ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

*بہترین صاحب قلم بننے کا طریقہ*

*مولانا علی میاںؒ* نے آج سے چالیس سال قبل اس ناچیز(مولانا عبدالمتین عثمان منیری صاحب) كے استفسار پر بتایا تھا كہ ایك بہترین صاحب قلم بننے كا بہترین طریقہ یہ ہے كہ قاری مطالعاتی زندگی كے آغاز میں كسی عظیم صاحب قلم كی جملہ كتابیں پڑھنے كی كوشش كرے، اس سے لا شعوری طور پر وہ اس مصنف كے فكر اور اسلوب كو اپنے ذہن و دماغ میں سمو لےگا اور چونكہ چند ایك اسالیب اور معلومات كی تكرار ہوتی رہے گی تو یہ حافظے میں محفوظ رہ جائیں گے، انہیں خاص طور پر ازبر كرنے كی محنت نہیں كرنی پڑے گی اور عبارتوں كو ازبر كرنے كا وہ فائدہ نہیں ہوتا ہے جو اس طرح پر سكون حالت میں مواد كی تكرار سے ہوتا ہے۔
اس طرح كوئی آسان اسلوب میں لكھی ہوئی مؤثر كتاب ایك طالب علم نقل كرے تو اس كے بھی اسلوب و تحریر پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔(یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ, ص:45)
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

محترم گلزار احمد صاحب نے حاصل پورمنڈی، بہاول پور سے ہمیں ایک نہایت طویل خط بھیجا ہے۔ خط کیا لکھا ہے، ’خطِ استوا‘ لکھ دیا ہے، جو پورے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خط سے ہم اپنی اور اپنے قارئین کی اصلاح پر مشتمل ایک مختصر اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، کہ ان کالموں کا مقصد ہی ’غلطی ہائے مضامین‘ کی اصلاح ہے :

’’۱۸؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو شائع ہونے والا ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بہ عنوان ’الفاظ کے سر پر نہیں اڑتے معنی‘ حسب سابق معلومات کا ذخیرہ تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ میں لفظ ’بالکل‘ کا املا جس تیزی سے ’بلکل‘ رواج پا رہا ہے، اس کی اصلاح کے لیے ہر صاحبِ علم کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت جو کھلواڑ اُردو کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہماری ’فیس بک‘ کے علم سے ’نشو و نَما‘ پانے والی نوجوان نسل مستقبل میں ’بلکل‘ ہی کو سند قرار دینے پر مصر دکھائی دے۔ آپ کا یہ لکھنا کہ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے ‘The’کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ بے شک و شبہ درست ہے، مگر بالکل میں ’ال‘ تخصیص کے لیے استعمال نہیں ہوا، بلکہ یہ ’ال‘ تعریفی ہے، جو حرفِ جر ’بِ‘ کو ،کُل کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے: بالقرآن، بالقلم، بالکتاب، بالتفصیل، بالعموم اور بالخصوص وغیرہ میں۔ ان الفاظ (قلم، کتاب، تفصیل، عموم اور خصوص) کے شروع میں ’ال‘ لگا کر انھیں اسمِ مَعرِفَہ نہیں بنایا گیا، بلکہ عربی زبان کا اُصول یہ ہے کہ جب کسی اسم کے ساتھ کوئی بھی حرفِ جر ملایا جاتا ہے تو اُس اسم سے پہلے ’ال‘ لگایا جاتا ہے۔ بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے، پڑھنے اور بولنے یعنی تینوں صورتوں میں آواز دیتا ہے اور بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے میں تو آتا ہے مگر بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد اٹھائیس ہے۔ (بعض ہمزہ کو شامل کرکے اس کی تعداد اُنتِیس شمار کرتے ہیں، مگر ہمزہ حرفِ اصلی نہیں ہے۔ کیوں کہ جب الف پر زبر، زیر یا پیش آجائے تو عربی میں اُس ’الف‘ کو ہمزہ پڑھا جاتا ہے) ان اٹھائیس حروفِ تہجی میں سے چودہ حروف قمری ہیں اور چودہ شمسی۔ قمری حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں آتا ہے، جیسے القمر، الکاتب اور الحق وغیرہ، مگر شمسی حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا، جیسے الشمس، الرشید اور الثاقب وغیرہ۔ کسی ادیب نے ’’حق کا خوف عجب غم ہے‘‘ کَہ کر ان حروفِ قمری کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یعنی اس جملے’حق کا خوف عجب غم ہے‘ میں چودہ حرف استعمال ہوئے ہیں، جو کہ قمری حروف ہیں۔ ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا بھی جائے گا اور پڑھا بھی، جب کہ باقی رہ جانے والے چودہ حرف شمسی ہیں، ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا اور پڑھا نہیں جائے گا۔ لفظ’بالکل‘ میں یہی اصول کارفرما ہے۔ یعنی ’الکل‘ میں ’ک‘حرفِ قمری ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لیے ’ال‘ لکھا گیا ہے،جوحرفِ جَر ’ب‘ لگانے کے بعد (بالکل) بولنے اور پڑھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ ’تفصیل‘ میں ’ت‘ حرفِ شمسی ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لیے ’ال‘ لکھا گیا ہے،جوبولنے اور پڑھنے میں (بالتفصیل)کی آواز دے رہا ہے۔ یعنی ’ل‘ لکھا ہونے کے باوجود (لام) کی آواز پیدا نہیں ہورہی۔ پس جان لیجیے کہ’بالکل‘ میں’کُل‘ سے پہلے ’ال‘ تعریفی ہے، تخصیصی نہیں‘‘۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

راحت وسکون پہنچانے کے لئے ہمارے اسلاف مدینہ منورہ میں خریداری کیا کرتے تھے تاکہ اس کے منافع سے صحابۂ کرام کی اولاد کو آسانی میسر ہو اور ان کی خوش خالی میں اضافہ ہوسکے۔
نو دس دن تک یہاں قیام رہا جب کوچ کا وقت ہوا؛ تب احساس ہوا کہ ابھی توقیام سے سیری ہی نہیں ہوئی ہے، ابھی تو مسجد نبوی، روضۂ نبوی، ریاض الجنۃ اور دیگر مقامات سے نظروں کو آسودگی حاصل نہیں ہوئی ہے، الرحیل الرحیل کے اعلان نے دل کی کفیت بد ل کر رکھ دی، بادلِ ناخواستہ بس میں سامان رکھا گیا، بے بسی کے ساتھ بس میں جاکر بیٹھ گیا، پوری بس بھری ہوئی تھی، آنسو تھے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہے، میرے بغل میں محمد سلیم بنگلوری بیٹھے تھے انھوں نے مجھے دیکھا میں نے انھیں دیکھا اور پھر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، مدینہ کی جدائی پر خوب رویا، ہچکیوں کے ساتھ رویا، سسکیوں کے ساتھ رویا، رویا کیونکہ رونا ہی زندگی ہے، ہماری بس رینگنے لگی، میری نظریں مسجد نبوی کے گنبد و مینار پر مرکوز ہوگئیں، بس چل پڑی تھی، کبھی مسجد نظر آ جاتی کبھی عمارات کی اوٹ میں ہو جاتی اور اس طرح تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مدینہ منورہ سے باہر نکل کر شاہ راہ عام پر ہمارا قافلہ رواں دواں ہو گیا۔ دل مدینہ میں رہ گیا، جو بس میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

شادیوں پر سہرے لکھے اور لکھوائے جاتے ہیں.چھپوا کر تقسیم کئے جاتے ہیں. شادی کارڈ کیلئے بھی شعر تلاش کئے جاتے ہیں.
ختنے، طہور، سنت یا مسلمانی کو بھی چھوٹی شادی کہا جاتا ہے.ایک صاحب نے بیٹے کی اس چھوٹی شادی کے کارڈ چھپوانا چاہے تو اس پر شعر کیلئے ایک شاعر سے درخواست کی. خاصا مشکل کام تھا لیکن شاعر کے ذہنِ رسا نے دیکھیں کیا خوب بر محل شعر تخلیق کیا...
بزمِ شادی رچے اِرم ہوکر
شاخ پھولے پھلے قلم ہوکر
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 225
انتخاب مطالعہ
تحریر: *محمد انس عبد الرحیم، مدیر صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر*

*ذہنوں کو فتح کرنے کا حربہ*

گزشتہ دور اونٹوں اور گھوڑوں کا تھا،موجودہ دور ہوائی جہاز اور ٹینک توپوں کا ہے،پچھلے ادوار میں تیر و تلوار میں مہارت قوت کا معیار تھا، دور حاضر میں ایٹمی طاقت ہونا قوت اور مضبوط دفاع کی علامت ہے،ماضی میں تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کا دار و مدار جن علوم و فنون پر تھا عصر حاضر میں ان علوم و فنون کی وہ اہمیت نہیں رہی؛ آج کے دور میں سائنس ٹیکنالوجی اور فنون جدیدہ کے حصول کو علم و تہذیب کی کسوٹی اور معیار قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا،یہی صورت حال جدید ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی ہے،عصر حاضر میں ترقی یافتہ اقوام کی دوڑ میں داخل ہونے کے اور علم و تہذیب کا شہ سوار بننے کے لیے میڈیا اور پیغام رسانی کے جدید ذرائع کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے ؛ کیونکہ جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی حاصل کرکے ہم کچھ بھی بن جائیں ؛ لیکن ہمارے خیالات و نظریات ہماری فکر اور پیغام دوسری قوموں میں تب ہی سرایت کریں گے جب رفتار ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے ہم اقوام عالم کے عوام و خواص اور گھر گھر تک انہیں پہنچانے کے اقدامات کریں گے۔
مغربی تہذیب کے افکار کی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہ کس تیزی سے دنیا کے ذہنوں میں جگہ بناکر انہیں متاثر کر رہے ہیں،جو جس قدر میڈیا کو طریقے سے استعمال کر رہا ہے وہ اس قدر لوگوں کے دل و دماغ کو اپنے خیالات و افکار کے تابع بنارہا ہے، الغرض! جدید میڈیا ایک جنگ ہے،جس کے ذریعے آپ لوگوں کے ذہنوں کو فتح کرسکتے ہیں۔

( *اندھیروں سے اجالے تک، صفحہ: 270،طبع: سلام کتب مارکیٹ،بنوری ٹاؤن،کراچی*)


✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی


/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جامعہ میں جشن مکتبہ میں سناٹا

معصوم مرادآبادی

(نوٹ: آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کا یوم تاسیس بڑے جوش وخروش سے منایا جارہا ہے۔ میں نے جامعہ کے ذیلی ادارے مکتبہ جامعہ کی زبوں حالی پر یہ مضمون اب سے چارسال پہلے جامعہ کے صد سالہ جشن کے موقع پر لکھا تھا۔المیہ یہ ہے کہ آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے، اس لئے اس مضمون کو دوبارہ شیئر کررہا ہوں۔)

مرکزی دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے حال ہی میں اپنے قیام کے سو برس مکمل کئے ہیں۔ صدی کا یہ سفر جامعہ کی تاریخ میں بڑے معنی رکھتا ہے۔ جن اکابرین نے اس عظیم ادارے کی بنیاد ڈالی تھی ، وہ عجیب وغریب جذبوں سے سرشار تھے۔ آج کی دنیا میں ایسے دیوانوں کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سوسالہ سفر نشیب وفراز کی ایک عجیب وغریب داستان ہے ۔ اس کے بہت سے کردار آج ہماری نظروں سے اوجھل ضرور ہیں مگر ان لوگوں نے جس اخلاص سے اس تعلیمی ادارے کی آبیاری کی وہ تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔جامعہ کی داغ بیل ڈالنے والے وہی لوگ تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی اور خود مختاری کی راہیں متعین کی تھیں۔ ان کی نگاہ بلند اور سخن دلنواز تھی۔ جامعہ کے قیام اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا سفرایک ساتھ طے ہوا۔ اس ادارے کا قیام برطانوی نظام تعلیم کے بائیکاٹ کی صورت میں ہوا تھا۔ گاندھی جی، مولانا محمدعلی جوہر، ڈاکٹر مختار احمدانصاری ، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹر ذاکر حسین،مولانا محمود حسن اور عبدالمجید خواجہ وغیرہ نے جہاں اس کی تعمیر وتشکیل میں حصہ لیا ، وہیں بعد کے دنوں میں اس ادارے کے گیسو سنوارنے والوں میں پروفیسر محمدمجیب، مسعودحسین خاں، پروفیسر شفیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر عابد حسین ، سعید انصاری اورمولانا عبدالملک جامعی کے نام آتے ہیں۔ 1920میں علی گڑھ میں قائم ہونے والے اس تعلیمی ادارے نے دہلی کے قرول باغ میں تمام تربے سروسامانی کے ساتھ کرائے کے مکانوں میں اپنا سفر شروع کیا تھا ۔ آج یہ دانش گاہ عالیشان بلڈنگوں کا ایک مرقع ہے اور اس کا تعلیمی وتدریسی سفر جاری وساری ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ملک کی دس مرکزی یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ایک اور ادارے کی بھی داغ بیل ڈالی گئی تھی جسے لوگ مکتبہ جامعہ کے نام سے جانتے ہیں۔مکتبہ جامعہ کے قیام اور جدوجہد کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی۔جامعہ جہاں درس وتدریس کا ادارہ تھا تو وہیں مکتبہ جامعہ لوگوں کو روحانی غذا فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔ یہ محض کوئی کاروباری اشاعت گھر نہیں تھا بلکہ اس نے انتہائی قیمتی اردو کتابیں نہایت ارزاں قیمت میں شائع کیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن وشعور کو سیراب کیا۔مکتبہ جامعہ نے خلاق ذہنوں کی اہم تصنیفات کے علاوہ طلبا ء کی نصابی ضرورتوں کے مطابق درسی کتابیں بھی شائع کیں۔’ معیاری سیریز‘ کے عنوان سے مختصر مگر جامع کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اہل علم ودانش اور طلباء مکتبہ جامعہ کی مطبوعات سے تعلق خاطر رکھتے ہیں ۔ درس گاہوں اور دانش گاہوں میں اس کی مطبوعات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جامعہ کے ساتھ ساتھ مکتبہ جامعہ نے بھی ترقی کی منزلیں طے کیں اور یہ جامعہ کے بازو کے طور پر ایک ایسا ادارہ بن گیا جو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم تھے۔جامعہ کی لائبریری کو بھی مکتبہ جامعہ سے بہت تقویت حاصل ہوئی ۔ اس مکتبہ نے اشاعتی صنعت میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کرایا۔دہلی کے علاوہ بمبئی اور علی گڑھ جیسے شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں جو تشنگان علم وادب کا ایک اہم مرکز قرار پائیں۔لیکن آج جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کاصد سالہ جشن منایا جارہا ہے اور چراغاں ہورہا ہے تو مکتبہ جامعہ میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔کیونکہ گزشتہ ایک عرصہ سے مکتبہ جامعہ کا اشاعتی کاروبار ٹھپ ہے۔ نہ تو وہاں سے کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے اور نہ ہی اس ادارے کے تاریخ ساز جریدوں ’ کتاب نما‘ اور ’پیام تعلیم‘ کی اشاعت باقی رہی ہے۔ کتابوں کے وہ پرانے ٹائیٹل جن کی اردو والوں میں ہمیشہ مانگ رہی ہے اور جو مکتبہ جامعہ کی شناخت سمجھے جاتے ہیں ، ناپید ہیں اور دور دور تک ان کی اشاعت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جو لوگ کتابوں کی دنیا کے شیدائی ہیں ، انھیں مکتبہ جامعہ کے حوالے سے ایک نام ضرور یاد ہوگاجس میں جامعہ کے بانیوں کی روح محلول کرگئی تھی اور جس نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے اس ادارے کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔یہ شخصیت ہے شاہد علی خاں کی جو کسی زمانے میں مکتبہ جامعہ کے منیجر ہوا کرتے تھے اور مکتبہ کے دفتر میں واقع ان کی چھوٹی سی میز پر ہر مشکل کو آسان کرنے کا نسخہ موجود تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مکتبہ جامعہ کا دفتر تکونہ پارک کے نزدیک اسی گل مہر ایونیو کی شاہراہ پر ہوا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں ڈاکٹرذاکر حسین،ڈاکٹر عابدحسین،

Читать полностью…

علم و کتاب

خوبی یہ ہوتی ہے کہ سینسر لگا ہوتا ہے یعنی اگر آپ لفٹ کے درمیان میں موجود ہیں تو لفٹ ہرگز بند نہیں ہوگی حتی کہ اگر لفٹ کا دروازہ بند ہونے لگے اور آپ اپنے جسم کا کوئی بھی حصہ ہاتھ یاپاؤں دروازے کے سامنے کر دیں تو دروازہ کھلا رہے گا اِن باریکیوں اور لفٹ کے نظام کو سمجھ کر استعمال میں لایا جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے ورنہ لفٹ اور لیفٹ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔

بہت سارے حضرات وہاں پہنچ کر اپنے کمرے کی چابی کو لے کر پریشان ہوتے ہیں، اصل میں وہاں پر چابیاں نہیں ہوتی بلکہ انہیں کارڈ جیسی ایک چیز دی جاتی ہے اسی کارڈ جیسی چیز سے دروازے کھلتے ہیں اسی سے دروازے بند ہوتے ہیں ،کمرے کی لائٹ کا سسٹم بھی اسی سے مربوط ہوتا ہے اگر آپ کا کارڈ آپ کے کمرے کے اندر رکھا ہوا رہ گیا اور آپ باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تو پھر آپ سمجھیں کہ اب گھنٹوں کے لیے آپ آزمائش میں مبتلا رہیں گے کیونکہ آپ کے کمرے کی چابی اندر رہ گئی ہے کمرہ لاک ہو چکا ہے اب آپ کاؤنٹر پر جائیں گے، اپنی رپورٹ کریں گے ،وہاں دنیا بھر کی بھیڑ پہلے سے ہوتی ہے ،ان کے پاس دنیا بھر کے کام ہوتے ہیں ، کاؤنٹر والے آپ کے کمرے کی دوسری چابی یعنی دوسرا کارڈ آپ کے حوالے کرنے میں تاخیر بھی کر سکتے ہیں ،آپ اس درمیان میں پریشان بھی ہو سکتے ہیں ممکن ہے نماز کا وقت ہو اور آپ کی نماز بھی چھوٹ جائے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کہیں اور جانا چاہتے ہوں گاڑی باہر کھڑی ہو ساتھی گاڑی کے اندر موجود ہوں اور آپ اپنے کمرے کی چابی کو لے کر پریشان ہوں ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کے تمام کمرے والے پریشان ہو جائیں ،اِن تمام پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہمیشہ بیدار مغزی کا ثبوت دیں، پریشان نہ ہوں۔

حرمین شریفین میں پہنچ کر آپ کو ہر چیز نئی محسوس ہوگی، حتی کہ پانی کی ٹونٹیاں، وضو خانے ، غسل کھانے ، بیت الخلے ،سب کچھ نہایت ہی جدید ترین اور نہایت ہی معیاری نظر آئے گا ہم انڈیا جیسے ملک میں رہ کر جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں عام طور پر کمروں میں سادے بیت الخلے نہیں ہوتے کموڈ کا سسٹم بھی جدید ترین ہوتا ہے ایسی صورت میں لوگ طرح طرح کی نا تجربہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔آپ جو کچھ نہیں جانتے وہ جانکاروں سے معلوم کیجئے ہر چیز کا حل موجود ہے ۔

ہر ہوٹل میں نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص ہوتی ہے اسی طرح ہر ہوٹل میں کھانا کھلانے کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہیں، ہر ہوٹل میں ہر چیز کے لیے مکمل نظام ہوتا ہے آپ کو اپنی ڈائری میں یا اپنے کارڈ پر لکھ لینا چاہیے کہ ہوٹل میں کھانا کون سے حصے میں کون سی منزل پر کھلایا جائے گا، اسی طرح جس حصے میں کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں پر بہت سے ٹور آپریٹروں کا نظام ہوتا ہے ،آپ خوب پہچان کر اپنے ہی ٹور والے کے حصے میں پہنچ کر کھانا کھائیں کسی دوسرے کے حصے اور دوسرے کی میز پر پہنچنے کی حماقت نہ کریں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ۔

بہت سی خواتین اور مرد حضرات کپڑے دُھل کر جب وہ ان کو خشک کرنے کے لیے لفٹ کے ذریعے اوپرجائیں تو خوب دھیان رکھیں کہ آپ اپنے گیلے ہاتھوں سے لفٹ کے بٹن کو چھونے کی کوشش نہ کریں کیونکہ پورا سسٹم بجلی کے ذریعے سے چلتا ہے اگر خدانخواستہ بجلی کا اثر پانی کی وجہ سے بٹن پر ظاہر ہو گیا تو کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے ،بعض مرتبہ اس غلطی کی وجہ سے خواتین اور مرد حضرات کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 224
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا افتخار صاحب قؔاسمی،سؔمستی پوری*


*قلم ایک خاموش زبان ہے*


اس دنیائے رنگ و بو میں ہر لمحہ تخلیق و ایجاد کا عمل ہوتا رہتا ہے،دن بدن نِت نئی چیزیں وجود میں آتی رہتی ہیں،کہیں تنکا تنکا جوڑ کر کشتی بنائی جاتی ہے اور کہیں پُرزہ پرزہ ملا کر جہاز تیار کیا جاتا ہے۔
انسان عدم سے وجود میں آیا ہے اور وجود میں لانے کی صلاحیت سے معمور کیا گیا ہے،
وہ محسوسات کی حسی دنیا میں بھی اپنی صلاحیت کے جوہر دکھاتا رہتا ہے اور فکر و خیال کی باطنی دنیا میں بھی کچھ نئی چیزیں گھڑتا رہتا ہے اور انہیں الفاظ و تعبیرات کے پیرایے میں پیش کرتا رہتا ہے۔
حرف حرف کو جوڑ کر لفظ بنتا ہے،لفظ لفظ جوڑ کر جملہ بنتا ہے اور جملہ جملہ مل کر کوئی مضمون یا مقالہ تیار ہوتا ہے،پھر مقالہ نگار اگر اپنے مقالے میں خونِ جگر شامل کردے تو اس کا مقالہ محض مقالہ نہیں ؛ بل کہ تحریر و انشاء کا شاہ کار بن جاتا ہے۔
”قلم ایک خاموش زبان ہے ؛ مگر بسا اوقات بولتی زبان سے کہیں زیادہ افادیت و اثر آفرینی کا حامل ثابت ہوتا ہے ؛ زبان کی افادیت محدود ہے اور قلم کا دائرۂ کار وسیع، زبان صرف سامع کو متاثر کرتی ہے اور قلم کا اثر دور دراز تک پھیلا ہوتا ہے، زبان کا بول خواہ کتنا ہی انمول ہو اسے محفوظ کرلینے کا اگر معقول انتظام نہ ہو تو وہ بولنے والے کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے ؛ مگر قلم سے نکلی ہوئی تحریر انمٹ نقوش بن کر سدا کے لیے زندہ اور پائندہ رہتی ہے“۔

( *قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشاتِ فلاحی،صفحہ: 15، طبع: مکتبہ السلام،جامعہ اکل کوا،مہاراشٹر*)

مؤلف: *مولانا عبد الرحیم صاحب فؔلاحی استاذ جامعہ اکل کوا*
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

خدمات، ایک سنہری تاریخ ہے، جن سے آنکھیں چُرانا کسی کور باطن ہی کا کام ہوسکتا ہے، منصف مزاج کا ہرگز نہیں۔ لہٰذا کلمہ گو نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ہوش و فہم، اپنی سوچنے اور سمجھنے کی قوت کو فاسد فکروں کا اسیر نہ بنائیں، بے نشان تیر مارنے والوں کو نشانہ باز نہ کہیں، صرف ناموں اور اصطلاحوں کی شہرت میں علمِ حقیقی کو پیٹھ پیچھے نہ چھوڑ دیں۔ علم کی راہ بڑی پُر خطر ہے، اگر اس میں آدمی تھوڑا سا بھی بہک گیا تو سمجھو ڈوب گیا۔ اس لیے دھیان رکھنا چاہیے کہ علم و سائنس کے نام پر اگر کوئی آپ کو اپنے دین سے، قرآن و حدیث سے، اسلامی شعائر سے، اپنے علماء سے، اپنی تاریخ و تمدن سے دور کرکے بدظن بنا رہا ہے تو فوراً سنبھل جائیے کہ وہ علم دوست نہیں، بلکہ ایک بہروپیا ہے، جو آپ کی عقلی ذہانتوں کو آپ سے چھین کر آپ کو بے عقلی کی راہ پر لگانا چاہتا ہے اور کوئی بھی صاحبِ بصیرت عقل و دانش رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بے عقلی کا عبرت کدہ نہیں بناسکتا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈالنے کا موقع نصیب ہوا۔ان چیزوں سے ہوتا تو کچھ بھی نہیں کیوں کہ انجام کا دار و مدار اعمال صالحہ پر ہے ،لیکن دل و دماغ کو یہ سکون حاصل ہو جاتا کہ ہم نے اپنے’’ جبل علم‘‘ دوست کو اپنے ہاتھوں سے اس قبر میں اتارا ھے جو بظاہر ایک ''گڈھا'' ہے لیکن اللہ والے نیک دل لوگوں کے لئے اسکی وسعتیں زمین کو آسمان سے ملا دیتی ہیں۔ مجھے یک گونہ یہ اطمینان ضرور حاصل ہو گیا کہ امریکہ(ورجینیا)میں مقیم میرے بیٹے (عزیزم احمد رضا عثمانی سلمہ اللہ تعالیٰ) نے میرے اور مولانا کے تعلق کا خیال کرتے ہوئے اپنے دوستوں عنایت صاحب ' (داماد مفتی سلیمان ظفر) اور شیراز احمد کے ساتھ گیارہ گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ایلجین پہونچ کر نماز جنازہ اور تدفین میں شامل ہو کر ہماری نیابت کا حق ادا کر دیا' اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے آمین۔اللہ تعالیٰ مولانا کی تمام نیکیوں کو قبول فرمائے
لغزشوں اورسیآت سے درگذر فرمائے ان کی قبر پر تا قیامت رحمت کے پھولوں کی بارش فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے آمین!

(ڈاکٹر) عبید اقبال عاصم
وادیٔ اسماعیل، دوہرہ معافی
علی گڑھ۔ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۲۴؁
موبائل نمبر +919358318995
Email. ubaidiqbalasim@gmail.com

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جلنے کا سلسلہ بدستور رہا اس فہرست میں مولانا موصوف کا نام نامی سر فہرست تھا۔
اکیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں مولانا نے ماہنامہ’’ ترجمان دیوبند‘‘ نکال کر’’ دیوبند کی ترجمانی‘‘ کا فریضہ ادا کیا۔ یہ رسالہ پابندی کے ساتھ پندرہ سال سے زائد عرصہ تک چلا لیکن پھر نہ جانے کن وجوہات کی بناء پر یہ سلسلہ ترک ہوگیا۔ جب بھی مولانا سے ملاقات ہوتی اس کا تذکرہ ضرور آتا لیکن مولانا یا تو میری تائید کرتے ہوئے جلد ہی اسکی تجدید کاوعدہ کرتے یامعنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی اختیار کر لیتے۰ حالانکہ الحمدللہ مولانا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔ بہرحال ’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگیں‘‘۔
مولانا بہت خوش اخلاق آدمی تھے یہ ان کی ہر ادا سے ظاہر ہوتا خوردونوش، لباس و پوشاک، گفتار ورفتار ،علم وقلم، نشست و برخواست، بحث ومباحثہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس کی اضافت ’’خوش ‘‘کے ساتھ نہ ہوتی ہو۔ان کا ظاہر جتنا اجلا تھا وہ ہر دیکھنے والے کے لئے جاذب نظر تھا اور ان کے بے تکلف دوست اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا کا صرف ظاہر ہی نہیں باطن بھی صاف تھا کیونکہ مولانا کے اوصاف میں سے ایک وصف جرأت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار تھا'حق گوئی ان کا شعار تھا یہی وجہ ہیکہ اگر انہیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی یا کسی کی رائے سے کوئی اختلاف ہوتا تو اس کو فوراً ظاہر کردیتے اور جب تک دونوں طرف سے ''افہام وتفہیم'' نہ ہو جاتا وہ چین سے نہ بیٹھتے جب معاملہ سلجھ جاتا تو وہ واقعہ ''نسیاً منسیاً'' ہوجاتا اور مولانا کا اخوت ودوستی کا رشتہ حسب سابق بحال ہو جاتا۔
مولانا کا ’’یارانہ مزاج‘‘ انہیں اپنی ذمیداریوں سے غافل نہ ہونے دیتا ایک ہی وقت میں وہ دوستانہ روابط کو بھی بخوبی نبھاہتے کاروباری مصروفیات کو بھی انجام دیتے تصنیف وتالیف کاسلسلہ بھی جاری رہتا اور فرمائشی مضامین بھی قلم بند کرتے۔ ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ مولانا کے تعلقات’’ کثیرالجہات‘‘ تھے اور سب کی الگ الگ نوعیتیں تھیں وہ ان سب کا خیال کرتے ہوئے مخاطب سے اسی کے انداز میں گفتگو کرتے اور شائستگی کا دامن کبھی داغدار نہ ہونے دیتے۔
مولانا مرحوم کے تعلق سے یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ میری بالمشافہ آخری ملاقات مئی ۲۰۲۴میں ہوئی اس کے بعد میں دو تین ماہ کے لئے قطر چلا گیا اس درمیان کئی مرتبہ ٹیلیفون پر خوش گپیاں ہوئیں ہنسی کے فوارے چھوٹے۔ اگست کی۱۶تاریخ کو میں دیوبند گیا تو ارادہ یہی تھا کہ حسب معمول اسی دن ملاقات کی جائے لیکن گھریلو مصروفیات نے مہلت نہیں دی اگلے دن (۱۷/اگست کو) دارالکتاب گیا تو دار الکتاب کے منتظم سہیل عثمانی نے بتایا ’’کہ آج ہی امریکہ کے لئے گئے ہیں اوراب۱۴-۱۵/ اکتوبر کو واپسی ہوگی‘‘،واپسی تو ان کی۱۴/ اکتوبر کو ہی ہوئی لیکن اس عارضی ٹھکانہ پر نہیں جہاں کسی کو دوام نہیں، وہ دو تین ہفتہ بہت سے عوارضات سے گذرنے کے بعد وہاں چلے گئے جہاں ’’رب ذوالجلال والاکرام‘‘ کے ذریعہ پاکیزہ روحوں کو ’’نفس مطمئنہ‘‘ سے مخاطب کر کے ''راضیۃ مرضیۃ'' کی حالت میں اپنے حضور لوٹ کراپنے (حقیقی) بندوں میں داخل ہونے اور جنت کی طرف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنے کی دعوت دی جاتی ھے‘‘۔مولانا کے اچانک چلے جانے سے اب یہ احساس مزید ستانے لگا کہ وہ قصبہ جہاں پانچ سال قبل تک ہر چہار سو بڑے بڑے علماء کے علاوہ دوسری صف کے وہ لوگ جو حلقۂ احباب میں شامل تھے جن میں مولانا حسن الہاشمی، مولانا حسیب صدیقی، مولانا طاہر الاسلام قاسمی، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، مولانا محمد اسلام قاسمی، عبد اللہ عثمانی، رضوان سلمانی سبھی اپنے اپنے مستقر پر پہونچ گئے، یہ وہ لوگ تھے جومجلسی انداز کے علم و قلم کے شیدائی تھے۔ اب جو حضرات معدودے چند باقی ہیں وہ یا تواپنی گونا کوں مصروفیات کے باعث علم و قلم کو بطور مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہم جیسے ’’بازاری قلم کاروں‘‘ کے پاس بیٹھنے کی فرصت نہیں یا ایسے حضرات ہیں جو راقم کو بزرگ مانتے ہوئے بے تکلفی سے اجتناب برتتے ہیں،قاری ابوالحسن اعظمی صاحب کی پیرانہ سالی، ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کی دیوبند مراجعت کے باوجود یکسوئی ، ڈاکٹر نواز دیوبندی صاحب کی تعلیمی و ادبی مصروفیات ، مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب کی تدریسی مصروفیات موقع بہ موقع استفادہ کا موقع ضرور فراہم کرتی ہیں لیکن وہ تسلسل باقی نہیں رہ پاتا جو مولانا ندیم الواجدی کا امتیاز تھا۔ اللہ سلامت رکھے اشرف عثمانی ، وجاہت شاہ، عارف عثمانی ، سمیر چودھری، فہیم صدیقی، عبدالرحمٰن سیف عثمانی جیسے لوگوں کو جو قلم کی آبیاری میں مصروف ہیں ، نوید صدیقی ، عمیر الٰہی اور نئی نسل کے کچھ نام نظر آتے ہیں جن سے مستقبل میں دیوبند کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

میرا یارجانے کہاں گیا؟

از: عبید اقبال عاصم، علی گڑھ

۱۴/ اکتوبر ۲۰۲۴ کی رات دس بجے جب مولانا ندیم الواجدی کے شکاگو (امریکہ) میں ’’حالت سفر‘‘میں انتقال کی خبر کی تصدیق ہوگئی تو رنج وغم کی جو کیفیت گذری اس کو بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔حسن اتفاق کہ میں ان دنوں دیوبند میں ہی تھا۔ایسے موقعوں پر شریعت اسلامیہ کی ہدایات کے مطابق ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘، پڑھا افسوس وملال کا اظہار نیز تعزیت مسننونہ پیش کرنے کے لئے مولانا کے جدی مکان پر رات میں ہی حاضری دی، مولانا کے سبھی بھائیوں اور احباب و اقرباء سے تعزیت پیش کی، صبر کی تلقین، ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی گئی، ظاہر سی بات ہے انسان بالخصوص صاحبِ ایمان کے اختیار میں اس سے زیادہ کچھ ہے بھی نہیں کیوں کہ ہرحالت میں اسے ایک نہ ایک دن اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا ہے،جب کسی کا وقت آجاتاہے تو وہ ایک لمحہ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوسکتا۔انسان اتنا مجبور و لا چار ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا وقت آخر کہاں ہونا ھے؟ ’’فنا‘‘ـ ہر’’ذی نفس‘‘ کا مقدر ھے اور ’’بقا‘‘ تو اس اللہ رب العزت کی شان ھے جو مالک السموت والارض ھے۔رب واحد کے فیصلے کے سامنے سرنگوں ہوجانا مومن ومسلم کی شان ھے، اطاعت وفرماں برداری کی دلیل ھے۔ مولانا کی وفات یقینی طور پر ایک عظیم سانحہ ھے ایک اچھے خلیق، ملنسار'صاحب فہم وبصیرت' ذی علم وقلم کا ملک الموت کے ہاتھوں اچک لیا جانا اکثر وبیشتر متعلقین کے دلوں پر شاق گذرا لیکن دنیا کا کوئی بھی شخص جانے والے  کے وقت کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا چنانچہ مولانا کے لئے ایصال ثواب ودعائے مغفرت اور جملہ متعلقین کے لئے صبر جمیل کے علاوہ کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا ہمیں اسی کی تلقین کی گئی ھے اور اسی کا مظاہرہ دیکھنے کو بھی ملا۔ شروع میں تو صدمہ کی شدت نے کچھ لکھنے کی فرصت نہیں دی،اب جبکہ اس حادثہ ٔ فاجعہ کو دنوں کا’’ایک دہا ‘‘سے زیادہ بیت چکا ھے تو مولانا مرحوم سے متعلق اپنی یادداشتوں کو یکجا کرنے کی کوششیں کر رہا ہوں۔سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ اگر حالات وواقعات کی ترتیب پر غور کیاجائے تو بچپن کی ان بھولی بسری یادوں سے  بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جب کسی بھی قسم کا شعور نہ  ہونے کے باوجود ہر روز صبح کے وقت اخبار کا مطالعہ ضروریات زندگی میں شامل تھا انہیں دنوں ’’روزنامہ الجمعیۃ‘‘کے کسی نہ کسی شمارے میں مضمون نگاروں میں  ایک نام ’’ندیم الواجدی‘‘ نظر سے گذرتا اور میں تصور میں بسے اس مضمون نگار کی تلاش میں سرگرداں رہتا کیونکہ اس نام کے لاحقہ میں ’’دیوبند‘‘ کا اضافہ ہوتا(یہ وہ زمانہ تھا جب مضمون نگاری اسکی ترسیل اور اشاعت ’’چیستاں‘‘ معلوم ہوتا تھا اور عام تصور یہ تھاکہ اخبارات میں لکھنے والی  مخلوق’’ما فوق الوراء‘‘ ھے،ایسا کوئی مضمون نگار اپنی جان پہچان کا ہوتا یا اس سے سلام دعاء ہوتی تو قاری اپنی قسمت پر نازاں ہوتا) پھر دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے ابتدائی دور میں جب شعور بیدار ہوچکا تھا'اور دیوار پر آویزاں مختلف ضلعوں وصوبائی انجمنوں کے اردو وعربی زبانوں پر مشتمل دیواری پرچوں اور سالانہ اجلاس کے موقع پر اسی سائز کے اعلانات میں ''ندیم الواجدی'' کا نام نظر آتا تو ذہن کے دریچوں میں محفوظ اس ''نامی گرامی شخصیت'' سے ملنے کو طبیعت چاہتی' حالانکہ دارالعلوم دیوبند کے حاضری رجسٹر میں یہ نام واصف حسین کے نام سے پہچانا جاتا تھا لیکن اعلانات واشتھارت میں’’ واصف حسین‘‘ کے ساتھ ’’ندیم الواجدی‘‘ بھی لکھا ہوتا تو ہر شخص کے لئے یہ جاننا مشکل نہیں رہا کہ دونوں نام ایک ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں پھر اصل نام( واصف حسین) تو رجسٹروں تک ہی محدود ہوگیا اور ''عرفی نام''(ندیم الواجدی) دارالعلوم دیوبند کی چہار دیواری کا ایک ایسا نام بن گیا جو انجمنوں تنظیموں بالخصوص" النادی الادبی "کے اجلاس کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا۔ جن دنوں مولانا دورۂ حدیث سے فارغ ہو ئے اس سال راقم عربی سال سوم کا طالب علم تھا مولانا دارالعلوم دیوبند کے ممتاز طالب علموں میں شمار ہوتے تھے ۱۹۷۴میں دورہء حدیث میں امتیازی نمبروں کے ساتھ اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد ہونے والے سالانہ انعامی جلسہ میں حضرت قاری محمد طیب صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند) اور دیگر اساتذہ کی طرف سے مولانا کی تعریف وتحسین
کی صدائیں بلند ہوئیں' تو مولانا سے ملنے کا اشتیاق اور زیادہ بڑھ گیا۔

دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ سے قبل مولانا، اس کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف ہوئے تو ہماری ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا جو شروعاتی دور میں شناسائی کی حد تک محدود رہا لیکن مولانا کے بے تکلف رویہ کی وجہ سے بہت جلدپختہ دوستی کی طرف قدم بڑھتے نظر آنے لگے ،اسکے باوجود تکلفات کا سلسلہ بھی حسب سابق بدستور رہا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

رسُولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالِ ایمانی کی ایک بے پناہ قوت کے ساتھ پکارا :
" "اے گروہ انصار!
دائیں طرف سے وہی بے قرار آواز سُنائی دی ” ہم حاضر ہیں ۔ یا رسول اللهﷺ ! ہم حاضر ہیں!"
آپﷺ نے بائیں طرف رُخ کیا اور پھر مسلمانوں کو آواز دی __ اس بار اس سے بھی زیادہ بے تاب و پُر شوق جواب ملا " ہم حاضر ہیں ۔ اے خدا کے پیغمبر ﷺ! ہم حاضر ہیں!"
آپﷺ نے مُٹّھی بھر انسانوں کا یہ جواب سُنا اور ایک زلزلہ انگیز جوش کے عالم میں اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے ۔ اور آپﷺ کے یہ الفاظ میدانِ جنگ میں پوری قوت سے گونج اُٹھے:
"میں ہوں خُدا کا بندہ اور اُس کا پیغمبر! __میں عبد المطلب کا فرزند ہوں !" اِدھر آپ ﷺنے یہ آواز بلند کی اُدھر آپ کے بلند بانگ محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پسپا ہوتی ہوئی فوج کو للکارا۔
"او انصار کے گروہ ؟ اور اے وہ لوگو! جنھوں نے اسلام پر جان دینے کا مُقدس عہد کیا ہے ! بڑھو! آگے بڑھو!_"
یکایک اسلامی لشکر میں جذبات کی ایک نئی روح دوڑ گئی وہ فوج جو پسپا ہو رہی تھی اس قدر جوش خروش سے آگے بڑھی کہ اگر سواری نے اس جوش آمیز رفتار کا ساتھ نہ دیا تو سوار سواریوں سے کود پڑے اور بجلی کی طرح آگے بڑھے۔ شہادت کے متوالوں نے موت سے آنکھیں چار کرنے کے لیے دفاعی سامان کے بوجھ اور زرہیں اُتار کر پھینک دیں اور تیروں کی بارش میں اس طرح نعرۂ جہاد بُلند کرتے ہوئے طوفانی رفتار سے پیش قدمی کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کُفر کی صفیں زیر و زبر کر کے رکھ دیں کمانوں کے ٹکڑے کر دیے کافروں کی لوہے میں ڈوبی ہوئی فوج کو کائی کی طرح پھاڑ دیا۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد ہوازن اور ثقیف کے سُورماؤں کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ جنگ کا دوسرا مورچہ طائف کا مضبوط قلعہ تھا ۔
یہاں ہوازن قبیلہ کے بھاگے ہوئے سپاہی قبیلۂ ثقیف کے ساتھ آملے تھے ۔ وہ قبیلہ ثقیف جو خود کو قریش کا ہم سر و ہم پلہ سمجھتا تھا۔ جذبۂ جہاد کے متوالوں نے حُنین کے میدانِ کارزار میں کافروں کے چھکے چُھڑا دیے تھے اس لیے غنیم کے پاس اس کےسوا چارہ نہ رہا کہ قلعہ کے اندر پناہ لے کر ادھر سے تیر اندازی کرے ۔ وہی فوج جو حُنین کےمیدان میں تیروں کی پہلی باڑھ سے بکھر نے لگی تھی وہ آج تیروں کی بارش میں قلعہ پر پڑاؤ ڈالے ہوئے پڑی تھی ۔ اور کئی دن تک مسلسل حملوں کے باوجود جب قلعہ نہ کُھل سکا تو سہمے ہوئے دشمنوں کو قلعہ میں بند چھوڑ کر اسلامی لشکر نے جعرانہ کے مقام پر آکر پڑاؤ ڈالا ۔
مسلمان قلعہ سے ہٹ گئے تھے مگر اللہ کا رسولﷺ طائف کی ان فضاؤں میں دعاؤں کا سوز بکھیر آیا تھا ، ٹھیک اس وقت جب خونخواری کی بدترین بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ قلعے کے درودیوار تیر افگنی میں مشغول تھے ۔ جب مُجاہدوں نے خُدا کے دشمنوں کی حق کشی اور سینہ زوری سے تنگ آکر حضورﷺ سے بددعا کرنے کی درخواست کی تو آپ ﷺنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور بددعا نہیں دعا کی ۔
(جاری)
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

انتظار نعیم ۔ اجالوں کے علمبردار رہئے۔
https://youtu.be/5QMRN80aaVM?si=PqE7J1OKOqtHT9Wz

Читать полностью…

علم و کتاب

کسی عظیم ، مشہورومعروف شخصیت ( شاعر ، ادیب ، مصنف یا عالم وغیرہ ) کا ذکر ہو تو مولانا منیری صاحب یادوں کی تلاش میں گزرے ہوئے زمانے کی سردیوں کی گلابی رات ، گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر ، موسم بہار کی مہکتی ہوئی صبح یا پھر خزاں رسیدہ شام کے مناظر میں کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہیں ، ماضی کے ادھ کھلے دریچوں میں گم نظر آتے ہیں ،

اور پھر تلاش بسیار کے بعد وہ یوں کامیاب و کامران واپس ہوتے ہیں کہ قابل ذکر شخصیت بھی حال کے مزے لوٹنے انہیں کے ساتھ چلی آتی ہے ،

اس بار 1980 میں ہونیوالے مشاعرے سے وہ اعجاز رحمانی کو دعوت سخن دیتے ہوئے اپنے ساتھ لے آئے ،

دوستوں یہاں اس بات کا قوی احساس ہوتا ہے کہ یاد ماضی عذاب نہیں ثواب ہے ، نعمت ہے ، عطائے خداوندی ہے جو کسی کسی کے حصہ میں آتی ہے ،

پورا مضمون پڑھئے ، یہاں سیکھنے اور سمجھنے کے بیشمار مواقع موجود ہیں ، ایک مشاعرہ کی روداد نظر آئیگی ، رپورتاژ نظر آئیگا ، شخصیت سازی کے طریقے نظر آئیں گے ، صاحب مضمون کی تمام ادبی خوبیاں نظر آئینگی ، ان کی تصانیف اور ان پر تبصرے نظر آئینگے ، یادوں کو کس طرح سمیٹا جاتا ہے وہ نظر آئے گا ، خاکہ نگاری کی طریقے نظر آئینگے ،
ڈھونڈنے والوں کو مشاعروں کی بدلتی ہوئی ہیئیت نظر آئیگی ،
اعجاز رحمانی پر دوڑتی ہوئی انگلیوں کا اعجاز نظر آئیگا ،

میں دست بستہ منیری صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ماضی کے صحراوں میں بکھرے ہوئے دوستوں کو یکجا کریں اور باری باری انھیں جادوئی انگلیوں کے توسط سے گروپ پر سجاتے رہیں ،
منیری صاحب کے مضمون سے اعجاز رحمانی کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں :

یہ رنگ و نور کی بارش یہ خوشبوؤں کا سفر
ہمارے خون کی تحریک ہی سے جاری ہے

جگائیں اپنی سوئی ہوئی قوم کو اعجاز
تمام اہل قلم کی یہ ذمہ داری ہے

چپ رہنے میں جاں کا زیاں تھا ، کہنے میں رسوائی تھی
ہم نے جس خوشبو کو چاہا ، وہ خوشبو ہرجائی تھی

امن و اخوت، عدل، محبت وحدت کا پرچار کرو
انسانوں کی اس نگری میں انسانوں سے پیار کرو

آگ کے صحرائوں سے گزروخون کے دریا پار کرو
جو رستہ ہموار نہیں ہے اس کو بھی ہموار کرو

دین بھی سچا ،تم بھی سچےسچ کا ہی اظہار کرو
تاریکی میں روشن اپنی عظمت کے مینار کرو

نفرت کے شعلوں کو بجھادو پیار کی ٹھنڈک سے
ہمدردی کی فصل اگائو صحرا کو گلزار کرو
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*: ایک جواں سالہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے بچے کے حوالے سے سکول میں شکایات کا انبار لے کر تشریف لائیں.

اسکول سٹاف جب خاتون کو مطمئن نہیں کر پایا تو انہیں پرنسپل صاحب کے پاس بھیج دیا جو کہ ایک پروفیسر تھے.

خاتون اندر آئیں اور غصے میں شروع ہو گئیں ‏خوب گرجی ،برسیں اور اپنے بچے کو سکول میں درپیش مسائل کا بے باکانہ اظہار کیا.
پروفیسر صاحب پرسکون بیٹھ کر خاتون کی گفتگو سنتے رہے اور ایک بار بھی قطع کلامی نہیں کی.

جب خاتون اپنی بات مکمل کر چکیں تو پروفیسر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے :

دیکھئے خاتون
مت سمجھئے گا کہ میں آپ کے حسن کے ‏رعب میں آ گیا ہوں، یا یہ کہ آپ کے چاند جیسے چہرے نے مجھ پر جادو کر دیا ہے،
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی جھیل جیسی نشیلی آنکھوں میں کھو گیا ہوں، اور نا ہی آپ کی ناگن جیسی زلفوں نے میرے دل کو ڈسا ہے.

آپ یہ سوچئے گا بھی مت کہ آپ کے گال کے کالے تل نے میری دل کے تار بجا دئیے ‏ہیں، اور آپ کی مترنم آواز نے میری دھڑکنیں تہہ و بالا کر دی ہیں.
میں غالب نہیں ہوں جو آپ کے شیریں لبوں سے گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوں اور نہ ہی میں میر ہوں کہ آپ کی لبوں کی نازکی کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے دوں.

نہ ہی میں نے آپ کی تمام تر گفتگو اس نیت سے سنی کہ آپ کو بولتے ہوئے ‏سنتا رہوں، اور کچھ دیر آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں.

میرا یہ مزاج نہیں ہے کہ میں کسی خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کروں. میں اپنے سٹاف سے پوچھوں گا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کو برہم کیوں کیا گیا ؟.

خاتون جو اتنی دیر سے پروفیسر صاحب کو غور سے سن رہی تھی, خاموشی سے اٹھی اور ‏باہر چلی گئیں.

آج وہ خاتون پروفیسر صاحب کی بیوی ہیں اور اسکول کی وائس پرنسپل ہیں.

بندہ ایویں ہی پروفیسر نہیں بن جاتا.
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*اپنی چال ہی بھول گیا*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

فضیلۃ الشیخ ثناء اللہ عبدالرحیم بلتستانی جب بھی پکارتے ہیں تو’’اے ابونثر! اے ادیبِ لبیب کالزّبیب!‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔ ’ادیب‘ کا لفظ سن کر تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ایک ’شیخ الشرع‘ نے ہمیں ’ادیب‘ قرار دے ڈالا۔ مگر ’لبیب اور زبیب ‘کے القاب سن کر ذرا سہم، بلکہ سکڑ جاتے ہیں کہ ’’یااللہ یہ کون سی دو بلائیں ہیں، جو حضرت ہمارے نام کو لگائے ہیں؟‘‘

لغت سے رجوع لائے تو معلوم ہوا کہ ’لبیب‘ تو عقل مند اور دانا کو کہتے ہیں، لیکن ’زبیب‘کہتے ہیں کشمش کو۔ ’کالزّبیب‘ (تلفظ: ’کَزَّبِیب‘) کے معنی ہوئے ’کشمش جیسا‘۔ نہ جانے شیخ نے یہ لقب ہماری تحریروں کی مٹھاس سے متاثر ہوکر دیا ہے یا ہمارا چُرمُر چہرہ دیکھ کر۔

شیخ کی بات یوں یاد آئی کہ کل ایک اور صاحب ہمیں ادیب کہہ بیٹھے۔ یہ صاحب محقق ہیں اور ایک سرکاری جامعہ سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں دیکھا تو دیکھتے ہی فرمایا:

’’قبلہ! آپ تو ادیب ہیں۔ ذرا یہ بتائیے کہ اُردو میں ‘Deduction’کے لیے بھی کوئی لفظ ہے یا نہیں؟‘‘

’’ہاں ہاں، ہے کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے کمیاب مال بیچنے والے دُکان داروں کی سی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔

پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘

کہا: ’’استخراج!‘‘

بلبلا کر بولے: ’’اس سے تو ‘Deduction’ ہی بہتر ہے‘‘۔

حیرت سے استفسار کیا: ’’وہ کیسے؟‘‘

فرمایا: ’’نامانوس لفظ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بولتے ہی قے ہوجائے گی‘‘۔

عرض کیا: ’’قے کو ’استفراغ‘کہتے ہیں۔ رہا نامانوس ہونے کا معاملہ، تواُردوکے لیے ‘Deduction’ کون سا مانوس لفظ ہے؟‘‘

صاحبو! الفاظ اور اصطلاحات کو بول بول کر مانوس بنایا جاتا ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ’بریکنگ نیوز‘ بول بول کر اسے سامعین و ناظرین کے لیے مانوس بنانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔ جب کہ ’تازہ خبر‘کو باسی جان کر استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، اس وجہ سے یہ عام فہم ترکیب نامانوس ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ابلاغی دانش وروں کے پاس شاید اب ذاتی عقل و دانش نہیں رہی۔ وہ محض نقال بن کر رہ گئے ہیں۔ نقال کتنی ہی اچھی نقل کیوں نہ اُتارنے لگے، رہے گا نقال کا نقال۔ موجد نہیں بن سکتا۔ اِنھیں نقالوں کی وجہ سے وہ زمانہ لد گیا جب کوّے ہنس کی چال چلا کرتے تھے۔ اب تو ہمارے راج ہنس ہی پھدک پھدک کر کوّوں کی چال چل رہے ہیں۔

’استخراج‘ ہمارے محققِ محترم کو کیوں نامانوس لگا؟ فقط یہ بات کہ قومی زبان سے اُنسیت دیدہ و دانستہ ختم کی جارہی ہے۔ ہمارے قومی رہنما، قوم کے معزز منصفین اور قومی قانون ساز ہی نہیں، معلمینِ قوم سمیت سب ہی پاکستان میں، پاکستانیوں سے برطانوی زبان بول بول کر اپنی گردن اکڑاتے ہیں۔ شاید اب یہ قومی زبان بول بھی نہیں سکتے کہ محاورہ کہتا ہے:’’…اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔

’استخراج‘ کا لفظ خارج ہوا ’خَرَجَ‘ سے۔ ’خَرَجَ‘ کے معنی ہیں ’وہ نکلا‘۔ اس ایک لفظ سے بہت سے ایسے الفاظ نکل آئے جو اُردو میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اِخراج یعنی نکال دینا۔ خراج یعنی محصول یا لگان، جو یوں تو بالجبر وصول کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہمیں کسی کی کوئی بات اچھی یا حسین لگے تو اُسے راضی خوشی’خراجِ تحسین‘ پیش کرتے ہیں۔ کسی سے عقیدت ہوجائے تو اُسے ’خراج عقیدت‘ پیش کیا جاتا ہے۔ خارج کا لفظ بھی بہت سے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی دائرے، حلقے یا حدود سے باہر، الگ، بیرونی، داخل کی ضد یا وہ جو شامل نہ ہو۔ اسی برصغیر میں جب کسی کو شہر بدر کیا جاتا تھا تو اُسے ’خارج البلد‘ قرار دیا جاتا تھا۔ عربوں کے ہاں غیر ملکی کو بھی خارجی کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحاً وہ لوگ ’خارجی‘ ہیں جو سیدنا علیؓ کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔ ان کی جمع خوارج ہے۔ خارجہ کا لفظ بھی بہت بولا جاتا ہے۔ اُمورِ خارجہ، وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ۔ ان سب کا تعلق خارجی یعنی غیرملکی معاملات سے ہے۔ مخرج کا لفظ بھی خوب استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں نکلنے کی جگہ۔ جمع اس کی مخارج ہے۔ خروج باہر نکلنا یا ظاہر ہونا۔ ’تحقیق‘ سے ہم مانوس ہیں، لیکن ’تخریج‘ سے نہیں، جس کا مطلب ہے نصوص سے احکام اخذ کرنا یا حوالہ نکالنا۔ ہر وقت استعمال کرنے کی وجہ سے لفظ ’استعمال‘ نامانوس نہیں رہا کہ استعمال کا مخرج ’عمل‘ ہے، یعنی کسی چیز کو عمل یا مصرف میں لانا اور برتنا۔ لیکن ’استخراج‘ کو نہ جانے کیوں نامانوس کہا گیا جس کے معنی ہیں اخذ کرنے کا عمل، نتیجہ نکالنے کا عمل یا استنباط کرنے کا عمل۔ ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتاتے چلیں کہ عربی میں ’ر‘ ساکن کے ساتھ ’خرج‘ بولا جاتا ہے جو اُردو میں آکر ’خرچ‘ بن گیا ہے اور خرّاج [بہت زیادہ خرچ کرنے والے] شخص کو ہم بھی ’خرّاچ‘ کہنے لگے ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سنوسنو!!

مدینہ منورہ: پہلی بارکی حاضری

(ناصر الدین مظاہری)
/channel/ilmokitab

۲۰۱۸ میں زندگی میں پہلی بار حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوا،یہ میرا پہلا سفر عمرہ تھا ،مکہ مکرمہ میں کچھ دن قیام کے بعد مدینہ منورہ حاضری ہوئی تھی، مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے زیادہ دن قیام کی سعادت ملی، خوب یاد ہے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے روانگی ہوئی تھی تو دل مکہ مکرمہ کی جدائی پر رونے کے بجائے مدینہ منورہ کی زیارت اورباشتیاق میں بے قرار ہو رہا تھا، میں الحمدللہ دوران سفر کسی سے بھی چند منٹ میں بے تکلفی پیدا کرلیتا ہوں، میں نے بس میں سب سے آگے ڈرائیور کے بغل والی سیٹ پر اسی لئے قبضہ کیا تھا کہ سب سے پہلے مسجد نبوی کے گنبد و مینار پر میری نظر پڑے اور اس منظر کو اپنی آنکھوں کے ذریعہ دل میں بسا سکوں۔

چار پانچ گھنٹے کے بعد ہمارے یمنی ڈرائیور نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دیکھو مسجد نبوی شریف کے مینار نظر آ رہے ہیں آہ!کیابتاؤں، کیا کشش تھی ان میناروں میں، کس دلکشی اور رعنائی تھی مسجد نبوی کے گنبدوں میں، ابھی روضۂ نبوی کا دیدار نہیں ہوا تھا کیونکہ مسجد نبوی کے مینار کی اونچائی بہت زیادہ ہے جب کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گنبد کافی نیچے ہے، تھوڑی ہی دیر میں مسجد نبوی اور ہمارے درمیان بلند و بالا عمارتیں حائل ہوگئیں ،رات کا وقت تھا، یہی کوئی تہجد کے بعد کا وقت رہا ہوگا، ہماری بس الکرم ہوٹل کے سامنے رکی، سامان وغیرہ اتارا گیا، کمرے وغیرہ پہلے سے طے تھے اپنے کمرے پہنچ کر سامان رکھا اور بیتابانہ و مشتاقانہ وضو کے لئے تیاری کرنے لگا، مجھ سے میرے ایک بنگلوری دوست نے کہا کہ کیا ابھی مسجد نبوی چلو گے؟ میں نے کہاکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ارادہ ہی نہیں ہے، نہ کھانے کا فکر نہ چائے پانی کا احساس،چنانچہ وضو کرکے ہم ہوٹل سے نکل پڑے، بنگلوری دوست ہمارے ساتھ تھا وہ پہلے بھی حاضر ہو چکا تھا اس لیے رہنمائی ملتی رہی ،ہماری رہائش باب السلام گیٹ نمبر سات کے بالکل سامنے پل کے نیچے الکرم ہوٹل میں تھی ،خوشی کی بات یہ تھی کہ بمشکل دس منٹ کا پیدل راستہ رہا ہوگا۔
ہم دونوں تیر کے مانند ناک کی سیدھ چلتے رہے یہاں تک کہ اس لائن میں شامل ہوگئے جو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں صلوۃ وسلام کے لئے بنی ہوئی تھی، دھیرے دھیرے ہم روضۂ رسول سے قریب ہوتے گئے یہاں تک کہ بالکل مواجہ شریف پر پہنچ کر غایت ادب اور رقت کے ساتھ سلام پیش کیا، اس وقت ہٹو بچو کا سلسلہ نہیں تھا، لوگ بڑے سکون سے صلوۃ وسلام پیش کرکے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہاں سے فارغ ہوکر مسجد نبوی میں داخل ہوا، تہجد کی اذان ہونے پر نماز تہجد پڑھ کر کافی دیر اذانِ فجر کا انتظار کیا، بھوک کی بیتابی آتشِ شوق میں شکست تسلیم کر چکی تھی، نماز پڑھ کر واپس ہوٹل پہنچا اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر آرام کیا۔

مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لیے وہ وہ دعائیں اللہ تعالیٰ سے مانگی ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے مانگی تھیں، بلکہ مدینہ منورہ کے لیے مکہ مکرمہ سے بھی زیادہ فضل مانگا، تسلیم و رضا مانگی، بخار سے پناہ مانگی، برکات مانگیں، انوارات مانگے، اللہ تعالیٰ سے اس کے رزق کے خزانے مانگے، یہ فرمایاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کوحرم قرار دیا تھا میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔

مدینہ منورہ اسلام کا قبلہ، ایمان کا گھر، ہجر کی زمین،حلال و حرام کے علم حاصل کرنے کا ٹھکانہ ہے ،یہ وہ شہر بابرکت ہے جوسب شہروں کو کھا جائے گا،یہاں منافق نہیں ٹھہر سکے گا، کفر نہیں رک سکے گا،قرب قیامت ایمان سمٹ کرمدینہ منورہ میں جمع ہو جائے گا، یہ شہر کفار کو اس طرح اپنے سے دور کردے گاجس طرح آگ لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے، ایک بڑا طبقہ ان بدنصیبوں کا بھی ہوگا جو فقر و فاقہ اور شدائد سے تنگ آکر مدینہ منورہ سے کوچ اختیار کرلیں گے حالانکہ انھیں معلوم نہیں کہ مدینہ منورہ دوسروں شہروں کی بہ نسبت ان کے لئے زیادہ بہترتھا۔

یہ شہر وہ چھلنی ہے جس سے منافق اس طرح چَھن جائیں گے جیسے آٹا چَھن جاتاہے، چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ قیامت سے پہلے زلزلے کے تین جھٹکے محسوس ہوں گے، دجال مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا لیکن دجال کے ماننے والے خود ہی مدینہ منورہ سے نکل کر دجال کے پاس چلے جائیں گے۔

ہمیں اس شہرکی عزت اورعظمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، یہ وہ شہر ہے جوجناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جسم کی خوشبو اور قدم مبارک کی عظمت ودولت سے مالامال ہے، یہاں بڑے بڑے اولیائے کرم نے تاعمر ریاضتیں کی ہیں، محدثین نے درس حدیث دیاہے، اسلاف نے عبادات کی ہیں، اسلام کاپایۂ تخت رہا ہے، میں تو یہی کہتاہوں کہ مدینہ منورہ سراپا نور ہے، یہاں کے مکین صحابۂ کرام کی اولاد ہیں، ان کی اولاد کو

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 226
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عبد الباری نؔدویؒ*

*محکوم مسلمان اپنی ایمانی سیرت سے حاکم قوم پر اثر انداز ہوسکتے ہیں*

اسی طرح کم و بیش تمام چھوٹے بڑے غیر مسلم ملکوں اور حکومتوں میں مسلمان ایک بین الاقوامی قوم کی حیثیت میں اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ محکومی کی معذوریوں کے ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ اسلام کے خدا پرستانہ انفرادی و معاشرتی معاملات و اخلاق کا حق ادا کرکے نہ صرف خود حاکموں کے لیے اسلامی تفوق و برتری کے عملی گواہ بن سکتے تھے ؛ بل کہ دنیوی زندگی کے اعتبار سے بھی ہرجگہ ذلت و کمتری کے بجائے خود حکومت و حاکم قوم کے دلوں میں عزت و وقعت کی جگہ حاصل کرسکتے ہیں ؛ ہو نہیں سکتا کہ بڑی سے بڑی و حکومت میں پھنس کر بھی مسلمان اگر مقدور بھر اپنی انفرادی و اجتماعی یا سماجی زندگی میں خدا و آخرت کے ایمان پر مبنی صالح زندگی کے معاملات و اخلاق اور معاشرت میں عملاً اسی طرح گواہی دیتے رہیں کہ گھر میں بھی مومن صالح ہوں اور باہر بھی، اپنوں میں بھی اور پرایوں میں بھی، دوستوں میں بھی دشمنوں میں بھی، کچہری میں بھی دفتر میں بھی،اسکول و کالج میں بھی دکان و بازار میں بھی، تو کیا متعصب سے بھی متعصب اکثریت و حکومت بھی ان سے مسلسل غیر متاثر رہ سکتی یا ان کو مستقلا نظر انداز کرسکتی ہے؟
جس قوم و ملک کے لوگوں کو بھی دن رات یہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ مسلمان نام ہی اس کا ہےجو دنیا کے نفع و ضرر سود و زیاں سے کہیں زیادہ اپنی زندگی خدا کی رضا و ناراضی یا آخرت کی فلاح و خسران کے ماتحت بسر کرتا ہے اور اس لیے اس کو دنیا کی حکومت اس کے قانون و عدالت فوج و پولیس قید و بند کا خوف ہو نہ ہو وہ کُھلے چھپے،اندھیرے اجالے، شہر ویرانے،کہیں کسی حال میں بھی راستی و راست بازی،حق پسندی و فرض شناسی کی راہ سے منحرف ہونا گوارا نہ کرے گا،اس کو چار و ناچار مسلمانوں پر اعتماد و اعتبار اور لازماً خود ان کی اور ان کے دین دونوں کی عزت و رعایت کرنے پر دیر سویر مجبور ہونا پڑے گا۔

( *نظام صلاح و اصلاح، صفحہ: 49، طبع:ادارہ مجلس علمی، کراچی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B


/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

خواجہ غلام السیدین اور جامعہ کے دیگر اکابرین کی قیام گاہیں تھیں۔مکتبہ جامعہ کی عمارت کی تعمیر کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جس زمانے میں ٹیچرزٹریننگ کالج کی عمارت بن رہی تھی تو مکتبہ جامعہ کے لئے بھی ایک مستقل عمارت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن اس وقت جامعہ کے پاس فنڈ کی قلت تھی۔ ٹیچرز ٹریننگ کالج کے بلڈر رائے پرتھوی راج نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر جامعہ تیار ہوتو وہ ٹیچرز ٹریننگ کالج کی عمارت کی تعمیر سے بچے ہوئے سامان سے مکتبہ جامعہ کی عمارت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف جامعہ کو مزدوری کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور اس طرح مکتبہ جامعہ کو ایک مستقل عمارت مل گئی۔
مکتبہ جامعہ پر پہلا ستم یہ ہوا کہ پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں مکتبہ کی اس عمارت پر بلڈوزر چلاکر یہاں ارجن سنگھ کے نام پر فاصلاتی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کردیا گیااور مکتبہ کی کتابیں جامعہ کالج کے پیچھے جھونپڑوں میں منتقل کردی گئیں۔ مکتبہ جامعہ پر دوسرا ستم یہ ہوا کہ اس کے انتہائی مخلص سربراہ شاہدعلی خاں کے لئے ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ انھیں مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ وہ شاہدعلی خاں جنھوں نے مکتبہ جامعہ کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کی تھیں ، وہ اچانک اس سے جدا ہو گئے۔حقیقت یہ ہے مکتبہ جامعہ کا زوال اسی روز شروع ہوگیا تھاجس روز مکتبہ سے شاہد علی خاں کی علیحدگی ہوئی تھی ۔ان کے چلے جانے کے بعدمکتبہ جامعہ کے دونوں جریدوں’کتاب نما‘اور ’پیام تعلیم‘کی بھی حالت دگر گوں ہوگئی۔ شاہد علی خاں کے بعد اس تاریخ ساز اشاعتی ادارے کی باگ ڈور جن لوگو ں کو سونپی گئی ،وہ اس کے اعزازی ذمہ دار تھے اور اشاعتی صنعت سے ان کا دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی کے لفظوں میں:
’’شاہد علی خاں کے الگ ہونے کے بعد مکتبہ جامعہ کے گویا برے دن آگئے۔یکے بعد دیگرے جن لوگوں کو زمام کا رسونپی گئی وہ رسالہ نکالنے کا بھی تجربہ نہ رکھتے تھے ‘چہ جائے کہ پریس ‘طباعت اور کاغذاور مطبوعات کی خرید فروخت کے معاملات اور کسی اشاعتی ادارے کی سربراہی کاا نہیں کچھ موہوم ساعلم بھی ہو۔بہر حال اردو کے اشاعتی اداروں میں مکتبہ جامعہ کی مرکزی حیثیت اسی دن ختم ہوگئی جب شاہد علی خاں وہاں سے الگ ہوئے۔‘ ‘(’’شاہد علی خاں :ایک فرد‘ایک ادارہ ‘‘مرتب نصیر الدین ازہر‘صفحہ 17)
مکتبہ جامعہ کی عمارت جن جھونپڑوں میں منتقل ہوئی تھی وہاں ان قیمتی کتابوں کو بری حالت میں دیکھاگیا۔ اس کے بعد مکتبہ انصاری ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں منتقل ہوا اور اس طرح وہ ایک یتیم بچے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آج ہزاروں قیمتی کتابیں شائع کرنے والا یہ تاریخ ساز ادارہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔ شاہدعلی خاں کی مکتبہ سے رخصتی کے بعد اس ادارے نے کوئی ترقی نہیں کی اور اس کی حالت یہ ہوئی کہ چند سال قبل قومی اردوکونسل (این سی پی یو ایل)نے اس تاریخ ساز ادارے کی دوسونایاب کتابیں اپنے صرفہ پر شائع کیں۔ یہ کسی اشاعتی ادارے کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عروج وزوال دنیا کا دستور ہے اور آج اردو اشاعتی صنعت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے اور انھیں اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا رواج دم توڑرہا ہے۔ لیکن بہرحال وہ ادارے ترقی ضرور کررہے ہیں جن کی وابستگی مستحکم اور مضبوط اداروں کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی وابستگی جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی مرکزی دانش گاہ کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ جامعہ کو نئی زندگی دینے کے لئے جامعہ کو ایک ٹھوس منصوبہ بنانا چاہئے۔ فوری طور پر جامعہ کے تمام اشاعتی کام ، اسٹیشنری کی فراہمی اور دیگر چیزیں مکتبہ جامعہ کے ذمہ کردی جانی چاہئے تاکہ جامعہ کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی پھل پھول سکے اور جامعہ پر یہ الزام نہ آئے کہ وہ اپنے ایک تاریخ ساز ادارے کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اگر فوری طور پر مکتبہ جامعہ کی صحت وتندرستی پر توجہ نہیں دی گئی توایک صدی تک لوگوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا یہ تاریخی ادارہ دم توڑدے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان علم ودانش کو پہنچے گا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

دینی مدارس کے نظام و نصاب کا تجزیاتی مطالعہ

محمد رضی الاسلام ندوی
/channel/ilmokitab

آج کل مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے مختلف مظاہر پر حملے ہو رہے ہیں تو دینی مدارس بھی ان کی زد میں ہیں - ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہی جارہی ہیں - ان میں سے ایک یہ کہ ان کا نصاب فرسودہ ہے ، وہ زمانے کا ساتھ دینے کے قابل نہیں ہے - عرصہ پہلے جب اس کا نصاب تیار کیا گیا تھا اس وقت اس کی افادیت رہی ہو ، لیکن اب وہ موجودہ زمانے کی ضروریات کی تکمیل نہیں کرتا -

مدراس کے نصاب کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت بہت پہلے محسوس کی تھی - بعض دانش وروں اور ماہرینِ تعلیم نے اس کے لیے تحریک چلائی - گزشتہ نصف صدی سے اس پر کانفرنسیں ، سمینار ، مجالسِ مذاکرہ اور ورک شاپس منعقد ہورہے ہیں - نصاب کے ماڈلس بنائے گئے ہیں - بعض تعلیمی ادارے بھی نئے جامع نصاب کے دعوے کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میدان میں اب تک مطلوبہ کام یابی نہیں مل سکی ہیں - قدیم اور تاریخی مدارس طرزِ کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور وہ قدیم نصاب میں خاطر خواہ تبدیلی لانے پر تیار نہیں ہیں -

مولانا اشہد رفیق ندوی سکریٹری ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کو دینی مدراس کے نظام و نصاب سے دل چسپی رہی ہے - انھوں نے اس کے مطالعہ و جائزہ کو ایک مشن کی طرح لیا اور اس کے لیے اپنی تحریری صلاحیتیں وقف کیں - اس موضوع پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں شرکت کی اور اپنا حاصلِ مطالعہ و جائزہ پیش کیا - زیرِ نظر کتاب انہی سیمیناروں میں پیش کیے گئے مقالات پر مشتمل ہے -

یہ کتاب تیرہ (13) مقالات پر مشتمل ہے - قدیم ترین مقالہ 2002 کا تحریر کردہ ہے ، جب کہ زمانی اعتبار سے آخری مقالہ 2012 میں لکھا گیا تھا - اس میں مدراس کے نصاب میں قرآن ، اصولِ تفسیر و علوم قرآن ، حدیث ، فقہ اور دعوتِ دین کی تدریس کا جائزہ لیا گیا ہے - موجودہ دور میں مدارس کی اہمیت ، اس کے نصاب میں عصری تقاضوں سے تبدیلی کی ضرورت ، تکثیری معاشرہ کے تقاضے کی تکمیل ، مدارس کا نظام تربیت اور موجودہ حالات میں مدارس کے تحفظّ اور ارتقا کی تدابیر جیسے موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں - جائزہ میں عموماً ملک کے بڑے مدارس مثلاً دار العلوم دیوبند ، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ ، جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کو شامل کیا گیا ہے - نصاب کے تجزیہ کے ساتھ اس کی بہتری کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں -

دینی مدراس پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ، لیکن ان میں ان کے نصاب کا عموماً تقابلی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے - اس اعتبار سے یہ کتاب انفرادیت رکھتی ہے - امید ہے ، دینی مدارس کے نظام و نصاب سے دل چسپی رکھنے والوں کے درمیان اسے بھرپور مقبولیت حاصل ہوگی -
_________
نام کتاب : دینی مدارس کا نظام و نصاب : ایک تجزیاتی مطالعہ
مصنف : اشہد رفیق ندوی
صفحات : 182 ، قیمت : 150 روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی
رابطہ نمبر (واٹس ایپ)
+91-7290092403

یہ کتاب ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے مکتبے سے بھی منگوائی جاسکتی ہے -
رابطہ نمبر (واٹس ایپ)
+91- 9027445919

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سنوسنو!!

حرمین شریفین کی لفٹوں کے بارے میں

(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
ہم انڈیا والے اکثر وبیشتر تو جانتے ہی نہیں کہ لفٹ کیسے چلتی ہے اس کا ضابطہ کیا ہے، اس کے قواعد کیا ہیں، اب جب ہمیں حرمین شریفین جانے کی سعادت ملتی ہے تو وہاں کثیر منزلہ عمارتوں اور پلازوں سے سابقہ پڑتا ہے بیس پچیس منزلوں پر مشتمل مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عمارتوں میں رہائش ملتی ہے، کئی کئی لفٹیں ہوتی ہیں، بعض لفٹیں نیچے سے بالکل اوپر تک جاتی ہیں اور بہت سی لفٹیں ایسی ہوتی ہیں جو درمیان میں ہی ختم ہو جاتی ہیں ،معتمرین ،زائرین اور حجاج کرام کو خاص طور پر لفٹوں کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر لینی چاہئیں ورنہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے ہی ہوٹل کی لفٹوں کے جال اور جنجال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ، اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر آتے جاتے رہتے ہیں ، انہیں پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کس منزل پر اترنا ہے ،کدھر کو جانا ہے ،چاروں طرف ایک جیسی لفٹیں ،ایک جیسی عمارتیں، ایک جیسے ڈیزائن ،ایک جیسے لوگ، ایسی صورت میں لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں۔

میں نے ایک دفعہ مکہ مکرمہ میں اپنے ایک ساتھی کو دیکھا جو لنگی اور بنیان میں پریشان پھررہے تھے، میں نے ان سے پوچھا خیریت تو ہے ؟ آپ لنگی اور بنیان میں یہاں پر کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا اجی تین گھنٹے ہو گئے ،مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ میرا کمرہ کون سا ہے ، لفٹ رکی اور میں نکل پڑا نتیجہ یہ ہوا کہ میں بھٹک گیا اب جدھر جاتا ہوں ایک ہی طرح کے کمرے، ایک ہی انداز کی راہداریاں ،کیا کروں کیا نہ کروں؟ کس سے پوچھوں ؟ میں نے کہاکہ سب سے پہلے تو یہی بتائیے کہ آپ لنگی بنیان میں کیوں گھوم رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اصل میں میں نے احرام دھلا تھا ،احرام کو اوپر کی چھت پرخشک کرنے کے لئے گیا، اب جب واپس کمرے آنا چاہا تو مجھے نہ تو کمرہ ملا نہ لفٹ ملی، زینے کے ذریعے کچھ دور نیچے آیا اور پھر لفٹ کا سہارا لیا لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ میں اپنے کمرے تک پہنچ ہی نہیں سکا، کافی دیر سے میں یہاں سے وہاں وہاں سے یہاں پھر رہا ہوں ۔میں نے انھیں بتایا کہ آپ اپنے ہوٹل کے دوسرے حصے میں آگئے ہیں اِدھر ہم لوگوں کی رہائش ہی نہیں ہے۔ اندازہ یہ ہوا کہ اوپر سے جب نیچے آنے لگے تو لفٹ بدل گئی جس کی وجہ سے لفٹ نے اُن کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھما دیا۔

بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ کثیر منزلہ عمارت ہونے کی وجہ سے اپنے کمرے کا نمبر بھول جاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لیے کاؤنٹر پر باقاعدہ کارڈ موجود رہتے ہیں آپ اپنے ٹور والے کارڈ پر اپنے کمرے اور اپنی منزل کا نمبر ضرور نوٹ کر کے رکھیں کیونکہ حرمین شریفین کے ہوٹل عالمِ اصغر سے کم نہیں ہوتے ،وہ چھوٹی دنیا محسوس ہوتے ہیں ۔

ایک دفعہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اجیاد روڈ کے شرکاء الخیرمیں ٹھہرا ہوا تھا،لفٹوں کے ذریعے سے ہی آمد و رفت ہوتی تھی ،ہم دونوں نیچے جا رہے تھے ایک جگہ لفٹ رکی میرے منہ سے نکلا یہاں والے نکل جائیں لیکن اُن لوگوں کے ساتھ میری اہلیہ جو بالکل آگے کھڑی تھی وہ بھی نکل گئی اور لفٹ چل پڑی، اب میں پریشان ہو گیامیری اہلیہ چودہویں منزل کی لفٹ سے باہر نکلی تھی۔میں واپس جانے کے لیے لفٹ کا سہارا لیتا تو کافی دیر ہو جاتی کیونکہ جمعہ کے دن لفٹوں میں بڑی بھیڑ بہت ہوجاتی ہے، میں زینے کے ذریعہ اوپر پہنچا تو وہاں کا منظر بدلا ہوا تھا پتہ یہ چلا کہ ہوٹل انتظامیہ اپنے کمروں اور اپنی عمارتوں کی ترتیب میں ایک خاص نظام رکھتی ہے بہت سی منزلیں ایسی ہوتی ہیں جو رہائش کے لیے نہیں بلکہ پارکنگ کے لیے، بجلی کے سسٹم کے لیے یا اور دیگر ضروریات کے لیے زیر استعمال آتی ہیں ،میں زینے کے ذریعے 14 منزلیں تو چڑھ گیا لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا نہ لوگ تھے اور نہ ہی وہاں رہائش گاہ تھی مجبورا ایک دوسری لفٹ کے ذریعے میں پھر نیچے آیا اور اپنی لفٹ میں سوار ہو کر چودہویں منزل پہنچا تو وہاں پر ایک صوفے پر محترمہ آرام وسکون کے ساتھ تشریف فرما تھیں، انہیں کون بتائے کہ اُن کی اِس جلد بازی کی وجہ سے مجھے کتنے جوکھم جھیلنے پڑے۔

بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو لفٹ میں پہلے آگے کر دیتے ہیں اور پھر خود سوار ہوتے ہیں اِدھر کسی نے لفٹ کا بٹن دبا دیا بچہ اندر ہے اور اس کے والدین باہر ہیں اور لفٹ چل پڑی یہ بھی نہیں پتہ کہ لفٹ نیچے جا رہی ہے یا اوپر جا رہی ہے ،جانا کہاں ہے ؟ایسی صورت میں والدین تو پریشان ہوتے ہی ہیں معصوم بچہ اور بھی زیادہ پریشان ہوتا ہے کیونکہ اتنی بڑی عمارت میں بچہ کہیں بھی اتر سکتا ہے اور پھر گھنٹوں کے لیے بچہ غائب ہو سکتا ہے ،اگرچہ وہاں پر نظام بڑا چست اور درست ہوتا ہے ہر چیز کیمرے کی نظر میں ہوتی ہے لیکن تاتریاق اذعراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود والا معاملہ ہو جاتا ہے، آپ ہمیشہ لفٹوں میں چڑھتے وقت اپنے بچے کا ہاتھ تھام کر رکھیں، وہاں کی لفٹوں میں ایک خاص

Читать полностью…

علم و کتاب

آپ تو ہمارے لیے بھگوان بن کر آئے ہو

طہ جون پوری
28-10- 2024
____
https://telegram.me/ilmokitab

*ممبئی* میں اس وقت درجہ حرارت 31 ہے اور یہاں اتنا مشکل معلوم ہونے لگتا ہے اور پھر جب ڈائریکٹ سورج کی تپش میں ہوں، تو جہاں شدت پیاس بڑھتی ہے، وہیں جسم کا عرق گلاب بھی اپنا رنگ دکھانے لگاتے ہے، ایسے میں جو احساس ہوتا ہے، وہ ایک پیاسا محسوس کرسکتا ہے.

میں بھی فون پر ایک دوست سے بات کرتے ہوئے جا رہا تھا اور دوست بھی ایسا کہ اس کی باتیں شراب کہن تھیں جو سماعتوں میں رس گھول رہی تھیں، ان سب کے بیچ *سائن سرکل* سے جیسے ہی برج / پل پر آیا، تو دیکھا کہ ایک ایکٹیوا، کھڑی ہے اور ڈرائیور اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دیوار سے کنارے اس کی عورت بھی تھی. میں اس کے پاس گیا، اور *تکلف برطرف* پر عمل کرتے ہوئے اس سے کہا: میں آپ کی مدد کروں. وہ پریشان حال شخص کچھ ہچکچایا، کیوں کہ ویسے بھی آج کل گودی میڈیا نے اور راجا نے اپنی مخصوص پرجا کے بارے میں کہ رکھا ہے، کہ *ان کو کپڑوں سے پہچا نو* اس لیے وہ تھوڑا پس و پیش میں تھا، کہ: *یہ سفید پوش کہاں ٹپک پڑا* دوبارہ پھر میں نے کہا: آپ کو پش کرکے لے چلوں؟ اس نے کہا: ٹھیک ہے. پھر کیا تھا، لوگ ڈرائیور بن کر چلاتے ہیں، میں اپنی گاڑی چلاتے ہوئے اس کو تین کیلو میٹر سے زائد پش کرتے ہوئے لایا. برج سے اترا تو سوچا کہیں، مستری مل جائے، تو کچھ کام ہو، لیکن کہتے ہیں کہ *مرحلہ کھنچتا رہا، جوں جوں پش کرتا رہا* اس لیے یہ سلسلہ جاری رہا، . پھر کچھ یوں ہوا کہ اس نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی اور ہو بھی گئی. میں نے سوچا پچاس سو میٹر ساتھ چلوں، تاکہ اطمینان ہوجائے. اور پھر آگے بڑھنے لگا، اب کیا تھا، میاں بیوی دونوں کہنے لگے: آپ کو جانا نہیں ہے. میں گاڑی بڑھا رہا ہوں، تو وہ آگے آجا رہے ہیں اور کہنے لگے: آپ پانی پی کر، جاؤ، میں نے کہا: نہیں ہوسکتا. پھر بضد ہوگئے کہ: ٹھنڈا پی لیں. میں نے انکار کا ہی سہارا لیا. اور کہا: ایسا نہیں ہوسکتا. مجھے جانے دیں. میاں بیوی بیک زبان کہنے لگے: *آپ تو ہمارے لیے بھگوان بن کر آئے ہو* میں اس جملے کو سن کر سر جھکا لیا. ان کا شکریہ انگریزوں کی تہذیب میں ادا کیا. ان کو بڑا سا تھمب دکھایا. ویسے یہ عیب نہیں. اب اس کی الگ پہچان ہے. اور آگے بڑھ گیا.

سچ ہے. کسی نے کہا ہے:

*یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی* اس دور میں بھی اس ملک کے اندر، دشمن عناصر کو چھوڑ کر ایسے افراد ضرور ہیں، جو اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں. ہر شخص کو اپنے حصے کے بقدر اسلامی روشنی کو روشن کرنے کی ضرورت ہے. اور ہم سب کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے. ان شاء اللہ وہ وقت ضرور آئے گا، جب چیزیں تبدیل ہوں گی. جو لوگ یا تنظیمیں اس طرح کے کاموں میں مصروف عمل ہیں، رب کریم ان کی خدمات کو قبول فرمائے. اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اسلام کی تئیں نرم فرمائے. خدا پر ایمان اس کا مقدر ہو، خدا کرے وہ بجائے مجھ حقیر کے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں لفظاً ہی سہی اتنی بڑی بات کہنے کے بجائے حقیقی معنوں رب کو پہچان لے، اس کے دل میں ہم تمام انسانوں کے پیدا کرنے والوں کی عظمت پیدا ہوجائے اور وہ بھی ایمان کی عظیم نعمت سے بہرہ ور ہوجائے.


آمین ثم آمین یا رب العالمین.
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

علماء کی قدر کریں

از: طارق علی عباسی

علماء کی قدر کرنا سیکھیں، یہ الفاظ کہنے کو تو عام اور سادہ سے ہیں، مگر شاید غور نہ کرنے کی وجہ سے بے معنیٰ سے معلوم ہوتے ہیں۔ علماء، جنہوں نے خود کو خدمتِ اسلام کے لیے سپرد کردیا ہے، اپنی خواہشوں کو قربان کرکے سب کے لیے خیر خواہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، بے لوث ہوکر دینی تعلیم و اقدار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں اور اسی عظیم القدر فریضہ کو نبھانے کے لیے وہ اپنا لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا تک نشاور کردیتے ہیں، شریعت کے احیاء اور اس کی حفاظت و ترقی اور قومی فلاح و بہبود کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، ہر وقت اسلامی تعلیمات کی ترویج اور مسلمانوں کی درستی و اصلاح کے کاموں میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ علماء ہوتے ہیں۔ کوئی عالم ایسے ہی عالم نہیں بن جاتا ہے، بلکہ وہ کانٹوں سے سجی ہوئی قربانیوں کی سیج پر سے گزر کر ہی عالم بنتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس راہِ علم و حکمت میں اپنی جان کی قربانی دے دیتا ہے، مگر علم و حکمت کے جھنڈے کو باطل کے پاؤں میں روندنے نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے سماج میں آج کی نئی نسل کو غور کرنا چاہیے کہ ان کی دینی اقدار سے اس قدر جو دوری پیدا ہوگئی ہے تو اس کے پیچھے معاشرہ میں موجود علماء کی بے قدری، ان کی خدمات سے اغماز برتنا، ان کی اہمیت کو گھٹانا، انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دشمن خیال کرنا وغیرہ جیسے کئی ایسے نارَوا افعال کار فرما ہیں کہ جن کے جھانسے میں آکر، نوجوان نسل، اپنے ہی مخلصین علماء سے بدظن ہورہی ہے۔ علماء سے بدظنی انہی نوجوانوں کو ایسے ایسے شنیع کاموں میں دھکیل کر مبتلا کر رہی ہے کہ انسانیت شرما جائے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ نوجوانوں کے لیے علم و تحقیق کا منبع و ماخذ جب فیسبوک، یوٹیوب اور محض گوگل وغیرہ ہی بن جائے تو انہیں کون یقین دلائے کہ دُم کٹی ہوئی باتوں کا صحیح و مستند سراغ، آپ کو کتابوں میں ملے گا، جہاں سے آپ، گمراہ کرنے والے عناصر کی چالاکیوں کو بھانپ کر اور ان کی مکاریوں کے بھیانک نتائج کو معلوم کرکے اپنے سمیت دیگر نوجوانوں کو بھی مکر و فریب کی ان پیوندکاریوں سے بچاسکتے ہیں۔ مگر جب نئی نسل، کتابوں کے شائق محققین علماء ہی سے بغض و عناد رکھتی ہو تو ایسے افراد میں کتاب دوستی کیوں پروان چڑھے گی؟

ہمارے نوجوانوں کا ماجرا بھی کچھ عجیب سا ہے، وہ دینی تعلیمات کو اسکول و کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے الحاد میں مبتلا استادوں، بے دین پروفیسروں اور یوٹیوبروں وغیرہ سے سیکھ کر یا ان کی طرف سے بتائی ہوئی متعصب انگریز مفکروں کی کتابوں کا مطالعہ کرکے دین کو ویسا سمجھنے لگتے ہیں، جس کی جانب بہت عرصہ پہلے توجہ دلاتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ معارف جولائی 1931 کے شذرات میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں: اصلی مرض کیا ہے؟ یہ ہے کہ ہمارے دلوں سے خود ہمارے علماء، مصنفین اور مؤرخین کی قدر و منزلت گر گئی ہے۔ آج ہم کو قرآن کی کسی آیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کی صحت کا یقین اس وقت تک نہیں آتا، جب تک اس کی تائید میں کسی گولڈ زیہر، کسی انگریزی (پی ایچ ڈی، پروفیسر) ڈاکٹر، کسی ڈاکٹر ٹائلر کا قول نظر سے نہ گزرے، یہی حال آج اسلام کی تاریخ و تمدن کا بھی ہے کہ وہ جب تک نولدیک، زاخاؤ، ڈوزی، نکلسن اور مارگولیوتھ کے قلم سے نہ نکلے، مسلّم نہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ دشمنوں کے گھر سے زہر کے بجائے نوشدارو (یعنی فرحت بخش معجون) ملنے کی توقع کرنا کس قدر بے سود ہے۔

یہ ہمارے نوجوانوں کا اصل مسئلہ ہے، پڑھنے والوں کو اس اقتباس میں موجود نام اجنبی سے معلوم ہوتے ہوں گے، مگر آج کل گمراہی میں جن اشخاص کی پیروی کی جاتی ہے، وہ دراصل ان ہی جیسوں کی باتوں کو لیکر نئی نسل کو ورغلاتے ہیں۔

معاشرہ میں سے جب نیکی و بدی کا احساس ہی مٹ جائے اور گناہ سے عار ہی محسوس نہ تو حقائق و واقعات کو ہلکے میں لیا جاتا ہے، پھر ہوتا یوں ہے کہ طرزِ معاشرت میں نیکی و بدی آپس میں خلط ملط ہوکر اپنا تشخص کھو دیتی ہے۔ یہی حال آج کل ہمارے نوجوانوں کا بھی ہے کہ بڑی ہوشیاری سے انہیں علماء سے اتنا بدظن کیا گیا ہے کہ اب وہ اسلام ہی پر ٹیڑھے میڑھے سوالات کھڑے کر رہے ہیں، اسلامی شعائر پر اپنے لایعنی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دراصل ایسا کچھ ان کا اپنی عقلوں کو کُند بنانے سے ہوا ہے، اگر وہ اپنی عقلوں سے صحیح سوچ سمجھ کا کام لیں تو انہیں ہر چیز، اپنے اپنے دائرہ کار میں نظر آئے اور انہیں علماء کی محنتوں کا پتہ بھی چلے کہ کہاں کہاں پر اور کیسے کیسے اَنہونے اور انوکھے طریقوں سے ان کی مخلصانہ محنتیں، اپنا کام کر رہی ہیں اور اپنا اثر بھی دکھا رہی ہیں۔ جو لوگ علماء پر اور دین پر طرح طرح کے اشکالات اور بے سروپا اعتراضات کر رہے ہوتے ہیں، انہی پر یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ ان کے یہ اشکالات کن لوگوں کی پیروی ہے؟ جو لوگ علم و سائنس کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے مقابلہ میں علماء کی دینی، قومی و سماجی

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا ندیم الواجدی دادھیالی نانیہالی اور سسرالی تینوں ہی اعتبار سے علم وفضل کے ان گھرانوں سے تعلق رکھتے تھی جو ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است'' کا مصداق تھے ان کے پردادا سخاوت حسین نے بجنور سے ترک وطن کر کے بچوں کی دینی تعلیم دلانے کی خاطر دیوبند کو وطن ثانی بنایا اس کے نتیجہ میں ان کے بیٹے مولانا احمدحسن (مولانا ند یم الواجدی کے دادا) مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث کے عہدہ تک پہنچے۔ مولانا ندیم الواجدی کے والد مولانا واجد حسن ،مفتاح العلوم جلال آباد میں درس حدیث دینے کے علاوہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث بنے. مولانا کے ماموں مولانا شریف حسن دیوبندی دارالعلوم کے شیخ الحدیث کے منصب پرفائز رہتے ہوئے اپنے علمی کمالات کے ہنر ہزاروں شاگردوں میں منتقل کر گئے۔مولانا کے خسر محترم (مولانا قاری عبد اللہ سلیم صاحب مدظلہ العالیٰ) دارالعلوم دیوبند کے فاضل' وہاں کے شعبہ قرأت کے سابق صدر' رہے اب گذشتہ چار دہائیوں سے ''شکاگو'' (امریکہ) میں اپنے علم وفضل کے جلوے بکھیر رہے ہیں جس کی ظاہری شکل ’’دیار غیر‘‘ میں وسیع وعریض احاطہ میں موصوف کا قائم کردہ وہ دارالعلوم ھے' جو ’’مادر علمی‘‘ (دارالعلوم دیوبند) کے مترادف کے طور پر پورے امریکہ میں مشہور ومعروف ھے. قاری صاحب موصوف دیوبند کے ایسے عثمانی گھرانے کے چشم وچراغ ہیں جہاں شریعت اسلامیہ کے امور سے کما حقہ واقفیت رکھنے والے علمائے کرام کے ساتھ ساتھ طریقت کے ''سربستہ رازوں'' پر عبور رکھنے والی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے ’’روحانی مریضوں‘‘کی ’’تطہیر‘‘ کا فریضہ بھی انجام دیا اور جسمانی امراض میں مبتلا انسانوں کے امراض کو دور کرنے کی مقدور بھر کوششیں کر کے ’’شافی مطلق‘‘ کے حوالے کر نے کا کام بھی انجام دیا۔ قاری عبد اللہ سلیم صاحب کے والد مولانا محمد نعیم(متوفی جنوری ۲۰۰۸)(شکاگو'امریکہ)دارالعلوم دیوبند کے معروف استاذ حدیث تھے ، دادا حکیم محمد منعم دیوبند کے معروف معالج تھے تو ان(حکیم محمد منعم)کے والد حکیم محمد بشیر صاحب اپنے وقت کے صاحب نسبت بزرگ۔ گویاکہ ندیم بھائی تینوں ہی حیثیتوں سے من جانب اللہ ایسے ''سلسلۃ الذہب'' کی کڑی تھے جسے ''وہبی'' کہا جا سکتا ھے' مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ اس ’’وہبی سلسلہ‘‘ پر ’’پدرم سلطان بود‘‘کہتے ہوئے اکتفا کر کے نہیں بیٹھے بلکہ کسبی طور پر اپنی محنت وریاضت ولیاقت سے اس سلسلہ کو مضبوط ترین کیا اور آگے کے لئے بھی ’’آہ سحر گاہی ‘‘و’’دعائے نیم شبی‘‘ کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والے اپنے لائق و فائق فرزند (مولانا یاسر ندیم الواجدی) کی تعلیم وتربیت اس انداز سے کر گئے کہ اللہ نے انہیں بھی ’’قیمتی گوہر‘‘ بنا دیا،الحمدللّٰہ موصوف کم عمری میں ہی عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے نہ صرف واقف ہیں 'بلکہ ان کو پیش نظر رکھ کر اسلام کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں میں پیدا شدہ اور اسلام مخالف طاغوتی سازشوں سے پیدا کردہ شکوک وشبہات کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہیں، پائیدار تصنیفی مطبوعہ علمی سرمایہ کے علاوہ، ذرائع ابلاغ کی ترقی یافتہ شکلوں بالخصوص’’ سوشل میڈیا‘‘ پر جدید تعلیم یافتہ طبقے کے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دے کر یاسر ندیم اپنی علمی صلاحیتوں سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کر نے میں لگے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس سلسلہ کو حق و ثابت قدمی کے ساتھ تا قیامت باقی رکھے' آمین، المختصر یہ کہ ہمارے دوست مولانا ندیم الواجدی صاحب اللہ رب العزت کے بلانے پر ان کے حضور حاضر ہوگئے اور اپنے پیچھے وہ تینوں چیزیں(علم نافع ،صدقۂ جاریہ اور اولاد صالح ، جن کو احادیث میں ذخیرۂ آخرت بتایا گیا ہے )چھوڑ گئے ہیں۔’’علمی سرمایہ‘‘ کی شکل میں اپنی تصنیفات کا ایک ذخیرہ،’’ صدقہ ٔ جاریہ‘‘ کی شکل میں طالبات کا دینی ادارہ( معہد عائشہ) اور’’ اولاد صالح‘‘ کی صورت میں مولانا یاسر ندیم الواجدی ایساسرمایہ چھوڑ گئے ہیں جو ان شاء اللہ ان کے نام کو طویل مدت تک زندہ رکھنے والا اور قیامت میں ذخیرۂ آخرت کی شکل میں کام آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جملہ
پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے آمین۔کسی شاعر نے مولانا جیسے لوگوں کے لئے کہا تھا کہ ؎
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں جن کے زمانے سے نقش کبھی
۲۳/ جولائی۱۹۵۴ کو عالم آب و گل میں کھلنے والا یہ پھول بحالت ہوش وحواس زندگی کی ستر بہاریں دیکھنے کے بعد امریکہ کے دور دراز علاقہ ایلجین (نزد شکاگو) کے قبرستان میں پیوند خاک ہو گیا اور ہم جیسے لوگوں کو تعزیتی اجلاس منعقد کرنے اور یادداشتوں کو قلمبند کرنے کے لئے چھوڑ گیا، مجھے یہ افسوس تو ضرور ہوا کہ ہم جیسے مولانا کے لاتعداد چاہنے والوں کو نہ تو مرحوم کا آخری دیدار نصیب ہوا اور نہ ہی شانوں کو ان کی میت رکھی ’’چارپائی کا لمس‘‘ نصیب ہوا ،اور نہ ہی’’ منھا خلقنکم‘‘ و’’فیھا نعیدکم ‘‘و’’منھا نخرجکم تارۃ اخری‘‘ کہتے ہوئے تین مشت خاک

Читать полностью…

علم و کتاب

اجلاس صد سالہ سے قبل ہی مولانا نے دارالعلوم کی اس ذمیداری سے سبک دوشی اختیار کر کے (بذریعہ خط وکتابت) ''عربی سیکھیئے'' کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جو ان کی ذاتی محنت' فطری صلاحیت' دھن اور لگن کی وجہ سے بہت کم وقت میں مقبولیت حاصل کرگیا یہ دار الکتاب کی ''پہلی سیڑھی'' تھی اسی کے ساتھ ساتھ مرحوم نے علامہ غزالی علیہ الرحمہ کی معروف زمانہ کتاب ''احیاء العلوم'' کا اردو زبان میں سلیس ترجمہ ''احیاء علوم الدین'' کے نام سے قسط وار شروع کیا جسے اللہ نے قبول خواص وعام عطا کیا۔ اسی زمانہ میں مولانا نے کاروبار کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں کو خوب مضبوط کیا اپنے ذہن سے ہم آہنگ' دیوبند کے چند ذی شعور ہونہار جوانوں کے ہمراہ صرف ''بیٹھنے بٹھانے'' میں ہی پہل نہیں کی بلکہ ''خورد ونوش'' کے انتظامات کا دائرہ بھی وسیع کیا' راقم اگرچہ مولانا کے ''کھاؤ کلب'' سے وابستہ نہیں تھا لیکن ان سرگرمیوں سے واقف ضرور تھا اس زمانے میں دیوبند میں ''ہم طعامی'' کے بہت سے حلقے قائم تھے ان میں کچھ حضرات کئی کئی گروپس میں شامل تھے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی خیر خبر ملتی رہتی تھی حالانکہ مولانا ہر جگہ کسر نفسی کا مظاہرہ کرتے لیکن اپنے علم وفضل کے باعث ہر حلقہ میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے۔
دارالعلوم دیوبند کے ہنگامی حالات (۱۹۸۰تا ۱۹۸۲) میں مولانا کا ذہن ہم جیسے لوگوں سے (جو حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے ہمنوا تھے) ہم آہنگ نہیں تھا جسکی وجہ سے نزدیکیوں کا وہ ماحول قائم نہیں رہ سکا جو گذشتہ دو سالوں میں قائم ہوا تھا ،البتہ اس دورمیں بھی سلام وپیام میں کوئی فرق نہیں آیا( مئی۱۹۸۰ سے) علی الاعلان شروع ہونے والے دارالعلوم دیوبندکے قضیہ سے باشندگان قصبہ خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے اطراف میں بسنے والوں کی وہ اکثریت (جو اس وقت زندگی کی نصف صدی کا سفر طے کر چکی ھے) اس امرسے بخوبی واقف ہے کہ اس ''نظریاتی اختلاف'' نے ''جنگ وجدل'' کا ایسا رو پ اختیار کر لیا تھا جس نے ''دوستیوں کے زاویے'' اور ''رشتے داریوں کے جغرافیے'' تبدیل کر دئیے تھے ان نازک ترین حالات میں ،قاری محمد طیب صاحب کے انتہائی وفادار' اور قریبی عزیز، رشتے دار، (مولانا قاری محمد عبد اللہ سلیم صاحب مدظلہ العالی) کی صاحبزادی سے مولانا ندیم صاحب کا رشتہ طے ہوناقاری صاحب کے عزیزوں کو اگرچہ عجیب سا لگ رہا تھا لیکن مولانا کے نظریات سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود ان کی علمی، قلمی وفطری صلاحیتوں کے پیش نظر یہ رشتہ نہ صرف منظور ہوا بلکہ الحمدللہ تا حین حیات مولاناندیم الواجدی ، قاری عبداللہ صاحب کے لائق ترین داماد کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ اس وقت کے تناظر میں حکیم الاسلام سے وابستہ بہت سے ’’طیب نوازوں‘‘ نے اس رشتے داری پر بہت سے سوالات کھڑے کئے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ سبھی نے قاری عبداللہ صاحب کے حسن انتخاب کی داد دی۔
جولائی۱۹۸۳ میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کی وفات کے بعد دیوبند میں چند نوجوانوں کے ذریعے (جس کے سرگرم ممبران میں راقم کے علاوہ فہیم اخترصدیقی، منصور انور خاں مرحوم اور ہندی صحافی اسعد صدیقی سر فہرست تھے) دیوبند میں’’طیب ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، اس کے منصوبوں میں حکیم الاسلام سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد بھی تھا اس کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں مولانا ندیم الواجدی کا نام بھی تھا' یہیں سے مولانا سے بے تکلفی کا سلسلہ شروع ہوا' یہ سیمینار اس زمانہ میں اس طریقہ پر تو نہیں ہوسکاجو اس کے لئے تجویز کیا گیا تھاتاہم مقامی سیمینار کی شکل میں منعقد ہوا، البتہ مولانا سے زیادہ قربت کا ذریعہ یہی ’’ سیمینار‘‘ بنا۔
ِغالباً ۱۹۸۵ میں اردو کو اس کا جائز مقام دلوانے کے لئے مشہور ادیب' رام لعل اور ملک زادہ منظور احمد کی سربراہی میں ’’اردو رابطہ کمیٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے بینر تلے دہلی میں ایک کنونشن منعقد ہوا اس میں دیوبند کی نمائندگی جس وفد نے کی اس میں مولانا کی قیادت میں بہت سے دوستوں کے علاوہ برادر محترم ڈاکٹر نواز دیوبندی' فہیم اختر صدیقی اور راقم بھی شریک تھے' دیوبند سے دہلی تک' کے اس سفر نے ''تکلفات کے حجاب'' لپیٹ کر رکھ دیے اور اسی دن سے مولانا ندیم الواجدی بے تکلف دوست بن گئے۔ مولانا کا خاص وصف یہ تھا کہ جیسے جیسے ان کا کاروبار ارتقائی منازل طے کرتا رہا ویسے ہی ویسے مولانا کے دوستانہ روابط میں اضافہ ہوتا رہا اور ان کی منکسر المزاجی بھی بڑھتی رہی۔ دارالکتاب صرف ایک کتب خانہ ہی نہیں بلکہ مولانا کے دوستوں کی بے تکلف بیٹھک تھی مولا نا اپنے دوستوں اور کاروبار دونوں کو ہی بہ یک وقت سنبھالے رہتے۔ ۱۹۹۰ میں راقم کو ''غم روزگار'' نے دیوبند چھوڑنے پر مجبور کر دیا لیکن الحمدللہ وطنی محبت نے اپنے حصار میں ہمیشہ قید رکھا جسکی وجہ سے نہ تو اہالیان قصبہ سے کبھی بیگانگت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی بھی طرح کے تعلقات میں کوئی فرق آیا چنانچہ جب بھی مہینہ دو مہینہ میں دیوبند جانا ہوا سبھی سے ملنے

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 223
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حبیب ﷲ خؔان*


*نسلی تعلقات*

انسان دنیا میں میل ملاپ کے لیے پیدا ہوا ہے،اکیلا اور تنہاء رہنے کی کیفیت مخلوق کی دوسری اقسام نباتات،حیوانات، معدنیات میں پائی جاتی ہیں ؛ لیکن اس مخلوق کے مابین بھی:
؏ کند ہم جنس باہم جنس پرواز
مجلس و مصاحبت کی خصوصیات کسی حد تک موجود ہیں؛ بنا بریں ایک انسان کے ساتھ جب تک کوئی دوسرا انسان موجود نہ ہو اکیلے انسان کا گزارہ مشکل اور زندگی دوبھر ہوجاتی ہے،اگرچہ تخلیق انسانی کے ابتدائی مدارج میں کئی ایک انسان ایسے گزرے ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں تن تنہاء جنگلوں،صحراؤں اور دنیا کی عمیق غاروں میں گزاردیں ؛ لیکن ان ایام میں غالبا عقل و شعور کی ترقی اور پختگی اس قدر نہ تھی اور نہ ہی ضروریات زندگی اتنی وسیع تھیں کہ انسان اپنے ہم جنس کی ضرورت محسوس کرتا،انسان بذات خود جنگلی جانوروں کی طرح وحشی قدرتی لباس میں ملبوس صرف شکم پروری اور ہوس نفس کے باطنی احساس تک محدود تھا ۔
اس تنہائی سے نکل کر اجتماع کی سب سے پہلی بنیاد افراد و خاندان پر قائم ہوئی اور کششِ موانست کی ابتدائی زنجیر رشتۂ خون اور نسلی تعلقات پر وضع کی گئ ؛چنانچہ جب خاندان روزی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے تو یہی زنجیر افراد خاندان کو ایک دوسرے سے وابستہ جگہ جگہ کشاں کشاں لیے پھرتی رہی۔

( *تقسیمِ ہند،صفحہ: 84، طبع:انفائن بک سینٹر، پٹیالہ گراؤنڈ، لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (٣١ ) ۔۔۔ ہمیں دنیا نہیں محمد ﷺ چاہیے (پہلی قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
حجاز کا پایۂ تخت مکّہ اسلامی اقتدار کے آگے جُھک چکا تھا۔ سچائی اور طاقت کو قدم ملائے ہوئے دیکھ کر وہ لوگ بھی ایمان لارہے تھے جو کبھی تنہا سچائی کو اس کے سادہ لباس میں نہ پہچان سکے تھے سچائی جو کبھی ایک انسان کی آواز تھی اب ہزاروں آوازوں کی شان دار گرج میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ جس آواز سے پورا ماحول گونج اُٹھا تھا اب اس کی چوٹ تنگ و تاریک سینوں اور زنگ خوردہ دلوں تک جا پہنچی تھی ۔
لیکن ابھی تک مکّے کے چند ہم سایہ علاقوں پر وہی اندھیارا چھایا ہوا تھا۔ وہاں وہی طاقت کا جُنون اور اِنتقام کا بھوت سوار تھا ۔ وہ سچ اور جُھوٹ کا فیصلہ دلوں کے بجائے تلواروں سے کرنا چاہتے تھے ۔ وہاں کا انسان اب تک یہ بدترین احمقانہ خواب دیکھ رہا تھا کہ مسلّح آدمی خدا سے لڑ سکتا ہے!
اِس آخری بغاوت کی کوشِش میں ہوازن اور ثقیف قبائل آگے آگے تھے ۔ ان لوگوں نے مکّے کا سقوط دیکھ کر جلدی جلدی آس پاس کے قبیلوں میں نفرت و انتقام کی آگ بھڑکانی شروع کی ۔ ترکش پر ترکش بھرے گئے ۔ تلواروں پر تلواریں سونتی گئیں اور حُنین کے میدان کے کارزار میں شیطان کی آخری طاقت نے اللہ کی فوج کو للکارا ۔
اگر چہ اسلامی صفوں میں بارہ ہزار نفوس تھے لیکن ان میں ایک بہت بڑی تعداد مکّے کے ان نئے نئے مسلمانوں کی تھی جنھوں نے سچّائی کو اس کی بے سرو سامانیوں کے زمانے میں نفرت سے ٹھکرایا اور عروج وسطوت کے دور میں سینے سے لگایا تھا، کہا نہیں جا سکتا تھا کہ وہ اس وقت کہاں تک جم سکیں گے جب موت کا بھیانک خطرہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ سوال کرے گا کہ " کیا تم مسلمان ہو ؟"
ادھر ہوازن کا قبیلہ تیراندازی کی ہولناک مشق میں یگانۂ روزگار تھا ۔ تیراندازی کا یہ کمال اپنے آخری جو ہر دکھانے کے لیے نکلا تو ایک ساتھ ہزاروں کمانیں دوہری ہو گئیں اور تیر __ زہر یلے نوکیلے تیر ایک زبردست باڑھ کی شکل میں پوری فضا میں سنسنا گئے۔ تیروں کی اس اندھا دُھند بوچھاڑ میں پہلے ہی قدم پر ایسی بدحواسی چھائی کہ مُجاہدوں کا لشکر ہل گیا اور لشکر کا بہت بڑا حصّہ اس طوفان کے تھپیڑے کھاتا ہوا پیچھے کی طرف بہہ نکلا۔
لیکن ٹھیک اس وقت جب زمین و آسمان میں موت کی باڑھ سے کہیں پناہ نظر نہ آتی تھی جب تیروں کی گھٹا ٹوپ بوچھاڑ میں ہزاروں شیر نر بےاختیار مُنہ پھیر بیٹھے تھے ۔ جب مرگ و ہلاکت کے آدم خور عفریت اپنے جبڑے کھولے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ محمد عربی ﷺکے قدم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے آپ نے ایک طرف اس خوفناک طوفان کو پھیلتا بڑھتا اور دوسری طرف اپنے دست و بازو مُجاہدوں کو بدحواس ہو کر پیچھے ہٹتا ہوا دیکھا ــــــ مگر خُدا کا پیغمبرﷺ پھر بھی اپنی جگہ چٹان کی طرح سینہ سپر تھا۔ آپ ﷺ کے چہرے سے خوف نہیں ایک زبردست جلال ٹپک رہا تھا ـــــــ جیسے آپﷺ کو دُکھ نہ تھا کہ محمد (ﷺ) کو جان سے زیادہ پیار کرنے والے آج محمد(ﷺ) کو اکیلا چھوڑ کر پسپا کیوں ہو گئے ؟ جیسے آپﷺ کو حیرت نہ تھی کہ شہادتِ حق کی بہترین آرزو میں سربکف مُجاہدوں کو یہ کیا ہوا ہے ؟ نہیں ! ـــــــ اس وقت آپﷺ کے دل میں اس جذبۂ یقین کے سوا کوئی شے موجزن نہ تھی کہ آپﷺ خدا کے بالکل سچّے رسول ہیں۔ رسالت کا یہی یقین اس وقت لمحہ بہ لمحہ ایک جلال کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ یہ جلال ایک بہترین حُسن تھا۔ یہ حُسن ایک ناقابلِ شکست طاقت تھی ! یہ طاقت ایک ایسے یقین و ایمان ایسے صبر و سکون __ ایسے توکّل اور طمانیت کا سرچشمہ تھی جو کبھی خشک نہیں ہوتا ۔
پسپائی خواہ کسی وجہ سے ہو نو آموز مُجاہدوں کی ناتجربہ کاری یہ رنگ لائی ہو یا خون کی جبلّت نے بے ساختہ سر اُٹھایا ہو سوال یہ تھا کہ کیا طوفان کے ریلے میں بہہ جانے والے رسالت کے اس جلالِ یقین کے سہارے ایک بار پھرطوفان میں قدم جما سکیں گے ؟ کیا ایک بار پھر محمد ﷺکے جاں نثار محمد عربی ﷺ_رسولِ عربیﷺ پر پروانہ وار قربان ہونے کے لیے پلٹ پڑیں گے ؟ کیا ایک بار پھراُحد کا وہ منظر تاریخ دیکھ سکے گی جہاں رسالت کے اس حسین ترین وجود کو بچانے کے لیے محمدﷺ کے "دیوانوں" نے گرتی ہوئی ننگی تلواروں کو ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا ۔ اور سینوں کو ڈھال بنا کر ترکش کے ترکش اپنے سینوں پر خالی کرائے تھے _ جہاں کمز ور عورتوں نے ایمان کے جوش میں زخموں سے چور ہو ہو کر حملہ آور فوجوں پر جست کی تھی۔ جہاں پیغمبر ﷺکے رخساروں کی آہنی کڑیاں نکالنے کے لیے فدا کار مرد نے اپنے دانت ریزہ ریزہ کر ڈالے تھے ۔ جہاں رسالت کی شمع پر وجد کرتے ہوئے پروانوں کو موت ! یقینی موت ہزاروں تیروں اور تلواروں سے ڈرانے کی کوشش میں بُری طرح ناکام ثابت ہوئی تھی ۔ جہاں انسان کے لیے انسانوں کی ایک ایسی اتھاہ عقیدت دکھائی دی تھی جس کے لیےانسان کی جذباتی زبان میں کوئی بھی لفظ موجود نہیں ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

احساسات جو دل کو چھو جائیں ، دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے وہ الفاظ جو جذبات کو جھنجھوڑتے ہیں ، تربیت کے نمونے ، اعجاز رحمانی صاحب کا برِوقت موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کا بہترین انتخاب ، قوم کے لیے ان کا درد اور اس کا اثر اشعار میں جو آنکھوں میں آنسو بھر دیتا ہے ۔ حضرت! اللہ پاک آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ۔ہم آپ کی تحریروں سے بہت ہی استفادہ کرتے ہیں
والسلام
*سلیم احمد گلبرگہ*

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 222
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حؔجة الاسلام الإمام محمد قاسم نانوتویؒ*


*آمدنی کے حلال اور حرام ہونے کی بنیاد*

رزق( آمدنی ) اپنی حلت و حرمت میں ان اسباب کا تابع ہوتا ہے جن کے وسیلے سے وہ رزق حاصل ہو،اگر وہ اسباب حرام ہوں تو وہ رزق بھی حرام رہے گا اور اگر اسباب حلال و مباح ہوں تو وہ رزق بھی حلال و مباح سمجھا جائے گا،مثلا: اگر رزق تجارت،کھیتی،کھانے پکانے، سینے پرونے کی مزدوری سے میسر آئے یا اس مال کے عوض مول لیا جائے جو اسباب مذکورہ سے ہاتھ آئے تو اس رزق کو حلال ہی کہیں گے اور اگر سود،زنا،چوری،غصب سے -مثلا- ہاتھ لگے تو اس کو حرام ہی کہیں گے،جب تک کہ صاحب مال بطیبِ خاطر اجازت نہ دے اور مباح نہ کرے،حلال و مباح نہیں کہہ سکتے۔
اور وجہ اس کی یہی ہے کہ ”جو شے جس راہ سے آتی ہے اس کی کیفیت اس کے ساتھ لاحق ہوجاتی ہے“ __ دیکھئے! نور اگر آئینۂ سبز،زرد،سرخ،سیاہ وغیرہ میں ہوکر آتا ہے تو ان آئینوں کی سبزی،زردی،سرخی، سیاہی وغیرہ اس کے نور کے ساتھ آئی ہیں،__ آدمی کے نطفے سے آدمی ہی کی شکل کا بچہ ہوتا ہے، تو اسی وجہ سے کہ وہ نطفہ اسی بدن سے آیا ہے اور گیہوں،چنے وغیرہ کے بیج پر اور انبہ،جامن وغیرہ کے تخم پر اگر ویسا ہی اناج اگتا ہے یا ویسا ہی پھل لگتا ہے تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ”اجزائے زمین اس بیج یا تخم کی راہ سے نکل کر باہر آتے ہیں“۔
الغرض! جو شے کسی شے پر موقوف ہو یعنی بے اس کے اس شے کے وجود کی کوئی صورت ہی نہ ہو،تو اس شے کا اثر اس دوسری شے میں ضرور ہوگا۔( فیوض قاسمیہ ص___ ٣٤ و ٣٥)

( *مؔاہنامہ الفرقان،لکھنؤ، جمادی الاولی ١٣٩٣ھ،صفحہ: 14*)

تسہیل: *مفتی سعید احمد صاحب پؔالنپوری قدس سرہ*

✍🏻...محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel