علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
جس طرح ’قطب نما‘ قطبِ شمالی کا رُخ دکھاتا ہے اور ’مرغِ بادنُما‘ ہوا کا رُخ بتاتا ہے، اسی طرح ’دُور نُما‘ ہمیں دُور کا منظر دکھاتا ہے۔ دُور کی چیزیں قریب کرکے دیکھنے کے لیے آخر ہم ’دُوربین‘ بھی تو استعمال کرتے ہیں۔ بھلا دُوربین کی موجودگی میں کسی کو ‘Telescope’ استعمال کرنے کی کیا مار آئی ہوئی ہے۔ اُردو کے ترنم سے نامانوس انگریزی الفاظ کی جگہ سہل اور سلیس مترنم اُردو الفاظ لکھ کر اور بول کر دیکھیے۔ ایسی گفتگو سن کر اور ایسی تحریر پڑھ کر نہ صرف بولنے اور لکھنے والے کی شائستگی کا سکہ دل پر بیٹھ جاتا ہے بلکہ سننے اور پڑھنے والے کو بھی لطف و انبساط اور فرحت و نشاط کا احساس ہوتا ہے۔ جی خوش ہوجاتا ہے۔ طبیعت میں انقباض پیدا نہیں ہوتا۔ ’انقباض‘ قبض کی سی کیفیت کو کہتے ہیں، یعنی سکڑنے، بند ہوجانے اور گھٹن محسوس ہونے کی بے کیفی کو۔
’پیادہ رَو‘ کی ترکیب ہمارے لیے نامانوس نہیں ہے۔ جن دو الفاظ کا یہ مرکب ہے اُن دونوں سے سب مانوس ہیں۔ ’پیادہ‘ پیدل کو کہتے ہیں، جو سوار کی ضد ہے۔ شطرنج کے سب سے چھوٹے مُہرے کو بھی ’پیادہ‘ کہتے ہیں۔ یہ بے چارہ، اختیارات سے پیدل مُہرہ بالعموم صرف ایک قدم چل سکتا ہے۔ پا پیادہ یا پیادہ پا کا مطلب بھی پاؤں پاؤں چلنا ہے۔ کسی زمانے میں برصغیر کے مخلص مسلمان ’پاپیادہ حج‘ بھی کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پوری ملّتِ اسلامیہ ایک خلافتِ عثمانیہ کی ماتحت تھی، ویزا پاسپورٹ کی اڑچن نہیں تھی۔
’رَو‘ جب مرکبات میں آتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’رَوِندہ‘ یعنی چلنے والا۔ جیسے ’راہ رَو‘ راستہ چلنے والا۔ ’پیش رَو‘ آگے آگے چلنے والا، اور’سُبک رَو‘ نرم چال چلنے والا۔ وطن عزیز کی ایک مشہور ریل گاڑی کا نام ’تیزرَو‘ رکھا گیا۔ مسافروں کا مطالبہ ہے کہ اس سواری کا نام بدل کر ’سست رَو‘ رکھ دیا جائے تو اسم با مُسمّیٰ بلکہ ’اسم با مُسمّاۃ‘ ہوجائے گی۔ مرزا جی کا مشہور شعر ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
رَو کے خاندان کا ایک لفظ ’رَوِش‘ بھی ہے۔ ’رَوِش‘ چال اور طرزِخرام کو کہتے ہیں اور چلنے کی جگہ، راستے یا باغ کی پگ ڈنڈی کو بھی۔ عبدالعزیز خالدؔ خزاں رسیدہ چمن کا منظر کھینچتے ہوئے کہتے ہیں:
سُبوئے شام میں ڈھلنے لگی شرابِ شفق
رَوِش رَوِش پہ پراگندہ ریزہ ریزہ ورق
یہاں ’ورق‘ سے مراد پتے ہیں اور ’پراگندہ‘ کا مطلب ہے منتشر۔’رَوِش‘ کے مخفف کے طور پر بھی ’رَو‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا ’پیادہ رَو‘ دراصل ’پیادہ رَوِش‘ کا مخفف ہے۔ مطلب ہوا: پیدل چلنے کا راستہ۔ ایک مزے کی بات یاد آئی۔ سائیکل پر پیدل منزلیں مارتے ہوئے ہم بار بار جو ’پیڈل‘ مارتے ہیں، اہلِ ایران اُسے ’پِدال‘ کہتے ہیں۔بات یہ ہے کہ عرب اور ایرانی ہر نئے لفظ کو اپنی زبان کے ترنم سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں۔ ہم ایسا کرنا چاہیں تو ابلاغیات کی گھوڑا گاڑی چلانے والے کوچوان ہم سے کہتے ہیں کہ ’بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘۔
#Ahmed_Hatib
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة شراب رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 209-208
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
مولانا محب اللہ لاری ندوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : ۲۹/نومبر ۱۹۹۳ء)
تحریر:عبد المتین منیری(بھٹکل)
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے مولانا محب اللہ لاری ندوی مرحوم کا ذکرچھیڑا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ندوہ میں مہتمم صاحب کے عہد زریں کے عینی گواہ ہیں ۔ہمارا حال تو سنی مسلمانوں کا ہے ،سنی سنائی باتیں نقل کرنا ہمارا مشغلہ ہے ۔مولانا سے چند ایک بار ملنے کا شرف اس ناچیز کو حاصل ہواہے چونکہ مولانا کم گو اور انتظامی آدمی تھے لہٰذاکبھی علمی استفادہ کا موقعہ ہاتھ نہ آیا لیکن مولانا چونکہ ہمارے سن شعور میں ندوہ کے اہتمام سے وابستہ ہوئے تھے اوراس وقت ہمارے کئی ایک دوست واحباب ندوہ میں زیر تعلیم تھے توان کے دوراہتمام کے بارے میں معلومات سے واقفیت رہی ۔
انسان کو اللہ کی رضا پر راضی برضا رہنا چاہیے۔جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام کے بعد ہمار ا پہلا درجہ تھا جو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخل نہ ہوکا ؟ ہمارے دور طالب علمی میں جامعہ میںعربی چہارم تک تعلیم ہوتی تھی، یہاں سے طلبہ ندوہ جاتے اور از سر نو امتحان دے کر عربی چہارم ہی میں یا ایک سال نیچے داخل ہوجاتے تھے ، ایک دو طالب علم ہی کااس وقت بمشکل عربی پنجم میں داخلہ ہوپاتا ۔یاد پڑتا ہے کہ مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی صاحب بھٹکلی ، نائب مہتمم ندوۃ العلماء کا جامعہ سے اعلیٰ نمبرات سے عربی چہارم پاس کرنے کے بعد بھی ندوہ میں داخلہ پنجم عربی کے بجائے ایک سال پیچھے عربی چہارم میں ہوا تھا۔
اس وقت میری ۱۳-۱۴ ؍سال کی عمر تھی ، بڑھی ہوئی بد معاشیاں اور پھر عربی چہارم میں فیل ،جامعہ میں مزید پڑھنے پر جی مائل نہیں تھا، معاشی حالات تعلیم جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے ،والد ماجد کا بھی اصرار تھا کہ میں کسی ملازمت سے لگ جاؤں ،تعلیمی استعداد کی کمی کی وجہ سے جو صورت حال تھی اس میں جامعہ یا ندوہ سے اسکالر شپ پانے کی کوئی امید نہ دارد۔
یہ ۹۷۰اء سال تھا اور اس سے ایک سال قبل مولانا محب اللہ لاری ندوی کی تقرری بحیثیت مہتمم دارالعلوم ندوۃالعلماء، لکھنؤ ہوئی تھی ،ابھی تقرر ی پر تھوڑے دن گذرے تھے کہ ندوہ زبردست اسٹرائیک کی زد میں آگیا۔بد قسمتی سے ندوہ میں تعلیم پانے والے ہمارے چند عزیز یا تو اس اسٹرائیک کا سبب تھے یا پھر لیڈر کی حیثیت سے اس میں ملوث پائے گئے تھے لہذاجب میرا ندوہ جانے کا وقت آیا تو تایا جان نے فیصلہ کن انداز سے فرمایا کہ ان بچوں کی وجہ سے پہلے ہی ندوہ میں میری بدنامی ہوچکی ہے ،اگر تم بھی ندوہ جاؤ گے تو منہ پر کالک ملنے اور شرمندہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی اوربے دلی سے ایک چھوٹے اور غیر معروف مدرسہ میں مزید اعلیٰ تعلیم پانا لکھ دیا گیا ۔ اس وقت اس بات کا بڑا احساس تھا کہ جو طالب علم بھٹکل سے لکھنو گیٔے ہیں ممکن ہے ان کے امتحان میں کامیابی کے نمبر ہم سے زیادہ ہوں، لیکن اس وقت لکھنو میں جو علمی وملی شخصیات پایٔی جاتی تھی، ان کے بارے میں ہماری معلومات ان ساتھیوں سے زیادہ تھی، اس کا بڑا سبب بچپن ہی سے مطالعہ اور کتاب بینی کا شوق اور البلاغ بمبئی کے تبادلے میں غریب خانہ پر آنے والے ہندوستان بھر کے مجلات کی فراہمی تھی، جس نے غیر شعوری طور پر وہ کچھ دیا تھا جو ہمیں استادوں سے نہیں مل پاتا تھا، اور جس سے ہمارے ساتھی محروم تھے۔
گھورے سے اللہ نے زندگی کے اسباب پیدا کیے ، نصف صدی بیت چکنے کے باوجود آج بھی مرحومہ والدہ ماجدہ کی وحشت زدہ ہرنی جیسی حسرت بھری آنکھیں نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں تو ایک کپکپی سی طاری ہوتی ہے اور پلکوں تک آکر قطرے رک جاتے ہیںکہ کتنی بے بسی سے انھوں تایا مرحوم سے کہا تھا اس بچے کی عمر کمانے کی نہیں ہے،اسے پڑھنے کی خواہش ہے ،میں سی پرو کر اپنے بال بچوں کو پال لوں گی ، اسے آگے پڑھنے کی کچھ اسباب پیدا کردیں۔
دینی مدرسوں میں اور جامعات کے ماحول میں عموماََ تدریسی اسٹاف کی عزت اور احترام زیادہ رہتا ہے جو شخص تدریسی اسٹاف سے اہتمام اور نگرانی کے منصب پر نہیں پہنچتا ،طلبہ عموماََ ان سے تدریسی اسٹاف جیسا احترام اور عزت کا معاملہ نہیں کرتے ،مولانا محب اللہ لاری مرحوم کے ساتھ بھی ابتداء میں یہی صورت حال پیش آئی ۔ مولانا محمد عمران خان ندوی مرحوم کے اہتمام سے استعفیٰ اور یکسوئی سے تاج المساجد کی تعمیر میں جٹ جانے کے بعد ندوہ میں حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے ابتدائی دور نظامت میں منصب اہتمام ڈگمگاتا رہا ،کبھی مولانا ابو العرفان ندوی ؒ قائم مقام مہتمم رہے تو کبھی شیخ الحدیث مولانا اسحاق سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ ۔
جماعتوں کی تعمیر کے ضروری اصول
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
اسلام میں بدر کا معرکہ جو ۳۱۳ مسلمانوں کا کارنامہ ہے، ہر وقت پیدا کیا جاسکتا تھا، مگر بدر کے وقوع کے لیے تیرہ برس کے انتظار کی ضرورت پیش آئی اور جب تک ٹھوک بجا کر اور آزمائشوں کی آگ میں تپا کر ان کو دیکھ نہیں لیا گیا، ان کو معرکوں میں نہیں لایا گیا، اس سے یہ اندازہ ہوگا کہ جماعتوں کی تعمیر صرف ضد اور ہٹ، سب و شتم، طعن و طنز، شور و غل اور مختلف نعروں کے بلند کرنے، ولولہ انگیز شعر پڑھنے اور محض چیخنے سے نہیں ہوتی، بلکہ مقصد سے عشق نما وابستگی، اس کے حصول اور بقاء کے لیے اعلیٰ اخلاق، پختہ سیرت اور مضبوط کریکٹر پیدا کرنا ضروری ہے۔
شذراتِ سلیمانیؒ/حصہ: سوم/صفحہ/٣٦١/ انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في فاکهة رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 207-205
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
وفیات مورخہ: ۲۸/نومبر
/channel/ilmokitab
بشیر احمد غازی آبادی، حافظ 28/نومبر/1987ء
رضوی، اے اے (اختر عالم) 28/نومبر/2010ء
صفیہ صدیقی 28/نومبر/2012ء
طورسم خان 28/نومبر/1979ء
پروفیسر نورالحسن ہاشمی 28/نومبر/2000ء
مولانا عاشق الہی بلند شہری 28/نومبر/2001ء
یس یم منیر 28/نومبر/2022ء
عبد البہاء 28/نومبر/1921ء
ڈاکٹر غلام علی الانا 28/نومبر/2020ء
بیرندرناتھ سرکار(فیلم ڈائرکٹر) 28/نومبر/1980ء
مبارک الصباح 28/نومبر/1915ء
سید حسن عسکری (مورخ) 28/نومبر/1990ء
دیوبند کی مختصرحاضری اوریادگارلمحات
( آج سے ایک سال پہلے 27/ نومبر 2023 کو قلم بند کی گئی داستان سفر)
محمدساجدکُھجناوری
مدیرماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ
/channel/ilmokitab
اپنی دیرینہ خواہش کے باوجود یادوں کی نگری " دیوبند " حاضری کا اتفاق کم ہی ہوتا ہے ، جبکہ دیوبند گنگوہ کی مسافت بھی چالیس پینتالیس کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے مگراپنی بے ہنگم مصروفیات اور کام سے کام رکھنے کی عادت کے سبب کہیں آنے جانے کیلۓ کئی بارسوچنا پڑتا ہے۔
اس کے باوصف دیوبند ایک ایسا مرکزعقیدت ہے جہاں کی حاضری کا شوق کبھی پورا نہیں ہوتا۔جس کی بنیادی وجہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند اوروہاں کےاپنے اساتذۀ ذی شان ہیں جن کے سایہ میں بیتے اپنی طالب علمی کے وہ دس سال ہیں جنھیں اپنی حیات عزیز کا قیتمی سرمایہ سمجھتا ہوں ، آج اگر کسی بھی حیثیت سے ہلکی پھلکی اپنی کوئی شناخت ہے یا قلم وکتاب سے براۓ نام ہی سہی کچھ تعلق ہے تووہ دیوبند کا فیضان ہے جس کے چشمۀ صافی سے حسب توفیق استفادہ رہا ہے والحمدللہ علی ذالک۔
کل 26 /نومبر 2023 اتوار کی شام " ہیراگارڈن " دیوبند میں حضرة الأستاذمولاناعبدالخالق سنبھلی مرحوم سابق استادحدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے بیٹے عزیزی محمدزبیرسلمہ کے عقدمسنون
کے بعد دعوت ولیمہ کی تقریب تھی جس میں شرکت کیلۓ برادرعزیز مفتی عزیرعبدالخالق سنبھلی مدرس مفتاح العلوم جلال آباد نے ازراہ تعلق بندۀ ناچیزکو بھی دعوت نامہ بھیج کرکچھ رفقا کی معیت میں حاضری کا پابند کررکھاتھا، مع ھذا ہمارے ایک مشفق دوست قاری محمدامجد قاسمی ان دنوں ریاض سے دیوبند آۓ ہوۓ ہیں جن سے علیک سلیک کا وعدہ بھی مؤخرہورہا تھا اس لۓ موقعہ کو غنیمت جانتے ہوۓ اپنے دوسرے احباب جناب قاری محمدطالب ہریانوی اور مولانامحمدادریس رشیدی ندوی اساتذۀ جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے ہمراہ عصر سے ذرا پہلےدیوبند کیلۓ رخت سفر باندھ لیا ، عصر کی نماز قصبہ نانوتہ میں اداکرلی تھی ، چنانچہ ایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ دیوبند میں تھے ۔
چوں کہ تین چارروز پہلے ہی مشفقم مولانامفتی عمران اللہ قاسمی زیدمجدھم استاذ دارالعلوم دیوبند کافون آیاتھا کہ اگردیوبند آنا ہوا تو ملاقات کی کوئی سبیل ضرور نکالنا اس لۓ بندہ نے سہولت کی خاطردیوبند سے پہلے ہی ایک عدد کال کے ذریعہ اپنا نظام بتاکرمولانا سے مغرب کے بعد کا وقت لے لیا تھا ، بنابریں احباب کا مشورہ ہوا کہ نماز مغرب چھتہ مسجد میں اداکرکے آپ کے گھرپردستک دی جاۓ چنانچہ یہی ارادہ تھا لیکن افریقی منزل قدیم کے دروازہ پر جیسے ہی پہنچے تو معلوم ہوا کہ استاذمکرم بحرالعلوم حضرت مولانانعمت اللہ اعظمی دامت برکاتھم سردروازہ اپنے حجرہ میں تشریف رکھتے ہیں ، حضرة الأستاذ سے ملاقات ہوۓ یوں بھی ایک زمانہ گزرگیاتھا ،سوچا کیوں نہ زیارت کرکے ڈھیرساری دعائیں لے لیں ،دروازہ کھلاہواتھا ہم لوگ اشارہ ملتے ہی حاضرخدمت ہوۓتو اس وقت غالبا آپ کچھ وظائف واوراد پڑھ رہے تھے ، لیکن سلام وتعارف ہوا تو مہربان سے ہوگۓ بلکہ اشرف العلوم کے احوال وکوائف بھی دریافت کۓ ، کچھ توقف کرکےبندہ نے حضرت کی اس تحریر کا تذکرہ بھی کیا جو چندروز پہلے ہی آپ نے فلسطین کے شاہینوں کو مخاطب کرکے مرتب فرمائی تھی تو چہرہ روشن ہوگیا بولے کیا ہماری یہ تحریر وہاں تک پہنچ گئی ہوگی ؟۔ الجزیرہ وغیرہ پر تو کچھ نہیں ہے ۔
میں نے کہا کہ مولانافضل الرحمان قاسمی صاحب پریس سکریٹری جمعیة علماء ہند نے اسے عربی اور انگریزی وغیرہ کے قالب میں ڈھال کر آگے بڑھادیا ہے جو ان شاءاللہ اپنے اہداف تک پہنچے گی ، جس وقت یہ گفتگو جاری تھی حضرت پر ایک خاص کیفیت طاری تھی یوں محسوس ہورہا تھا کہ آپ کا دل مشرق وسطی میں اٹکا ہوا ہے اور قلب مضطر سے آپ وہاں کے شاہینوں کو ظفریابی کی دعا دے رہے ہیں ، پھر بندہ نے آپ کے ترجمۀ قرآن کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اب لوگوں میں قدردانی کا جذبہ محسوس نہیں ہوتا حقیقت یہ ہے کہ آپ کے قرب میں بیٹھنے اور علمی باتیں سننے کا مزہ ہی الگ تھا بہرکیف رخصتی کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ" شرح معانی الآثار " کو ضرور دیکھنا اس سے فائدہ ہوگا محبت اور اخلاص سے بھری یہ نصیحت سننے کے بعد ہم لوگ افریقی منزل کے اوپری حصہ کی طرف بڑھ گۓ جہاں مولانا مفتی عمران اللہ قاسمی صاحب ہمارے منتظر تھے ۔
مفتی عمران اللہ صاحب کے دردولت پر حاضرہوۓ تو آپ نے چاۓ وغیرہ سے ضیافت فرمائی اور دلچسپی کے کئی ایک موضوعات پر اپنی معلومات سے شادکام فرمایا ، آپ تدریس کے ساتھ قلمی کاموں میں بھی اشتغال رکھتے ہیں سردست " نگارشات مولاناسیدمحمدمیاں دیوبندی " ترتیب وتھذیب کے مرحلہ میں ہے جبکہ" تذکرہ مولاناعبدالباری فرنگی محلی" زیورطبع سے آراستہ ہوکر شائقین کے ہاتھوں میں ہے ، اس موقعہ پر آپ نے" احاطہ دارالعلوم دیوبند میں اکابرعلماء کےپیش کردہ خطبات کا دوجلدوں پر مشتمل مجموعہ بنام " خطبات دارالعلوم دیوبند " ماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ " میں تعارف وتبصرہ لکھنے کیلۓ پیش فرمایا جس کی
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في فاکهة رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 204-201
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
لمحوں کی خطا
/channel/ilmokitab
حجرہ نمبر اٹھارہ احاطہ مطبخ کی فوقانی منزل میں طالب علمی کے دو سال گزرے ہیں میرے حجرہ کے ایک ساتھی نے پلیٹ میں پانی ڈال کر کھنگالی اور دروازے کی وہ پانی بیٹھے بیٹھے اچھال دیا ، اتفاق کی بات ہے ٹھیک اسی وقت مطبخ کے نگراں حضرت مولانا نذیر احمد مظاہری گزر رہے تھے وہ پانی مولانا کے اوپر گرا اور یوں مولانا سردی کے موسم میں بڑھاپے کی حالت میں ڈیوٹی پر تعینات اس ناگہانی پریشانی سے محض ایک طالب علم کی حماقت کی وجہ سے تر بتر ہوگئے۔
مولانا نے مزاج میں سختی کے باوجود کچھ نہیں کہا لیکن اس کا احساس اس طالب علم بے انتہا ہوا بعد میں حضرت سے معافی بھی مانگی اور ہمیشہ اس واقعہ کو دہرا کر شرمندہ ہوتا رہا۔
میری بڑی بھابھی کھانا پکا رہی تھیں کسی سبزی کا گرما گرم پانی اپنے پیچھے دیکھے بغیر پھنکنے کی نیت سے اچھال دیا ٹھیک اسی وقت ان ہی کا بڑا بیٹا محمد لئیق کھیلتا ہوا آگیا اور یہ گرم پانی اس معصوم پر گر کر اچھی خاصی تکلیف میں مبتلا کرگیا۔
میں ایک دن دارقدیم سے دفتر یا دفتر سے دارقدیم آرہا تھا کہ ایک صاحب نے پڑیا کی پچکاری سڑک پر چلتے چلتے اپنے دائیں جانب ایسے پھینکی کہ میرے سفید براق کپڑے اس پڑیا کے نشانات سے آلودہ اور ابلق ہوگئے حال یہ تھا کہ سڑک رواں دواں بھیڑ اچھی خاصی اور طلبہ کے ہجوم سے گزر کر آنا پڑا۔
ایک دن مسجد بہادران کے پاس ایک نالی سے ایک کتابرآمد ہوا، گرمیوں کا موسم تھا اور میں چند منٹ پہلے ہی کپڑے تبدیل کئے تھے شاہید میری ہی نظر ان کپڑوں پر لگ گئی ہوگی کہ عین کتے کے پہلو سے جب گزر رہا تھا تو کتے نے کمال مہارت وفنکاری سے ایک تیز جھر جھری لی اور نالی کی کیچڑ اس جسم سے اچھل کر میرے کرتے پاجامے کو داغدار کرگئی۔
مجھے اپنی غلطی پر تنبہ تو ہوا لیکن دیر میں ہوا میں نے سوچا تھا کہ سیکنڈوں میں گزر جاؤں گا لیکن وہاں تو لمحوں کی بات تھی۔ میرے ذہن میں مشہور مصرع گونج اٹھا کہ
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
واقعی انسان کی حماقتیں اسے مدتوں یاد رہتی ہیں۔
ناصرالدین مظاہری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
بہت کم ہیں ، انٹرنیشنل کال کے لئے بھی کچھ منٹ دینا چاہیے۔
بتاتا چلوں کہ وہاں واٹسپ کے ذریعہ ویڈیو کال یا آڈیو کال نہیں کرسکتے اس کالنگ پر پابندی ہے ۔ ایک ایپلی کیشن ہے جس کانام IMO ہے اس کو آپ پلے اسٹور سے ڈاؤنلوڈ کرلیں اور جن کو فون کرنا چاہتے ہیں اس کے موبائل میں بھی یہی ایپلی کیشن ڈاؤنلوڈ کردیں تو بات آسانی کے ساتھ ہوسکتی ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عَلِیْمٌ۔مسجد کے احاطہ میں جگہ جگہ قرآن کریم کی متبرک آیات بہت خوبصورت رسم الخط میں نقش ہیں جو قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرتی ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں کوئی ستون نہیں ہے۔
مسجد سے ملحق وضوخانہ میں آٹومیٹک ٹیپ ہیں، مردوں کی طرح عورتوںکے لئے بھی وضو اور نماز کا الگ الگ انتظام ہے۔ مسجد میں تلاوت کے لئے قرآن کریم کے ہزارہا نسخے رکھے ہوئے ہیں جو مختلف طباعت و اشاعت کے نمونے ہیں۔ مختلف زبانوں کے تراجم و تفاسیر بھی مطالعہ کے لئے موجود ہیں۔ مسجد سے قریب خوبصورت کیفے بھی ہے، جہاں آپ اپنے ذوق اور جیب کے مطابق جو کچھ کھانا پینا چاہیں کھا پی سکتے ہں۔ مسجد سے نیچے اور باہر پارکنگ ایریا ہے، جس میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔ پارکنگ سے متصل چھوٹا سا میٹرو اسٹیشن ہے جو پوری طرح ایئر کنڈیشنڈ ہے۔ یہاںچھوٹی سی میٹر و آتی ہے، جو آپ کو ایجوکیشن سٹی کے مختلف مقامات پر لے جاتی ہوئی اصل میٹرو اسٹیشن تک لے جاتی ہے، جہاں آپ قطر کے دیگر اسٹیشنوں تک بسہولت سفر کر سکتے ہیں۔
مسجد کے اندرونی ہال میں تقریباً دو ہزار اور بیرونی حصہ میں مزید ایک ہزار افراد بسہولت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں خواتین کی باجماعت نماز کا بھی معقول انتظام ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اس سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ کچھ متعصب افراد کی مفسدانہ سوچ نے آزادای کے بعد اس ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے اور صرف ایک طبقہ کی اجارہ داری کے تصور نے ڈرامائی انداز پر جس طریقہ سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کیا وہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے ورنہ اس ملک میں ہی نہیںدنیا کے ہر علاقے میں ہمارے ملک کے باشندوں میں جو پیار محبت پایا جاتا ہے وہ انسانیت کی بنیاد پر ہے اور یہ ’’انسانی کیمسٹری‘‘ کا ایسا جزء ہے جو کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتا۔
عرب ملک میں جب کوئی ہندوستانی شہری نظر آتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا قبیلہ سے ہو اس کو دیکھ کر خوشی ومسرت کا جو احساس ہوتا ہے اسے الفاظ کے جامہ میں سمویا نہیںجاسکتا۔
اخوت و بھائی چارہ کی مثالیں ان ممالک میں جس کثرت سے ملتی ہیں افسوس کہ وطنِ حقیقی میں اتنی تعداد میں نظر نہیںآتیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ برادرانِ وطن جو ان ممالک میں مذہب اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ خوش گوار اندازمیں برادرانہ تعلقات کے علمبردار نظر آتے ہیں وہ وطنِ اصلی کی طرف آکر اس کام میں ڈھیل ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجے میں تعلقات میں وہ خوش گواری نہیں رہ پاتی جو انسان اور انسانیت کا مقصد عظیم ہے۔
بات ہورہی تھی قطر کے سرکاری انتظام و انصرام کی، آئین و قوانین کی پابندی اور عدل و انصاف فراہم کرنے کی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہوں نے اس سمت میں جو اقدامات کئے ہیںوہ قابل تقلید اور مثالی ہیں جس میں خوشی و مسرت پنہاں ہے۔
اس موقع پر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قطر کی چند تاریخی، تہذیبی عمارتوں کی تفصیلات بھی قارئین کے سامنے رکھ دی جائیںجن میں کچھ کا مختصر تذکرہ ذیل میںدیا جارہا ہے۔
قطر کا قومی عجائب گھر (نیشنل میوزیم آف قطر)
۲۸؍مارچ ۲۰۱۹ء کو عوامی دیدار کے لئے کھولا جانے والا قطر کا نیشنل میوزیم، دنیا کے عجائبات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس میوزیم کی تعمیر اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان واقع یہ خلیجی عرب ریاست ایک ثقافتی سپر طاقت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔یہ میوزیم دوحہ میں ۵۳؍ہزار مربع میٹر اسکوائر کے رقبہ پر تعمیر کیا گیا ہے، اس عجائب گھر کے قریب میں شیخ عبداللہ بن جاسم الثانی کا تاریخی محل واقع ہے۔ قطر کا یہ قومی عجائب گھر دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے صحراء میں سورج کی بہت تیز دھوپ نکلی ہوئی ہے اور اس کے درمیان گلاب کھل رہا ہے۔ عمارت کا ڈیزائن اس انداز کا بنایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دھوپ میں ’’صحرائی گلاب‘‘ کھل رہا ہے۔
میوزیم میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوتا ہے، جو پچاس قطری ریال فی فرد کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ اندر جانے کے بعد اس محیر العقول میوزیم کی مختلف راہ داریاں در راہداریاں ہیں، جن میں قدیم و جدید تہذیب و ثقافت کے نمونوں کو بہت حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
ا س عجائب گھر کا طرزِ تعمیر بھی دلکش و جاذب نظر ہے جس میں ایک طرف مشرقی تہذیب کے عناصر کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف مستقبل کے تعمیراتی رجحان کا عکس بھی نظر آتا ہے۔
میوزیم میں نوادرات و عجائبات کا خزانہ ہے جو حکومت کے حسنِ سلیقہ و شائستگی کی دلیل ہے۔ میوزیم کے اندر دو آڈیٹوریم ہیں، ایک بڑا آڈیٹوریم ہے جس میں بہ یک وقت دو سو سے زائد افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک چھوٹی نشست بھی جو ستر پچھتر افراد کے بیٹھنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ تکان دور کرنے کے لئے خوبصورت ریستوران اور کیفے بھی ہیں۔ استطاعت رکھنے والے حضرات کے لئے یہاں حلال ماکولات و مشروبات کا معقول، صاف ستھرا انتظام ہے۔
اس عجائب گھر کا ڈیزائن فرانسیسی ماہر تعمیرات ’’ژاں نوویل‘‘ نے تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ عجائب گھر زائرین کو صحرا اور سمندر دونوں کا احساس دلاتا ہے۔ اس میوزیم کی تعمیر کی منظوری ۲۰۱۱ء میں مل گئی تھی، لیکن اس کا کام قدرے تاخیر سے شروع ہوا۔ اس کی تعمیر پر پانچ سو ملین ڈالر (پچاس کروڑ ڈالر) کے اخراجات ہوئے۔ ۲۸؍مارچ ۲۰۱۹ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں قطرکے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ساتھ کویتی امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح اور فرانسیسی وزیر اعظم ایڈورڈ فلیپ بھی شریک ہوئے۔
قطر نیشنل لائبریری
قطر کے ثقافتی ورثہ کی حفاظت کے لئے قطر نیشنل لائبریری کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ یہاں سے طلباء بھی مستفید ہوسکیں اور قطر کے سلسلے میں جو حضرات تحقیق کرنا چاہیں انہیں بھی سہولیات فراہم ہوسکیں۔ چنانچہ نومبر ۲۰۱۲ء کی ۱۹؍تاریخ کو محترمہ موزہ بنت ناصر صاحبہ چیرپرسن قطر فاؤنڈیشن کی صورت میں لائبریری پروجیکٹ کا منصوبہ تشکیل ہوا اور محض چند سالوں کے اندر (قطر لائبریری کے خطہ) ایک وسیع و عریض احاطہ میں جدید ترین تمام سہولیات سے مزین بہت ہی خوبصورت، دیدہ زیب عمارت تعمیر ہوگئی جو ’’قطر نیشنل لائبریری‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس عمارت کی تکمیل کا کام ۲۰؍مارچ ۲۰۱۸ء کو ہوا اور ۱۶؍اپریل ۲۰۱۸ء سے محترم شیخ
مرحومہ کو قبرستان لے جانے سے قبل ہی اقبال بھائی سے جنازہ کی نماز کا وقت معلوم کرلیا گیا تھا اور لوکیشن بھی لے لی گئی تھی، مسیمر علاقہ میں قطر کا قبرستان واقع ہے، جس کے حدود کی تعیین کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قبرستان کی چہار دیواری کے ایک ہی جانب سے ہماری گاڑی تقریباً چھ سات منٹ تک پوری رفتار پر چلتی رہی، تب قبرستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ اندر کافی دور چلنے کے بعد لوکیشن میں دی گئی مسجد پر پہنچے۔ کئی سو گاڑیاں ، ہر چہار سو، پارکنگ کے احاطہ کو گھیرے ہوئے تھیں اور ابھی مغرب کی نماز میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، نمازی جہاں تہاں پارک کرکے مسجد پہنچے جہاں سیکڑوں نمازی تلاوت و ذکرمیں مشغول تھے۔ معلوم ہوا کہ قطر میں صرف یہی قبرستان ہے جو دوردراز تک پھیلا ہوا ہے۔ قبرستان کی طرح مسجد بھی بہت بڑی، دلکش، صاف ستھری، اپنی زبان سے اپنی تعریف خود بیان کر رہی تھی۔ اللہ کی حمد و ثنا اور عبادت کے لئے اتنی صاف ستھری، کشادہ مسجدیں بنانے کا عربوں کا ذوق بہر طور قابل تعریف ہے جو ہر جگہ یکساں دیکھا جاتا ہے۔ قطر میں وفات پانے والے حضرات و خواتین کے لئے قبرستان وزارت اوقاف کے زیر انتظام ہے۔ ہر نماز میں موجود جنازوں کی نماز مسجد میں ایک ساتھ ہی ادا کی جاتی ہے۔ سخت گرمی کے باعث اس موسم میںظہر اور عصر کی نماز کے بعد جنازوں کی نماز نہیں ہوتی۔ مسجد سے متصل عقبی حصہ میں اس وقت کے جنازے، غسل اور تجہیز و تکفین کے بعد رکھ دئیے جاتے ہیں۔ غسل وغیرہ کا اہتمام بھی وزارت اوقاف کی طرف سے مسجد کے عقبی حصہ میں ہوتا ہے۔ ہر نماز میں کئی کئی جنازے ہوتے ہیں جن کے متعلقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اقبال بھائی کی والدہ کا جنازہ بھی وہیں رکھا ہوا تھا۔ قطر میں نماز جنازہ پڑھنے کا پہلا اتفاق تھا۔ کئی جنازے ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے مجمع کافی تھا۔ کیوںکہ ہماری ملاقات صرف اقبال بھائی سے تھی کسی اور سے ہم واقف نہیں تھے۔ ادھر قطر اور سوڈان کے کافی لوگ جمع تھے جو اپنے اپنے جنازوں کے ساتھ تھے، کسی نہ کسی طرح ایک صاحب سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اقبال بھائی کے بہنوئی ہیں۔ اقبال بھائی مسجد سے ملحق اس کے عقبی حصہ میں میت کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں جہاں صرف ورثاء ہی بیٹھ سکتے ہیں۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی عرب حضرات دستور کے مطابق نفلوں کی ادائیگی میں مشول ہوگئے۔ دس پندرہ منٹ بعد مغرب کی نماز ہوئی تو مسجد نمازیوںسے پوری طرح بھری ہوئی تھی، جو ہزاروں افراد پر مشتمل تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد جنازہ کی نماز کا اعلان ہوا جس سے معلوم ہوا کہ اس وقت مسجد میں سات جنازے ہیں جن میں دو خواتین اور پانچ مرد ہیں۔ امام صاحب نے میت کے آداب، دعائے مغفرت کی فضیلت کے ساتھ ہی میت کے ورثاء کو صبر کی تلقین کی۔ نماز جنازہ کے وقت عقبی حصہ (جہاں جنازے رکھے ہوئے تھے) کا دروازہ کھول دیا گیا۔ امام صاحب نے مسجد میں ہی کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کرائی، اس کے بعد ورثاء اپنے اپنے جنازوں کو گاڑی پر لے جانے کے لئے لپکے۔ ا س موقع پر اقبال بھائی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں تعزیت پیش کی، موصوف نے اپنی والدہ کے جنازے کو کاندھا دینے کا موقع دیا۔ اس کے بعد تدفین کے لئے بذریعہ گاڑی میت قبر کی طرف لے جائی گئی۔
قبرستان کا نظم بڑا منصوبہ بند ہے، قبرستان کے متعدد بلاکس ہیں، ہر بلاک بڑے بڑے پلاٹس کی شکل میں ہے۔ کچھ پلاٹس میں پرانی قبریں ہیں جو ہموار نظر آتی ہیں، کچھ بلاکس میں تھوڑی سی قبریں ابھری ہوئی قبر کی شکل میں نظر آتی ہیں، یہ قبریں دو تین ماہ قبل دفن ہونے والوں کی ہیں، جس پلاٹ میں موجودہ میتوں کو دفن کرنا تھا وہاں سیکڑوں قبریں پہلے سے ہی کھدی ہوئی ہیں، ہر قبر کے سرہانے سیمینٹ کا تین فٹ لمبا لٹھا لگا ہوا ہے جس پر بلاک نمبر اور قبر نمبر کندہ ہے۔ مثلاً 68/28 (یعنی بلاک نمبر اڑسٹھ کی اٹھائیسویں قبر) یہ سیمنٹڈ علامتی لٹھا صرف ان قبروں پر لگا ہوا ہے جو گزشتہ چند ماہ کے درمیان بنی ہیں۔ قدیم قبروںکو ایک وقت متعینہ کے بعد برابر کردیا جاتا ہے۔ قبرستان کے نظام کو چلانے کے لئے ایک بڑا عملہ موجود ہے، جس کا کام میت کو گھر یا اسپتال سے قبرستان تک لانے، غسل و تجہیز و تکفین اور آخر میں تدفین کے انتظامات کو آخری شکل دینا ہے۔ جے سی بی مشین سے قبریں پہلے سے تیار ہوتی ہیں، جنازہ پیوند خاک کرتے وقت اس میت کے چند ورثاء کو نیچے اتارا جاتا ہے جو اپنے دستور کے مطابق میت کو صحیح طریقہ سے قبرمیں رکھتے ہیں، پھر اس پر اوپر سے تختے رکھ کر گیلی مٹی سے ان تختوں کو جما دیا جاتا ہے، پھر ورثاء باہر نکل آتے ہیں۔ مٹی دینے کی رسم کی تکمیل ہوتی ہے اور پھر جے سی بی مشین سے قبرپر مٹی ڈال کر پانی چھڑک کر دعاء و فاتحہ ہوجاتی ہے۔
اس کے بارے میں کچھ گفتگو کرلی جائے۔
سدرہ اسپتال بچوں کے علاج کے لئے قطر کا مشہور اسپتال ہے جس میں مریض بچوں، بچیوں اور اُن کے تیمار دارسرپرستوں کی خدمت بہت خندہ پشانی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اسپتال کیا فائیو اسٹار ہوٹل سے بھی زیادہ آسانیوں کا مرکز ہے۔ میلوں میں پھیلی ہوئی، اسپتال کی کثیر منزلہ بلڈنگ، یہاں کے دفاتر، لیباریٹریز، آپریشن تھئیٹر، او پی ڈی، نشست گاہیں، ویٹنگ رومز، لابی، راہداریاں، غرضیکہ کون سی ایسی چیز ہے جو قابل دید و جاذب نظر نہ ہو۔بیسمنٹ میں پارکنگ کا علاقہ ہی درجنوں بلاکس پر مشتمل ہے۔ ہر بلاک میں اے سے زیڈ تک اور پھر اس میں شماریاتی اعداد بلامبالغہ ہزار سے زائد گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش رکھتا ہے۔ گاڑیوں کو کھڑا کرنے پر کوئی فیس نہیں، نہ ہی کوئی پابندی، لیکن ہر آدمی اس کے نظم و ضبط اور اصول و قواعد کو ذہن میں رکھ کر گاڑیوں کو اس طرح کھڑی کرتا ہے جس سے کسی دوسرے آنے جانے والے کو کوئی تکلیف نہ ہو اور گاڑیوں کی آمد و رفت میں کسی بھی طرح کا کوئی خلل واقع نہ ہو۔کافی جستجو کے بعد گاڑی کو آرام کا موقع ملا، تو ہم اسپتال کی بلڈنگ میں داخل ہوئے۔ پہلے فلور تک برقی سیڑھیوں اور پھر وہاں سے الگ الگ یونٹس میں مختلف منزلوں پر جانے کے لئے لفٹ کا استعمال کرنا پڑا۔ اسپتال ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملک عزیز میں واقع کسی سیون اسٹار ہوٹل میں آگئے ہوں۔ ہر چیز انتہائی معیاری، بچوں و بڑوں کے بیٹھنے کی نشستیںایسی کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ استقبالیہ سے لے کر تجربہ گاہ تک بیسیوں ڈاکٹرز، اُن کے معاون اسٹاف، نرسز اور دیگر کارکنان کا خاموش طریقہ پر خندہ پیشانی کے ساتھ کام کرنے کا انداز، اسپتال کی بلڈنگ میں ہر جگہ پر بیسیوں افراد موجود، نہ کوئی شور، نہ کوئی غل، نہ دھکا مکی، نہ کوئی دھینگا مشتی، ہر آدمی اپنے وقت کا منتظر۔ جب اس کا نمبر آئے تو اس کی تسلی و تشفی کے لئے اسپتال کا عملہ ہر کام کے لئے حاضر۔ ہمیں بہت سے افراد سے اپنے کام کے سلسلے میں ملناہوا۔ ہر ایک نے خندہ پیشانی اور متبسّم چہروں سے ہمارا استقبال کیا، جوکچھ دریافت کیا اس کا تسلی بخش جواب دیا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے میں ہر قسم کی معاونت کی۔ اسپتال میں بچپن میں سنی ہوئی کہانی ’’کھل جا سِم سِم اور دروازہ کھل گیا‘‘ کو پوری طرح سمجھنے کا موقع ملا، کیوںکہ ہر جگہ جا کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ جگہ اسپتال کا انتہائی مقام ہے، لیکن جب دروازہ کھلتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی تو آغاز ہے، اس کے اندر پھر اتنے ہی دروازے ہیں، کوئی بھی دروازہ خود نہیں کھل سکتا۔ اسپتال کے ملازمین یا تو اندر سے کوئی بٹن دباتے ہیں یا دروازہ پر اپنی انگلیوں کے نشانات ثبت کرنے ہوتے ہیں تب دروازہ کھلتا ہے۔ بہرحال اسپتال کی ہر چیز مقناطیسی کشش لئے ہوئے تھی۔ مسرت و کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی بھیڑ نہیں، کوئی شور و شغب نہیں، حالاںکہ جیسے اوپر بتایا گیا کہ گاڑیوں کی تعداد بتا رہی تھی کہ اس میں ہزارہا افراد موجود ہیں لیکن Pin Drop Silence کا ایسا مظاہرہ نہ اس سے قبل کبھی کسی شفا خانہ میں دیکھا اور نہ ہی کسی اسپتال میںایسا تصور، اس پر مستزاد یہ کہ مریضوں اور تیمارداروں کی ہر قسم کی خبرگیری مرد و خواتین ملازمین کا لازمی شیوہ، ہمیں اپنے متعلقہ کاموں میں مختلف لیباریٹریز میں متعدد ڈاکٹرس سے ملنے کا اتفاق ہوا، کسی کے چہرے پر ہمارے ملنے سے نہ تو کسی کو کوئی تھکن کا احساس ہوا اور نہ ہی کسی نے ہم سے ملنے میں آنا کانی کا مظاہرہ کیا۔ ہر ایک کی خواہش یہ ہوتی کہ کسی طرح ہم پر کام کا کوئی بار محسوس نہ ہو، اسٹاف کا برتائو بہت ہی ہمدردانہ تھا، ملازمین کا ہر قسم کا طبقہ، ہر ممکن تعاون، ہمدردی، دل جوئی اور خوش اخلاقی کے ساتھ کسی بھی کام کرنے پر خوشگواری محسوس کرتا۔
بہرحال دو تین گھنٹے ہمارے اسپتال میں صرف ہوئے لیکن کسی بھی مرحلہ پر ہمیں تکان کا احساس نہیں ہوا اور لطف کی بات یہ ہے کہ بچہ کی سرجری کئی دن پہلے ہوئی تھی، اسے اُسی دن رخصت بھی کردیا گیا تھا، بعد میں بل آیا، اس بل کی ادائیگی بھی ہمارے کاموںمیں شامل تھا۔ بل قطری ریال کے حساب سے 26900/- قطری ریال، ہندوستانی کرنسی میں 613000/- سے زائد تھا، لیکن چوںکہ بچہ کا اسپتال میں پہلے سے رجسٹریشن تھا اور وہ اس کے مرکز حمد اسپتال کے ذریعہ یہاں پر آیا تھا، اس لئے ہمیں کل دو سو بارہ قطری ریال (یعنی کل 4800/- ہندوستانی روپئے) ہی ادا کرنے پڑے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس ملک میں بچوں کی نگہداشت، اُن کا علاج معالجہ اتنے عمدہ، اعلیٰ پیمانے پر تقریباً مفت ہوتا ہے۔ بہرحال اسپتال کی یہ خوبصورت یادیں دل و ذہن میں نقش ہوگئیں تو ہم عین خالد کی طرف رواں دواں ہوئے۔
شوکت علی، نازؔ وغیرہم وہ ادیب و شعراء ہیں جنہوں نے قطر میں اپنی موجودگی سے اردو کی زندگی کو جلا بخشی ہے۔ جہاں تک ہندوستانی ادباء و شعراء کا تعلق ہے،ان میں حیدرآباد دکن کے بزرگ شاعر جناب یوسف کمال صاحب کے علاوہ جناب عتیق انظر صاحب (بنارس)، افتخار راغب صاحب، عزیز نبیل صاحب، پھر فیاض بخاری صاحب، صاحب دیوان شعراء میں شامل ہوگئے تو ڈاکٹر عطائوالرحمن صاحب، ندیم ماہر صاحب، رفیق شاد اکولوی صاحب، مبصر ایمان صاحب، عامر شکیب صاحب، عرشی ضیاء وغیرہ اُن متحرک و فعال افراد میں ہیں جو تصنیف و تحقیق کے میدان میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ اس فہرست میں نئی نسل کے بہت سے وہ جوان بھی ہیں جن کے ناموں سے راقم پوری طرح وقف نہیں ہے، لیکن ان کی خدمات کو نظر انداز کرنا ممکنات میںسے نہیں ہے۔ بہرحال سبھی حضرات قابل مبارک باد ہیں جو اردو کی مشعل روشن کئے ہوئے ہیں۔
۱۹۹۲ء میں حلقہ ادب اسلامی قطر کا قیام عمل میں آیا، جس کے بانیوں میں سید شکیل انور ، فائق اخلاص، احمد علی سروری، محمد رفیق، شاد اکولوی ندوی اور جاوید احسن فلاحی مرحوم جیسے حضرات تھے۔ فروری ۹۳ء میں حلقہ ادب اسلامی نے قطر میں موجود تمام ادبی انجمنوں و تنظیموں سے وابستہ اردو شعراء و ادباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا کام کیا اور تہذیب نو سے متاثر مخرب اخلاق چیزوں سے ادب کو دور رکھ کر پاکیزہ بنانے کی کوشش کی۔ تنظیم کو متحرک و فعال رکھنے کے لئے ہر ماہ کی دوسری جمعرات کو کہیں نہ کہیں مل بیٹھ کر ادباء و شعراء کی منثور و منظوم کاوشوں کو ایک دوسرے تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تاہنوز جاری ہے۔ گزشتہ سال اس کے صدر جناب فتح اللہ شریف صاحب تھے۔سالِ رواں میں یہ ذمہ داری محترم مظفر حسین نایاب صاحب نبھا رہے ہیں۔ حلقہ ادب اسلامی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا استقلال ہے۔ گزشتہ بتیس سالوں سے تواتر کے ساتھ ہر ماہ کی دوسری جمعرات کو حلقہ کے پروگرام کا انعقاد اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اگر ان بتیس سالوں کو مہینوں میں تبدیل کیا جائے تو ایک محتاط انداز کے مطابق چار سو سے زائد پروگراموں کا انعقاد بڑا کارنامہ ہے۔ کورونا کے وبائی دنوں میں بھی حلقہ کا ماہانہ پروگرام آن لائن شکل میں بدستور چلتا رہا، جس کے لئے اس کے منتظمین قابل مبارکباد ہیں۔ اس کو سرگرم رکھنے میں مظفرنایاب صاحب، محسن حبیب صاحب، رفیق شاد صاحب، ڈاکٹر عطاء الرحمن، مصطفی مزمل صاحب، عامر شکیب صاحب، بشیر عبدالمجید صاحب، فیاض بخاری صاحب، افتخار راغب صاحب، سفیر ایمان صاحب وغیرہم کا اہم رول ہے۔ علاوہ ازیں اس حلقہ کے پلیٹ فارم سے ’’مطالعہ فکر اقبال‘‘ کے عنوان سے اپریل ۹۵ء میں سہ روزہ سیمینار بھی منعقد کیا گیا، جس میں ہندوپاکستان کے بڑے بڑے ادباء و شعراء نے شرکت فرما کر اس سیمینار کو قطر کے مقبول ترین سیمیناروں میں بنایا۔ اس سیمینار کے منتظمین میں ا س وقت صدر حلقہ حیدر علی، محمد رفیق شاد اکولوی، امجد علی سرور وغیرہ پیش پیش رہے۔
انڈو قطر اردو مرکز بھی قطر کے ان ادبی اداروںمیں ہے جن کا شمار اردو کے قابل قدر ادروں میں ہوتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد نئی نسل میں اردو کی ترویج و فروغ تھا، جس کے لئے اس نے عملی اقدامات کئے۔ گزشتہ صدی میں اس ادارہ کے زیر اہتمام جامعہ اردو علی گڑھ کا سینٹر قائم کیا گیا، جس میں بہت سے طلباء و طالبات نے جامعہ کے ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل کے امتحانات پاس کئے۔ ۱۹۹۴ء میں اس ادارہ نے عالمی اردو اعزاز کا سلسلہ شروع کیا۔۱۹۹۳ء میں انڈین آئیڈیل اسکول میں اردو کی ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی، جو اب پتہ نہیں کس حال میں ہے۔
۱۹۹۵ء میں ڈاکٹر خلیل الرحمن راز صاحب نے ’’انجمن شعرائے اردو ہند‘‘ کی بنیاد ڈالی،اس وقت ان کے رفقاء میں محمد سلیمان دہلوی، جلیل نظامی، عتیق انظر، محمد رفیق شاد وغیرہ تھے۔بہرحال کل ملا کر دیکھا جائے تو اردو کی شگفتگی و حُسن کو نکھارنے میں یوں تو دنیا کے سبھی گوشوں میں لیکن بطور خاص قطر میں اردو کا مستقبل بہت روشن ہے۔
صاحبِ مقالہ ڈاکٹر عطاؤ الرحمن صاحب نے پی ایچ ڈی کے علاوہ بہت سے مضامین تحریر کئے ہیں۔ موصوف کی شادی دارالعلوم دیوبند کے سابق مبلغ مولانا سید ارشاد احمد صاحب فیض آبادی مرحوم کی تیسری بیٹی سے ہوئی ہے۔اس طریقہ پر آپ مولانا محمود مدنی کے ہم زلف ہیں۔ کافی دیر تک یہاں قطر کی ادبی صورت حال پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد ایک اور ادبی شخصیت جناب یوسف کمال صاحب کی دعوت پر جانا ہوا، یوسف کمال صاحب حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ قطر میں شاید اس وقت سب سے سینئر ہندوستانی ہیں۔ ۱۹۶۲ء سے قطر میںمقیم ہیں۔ قطر کی تمام تعمیر و ترقی کے عینی شاہد ہیں۔ شاعری کا شوق ہے، تمام اصنافِ شاعری میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ سیکڑوں غزلیں، ہزارہا قطعات، رباعیات، مثنوی، نعت، حمد، نظم، طنز و مزاح کوئی ایسی صنف نہیں ہے جہاں موصوف نے اپنی موجودگی کا احساس نہ دلایا ہو۔اس وقت موصوف کی عمر پچاسی سال ہے، لیکن اُسی امنگ و ترنگ کے ساتھ ادبی نشستوں کو رونق
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ بابو! ہو جانا فٹ پاتھ پر
احمد حاطب صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مشہور محقق، ادیب، شاعر اور نقاد برادر سید ایاز محمود یوں تو سراہا کرتے ہیں اِن کالموں کو، مگر پچھلا کالم پڑھ کر اُنھوں نے بھلا چاہا کس کا؟ ’بچشمۂ خود‘ ملاحظہ فرما لیجے۔ یہ بھلے آدمی لکھتے ہیں کہ:
’’ملک کے ایک ممتاز ادیب [مقیم کراچی] کا اللہ بھلا کرے کہ شارع فیصل پر چلتے چلتے ذہن میں ایک سوال آگیا۔ تاہم ہمارا ان کو مشورہ یہ ہوگا کہ شارعِ فیصل ایک تیز رفتار گزرگاہ ہے، یہاں چلتے ہوئے سارا دھیان گاڑیوں کی آمد و رفت پر ہونا چاہیے‘‘۔
مشورہ صائب ہے۔ امید ہے کہ ملک کے ممتاز ادیب [مقیم کراچی] نے یہ مشورہ گرہ سے باندھ لیا ہوگا۔ ہم تو خیر اب اسلام آباد چلے آئے۔ مگراللہ جانے آپ مانیں یا نہ مانیں کہ ہم بھی ’چلے ہوئے ہیں‘(شارعِ فیصل پر)۔ پس ہمیں یاد ہے کہ پاپیادہ چلنے والوں کو ہمارے زمانے میں شارعِ فیصل پر دونوں طرف ’پیادہ رَو‘ میسرتھی تاکہ تیز رفتار گاڑیوں کی زد سے بچے رہیں۔ ’پیادہ رَو‘ کو اُردو سے پیدل ہوجانے کے بعد ’فٹ پاتھ‘ کہا جانے لگا اور اتنا کہا گیا کہ اُردو نے یہ لفظ قبول کرلیا۔ حتیٰ کہ مہدی ظہیر نے بندر روڈ پر چلنے والوں کو احمد رُشدی کی زبانی، سید ایاز محمود والا، مشورہ بھی دے ڈالا کہ ’’بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘‘۔ اکڑی گردن والے ’بابو‘ تو خیر ’فٹ پاتھ‘ پر نہیں ہوئے، گھوڑا گاڑی تلے آکر کچلے جانے کے ڈر سے ہمارے سروں پر سوار ہوگئے، مگر لفظ ’فٹ پاتھ‘ کو اُردو شاعری میں جو پذیرائی ملی اُس کی جھلک ہمیں بچوں کے لیے شاعری کرنے والے ایک معروف شاعر کی نظم میں بھی نظر آتی ہے:
یہ جو اونچا ہاتھی ہے
سب بچوں کا ساتھی ہے
بھالو ایک تماشا ہے
بازی گر فٹ پاتھی ہے
’فٹ پاتھ‘ پر تماشا دکھانے والے، ’فٹ پاتھ‘ پر بیٹھ کر سودا بیچنے والے اور ’فٹ پاتھ‘ پر یوں ہی بے مقصد بیٹھے رہنے والے بھی اُردو ادب میں ’فُٹ پاتھیے‘ کہے گئے۔ اس کے باوجود ’فٹ پاتھ‘ کی جگہ ہمیں ’پیادہ رَو‘ کہنا ہی پسند آتا ہے۔ فٹ پاتھ؟ ہونہہ مائی فُٹ۔
خبر نہیں کہ اب کراچی کے پیادوں کو شارعِ فیصل پر کوئی ’پیادہ رَو‘ میسر ہے یا نہیں۔ سنا ہے تجاوزات اتنے بڑھ آئے ہیں کہ پیادہ رَو پر چلنے والے اب سڑک پرچڑھے چلے جا رہے ہیں۔ ’تجاوزات‘ کو ہمارے ذرائع ابلاغ ’ناجائز تجاوزات‘ لکھنے اور بولنے پر مُصر رہتے ہیں۔ شاید خبر نگاروں کو خبر نہیں کہ ’تجاوز‘ کا مطلب ہی انحراف، سرتابی، سرکشی، حد سے گزر جانا یعنی جائز حد سے بڑھ جانا اور ناجائز طور پر زمین ہتھیا لینا ہے۔ تجاوز کی جمع ’تجاوزات‘ ہے۔ یہ لفظ ہر جگہ کسی کی جگہ پر ناجائز قبضے کے معنے دیتا ہے۔ لہٰذا ’تجاوزات‘ کہہ دینا ہی اس عمل کے عدم جواز کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ناجائز کا سابقہ لگانے سے زیادہ زور نہیں پڑے گا، البتہ شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید کچھ ’تجاوزات‘ جائز بھی ہوتے ہوں گے۔ اے خبر نگارو! خبردار ہوجاؤ کہ ’ناجائز تجاوزات‘ کہنا ایسا ہی ہے جیسے ’ناجائز چوری‘ یا ’ناجائز ڈکیتی‘ کہا جائے۔
بات ’پیادہ رَو‘ کی ہورہی تھی جو ہمارے نزدیک ’فٹ پاتھ‘ کے مقابلے میں ہلکا پھلکا، نازک، سُبک اور رَواں لفظ ہے، مگر رائج نہیں۔ کسی لفظ کو رواج دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے مؤثر افراد مسلسل، متواتر اور لگاتار استعمال کرتے رہیں۔ اُردو میں انگریزی الفاظ بھی تو آخر اسی ترکیب سے گھسیڑے گئے ہیں۔ اُردو اِصطلاحات کے اِستعمال کا اِستہزا کرنے والے ’’آلۂ مکبر الصوت‘‘ جیسے الفاظ ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاتے ہیں اور نئی نسل کو ڈراتے ہیں۔ خدا جانے کس بدصَوت نے ایسا کریہہ الصوت ترجمہ تراشا؟ اُردو میں اس کی جگہ نہایت نفیس اور نازک لفظ ’بلند گو‘ موجود ہے، جو نہ صرف ‘Loud Speaker’ کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے، بلکہ ’لاؤڈ اسپیکر‘ کہنے کے مقابلے میں اس کا کہنا کہیں سہل ہے۔ بار بار ’بلند گو‘ بولنا شروع کردیجے، زبان پر آسانی سے چڑھ جائے گا۔ یہی معاملہ ’دُور نما‘ کا ہے۔’Television’کے مقابلے میں ’دُور نما‘ آسانی سے لبوں پر رواں ہوسکتا ہے۔ بھارت میں اِسے ’دُور درشن‘ بولا جاتا ہے، جو اس عاجز کی نظر میں درست ترجمانی نہیں۔ درشن کا مطلب دیکھنا یا زیارت کرنا ہے۔ جب کہ آلۂ مذکور دیکھتا ہے نہ زیارت کرتا ہے۔ یہ تو دکھاتا اور زیارت کرواتا ہے۔ راجا مہدی علی خاں غالبؔ کے ایک مشہور اُردو شعر کا ہندی ترجمہ تراشتے ہوئے کہتے ہیں:
اُن کے درشن سے جو آ جاتی ہے مُکھ پر شوبھا
وہ سمجھتے ہیں کہ روگی کی دَیا اُتّم ہے
مولانا محب اللہ لاری رحمہ اللہ مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے ہم سبق بھی تھے اور ہم مشرب بھی لیکن کانپور میںچمڑوں کی مصنوعات کی تجارت بند ہونے کے بعد وہ دارالعلوم کے اہتمام و انصرام سے جڑ گئے تھے ۔وہ طلبہ کے لیے اجنبی تھے لہٰذا ابتداء میں طلبہ ان سے ہم آہنگ نہ ہوسکے اور انتظامی امور میں اصولوں کی سخت پاسداری کے باوجودان کے دل کی نرمی کو سمجھ نہیں پائے ،اکثر صورت حال یہ ہوتی تھی کہ طلبہ جب تک ندوہ کی چہار دیواری میں رہتے تو ان سے مانوس نہ ہوپاتے ،آپ سے شکایتوں کا ایک انبار بندھ جاتا لیکن جب فارغ ہوکر نکلنے کا وقت آتا تو ان کی قدر وقیمت پہچانتے ،عموماََ انھیں الوداع کہتے وقت ان کی آنکھیں فراق میں ڈبڈبائی ہوتیں کیونکہ مولانا دل سوزی سے انھیں آئندہ زندگی میں درپیش ٹیڑھی میڑھی راہوں اور پگڈنڈیوں سے آگاہ کرتے تھے۔
ایک زمانہ تھا کہ دبئی کے اسکولوں میں فارغین ندوہ کی ایک اچھی خاصی تعداد تدریس سے وابستہ تھی ۔ سرکاری طور پر خلیجی ممالک میں ہندوستان کے دینی مدارس کی اسانید کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہاں کی اسانید کو سرکاری سند کے بجائے اجازت مانتے ہیںلیکن ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ مولانا محب اللہ لاری صاحب کو جب پتہ چلتا کہ خلیجی ممالک میں ملازمت کی تلاش میں کوئی جارہا ہے تو اسے بلا کرعلی گڑھ وغیرہ دوسری سرکاری عصری یونیورسٹیوں کی جانب سے ندوہ کی اسانید کے اعتراف کے مراسلات کی نقلیں بغیر طلب کیے خود سے یہ کہہ کر فراہم کرتے کہ ان کی تمھیں ضرورت پڑے گی حالانکہ عام طور پر طلبہ کو ندوہ سے اصل سند فراغت حاصل کرنے کے لیے جو مشکلات ہوتی ہیں ان کی عموماطلبہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مولانا کا دور اہتمام ندوہ کا ایک سنہرہ دور تھا ،اس دور میں ندوہ کا اثر ہندوستان کے اکناف و اطراف میں بہت پھیلا،اس کی شاخیں بڑھیں ،طلبہ کی جو تعداد دو چار سو کے حدوں میں رہتی تھیں ،ہزارہا ہزار تک پہنچ گئی ۔ حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمہ کے دور نظامت میں مولانا معین اللہ ندویؒ ،مولانا محب اللہ لاری ندویؒ ، مولانا سیّد محمد واضح حسنی ؒاور مولاناسیّد رابع حسنی دامت برکاتہم کی ٹیم نے ایک جان دو قالب کی حیثیت سے عہدے اور مناصب کی خواہش سے بلند ہوکرندوہ کو آگے بڑھانے کے لیے بہت بڑا کا م کیا ، فارغین ندوہ کے اکابرین کے ساتھ ربط و تعلق میں مضبوطی آئی اور ایک لحاظ سے فارغین میں دینداری اور مسجد سے تعلق بھی بڑھا ۔ اس دو ر میں دارالعلوم کے احاطہ میں تبلیغی جماعت کی سر گرمیاں بھی پھیلیں۔
ناظم ندوہ کا انتظامی امور سے یکسوہو کر قومی و ملی قیادت کے لیے فارغ ہونے کا بھی دور بھی یہی ہے ، اگر یہ حضرات ناظم ندوہ کو اس کے انتظامی و مالی جھمیلوں سے آزاد نہ کردیتے تو شاید حضرت مولانا علیہ الرحمہ کے دور میں جو ملی و قومی مر کزیت ندوہ کو حاصل ہوئی وہ نہ ہوپاتی ۔اللہ ان مرحومین کی بال بال مغفرت فرمائے، انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور جو بقید حیات ہیں ان کا سایہ تادیر امت پرباقی رکھے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ ۲۹/نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab
اظہر قادری، پروفیسر (ظہیرالدین محمد یحییٰ ) 29/نومبر/2003ء
انور عنایت اللہ (شریف عنایت اللہ) 29/نومبر/1991ء
خیر محمد ندوی، مولوی 29/نومبر/2000ء
فیاض ہاشمی 29/نومبر/2011ء
پروفیسر نثار احمد فاروقی 29/نومبر/2004ء
ڈاکٹر عمر خالدی 29/نومبر/2010ء
مولانا محب الله لاری ندوی 29/نومبر/1993ء
سلطان عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود 29/نومبر/1953ء
رعایت علی قاسمیؒ، مولانا 29/نومبر/2007ء
مولانا قاری محمد عاشق الہٰی مظاہری 29/نومبر/2019ء
الطاف فاطمہ 29/نومبر/2018ء
محمد ضیاء الدین 29/نومبر/2021ء
خالد محمود سومرو 29/نومبر/2014ء
صاحبزادہ فاروق علی 29/نومبر/2020ء
سلسلہ نمبر: 245
انتخاب مطالعہ
تحریر: *جون اؔیلیا*
*اختلاف کیجیے ؛ مگر گالی تو نہ دیجیے*
میں تقسیم سے پہلے اور اس کے چند سال بعد تک مذہبی علماء کے صرف دو گروہوں کو قریب سے جانتا تہا،یعنی شیعہ علماء اور دیوبندی علماء ۔ شیعہ علماء کا موقف یہ تھا کہ: صرف وہی حکومت اسلامی حکومت کہلا سکتی ہے جس کا مقتدِر اعلی معصوم اور منصوص من ﷲ ہو _ دوسری صورت میں مسلمانوں کی کوئی بھی حکومت جس کا مقتدر اعلی چاہے کتنا بھی متقی و پرہیز گار ہو اسلامی حکومت نہیں کہلا سکتی ،حاصل یہ ہے کہ یہ علماء سیکولر حکومت کے قائل تھے، عملی اور نظری طور پر یہی ان کا فیصلہ تہا اور یہی فتوی، یہ حضرات سیاسی معاملات پر گفتگو کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔
علمائے دیوبند وطن پرستانہ سیاست کے حامی تھے،آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے، ةمجھے ان علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے، وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے، وہ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضاکارانہ طور پر اختیار کی تھی، میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنی شاگرد رہا ہوں،میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علماء کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا،جب میں ان کے بارے میں یہ سنتا تھا کہ یہ لوگ بکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی،آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجیے ؛ مگر گالیاں تو نہ دیجیے!!
(*شاید،صفحہ:20، طبع:مذکور نہیں*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا عاشق الہی بلند شہری(وفات ۲۸ نومبر) تحریر: مولانا ندیم الواجدی
Читать полностью…یقین دہانی کے بعد ہم لوگوں نے باہر کی راہ لی ۔
افریقی منزل سے نکلے تو قاری محمدامجد قاسمی دیوبند میں اپنے مکان پر لے گۓ اور مدینہ منورہ کی کھجوروں اور مغزیات سے ضیافت کی یہاں قاری صاحب سے کچھ دیر باتیں کرکے عشا کی نماز پڑھی اور پھر ہیرا گارڈن کا رخ کرلیا جہاں عشائیہ تناول کرنا تھا پہنچے تو اچھا خاصا رش نظرآیا ، دارالعلوم کے اساتذۀ کرام کے علاوہ دوسرے مدارس ومقامات کے بہت سے معزز اہل علم پروگرام کی رونق تھے ، یہاں حضرت مولانامحمدسلمان بجنوری نقشبندی ، حضرت مولانامفتی عبداللہ معروفی ، حضرت مولانامفتی محمدمزمل مظفرنگری ، حضرت مولانامفتی محمدسلمان منصورپوری ، حضرت مولاناخضرمحمدکشمیری حضرت مولاناقاری آفتاب عالم امروہوی حضرت مولانامحمدعثمان غنی ہاؤڑوی حضرت مولانامفتی فہیم الدین بجنوری حضرت مولانامفتی اشرف عباس قاسمی حضرت مولاناعارف جمیل مبارک پوری حضرت مولاناتوحیدعالم بجنوری حضرت مولانامفتی محمداللہ خلیلی وغیرھم تشریف رکھتے تھے جن میں بعض سے مصافحہ اور معانقہ بھی ہوا ، اسی طرح مکرمی مولاناندیم الواجدی مولانامفتی ریاست علی رام پوری مفتی عزیرسنبھلی ، مولانامفتی رئیس احمددہرادون ، مولاناقاری اجمل بلندشہری ، قاری محمداعظم قاسمی مفتی بلال احمد دیوبندی ، مفتی ذکوان احمدبجنوری ، مولانایادالہی میرٹھی مولاناحذیفہ نجم تھانوی مولاناقاری شعیب احمدمحمدپوری اور قاری محمدانعام تھانوی سے بھی ملاقات رہی۔
اس تقریب مذکور میں شرکت کے بہانے بہت سے نۓ پرانے احباب واکابرسے ملاقات ہوگئی ، دل چاہتا تھا کہ دونوں دارالعلوم سے وابستہ اپنے بعض بے تکلف دوستوں سے بھی رابطہ کرکے شفاہی ملاقات کی جاۓ مگر لیلاۓ شب کی زلفیں دراز ہواچاہتی تھیں اس لۓ دوبارہ حاضری کی تمنا دل میں بساۓ گنگوہ کیلۓ اپنی کار میں بیٹھ گۓ ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلہ نمبر: 244
انتخاب مطالعہ
تحریر: *محمد حنیف نؔدوی*
*تو اُن سا یقین پیدا کر*
بات یہ ہے کہ عقیدہ و الٰہیات کے حقائق کی تشریح کا تعلق در اصل اس چیز سے ہے کہ کوئی شخص ایمان کے کس درجے پر فائز ہے یا وہ کس حد تک قرآن کے لطائفِ بیان سے آگاہ اور اس کے ذوق استدلال سے واقف ہے۔
مثلا: صحابہؓ کے مقدس اور پاکباز گروہ کو کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ وہ توحید باری، اثباتِ نبوت اور معاد کے مسائل پر استدلال و قیاس کی بوقلمونیوں کی روشنی میں غور کریں ؛ اس لیے کہ انہوں نے آفتاب نبوت کی جلوہ آرائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ریاضِ رسالتؐ کی شبنم آرائیوں سے بغیر کسی وساطت کے قلب و ذہن کو مہکانے کی سعادت حاصل کی تھی ۔
ان کے نزدیک آنحضرتؐ کی زندگی،آپ کا اسوۂ حسنہ،کردار و سیرت کی عظمت اور روز مرہ زندگی کی تابانیاں دلائل و براہین تھے، جن کے ہوتے ہوئے کسی مصنوعی منطق کی حاجت ہی نہیں تھی یعنی یہ نفوس قدسیہ ایمان و عشق کی اس منزل پر فائز تھے،جہاں بقول ابوسلیمان المنطقی کے ”لِمَ“ (کیوں) ساقط ہوجاتا ہے، ”کیف“ ( کس طرح) باطل ٹہرتا ہے، ”ھلا“ ( کیوں نہیں) زوال و فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے اور ”لو“( کاش کہ ایسا ہوتا) کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
( *عقلیات ابن تیمیہ، صفحہ:161،طبع: ادارہ ثقافت اسلامیہ،کلب روڈ،لاھور*)
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جلوہ ہائے پابہ رکاب ( ۲۸ )۔۔۔ بر صغیر میں موصوف پر سے ” ال “ حذف کرنے کی عادت
ڈاکٹر ف عبد الرحیم #DR_F_Abdrurahim
ہائی اسکول کے زمانے میں مجھے عربی زبان کے بنیادی قواعد کا علم ہو چکا تھا۔ عربی سے دلچسپی کی وجہ سے میں علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔ ایک امام صاحب تھے جن سے میں بہت زیادہ ملا کرتا تھا، وہ اردو میں اصلاحی رسالے لکھ کر شائع کرتے تھے اور ان کو عربی سے بھی خاص لگاؤ تھا۔
ان سے بار بار ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے پاس عربی کی مشہور ڈکشنری ))المنجد (( ہوتی تھی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ ایک دن میں نے ان سے کہا: لفظ ))هر قل(( غیر منصرف ہے نا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر میں نے کہا: کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عجمی علم ہے ؟ وہ اس بات سے بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دیں۔
ایک دن انہوں نے اپنا تازہ رسالہ عنایت فرمایا۔ میں نے اس کا پیش لفظ پڑھا۔ اس کے آخر میں لکھی ہوئی ایک عبارت نے مجھے چونکا دیا۔ صفحے کے آخر میں ان کا نام لکھا ہوا تھا، اور نام سے پہلے یہ عبارت تھی ((عبد الفقير)) ۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا: مولانا یہاں ایک چوک ہو گئی ہے۔ ((عبد الفقیر)) سے پہلے جو «ال» ہونا چاہیے وہ لکھا نہیں گیا ہے۔ صحیح عبارت تو((العبد الفقير)) ہے نا؟ آپ " فقیر بندہ " کہنا چاہ رہے ہیں۔ «ال» کے بغیر اس کا مطلب ہو جائے گا "فقیر کا بندہ " جو بالکل غلط ہے۔ میری اس بات سے امام صاحب خفا ہو گئے، بولے: یہاں «ال» کی کوئی ضروت نہیں میں نے عرض کیا: مولانا یہاں «عبد» موصوف ہے اور موصوف اور صفت کے در میان مطابقت چاہیے جو یہاں مفقود ہے، اس حذف کی وجہ سے «عبد» موصوف نہیں رہا، بلکہ مضاف بن گیا اور عبارت کا مطلب ہوا " فقیر کا بندہ" جو غلط ہے۔ اب امام صاحب کی خفگی بڑھ گئی، انہوں نے کہا کہ میں فلاں مشہور اسلامی درسگاہ کا فارغ التحصیل ہوں، اور میری تحریر میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔ میں ان کی محفل سے مایوس ہو کر نکل گیا، شہر کے بعض علماء سے ملاقات کی، اور اس موضوع پر ان سے مشورہ کیا۔ ان سب نے کہا: امام صاحب عالم ہیں، جس کو تم غلط سمجھ رہے ہو، ان کے پاس اس کی کوئی نہ کوئی تاویل ہو گی۔ بر صغیر میں موصوف پر سے «ال» گرانے کی غلطی بہت عام ہے۔ جیسے صراط المستقيم باقيات الصالحات، إخوان المسلمين وغيره۔
ایک بار میرے پاس بر صغیر کے ایک صاحب آئے، ان کو ایک کتاب خریدنے میں مدد چاہیے تھی۔ انہوں نے چٹھی دکھائی جس پر کتاب کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ نام اس طرح لکھا ہوا تھا: ((بحر الرائق)) میں نے کہا: یہ نام غلط ہے، صحیح نام اس طرح ہے: «البحر الرائق»۔ انہوں نے کہا: یہ چٹھی مدرسے کے بڑے استاذ نے لکھی ہے۔ میں نے کہا: سوال لکھنے والے کا نہیں، یہ نام جس نے بھی لکھا ہے غلط لکھا ہے۔
یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ زبان سیکھنے کے لیے دو چیزیں درکار ہیں: پہلی چیز یہ کہ زبان کا جو مسئلہ آپ سمجھنا چاہتے ہیں، اس کا قاعدہ سمجھ جائیں۔ لیکن یقین جانیے کہ قاعدہ کو سمجھنا سیکھنے کے عمل کا صرف آدھا حصہ ہے۔ دوسرے حصے کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جس قاعدہ کو ابھی آپ نے سمجھا ہے، اس کی مشق کریں۔ ماہرین تعلیم نے ہر قاعدہ کے لیے مختلف مشقیں تیار کی ہیں۔ مشقوں پر محنت کرنا اور وقت لگانا ضروری ہے۔ قاعدہ سمجھنے میں اگر آپ کو پانچ منٹ لگے ہیں تو قاعدہ کی مشقوں پر آپ کو کم از کم میں منٹ لگانا ضروری ہے۔ میں نے اپنی ایک کتاب میں اس مسئلے کو اس طرح بیان کیا ہے قليل من التقعيد، وكثير من التمرين يعنی قاعدہ کو مختصر طور پر سمجھانے پر اکتفا کرنا، اور مشقوں پر کافی وقت لگانا۔ بر صغیر کے مدارس میں طلبہ نحو کی بڑی بڑی کتابیں پڑھنے کے باوجود اگر وہ قواعد میں سنگین غلطی کرتے ہیں تو اس کی وجہ مشق کا فقدان ہے۔
Https://telegram.me/ilmokitab
مولانا شوکت علی
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
آج مولانا محمد علی جوہر کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن 26 نومبر 1938 کو دہلی کے قرول باغ علاقہ میں وفات پائی۔ افسوس دیگر مجاہدین آزادی کی طرح ہم نے انھیں بھی فراموش کردیا ہے۔ وہ نہایت بے باک اور جری رہنما تھے۔
علی برادران کے نام سے معروف تحریک خلافت کے ہیروز مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی
دونوں اپنے دور کی عظیم المرتبت شخصیات تھیں۔ لیکن بیشتر لوگ ان دونوں بھائیوں میں مولانا محمد علی سے ہی زیادہ واقف ہیں۔
مولانا شوکت علی ، مولانا محمد علی سے بڑے تھے ۔ انھوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ علی گڑھ سے اعلا تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمت کی لیکن جلد ہی مستعفی ہوگئے۔ انجمن خدام کعبہ قائم کی اور تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ان کا انتقال 26 نومبر 1938 کو دہلی کے قرول باغ میں ہوا اور تدفین شاہجہانی جامع مسجد کے پہلو میں درگاہ ہرے بھرے شاہ کے احاطے میں عمل میں آئی۔ علی برادران کی والدہ محترمہ بی اماں کی قبر بھی دہلی میں درگاہ شاہ ابوالخیر کے احاطے میں ترکمان گیٹ کے نزدیک واقع ہے جبکہ مولانا محمد علی جوہر فلسطین میں مدفون ہیں-
مولانا شوکت علی کی پیدائش دس مارچ 1873 کو مغربی یوپی کے نجیب آباد ( بجنور)میں ہوئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دوران تعلیم انھیں کرکٹ کا شوق ہوا اور یونیورسٹی کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے۔ انھوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد یوپی سول سروس میں اودھ اور آگرہ میں سترہ سال خدمات انجام دیں۔ بعدازاں ملازمت چھوڑ کر اپنے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ خلافت تحریک میں شریک ہوئے۔ نہایت جرأت مند انسان تھے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سنو سنو!!
حرمین شریفین میں سم کارڈ کی خریداری
(ناصر الدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
حرمین شریفین بلکہ جدہ ائیرپورٹ پہنچتے ہی ہر شخص پہلی فرصت میں اپنے اہل خانہ کو اطلاع دینا چاہتا ہے کہ وہ خیر و عافیت کے ساتھ پہنچ گیا ہے ، بتاتا چلوں کہ سعودیہ عربیہ ایک امیر ملک ہے زبردست معیار زندگی ہے اس کے باوجود یہاں ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد اپ کو سم کارڈ اور انٹرنیٹ ڈاٹا کے معاملے میں انڈیا کی بہت یاد آئے گی کیونکہ انڈیا میں ساڑھے تین ہزار میں پورے سال کا ریچارج کرا لیتے ہیں اور جیو کمپنی آپ کو روزآنہ خرچ کرنے کے لیے دو ڈھائی جی بی ڈاٹا دیتی ہے جو آپ رات دیر گئے تک استعمال کر سکتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ سعودیہ عربیہ پہنچیں گے تو سب سے پہلے آپ کو سم کارڈ لینا ہوگا ویسے تو بہت ساری سم کارڈ کی کمپنیاں اپنے ورکروں ، نوکروں اور ڈیلروں کے ذریعے ایئرپورٹ پر ہی سم کارڈ فروخت کرتی مل جائیں گی جن میں سے ریڈ بل، موبائلی ، زین وغیرہ چھ سات کمپنیاں سعودی میں متحرک ہیں ان کے سم کارڈ آب خرید سکتے ہیں لیکن میرے خیال سے سعودی عربیہ میں سب سے اول نمبر پر موبائلی کمپنی ہے ، دوسرے نمبر پر زین اور تیسرے نمبر پر ایس ٹی سی وغیرہ ہیں یہ درجہ بندی کوئی معنی نہیں رکھتی آپ کو سم کارڈ خریدتے وقت صرف اس بات کا دھیان رکھنا ہے کہ جو سم کارڈ آپ خرید رہے ہیں اس کی زندگی بمشکل 15 سے 20 دن ہے ، اس کے بعد یہ سم کارڈ ختم ہو جائے گا اس کی معیاد پوری ہو جائے گی اور آپ کو ان 15 سے 20 دن کے لیے جس کمپنی کا سم چاہیے خوب تحقیق کر لیجئے کتنے جی بی ڈاٹا آپ کو ملے گا وہاں انڈیا جیسا خوبصورت اور سستا انتظام سم کارڈ کے معاملے میں بالکل نہیں ملے گا ،
زیادہ ریال میں بہت کم G,B ڈاٹا ملے گا اسی ڈاٹا کو آپ انٹرنیٹ کے ذریعہ کالنگ میں اور سرچنگ و سرفنگ میں بڑی احتیاط کے ساتھ اس ترتیب سے خرچ کریں کہ واپسی کے وقت ایئرپورٹ تک کام چل جائے اس لئے آپ کم سے کم فون کریں ، کم سے کم ڈاٹا استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ اپنے اوقات کو عبادات میں مصروف رکھیں، میں نے کئی بار سفر کے دوران یہ تجربہ کیا ہے کہ انڈیا کا کوئی بھی سم کارڈ اگر اپ انٹرنیشنل رومنگ ریچارج کرا لیتے ہیں تو یہ کافی مہنگا ہوتا ہے اور یہ صرف مجبوری میں ٹورآپریٹر کراتے ہیں یا وہ لوگ کراتے ہیں جن کی انکم اور آمدنی بہت زیادہ ہے ٹور آپریٹروں کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ انہیں سعودیہ عربیہ میں رہ کر بھی بھارت سے مسلسل رابطے میں رہنا ہوتا ہے ۔ بعض لوگوں نے ایئرٹیل کمپنی کا سم کارڈ خریدا اور رومنگ کا واؤچر ریچارج کرا لیا اب جب وہاں پہنچے تب پتہ چلا کہ یہ جگاڑ وہاں کے نظام سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوا۔
اگر اپ حرم شریف کے قرب و جوار میں سم خریدنا چاہیں تو عام طور پر ہر طرف سم کارڈ بھیجتے ہوئے یا سم کارڈ بیچتی ہوئی باپردہ خواتین مل جائیں گی، سم خرید کر وہیں اپنے موبائل میں ڈال کر ایکٹیویٹ کرانا نہ بھولیں۔
اگر آپ کو سم کارڈ حرمین شریفین کے قرب و جوار میں مثلا 50 ریال کا مل رہا ہے تو اپ یہی سم کسی مول سینٹر میں یا مین برانچ میں کچھ کفایت کے ساتھ بھی مل سکتا ہے ۔
بعض حضرات وہاں پہنچ کر سم کارڈ نہیں خریدتے اور اپنے ساتھیوں سے وائی فائی یا ہوٹس اسپورٹ کے ذریعہ کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ انکار کرسکتا ہے اور اس کے انکار سے آپ کو تکلیف ہوسکتی ہے لیکن تکلیف بالکل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کی ایک ایک ایم بہت قیمت سے ملی ہے آپ مفت یہ سروس چاہتے ہیں۔ ایک بات اور اگر وقت سے پہلے آپ کا ڈاٹا ختم ہوگیا ہے تو اس کو ریچارج کرانا نیا سم کارڈ لینے سے بھی مہنگا ہے اصل میں وہاں کی چند کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے دولت بٹور رہی ہیں ۔ سعودیہ حکومت کو اس سلسلہ میں کچھ انقلابی اقدام کرکے زائرین ومعتمرین اور حجاج کو سہولت پہنچانی چاہیے۔
حرمین شریفین میں عام طور پر ہر اچھے ہوٹل کی طرف سے وائی فائی سروس مہیا کرائی جاتی ہے لیکن یہ وائی فائی سروس آپ کو اپ کے کمروں میں اکثر نہیں ملے گی بلکہ اس کے لیے آپ کو استقبالیہ کاؤنٹر پر مہیا کرائی جاتی ہے لیکن ایک انار سو بیمار والا حال ہوتا ہے لوگ بہت ہوتے ہیں اور وائی فائی میں اتنی قوت اور وسعت نہیں ہوتی کہ وہ اتنے سارے لوگوں کے بوجھ کو برداشت کر سکے اس لیے بسا اوقات موبائل نیٹ ورک بہت کمزور اور سست روی کا شکار ہو جاتا ہے، اپ کوشش کریں کہ کوئی ایسا سم کارڈ خریدیں جو اپ کے لیے کفایت اور رعایت کے ساتھ ہر جگہ اپ کا ساتھ دے سکے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ سعودی عربیہ اپنے حسن انتظام اپنے رکھ رکھاؤ، صفائی اور سہولت رسانی کے معاملہ میں باقی دنیا میں امتیازی شان کا حامل ملک ہے لیکن موبائل کے سم کارڈ اور انٹرنیٹ ڈاٹا کے معاملے میں سعودی عربیہ میں بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے کمپنیاں بہت مہنگے سم کارڈ فروخت کرتی ہیں اسی طرح بہت مہنگا ڈاٹا ملتا ہے اس کے علاوہ لوکل بات کرنے کے لیے بھی جو منٹ دیے جاتے ہیں وہ
تمیم بن حمد الثانی (امیر قطر) کی سرپرستی میں لائبریری عوامی استفادے کے لئے کھول دی گئی۔ اس وقت اس لائبریری میں دس لاکھ سے زیادہ کتابیں عربی، انگریزی، فرانسیسی، جرمنی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پانچ لاکھ سے زائد ڈیجیٹل کتب کا ذخیرہ بھی اس لائبریری کی شان و شوکت میں اضافہ کئے ہوئے ہے۔
قطر لائبریری کی خوبصورت عمارت ایجوکیشن سٹی کے قلب میں واقع ہے۔ لائبریری پینتالیس ہزار اسکوائر میٹر کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اکیسویں صدی کی جدید اطلاعاتی سہولیات کے تناظر میں لائبریری میں تمام چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس میں داخل ہونے اور نکلنے کے لئے ازخود کھلنے، بندہونے والے دروازے موجود ہیں، جو کسی بھی شخص کے اندر داخل ہونے یا باہر نکلنے پر خودبخود کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔لائبریری میں کوئی بھی شخص استفادہ کرسکتا ہے۔ مطالعہ کے لئے آرام دہ نشستیں، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ وغیرہ موجود ہیں۔ لائبریریوں کے اندر ہر چیز صفائی و سلیقہ کے ساتھ رکھی ہوئی ہے۔ نماز کے لئے مسجد، آرام کے لئے ایزی چیئرز، ریستوران کے لئے سبھی کچھ سہولیات حاصل ہیں۔ لائبریری کے اندر بچوں کا سیکشن الگ سے موجود ہے، جس میں بچوں کی دلچسپیوں کے سامان کے علاوہ ہر موضوع پر مشتمل کتابیں ہیں جو قطر میں موجود کوئی بھی شخص اپنا رجسٹریشن کراکے ایک وقت میں چار پانچ کتابیں اکیس دن کے لئے بسہولت حاصل کر سکتا ہے۔
قطر ایجوکیشن سٹی
قطر کے ریّان میونسپل علاقہ میں بنایا گیا قطر ایجوکیشن سٹی، ایک تعلیمی و تحقیقی مرکز ۱۲؍کلو میٹر اسکوائر کا احاطہ کئے ہوئے ہے، جس میں مختلف تعلیمی ادارے بشمول سیٹیلائیٹ کیمپس (جو انٹرنیشنل یونیورسٹیز سے ملحق ہے) بھی واقع ہے۔
قطر ایجوکیشن سٹی کی بنیاد قطر فائونڈیشن کے تحت قطر فائونڈیشن نے ۱۹۹۷ء میں امریکہ کی معروف اورمعیاری یونیورسٹی ورجینا کامن ویلتھ یونیورسٹی کامپلیکس قائم کرکے رکھی گئی تھی۔
گزشتہ دو دہائیوں قبل یہ ادارہ ایک اسکول کے ذریعہ وجود میں آیا تھا جو آج ترقی کرکے یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا ہے، جس میں اس وقت پچاس ممالک سے زیادہ کے طلباء و طالبات مختلف کورسز میں تعلیمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایجوکیشن سٹی میں سائنسی اور تحقیق کے شعبوں کے بہت سے مراکز ہیں جن میں ایک قطر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک ہے۔ یہ پارک 45000 اسکوائر میٹر کے ایریا میں بنایا گیا ہے، جس میں علاقائی اور بین الاقوامی تکنیکی ایجاداتی نظام سے انکیوبیشن فنڈنگ، تربیت، رہنمائی اور رابطے کی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ قطر نیشنل ریسرچ فنڈ، مسابقتی امتحان میں کامیاب طلباء و محققین کو ریسرچ کے لئے مالی معاونت فراہم کرتاہے۔
سدرہ میڈیکل ریسرچ سینٹر بھی قطر ایجوکیشن سوسائٹی سے ملحق ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ایجوکیشن سٹی نے خود کو ایک مکمل کمیونٹی میں تبدیل کرلیا ہے۔ اس کے تحت ۲۱۹؍بیڈ روم کا پریمیئر ان ہوٹل، بین الاقوامی معیار کا ایک فٹ بال اسٹیڈیم، ۳۳؍ہول والا گولف کورس (گولف کلب)، سٹی مسجد، قطر نیشنل لائبریری اور آکسیجن پارک کے علاوہ الشقاب (گھوڑ سواری کا مرکز) سٹی ایجوکیشن سوسائٹی جیسے اہم مقامات کام کر رہے ہیں۔
خطبۂ عرب کا سب سے بڑا گھوڑوں کی تعلیم و گھوڑ سواری مرکز ’’الشقاب‘‘ قطر کے ضلع ’’الشکوب‘‘ میں واقع ہے جو ۱۹۹۲ء میں قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی نے قائم کیا تھا۔ ۲۰۰۴ء میں اسے قطر فاؤنڈیشن میں شامل کردیا گیا۔ اس ادارہ میں عرب گھوڑوں کی افزائش نسل اور ان کی حفاظت و تحفظ کا انتظام معقول پیمانے پر ہے۔ دس لاکھ مربع میٹر پر محیط اس مرکز میں چار سو سے زیادہ گھوڑوں کے اصطبل موجود ہیں۔
ایجوکیشن سٹی مسجد
یہ مسجد اپنے طرزِ تعمیر کے اعتبار سے بہت خوبصورت، وسیع، کشادہ اور جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔ یہ مسجد پانچ ستونوں پر قائم ہے،جو اسلام کے بنیادی پانچ ستونوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس میں بہت بڑے خوش خط الفاظ میں جن قرآنی آیات کو نقش کیاگیا ہے وہ جاذبِ نظر ہیں۔ اس میں ایک ستون پر سورۃ النساء کی آیت اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰباً مَّوْقُوْتًا۔ دوسرے پلر پر حج سے متعلق سورۃ آل عمران کی آیت وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔ ایک ستون پر شہادت کے سلسلے میں قرآنی فرمان سورۂ محمد کی آیت فَاعْلَمْ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ۔ایک اور ستون پر سورہ بقرہ کی روزوں سے متعلق آیت یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنِ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن۔۔ایک اور ستون پر سورہ توبہ کی آیت خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلَاتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ
قبرستان کو اتنے سلیقہ سے چلانا حکومتی سطح پر ہی ہوسکتا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ انسان اپنی آخری منزل سے بے خبر رہتا ہے، لیکن ہر ایک کو اس مٹی میں لوٹ کر جانا ہے جس سے اس کو پیدا کیا گیا اور جہاں سے وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اقبال بھائی کی والدہ مرحومہ دو ہفتہ قبل ہی اپنی بیٹیوں سے ملنے کی غرض سے قطر تشریف لائیں تھیں، کسے معلوم تھا کہ وہ وقت موعود پر اپنی آخری آرام گاہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا اور ایسا ہی ہوا۔ انسان اپنے آپ سے کتنا بے خبر ہے، اُس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اُس کا آخری ٹھکانہ کب اور کہاں ہے؟ قرآن کریم کے الفاظ ’’وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْت‘‘ کی صداقت ایسے مواقع پر سامنے آکر انسانوں کو غفلت سے بیدار ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
حکومت قطر اس بات کے لئے مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے ملک میں رہنے والے دنیا کے تمام باشندوں خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سب کو یکساں حقوق فراہم کر رکھے ہیں۔ عوام پر آمد و رفت، خورد و نوش، رہن سہن، لباس وغیرہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ سبھی کو ہمہ وقت امن و سکون حاصل ہے۔ ہندوستانی شہری بڑی تعداد میںآباد ہیں، جن میں اکثریت جنوبی صوبوںکے غیرمسلموںپر مشتمل ہے۔ ان کو اپنے مذہبی روایات و اقدار کو انجام دینے میں کسی بھی طرح کی کوئی ممانعت نہیں ۔ جنوبی ہند کے برادرانِ وطن کے لباس بالعموم اسلامی روایات سے میل نہیں کھاتے۔ مرد و خواتین کو لباس و خوراک کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ساحلی علاقوں، پارکوں، ہوٹلوں، ریستورانوں، دوکانوں،آبادیوں، سیر و سیاحت کی جگہوں پر جوان، بوڑھے، بچے،مرد، عورت سب اپنے اپنے طرز پر زندگی جی رہے ہیں۔ سڑکوں پر رات، دن کے کسی بھی حصہ میں ایسی جوان لڑکیاں بہ کثرت نظر آتی ہیں جنہیں اپنے لباس کی کوئی فکر نہیں ہوتی، لیکن کوئی بھی شخص کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ دو ماہ کے دورانیہ میں رہزنی، لوٹ، چوری، بدنظری، چھیڑخوانی کا کوئی تذکرہ بھی سننے کو نہیں ملا۔ قوانین کی پابندی ہر ایک کے لئے لازم ہے، خواہ وہ قوانین شہری حقوق کے ہوں یا آمد و رفت کے، ان میں ذرا بھی کسی قسم کی کوئی کوتاہی ناقابل برداشت ہے۔ فوری طور پر جرم کے حساب سے سزا کا تعین ہوتا ہے۔ اس میں کوئی رعایت نہیں کی جاتی، غرضیکہ ضابطے بہت سخت ہیں۔ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی ٹریفک کی ضابطہ شکنی کرے اور وہ جرمانہ ادا نہ کرے۔
مذہبی طور پر کون شخص کس طرح رہ رہا ہے، یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے۔ ہر کالونی، کیمپس و کمپائونڈ میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد ہے، جن کو سبھی لوگ پیار محبت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کسی قسم کی عصبیت، تنگ نظری یا بدنیتی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اپنے ملک میں گزشتہ چند برسوں میں سیاسی گلیاروں کے لوگوں نے یہاں کے امن و سکون کو جس طرح غارت کردیا ہے اس کا ازالہ عرب ریاستوں نے بڑی حد تک کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں رہنے والے غیر مسلم افراد کو کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوتاکہ وہ اپنے وطن سے دور ایسے وطن میں رہ رہے ہیں جو ان کی تہذیب و ثقافت اورمذہبی اقدار سے جدا ہے۔
راقم اس پر غور کر رہا تھاتو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلمانوں کے خمیر میں یہ بات شامل ہی نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذہب والوں کے ساتھ کسی قسم کی تنگ نظری کا برتائو کریں کیوںکہ مذہب اسلام اس بات کو تو ضرور کہتا ہے کہ تمام مذاہب میں اس سے بہتر کوئی مذہب نہیں۔ اس کی بنیاد توحید (اللہ کو ایک ماننے) پر ہے جو ہر چیز کا مالک و قابض، مختار و فرماں رواں ہے۔ یہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر کوئی کسی قسم کی قدغن نہیں لگاتا، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کو ماننے پر مجبور نہیں کرتا۔ یہ رواداری آج نہیںبلکہ ہمیشہ سے ہے۔ وطنِ عزیز پر سینکڑوں برس حکومت کرنے والے مسلم حکمرانوں نے کوئی بھی ایسا قانون جاری نہیں کیا جس میںغیر مسلموں کو مذہب تبدیل کرنے پرمجبور کیا گیا ہو۔ باہمی عدل و انصاف،حاکمیت کامعیار رہا، جس کی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔مسلم حکمرانوں کی یہی خصوصیات اس وقت اسلامی حکومتوں میں نظر آتی ہیں بلکہ کچھ ریاستوں کے حکمراں تو اس سلسلے میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوںنے اپنی مذہبی حدود کو پامال کردیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی حکمراں (خواہ وہ ماضی کے وطن عزیز کے حکمراںہوں یا موجودہ اسلامی حکومتوںکے امراء و شیوخ) کے پیش نظر اسلام کی تبلیغ و اشاعت یا بالجبر اسلام کی طرف مائل کرنا نہیںرہا، ان کا اصل مقصد اپنا اقتدار بچانا رہا خواہ اس کے لئے انہیں اپنے برادرِ حقیقی کو ہی سولی کی نذر کیوں نہ کرنا پڑے۔
عین خالد ایک علاقہ کا نام ہے جو قطر کا مضافاتی علاقہ کہا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہاں پروگرام کے مطابق مفتی رضی سے ملاقات اور اس مسجد میں عصر کی نماز پڑھنی تھی۔ ہم عصر سے تقریباً آدھ گھنٹہ قبل مفتی صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچے، جو مسجد کی طرف سے فراہم کردہ ہے۔ بہت بڑے علاقہ میں مرکز واقع ہے، جس میں امام صاحب اور دیگر اسٹاف کے چھ بڑے بڑے مکانات ہیں، انہیں میں سے ایک میں مفتی رضی صاحب کا قیام ہے۔ مرکز میں داخل ہونے کے لئے گیٹ نمبر دو سے اندر پہنچے، معلومات کرنے پر پہرے دار نے دروازہ کھولا۔ مفتی صاحب سے بہت ہی بے تکلفی کے ساتھ ملاقات ہوئی، کچھ کھانے پینے کا دور چلا، اس کے بعد مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجدبہت کشادہ ہے، مسجد کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ اندرونی ہے جو صرف جمعہ کے دن یا کسی اہم اجتماع کے موقع پر کھلتا ہے، اس کے اندرونی حصہ میںٰ دس بارہ ہزار افراد اطمینان سے نماز پڑھ سکتے ہیں۔بیرونی حصہ میں دو حصے ہیں ایک قدرے بڑا ہے، دوسرا اس سے چھوٹا، چھوٹا والا حصہ بھی عام طور پر بند رہتاہے۔ درمیانی حصہ جس میں پانچوں وقت کی نماز ہوتی ہے اس میں بھی بہ یک وقت آٹھ سو سے زیادہ افراد نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ عصر کی نماز میں بشمول ہمارے چند افراد تھے جن کی تعداد بیس بھی نہیں تھی۔ اتنی بڑی مسجد میں اتنے کم نمازی دیکھ کر تعجب ہوا لیکن تفصیل معلوم کرنے پر راز یہ کھلا کہ چوںکہ یہ مسجد عام آبادی سے ہٹ کر بنائی گئی ہے، اس لئے اس میں نمازی کم ہوتے ہیں۔ جمعہ و عیدین کے موقع پر مسجد کے تینوں حصے بھر جاتے ہیں اور جب کبھی تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوتا ہے اس وقت نہ صرف یہ کہ تینوں حصے بلکہ باہر کا وہ میدان جو مسجد کے تینوں حصوں کی پیمائش سے کم از کم دوگنا ہے وہ بھی بھر جاتاہے۔ مسجد کے کشادہ ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد کے بیرونی احاطہ میں چار ہزار گاڑیوں کی پارکنگ اور بائیس سو بیت الخلا ء کا انتظام ہے۔ جن دنوں یہ مرکز تبلیغی جماعتوں کی قیام گاہ کے طور پر کام کرتا تھا اُن دنوں امیر مرکز کی جو تقریر عربی میں ہوتی تھی اس کے کم و بیش پندرہ زبانوںمیں ترجمے بیان کئے جاتے تھے، جس کے لئے پندرہ ہال مسجد کے بیرونی احاطہ میںبنے ہوئے ہیں۔ ہر ہال میں اس زبان کو سمجھنے والوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہمہ وقت جماعتوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ چوںکہ مسجد ’’مرکز کی مسجد‘‘ کہلائی جاتی ہے، جس کی تعمیر و توسیع حکومت نے خود کرائی ہے، اس لئے اس میں ہر اہم ضرورت کا پورا خیال رکھاگیا ہے۔ کھانا بنانے کے لئے بہت بڑی بلڈنگ ہے، کھانا کھانے کے لئے باہری حصہ، جماعتوں کے ٹھہرنے کے لئے مسجد سے باہر بڑے بڑے دو ہال، اُسی کے مطابق واش روم وغیرہ بنائے گئے ہیں۔ شاہی گھرانوں کے بہت سے افراد اپنا وقت جماعت میں لگاتے تھے۔ قطر میں تبلیغی جماعت کا کام بڑے وسیع پیمانے پر جاری تھا، مرکز کی اس جگہ یومیہ بہت سے وفود آتے تھے حالاںکہ اس وقت وہاں نہ تو زیادہ آبادی ہے اور نہ ہی فی الحال اس کے امکانات۔ یہ مرکز وہاں کے شاہی گھرانوں سے وابستہ اسلام پسند طبقہ نے منصوبہ بند طریقے سے پچاسوں سال کے بعد کے حالات کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ مرکز کی یہ مسجد کووڈ۱۹ سے قبل تک مستقل طور پر جماعتوں کی آمد ورفت کی وجہ سے آباد تھی، لیکن کووڈ اور ہندوستان کی تبلیغی جماعت کے اختلافات سے یہاں کا کام بھی متاثر ہوا۔ اب صرف جمعرات کو ہی اجتماع ہوتا ہے۔ جو صرف خطاب تک ہی محدود ہے۔ قیام و طعام کی سہولیات اس پیمانے پر میسر نہیں ہیں جن کے پیش نظر اسے بنایا گیا تھا۔
۶؍جولائی کی شام کو سوشل میڈیا پر یہ اطلاع موصول ہوئی کہ بمبئی کے مشہور سماجی خدمت گار اور عالم دین اقبال بھائی چونا والا کی والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی ہے، جنہیں ابھی دس روز قبل ہی اقبال بھائی قطر میں موجود اپنی بہنوں کے ساتھ رہنے کے لئے چھوڑ کر گئے تھے۔ طبیعت کی خرابی نے انہیں فوراً قطر آنے پر مجبور کردیا تو وہ ۶؍جولائی کی رات میں کسی وقت قطر پہنچ گئے۔ صبح کو اقبال بھائی سے فون پر عیادت کی گئی تو معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ حمد اسپتال میں داخل ہیں اور انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھی گئی ہیں۔ ۷؍جولائی کی رات میں اقبال بھائی نے سوشل میڈیا پر یہ اطلاع دی کہ والدہ کا سایہ سر سے رخصت ہوچکا ہے اور اب ان کی تدفین کے لئے قطر کی ہی سرزمین کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کے لئے ۸؍جولائی مغرب کی نماز کے بعد کا وقت متعین ہوا۔ اقبال بھائی ملّی دردمند افراد میں شمار ہوتے ہیں، ممبئی میںسماجی کام کرنے والوں میں سرفہرست ہیں، ہمارے انتہائی عزیز، ہم خیال، صالح فکر کے حامل، نیز سبھی ’’دوستوں کے دوست‘‘ ہیں، اس لئے یہ گوارا نہ ہوا کہ قطر میں رہتے ہوئے مرحومہ کے جنازے میں شرکت نہ کی جائے۔
بخشتے ہیں۔ صاف ستھرا ، مترنم آواز میں اپنا کلام آج بھی اُسی انداز سے پیش کرتے ہیں جو کبھی جوانی کی شناخت تھا۔یوسف کمال صاحب سے ملاقات کے بعد مغرب کا وقت قریب تھا اور ہمیں گھر آنے کی جلدی، کیوںکہ رات میں بچوں کے ساتھ منترہ پارک جانے کا پروگرام بناگیا تھا۔ پروگرام کے مطابق ہم لوگوں نے پارک کی سیر کی، یہ پارک بھی بہت بڑا پارک ہے، جو عوامی تفریح گاہ ہے۔ جگہ جگہ نشستیں لگی ہوئی ہیں، ٹہلنے کے لئے بڑے بڑے میدان ہیں، جن میں مخملی گھاس بچھی ہوئی ہے۔ بچوں کے کھیلنے کے لئے مناسب انتظامات ہیں۔ غرضیکہ رونق و دلچسپی کے جتنے سامان ہوسکتے ہیں وہ سب یہاں پر مہیا ہیں۔
دوسرے عرب ممالک کے مقابلہ میں قطر میں کافی حد تک مذہبی آزادی پائی جاتی ہے۔ یہاں عوامی اجتماعات بھی ہوتے ہیں، ائمۂ مساجد اپنے مذہبی بیانات میں دنیا کی صورتِ حال کے تناظر میں مسلم مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کی ترقی و کامرانی کے لئے دعائوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت کی تعلیم بھی ہوتی ہے، تشکیل بھی ہوتی ہے اور جماعتیں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی بھی ہیں۔ جس علاقہ میں (یزدان ۱۳) میں ہم مقیم ہیںوہاں کی وسیع و کشادہ مسجد میں ایک مرتبہ قطر میں مقیم ہندوستانیوں کی جماعت آئی، مخاطب چوںکہ بیشتر اردو داں طبقہ تھا، اس لئے اس جماعت نے اظہار بیان کے لئے اردو زبان کو ذریعہ بنایا۔ ایک مرتبہ قطر یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء کی جماعت آئی تو اس نے انگریزی زبان میں تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ ایک مرتبہ قطر میں مقیم مختلف عرب ممالک کا ایک تبلیغی وفد اسی مسجدمیں آیا جو اپنا پیغام عربی زبان میں سامعین تک پہنچاتا رہا۔
اس طریقہ پر تبلیغی جماعت کے سہ لسانی پروگرام سننے کا اتفاق ہوا، جن کا بنیادی مقصد عوام کو اللہ کے پیغام کی دعوت و تبلیغ دینا، تبلیغی جماعت کی طرف مائل کرنا اور اس کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور توحید و رسالت کے پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جانے کے لئے مائل کرنا رہتا ہے۔ تبلیغی جماعت عالمی پیمانے پر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہے۔ اس جماعت کا طریقہ کار اخلاص و للہیت پر مبنی ہے، جس نے امت کو ایک لڑی میں پرونے کا کام کیا ہے۔ واقعتاً یہ ہر لحاظ سے مستحسن ہے، لیکن یہ سوچنا کہ مسلمانوں کے جو طبقات اس مشن سے متفق نہیں ہیں اور دوسرے طریقہ پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی خدما ت کو یکسر انداز کرنا اور صرف اس طریقہ کو دین کی خدمت سمجھ لینا اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ہمیں معلوم ہوا کہ علی گڑھ سے ایک تبلیغی جماعت محیضر علاقہ کی مسجد میں مقیم ہے۔ یہ علاقہ ہماری رہائش سے تقریباً پینتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے،لیکن ہم وطنوں سے ملاقات کی کشش دوری میں مانع نہیں ہوئی، چنانچہ ۵؍جولائی کو جمعہ کی نماز وہیں پڑھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ نمازِجمعہ وہیں پڑھی گئی، مسجد اگرچہ زیادہ بڑی نہیں تھی، تاہم نمازیوںسے مکمل بھری ہوئی تھی۔ قطر میں مقیم علی گڑھ کے بہت سے احباب بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ بعد نماز جمعہ امیر جماعت مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی (مدرس مدرسہ تعمیرملت، دودھ پور، علی گڑھ) سے ملاقات ہوئی، ان کا بیان ہوا، علی گڑھ سے چھ افراد پر مشتمل اس وفد کا تقریباً ایک ماہ قطر میں اور ایک ماہ سعودیہ میں وقت لگانے کا پروگرام ہے۔ اس وفد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ سول انجینئرنگ کے استاذ ڈاکٹر محمد عادل، ڈاکٹر محمد ندیم اور دیگر تین حضرات تھے۔ بیان کے بعد مشروبات و فواکہات سے خاطر مدارات ہوئی، اس درمیان ایسا معلوم ہوا گویا ہم علی گڑھ میں واپس آگئے ہوں۔
قطر آنے کے بعد یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ہمارے سرپرست ساتھی مولانا اجتباء الحسن کاندھلویؒ کے صاحبزادے مفتی ارتضاء الحسن رضی صاحب کسی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ موصوف کے والد رحمۃ اللہ علیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ امام کے منصب پر فائز رہے تھے اور ہماری سرپرستی فرماتے رہتے تھے۔ علاوہ ازیں بڑے بھائی مولانا اصطفاء الحسن صفی مدظلہ العالی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء و معاون مدیر تعمیر حیات لکھنؤ)ہمارے دیرینہ دوست ہیں۔ اس لئے ان سے ملاقات پروگرام میں شامل ہوگیا۔ تحقیق و تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف عین خالد مقام میں واقع تبلیغی مرکز کی مسجد میں امام ہیں، اُن سے ملنے جانا اگرچہ ’’کارے دارد‘‘ تھا لیکن عزیزم منیب غازی تو بے چارے مستقل حکم کے منتظررہتے تھے۔ ان کے سامنے ذکر ہوا تو انہوں نے چلنے کی حامی بھرلی اتفاق یہ کہ تین چار دن قبل ہمارے نواسے عزیزم حماد غازی کی ایک معمولی سی سرجری سدرہ اسپتال میں ہوئی تھی، اس کے Followup کے سلسلے میں ڈاکٹر سے مشورے کے لئے ۷؍جولائی کو سدرہ اسپتال کا پروگرام طے تھا۔ منیب نے موقع بہتر جانتے ہوئے ہمیں بھی ساتھ لے لیا۔ پہلے اسپتال گئے ۔ اس موقع پر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قطر میںانسانوں بالخصو ص بچوں کی صحت پر کس طرح دھیان مرکوز رکھا جاتاہے،
موصوف نے ’’قطر میں اردو کی صورت حال‘‘کے عنوان سے ایک مقالہ جنوری ۲۰۰۰ء میں انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں پیش کیا تھا، جس میں قطر میں موجود مقامی اردو ادبی تنظیموں کا تعارف بڑے سلیقہ سے کرایا گیا ہے۔
ڈاکٹر عطاؤ الرحمن صاحب نے اپنے مقالہ میں قطر کی مخصوص صورتِ حال کے تناظر میں مقامی، ادبی تنظیموں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے(۱)ہند وپاک کے اہل اردو کے مشترکہ ادارے یا انجمنیں (۲)خالص ہندوستانی ادارے اور(۳)خالص پاکستانی ادارے۔ اول الذکر قسم کے اداروںمیں سب قدیم تنظیم ’’بزمِ اردو قطر‘‘ کے علاوہ ’’مجلس فروغ اردو ادب‘‘ اور ’’ادارہ حلقہ ادب اسلامی‘‘ کو بھی شامل کیا۔ خالص ہندوستانی ادبی اداروں میں ’’انڈوقطر اردومرکز‘‘ ، ’’انجمن شعراء اردو ہند‘‘ شمار ہوتے ہیں۔ یہ ادارے اپنی خالص ہندوستانی شناخت کے ساتھ ادبی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ خالص پاکستانی ادبی تنظیموں میں ’’پاک یوتھ سوسائٹی‘‘، ’’پاک رائٹرس فورم‘‘ اور ’’ادارہ خیال دکن‘‘‘ خالصتاً پاک اداروں میں مانے جاتے ہیں۔ آخر الذکر انجمن کے بانی و صدر اردو کے مشہور ادیب ممتاز راشد کو بتایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عطاؤ الرحمن صاحب نے یہ مقالہ بیس بائیس برس قبل ۲۰۰۲ء میں تحریر فرمایا تھا، جو اس وقت کی تازہ ترین معلومات تھیں، لیکن اب صورتِ حال بہت زیادہ بدل چکی ہے۔ ضرورت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طرح اردو سے محبت کرنے والا کوئی باہمت شخص اٹھے اور قطر میں اردو کی موجودہ صورتِ حال پر تحقیقات کرے۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ مقالہ بیت زیادہ قیمتی ہے اور بنیادی معلومات کا مآخذ ہے۔ اس میںانہوں نے قطرکے تعلیمی تناظر میں وہاں کے ہندوستانی و پاکستانی اسکولوں میں اردو تدریس و تعلیم کا بھی جائزہ لیا ہے، اسی کے ساتھ وہاں کی سب سے قدیم اردو ادبی تنظیم ’’بزم اردو قطر‘‘ کے علاوہ ’’مجلس فروغ اردو ادب‘‘ نیز ’’حلقہ ادب اسلامی‘‘ کی سرگرمیوں کو بڑے تفصیلی اندازمیں پیش کیا ہے۔ ہندوستانی شناخت کے ساتھ ’’انڈو قطر اردو مرکز‘‘ اور ’’انجمن شعراء اردو ہند‘‘ بھی ڈاکٹر صاحب کے مقالے میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق بزم اردو قطر ۱۹۵۹ء میں قائم ہوئی، جس کے بانیوںمیں ڈاکٹر سید عبد القوی، آصف رنیاہ ترالی، ممتاز راشد وغیرہ حضرات تھے۔ ’’مجلس فروغِ اردو ادب‘‘ کا قیام ۱۹۹۲ء میں عمل میں آیا، جس کے مؤسسین میں خالد داد خان، عزیز الحق اور محمود شریف وغیرہ تھے۔
بزم اردو قطر کے اس وقت کے صدر محترم رفیق شاد اکولوی صاحب ہیں، ان کے رفقاء میں جناب افتخار راغب صاحب اس کے معتمد خصوصی ہیں۔ ہر دو تین ماہ پر کوئی شعری نشست یا علمی موضوعات پر گفتگو اس کا اہم مقصد ہے۔
محترم فیصل حنیف صاحب نے ۲۰۱۲ء میں ’’گزر گاہِ خیال‘‘ کے نام سے ایک ادبی حلقہ قائم کیا، جس میں ’’غالب فہمی‘‘ کو ترجیح دی گئی۔ ہر ماہ غالب کی کسی غزل سے متوقع شرکاء کو مطلع کردیا جاتا تاکہ وہ اس پر اپنا خیال پیش کرسکیں۔ مظفرنا یاب صاحب نے اس میں ایک خوشگوار اضافہ یہ کیا کہ غالب کی جس غزل پر اظہار خیال کی دعوت دی جاتی وہ اس پر بایں طور تضمین پیش کرتے کہ مصرع اولیٰ غالبؔ کا ہوتا اور مصرع ثانی اس پر تضمین ہوتی۔ اس غزل پر افتخار راغب صاحب مزاحیہ تضمین کرتے۔ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا،کافی دنوں تک چلا۔ کووڈ کے بعد سے اس کی رفتار سست پڑ گئی لیکن فیصل حنیف صاحب کی کوششوں کو جناب خلیل نظامی صاحب، جنا ب عدیل صاحب، فیاض بخاری صاحب وغیرہ کا تعاون ملتا رہتاہے۔
گزرگاہِ خیال کے پروگرام بیشتر ’’مہتجر لائبریری‘‘میں ہوتے تھے، (مہتجر عربی لفظ ہے جو ہجرت کرنے والوں یا مسافرین کے لئے بولا جاتا ہے، چوںکہ یہ لائبریری قطر میں ان عربی ذوق رکھنے والوںنے قائم کی تھی جو برصغیر سے ہجرت کرکے قطر میں بس گئے تھے، اس لئے یہ لائبریری ’’مہتجرلائبریری‘‘ کے نام سے موسوم ہے) یہ لائبریری بھی اردو کی بڑی خدمت انجام دیتی تھی، اسی پلیٹ فارم سے ’’اقبال اکادمی‘‘ بھی قائم کی گئی، جس کے زیر انتظام ایک بین الاقوامی اقبال سیمینار منعقد ہوا، لیکن اس سے ’’غالب فہمی‘‘ کی ماہانہ نشستیں بہت زیادہ متاثر ہوئیں، رہی سہی کسر کووڈ نے پوری کردیا۔
گزرگاہِ خیال کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف صاحب ’’ہم سخن ورہیں غالب کے طرف دار نہیں‘‘ پر عمل پیرا رہتے ہوئے یوں تو سبھی قدیم و جدید شعراء و ادباء کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن غالب سے ان کو ایک خصوصی لگائو ہے جو ان کی تحریروں، خاکوں و انشائیوں سے ظاہر ہوتاہے۔ اگرچہ ان کی نظم سننے کا اتفاق کم ہوا ہے لیکن جو نثری مضامین سنے ہیں وہ غالب کے خطوط کے انداز پر ہیں۔ مخاطب سے اسی انداز میں مخاطب ہونا جس طرح غالب اپنے خطوط میں ہوتے تھے،موصوف کے مضامین کی شان کو دوبالا کردیتا ہے۔ چند ادبی محفلوں میں شرکت کرکے اندازہ ہوا کہ یوں تو اردو زبان و ادب کی خدمت بہت سے افراد کر رہے ہیں، لیکن پڑوسی ملک کے ڈاکٹر فیصل حنیف کے علاوہ جناب ممتاز راشد، آصف شفیع، قیصر مسعود،