالیٰ نے جاہلوں کی پوجا پاٹ سے بچانا تھا۔ اللّٰه تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور اُن کے تمام متعلقین اور خاص کر ان کے فرزندوں کو صبرِ جمیل اور اجرِ جزیل عطا فرماتے ہوئے اُن کو آپ کے نقشِ قدم پر چلنے اور خالصۃً للّٰه خدمتِ اسلام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہمیں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کے اس ناگہانی حادثہ میں ان کے تمام متوسلین سے ہمدردی ہے، مگر ان سے بھی عرض ہے کہ وہ بھی مرحوم و مغفور کی طرح راضی برضا رہیں اور ان کے مشن، ردِ بدعت و احیاء سنت میں ہر طرح ساعی و کوشاں رہیں۔ یہی ان کا صدقہ جاریہ ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سفرِ حج کے فائدے
مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
سفرِ حج، در حقیقت انسانی ترقیوں کے تمام مراحل کا مجموعہ ہے۔ اس کے ذریعہ انسان، تجارت بھی کرسکتا ہے، علمی تحقیقات بھی کرسکتا ہے، جغرافیہ اور سیاحتِ علمیہ کے فوائد بھی حاصل کرسکتا ہے، مختلف قوموں کے تمدن و تہذیب سے بھی آشنا ہوسکتا ہے۔ اور ان میں میں باہم ارتباط و علائق بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اشاعتِ مذہب و تبلیغ، حق و معروف کا فرض بھی انجام دے سکتا ہے۔ سب سے آخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام عالم کی اصلاح و ہدایت و انسدادِ مظالم و فتن، و قلع و قمع کفار و مفسدین و اعلانِ جہاد فی سبیل الحق و العدالت کے لیے بھی وہ ایک ہی اصلی بین الملی مرکز و مجمع عموم اہلِ ارض کا حکم رکھتا ہے۔
انتخاب الہلال/صفحہ: ۱۵۸/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*بارگاہ رسالت میں(۳۵ )۔۔۔ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ*
*جمیل یوسف*
ہماری یہ مشتاق نگاہیں مسجد نبویﷺ کے مینار دیکھنے کے لیے بیتاب وبیقرار تھیں۔ شہر کی متعدد شاہراہوں اور سڑکوں پر گھومتے ہوئے بس جونہی اک موڑ مڑی۔ ہماری نظروں کے سامنے مسجد نبویﷺ کے بلندوبالا نازک اندام مینار اپنے تمام تر حسن وجمال کے ساتھ آسمان کی بلندیوں اور کائنات کی وسعتوں کا استعارہ بن کر کھڑے تھے۔ ان میناروں کو زندگی میں ہزاروں دفعہ تصویروں میں جلوہ نما دیکھا تھا۔ تصویریں عموما اصل سے زیادہ حسین و جمیل ہوتی ہیں۔ مگر مسجد نبوی کے حسن کو کوئی تصویر پیش نہیں کرسکتی۔ وہ اپنی ہر تصویر سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔ اسی اثنا میں کعبۃ اللہ کے میناروں کا خیال آیا لیکن ان میں وہ نزاکت ونفاست کہاں جو مسجد نبویﷺ کے چاروں طرف کسی محافظ ودرباں کی طرح ایستادہ میناروں میں ہے۔ یہ مینار کسی محبوب دلنواز کے قد رعنا کے تصور کی طرح دل آویز تھے۔ ان کی اُٹھان میں راستی اور بلندی تھی جس کو بیاں کرنے سے میرا قلم قاصر ہے۔ سیدعابد علی عابد کے الفاظ میں فقط اتنا کہا جاسکتا ہے ؎
مری زباں پہ لُغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تیری آنکھ کے فسوں کے لیے
مجھے بھی مسجد نبویﷺ کے حسن وجمال کے طلسم فسوں ساز کے اظہار کے لیے الفاظ نہیںمل رہے۔ ایک نمایاں فرق وامتیاز کعبۃ اللہ کی پرہیبت اور پرعظمت وشوکت عمارت اور اس کے میناروںکے مقابل مسجد نبویﷺ کی دلکشی اور دل آویزی اس کے میناروں کی رعنائی و زیبائی اور ندرت ونفاست میںتیکھا پن محسوس ہوتاہے۔ حرم کعبہ کے مینار اتنے بلند وبالا نہیں اور نہ ان کی اٹھان اور بلندی میں وہ راستی اور اونچائی ہے جو مسجد نبویﷺ کے میناروں میں ہے، پھر ان کے سامنے کلاک ٹاور کا بلند مینار لاٹ کی طرح ان کو ان سے کہیں اوپر اٹھائے کھڑا ہے۔ اس منظر کے مقابلے میں مسجد نبویﷺ کے میناروں سے اپنا سر بلند کرنے والی اور کوئی عمارت یا ٹاورمدینہ منورہ میں موجود نہیں ہے۔ ارد گرد کے ماحول میں کوئی اور بلند منظر ان کی ہمسری توکہاں ان کی برابری اور ان کی ہمسائیگی کا دعوی بھی نہیں کرسکتا۔ ہر مینار اپنے قد رعنا کے ساتھ کسی چاق وچوبند درباں کی طرح یکہ وتنہا کھڑا ہے۔ باالفاظ دگر مسجد نبویﷺ کے مینار تو اپنے قدرعنا کے ساتھ کسی شاخ گل کی طرح نرم ونازک دکھائی دیتے ہیں تو ایسے میں غالب کا یہ شعر خلد خیال کی زینت بن رہا ہے۔
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقدِ فتنہ محشر نہ ہوا تھا
اور
اب آکے تیرے شہر میں واپس نہ جائیں گے
یہ فیصلہ کیا ہے ہم نے شہر تیرا دیکھنے کے بعد
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*بات سے بات: ضعیف وموضوع احادیث کا مسئلہ*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
اس بزم علم وکتاب میں ہم نے کسی مسئلہ میں شخصیات کا حوالہ دے کر یا ان کی کتاب پیش کرکے زبان بندی کو ہمیشہ ناپسند کیا گیا ہے، یہ اہل علم کی محفل ہے، یہاں علمی اصولوں پر مبنی دلائل پیش کرکے مخاطب کو مطمئن کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔
آج مولانا طارق جمیل پر ایک کالم کے ذکر میں آپ کی اس بزم میں موضوع بحث ضعیف احادیث سے استدلال کی طرف مڑ گیا ہے۔ اور ہمارے ایک دوست نے اپنے موقف کی وضاحت کے لئے ایک عالم دین کی کتاب ہی پیش کردی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ذہن میں چند باتیں آرہی ہیں۔ا
۔ کسی حدیث پر ضعیف یا موضوع کا حکم لگانے کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، ممکن ہے شیخ محمد ناصر الدین الالبانی ؒ کی کوششیں علم حدیث کے میدان بہت زیادہ ہوں، لیکن وہ بھی علم حدیث کے دوسرے عالموں کے طرح ایک عالم ہیں۔ ضروری نہیں کہ صرف ان کے لگائے ہوئے تمام احکامات کو من وعن قبول کیا جائے، اور دوسروں کے احکامات کو نظر انداز کردیا جائے۔ اختلاف رائے کو قبول کرنے کے کچھ علمی اصول وضوابط ہیں، انہی کی کسوٹی پر جانچ کر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ اب جن علماء کی زندگی تقلید جامد کے انکار میں گذری ہے، ان کے ماننے والے ہی ان کی تقلید تک محدود رہیں تو یہ ان شخصیات کے ساتھ بڑا ظلم اور ناانصافی ہوگی۔
۔ میں ثابت شدہ موضوع احادیث کی بات نہیں کررہا ہوں، لیکن جن احایث کو سند کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا گیا ہے، اور سند کے ضعف کے باوجود یہ اصول دین سے نہیں ٹکراتی ہیں، اور ان کے ذریعہ چند نئے نکات سامنے آتے ہیں اوران سے دینی احکامات پر عمل کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے تو انہیں بیان کرنے میں حرج نہیں، علماء نے اس پر نکیر نہیں کی ہے۔ وہ علماء جنہوں نے احادیث سے نقل میں بخل سے کام لیا ہے، ان کا رویہ یہ ہے کہ دھڑلے سے سابقہ کتب مقدسہ انجیل و بائبل سے مرویات آیات قرآنی کی تائید میں نقل کرتے ہیں، حالانکہ ایک مسلمان ان کتابوں کو ضعیف اور موضوع کہنے کے بجائے سیدھے تحریف شدہ ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے۔ قریبی دور کے ایک بڑے مفسر قرآن نے لکھا ہے کہ عہد جدید(انجیل) میں جو عبارتیں براہ راست حضرت عیسی علیہ السلام سے منسوب ہوکرآئی ہیں، اوران میں ادھر ادھر کے واقعات اور روایتوں کے بعد کہا جاتا ہے کہ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام نے یہ باتیں وعظ کیا تو یہ عموما قرآنی احکامات سے متضاد نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی تائید کرتی ہیں۔
۔ پندرہ صدیوں کے درمیان ہزاروں لاکھوں حفاظ و ائمہ حدیث گذرے، اور علم حدیث پر ان کا لکھا لاکھوں کروڑوں صفحات پر مشتمل لٹریچر سامنے آیا، ان میں حافظ شمس الدین الذہبیؒ، حافظ ابن حجر العسقلانیؒ، خطیب بغدادیؒ، جیسے محققین اور محدثین عظام شامل ہیں، جنہوں نے فن حدیث کی تمام شاخوں میں ایسی کتابیں لکھیں جن پر آج اس فن کا دارومدار ہے، لیکن انہوں نے ضعیف وموضوع احادیث کو مخصوص کرکے مستقل کتابیں نہیں لکھیں، اگر چودھویں صدی سے پیشتر ضعیف وموضوع احادیث کے لئے مخصوص جو کتابیں ہم تک پہنچی ہیں اگر انہیں گنا جائے تو ہزاروں لاکھوں کتابوں میں ان کی تعداد دو ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
۔ جن ائمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں ضعیف وموضوع کی تخریج کا اہتمام کیا ہے، انہوں نے مکمل کتابوں کی تخریج کی ہے، جیسے حافظ ابن حجرؒ کی التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير، الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃؒ، امام زیلعی کی نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃؒ، ابن الملقن کی البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبيرؒ، زین الدین العراقی کی المغنی عن حمل الآثار ۔ تخریج احادیث الاحیاءؒ وغیرہ ۔ لیکن کسی بھی محدث نے کتب السنن کو صحیح وضعیف وموضوع میں بانٹ کر اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے پیش کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ حالانکہ وہ درجے میں اس سلسلے میں آج کے علماء ومصنفین سے کئی گنا بڑھے ہوئے تھے، اور اس سلسلے میں ان کی حمیت دینی کچھ کم نہیں تھی۔ کتب السنن کو صحیح اور ضعیف اور موضوع میں بانٹ کر اور کتابوں کے بخئے ادھیڑ کر پیش کرنے کو طریقہ اسلاف ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔
غزل
ساغر نظامی
دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں
ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
روح بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں
بربت ماہ پہ مضراب فغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں
لاؤ اک سجدہ کروں عالم مستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
Https://telegram.me/ilmokitab
ایک کالم محققین، معلّمین اور مصلحین کے نام۔۔۔. احمد حاطب صدیقی - May 30, 2025
الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے محترم عارف قریشی صاحب کا بہت بہت شکریہ کہ اُنھوں نے پندرہ منٹ سے پچپن سیکنڈ کم دورانیے کا ایک بصریہ ارسال فرمایا۔ اس بصریے میں متحرک عکاسی ہے اُردو زبان کے دو دانشوروں کے مکالمے کی۔ مکالمے کا آغاز کرتے ہیں ڈاکٹر عابد سیال، جو ہمارے عہد کے عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو کے معلّم و محقق بھی ہیں۔ ڈاکٹر سیال نے یہ مصاحبہ اور مکالمہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ سے کیا ہے۔ ڈاکٹر ناشادؔ بھی ہمارے ملک کے ایک معروف شاعر، استاذ الاساتذہ اور اُردو زبان کے محقق ہیں۔
دراصل ڈاکٹر عابد سیال یوٹیوب پر ’’ادارۂ اُردو‘‘ کے نام سے ایک چینل چلا رہے ہیں۔ اس چینل کا ایک سلسلہ ’’ایک سوال‘‘ کے عنوان سے چل رہا ہے۔ مذکورہ بصریہ اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر عابد سیال نے آغاز میں جو طویل سوال کیا ہے، اُس سوال کی طوالت معروف ماہر ابلاغیات جناب کامران خان کے سوالات کی طولانیوں کو مات کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے سوال میں سے فقروں کے فقرے نکال دینے کے باوجود تلخیص خاصی طویل ہوگئی ہے۔ یہ تلخیص بھی ہم اُنھیں کے الفاظ میں پیش کررہے ہیں۔ سوال کچھ یوں تھا:
’’ ہم اپنے ماحول میں بہت سی باتیں اپنی زبان درست کرنے کے حساب سے سنتے رہتے ہیں، یعنی ’مائنڈ یور لینگویج‘ وہ والا بھی اور جو ’زباں بگڑی توبگڑی تھی ‘۔ یعنی ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُسے زبان کے کچھ اُصولوں کا زیادہ پتا ہے اورجو دوسرا ہے، جو چھوٹی چھوٹی غلطیاں کسی کتاب میں پڑھ لی ہے، کسی رسالے میں پڑھ لی ہے، کسی اخبار میں کوئی ایک مضمون چھپ گیا،کسی نے کوئی ایک بات کردی کسی تناظر میں، تو اُتنی بات یاد رکھ کے ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا غلط زبان بول رہا ہے اور ایک لسانی درستی کا، جس طرح ہم اور معاملات کو درست کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح کی، تو لسانی درستی کا بھی یہ معاملہ ہے اور اس لسانی درستی کے عمل کے لیے جو حوالہ لاتے ہیں وہ حوالہ لاتے ہیں لغات سے کہ فلاں لغت میں ایسا لکھا ہوا ہے۔ تو لسانی درستی اور لغت پرستی میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟‘‘
سوال مختصرسا تھا کہ ’لسانی دُرستی اور لغت پرستی میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟‘ مگر تمہید طولانی ہوگئی۔ مختصر گوئی کی خوبی اپنانے کا مشورہ میرؔ صاحب تو کب کا دے چکے تھے کہ ’’عیبِ طولِ کلام مت کریو‘‘ پھر بھی ہمارے اکثر ماہرینِ ابلاغیات اسی اندازِ سخن کے خوگر ہیں۔ ڈاکٹر عابد سیال نے اچھا کیا کہ یہ سوال اُٹھادیا۔ ابلاغیات کی دُنیا میں اُردو زبان کے ساتھ جو’اسرائیلی سلوک‘ ہورہا ہے، اُس کو دیکھنے کے باوجود بہت سے ذہنوں میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ آخر لسانی دُرستی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو جیسے بول رہا ہے اُسے بولنے دیجے، بکنے دیجے۔ اس نقطۂ نظر کے حامی بیش تر وہ لوگ ہیں جن کی اپنی اُردو اچھی نہیں اور اب اُن میں اپنی اُردو اچھی کرنے کی سکت بھی نہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس نقطۂ نظر کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جن کا فرضِ منصبی ہی طلبہ کو اُردو کی تعلیم دینا ہے۔ تو جنابِ من! اگر لسانی دُرستی غیر ضروری شغل ہے تواس کی تعلیم دینے کی کیا مار آئی ہوئی ہے؟ ہمارے ملک میں اُردو کے جو گنے چنے چند اَساتذہ باقی رہ گئے ہیں، فارغ کردیجے اُنھیں بھی۔
استاذ الاساتذہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے اس بصریے میں جو باتیں بتائی ہیں اُن میں سے اکثر باتیں ہمارے ملک کے محققین، معلّمین اور مصلحین کے لیے چشم کُشا ہیں۔ بقول منیرؔ نیازی’’عقل والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت‘‘۔ مثلاً:
’’زبان کوئی جامد چیز نہیں، زبان ہر لحظہ بدلتی ہے، ہرآن بدلتی ہے اور یہ جو اس کا بدلنا ہے، یہ اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے‘‘۔
’’ایک تو دیکھنا یہ ہے کہ لسانی درستی کون کررہا ہے؟ خود اُس کی لسان کا کیا عالم ہے؟‘‘
’’اگر واقعتاً زبان کا وقوف رکھنے والا کوئی آدمی ہے اور واقعتاً اُس کا مقصد زبان کو بہتر کرنا ہے تو وہ بتائے، کوئی حرج نہیں ہے، اُسے بتانا چاہیے، وہ زبان کا سفرجانتا ہے، اس کے پاس سلیقہ ہے‘‘۔
زبان کو برتنے کے سلیقے پر ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے ’’کسی کا خوب صورت شعر‘‘ بھی سنایاکہ
لفظ کے محملِ زرتار میں خوبانِ خیال
کہیں مستور، کہیں چہرہ کُشا ہوتے ہیں
ہم نے سید عابد علی عابدؔ کی ایک غزل میں یہی شعر یوں پڑھا تھا:
لفظ کی بزمِ پُر اسرار میں خوبانِ خیال
کبھی مستور، کبھی چہرہ کُشا ہوتے ہیں
بات یہ ہے کہ آدمی اچھا شاعر ہو اور کسی کا شعر بھول جائے تو خود ہی اُس کی طرف سے اُس کے شعر سے اچھا شعر کہہ لیتا ہے۔
وفیات: 30 مئی
1930 – مولانا قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری (مصنف رحمۃ للعالمین)
1942 – مولانا حیدر حسن خان ٹونکی (شیخ الحدیث)
1981 – ضیاء الرحمن (کرنل، صدر بنگلہ دیش)
2001 – رضوان اللہ
2004 – ڈاکٹر مقبول احمد
2004 – مولانا نظام الدین شامزئی
2004 – عبد الرشید رستم قلم
2005 – اسلم مجاہد
2009 – جعفر النمیری (صدر سوڈان)
2011 – سید سلیم شہزاد
ماخذ: وفیات و خاکوں کا اشاریہ – عبد المتین منیری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات: 29 مئی
1. 1924 – سر آسو توش مکرجی
2. 1954 – احمد امین (مصری ادیب و مورخ)
3. 1972 – پرتھوی راج کپور (اداکار)
4. 1974 – بھجۃ البیطار (علامۃ الشام)
5. 1977 – سینتی کمار چیڑجی (ماہر لسانیات)
6. 1986 – ابو مسلم (صحافی)
7. 1986 – مولانا سید عبدالوہاب بخاری (افضل العلماء)
8. 1988 – مولانا سید منتخب الحق قادری (پروفیسر)
9. 1996 – ظل سبحان
10. 2002 – گل خورشید من والا
11. 2013 – احمد خیر الدین انصاری (مخدوم زادہ)
12. 2016 – مولانا سلطان احمد اصلاحی (مصنف)
ماخذ: وفیات و خاکوں کا اشاریہ – عبد المتین منیری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اصلاحِ اخلاق
حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: تمام حسنات کا اپنے اندر پیدا کرنا، تاکہ مخلوق کو ہم سے راحت پہنچے اور اس ذریعہ سے ہم کو رضائے الہٰی نصیب ہو اور تمام رزائل کا امالہ کردینا، تاکہ مخلوقِ خدا ہمارے نفس کے شرور سے اور ان رزائل کی وابستگی سے محفوظ ہوکر ظلم و ستم اور اذیتوں سے بچ جائے، " کُل سلوک" نہیں تو اور کیا ہے؟
افاداتِ عارفیہ/صفحہ: ۳۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان
وفات : 26-05-1980
تحریر: مولانا محمد یوسف لدھیانوی
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/ghulamullah-khan-by-yusuf-ludhianwi/Ghulamullah%20Khan%20By%20Yusuf%20Ludhianwi.pdf