ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

نشيد قرآننا نورٌ يضيء طريقنا

Читать полностью…

علم و کتاب

پچاس کے اوائل میں ایک تجارتی کام کے سلسلے میں آپ کا وجے واڑہ جانا ہوا ، جہاں آپ کو تجارتی امکانات روشن نظر آئے اور آپ نے فری انڈیا کے نام سے ریسٹورنٹ شروع کیا ، پھر نزدیکی شہر کھمم میں بھی کاروبار شروع کیا ، پھر آپ نے وجے واڑہ میں ( ہوٹل الفا) کے نام سے ایک بڑا ریسٹورنٹ قائم کیا ،اس میں آپ نے اپنی والدہ کے مشورے سے بھائیوں کو بھی شریک کیا ، اس ریسٹورنٹ کے لئے سرمایہ عصبہ کی حیثیت سے آپ کے چچا ملا عبد القادر مرحوم کی وراثت میں تمام بھائیوں کو ملنے والا سرمایہ کام آیا ۔ ہوٹل الفا آپ کی مسقط روانگی تک بڑے آب و تاب سے چلتا رہا۔
بچپن ہی سے آپ کو مطالعہ کا شوق تھا ، اللہ نے لکھنے کا بھی ہنر دیا تھا ، آپ نے سیرت نگار ی کے ایک مقابلے میں (حضور اکرم ﷺ کی دفاعی تدابیر ) کے عنوان سے مقالہ لکھ کر اولین انعام حاصل کیا تھا ، انہی دنوں 1955ء میں جب تلنگانہ تحریک نے زور پکڑا اور آپ اپنے ہوٹل میں ایک ماہ تک فساد سے بچنے کے لئے بند رہے تو ان ایام کی داستان لکھ کر اخبارات کو دی تھی ، اس زمانے میں جماعت اسلامی ہند کی شخصیات مولانا محمد عبد العزیز اور مولانا عبد الرزاق لطیفی مرحوم سے آپ کے گہرے مراسم قائم ہوئے تھے ، 1970ء کے اوائل میں جب ممبئی سے النوائط اور نقش نوائط کا آغاز ہوا تو آپ ان کے مستقل کالم نگار بنے ، اسی زمانے میں قوم کے اخلاقی بگاڑ پر نائطی زبان میں ( امچی کرنی ) کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی ، جو اس زمانے میں بڑی دلچسپی سے پڑھی گئی تھی ۔ آندھرا نوائط فنڈ کے قیام میں بھی آپ نے اہم کردار نبھایا ۔
شخصیت میں خوش مزاجی ، ملنساری اور مجلسیت تھی ، حافظہ بھی خداداد پایا تھا لہذا ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لئے گئے ،سونے پر سہاگہ عوامی چندے کے کام میں آپ کی صلاحیت نے کیا ، لہذا جب جامعہ اسلامیہ قائم ہوا تو اس نیک کام میں آپ کو بھی اوائل ہی میں شریک کیا گیا ،آپ کے بھتیجے اور جامعہ کے اولین طالب علم ملااقبال صاحب کی خاندان اور کئی ایک متعلقین کی مخالفت کے باوجود جامعہ سے وابستگی میں تعاون فراہم کرنے والی آپ کی بھی اہم شخصیت تھی۔
1973ء میں آپ نے دوسرے اہالیان بھٹکل کی دیکھا دیکھی خلیجی ملک عمان کا رخ کیا اور یہاں مسقط کے مہدی اسٹور میں بارہ سال تک ملازمت کی ، یہیں آپ کی رفاقت میں بھٹکل مسلم جماعت مسقط و عمان عامۃ الناس سے قریب اور متحرک ہوئی ، آپ جیسے محبان قوم کی کوششوں سے جامعہ اور دوسرے قومی اداروں کو یادگار عمارتیں جماعت کی طرف سے مرحمت ہوئیں ۔ مسقط میں رہ کر جامعہ اسلامیہ سے عوام کو جوڑنے اور ان سے تعاون حاصل کرنے کے لئے آپ نے انتھک کوششیں کیں ، قومی افراد سے ماہانہ چندہ مقرر کیا ، مسقط کے علاقہ(روی ) میں جہاں پر آپ اقامت پذیر تھے ، سخت سل پتھر کے پہاڑوں سے چاروں طرف گھرے رہنے کی وجہ سے خلیج کے دوسرے علاقوں کے بہ نسبت بہت سخت گرمی پڑتی ہے ، لیکن اس سخت گرمی اور چلتچلاتی دوپہر میں ڈیوٹی سے فارغ ہوکر ، شرابور حالت میں جامعہ کے لئے دو اور تین دینار حاصل کرنے کے لئے پیرانہ سالی میں دو اور تین منزلہ عمارتوں کی سیڑھیاں چڑھتے آپ کو دیکھنے والے کئی افراد آپ کو اب بھی ملیں گے ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

زخم کا مرہم

مولانا محمد اویس ندوی نگرامی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

تقریباً پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ میں رات کی گاڑی سے الٰہ آباد جا رہا تھا، اس وقت فجر کی نماز کا وقت پھاپھا مئو اسٹیشن پر آ جاتا تھا۔ جب گاڑی پھاپھا مئو اسٹیشن پر پہنچی تو ارادہ کیا کہ ریل سے اُتر کر وضو کرلوں، پھر اگر موقع ہو تو اسٹیشن پر، ورنہ ریل پر صبح کی نماز ادا کرلوں، مگر انجن نے سیٹی دینا شروع کردیا اور خطرہ ہوا کہ اگر میں وضو کرنے کے لیے اُترتا ہوں تو کہیں گاڑی نہ روانہ ہوجائے؟ میں اپنی اِس کمزوری کا اقرار کرتا ہوں کہ میں اُترنے اور نہ اُترنے کی کشمکش میں تھا، ٹھیک اُسی وقت دیکھا کہ ایک نوجوان جو پھٹے حالوں تھا، وہ ریل سے اُترا اور اس نے اطمینان سے وضو کیا۔ مجھ کو شرم آئی، اِس شرم و ندامت کی کیفیت، مجھ کو آج بھی یاد ہے۔ بہرحال اپنی اس کمزوری پر نفرت کرتا ہوا ریل سے اُترا اور وضو کیا۔ جیسے ہی ریل پر آکر بیٹھا، گاڑی روانہ ہوگئی، سنتوں کے ادا کرنے کے بعد جب فرض شروع کیا، اُس وقت گاڑی گنگا کے پل پر پہنچ چکی تھی۔ سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد کسی دوسری سورۃ کے شروع کرنے کا ارادہ کیا، مگر ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے زبان روک رکھی ہے۔ اِدھر ریل میں بیٹھے ہوئے غیر مسلم ہمسفر، گنگا کی خدمت میں پھولوں اور پیسوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے، ٹھیک اُسی وقت کسی خصوصی قصد کے بغیر، زبان پر یہ آیات جاری ہوئیں: "قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔" ایسا محسوس ہوا کہ آج اِن آیات کا انکشاف ہو رہا ہے۔ پھاپھا مئو اسٹیشن پر وضو کے لیے اترنے کی کشمکش کے بعد، جو ندامت ہوئی تھی اور نماز کے وقت سورۂ کافرون کی تلاوت سے جو لذت ملی تھی، وہ آج تک یاد ہے۔

ماہنامہ رضوان: خاص نمبر، بابت: جنوری، فروری 1962ء/صفحہ: ۷۴/۷۵/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ممتاز عالِم دین مولانا محمد عصمت ؔبو بیرے
کلیان میں انتقال کر گئے
ممبئی :9 مارچ.(ندیم صدیقی) ممتاز عالِم دین (86 سالہ) مولانا محمد عصمتؔ بوبیرے آج کلیان میں انتقال کر گئے۔
مولانا محمد عصمت بوبیرے 29 دسمبر1939ع کو کلیان کے معروف بوبیرے خاندان میں پیدا ہوئے ۔ اُن کی ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول میں ہوئی اُس دَور میں کلیان میں کوئی اُردو اسکول نہیں تھا، جس کے سبب اُنھیں کلیان سے دور دراز کُرلا کے انجمن اسلام ہائی اسکول میں داخل کیا گیا، جہاں انھوں نےکوئی دو برس تعلیم حاصل کی، اُنھیں دِینی تعلیم سے شغف تھا تو اُن کے اصرار پرجامعۃ الاشرفیہ مصباح العلوم ( مبارک پور۔ یوپی) میں داخل کیا گیا، ہر چند کہ اُن کے والد اُن کے مولوی بننے پر راضی نہیں تھے، وہ کہتے تھے کہ ’مولوی بننے کے بعد اُنھیں زکوٰۃ پر زندگی گزارنی پڑیگی‘ جس کے جواب میں عصمت صاحب نے کہا تھا: ’(ان شااللہ) مَیں زکوٰۃ دینے والا بنوں گا۔‘
کلیان میں کوکنی برادری کے ممتاز اُستاد ماجد قاضی نے مولانا محمد عصمت بوبیرے کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے، تفصیلی کوائف بھی لکھ بھیجے۔
بقول ماجد قاضی ،مصباح العلوم (مبارک پور ) سے انہوں نے آٹھ برس کا ’عالِم فاضل ‘ کورس مکمل کیا تھا۔ واضح رہے کہ عام طور پر کوکنی حضرات فقہ شافعی کے مقلد ہوتے ہیں ، مولانا عصمت کا خاندان بھی شافعی مسلک کا پَیرو تھا۔ اُس زمانے میں اترپردیش میں فقۂ حنفی ہی کی تعلیم عام تھی۔ مولانا عصمت بوبیرے نے دارالعلوم ہٰذا کے ذمے داران سے فقۂ شافعی کی تدریس کی درخواست کی ، اُن کی درخواست پرمصباح العلوم میں فقۂ شافعی کے لیے ایک گھنٹےکی تدریس کا سلسلہ شروع کیا گیا، فقۂ شافعی کی تدریسی ذمے داری مفتی عبد المنان کو سونپی گئی ۔اس طرح مصباح العلوم میں انہوں نے شافعی مسلک کی تعلیم حاصل کی اور حصولِ تعلیم ہی کے دَور میں انہوں نے ایک کتابچہ ’المصباح‘ تصنیف کیا ، جسے بعد میں رحیمی پریس (کماٹی پورہ۔ ممبئی) میں چھپوا کر ’ادارۂ نشر و اشاعت۔ کلیان‘ نے شائع کیا۔
مولانا عصمت بوبیرے کلیان کی کوکنی برادری کےاوّلین اور باقاعدہ عالمِ دین شخص تھے جنہوں نے1964ع میں جامعۃ الاشرفیہ مصباح العلوم (مبارک پور _ یوپی) سے باقاعدہ سند حاصل کی۔ ہماری اطلاع کے مطابق مولانا بوبیرے نے احمد آباد کے مشہور مدرسے’ شاہ عالم ‘ میں بھی درس لیا تھا ۔
کلیان بالخصوص علمی پس منظر میں کوئی قابلِ ذکر ٹاؤن نہیں ہے ، اس کے باوجود اِس سر زمین سے تعلق رکھنے والے محمد عصمت بوبیرےنےجس طرح کلیان میں( دینی پس منظر میں) علمی کام کیا، وہ ایک مثال بن گیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ دورِ حاضر میں اگر کوئی معمولی (علمی و ادبی) کام کر لیتا ہے تو وہ بھی شہرت اور ناموَری کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے جبکہ مولانا محمد عصمت بوبیرے نےاُس سر زمین پر جہاں سلیقے کا آج بھی کوئی کتب خانہ نہیں ہے، قطبِ کوکن حضرتِ مخدوم مہائمی کی مشہور ’ تفسیر مہائمی‘ کی( اُردو میں) دوجِلدوں کا ترجمہ مع سوانحی اشارے شائع کیا (اس سلسلے کی تیسری جِلد مکمل نہیں ہو سکی)اور’ادب النکاح‘۔۔۔’ احکام النکاح‘ نام سے بھی اُن کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، عام مسائل اور اُن کے حل پر مبنی مولانا اشرف علی تھانوی کی’بہشتی زیور‘ ایک زمانے میں مشہور ہے مگر کم لوگ واقف ہونگے کہ’سُنّی بہشتی زیور‘ نام کی بھی ایک کتاب مفتی خلیل احمد بدایونی نے تالیف کی تھی، اسی طرح مولانا محمد عصمت بوبیرے کی’شافعی بہشتی زیور‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔
اللہ نے مولانا بوبیرے کے ارضِ قلب میں علم اور اُس کی تدریس کا جیسے بیج ڈال رکھا تھا، کلیان اور اس کے نواح میں درس و تدریس کے سلسلے میں اُن کی خدمات ایک ریکارڈ ہیں۔ اُن کی یہ محنت کسی مسلکی دائرے میں مقید نہیں رہی، انہوں نے دینی اور عام تعلیم کے سلسلے میں جو کام کیے ہیں اس کا اجر یقیناً وہ اپنے خالق و مالک سے پائیں گے، انہوں نے تصنیف و تالیف ، امامت و خطابت کے ساتھ اداروں کے قیام میں بھی اپنا کردار بخوبی ادا کیا، کلیان میں’دارالعلوم اصلاح المسلمین‘ کی تشکیل میں دلچسپی اور پھر نیرل( نزد کرجت) میں اینگلو اردو ہائی اسکول کے قیام میں اُن کی مساعی یادگار ہیں۔
2006ع میں ہم نے اخبار کے لیے مسلمانوں کے حالات سے متعلق علمائے دین کے انٹروِیوز کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں مولانا محمد عصمت بوبیرے کا بھی انٹرویو شامل تھا، وہی اُن سے ہماری تعارفی ملاقات تھی جس میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا:
’’ اسلام قدیم ہے اپنی جدت کے ساتھ اور جدید ہے اپنی قدامت کے ساتھ۔‘‘
جیسا کہ بتایا گیا کہ انہوں نے یوپی (مبارک پور) کے ایک ممتاز مدرسے میں دینی تعلیم کی سندحاصل کی تھی مگر ان کے ہاں مسلکی تفریق کی کوئی شدت نہیں تھی، جس سے اُن کے قلب کی وُسعت اور دین کے تئیں مسلک سے پَرے اُن کا ہمہ گیر مزاج بھی واضح ہوتا ہے, مذکورہ انٹروِیو ہی میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا :

Читать полностью…

علم و کتاب

(مانگے کا اجالا)
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں

پھر کوئی کمبخت کشتی نظرِ طوفان ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں

تیرا اندازِ تغافل ہے جنوں میں آجکل
چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں

ہائے کس عالم میں چھوڑا ہے تمہارے غم نے ساتھ
جب قضا بھی زندگی کی چارہ گر ہوتی نہیں

رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

اضطراب دل سے قابلؔ وہ نگاہ ِ بے نیاز
بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں
قابل اجمیری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جلوہ ہائے پابہ رکاب ( 34 )۔۔۔ پر سیڈنسی کالج کی کچھ یادیں۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم

ہائی اسکول کے انتقام کے بعد میں نے Madras Presidency College میں داخلہ لیا۔ یہ مدراس شہر کا بہت مشہور کالج ہے۔ یہاں کے طلبہ Princes of کہلاتے ہیں۔ Presidency میں نے یہاں (B.A (Hons کورس جوائن کیا۔ میرا مضمون انگریزی زبان وادب تھا، یہ کورس تین سالہ تھا، اور یہ تخصص کو رس ہوا کرتا تھا۔
میرے مضمون کے دو نمایاں حصے تھے، انگریزی زبان اور انگریزی ادب۔ میری دلچپسی زبان سے تھی۔ میری پوری توجہ اس جانب مرکوز تھی۔ زبان کے حصے میں پڑھائے جانے والے اہم مضامین حسب ذیل تھے :
انگریزی زبان کی تاریخ، اولڈ انگلش، مڈل انگلش phonetics etymology وغیرہ۔ ان میں میرا پسندیدہ سبجیکٹ etymology تھا۔ اس علم میں لفظ کی اصلی شکل اور معنی اور ان کے ارتقا کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ بہت سارے انگریزی الفاظ لاطینی اور یونانی زبانوں سے ماخوذ ہیں۔ ان الفاظ کی صحیح تاریخ سمجھنے کے لیے ان دونوں زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ میں ہائی اسکول کے زمانے ہی سے ان زبانوں کو سیکھنے لگا تھا۔ اس لیے میں اس علم سے بھر پور فائدہ اٹھارہا تھا۔
پریسیڈنسی کالج اور مدراس کر سچین کالج کے درمیان علمی تعاون قائم تھا۔ کچھ مضامین ہم کر سچین کالج جا کر پڑھتے تھے، اور کچھ مضامین کرسچین کالج کے طلبہ ہمارے یہاں آکر پڑھتے تھے۔ جو مضامین ہم کر سچین کالج میں پڑھتے تھے ان میں etymology بھی شامل تھا۔ اس مضمون کو میکنکل نامی ایک انگریز پروفیسر پڑھاتے تھے۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ درس کے آخر میں کچھ الفاظ دیتے تاکہ طلبہ ان کے بارے میں معلومات جمع کر کے آئیں۔
ایک مرتبہ انہوں نے صرف ایک ہی لفظ دیا اور وہ تھا file۔ اس کے بعد والے درس میں انہوں نے بتایا کہ ناگہانی سفر پیش آنے کی وجہ سے وہ اس لفظ کی کما حقہ تحقیق نہیں کر سکے، اور طلبہ سے درخواست کی کہ اگر انہوں نے تحقیق کی ہو تو اسے کلاس میں share کریں۔
اشارہ سے میں نے بتایا کہ میں نے اس لفظ کی تحقیق کی ہے اور پروفیسر کی اجازت سے میں نے اپنی تحقیق بتائی۔ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
انگریزی میں file کی شکل میں دو الگ الگ لفظ پائے جاتے ہیں۔ اور دونوں کی اصل بھی الگ ہے۔ پہلا لفظ بمعنی سوہان ہے۔ یہ جرمن نژاد لفظ ہے۔ قدیم انگریزی میں یہ بصورت fil مستعمل تھا۔ جرمن زبان میں بصورت Feile ، اور ڈچ زبان میں بصورت vijl (ویل) مستعمل ہے۔
دوسر الفظ لاطینی لفظ filum سے ماخوذ ہے جو بمعنی دھا گا یا تا رہے۔
انگریزی میں اس لاطینی لفظ سے دو لفظ آئے ہیں:
ایک بمعنی فائل جس میں کاغذات رکھے جاتے ہیں۔ ابتداء میں کاغذات کو اکٹھا رکھنے کے لیے دھا گا یا تار استعمال کیا جاتا تھا۔ اس طرح اس لفظ کا رشتہ تار سے جڑ گیا۔
دوسرا لفظ file بمعنی قطار یا صف ہے۔ جیسے The students stood in file اس لفظ میں صف بستہ لوگوں کو تار سے تشبیہ دی گئی ہے۔
میری اس شرح سے پروفیسر بہت خوش ہوئے اور طلبہ سے کہا کہ میری شرح کو قلم بند کر لیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

روزہ کے مقاصد

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

محمد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی کوئی تعلیمِ ربانی، محض حکم کے طور پر نہیں ہے، بلکہ وہ سرتاپا حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے، اس کے فرائض کی عمارت، روحانی، اخلاقی، اجتماعی اور مادی فوائد اور منفعتوں کے چہارگانہ ستونوں پر قائم ہے اور ان مصلحتوں اور منفعتوں کے اصول اور جوہر کو خود محمد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کے صحیفہ الہامی نے ظاہر کردیا ہے اور بتادیا ہے۔ چنانچہ روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض بھی اس نے تین مختصر فقروں میں بیان کردیے ہیں۔

(۱) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (بقره : ۱۸۳) تاکہ تم پرہیزگار بنو (یا تم میں تقویٰ پیدا ہو)

(۲) وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ (بقره: ۱۸۵) تاکہ خدا نے جو تم کو ہدایت کی ہے، اس پر اس کی بڑائی اور عظمت ظاہر کرو۔

(۲) وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (بقره: ۱۸۵) تاکہ اس ہدایت کے ملنے پر تم خدا کا شکر کرو۔

شریعت والے پیغمبروں کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے شریعت کے اترنے سے پہلے ایک مدت متعینہ تک ملکوتی زندگی بسر کی اور تا بہ امکان، کھانے پینے کی انسانی ضرورتوں سے وہ پاک رہے اور انہوں نے اس طرح اپنی روح کو عالمِ بالا سے اتصال کے لائق بنایا۔ یہاں تک کہ وہ مکالمہ الہٰی سے بھی سرفراز ہوئے اور پیغامِ ربانی نے ان پر نزول کیا، حضرت موسٰی علیہ السلام نے چالیس روز اسی طرح بسر کیے، تب توراۃ کی لوحیں ان کو سپرد ہوئیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی چالیس روز اسی طرح گزارے، تب حکمت کا سرچشمہ ان کی زبان اور سینہ سے ابلا۔ محمد رسول اللّٰه صلی اللّٰه نے غارِ حرا میں ایک مہینہ، یعنی تیس دن مصروفِ عبادت رہے، اس کے بعد فیضانِ الہٰی کا نور، اس غار کے دہانہ سے طلوع ہوا۔

سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۴/تلخیص و پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

’’اتفاق دیکھیے کہ تھوڑے ہی دنوں میں رمضان المبارک کی آمد آمد سے مسلمان قیدیوں میں ایک نئی روح پیدا ہوگئی ۔اسلامی اخوت کا جیسا زبر دست اثر میں نے اس موقع پر زندان فرنگ میں محسوس کیا اس کا نقش میرے دل پر ہمیشہ موجود رہے گا۔ہمارے بیرک میں جتنے مسلمان قیدی تھے تقریباً ان سب نے روزہ رکھنے اور سحر وافطار کے وقت یکجا ہوکر کھانا کھانے کا انتظام کرلیا تھا،جس سے بے سروسامانی کی حالت میں بھی اسلام کی شان مساوات و اخوت سادگی کی ایک ایک عجیب وغریب عالم میں نمودار ہوتی تھی‘‘۔(مشاہدات زنداں ،حسرت موہانی ،ص 27)
حفیظ نعمانی ندائے ملت (لکھنؤ)کے معاون ایڈیٹر تھے۔ 1965میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اقلیتی کردار کے لیے انھوں نے’’ ندائے ملت‘‘ کا خصوصی نمبر نکالا جس کی پاداش میں انھیںجیل جانا پڑا ۔یہ پوری روداد انھوں نے ’’روداد قفس ‘‘نامی کتاب میں لکھ چھوڑی ہے ۔اسی میںانھوں نے رمضان اور خصوصاًافطار کا ذکر کیا ہے ۔یہ پورا بیان پڑھنے سے تعلق رکھتاہے ۔یہاں صرف افطار سے متعلق ایک اقتباس ہدیہ ناظرین ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’اپنی بیرک میں واپس آیا تو یہ دیکھ کر روح وجد کرنے لگی کہ احاطہ کے کنارے نیم کے درخت کے نیچے سات کمبل بچھے ہوئے ہیں ۔اور ان پر سفید دھلی ہوئی چادر لگی ہوئی ہیں،جس پر تمام روزے دار بیٹھے ہیں اور افطار کا سامان درمیان میں سجا ہوا ہے ۔افطار کے اس سامان میں اعلی سے اعلی سامان سے لے کر بھنے ہوئے جیل کے چنے تک موجود تھے۔گھڑی کی سوئی پانچ بج کر تیس منٹ پر پہنچی کہ موذن نے اذان شروع کردی‘‘ ۔(روداد قفس (102)
افطار کا ذکر افطار پارٹی کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتا ہے ۔ہمارے یہاں سیاسی افطار پارٹی سے لے کر اجتماعی افطار کی نہ جانے کتنی شکلیں پائی جاتی ہیں البتہ شہرت سیاسی پارٹیوں کی زیادہ ہوتی ہے ۔70کی دہائی میں سیاسی افطار پارٹیوں کا چلن عمل میں آیا ۔چند ہی ایسی پارٹیاں ہوں گی جنھوں نے اس میں حصہ نہ لیاہو ۔مخلوط حکومت کے دور میں کس کو بلایا جائے اورکون کس کی دعوت میں جارہا ہے اس کی بڑی معنویت ہوا کرتی تھی، مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے ۔
منور رانا نے اپنے بعض انشائیوں میں ان افطارپارٹیوں کاحال لکھا ہے ۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’لکھنؤ کے گورنر ہاؤس کی ایک افطار پارٹی کا قصہ بہت مشہور ہے حالانکہ یہ قصہ ہر گورنر ہاؤس کی افطار پارٹی سے جوڑا جاسکتا ہے کہ گورنر ہاؤس میں افطار پارٹی میں آئے تمام لوگوں نے تین منٹ پہلے ہی روزہ کھول لیا تھا ۔دراصل افطارپارٹی میں شریک کوئی بھی شخص روزہ دار تھا ہی نہیں لہٰذا کسی کو افطار کے صحیح وقت کا اندازہ بھی نہیں تھا۔ممکن ہے دوچار لوگ روزے سے رہے بھی ہوں تو وہ عاقبت سے زیادہ گورنر صاحب سے ڈر گئے ہوں گے ۔یوں بھی سیاسی افطار پارٹی سے عموماً اچھے لوگ گریز کرتے ہیں ۔کچھ تو اگر بھولے بھٹکے پھنس بھی جاتے ہیں تو وہ اپنے جائز پیسوں کی دوچار کھجوریں جیب میں ڈال کر جاتے ہیں۔...بھائی رئیس انصاری کے ساتھ مجھے کئی بار سرکاری افطار پارٹیوں میں جانے کاموقع ملا ہے ۔ہر افطار پارٹی کا آنکھوں دیکھا حال تقریباً ایک جیسا تھا ۔( پھنک تال،منور راناص 90)
منور رانا کی نثر بڑی کاٹ دار ہوتی تھیں ۔تیر ونشتر بھرے جملے کہا ں سے کہاں بات پہنچا دیتے تھے ۔انھوں نے عین رشید کی روزہ افطار کا واقعہ کافی دلچسپ انداز میں لکھا ہے ۔اس کا ایک اقتباس کچھ یوں ہے:
ایک د ن مجھے بھی ان کے ساتھ روزہ کھولنے کا شرف حاصل ہوا۔ان کا دسترخوان مختلف قسم کی چیزوں سے سجا ہوا تھا ۔روزہ افطار کے بعد جب میں چلنے لگا تو انھو ںنے چورن کے طورپر ایک بہت ہی دلچسپ بات میرے کان میں کہی ۔فرمانے لگے اللہ جب قوم کو عروج بخشتا ہے تو الغزالی پیدا کرتا ہے اور جب زوال بخشتا ہے تو نصر غزالی پیدا کرتا ہے ‘‘۔(بغیر نقشے کا مکان ۔159)
سیاسی افطار پارٹی کے ذکر میں شعرا کہاں پیچھے رہتے ہیں ۔مرحوم برقی اعظمی کہتے ہیں:
دعوت کا اگر شوق ہے جاوے وہ کہیں اور
کرنے کو سیاست نہ وہ افطار میں آوے
اسی مضمون کو تشنہ اعظمی نے مزید نکھارا ہے ۔اس شعر میں طنز کا پہلو بھی خوب ہے ۔
نہیں روزے سے ہیں تو کیا اداکاری تو کرنی ہے
امیر شہر کی دعوت ہے افطاری تو کرنی ہے
رمضان اللہ تعالی سے بندہ مومن کے عشق کا مہینہ ہے ۔بندہ کی عبادتیں اور ریاضتیں ہی قرب الہی کا ذریعہ بنتی ہیں اور یہی قرب بندہ مومن کی پہچان بنتا ہے ۔ایسے میں اسے کسی چیز کا ہوش کہاں رہتا ہے ۔سہیل آزاد نے کیا خوب شعر کہا ہے
یہ ہمہ وقت کا سودا یہ عبادت محکم
عشق میں لمحہ افطار کہاں آتا ہے
سیاست نے بھی مذہب سے حسبِ توفیق استفادہ کیا ہے۔ افطار مذہب سے اورپارٹی اپنی طرف سے۔ بہرصورت افطار کی جلوہ سامانیاں ہیں اور ہماری معاشرتی بوقلمونی بھی۔ دونوں جلوے سلامت!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

تراویح کے سلسلے میں حفاظ کرام کی خدمت میں چند گذارشات۔
قرآن پاک اللہ تعالی کا کلام ہے، اور تراویح ایک عبادت ہے، اس لئے اس کو اسی اہتمام و اخلاص سے ادا کرنا چاہیے، لیکن عام طور پر ہمارے حفاظ کرام حفظ قرآن کے علاوہ دینی تعلیم سے کماحقہ واقف نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو اس کی طرف توجہ نہیں رہتی اس لیے وہ عبادت خالص عبادت نہیں رہ پاتی۔
ایسا لگتا ہے جیسے ایک بازار ہے جس میں خرید و فروخت کا سودا ہورہا ہے، اور عوام الناس کا تصور بھی یہی ہوگیا ہے کہ یہ حفاظ کے کمانے کا سیزن ہے۔
دوسری طرف ختم قرآن کو اس قدر مقصود سمجھ لیا گیا کہ پیشہ ور حفاظ پانچ چھ دن کی تراویح میں قرآن پاک ختم کرنے لگے اور عوام بھی سہولت کی خاطر اسی میں شرکت کو ترجیح دینے لگی، ایسے مواقع پر قرآن پاک جس طرح پڑھا جاتا ہے اس کو اگر قرآن کا استہزاء کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
اس طرح ایک خالص عبادت ایک ظاہری عمل بن کر رہ گیا ہے جس میں حفاظ وعوام دونوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیت صرف ہوتی ہے لیکن مقاصد شریعت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس عبادت کا مقصود ہے۔
ہندوستان اور بیرون ہند میں اس سلسلے میں افراط و تفریط کی صورت دیکھنے میں آتی ہے، اگر بہت سے مسلم وغیر مسلم ممالک میں ختم قرآن پر مطلق توجہ نہیں کی جاتی بلکہ اس کے برعکس ایک رکعت میں ایک آیت کی تراویح ہوتی ہے تو برصغیر میں ختم قرآن کو اصل سمجھ کر اس کی روح کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جب کہ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اصل تراویح کی تکمیل ہے، ختم قرآن کا حکم تاکیدی نہیں ہے۔ اور مقصود رات میں خشوع کے ساتھ عبادت ہے۔
طلحہ نعمت ندوی

Читать полностью…

علم و کتاب

اس رات بیرکوں سے نکال کر جیل حکام اور سپاہیوں کے سخت پہرہ میں ہم نے تراویح ادا کی۔ اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی صاحب نے امامت کی، جو گینگسٹر ابو سلیم کی معاونت کے الزام میں بند تھے۔ نماز کے بعد رقت آمیز دعا بھی کرائی۔ مگر اگلے روز بتایا گیا کہ تراویح کی اجازت واپس لی گئی ہے، مگر الگ الگ بیرکوں میں گنتی اور مقفل ہونے کے بعد نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ معلوم ہوا کہ اعلیٰ حکام نے سپرنٹنڈنٹ کی سرزنش کی تھی اور دیگر وارڈوں کے قیدیوں نے بھی باجماعت تراویح ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہماری بیرک میں بند کل 50 قیدیوں میں سات یا آٹھ کے قریب مسلمان تھے۔

بیرک کے دروازے پر چرس رکھنے کے الزام میں بند ایک بڑے میاں نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔ ان کی ایک ٹانگ پولیس والوں نے انٹروگیشن کے دوران ناکارہ کردی تھی۔ انہوں نے جوتے وغیرہ سلیقے سے غسل خانہ میں رکھوا کر نماز کے لیے جگہ خالی کروائی۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ بیرک میں ہمارا ایک ساتھی حافظ قرآن ہے۔ اس کی کسی بھی حرکت سے حافظ قرآن ہونا تو دور مسلمان ہونے میں بھی شک ہوتا تھا۔ اس کا شمار بیرک کے دبنگ اور سینئر قیدیوں میں ہوتا تھا۔ نئے قیدیوں کی ریگنگ کرنا اور نئی گالیاں تخلیق کرنے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بیرک کی اگلی قطاریں جو سینئر قیدیوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں، وہاں پر وہ رات بھر جوا کھیلتے اور نشہ کرتے رہتے تھے۔

بڑے میاں نے تراویح کی امامت کرنے کے لیے ان کو راضی کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ کسی مدرسے کے فارغ تھے، مگر بعد میں بری صحبت کا شکار ہوکر منشیات کا کاروبار کرنے لگے۔ خیر پورے رمضان کے مہینے انہوں نے امامت سنبھالی۔ واقعی نہ صرف وہ حافظ قرآن تھے، بلکہ خوش الحان قاری بھی تھے۔ ان کی قرأت دلوں کو دستک دےکر مخمور کردیتی تھی۔ ان کی اقتدا میں لگتا تھا کہ جیسے واقعی نماز عشق ادا ہو رہی ہے۔ مگر 29 رمضان کی شام جونہی خبر ملی کہ چاند دیکھا گیا ہے اور اگلے دن عید ہے، تو بیرک مقفل ہوتے ہی، امام صاحب چادر اور ٹوپی اتار کر واپس اپنی جگہ لوٹ گئے اور اگلی قطاریں جو ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے سونی ہوچکی تھیں، پھر آباد ہوگئیں۔ وہاں ایک بار پھر جوئے اور نشے کی بساط بچھ گئی۔

واہ رے انسان تیرے رنگ۔

رمضان کے مہینے میں اپنی روش کے برعکس جیل حکام نے روزہ داروں کا خاص خیال رکھا۔ اس پورے ماہ ان کو وارڈ، بیرک، غسل خانے صاف کرنے، لنگر ڈیوٹی اور دیگر کاموں سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ تہاڑ جیل میں نان ویجی ٹیرین کھانے پر پابندی عائد ہے۔ سبزی اور دال پر گزارہ کرنا ہوتا تھا۔ پانی میں دال اور سبزی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنی پڑتی تھی۔ مگر رمضان کے دوران سحری کے وقت جو کھانا تقسیم ہوتا تھا، اس میں تڑکا لگا ہوتا تھا اور نسبتاً اچھی طرح سے پکایا ہوتا تھا۔ اکثر سویابین کی سبزی بھی ملتی تھی، جس سے گوشت کی طلب کسی حد تک کم ہوجاتی تھی۔لگتا تھا کہ لنگر میں پکانے والے مسلمان اور روزہ دار رہے ہونگے، اور وہ بھی روزے داروں کو انسانوں والا کھانا کھلا کر ثواب کمانے کے فراق میں ہیں۔

جس طرح اسکول میں بچوں کا ایک گروپ سا بنتا ہے، اسی طرح بیرک میں بھی قیدیوں کا ایک گروپ بنتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کام تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی کورٹ میں تاریخ ہے، تو اس کے حصہ کا کھانا لنگر سے وصول کرنا اور بیرک و وارڈ کی صفائی کے لیے بھی باری باری نام دینا وغیرہ۔ میرے گروپ میں ایک کشمیری پنڈت کمپیوٹر انجینیر اروند مکو، دہلی یونیورسٹی کا ایک طالب علم انل کمار اور میرٹھ کے کسی دیہات کا مکین احتشام الدین تھے۔ پنڈت جی کھانے پینے کے بڑے شوقین تھے۔

جب اگلے روز سحری کے کھانے کی میں نے تعریف کی، تو اروند مکو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس نے بھی جیل آفس جاکر اپنا نام روزہ داروں میں لکھوا دیا۔ سحری میں تڑکے والا کھانا کھا کر تو وہ سو گیا۔ مگر صبح سویرے چائے نہ ملنے سے وہ خاصا مضطرب تھا۔ دوپہر ہوتے ہوتے اس کی حالت خاصی خراب ہوچکی تھی۔ اس کو یقین نہیں آریا تھا کہ ہم واقعی شام تک بھوکے پیاسے رہیں گے۔

وہ اب اس وقت کو کوس رہا تھا، جب وہ اپنا نام روزہ داروں کی فہرست میں لکھوا کر آیا تھا۔ اس دوران اس کو جیل آفس سے بلاوا آگیا۔ مسلم قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ایک ہندو قیدی کا روزہ رکھنا، جیل کے لیے پبلسٹی اور حکومت کے لیے ہندو مسلم رواداری کی علامت تھی۔ میڈیا میں اس کی رواداری اور مسلم ساتھیوں کے ساتھ روزہ رکھنے کی بھر پور پبلسٹی کی گئی۔

واپسی پر پنڈت جی کی حالت نہایت خستہ تھی۔ ابھی افطار میں کئی گھنٹے باقی تھی۔ بس ہم نے اس کو پانی اور کچھ بسکٹ کھلاکر کہا کہ بچپن میں ہم بھی ایسے ہی روزے رکھتے تھے۔ سحری کرنے کے بعد دادی ہمیں دوپہر کا کھانا کھلا کر اس کو بچوں کا افطار کہتی تھیں۔ مکو صاحب یہ یقین ہی نہیں کر پا رہے تھے کہ ہم پورا دن کھائے پیے بغیر گزارتے ہیں۔ مگر اب اس کے ساتھ ایشو تھا کہ چونکہ اس کا نام روزہ داروں

Читать полностью…

علم و کتاب

یکجہتی کی روایات“ پیش نظر ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ 1988میں خدابخش لائبریری پٹنہ نے شائع کیا تھا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔وہ لکھتے ہیں:
”جس طرح شیوا جی کے متعلق انگریز مورخوں نے غلط فہمیاں پیدا کیں، اسی طرح اورنگ زیب کے متعلق بھی۔بچپن میں، میں نے بھی اسکولوں کا لجوں میں اسی طرح کی تاریخ پڑھی تھی اور میرے دل میں بھی اس طرح کی بدگمانی تھی۔ لیکن ایک واقعہ پیش آیاجس نے میری رائے قطعی بدل دی۔ میں تب الہ آباد میونسپلٹی کا چیئرمین تھا۔ تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ہے۔ اس کے پجاری کی موت کے بعد مندر اور مندر کی جائیداد کے دو دعویدارکھڑے ہوگئے۔ دونوں نے میونسپلٹی میں اپنے نام داخل خارج کی درخواست دی۔ ان میں سے ایک فریق نے کچھ دستاویزیں بھی داخل کی تھیں۔ دوسرے فریق کے پاس کوئی دستاویز نہ تھی۔ جب میں نے دستاویز پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ وہ اورنگزیب کا فرمان تھا۔ اس میں مندر کے پجاری کو ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے جاگیر میں دو گاؤں عطا کیے گئے تھے۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ دستاویز نقلی ہیں۔ اورنگزیب تو بت شکن تھا۔ وہ بت پرستی کے ساتھ کیسے اپنے کو وابستہ کرسکتا تھا؟ میں اپنا شک رفع کرنے کے لیے سیدھا اپنے چیمبر سے اٹھ کرسر تیج بہادر سپرو کے یہاں گیا۔ سپرو صاحب فارسی کے عالم تھے۔ انھوں نے فرمان کو پڑھ کر کہا کہ یہ فرمان اصلی ہیں۔ میں نے کہا ”ڈاکٹر صاحب، عالمگیر تو مندر توڑتا تھا، بت شکن تھا، وہ ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے کیسے جائیداد دے سکتا ہے؟“سپرو صاحب نے منشی کو آوازدے کر کہا ”منشی جی، ذرا بنارس کے جنگم باڑی شیو مندر کی اپیل کی مثل تو لاؤ۔“
منشی جی مثل لے کر آئے توڈاکٹر سپرو نے دکھایا کہ اس میں اورنگ زیب کے چار فرمان تھے جن میں جنگموں کو معافی کی زمین عطا کی گئی تھی۔ڈاکٹر سپرو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے صدر تھے، جس کے عہدے داروں میں ڈاکٹر بھگوان داس، سید سلیمان ندوی،پنڈت سندر لال اور ڈاکٹر تارا چند تھے۔ میں بھی اس کا ایک ممبر تھا۔ ڈاکٹر سپرو کی صلاح سے میں نے ہندوستان کے خاص خاص مندروں کی فہرست مہیا کی، اور ان سب کے نام یہ خط لکھا کہ اگر آپ کے مندروں کو اورنگزیب یا مغل بادشاہوں نے کوئی جاگیر عطا فرمائی ہو(خصوصاً اورنگزیب)تو ان کی فوٹو کاپیاں مہربانی کرکے بھیجیں۔ دوتین مہینے کے انتظار کے بعدہمیں مہاکال مندراجین،بالا جی مندرچترکوٹ، کاماکھیہ مندر گوہاٹی، جین مندر گرنار، دلواڑا مندر آبواورگرودواررام رائے دہرہ دون وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی تھیں۔ مورخوں کی تاریخ کے مطابق ایک نیا اورنگ زیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔“(’ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات‘ صفحہ17اور 18،ناشرخدابخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ)
بی این پانڈے کی کتاب سے لیا گیا یہ اقتباس اورنگ زیب کے اصل کردار کو واضح کرتا ہے۔ یہ حوالہ اتنا مضبوط اور موثر ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے حوالے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس وقت ملک میں جو ماحول ہے، وہاں کوئی عقل کی بات سننے والا ہی نہیں ہے۔ سب کچھ جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر ہورہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا، کیونکہ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح اس ملک کی تاریخ و تہذیب سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹایا جائے۔اس مہم کا سب سے بڑا نشانہ مسلم حکمراں اور ان کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

لامية ابن الوردي ، بصوت ظفر النتيفات

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: 9 مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسیہ بیگم (ادا کارہ) 9 مارچ 2013 ء
اختر الایمان 9 مارچ 1996 ء
پٹھانے خان (سرائیکی) 9 مارچ 2000 ء
جمال الدین افغانی 9 مارچ 1897 ء
خاور سلطانہ 9 مارچ 1989 ء
ڈاکٹر رفعت حسین صدیقی 9 مارچ 1963 ء
لالا محمد رفییق 9 مارچ 1990 ء
شوکت سبزواری ،سید شوکت علی 9 مارچ 1973 ء
عبدالشکور بیدل 9 مارچ 1989 ء
غلام علی میمن 9 مارچ 1979 ء
کلثوم ہاشم 9 مارچ 2007 ء
محمد احمد خاں 9 مارچ 1992 ء

(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ۔( زیر ترتیب) ۔ از: عبد المتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

روزہ، اللّٰه تعالیٰ کے احسان شناسی کا احساس ہے

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

یہ روزہ، انبیاء علیھم السلام کی صرف پیروی اور تقلید ہی نہیں ہے، بلکہ درحقیقت اللّٰه تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کا، جو اس نے اپنے پیغمبرِ صادق صلی اللّٰه علیہ وسلم کے ذریعہ انسانوں پر کیا، "شکریہ" ہے اور اس کی احسان شناسی کا احساس ہے۔ وہ کتابِ الہٰی، وہ تعلیمِ ربانی، وہ ہدایاتِ روحانی جو ان ایام میں انسانوں کو عنایت ہوئی۔ جس نے ان کو شیطان سے فرشتہ اور ظلمانی سے نورانی بنایا، پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر، ان کو اوجِ کمال تک پہنچایا، ان کی وحشت کو تہذیب و اخلاق سے، ان کی جہالت کو علم و معرفت سے، ان کی نادانی کو حکمت و دانائی سے اور ان کی تاریکی کو بصیرت اور روشنی سے بدل دیا۔ جس نے ان کی قسمتوں کے پانسے الٹ دیے اور فضل و دولت اور خیر و برکت کے خزانوں سے ان کے کاشانوں کو معمور کردیا۔ جس نے ذرہ بے مقدار کو آفتاب اور مشتِ خاک کو ہمدوش ثریا بنادیا۔ قرآن پاک اپنے ان الفاظ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: "وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ" (البقرہ: ۱۸۵) "اور (یہ رمضان کا روزہ) اس لیے (فرض ہوا) تاکہ تم اللّٰه کی بڑائی کرو کہ تم کو اس نے ہدایت دی اور تاکہ تم اس کا شکریہ ادا کرو۔" اس ہدایت ربانی اور کتابِ الہٰی کے عطیہ پر شکر گزاری کا یہ رمز و اشارہ ہے کہ اس مہینہ کی راتوں میں مسلمان اس پوری کتاب کو نمازوں (تراویح) میں پڑھتے اور سنتے ہیں اور اس مہینہ کے خاتمہ پر "اللّٰه اکبر، اللّٰه اکبر" کا ترانہ بلند کرتے ہوئے، عید گاہوں میں جاتے اور خوشی و مسرت کے ولولوں کے ساتھ، عید کا دوگانہ شکر ادا کرتے ہیں۔

سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۵/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ساحرؔلدھیانوی کے جگری
دوست سے ایک ملاقات


ملا قاتی:معصوم مرادآبادی

/channel/ilmokitab

آج 8 مارچ ہے اور یہ اردو کے مقبول ترین شاعر ساحر لدھیانوی کا یوم پیدائش ہے۔ وہ آج ہی کے دن 1921میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ میں نے گزشتہ دنوں دہلی میں مقیم ساحر لدھیانوی کے آخری جگری دوست امرناتھ ورما سے ایک انٹرویو لیا تھا ۔ افسوس امرناتھ ورما بھی گزشتہ دنوں داغ مفارقت دے گئے ۔ ان سے گفتگو کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں ۔

فلمی و ادبی دنیا کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔اپنے گیتوں سے اردو زبان کو مقبول عام بنانے میں جو کردار ساحر نے اداکیا ہے، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔ ساحر کے انتقال کو 43 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کے چاہنے والے آج بھی انھیں اسی طرح یاد کرتے ہیں، جیسا کہ ان کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ان دنوں ہر طرف ساحر کے چرچے ہیں اور کیوں نہ ہوں، ان کی پیدائش کی صدی تقریبات جومنائی جارہی ہیں۔ساحر یارباش قسم کے شاعر تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی، ا س لیے نہ تو ان کے آل اولاد تھی اور نہ کوئی دوسرا جھنجٹ۔ہاں وہ ناکام عاشق ضرور تھے۔ناکام اس لیے کہ جن سے انھیں عشق تھا، ان سے شادی نہیں ہوئی، لہٰذا انھوں نے مجرد زندگی گزاری۔اس غم کو غلط کرنے کے لیے وہ اکثر اپنے دوستوں میں مگن رہا کرتے تھے اور خوش گپیاں کرتے تھے۔ ساحر لدھیانوی کو قریب سے جاننے والے بھی اب دنیا چھوڑ چکے ہیں، صرف ایک شخص زندہ ہیں اور وہ ہیں امرناتھ ورما، جن کا شمار ہندستان کے سرکردہ پبلشروں میں ہوتا ہے۔
اسٹار پبلی کیشن کے بانی اور مالک امرناتھ ورما اس وقت عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں، لیکن انھیں کریدئیے تو وہ ساحر کی ایسی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ انھیں سننے اور سمجھنے کو جی چاہتا ہے۔گزشتہ ہفتہ میں نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، اور ان کے دامن میں ساحر کی یادو ں کے جو موتی ہیں،وہ آپ کے لیے چن کر لا لایا ہوں۔
امرناتھ ورما کو ادبی دنیا میں امر ورما کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب سے کوئی چالیس برس پہلے انھوں نے ایک فلمی وادبی ماہنامہ ”مووی اسٹار“ جاری کیا تو یہ خاکسار بھی اس کی ٹیم کا ایک حصہ تھا۔ میں اسی دور سے انھیں جانتا ہوں، تبھی یہ بھی جانا کہ ساحر کے ساتھ ان کا کتنا قریبی تعلق تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسٹار پبلی کیشنز نے اسٹارپاکٹ بکس کے نام سے شاعری کی جیبی کتابوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ صرف ایک روپے میں دستیاب یہ پاکٹ بکس لاکھوں میں فروخت ہوئیں اور ان کے ذریعہ ہی امرناتھ ورما کی ساحر سے شناسائی ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ساحر سے ان کی پہلی ملاقات 1958 میں اس وقت ہوئی جب وہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاں نثار اختر اور کچھ دیگر دوست بھی تھے۔امر ورما ان سے ملنے جامع مسجد علاقہ میں واقع فلورا ہوٹل پہنچے۔ اسی دور میں انھوں نے پاکٹ بکس کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس کا آغاز وہ ساحر کی کسی کتاب سے کریں۔ جب انھوں نے ساحر کے روبرو اپنا مدعا بیان کیا تو ساحر نے کہا کہ ”دوسرے پبلشر میری کتابوں کو مجھ سے پوچھے بغیر شائع کررہے تو آپ کو کیا قباحت ہے۔“
ساحر نے امر ورما کو اپنے گیتوں کا مجموعہ ”گاتا جائے بنجارا“ شائع کرنے کے لیے دیا۔امرورما بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کی ایک ہزار جلدیں شائع کیں اور بہت ہچکچاتے ہوئے بطور رائلٹی ساڑھے باسٹھ روپے کا چیک انھیں بھیج دیا۔ وہ ڈررہے تھے کہ کہیں اتنی معمولی رقم کا چیک دیکھ کر ساحر ناراض نہ ہوجائیں، لیکن چند ہی روز بعد امر ورما کو ساحرکا ایک خط موصول ہوا،جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ”آپ پہلے اردو پبلشر ہیں، جو مصنف کو رائلٹی دینا بھی جانتے ہیں۔“ امر ورما کہتے ہیں کہ ”یہ طنزتھا یا تعریف، میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ کچھ عرصے بعد میں بمبئی گیا تو وہاں کے اردو ادیبوں نے مجھے بتایا کہ ساحر لدھیانوی آپ کے ادارے کی بہت تعریف کرتے ہیں، کیونکہ آپ رائلٹی بھی دیتے ہیں جو آج اردو پبلشروں کے ہاں عنقا ہے۔اس کے بعد جب ان کی ملاقات ساحر سے ہوئی تو انھوں نے ان کی بہت خاطر مدارات کی۔وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی مہمان نوازی کو میں آج تک نہیں بھول پایا ہوں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ساحر نے ساڑھے باسٹھ روپے کا وہ چیک کیش نہیں کرایا بلکہ ایک یادگار کے طورپر اپنے پاس رکھا۔
امرورما بتاتے ہیں کہ”اپریل 1974میں ہمارے ادارے ہندی پاکٹ سیریز کی دسویں سالگرہ منائی گئی تو اس میں شرکت لیے ساحر بطور خاص دہلی آئے اور اپنے دوست اندرکمار گجرال کی صدارت میں مشاعرے میں شریک ہوئے۔ وہ کئی روز دہلی میں رہے اوران کا زیادہ تروقت میرے ساتھ ہی گزرا۔ اس دوران وہ کئی بار میرے غریب خانہ پر بھی تشریف لائے اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ ایک ہفتہ تک تقریباً روز ہی ان کے اعزاز میں ایک پروگرام ہوتا تھا۔ساحر کی بدولت کئی ممتاز ہستیوں سے میری شناسائی ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں ساحر کے بے تکلف دوستوں میں شامل ہوگیا۔“

Читать полностью…

علم و کتاب

چنئی اور وجے واڑہ میں زندگی گذارنے کی وجہ سے الحاج محی الدین منیری صاحب سے آپ کے تعلقات علیک سلیک تک ہی محدود تھے ، بلکہ مزاج میں ایک حد تک دوری ہی تھی ، لیکن منیری صاحب دور کو قریب لانے ، حجابات کو دور کرنے کا ہنر جانتے تھے ، دو چار سفروں ہی میں آپ نے ملا حسن صاحب کو خود سے بہت قریب کردیا ، یہ بھی قدر شناس نکلے ،1981ء میں جب منیر ی صاحب کو جامعہ کی نظامت سونپی گئی تو آپ کی عمر ڈھل رہی تھی ، بیماریوں نے کافی ضعیف اور کمزور کردیا تھا ، لیکن آپ کے حوصلوں کے سامنے بیماریاں کہاں جیت پاتیں ، پہلی میعاد ختم ہونے سے قبل ۱۹۸۸ء میں آپ نے ملاحسن صاحب کو عمان سے بن باس لینے پر آمادہ کیا ، چونکہ دستور کے مطابق نائب ناظم کے اختیار ات ناظم کی غیر حاضری میں شروع ہوتے ہیں ،لہذا ناظم سے مساوی اختیارات سے مسلح (معاون ناظم) کا عہدہ شوری سے منظور کروایا ،اور آپ کو معاون کی مسند پر فائز کردیا ، اس کے بعد منیری صاحب اور ملاحسن صاحب نے ایک جان دو قالب کی حیثیت سے جامعہ اور جامعۃ الصالحات کے انتظامات سنبھالے ، اور انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا ۔ منیری صاحب کی زندگی ہی میں آپ نے جہاں جہاں اہالیان بھٹکل ذریعہ معاش اور تجارت سے وابستہ تھے ، ان علاقوں کے مسلسل دورے شروع کئے ، اور عامۃ الناس کو ان اداروں سے قریب کرنے میں جو قربانیاں دیں اس کی دوسری مثالیں ملنی مشکل ہیں ، کوئی بیس سال قبل ابو ظبی میں آپ کی قیادت میں خیر سگالی وفد کو نیچے لے جانے والی دس منزلہ لفٹ ٹوٹ کر قلانچیں مارنے لگی ، چار پانچ مرتبہ زوروں سے اوپر نیچے پٹک کر جھٹکے دئے ، سب کی ہڈیاں چٹخ کر ٹوٹنے لگیں ، لیکن تقدیر میں انہیں تادیر زندہ رکھنا لکھا تھا ، اس وقت موت اسباب کے سامنے ہار گئی ۔
1994ء میں منیری صاحب کی رحلت کے بعد آپ کو ناظم جامعہ منتخب کیا گیا ، اوردو میعاد تک آپ نے اس منصب جلیلہ کے ساتھ انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ، جس دوران آپ کو ماسٹر محمد شفیع شابندری ، مولانا عبد العلیم قاسمی ، محمد علی شرالی ، جیسے رفقاء کا بھر پور تعاون حاصل رہا ، آپ نے اس دوران اپنے فریضہ منصبی کی ادائیگی کے لئے اپنی صحت تک قربان کردی ،اسکول اور مدرسے کی باقاعدہ تعلیم نہ پانے کے باوجود توفیق یزدی سے آپ نے وہ کام انجام دئے ، جو بڑے پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں انجام نہیں پاتے ، آپ کے دور میں جامعہ نے ترقی کے بہت سے مراحل طے کئے ، آپ کے دور میں علمائے ہند کے ساتھ عموما اور ندوے کے ساتھ خصوصا تعلقات بہت مضبوط ہوئے ، آپ کے دور نظامت میں مختلف علمی سرگرمیاں بھی فروْغ پائیں جن میں ، (مولانا محمد الیاس ندوی صاحب کی کتاب سیرت سلطان ٹیپو کی تقریب اجراء) ، اور (سیمینار رابطہ ادب اسلامی) تاریخی نوعیت کے حامل ہیں ، آپ کے دور نظامت میں جامعہ کی مرکزی درسگاہ کی عمارت تکمیل کو پہنچی ، جامعہ آباد میں نئی عالیشان مسجد اور اجلاس گاہ کی عمارت کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا ، آپ جماعت المسلمین بھٹکل کے صدر بھی رہے ، جب تک ہوش رہا یہی کہتے رہے کہ اللہ تعالی مرنے سے پہلے کوئی نیک کام لے لے ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ سے آپ نے جتنا مانگا تھا ، اس سے کہیں زیادہ ہی ملا ، جامعہ اور دینی ادارے جیسے جیسے ترقی پاتے رہیں گے اپنے اس محسن کو یاد رکھیں گے ، کیا خوب شخص تھا ، محفل کو اداس کرگیا ، اللہ درجات بلند کرے۔آمین
دبی 11-03-2016ء شب 4.00 بجے
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*آنکھ بند ہونے سے پہلے خدا کوئی نیک کام لے لے*
(سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل جناب ملا محمد حسن صاحب کی مورخہ 11/03/2016ء وفات پر لکھی گئی تحریر)
*تحریر : عبد المتین منیری (بھٹکل)


مولانا عبد الباری صاحب کے غم میں نمناک آنکھیں ابھی خشک نہیں ہوئی تھیں کہ ملاحسن صاحب کی رحلت کی خبر ابھی ابھی موصول ہوئی ہے ، آپ عرصہ سے علیل چلے آرہے تھے ، آپ نے عمر عزیز کی (۹۴) بہاریں دیکھیں ، 1922ء میں آپ نے اس دنیا ئے فانی میں قدم رکھا تھا ، آپ کی رحلت کے ساتھ بھٹکل کی سماجی اور دینی تاریخ کا ایک روشن باب بند ہوگیا ۔
مرحوم نے ایک غریب خاندان آنکھیں کھولی تھیں ، جس محلہ میں مکان تھا وہ بھی پس ماندہ تھا، اسکول میں داخلہ نصیب نہ ہوسکا ، مرحوم محمد سکری اکرمی خلفو کے مکتب میں پانچ چھ سال قرآن خوانی اور ابتدائی تعلیم سیکھی ، محمد سکری خلفو (مولانا محمد صادق اکرمی صاحب کے دادا) ، بڑے ہی بزرگ اور اللہ والے تھے ، مشما مسجد میں امامت کرکے زندگی گذار دی ، کبھی اپنا ہاتھ کسی کے سامنے نہیں پھیلایا ، ساری زندگی عسرت اور تنگ دستی میں عزت نفس کے ساتھ بسر کی ۔ آواز میں بڑا درد تھا ، جنازہ کی قیادت کرتے ہوئے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے تو لوگوں کی آنکھیں بھر آتیں ، سخت سے سخت دل موم جاتا ۔ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے اہالیان بھٹکل کی فہرست کافی طویل ہے۔
شرارت اور طاقت آزمائی آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ، کھانے کمانے کا بھی شوق بچپن سے تھا ، قصبہ کی پسندیدہ چیزیں ، آم ،کٹھل ، تربوز، کاجواور گنا دور دور سے لاتے اور اڑوس پروس کے گھروں میں لے جاکر فروخت کرتے ، ان کی کوئی مقررہ قیمت فروخت نہیں ہوا کرتی تھی، مستورات اپنی خوشی سے قیمت دے دیتیں، جو زیادہ ہی ہوتی ۔اس طرح بچپن ہی میں تجارت کا شوق پیدا ہوگیا ، کم عمری میں کولکتا تلاش معاش کے لئے روانہ ہوئے ، جہاں پہلے ملازمت ، پھر ڈاکٹر علی ملپا صاحب کی شراکت میں کاروبار بھی کیا ، ڈاکٹر صاحب کی دوبھانجیاں یعنی شہاب الدین ملپا صاحب کی نواسیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں ، یہی رشتہ ازدواج ڈاکٹر صاحب سے آپ سے ربط وتعلق کا سبب بنا ۔ محمد حسین ،محمد تقی ، احمد ، ابو بکر اور عمر جملہ چھ بھائی تھے ، چونکہ والدہ بارعب خاتون تھیں ، لہذا بچپن ہی سے غلط عادتوں سے دوری رہی ۔
کولکتا میں دس بارہ سال قیام کے بعد آپ نے چنئی کا رخ کیا ، آزادی سے کچھ سال قبل کا عرصہ بڑا ہنگامہ خیز تھا ، اس وقت برصغیر میں خاکسار تحریک کا بڑا چرچہ تھا ، آپ کے بڑے بھائی ملاحسین مرحوم ( مولانا اقبال ملا صاحب کے والد) خاکسار کی بیلچہ بردار تحریک میں اہم مقام رکھتے تھے ، علامہ مشرقی کے ساتھ ویلور جیل میں آپ بھی قید ہوئے تھے ، اس وقت آپ پر تھری ڈگری استعمال کی گئی تھی اورٹارچر کرکے سر کو کچلا گیا تھا ، جس کا اثر آپ پر آخر عمر تک رہا، بھٹکل کے کئی اور لوگ بھی خاکسار تحریک میں شریک تھے ، یہاں جن تاجروں نے اس تحریک کے ساتھ ہمدردی کی ان میں ایک اہم نام شابندری پٹیل باشا مرحوم کا بھی ہے ۔ اپنے بڑے بھائی کی دیکھا دیکھی مرحوم بھی خاکسار میں شامل ہوکر اس کا ترانہ
بیلچہ بردار بن
قوم کا سردار بن
اپنی خودی کو سنبھال
صابر و خود دار بن
تیز چل اے خاکسار یہ رہی منزل تیری
خوف نہ کر سامنے گر تیرے طوفان ہو
جھوم جھوم کر گانے لگے ۔
یہاں آپ نے علامہ عنایت اللہ مشرقی کو دیکھا ، مولانا قاضی محمد حبیب اللہ صاحب چیف قاضی مدراس ، مولانا عبد الوہاب بخاری صاحب پرنسپل نیو کالج ، مولانا عبد الباری معدنی صدر المدرسین جمالیہ کالج ( خلیفہ مولانا عبد المجید پنگنوری خلیفہ حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی )، ڈاکٹر عبد الحق کرنولی بانی عثمانیہ کالج کرنول ، وغیرہ چنئی کی اہم شخصیات سے قریب رہے ، ۱۹۷۰ء میں اس ناچیز کو جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تعلیم ختم کرنے کے بعد مدرسہ جمالیہ میں آپ ہی اپنی رفاقت میں مجھے داخلہ کرنے لے گئے تھے ، آپ ہی میری شعوری زندگی کے اس پہلے چنئی کے سفر میں اہل و عیال کے ساتھ ہم سفر تھے ،جمالیہ میں بخاری صاحب اور عبد الباری صاحب کے سپرد ہمیں آپ ہی نے کیا تھا ، مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آپ نے شمالی ہند کا طویل سفر کیا اور آپ کے ساتھ یہاں کے دینی مراکز کی زیارت کی ،(قاضی صاحب کی بارگاہ میں ہماری پہلی حاضری آپ ہی کی رفاقت میں ہوئی تھی ، جس کے طفیل ہمیں آپ کی بہت ساری شفقتیں ملتی رہیں) یہ تعلق اتنا بڑھا کہ آپ کے خانوادہ بدرالدولۃ کے صدیوں پر مشتمل فتاوی کی اشاعت کا پروجکٹ آپ نے شروع کیا تھا ، لیکن یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

’’ یہ بہت اچھی بات ہے کہ لوگ بزرگانِ دین کو یاد کریں ،اُن سے عقیدت بھی رکھیں مگر یہ کیا کہ اسلام کے سب سے اوّلین سبق(اقرا) کو ہم بھول جائیں؟! حضرت عبدالقادرؒ جیلانی ،خواجہ معین الدینؒ چشتی اجمیری سے لے کرحضرت مخدومؒ مہائمی تک جتنے بھی بزرگ گزرے ہیں اُن کی اکثریت نے علم کے حصول اور اس کے فروغ میں بڑی محنت و مشقت کی ہے۔ اب ذرا یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ ہم جن سے عقیدت رکھتے ہیں کیا ہمیں اُن سے اپنی مطلب براری ہی کے لیے واسطہ رکھنا چاہیےاُن کے علم و کردار سے بھی ہمارا کوئی تعلق ہوناچاہیے یا نہیں؟! جبکہ کوئی بھی صاحبِ علم اور صاحب ِ نظر اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ’ علم بغیرعمل وبال ہے اور عمل بغیر ِ علم گمراہی ہے۔‘‘
مولانا محمد عصمت بوبیرے کی بیگم پہلے ہی دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہیں، اب مولانا بوبیرے کے پسماندگان میں ایک فرزند اور ایک دُختر ہے۔ ماہ ِ مبارک کے پہلے عشرے جسے رحمت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس بابرکت و با رحمت دہےمیں اُن کی رِحلت ایک سعادت سے کم نہیں ہے۔آج(اتوار) ہی کی شب میں بعد نماز ِعشا و تراویح اُن کے جسدِخاکی کو سپردِ لحد کر دیا گیا۔ یہ َدور جسے قحط الرجال کا زمانہ کہا جاتا ہے ایسے میں دین و ملت کے تئیں اخلاص کا نہ صرف جذبہ رکھنے والے بلکہ اپنے کردارسے سیراب کرنے والے ایک شخص کا اُٹھ جانا پوری قوم کا بڑا خسارہ ہے، ملت کے تمام مخلصین سے مولانا محمد عصمت بوبیرے کے حق میں دُعائے مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔⭐
--

Читать полностью…

علم و کتاب

أبو البقاء الرندي - لِكُلِّ شَيءٍ إِذا ما تَمّ نُقصانُ (مرثية الأندلس)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات : مورخہ 10 / مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی یس جوہر (اداکار) 10 مارچ 1984 ء
ارغون خان (ایل خان) 10 مارچ 1291 ء
اقبال رعد 10 مارچ 2000 ء
تاج الملوک ایرملو(ایران) 10 مارچ 1982 ء
ڈاکٹر قاسم علی منصوری 10 مارچ 1930 ء
سراج المنیر تسنیم 10 مارچ 2014 ء
سید معظم علی 10 مارچ 2005 ء
شوقی ضیف 10 مارچ 2005 ء
صالحہ سلطانہ 10 مارچ 2014 ء
صبا محمود 10 مارچ 2018 ء
عبد الحمید عدم 10 مارچ 1981 ء
عظیم قدوائی 10 مارچ 1993 ء
محمد شمیم، پروفیسر 10 مارچ 2002 ء
محمود سید طنطاوی، شیخ الازہر 10 مارچ 2010 ء
مولانا صادق اللہ ندوی 10 مارچ 1983 ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ضیاء محی الدین۔ ۔۔۔ احمد دین کی کتاب سے

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (۲۰؍جنوری ۱۹۳۳ء) ۔۔۔ رمضان کی برکتیں کس کے لئے
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

’’ہو شہرٌ أولہ‘ رحمۃٌ وأوسطہ‘ مغفرۃٌ وآخرہ ‘ عتق من النار ۔ (حدیث نبویؐ)
یہ وہ ماہ مبارک ہے، جس کا ابتدائی حصہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ، آگ سے آزادی ہے۔
مبارک مہینہ ختم ہونے کو آیا، عشرۂ اول، رحمت کے لئے مخصوص تھا۔ آپ کے حصہ میں اس دولت میں سے کتنا حصہ آیا؟ عشرۂ دوم میں مغفرت ہی مغفرت تھی، آپ نے اس خزانہ سے کتنا کمایا؟ عشرۂ سوم میں آگ سے آزادی، اور عذاب سے نجات ہی نجات ہے، آپ اس حصہ کا استقبال کیونکر کررہے ہیں! اس کے انعام اور بخششوں سے کس حد تک فائدہ اُٹھارہے ہیں؟ اس لٹتی ہوئی دولت کو آپ کہاں تک سمیٹ رہے ہیں؟ دن نکلتا، آفتاب چمکتا، اور روشنی پھیلتی ہے، مگر کن کے لئے؟ اُن کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہیں، اور آنکھوں سے کام لیتے ہیں۔ جو گھر کے کونے میں چھپ کر اپنی آنکھیں کَسکر بند کرلے، اُس کے لئے دوپہر کی کھڑی دھوپ ، اور رات کا اندھیرا گھُپ، دونوں برابر ہیں۔ رمضان آتاہے، مگر کن کے لئے؟ اُن کے لئے جو اُس کی طرف بڑھیں، لپکیں، دوڑیں اورقدرم اُٹھائیں۔ رمضان کی آمد کے وقت اگر خدانخواستہ آپ نے نہیں سوچا ، تواب ، خدا کے واسطے، اس کے چلتے چلاتے تو سوچ لیاجائے! دو چار راتیں یا دوچار دن بھی اگر اس پاک وپاکیزہ مہینہ کے، واقعۃً مل جائیں، تو بھی بہت غنیمت ہے۔
قال ان جبرائیل عرض لی فقال بَعُدَ من أدرک رمضان فلم یغفر لہ قلت امین۔ (حدیث نبوی)
حضور نے فرمایا، جبرائیل میرے سامنے آئے تھے، اور اُنھوں نے کہا ہلاکت ہو اُس شخص پر جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا، اور پھر بھی اُس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے اس دعا پر کہا آمین۔
وعدے آپ اوپر سُن چکے تھے، اب وعید بھی سُن لی؟ اور واقعہ بھی یہی ہے، کہ اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور محرومی اور کیا ہوسکتی ہے۔ آفتاب ٹھیک دوپہر کو پوری تیزی کے ساتھ چمک رہاہے، اور ہم اپنے کو اندھا بنائے ہوئے ہیں! کھیت عین دریا کے کنارے واقع ہیں، اور ہم نے پانی دینے کی قسم کھارکھی ہے! حرمان اور خسران جو کچھ بھی ہمارے حصہ میں آئے، کم ہے……اب آپ فرمائیں، کہ ان بیش بہا گھڑیوں سے آپ نے کہاں تک فائدہ اُٹھایا؟ توبہ واستغفار کے ان نادر موقعوں سے آپ نے کتنا کام لیا؟ راتوں کے کتنے گھنٹے بجائے بستر کے مصلے پر گزارے؟ اپنے گناہوں کو کتنی بار یاد کیا؟ کتنی بار اُنھیں یاد کرکے آنکھیں نہ سہی، دل رودیا؟ چھوٹے ہوئے فرائض کے کفارہ کی کیا کیا تدبیریں اختیار کیں؟ بندوں کے جو حقوق اپنے ذمہ واجب رہ گئے، اُن کی تلافی کی کیا کیا صورتیں سوچیں؟ ان صورتوں پر عمل کہاں تک کیا؟ کتنے روٹھے ہوؤں کو منایا؟ کتنے اپنے توڑے ہوئے دلوں کو جوڑا؟ کتنے اپنے ستائے ہوؤں کی دلدہی کی؟ کتنوں کو معاف کیا؟ کتنوں نے خود معافی چاہی؟ زبان کو کن کن موقعوں پر غیبت سے، دل آزاری سے، جھوٹ سے روکا؟ کلام مجید کی کتنی دیر تلاوت کرکرکے اپنے رب سے ہمکلامی کا لطف حاصل کیا؟ ماں کے، باپ کے ، بزرگوں کے، ہمسایوں کے، دوستوں کے، برادری کے، محلہ کے، بستی والوں کے، قوم کے، کس کس کے حقوق کی ادائی پر توجہ فرمائی گئی؟ کتنے پچھلے قرضے اُتارنے کی نوبت آئی؟
یہ چند دن، اور چند راتیں جو باقی رہ گئی ہیں، سال بھر کے بہترین دن اور بہترین راتیں ہیں، آئندہ سال دیکھئے کس کس کو نصیب ہوں اور کس کس کو نہ ہوں۔ شب قدرکے، برتراز وہم وگمان، فضائل پر خود قرآن مجید ناطق ہے۔ وہ اسی آخری عشرہ میں ہے، اس کی تلاش سے کوئی شب اب خالی نہ گزرنی چاہئے، للہ اپنی خیر خواہی میں اپنے اوقات کی حفاظت کیجئے، اور للہ ان اوقات خاص میں اس تباہ کار ونامہ سیاہ بے عمل کو نہ بھول جائیے گا، جو دوسروں کو یہ سب کچھ سنارہاہے، اور خود کہیں عمل کے قریب بھی ہوکر نہیں گزرتا۔ مرض ظاہری ہو یا باطنی، جب حد سے گزرجاتاہے، تو دوسروں کی دعاؤں ہی کا سہارا رہ جاتاہے، اور بس۔
علم وکتاب
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*افطار سے افطار پارٹی تک۔۔۔تحریر: ڈاکٹر عمیر منظر*

رمضان اسلام کا تیسرارکن ہے۔طہارتِ نفس اس کا اولین ہدف ہے۔ حصولِ نیکی کے اعتبارسے یہ بہار کا مہینہ ہے، جس میںرب ذوالجلال کی رحمت جوش میں رہتی ہے اورنیکیوں کااجر بڑھا دیا جاتا ہے ۔ یہ خیرطلبی کا محرک ہے۔ عبادات کا خاص اہتمام ہوتا ہے اورمسلمانوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے ۔روزہ کی تان افطار پر جاکر ٹوٹتی ہے ۔اسی لیے افطارماہِ صیام کی سرگرمیوں کا محور ہے، جس سے تمام رونقیں وابستہ ہوتی ہیں۔ افطادراصل روزہ کھولنا ہے اوروہ اشیائے خورونوش، جس سے روزہ کھولتے ہیں، افطاری کے ذیل میں آتی ہیں۔ روزہ دار کو افطاری کرانے کی بڑی فضیلت ہے ۔بعض حوالوں سے یہ بھی ملتا ہے کہ افطار کا ثواب روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔رمضان کی رونقوں میں سے ایک اہم رونق افطار کے وقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ انواع و اقسام کی نعمتوں کو صبر و شکر کے ساتھ نوش کرنابھی کار ثواب ہے ۔اردو شعروادب میں اس کا ذکر مختلف انداز سے ملتا ہے ۔دن بھر کے بھوکے پیاسے شخص کے لیے افطار ایک سہارے کا کام کرتی ہے اور اگر کسی وجہ سے یہ معاملہ برعکس ہوجائے تو وہ اسے اپنی محرومی سمجھتا ہے ۔اس بارے میں جیل کی افطاری کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
شاعروں نے لفظِ افطاری کااستعمال اس طرح کیا ہے کہ اس میں معنی کے بعض دیگر پہلوبھی سامنے آگئے ہیں ۔ان کا یہ تخلیقی استعمال گراں نہیں گذرتا بلکہ ان کی ہنرمندی کی داد دینی ہوگی ۔کسی کا یہ شعر زندگی کی محرومیوں کی داستان بیان کیا کررہا ہے ۔واضح رہے کہ یہاں افطاری اپنے لغوی اور اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
افطار کیا کریں کہ سحر بھی نہیں نصیب
ا ب زندگی ہے روزہ نادار کی طرح
زندگی کے نشیب و فراز میں اس طرح کے بہت سے مواقع انسانی زندگی میں پیش آتے ہیں ۔اسی کا نقشہ اس شعر میں کھینچا گیا ہے ۔چونکہ سحری کھاکر ہی روزہ رکھا جاتا ہے اس کے بعد افطار کی جاتی ہے لیکن یہاں صورت حال اس قدر خراب ہے کہ سحر ی بھی میسر نہیں تھی تو اب افطار کیا کریں ۔غربت اور تنگ دستی کا یہ عالم ہے ۔مشہور مجاہد آزادی حسرت موہانی برسوں فرنگیوں کی قید میں رہے ۔چکی کی مشقت اور دیگر صعوبتیں ان کے ساتھ تھیں ۔ان کی خود نوشت سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ بھی انھوں نے جیل کے اندر گذارا ۔دومصرعوں میں سب کچھ بیان کردیا ۔واضح رہے کہ یہاں افطاری اپنے لغوی معنی میں ہے ۔ حسرت موہانی کا شعر ہے ؎
کٹ گیا قید میں ماہ رمضان حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
نفیس انبالوی نے افطار کو محبت سے تعبیر کیا ہے ۔
ماہ رمضان میں رنجش بھی محبت بن کر
مسکراتی ہوئی افطار میں آ جاتی ہے
شعرا نے لفظ افطار کو مرکز میں رکھ کرمختلف رعایتوں سے خوب مضامین نکالے ہیں ۔ریاض خیر آبادی اردو کے مشہور شاعر ہیں انھیں خمریات کا امام کہا جاتاہے ۔یہ ذہن میں رہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ۔اب ریاض خیر آبادی کا شعر ملاحظہ فرمائیں ۔
جب پی لگاکے منہ دم افطار رند نے
بوتل کے منہ کی آئی فرشتوں کو بو پسند
ریاض خیر آبادی
شعرا نے افطاری کو کہیں وصل سے ملا دیا ہے تو کہیں ہجر روزہ رکھنے جیسا ہے ۔محبوب کا نہ ہونا یا سامنے نہ ہونے کو صومِ مسلسل کہا ہے اور اس کے دیدار کو آنکھوں کی افطاری سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس نوع کے اشعار پڑھتے ہوئے یہ بھی خیال آتا ہے کہ ان چیزوں کا بیان مذہبی فریضے کے ساتھ ساتھ شعرا کے یہاں ایک تہذینی رویے کے ذیل میں آجاتا ہے ۔اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
تمہارے وصل کی افطاری آئے یا نہ آئے
مگر میں نے تمہارے ہجر کا روزہ رکھا ہے
سعدیہ صفدر سعدی
عمر بھر آنکھوں نے تیرے ہجر میں روزہ رکھا
زندگی کی شام ہے افطار ہونا چاہیے
ونیت آشنا
دیدار سے محرومی اک صوم مسلسل ہے
تو سامنے آئے تو آنکھوں کی ہوافطاری
اسلم غازی
مجھ کو تسکین مل گئی یعنی
اس نے افطار کر لیا ہوگا
ارشاد عزیز
تحمل عین واجب ہے محبت کی شریعت میں
اگر افطار جلدی ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے
واجد حسین ساحل
حسرت موہانی اور حفیظ نعمانی دونوں کا تعلق صحافت سے تھا ۔انگریزوں کے زمانے میں تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لینے کی وجہ سے حسرت موہانی کو جیل جانا پڑا ۔انھوں نے اپنی خود نوشت ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ میں جیل میں گزارے ماہِ رمضان کا ذکر کیا ہے ۔انھوں نے لکھا ہے کہ رمضان نے مسلمان قیدیوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی ۔وہ لکھتے ہیں:

Читать полностью…

علم و کتاب

کی فہرست میں درج کیا گیا تھا، اس کو ناشتہ اور لنچ نہیں دیا جاسکتا تھا۔

روزہ داروں کی فہرست سے نام نکلوانے میں اس کو اگلے دو تین دن دانتوں پسینہ آگیا۔ معلوم ہوا کہ لین دین کے بعد ہی مذکورہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے کسی طرح اس کو دوبارہ عام قیدیوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ مگر رمضان ختم ہونے تک میں اور احتشام سحری کے تڑکے والے کھانے میں سے کچھ بچا کر اس کے لئے رکھتے تھے۔

رمضان کے دوران جیل حکام نے جس طرح تعاون کیا، وہ عید کے دن مفقود تھا۔ عید سے چند روز قبل ہم نے جیل حکام کو مشورہ دیا کہ عیدکے روز لنگر سے سوئیوں کا انتظام کیا جائے۔ طے ہوا کہ قیدی چندہ کرکے خود سوئیاں منگوائیں۔ چونکہ جیل ڈائٹ کے مطابق ہفتے میں دو بار قیدیوں کو کھیر ملتی تھی، جیل حکام کے ساتھ طے ہوا کہ اس کے لیے جو دودھ آتا ہے، اس سے اس ہفتے سوئیاں بنائی جائیں گی۔ یعنی اس ہفتے اب کھیر نہیں ملے گی۔

قیدیوں نے تقریباً 12 ہزار روپے کی رقم کوپن کی صورت میں جمع کرکے جیل حکام کے حوالے کی۔ جیل کے اندر کوپن چلتےہیں، جو تہاڑ جیل کی اپنی کرنسی ہے۔ ملاقات کے وقت رشتہ دار جیل کے بینک میں باہر پیسہ جمع کرتے ہیں اس کے حساب سے جیل کے اندر قیدی کو کوپن ملتے ہیں۔ اس رقم سے سوئیاں اور خشک میوے خریدنے تھے۔ احتشام نے دیگر وارڈوں میں سوئیوں کا لالچ دےکر رقم جمع کی تھی۔ مگر عید کے روز جب سوئیاں تقسیم ہونے کے لیے آئی، تو دیکھا کہ وہ پانی میں ابال کر تیار کی گئیں تھیں۔ خشک میووں، چینی و دودھ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اس ہفتے کھیر بھی نہیں ملی۔

جیل حکام نے دودھ اور قیدیوں سے وصول چندہ کی پیشتر رقم اپنے جیبوں میں ڈال لی تھی۔ پانی میں ابلی ہوئی بغیر شکر کے بے ذائقہ سوئیاں زبردستی کھلائی گئیں۔

جو لوگ آزاد ہیں اور آزاد فضاؤں میں اپنے احباب و أقارب کے ساتھ رمضان کا لطف اٹھا رہے ہیں، ان کو رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

دہلی کی تہاڑ جیل میں گذرے رمضان کی یادیں

افتخار گیلانی

جنہوں نے کبھی جیل نہیں دیکھی ہو یا آزاد ممالک کی آزاد فضاؤں میں ہی سانسیں لی ہوں، ان کو قید و بند کی زندگی کا احساس کروانا اور ایک قیدی کی نفسیات کا ادراک کروانا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا مجھے بارہا تجربہ ہوچکا ہے۔ جن معمولات کی طرف کبھی ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ہے، قیدی کے لیے وہ ایک بڑی نعمت ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب آپ کا دل چاہے آپ کھڑے ہوسکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں۔ قیدی اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کرسکتا ہے۔ رمضان میں مساجد میں اذانیں، نماز، افطار، چہل پہل، بچوں کا شور، افطاری کی تیاریاں، انواع واقسام کے کھانے اور خریداری کی وجہ سے ایک رونق سی لگی ہوتی ہے۔

اس دوران مجھے رہ رہ کر 2002 میں دہلی کے تہاڑ جیل میں گزارے روزوں کی یاد آرہی ہے۔ ان دنوں رمضان نومبر کے ماہ میں تھا۔ پچھلے سات مہینوں سے ہائی سکیورٹی وارڈ کی قید تنہائی اور پھر دیگر وارڈوں میں زندگی گزارنے کے بعد رمضان سے چند روز قبل مجھے تہاڑ کی جیل نمبر تین کے وارڈ نمبر 11 میں منتقل کیا گیا تھا۔ اس وارڈ میں اکثر ان ہی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، جو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے فاصلاتی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اس وارڈ میں کئی کلاس رومز اور ایک لائبریری موجود ہے۔ دیگر وارڈوں کے مقابلے یہاں تعلیم یافتہ قیدیوں کی اکثریت تھی۔ گوکہ بندشوں میں کوئی کمی نہیں تھی، مگر چونکہ اکثر قیدی اشرافیہ طبقہ سے تھے، اس لیے یہاں نسبتاً ہاسٹل جیسا ماحول تھا۔ وہائٹ کرائم میں ملوث افراد کو بھی اسی وارڈ میں رکھا جاتا تھا۔ کیونکہ دیگر وارڈوں میں سینئر قیدی یا گینگ ان سے خاصا برا سلوک کر کے ان کو اذیتیں دےکر پیسے وصول کرتے تھے۔

یہ پیسے یا تو جیل ہی میں وصول کئے جاتے یا اگر بڑی رقم ہو تو باہر ان کے رشتہ داروں سے وصول کی جاتی تھی۔ اس وارڈ میں میرے پڑوسیوں میں کوئی اربوں کے اسکیم میں ملوث صنعت کار تو کوئی اعلیٰ سرکاری ملازم تو کوئی بینک ڈائریکٹر تھا۔ یعنی ایک طرح سے بڑی ہی متاثر کن کمپنی تھی۔

خیر رمضان کی آمد سے قبل جیل حکام نے اعلان کیا کہ جن قیدیوں کو روزے رکھنے ہیں وہ اپنے آپ کو رجسٹر کروالیں۔ کیونکہ سحری کے لیے لنگر سے خصوصی انتطام کرنا تھا اور لنچ سے ان کے نام کاٹنے تھے۔ افطارکے لیے انتظام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیونکہ اسی وقت پوری جیل میں ڈنر تقسیم ہوتا تھا۔ گو کہ جیل میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے۔ مگر اس رجسٹریشن کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ جیل میں اس وقت کتنے مسلمان قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔

2002 میں مجھے یاد ہے کہ جیل کی کل آبادی کا 30 فیصد مسلمان تھے، جبکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی 12 فیصد سے زائد نہیں ہے۔ پولیس کی طرف سے مسلم نوجوانوں کو فرضی کیسوں میں بند کرنے کے علاوہ مجھے ادراک ہوا کہ معمولی جرائم نیز اسمگلنگ، جعلی دستاویزات، چوری اور جیب تراشی کے پیشوں میں بھی مسلمانوں کا تناسب خاصا زیادہ ہے۔ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد، تقریباً 78 فیصد نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ یعنی غریبی اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوسرا ہندوستان کے عدالتی نظام کا کمال ہے۔ اگر ایک ہی کیس میں ہندو اور مسلمان ملوث ہیں، تو ہندو کو جلد ہی ضمانت ملتی ہے اور مسلمان ماہ و سال جیل کی زینت بنایا جاتا ہے۔

خیر رمضان کا اعلان ہوگیا۔ جیل نمبر 3 کے سپرنٹنڈنٹ اے کے کوشل قیدیوں کا حال چال پوچھنے آئے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ کیا تراویح کی نماز کا انتظام ہوسکتا ہے؟ انہوں نے جیل مینول کا حوالہ دے کر کہا کہ جیل میں اجتماعی عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو تہوار اس پابندی سے مبرا تھے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ جیل کے نظام میں قیدی کی اصلاح کو سزا پر فوقیت حاصل ہے اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کے پاس اصلاح کے کیا اوزار ہیں؟ ایک اڑیل قیدی بھی جیل میں آکر پشیمانی میں اپنے گناہوں کی معافی کے لیے سربسجود ہوجاتا ہے۔

تہاڑ جیل کی سابق سربراہ اوربعد میں پانڈیچری کی موجودہ لیفٹنٹ گورنر کرن بیدی نے اس کا خاطر خواہ استعمال کرکے قیدیوں کو مصروف رکھ کر جیل کے اندر ان کے ذریعے قانون شکنی کی کسی گنجائش کو ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے وارڈوں میں مسجد کے لئے جگہیں مخصوص کروائیں تھیں، تاکہ قیدی عبادت میں مصروف ہوجائیں۔

کوشل صاحب راضی ہوگئے۔ وارڈ کی ایک بیرک جو کلاس روم کے لیے استعمال ہوتی تھی میں تراویح ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ جیل میں پانچ بجے ڈنر تقسیم ہوتا ہے اور اس کے بعد اسکول کی طرز پر وی شانتا رام کی ایک مشہور فلم کا نغمہ اے مالک تیرے بندے ہم۔ بطور اجتماعی دعا پڑھ کر شام کی گنتی ہوجاتی تھی اور قیدیوں کو بیرکوں میں بند کردیاجاتا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں

معصوم مرادآبادی

میں نے حال ہی میں مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کا سفر کیا ہے، جو مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے نام سے موسوم ہے۔اس سفر کابڑا مقصد اورنگزیب عالمگیر کی تربت پر حاضری دینا تھا، جسے مسمار کرنے کے مطالبات ایک بار پھر زور پکڑ رہے ہیں۔اورنگ آبادکے دونوجوان صحافی شارق نقشبندی اور احمدتوصیف مجھے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اورنگ آباد سے تیس کلومیٹر دور خلدآباد لے گئے، جہاں حضرت نظام الدین اولیاء کے اجل خلیفہ شیخ برہان الدین اور آپ کے خلیفہ زین الدین داؤد شیرازی کے مزارات کے پہلو میں اورنگزیب کی ایک معمولی سی قبر ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جہاں تمام مغل بادشاہوں کی تربتوں پر نہایت عالیشان مقبرے تعمیر کئے گئے ہیں تو وہیں اورنگزیب کی تربت کچی اور کھلے آسمان کے نیچے ہے۔نہ تو یہاں کوئی مقبرہ ہے اور نہ کوئی تام جھام۔ دراصل اورنگزیب نے احمد نگر میں اپنی موت (3/مارچ1707)سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ انھیں حضرت زین الدین داؤد شیرازی کی پائینتی میں دفن کیا جائے۔ اورنگزیب اپنی زندگی میں اکثر یہاں آتے تھے اور بڑا سکون محسوس کرتے تھے۔اورنگزیب کے مزار کی موجودہ جالی اوراحاطہ بندی لارڈ کرزن کی فرمائش پر حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی خاں نے کرائی تھی جو سنگ مرمر کی ہے۔ اورنگ زیب کے مزار کے سرہانے ان کی مختصر تاریخ ولادت اور وفات درج ہے۔اسی احاطے میں دوسرے مزارات کے علاوہ ان کے شہزادے اعظم شاہ کی بھی قبر ہے، جنھوں نے اپنی ماں دلرس بیگم کی یاد میں اورنگ آباد میں بی بی کا مقبرہ تعمیر کرایا تھا، جسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔
یوں تو فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اورنگزیب کو ہندودشمن قرار دے کر عرصے سے نشانہ بنارہی ہیں، لیکن اس بار وہ ایک پروپیگنڈہ فلم ’چھاوا‘ کے حوالے سے منظر عام پرآئے ہیں جس میں انھیں بھر پور نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس فلم کے منظرعام پر آنے کے بعد اورنگ زیب کو بدی کی قوت ثابت کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگایا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ مہاراشٹر اسمبلی میں سماجوادی پارٹی کے رکن ابوعاصم اعظمی کے ایک بیان کے بعد جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ابوعاصم اعظمی نے محض اتنا کہا تھا کہ’’اورنگ زیب کے دور اقتدار میں ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اس کی سرحدیں برما اور افغانستان تک تھیں۔“اس بیان پر ان کی اس حد تک گھیرا بندی کی گئی کہ انھیں اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ پھر بھی انھیں کسی ضابطہ کے بغیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے معطل کردیا گیا۔دراصل مہاراشٹر میں اس وقت بی جے پی کی مخلوط سرکار داخلی پرانتشارکا شکارہے۔ اس کے ایک وزیردھننجے منڈے کو ایک سرپنچ قتل کیس میں نام آنے پر مستعفی ہونا پڑا ہے۔ نظم ونسق کاحال یہ ہے کہ ایک خاتون مرکزی وزیر کو اپنی بیٹی کے ساتھ ہوئی چھیڑ چھاڑ کے خلاف خود تھانے میں جاکر ایف آئی آر درج کرانی پڑی ہے۔ایسے میں اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اورنگ زیب سے بہتر موضوع کون سا ہوسکتا تھا۔
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے مسلم حکمرانوں کا نام ونشان مٹانے پر کمربستہ ہے۔ ان کی یادگاریں مٹائی جارہی ہیں اور ان کے ناموں سے موسوم جگہوں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔یہاں دہلی میں بی جے پی کے دوارکان پارلیمنٹ نے تغلق روڈ پر الاٹ کی گئی اپنی کوٹھیوں پر تغلق روڈ کے بجائے وویکانند روڈ لکھ دیاہے۔یہ کام نئی دہلی میونسپل کارپوریشن کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اورنگ آباد ضلع کا نام تبدیل کرکے چھترپتی سمباجی نگر کردیا گیا ہے۔میں نے اپنے سفر کے دوران اس شہر میں سب سے بڑی تبدیلی یہ محسوس کی کہ جہاں جہاں اورنگ آباد لکھا ہوا تھا وہاں وہاں سیاہی پھیر کرچھترپتی سمبا جی نگر لکھ دیا گیا ہے۔چھترپتی سمباجی دراصل چھترپتی شیواجی کے بیٹے تھے، جنھیں اورنگزیب نے بوجوہ قتل کردیا تھا۔اورنگ زیب کی زندگی کا بیشتر حصہ جنوبی ہند کو فتح کرتے ہوئے گزرا۔ ان کی قلمرو میں ہندوستان کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔انھوں نے ہندوستان پر تقریباً پچاس برس حکومت کی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک بادشاہ کے طور پرانھوں نے وہ سب کیا جو وہ اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے کرسکتے تھے۔ انھوں نے اپنے والد شاہجہاں کومعزول کرکے قید کیا۔ اپنے بھائی داراشکوہ کا اس کے فاسد عقیدے کی وجہ سے سرقلم کرادیا اور اس کا جسد خاکی بغیر سر کے ہمایوں کے مقبرے میں دفن ہوا، لیکن جہاں تک ان پر ہندو دشمنی کا الزام ہے تو اس کی تردید اس بات سے ہوسکتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں کم ازکم سو مندروں کو جائدادیں عطا کیں اور بہتر نظم ونسق چلایا۔ یوں تو کئی غیر مسلم مورخین نے اپنی کتابوں میں اس کی نشان دہی کی ہے مگر میں یہاں مشہور مورخ بی این پانڈے کا حوالہ دینا چاہوں گا، جو ایک زمانے میں اڑیسہ کے گورنر تھے اور اپنے دور کی اہم علمی اورسیاسی شخصیت تھے۔اس وقت بی این پانڈے کی لکھی ہوئی ایک مختصر کتاب ”ہندوستان میں قومی

Читать полностью…

علم و کتاب

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خطا ہوا

جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

مرے ایک گوشۂ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا

مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا

مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا

ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا

سید اقبال عظیم /channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

من روائع أبي العتاهية .. رغيف خبز يابس بصوت ظفر النتيفات الدوسري

Читать полностью…

علم و کتاب

امرورما بتاتے ہیں کہ”جون 1975میں جب وہ دوبارہ دہلی آئے تو میں نے ان کے اعزاز میں اپنے گھر پر ایک نشست کا اہتمام کیا۔اس میں ساحر کے ساتھ امرتا پریتم، وزیراطلاعات اندر کمار گجرال اور کرشن موہن کے علاوہ اردو ہندی کے کئی شعراء شریک ہوئے۔اس نشست میں گجرال صاحب نے اس وقت کے سیاسی حالات پر گفتگو کی تو ان کی کئی باتوں سے ساحرنے اختلاف کیا۔ یہ کام ساحر جیسا بے باک انسان ہی کرسکتا تھا۔چند دنوں بعد ہی ملک میں ایمر جنسی لگ گئی تو ساحر نے ایمر جنسی کے خلاف بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔“
امر ورما بتاتے ہیں کہ وہ جب بھی بمبئی جاتے تو اکثر شامیں ساحر کے ساتھ ہی گزرتی تھیں۔ان کی وجہ سے انھیں ہندوپاک کی کئی مایہ ناز ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کی چاروں کتابیں ’تلخیاں‘، ’پرچھائیاں‘،’آؤکہ کوئی خواب بْنیں‘اور ’گاتاجائے بنجارا‘میرے ادارے سے شائع ہوئیں جن سے میرے ادارے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے میری جو رہنمائی کی اور مجھے آگے بڑھایا، اسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔
امر ورما بتاتے ہیں کہ ساحر جب بھی دہلی آتے تو اپنے دوستوں میں سارا وقت گزارتے تھے۔ علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، رام پرکاش اشک یا کوئی اور دوست ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنے دوستوں کی جتنی مدد کی، اتنا شاید ہی کوئی دوسرا کرسکے۔وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی نجی زندگی محض اپنی ماں اور بہن تک محدود تھی۔ ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ ساحر شادی کرلیں تاکہ ان کے گھر میں بچوں کی رونق ہو، لیکن اس سے وہ محروم ہی رہیں۔
امرورما بتاتے ہیں کہ ”میں17اکتوبر1980کو امریکہ اور جرمنی کے دوہفتے کے سفر کی تیاری کررہا تھا اور اگلی صبح مجھے دہلی سے روانہ ہونا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔یہ ٹیلیفون بمبئی سے تھا۔ ساحر کی بہن انور نے مجھ سے کہا کہ ”ساحر صاحب بات کرناچاہتے ہیں۔“دوسرے ہی لمحے ساحر مخاطب تھے”امرناتھ جی ’تلخیاں‘کا پچیسواں ایڈیشن چھاپنے کی تیاری کیجئے، کیونکہ اس کے لیے ایک تقریب کی پیشکش ہے، جس کی صدارت مرکزی وزیراطلاعات (گجرال صاحب)کریں گے۔“دراصل ’تلخیاں‘کے کئی ایڈیشن میں نے ہی شائع کئے تھے اور عرصے سے یہ ایڈیشن نایاب تھا۔انھوں نے چند روز پہلے ہی کچھ ترمیم وتنسیخ کے ساتھ نئے ایڈیشن کا مسودہ مجھے بھجوایا تھا جس کی کتابت ہورہی تھی۔ان کی تجویز میرے لیے خوشی کی بات تھی، لہٰذا میں نے اس پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ ”25/اکتوبر کو میری واپسی ہے اور تبھی اس پروگرام کی تفصیلات طے لرلیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ امریکہ سے کچھ منگاناچاہیں توبتائیں، انھوں نے ایک خاص کریم لانے کو کہا۔ انھوں نے مجھ سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ جنوری میں میرے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائیں گے۔
امرناتھ ورماکہتے ہیں کہ”25/اکتوبر کی دوپہر امریکہ سے میری واپسی ہوئی۔ سفر کی تھکن کی وجہ سے انھیں فون نہیں کرسکا۔ارادہ تھا کہ اگلے روز فون کروں گا، لیکن 25/اکتوبر کی درمیانی شب میں ہی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے نیند کی حالت میں ہی فون اٹھایا تو آواز آئی ”امرناتھ جی ایک بری خبر ہے۔ ساحر لدھیانوی رات دس بجے انتقال کرگئے۔بمبئی سے جے دیو نے یہ اطلاع آپ تک پہنچانے کے لیے مجھ سے کہا ہے۔“ان چند الفاظ نے میری نیند نچوڑ لی، میں ایک دم گم سم ہوگیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ المناک خبر صحیح ہوگی۔میرے آنسو چھلکنے لگے اور آنکھوں میں گزشتہ بیس بائیس برسوں کی رفاقت کے وہ واقعات گردش کرنے لگے جب میں نے ساحر سے جی بھر کے باتیں کی تھیں۔ بارہا ان کے ساتھ دہلی اور بمبئی میں اپنی شامیں گزاری تھیں۔“

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: 8/ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادیب سہیل 8 مارچ 2017 ء
البندری بنت عبد العزیز آل سعود (شہزادی) 8 مارچ 2008 ء
جامی حیدرآبادی، خورشید احمد 8 مارچ 1970 ء
جاوید وارثی 8 مارچ 2001 ء
جی الانا (غلام علی الانا) 8 مارچ 1985 ء
حسیب احسن 8 مارچ 2013 ء
خد داد خان 8 مارچ 1971 ء
خواجہ عبد اللہ انصاری ہروی 8 مارچ 1089 ء
ستاروارثی (عبدالستار خان) 8 مارچ 1985 ء
صلاح الدین طوفانی 8 مارچ 2008 ء
عباس احمد عباسی 8 مارچ 1974 ء
عبدالحمید خان 8 مارچ 1968 ء
کرشن چندر 8 مارچ 1977 ء
کرشن چندر 8 مارچ 1977 ء
مولانا غلام محمد محدث گھوٹوی(بریلوی) 8 مارچ 1948 ء

(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ۔( زیر ترتیب) ۔ از: عبد المتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel