ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

حیدرآباد دکن سے مولانا عبید اختر رحمانی صاحب نے حسبِ سابق ایک مفصل مضمون ازرہِ علم پروری ارسال فرمایا ہے۔ آپ کے مضمون کا آخری حصہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں: ’’صاحبِ نوراللغات نے جو کچھ لکھا ہے وہ غیاث اللغات کی پیروی میں لکھا ہے کہ داماد اصل میں دائم آباد تھا۔ فارسی کی مشہور لغت ’’لغت نامہ دہخدا‘‘ میں صاحبِ غیاث اللغات کی اس بات کی پُرزور تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایسی بات ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیگر فارسی لغات میں صاحبِ غیاث اللغات کی اس قیاس آرائی کی تائید نہیں ملتی۔ امید ہے کہ احمد حاطب صدیقی صاحب اگلے جمعہ کو اس کی تصحیح کردیں گے‘‘۔

ہم کیسے ’تصحیح‘ کریں گے ہم کو ’گھر‘ میں رہنا ہے
صاحب! ایسی بات نہ کیجیے ’ساس عدو ہو جاتی ہے‘

یہاں ’ساس‘ سے مراد ہمارے ذاتی داماد کی ساس ہے۔ سو، داماد کو دائم آباد رہنے دیجے کہ خانہ آباد رہے۔ورنہ ذرا مغرب کی خانہ بربادی کی طرف دیکھ لیجے کہ بے چارا کسی داماد کو دختر دختر ترس رہا ہے۔

محترم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کی خانم سے ثابت ہوا کہ اہلِ ایران ’داماد‘ کا لفظ ہراُس جگہ استعمال کرنے کو تُلے رہتے ہیں جہاں ہمارے لوگ ’دولھا‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ زمانہ قبل از بے روزگاری میں اگر کسی روز ہم اپنے دفتر بہت بن سنور کر جاتے تھے تو اُس روز ہمارے ایک ایرانی افسرہم سے یہی فرماتے تھے کہ ’’آج تو دولھا لگ رہے ہو‘‘۔ اب لوگ دولھا کی جگہ ’ہیرو‘ کہنے لگے ہیں (ہمیں)۔

ایران میں داماد کی بڑی قدر ہے۔ وہاں دولھا بننے کو آج بھی ’داماد شدن‘ کہا جاتا ہے۔ بیٹی کے لیے کسی کا رشتہ منظور کرلیا تو یہ ’داماد کردن‘ ہوا۔ جس سجے سجائے کمرے کو ہم حجلۂ عروسی کہتے ہیں، ایرانی اُسے ’حجلۂ دامادی‘ قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ولیمہ جو مسنون ہے اور ہمارے ہاں بیوی کو مفتوح کرلینے کا جشن سمجھا جاتا ہے، اہلِ ایران کے ہاں وہ بھی ’جشنِ دامادی‘ کہلاتا ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

تعارف کتاب: لوگ جہاں میں…اچھے۔۔۔ - عمران ظہور غازی
کتاب : لوگ جہاں میں اچھے
مصنف : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
صفحات : 288 قیمت: 700 روپے
ناشر: اسلامی پبلی کیشنز ، منصورہ ملتان روڈ ، لاہور
فون : 009242-35252501

لوگ جہاں میں…اچھے‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لکھے ہوئے خاکوں اور وفیات ناموں کا خوب صورت، دلچسپ اور دلکش مجموعہ ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔
یہ معروف معنوں میں تو خاکے اور وفیات نامے ہیں جو کسی بھی رخصت ہوجانے والی شخصیت کی خوبیوں، عادات و اطوار، چال چلن، گفتگو، تقریر و تحریر، لباس، نشست و برخواست، افکار و نظریات کے بیان پر مبنی ہیں جن سے شخصیت کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ خاکہ نگاری کو اس دور میں کچھ زیادہ ہی عروج ملا۔ لیکن آج کا دور ڈیجیٹل دور میں ڈھل رہا ہے اور پرانے تمام آثار آہستہ آہستہ مٹ رہے ہیں۔
اس کتاب میں چنیدہ اور منتخب افراد کا تعارف یا خاکے ہیں، ان میں زیادہ تر لکھنے پڑھنے والے Self made افراد، اساتذہ، شاعر، ادیب، تحقیق کار، ایڈیٹر، ماہرینِ اقبالیات، لسانیات، نقادانِ ادب شامل ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی، کچھ بھارت سے اور کچھ ایسے ہیں جو دیار غیر میں مقیم رہے، اور کچھ سید مودودیؒ کی فکر اور جماعت سے وابستہ افراد بھی ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جہاں اپنے تاثرات و مشاہدات سے کام لیا ہے، وہیں دوسروں کی تحریروں سے بھی کام لیا (خاص بات یہ ہے کہ کہیں سے اگر جملہ لیا ہے یا پیراگراف، تو بلاحوالہ نہیں لیا)۔ یہ خاکے کچھ تفصیلی، کچھ مختصر اور کچھ تاثراتی ہیں، لیکن ہیں مزے مزے کے۔ ان کو صرف خاکے نہیں کہہ سکتے، یہ کچھ اور چیز لگتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لکھنے کی محض رسم نہیں نبھائی بلکہ جس کے بارے میں لکھا ہے، دل سے لکھا ہے، بلکہ جس کو جیسا پایا ویسا اُس کا سراپا کھینچ دیا… گویا چلتا پھرتا متحرک انسان ہے۔ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، فرشتہ نہیں۔ یہ حقیقی خاکے، شخصیات کا حقیقی تعارف کراتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی اپنی شخصیت کسی انجمن سے کم نہیں، مرنجاں مرنج اور خوش ذوق… گو ان کی پہچان ماہرِ اقبالیات کی ہے لیکن وہ ایک اچھے اور مثالی استاد، ایڈیٹنگ اور اشاریہ سازی، زبان و ادب اور اقبالیات کا بڑا نام، سفرنامہ نگار، خطوط نگار، مؤلف، تحقیق کے رمز شناس ہیں اور چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ ’’لوگ جہاں میں اچھے‘‘ کے خود بھی مصداق ہیں۔اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج سرگودھا اور اورینٹل کالج لاہور کے نام کیا ہے۔ پیش گفتار میں ڈاکٹر خورشید رضوی نے نہایت عمدگی سے حقِ دوستی ادا کیا ہے، جن کا نام بھی معتبر اور کام بھی معتبر ہے۔
ان میں سے بعض خاکے ’’سیارہ‘‘ لاہور، ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کراچی اور ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور میں چھپ چکے ہیں۔ چند نام درج ہیں:
بھارت سے ڈاکٹر ابن فرید، پروفیسر اسلوب احمد انصاری، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر خلیق انجم، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر سید عبدالباری، شبنم سبحانی، ڈاکٹر کبیر احمد جائسی… پاکستان سے ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، خرم مراد، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید امجد الطاف، پرویز گوہر صدیقی، حفیظ الرحمن احسن، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، سید عبدالعزیز مشرقی، پروفیسر سید وقار عظیم، ملک نواز اعوان اور اٹلی سے ڈاکٹر دیتوسالیرنو، لندن سے حاشر فاروقی اور عبدالرحمن بزمی۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحریر کی خوبی ہے کہ وہ شعروں، اقتباسات اور مشاہدات، سفر و حضر کو ایسے انداز میں تحریر میں سمولیتے ہیں کہ تحریر زیادہ دل کش بن جاتی ہے۔ پھر یہ کہ وہ جولکھتے ہیں حوالہ جات کے ساتھ۔ چاہے کسی کتاب پر تبصرہ کیوںنہ ہو، بلاحوالہ نہیں لکھتے۔ ان خاکوں میں بے ساختہ پن، روانی، شستگی اور اسلوبِ بیان قاری کی توجہ اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتے۔ اقبالیات کے ساتھ گہرے تعلق اور وابستگی کے باعث وہ اقبال کا تذکرہ کسی نہ کسی طرح لے آتے ہیں اور وہ اچھا لگتا ہے۔ عمل پر ابھارنے، کچھ کرگزرنے کا حوصلہ بخشنے اور انگیخت کرنے والے یہ خاکے مقصدی ادب کا خوگر بناتے ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی چونکہ خود اسلامی ادبی حلقے کے فکری رہنما شمار ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے مقصد کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ یہ خاکے جہاں نئے لکھنے والوں کے لیے راہنماہیں، وہیں اپنی تہذیب و اقدار کو سنبھالنے اور زندہ رکھنے میں ایک مضبوط معاون ہیں۔
اسلامک پبلی کیشنز نے کتاب کو اچھے اور دیدہ زیب انداز میں طبع کیا ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں ہے۔
بہ شکریہ: فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

اللہ تعالی نے اس کتب خانے کی جو خدمت نصیب میں لکھی تھی اس کی توفیق تو مل گئی ،باوجود اس کے کبھی خیال آتا ہے کہ کتب خانے کے اس کام کو اور بھی زیادہ وسعت مل سکتی تھی، لیکن کیا کیا جائے اداروں کے اپنے اپنے انتطامی مسائل ہوتے ہیں، باہر رہ کر ےاداروں کی خدمت اور تعاون تو ہوسکتا ہے، لیکن ان پر اختیار نہیں ہوا کرتا ، عہدے داران کے اختیارات کا ایک منطقی تسلسل ہوتا ہے، جگہ جگہ اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے، لہذا دانش مند اپنی فکر اور سوچ کے مطابق خود اپنے ادارے بناتے ہیں، اس سے ناموری اور شہرت بھی ملتی ہے، اور بانی اور موسس کی حیثیت سے نام بھی باقی رہتا ہے، لیکن جو افراد یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے اداروں میں پڑھنے والے نونہال قوم کی امانت ہیں، اداروں سے وابستہ افراد کو ان کی عمروں کی حفاظت اور ان کی صلاحیتوں کو فروغ دینا اولین ترجیح ہونی چاہئے، اور کسی نیک کام کے تسلسل کو باقی رکھنا ہے تو پھر ہمارے ہاتھ میں پلنے والی ان نسلوں پر اپنی توجہات مرکوز کرنے کے سوا چارہ نہیں، شمع سے شمع جلانے کی جو بات ہوتی ہے، وہ ان نونہالان قوم کی صحیح تربیت اور ان کی صلاحیتوں کی نشو و نما اور فروغ میں اپنی ساری صلاحیتیں اور توجہات صرف کرنے سےہی ممکن ہوسکتی ہیں، کیونکہ زیادہ تر افراد کے قائم کردہ ادارے ان کی زندگی تک ہی نام کر پاتے ہیں، پھر ایک دو نسلوں کے بعد زیادہ تر وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، کیونکہ تازہ خون کی مسلسل سپلائی جس طرح ہمارے دارالعلوم اور جامعات اجتماعی طور پر کرسکتے ہیں وہ انفراد ی اداروں سے انجام پانا آسان کام نہیں۔
کسی ادارے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے، اس کے تعلیمی اور علمی معیار کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بلند کرنا ضروری ہے، اس کے لئے کتب خانے کو ترجیحات میں شامل کئے بغیر چارہ نہیں۔ اب انہیں کون بتائے کہ تعلیمی اداروں میں کتب خانے کی حیثیت دل کی ہوتی ہے،ان اداروں کے جسم کی نالیوں میں تازہ خون یہیں سے دوڑتا ہے، تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم مقصود نہیں ہوا کرتا، بلکہ اس کی حیثیت بنیاد اور پھر وسیلے کی ہوا کرتی ہے، جس پر علم ومعرفت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، دینی اداروں کے نصاب تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے علوم وفنون کی ترقی میں جو عمریں صرف کی ہیں ، اپنی راتیں جاگ کر اور آنکھوں کا پانی خشک کرکے ابتک جو انمول لٹریچر کا خزانہ تیار کیا ہے انہیں پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی جائے ، پھر ہماری نسلیں ان صلاحیتوں کو سیڑھی کا پائیدان بنا کر خود بھی اپنے اسلاف کی طرح علم ومعرفت کے خزانے بھرنے اور انہیں اوپر اٹھانے کی فکراور جد وجہد کریں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر جاری وساری رہیں تو ہمارے مدرسین و اساتذہ کے علم وفہم کی صلاحیتوں کا معیار وقت کے تقاضوں کے مطابق قدم بہ قدم بڑھنا ضروری ہے ۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے تعلیمی ادارے جمے ہوئے تالاب کی طرح ہو جائیں جہاں پانی ٹہرا رہتا ہے،اور اس میں حرکت نہ ہونے کی وجہ سے سرانڈ پیدا ہوجاتی ہے۔ اس وقت ہمارے اداروں کی عمومی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ہمارے اساتذہ اور ذمہ داران کو سستی شہرت کی کی خواہش نے گھیر لیا ہے،انہیں شاعروں کی طرح ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع کی واہ واہ کی چاٹ لگ گئی ہے، ان کی دلچسپیاں ایسی سرگرمیوں میں بڑھ گئی ہیں، جن میں زیادہ جانفشانی کے بغیر شہرت وناموری ملتی ہے، ،کتاب ومطالعہ سے ان کا رشتہ ٹوٹ رہاہے، جس کا نتیجہ یہ ہے عمر اور صحت کے تقاضوں سے جو اساتذہ سبکدوش ہوجاتے ہیں، ان کی جگہیں خالی رہتی ہیں پر نہیں ہوتیں،جس کی وجہ آگے آنے والی نسلوں کا معیار روز انحطاط اور تنزل کی طرف بڑھ رہا ہے، اور ہمارے دینی اداروں کے حالات بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کی طرح بنتے جارہے ہیں، جہاں پروفیسر حضرات اپنے بچوں کو داخل کرنے کے بجائے انہیں انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجنے کو ترجیح دے رہے ہیں ، اب ہمارے علماء وفارغین کی توجہات بھی عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف زیادہ ہو رہی ہے، یہ کوئی عیب کی بات بھی نہیں، اسلامی مزاج و ماحول کے حامل ہمارے عصری تعلیمی ادارے زیادہ سے زیادہ کھولنا وقت کا تقاضا ہے، لیکن ہمارے دینی اداروں کے ہمدردان اور وابستگان جب محسوس کرنے لگیں کہ جن اداروں کے لئے انہوں نے وقت اور قربانیاں دی ہیں، وہاں علم او ر معلومات کا معیار گھٹ رہا ہے تو پھر یہ خطرے کی گھنٹی ہے، حالات جس طرف جارہے ہیں اس سے خوف سا لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں علمی ماحول اور کتاب سے مناسبت ختم ہونے کی وجہ سے ان اداروں سے قوم کی توجہات ہٹنے لگیں، اور انہیں بھی عصری اداروں میں بدلنے کی باتیں ہونے لگیں، اس کی مثالیں اب سامنے آنے لگی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اب جسے تاثر بتلا کر شاذ ونادر کے کھاتے میں ہم ڈال رہے ہیں کل کلاں وہ حقیقت واقعہ نہ بن جائے۔ اس کے لئے سنجیدگی سے لائحہ عمل

Читать полностью…

علم و کتاب

*پروفیسر یوسف کوکن عمری اپنی کتاب خانوادہ بدر الدولۃ میں پرتگالیوں کے ہاتھوں گوا کی فتح اور وہاں سے بیدر اور بیجاپور ہجرت تک پہنچ پائے ہیں، لیکن اس سے پہلے کی کڑیاں ان سے نہیں جڑ سکی ہیںِ، یہ کڑیاں ملانے کی اس ناچیز نے کوشش کی ہے، اور اس سلسلے کا ایک مضمون باوقار علمی مجلہ الایام کراچی (جنوری دسمبر ۲۰۲۳ء ) میں "بھٹکل۔ تاریخ کا سفر "کے عنوان سے ابھی چند روز قبل شائع ہوا ہے، ڈاکٹرمحمد سہیل شفیق صاحب (صدر شعبہ تاریخ کراچی یونیورسٹی ) نے جو اس مجلہ کے معاون مدیر ہیں، اور ہماری اس بزم کے رکن رکین بھی ہیں، یہ شمارہ گروپ میں شیر کیا تھا، شاید احباب کی اس پر نظر ابتک نہیں پڑی ہے *۔ اسی طرح کئی ایک اہم چیزیں پیغامات کی بھیڑ بھڑکے میں گم ہوجاتی ہیں، اور ہمیں شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ہی مضامین کی تشہیر کرنی پڑتی ہے، یہ بات کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پہلے اس مضمون کی فرمائش کئی ایک احباب کی جانب سے آئی تھی، لیکن اس مضمون اور مطالعہ کتب کیوں اور کس طرح؟ کو نظر ثانی اور اضافے کے ساتھ پیش کرنے کی خواہش تھی، لیکن زندگی میں کچھ ایسی بے ترتیبی غالب ہے کہ بہت سی خواہشیں پوری ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔
جب ہمارا چنئی ( مدراس ) اعلی تعلیم کے لئے جانا ہواتھا، تو ۱۹۷۱ء کے پارلیمانی الیکش کی ہماہمی کا دور ابھی شروع ہونے ہی والا تھا، کانگریس انڈیکیت اور سنڈیکیٹ میں بٹ چکی تھی، دو بیلوں کی جوڑی مرارجی دیسائی کی قیادت میں پرانے لیڈران کے حصے میں آئی تھی اور اندراگاندھی کو گائے اور بچھڑا مل گیا تھا، یہ بڑا ہنگامی دور تھا، اس الیکشن میں اندرا گاندھی نے ملک کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا، جمالیہ میں ہمارے پرنسپل تھے مولانا سید عبد الوہاب بخاریٰؒ ( افضل العلماء)، تقسیم ہند کے بعد مسلمانان ہند جن امتحانات سے گذرے، اور چنئی میں گورنمنٹ محمڈن کالج کا نام ختم ہونے کے بعد یہاں کی مسلم قیادت نے جس طرح خطرے کو بروقت بھانپ لیا تھا، اور تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی بہتر رہنمائی کی تھی ، اس میں ایک سرفہرست نام مولانا بخاری کا بھی ہے، اس وقت مسلمانوں کے عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی جو تحریک چلی تھی، تو اس کی قیادت ڈاکٹر عبد الحق کرنولی) افضل العلماء) کے ہاتھ میں تھی، اس وقت آپ کے دست راست اور یارغار مولانا بخاری مرحوم تھے،(مولانا دریابادیؒ نے اپنی تحریروں میں جا بجا اس جوڑی کو جنوبی ہند کے سرسید اور نواب محسن الملک سے تعبیر کیا ہے)*-ان شخصیات کی رہنمائی میں جنوبی ہند میں اس وقت مسلمانوں کے (۱۱ ) عصری تعلیمی کالج قائم ہوئے*، جن میں سے اب کئی ایک کالج ڈین یونیورسٹی کا درجہ پا چکے ہیں، مولانا بخاری ایک زاہد اور فقیر منش انسان تھے،آپ کا کنبہ صرف میاں بیوی مشتمل تھا، مدرسے کے طلبہ، ان کی اولاد کی جگہ تھے،آپ کی پوری زندگی جمالیہ، نیو کالج ،پریسیڈینسی کالج اور مدراس یونیورسٹی میں پڑھتے پڑھاتے گذری تھی ، (ان کی زندگی بھی ایک مستقل مضمون کا تقاضا کرتی ہے)۔ *مولانا بڑےمخیر اور عوامی لہجے میں ایک چندہ باز انسان تھے،صبح وشام لوگ ضرورتیں لے کر ان کے پاس آتے تھے، مولانا ملنے کے لئے آئے ہوئے بڑے بڑے لکھ پتی شاگردوں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بے تکلفانہ انداز سے پیسے نکال کر حاجت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے مناظر ہمیں صبح وشام دیکھنے کو ملتے تھے*، آپ کے بھٹکل کی تاجر برادری سے بڑے گہرے مراسم تھے، جس کی وجہ سے یہ حضرات بھی مدراس کے ملیّ اور تعلیمی اداروں میں بڑے فعال اور متحرک ہوگئے تھے، مولانا ہم سے مزاحاً ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ* بھٹکل والوں کو کیا چاہئے روٹی اور کپڑے کے کاروبار پر ان کا قبضہ ہے، ابھی مکان کا کاروبار ان کے ہاتھ میں نہیں آیا ہے*۔ اس وقت تک بھٹکل کے نوائط برادری کی شناخت تجارتی برادری کی حیثیت ہی سے تھی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ابھی تو میں جوان ہوں
کلام وآواز: حفیظ جالندھری
وفات ۲۱ دسمبر ۱۹۸۲ء
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=abhi-to-mai-jawan-hun, Abhi To Mai Jawan Hun
شاعر کی آواز میں مزید کلام سننے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?page=1&q=&c=&s=hafeez-jalandhri&t=

Читать полностью…

علم و کتاب

مدرسہ محمدیہ اور مکتبہ شرف الملک۔۔۔مدراس۔ جن کا ذکر اس مقالہ میں ہوا ہے

Читать полностью…

علم و کتاب

قاضی بدر الدولۃ کے فرزندان میں سے مولانا قاضی عبید اللہ مدراس کے چیف قاضی رہے، ان کے دوسرے دو فرزندان نے حیدرآباد دکن ہجرت کی ، جن میں سے ایک مولانا محمد سعیدؒ یہاں کے مفتی اعظم رہے، اور دوسرے مولانا ابو محمد خلیل اللہؒ بھی علمی دنیا سے وابستہ رہے، اور ان تینوں بھائیوں نے کتب خانہ محمد یہ مدراس، کتب خانہ سعیدیہ حیدرآباد، اور کتب خانہ خلیلیہ حیدرآباد کے ناموں سے تین عظیم قلمی کتابوں کے ذخیرے یاد گار چھوڑے، جن کی مجموعی تعداد دس ہزار قلمی کتابوں سے متجاوز تھی، دائرۃ المعارف العثمانیہ کی مطبوعات میں مخطوطات کے انہی ذخیروں سے زیادہ تر مدد لی گئی تھی۔ان میں بعض کتابوں کا تو اس وقت ایک ہی نسخہ دستیاب ہوا تھا، جیسے امام ابن القیمؒ کی کتاب* احکام اہل الذمہ *کا نسخہ جسے ڈاکٹر صبحی الصالح مفتی لبنان نے ایڈیٹ کیا تھا، اس کا قلمی نسخہ صرف مکتبہ محمدیہ مدرس میں اس وقت دستیاب ہوا تھا۔ کوکن عمر ی کے مطابق اس مکتبہ میں اسماعیل عادل شاہ (وفات ۱۵۳۴ء ) کے زمانے سے مسلم سلاطین اور بادشاہوں کے فرامین محفوظ ہیں،( اس ناچیز نے یہاں پر مغل شہنشاہ شاہجہاں وغیرہ کی دستخط سے جاری شدہ کئی فرامین خود دیکھیں ہیں)۔ سابق ناظر کتب خانہ محمد عبید اللہ مرحوم کے بقول" آج سے تین سال پہلے (۱۹۸۷ء میں) امریکہ کے شکاگو اسٹیٹ سے ایک خاتون ریسرچ اسکالر ہندوستان آئی تھیں ۔ تاکہ ہندوستان کے کسی ایک مسلم یا ہندو خاندان پر ریسرچ کریں۔ اور اپنا تحقیقی مقالہ اللی نوائے یونیورسٹی میں داخل کریں۔ انہوں نے پورے ہندوستان کا دورہ کیں اور اس نائطی خاندان کو اپنے مقالہ کا عنوان بنائی ہیں۔ ریسرچ اسکالر مسز سلویا داتوک نے رائے ظاہر کی ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی مسلم یا ہندو خاندان کے علمی خدمات کا اتنا علمی ذخیرہ محفوظ نہیں ہے ۔جتنا کہ اس نائطی خاندان کے پاس اپنے اسلاف کے علمی خدمات کا ذخیرہ جو کئی صدیوں سے آج تک بھی محفوظ ہے "۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ ، قاضی بدر الدولۃ ؒکے پوتے اور مولانا ابو محمد خلیل اللہؒ کے فرزند تھے۔ مولانا ابو محمد خلیل اللہ بھی خاندان کے دیگر بزرگوں کی طرح مذہب شافعی کے مستند فقیہ تھے، قاضی بدر الدولۃ ؒ کی اردو کتاب ریاض النسوان ( مسائل عبادات پر) ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے، اور مدتوں شامل نصاب رہی ہے، اسی طرح مسائل معاملات پر مولانا ابومحمد خلیل اللہ کی کتاب تحفۃ الخلان اردو میں اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، یہ مذہب شافعی کی ایک معتبر کتاب عمدۃ السالک وعدوۃ الناسک کے نصف آخر کا ترجمہ ہے۔
ہندوستان میں مذہب شافعی کے ماننے والوں کی بڑی تعداد کیرالا میں پائی جاتی ہے، ان کی زبان ملیالم ہے، اردو داں حلقے میں مذہب شافعی کی اتباع کرنے والوں کی تعدا د بہت محدود ہے، یہ بھٹکل واطراف ، کوکن، حیدرآباد ، او ر کشمیر کے متعدد علاقوں میں منتشر طور پر پھیلے ہوئے ہیں ، ایک زمانے میں چنئی (مدراس )، بھٹکلی نوائط برادری کا تجارتی مرکز رہا ہے،وہاں ہوٹل اور لنگیوں کے کاروبار میں ان کی مخصوص شناخت تھی، چنئی کے تمام اہم مسلم علاقوں میں ان کے ہوٹل ہوا کرتے تھے، جن کی اپنے دور میں بڑی شہرت تھی، ۱۹۷۰ء کی دہائی میں صرف پیریمیٹ جامع مسجد کے آس پاس ا ن کے پانچ چھ ریسٹونٹ ہوا کرتے تھے۔رائے پیٹھ جہاں خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کا دیوان باغ ہے ، اس کے اطرف بھی کئی ایک ہوٹل تھے، اردو زبان سے تعلق کی وجہ سے بھی بھٹکل والوں کے عقیدت مندانہ روابط اس خانوادے کے ساتھ بڑے مضبوط تھے۔ قاضی بدر الدولۃؒ کے فرزند مولانا قاضی محمد عبید اللہ ؒاوران کے جانشین مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسیؒ کاعہد ان روابط وتعلقات کا سنہرا دور ہے، جس وقت بھٹکل میں جامعہ قائم نہیں ہوا تھا، اور یہاں کے طلبہ کا ندوۃ العلماء اور دوسرے اداروں میں جانا عام نہیں ہوا کرتا تھا ،تب بھٹکل کے تقریبا سبھی علماء دستار فضلیت باندھنے، اور مذہب شافعی میں افتاء کی تربیت پانے کے لئے اسی خانوادے کے قائم کردہ مدسہ محمدی، دیوان باغ، رائے پیٹھ ( چنئی )جایا کرتےتھے، قاضی محمد عبیدا للہ مدراسی تو نسبی تعلق ہونے کی وجہ سے بھٹکل والوں سے بڑی محبت کا سلوک کرتے تھے، اور یہاں سے آنے والے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے تھے، اور ان کی بھی کیا کرتے تھے، بھٹکل کے عظیم علماء وفقہاء میں سے مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمیؒ، ان کے برادر مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی پر آپ کا خاص دست شفقت رہا تھا۔ دیگر اکابر علمائے بھٹکل میں سے مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمیؒ ( دھاکلو بھاؤ خلفو)، مولانا قاضی محمد احمد خطیبی ( کوچو صاحب خلفو)، مولانا قاضی محمد حامداکرمی (صاحبو خلفو ) وغیرہ کونسے قاضی و عالم ایسے نہ تھے جنہوں نے خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے اکابر وقاضیوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو، اور ان سے علمی فیض اورفقہ شافعی میں مہارت حاصل نہ کیا ہو، اور ان کے عظیم کردار ، اور ان کے زہد وتقوی اور للہیت کو مشعل راہ نہ

Читать полностью…

علم و کتاب

یاد دہانی: ہمارا ایک علم وکتاب واٹس اپ گروپ ہے، اس میں برصغیر کے جملہ مرکزی تعلیمی اداروں میں دس پندرہ سال سے زیادہ تدریس ، افتاء اور مجلات کی ادارت کا تجربہ رکھنے والی شخصیات شامل ہیں، اس کا ایک اڈمن پینل ہے، جس کی منظوری کے بعد ہی نئے ممبران کو شامل کیا جاتا ہے۔ علم وکتاب کیمونیٹی چینل اور علم وکتاب ٹیلگرام چینل میں اسی سے منتخب مضامین اور مواد پوسٹ ہوتا ہے۔ بعض احباب کے استفسار ہر اطلاعا عرض ہے(ع۔م۔م)

Читать полностью…

علم و کتاب

میں مولانامحمدزکریا کاندھلوی اور قاری محمد طیب رحمہما اللہ کے ساتھ مولانا فارقلیط کا نام بھی ہے۔(دیکھئے ان کی آپ بیتی کا ضمیمہ’’ وصیت نامہ ماجدی‘‘) مولانا فارقلیط کا آبائی وطن ضلع میرٹھ کا ایک قصبہ پِلکھوہ (موجودہ ضلع ہاپوڑ)تھا۔ ان کی ولادت خود ان کی صراحت کے مطابق مئی 1897ء میں دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد محمد احمد صاحب ایک پڑھے لکھے با ذوق انسان تھے۔ فارسی زبان اور طبابت میں درک رکھتے تھے ۔ مولانا فارقلیط نے ابتدائی تعلیم مولانا اسحاق رامپوری کے ایک منطقی شاگرد مولانامحمد ایوب سے حاصل کی جو ان کے بچپن کے دوست تھے۔ مزید تعلیم مدرسہ فتحپوری کے ایک افغانی عالم مولانا سلطان احمد سے حاصل کی۔ نئی سڑک دہلی میں ایک مدرسہ حاجی علی جان تھا وہاں کے مولانا عبد الرحمن سے بعض کتب اور شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ اور بعض اہل علم سے کتب صحاح کی تکمیل کی۔ اسی زمانہ میں انگریزی تعلیم اینگلو عربک اسکول میں حاصل کی اور اتنی استعداد بہم پہنچالی کہ انگریزی کتب کا بآسانی ترجمہ کرلیتے تھے۔
لکھنے کا شوق ابتدا ہی سے تھا۔ عیسائیوں، آریوں اور قادیانیوں کے رد میں مضامین لکھ کر مولانا ثنا اللہ امرتسری کے اخبار اہلحدیث امرتسر میں بھیجتے تھے جسے مولانا شائع کرتے تھے۔ 1920ء میں سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی نے قابل اور شوقین طلبا کو فن مناظرہ سکھانے کے لیے انجمن اصلاح المومنین قائم کی تو اس میں بھی ذوق وشوق سے حصہ لیا اور اس میں مہارت حاصل کرکے کامیاب مناظرے کیے جس کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ فارقلیط جو اُن کے نام کا جزو بن گیا وہ ایک مناظرے ہی کی دین ہے۔ انھوں نے ایک مشہور پادری احمد مسیح سے لفظ فارقلیط پر مناظرہ کیاکہ اس سے کون سی ذات مراد ہے اور ایک مسیحی پادری کی کتاب سے ثابت کیا کہ انجیل میں فارقلیط کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ یہ مناظرہ جمعہ کو ہوتا تھا اور تین جمعہ تک چلا۔ اس کو دہلی کے عوام نے بڑے شوق اور دلچسپی سے سنا اور مناظرہ کے بعدلوگ ان کو فارقلیط کہنے لگے اور مولانا نے بھی اسے اپنے نام کے ساتھ لکھنا شروع کردیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ بعد میں اسے ترک کرنے کا خیال آیا تو وہ اس قدر مشہور ہوچکا تھا کہ لوگ مجھے بغیر نام کے صرف اس لفظ سے پہچان لیتے تھے اس لیے اس کے ترک کرنے کا خیال ترک کرنا پڑا۔مولانا فارقلیط مرحوم اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ انگریزی، ہندی، سنسکرت اور سندھی زبان بھی جانتے تھے۔ ان کی باقاعدہ صحافت کا آغاز 1926ء میں ایک سندھی اخبار الوحید کراچی سے ہواجہاں وہ شیخ عبدالمجید سندھی کی دعوت پر گئے تھے۔ ان کاکام عربی اخبارات سے اردو میں ترجمہ کرنا تھا جسے اخبار کے عملہ والے سندھی میں منتقل کرتے تھے۔ یہاں انھوں نے بوقت ضرورت آریوں سے مناظرے بھی کیے اور ان کی کوششوں سے بہت سے وہ لوگ جو مرتد ہوگئے تھے دوبارہ مسلمان ہوئے ۔ 1928ء میں مولانا احمد سعید دہلوی کی دعوت پر سہ روزہ الجمعیۃ میں آگئے۔ اس وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس کے چیف ایڈیٹر تھے۔ ان کے حیدرآباد جانے کے بعد ہلال احمد زبیری چیف ایڈیٹر اور مولانا فارقلیط معاون ایڈیٹر بنائے گئے۔ زبیری صاحب کے بعد مولانا چیف ایڈیٹر بنائے گئے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد اخبارمدینہ بجنور کے مالک مجید حسن کی دعوت پروہاں چلے گئے۔ اپنی خود نوشت میں مولانانے اشارہ کیا ہے کہ بعض لوگوں کی سازش کی بنا پر انھوں نے الجمعیۃ کو چھوڑا۔ مدینہ بجنور کے بعد1939ء میں منشی عبدالرحیم کی دعوت پر لاہور گئے اور سہ روزہ زمزم کی ادارت قبول کی اور سالہاسال وہاں جم کر رہے۔ 1947ء میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہوئے تو وطن ثانی دہلی آگئے اور پھر لاہور واپس نہیں گئے ۔ آزادی کے بعد جب مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اخبار الجمعیۃ کو دوبارہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو ادارت کے لیے ان کی نظر انتخاب مولانا فارقلیط پر پڑی اور 25؍ دسمبر1947ء کو روزنامہ الجمعیۃ کا پہلا شمارہ مولانا کی ادارت میں نکلا، اس کا اداریہ اس کتاب کے باب دوم میں ہے۔
مولانا فارقلیط پرانی وضع کے بزرگ تھے ایک در گیر ومحکم گیر والے۔ انھوں نے الجمعیۃ جوائن کیا تو جب تک ان کی صحت ساتھ دیتی رہی پوری تندہی اور دلجمعی کے ساتھ اس سے وابستہ رہے اور پچیس سال سے زائد عرصہ تک وابستہ رہنے کے بعد یکم مارچ ۱۹۷۳ء کو خرابی صحت کی وجہ سے اس سے مستعفی ہوئے۔ اس عرصہ میں انھوں نے جو اداریے، مضامین اور کالم لکھے وہ آج بھی اسی طرح تروتازہ ہیں جیسا کہ اشاعت کے وقت تھے۔اس کا اندازہ اس کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔ مولانا فارقلیط مرحوم مارچ 1973ء میں الجمعیۃ سے سبکدوش ہوئے اور جون 1976ء میں انتقال فرماگئے۔ تقریباً چار دہائیوں تک مولانا سے متعلق علم وادب اور صحافت کی دنیا میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ اردو کے کاز کے لیے سرگرم دو تنظیموں ’’یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا‘‘ اور ’’اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ نے 9؍نومبر کو یوم اردو کے موقع پر 2011ء

Читать полностью…

علم و کتاب

خرم مراد(وفات ۱۹ دسمبر ۱۹۹۶ء)۔ تحریر: پروفیسر خورشید احمد

Читать полностью…

علم و کتاب

جی بالکل، حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی کے ایک برادر حکیم قمر الحسن تھے، ان کی ایک دختر تھیں، جن کا نکاح تھانہ بھون میں ہوا، ان سے دو فرزند ہوئے تھے، ایک ڈاکٹر محمود غازی صاحب، دوسرے ڈاکٹر غزالی صاحب۔ آخر الذکر سے ہماری ملاقات حضرت مولانا نور الحسن راشد مدظلہ کے ساتھ، مولانا عطاء الرحمن قاسمی کے زیرِ اہتمام، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پر ہونے والے سیمینار میں ہوئی تھی، جلدی تھی، بہت جلدی تھی، سلام و مصافحہ کے بعد، فلائٹ کا وقت بتاکر بڑی سرعت سے چلے گئے تھے۔ باری تعالیٰ رحمت سے نوازے۔۔ انشاء اللہ یہ سطور مولانا کاندھلوی کی خدمت میں پیش کردی جائیں گی۔ ارشد قاسم کاندھلوی

Читать полностью…

علم و کتاب

انتقال پر ملال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد غزالی بھی چل بسے۔ ڈاکٹر محمود غازی کے بھائی تھے۔ کم گو عاجز منکسر المزاج صوفی منش۔
ابھی دو تین دن پہلے سر راہ ملاقات ہوئی۔
بہت محبت سے ملے جھک کر سلام لیا۔
قابل آدمی تھے۔
کئی علوم پر عبور تھا۔
ان سے ایک سعودی سفیر نے پوچھا :
بتاؤ اس جملے کا کیا مطلب ہے ؟
غزالی غزالی غزالی
برجستہ وضاحت کی۔
غزا+لی ، غزال + ی ، غزالی ( علم)
حضرت تھانوی کے حلقے سے وابستہ تھے۔ ان کی تفسیر کے شیدائی تھے۔ نرم دم گفتگو انہی کے بارے میں کہا گیا۔
ایک اک کرکے بجھی جاتی ہیں شمعیں ساری۔
اللہ مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ہنسے والے اب ایک کام کریں
کلام وآواز: خمار بارہ بارہ بنکوی
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=hansnay-waly-ab-ek-kam-karain, Hansnay waly ab ek kam karain
شاعر کی آواز میں مزید کلام کی لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?c=&s=&t=&q=khumar

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا دنیا کو اسلام کی ضرورت ہے؟
بیان وآواز: علامہ محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ (پیرس )
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=kia-dunya-ko-islam-ki-zarurt-hai, Kia Dunya Ko Islam Ki Zarurt hai
ڈاکٹر صاحب کی آواز میں خطبات بہاولپور کے سلسلے کے جملہ خطبات سننے کے لئے کلک کریں۔
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=&c=&s=dr-muahmmad-hameedullah-hyder&t=
پیشکش
اردو آڈیو ڈاٹ کام

Читать полностью…

علم و کتاب

میرے خیال میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی زندگی کو ایک طویل مراقبہ کہنا چاہیے جو انھوں نے دین اور علم کے لیے کیا اور مراقبے سے انہاک اور استغراق نے ہی اُن سے غیر معمولی علمی کارنامے انجام دلوائے ۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنی تصانیف و تالیفات کی صحیح تعداد یاد نہیں تھی۔ کسی خط میں انھوں نے اپنی کتابوں کی تعداد ۱۹۴ بتائی ہے اور کہیں کچھ اور۔ لیکن ضرورت ہے کہ اب اس پر پوری توجہ سے کام کیا جائے اور ان کی جملہ تخلیقات کی فہرست بنائی جائے ۔۱۱۔ اکتوبر ۱۹۹۵ ء کے خط میں انھوں نے مظہر ممتاز قریشی صاحب کو لکھا تھا ” میری اپنی پرائیوٹ فہرست مطبوعات میں ۹۵۰ (نوسو پچاس ) مقالے مندرج ہیں اور ۱۷۱کتابیں ہیں، جن میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ میں صرف شریک مولف ہوں ۔“
اردو میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی چند کتا بیں ہیں لیکن ان میں ہر کتاب وقیع اور منفرد ہے۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں ۔ (۱) قانون شهادت ( ۱۹۴۴ء ) (۲) جدید قانون بین الممالک کا آغاز (۱۹۴۵ء ۔ ترجمہ ہے ) (۳) رسول اکرم کی سیاسی زندگی (۴) عہد نبوی میں نظام حکمرانی (۵) عہد نبوی کے میدانِ جنگ (۶) سلطنتوں کے باہمی برتاؤ کا دستور العمل (۷) صحیفہ ہمام بن منبہ ( تدوین ) (۸) خطبات بہاول پور۔
آخری کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ خطبات ہیں جو اسلامی یونیورسٹی بہاول پور کی دعوت پر ڈاکٹر صاحب نے دیے تھے۔ "خطبات بہاول پور" سیرت طیبہ پر غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے عمر بھر کے مطالعے کا نچوڑ ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے "خطبات مدراس" کے بعد یہ خطبات بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر افضل اقبال نے کر دیا ہے۔ اردو کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف عربی ، انگریزی ، فرانسیسی اور ترکی میں بھی ہیں۔ فرانسیسی میں قرآن حکیم کے مکمل ترجمے اور سیرت طیبہ پر دو جلدوں میں کتاب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فرانسیسی ترجمہ قرآن کے ۱۵ ۔ ایڈیشن شائع ہوئے۔ قرآن کا جرمن زبان میں ترجمہ پورا نہ کر سکے۔
اتنی بلند معیار محققانہ اور وقیع کتابوں کے مصنف ، مولف اور مترجم کو اس کی نگارشات کا اتنا معاوضہ تو ملنا چاہیے تھا کہ وہ معاش سے بے فکر ہو کر پر آسائش زندگی گزارتے ۔ خصوصاً مغرب میں مصنفوں کو معقول حق تصنیف ملنے کی روایت ملتی ہے، لیکن حیرت کی اور بظاہر نا قابل فہم بات ہے کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو ان کے قلم نے کچھ نہ دیا۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ "مجھے اپنی مطبوعات میں سے کسی پر بھی رائلٹی ایک پائی کی بھی نہیں ملتی ۔" اور علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ جیسے سچے ، کھرے اور بے غرض انسان کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب پیرس کے مشہور سائنسی ریسرچ سنٹر سے کوئی ۲۵ برس وابستہ رہے اور وہی ان کی معاش کا واحد ذریعہ تھا۔ ۱۹۷۸ ء میں رٹائرمنٹ کے بعد اسی ادارے سے وظیفہ یاب ہو گئے ، جس سے وہ اپنی سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ ۱۹۹۳ء میں فرانسیسی حکومت نے اپنے ملازمین اور وظیفہ خواروں کی تنخواہوں میں تخفیف کی تو ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ اور زیادہ تنگ ہو گیا۔ ان کے الفاظ ہیں "مجھ کم معاش کے لیے یہ ایک شدید دکھ ہے۔ اللہ مالک ہے ۔" لیکن اس کم معاشی میں بھی ڈاکٹر صاحب کی دُھن میں فرق نہیں آیا۔ قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا لیکن عمر کا آخر اثر ہوتا ہے۔ صحت میں بھی فرق آنے لگا تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے نام خطوط میں اس کا اظہار کرنے لگے تھے کہ بیمار ہوں ، بہت تھکا ہوا ہوں۔ علاج جاری ہے۔ ایک باران کو آپریشن کے لیے ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔ ایک بار مثانے کی بیماری کی وجہ سے ڈھائی مہینے شفا خانے میں رہنا پڑا لیکن بیماری سے پھر بھی نجات نہیں ملی۔ آخران کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ کسی نے ان کی چیک بک چُرالی اور کہنا چاہیے کہ ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی ۔ ان کی عمر بھر کی عادت یہ رہی کہ لوگوں کی مدد کرتے تھے لیکن اپنے لیے کسی سے کبھی قرض بھی نہیں لیا۔ اب نوبت یہ پہنچ گئی تھی کہ کھانے کو کچھ نہ تھا اور کئی دن بھوکے پیاسے رہ کر آخر کمزوری سے نڈھال ہو کر گر گئے ۔ ہسپتال پہنچائے گئے اور پھر آخر کار ان کے بھائی کی پوتی فلوریڈا (امریکا) سے آکر ان کو اپنے ساتھ لے گئیں ۔ کئی سال بستر پر گزار کر آخر ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی ایک تاریخ چھوڑ گئے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء (۱۳۲۶ ہجری ) حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مفتی ابومحمد خلیل بھی علمی مزاج کے آدمی تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل کا امتحان پاس کیا، پھر جامعہ عثمانیہ سے بی اے، ایل ایل بی ، اور ایم اے کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد بون یونیورسٹی ( جرمنی ) سے ڈی فل کیا اور سور بون یونی ورسٹی (فرانس) سے ڈی لٹ کی ڈگری لی۔ وطن واپس آکر جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات میں پڑھانے لگے۔ سقوط حیدر آباد کے بعد پیرس منتقل ہو گئے اور پھر وہیں کے ہور ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

غلطی ہائے مضامین۔۔۔کچھ خیالات ساسوں کے، کچھ سسروں کے ۔۔۔ احمد حاطب صدیقی



(احمد حاطب صدیقی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے لکھ نہیں سکے ہیں، اس لیے ان کا پرانا مضمون شائع کیا جارہا ہے،قارئین سے دُعائے صحت کی درخواست ہے۔ادارہ)

داماد والا کالم شاید ہر ’ساس‘ کو خوش آیا۔ اب معلوم ہوا کہ ہر داماد اپنی ساس کو ’خوش دامن‘ کہہ کہہ کر کیوں یاد کرتا ہے۔ خبر نہیں ’خوش دامن‘ کی ترکیب کس خوش فہم نے ایجاد کی؟کون جانے خوشی کس کے حصے میں آتی ہے اور دامن کس کا تار تار ہوتا ہے؟

مگر اپنے اطہر شاہ خان جیدیؔ مرحوم تو لوگوں کو نیکی کی تلقین یوں فرمایا کرتے تھے:

نیکی ہی کام آتی ہے
دنیا ہے دو دن کا مال
ساس کسی کی ہو جیدیؔ
نیکی کر دریا میں ڈال

البتہ ہمارے ایک سادہ لوح دوست اُردو کی ایک معروف کہاوت میں محض ایک حرف کا تصرف کرکے یہ کہتے ہیں کہ ’’جب تک ساس ہے، تب تک آس ہے‘‘۔ غالباً یہی عقیدہ حضرتِ بیدلؔ جونپوری مرحوم کا بھی رہا ہوگا۔ بیدلؔ صاحب بڑے ’دلدار‘ شاعر تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، ذرا اُن کے اِن اشعار کی بے ساختگی اور بالخصوص دوسرے شعر میں زبان و بیان کے کمالات ملاحظہ فرمائیے:


دوستو! دنیا ہے فانی، اطلاعاً عرض ہے
چار دن ہے نوجوانی، اطلاعاً عرض ہے
اِس جہاں میں جن بتوں کو ہم نے اپنا دل دیا
ہو گئے سب آں جہانی، اطلاعاً عرض ہے

اسی غزل میں وہ اپنی ساس کو ایک ’سانحۂ ارتحال‘ کی اطلاع پہنچاتے پہنچاتے یہ آس بھی لگا بیٹھے کہ

دوسری لڑکی مجھے دے، پہلے والی چل بسی
اے مرے بچوں کی نانی، اطلاعاً عرض ہے

ہاں تو داماد والا کالم پڑھ کر ’ساسیں‘ خوش ہوئیں، مگر سسرے ہتھے سے اُکھڑ گئے۔ اُردو کی ایک اور کہاوت ہے کہ ’’داماد تو ڈائن کو بھی پیارا ہوتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ ساس خواہ بہو کے لیے کتنی ہی ڈائن کیوں نہ ثابت ہو، مگر داماد کو خوش رکھنے کے لیے تن، من، دھن اور دامن ہمیشہ کشادہ رکھتی ہے۔

بنگلور (بھارت) سے محترمہ حلیمہ فردوس رقم طراز ہیں: ’’مزہ آگیا دام کی گلیوں کی سیر کرتے ہوئے۔ تان ٹوٹی بے چارے داماد پر، جسے اُلٹا بھی تو داماد ہی رہا۔ آخر… عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘‘۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے پروفیسر ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ (اللہ انھیں جلد از جلد ساس بنائے، آمین) فرماتی ہیں:

’’عنوان دیکھ کر پڑھے بغیر نہ رہا گیا۔ نیپال سے یہ تبصرہ موصول ہوا ہے کہ آدمی مرد کا بچہ ہے سسر ہونے تک پڑھ کر لطف آگیا۔ جیسے سر چڑھی کا بدلہ لکھا گیا انجانے میں‘‘۔ (ہم نے ایک کالم میں بیگم کو ’سرچڑھی‘ کہہ دیا تھا) لو صاحبو بات چوپال سے نیپال تک جا پہنچی۔

داماد کے بھرپور تذکرے کے باوجود لاہور کی ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کو کالم میں ’پھر بھی‘ تشنگی محسوس ہوئی۔ آپ فرماتی ہیں:

’’آخری شعر میں داماد کے ذکر پر کالم یک دم ’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ کے مصداق ہوگیا‘‘۔

جی ہاں ہوا تو ایسا ہی ہے۔ بس ہم یہ لکھنا بھول گئے تھے کہ… ’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے‘


پچھلے کالم (بعنوان ’’دائم آباد رہے گا داماد‘‘) میں ہم نے مولوی نورالحسن نیر مرحوم کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ ’داماد‘ دراصل دائم باد یا دائم آباد کا مخفف ہے۔ ہندوستان آکر داماد بن گیا (مراد ’پسر نسبتی‘ سے تھی) اس پر رابغ سعودی عرب سے محترم ڈاکٹر محمد سلیم لکھتے ہیں:

’’یہ درست نہیں ہے کہ دائم آباد ہندوستان میں آکر داماد بنا۔ شاباش (شادباش) کی طرح یہ داماد بھی فارسی میں کثیرالاستعمال ہے۔ لیکن ایران میں اس کا اطلاق صرف بیٹی کے شوہر پر ہی نہیں بلکہ بہن کے شوہر پر بھی ہوتا ہے۔ اکثر کسی کی بھی نئی شادی ہوئی ہو تو بھی داماد کہنا کوئی عجیب بات نہیں۔ حتیٰ کہ کوئی بچہ یا نوجوان بن ٹھن کر تیار ہوجائے تو اسے بھی کہتے ہیں داماد لگ رہے ہو۔ میری اہلیہ ایران سے ہیں اور فارسی ان کی مادری زبان ہے۔ اپنے بہنوئیوں کو داماد ہی کہتی ہیں۔ اب مجھے تو نہیں، لیکن ہمارا بیٹا نہا دھوکر تیار ہوجاتا ہے تو اس کو ضرور داماد کہتی ہیں۔ صوتی مماثلت کی بنا پر بعض لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ داماد دائم آباد کی تخفیف ہے جو ممکن ہے درست ہو۔ بہرحال داماد کا استعمال فارسی میں پہلے سے ہے، ہندوستان کی ایجاد نہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے حافظؔ و سعدیؔ کے دو اشعار سے سند بھی دی ہے:

شکایت کند نو عروسی جوان
بہ پیری ز دامادِ نا مہربان

(سعدیؔ)

مجو درستیِ عہد از جہانِ سُست نہاد
کہ این عجوزہ عروسِ ہزار دامادست

(حافظؔ)

اگر ہماری فارسی بھابی ہمارا اُردو کالم پڑھ رہی ہوں تو اُن سے دست بستہ درخواست ہے کہ ہمارے بھائی پر ’نظر ثانی‘ فرمائیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

بنانے کی ضرورت ہے، اور یہ لائحہ عمل کسی کتب خانے کے ماحوال میں بیٹھ ہی کر طے پاسکتا ہے، واللہ ولی التوفیق۔
2023-12-20
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

جب ہمارا حضرت قاضی محمد حبیب اللہ علیہ الرحمۃ کے یہاں آنا جانا شروع ہوا، اور ان کے خانوادےکے نوائط برادری سے تعلق اور بھٹکلی نوائط کے برخلاف ان کی علم وکتاب کی شناخت سامنے آتی تو بڑی حیرت ہوتی، یہی زمانہ تھا کہ ۱۹۷۲ء میں مدرسہ جمالیہ کے طلبہ کاسالانہ مجلہ نکلا، جس میں ہمیں پر بھی ایک مضمون لکھنے کی ذمہ داری آئی، انہی دنوں تاریخ خانوادہ قاضی بدر الدولۃ ہمارے ہاتھ لگی، جس میں اس خانوادے کا نسب نامہ درج تھا، جو کہ * قاضی رضی الدین مرتضی بن قاضی محمود کبیر (۹۹۵ھ )بن قاضی احمد بن فقیہ ابو محمد بن فقیہ محمد اسماعیل ( ف ۸۷۹ھ ) سے جا ملتا تھا*۔ یہ دونوں باپ بیٹے قاضی رضی اور قاضی محمود ۱۵۱۰ء میں گوا پر پرتگالی قبضے سے پہلے عادل شاہی دور میں یہاں کے قاضی رہے تھے، یہ دیکھ کر ہمارا ذہن ٹھٹھک گیا ،اور حضرت قاضی محمدحبیب اللہ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفسار کیا کہ بھٹکل میں مخدوم فقیہ ابو محمدؒ اور مخدوم فقیہ محمد اسماعیلؒ نامی دو بزرگوں کے مزارات پائے جاتے ہیں، یہ دونوں یہاں کے مرجع خلائق بزرگ ہیں، ہمیں شک ہورہا ہے کہ آپ کا خانوادہ ان بزرگوں سے جا ملتا ہے۔ تو قاضی صاحب نے جواب دیا کہ آپ کی بات درست ہے، یہ ہمارے جد اعلی ہیں، اور ان کے مزارات کی زیارت کے لئے میں بھٹکل جاچکاہوں،انہی معلومات کی بنیاد پر الجمالیہ میگزین میں ہماری زندگی کا پہلا مضمون (قبیلۃ من جنوب الھند) کے عنوان سے شائع ہوا تھا، پھر بھٹکل میں قاضی صاحب کے شاگرد خاص مولانا قاضی محمد احمد خطیبیؒ سے گفتگو پر معلوم ہوا، کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒبھی اس بات کو مانتے تھے، اور وہ قاضی صاحب کی طرح اپنے جد اعلی کے مزار کی زیارت کے لئے بھٹکل تشریف لاچکے تھے، اس کی تصدیق مولانا علی سکری اکرمی مرحوم نے یہ کہ کر کی کہ یہ بات انہیں اچھی طرح یاد ہے،یہ ان کے بچپن کی بات ہے، ڈاکٹر صاحب کی میزبانی کا شرف ان کے بزرگوں کو حاصل ہوا تھا، اور ایک ملاقات میں مورخ بھٹکل مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی مرحوم نے فرمایا کہ مولانا قاضی محمد حبیب اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد مولانا قاضی محمد عبیدا للہ رحمۃ اللہ علیہ بھی بھٹکل کے مخدو،م فقیہ اسماعیلؒ کو اپنا جد اعلی مانتے تھے،اور اسی تعلق اور صلہ رحمی کے جذبے سے بھٹکلی نوائط برادری کے جو طلبہ مدرسہ محمدی میں داخلہ لیتے تھے آپ ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔ اس کفالت سے خواجہ صاحب بھی فیض یاب ہوچکے ہیں۔
اس وقت سے یہ بات دل میں پھانس بن کر رہ گئی کہ *ٹھیک ہے تجارت وکاروبار اور دوسرے میدانوں میں بھٹکل کے نوائط کو ناموری اور شناخت ملی ہے، لیکن خانوادہ قاضی بدر الدلۃ جیسا علم وکتاب کی شناخت رکھنے والا خانوادہ جن سے منسوب ہے، اگر وہی علم وکتاب کی شناخت سے محروم رہیں ، تو چاہے دوسرے میدانوں میں ان کی ترقیاں آسمان کی بلندیوں کو چھو جائیں، مگر علم وکتاب کی شناخت ان کو کونہ مل سکے تو دوسری قابل فخر سمجھی جانے والی باتیں اس کے سامنے ہیچ ہوجائیں گی *۔
یہی فکر تھی جو ایک عشرے تک دل ودماغ میں پلتی رہی، یہاں تک کہ میرے سرپرست الحاج محی الدین منیری مرحوم جب ۱۹۸۱ء میں ناظم جامعہ منتخب ہوئے، اور پھر ایک دو سال میں جامعہ آباد میں کتب خانے کی نئی عمارت تعمیر ہوئی تو آپ نے اس عاجز کو ہدایت کی کہ اللہ تعالی نے تمہیں کتابوں کا ذوق دے کر اس میدان سے وابستہ کیا ہے، کتب خانے کی نئی وسیع عمارت کھڑی ہے، جس میں ایک دو ٹوٹی پھوٹی الماریوں میں چند پرانی کتابیں پڑی ہیں ، اس کتب خانے کو آباد کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لو، شاید یہ قبولیت کا وقت تھا یا منیری صاحب کے اخلاص کا اثر ، کہ اللہ تعالی نے اس عاجز کو ایک عظیم مقصد کے لئے اپنی کچھ توانائیاں صرف کرنے کے لئے قبول کیا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے دو گل سرسبد ( ۲)۔۔۔تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )

۱۹۷۰ء میں اس ناچیز کا مدرسہ جمالیہ مدراس(چنئی ) میں جب داخلہ ہواتھا، تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے چچا زاد بھائی اور اس خانوادے کے ہندوستا ن میں آخری عظیم بزرگ حضرت مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ بقید حیات تھے۔ہمیں قاضی صاحب کی خدمت میں آپ کے بڑے ہی عقیدت مند فرد ملا محمد حسن مرحوم( سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل) لے گئے تھے، یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ دوران طالب علمی ہفتہ دو ہفتہ کے وقفے سے حضرت کی خدمت میں مسلسل حاضری کا موقعہ ملتا رہتا تھا۔ قاضی صاحب کی زندگی کے مختلف پہلؤوں کا اس بزم میں وقتا فوقتا تذکرہ ہوتا رہا ہے، یہ ایسی شخصیات تھیں جن کے باربار تذکرے سے دل کو روشنی ملتی ہے، اور راہ زندگی کے خارزار میں مشکل راہیں ہموار ہوتی ہیں، ان شاء اللہ کبھی موقعہ ملے تو آپ کی زندگی کے مختلف پہلؤوں پر مستقل بات ہوگی، لیکن یہاں چلتے چلتے آپ کی زندگی کے چند ایک پہلؤوں کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
آپ کے لکھنو اور شمالی ہند کے سفر کے سلسلے میں آپ کے برادر زادہ محمدعبید اللہ مرحوم رقم طراز ہیں کہ " لکھنو میں قاضی صاحب کا قیام فرنگی محل کے خانقاہ آستانہ نعیمیہ میں تھا۔ یہاں مولانا ناصر میاں سے ملاقات ہوئی ۔ جن کے جدا مجد مولانا بحر العلوم والا جاہ کے دور حکومت میں مدراس آئے تھے۔ قاضی صاحب ایک ہفتہ زیادہ مولانا ناصرمیاں کے مہمان رہے ۔قاضی صاحب کا خیال تھا کہ دریا باد جا کر مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ سے ملاقات کا پروگرام بنایا جائے ۔ اتفاقی طور پر مولانا عبدالماجد دریابادیؒ امین آباد گئے تھے اور جب آپ پر ظاہر کیا گیا کہ قاضی محمد حبیب اللہ آپ سے ملاقات کے لئے آنے والے ہیں تو مولانا نے آنکھیں بند کیں اور فرمایا " *اللہ اللہ دنیا میں صحابہ کرایہ جیسے بزرگان موجود ہیں۔ لیکن کنارہ کشی اختیار کئے ہیں*؟ مولانا نے پھر آنکھیں کھولیں اور فرمایا" قاضی صاحب بزرگ کو یہاں لانے کی زحمت نہ کریں ، وہ خود ٹھیک آٹھ بجے قاضی صاحب سے ملاقات کے لئے فرنگی محل آئیں گے ۔فرنگی محل میں قاضی صاحب کے میزبان ناصر میاں کو بلایا گیا کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی قاضی صاحب کی ملاقات کے لئے فرنگی محل آرہے ہیں تو ناصر میاں ششدر رہ گئے اور فرمایا :* تحریک خلافت کے دور میں فرنگی محل سیاسی مرکز رہا ، ماجد میاں اپنے اوقات فرنگی محل میں گزارتے تھے تحریک خلافت کے بعد ماجد میاں نے دوبارہ اس طرف رُخ نہیں کیا ۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ طویل عرصہ کے بعد ماجد میاں آرہے ہیں*، دوسرے دن ٹھیک آٹھ بجے مولانا عبد الماجد دریا بادی تشریف لائےآدھے گھنٹے تک قاضی صاحب سے تخلیہ میں گفتگو کی"۔
موصوف آپ کی زندگی کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ " قاضی صاحب متوکلانہ زندگی بسر کرتے تھے ۔ مدرسہ محمدی سے تنخواہ ملاکرتی تھی ۔* نکاح خوانی یا کسی تقریب پر کچھ نذرانہ ملتا تھا تو اس وقت اس نذرانہ میں اپنی طرف سے مزید رقم شامل کر کے بطور تحفہ دولھا یا تسمیہ خوانی پڑھنے والے بچوں کو اپنی طرف سے عطیہ کہ کر دیتے تھے*"۔
برکاتی صاحب نے ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کے بارے میں جو بیان کیا ہے، عمل وکردار میں قاضی صاحب اس کے ہوبہو شخصیت رکھتے تھے۔ وہی مال وحشمت سے بے نیازی، وہی زہد و للہہت۔ زمانے کے حالات اور ترقیوں کے ساتھ حاجات وضروریات گھٹتے بڑھتے رہتی ہیں، مرور زمانہ اور معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ حالات بدلتے ہیں، اس کے باوجود اسلاف کی زندگیاں ہمیشہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ رہتی ہیں، *بھٹکل میں آپ کے فیض یافتہ علماء میں یہ اوصاف ہم نے دیکھے ہیں، جن کے لئے اب آنکھیں ترستی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں فارغین مدارس دینیہ کی بہتات ہے،شاید ہی یہاں کوئی گھر فارغین مدارس اور فضلاء سے خالی ہو،اس کے باوجود یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آج سے بیس پچیس سال قبل جب کہ اس نسل کے جو چند لوگ ہمارے سماج میں باقی رہ گئے تھے وہ اپنے علم ، تقوی اور للہیت میں آج کل پائے جانے والی فارغین کی اس بھیڑ پربہت بھاری تھے، بس انکےپاس قوت ابلاغ کی کمی تھی، سیدھے سادھے لوگ تھے، تقریر و خطابت کے فن سے واقف نہیں تھے،نہ ہی لچھے دار زبان و بیان میں انہیں مہارت حاصل تھی، یہ علماء زیاددہ تر مدرسہ محمدی مدراس ( چنئی)اور دارالعلوم لطیفیہ ویلور کے بزرگان کے فیض یافتہ ہوا کرتے تھے، جہاں ٹامل اور دکنی زبان رائج تھی، لکھنو اور دہلی کی ٹکسالی زبان ان سے قریب ہوکرنہیں گذری تھی، شاید یہی ان کے زہد ،علم وللہیت کا شہرہ نہ ہونے کا بڑا سبب بنا، کفایت اور عزت نفس کے ساتھ زندگیاں خاموشی سے گزار کر اس دنیا سے چلے گئے*۔

Читать полностью…

علم و کتاب

حفیظ جالندھری(وفات ۲۱ دسمبر ۱۹۸۲ء) ۔۔تحریر دوارکا داس شعلہ

Читать полностью…

علم و کتاب

بنایا ہو۔ (جاری )
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے دو گل سرسبد ( 1)*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

مورخہ ۱۷ / دسمبر ۲۰۰۲ء ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا، اس مناسبت سے ڈاکٹر صاحب کو یاد کرتے ہوئے ہم نے مسعود احمد برکاتی (مدیر ہمدرد نونہال کراچی ) کا ڈاکٹر صاحب پر لکھا ہوا ایک فراموش شدہ مضمون علم وکتاب گروپ پر پوسٹ کیا تھا، احباب محفل کی پہلے روز کی خاموشی سے تو یہ احساس بن رہا تھا کہ شاید ہم کسی اہم شخصیت کی رحلت پر ابتدائی دنوں میں جذباتی ہوکر ان کے بارے میں چندایک چیزیں ضرور پڑھ لیتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گذر تا جاتا ہے تو پھر ان شخصیات میں ہماری دلچسپی ختم ہوتی جاتی ہے، لیکن دوسرے روز احباب کے تاثرات اور انفعال سے محسوس ہوا کہ کم از کم ہماری اس بزم کے احباب ایسے نہیں ہیں۔ اس رویہ سے واقعی ہمارا حوصلہ بڑھا ہے اور اس کارواں کے لئے مزید محنت کرنے کی تحریک پیدا ہوئی ہے۔
برکاتی صاحب کے مضمون پر جو تاثرات موصول ہوئے ہیں، ان میں آمبور سے ڈاکٹر ابوبکر ابراہیم عمری کا بھی ایک تاثر ہے ،اس میں آپ فرماتے ہیں کہ:
"علامہ حمید اللہ مرحوم کا تعلق شہر مدراس کے علمی خانوادہ "قاضی بدرالدولہ" سے تھا. جس کا تذکرہ مولانا یوسف کوکن عمری نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف خانوادہ قاضی بدرالدولہ میں کیا ہے.... استاد محترم مولانا حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی رحمۃ اللہ... جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں... ڈاکٹر حمید اللہ کے شاگرد رہ چکے ہیں.... فرماتے تھے کہ.... آپ بڑے محتاط رہا کرتے تھے کسی کو اپنے زیادہ قریب آنے نہ دیتے اور اپنا کھانا خود اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے"۔
قاضی بدرالدولۃ کے خانوادے کی جب بات آئی تو ہمارے حافظے کے دھندلکے سے کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، ان کا ذکر پہلے بھی بارہا یہاں آچکا ہے، پر بھی تذکیر میں کیا حرج ہے؟، کچھ نئے احباب بھی تو اس بزم میں شامل ہوگئے ہیں، اور بات کو مربوط کرنے کے لئے تکرار کے بغیر چارہ بھی تو نہیں۔خانوادہ قاضی بدرالدولۃ کے مصنف رقم طراز ہیں کہ:
"جنوبی ہند کا یہ مشہور و معروف علمی خاندان قاضی بدرالدولہ ہے۔(شاید) تاریخ میں کوئی ایسا عالی شان خاندان نظر نہیں آتا ہو اس طرح سترہ پشتوں تک اپنی علمی قدر و منزلت کو قائم رکھتے ہوئے دین اور علم کی زرین خدمات کرتا چلا جارہا ہو " ۔مصنف نے یہ بات آج سے کوئی ساٹھ سال قبل کہی تھی، اس دوران مزید کئی نسلوں کا اضافہ ہوچکا ہے،لیکن اس وقت جو حالات سننے میں آرہے ہیں، ان سے تو ایک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ سنہری کڑی اب کہیں ٹوٹنے کی کگار پر تو نہیں ہے،خدا کرے ہمارا یہ صرف خوف ہی ہو۔
خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کی نسبت ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے دادا مولانا محمد صبغۃ اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے جو قاضی بدر الدولۃ کے لقب سے مشہور تھے، کوکن عمری نے لکھا ہے کہ ( (جنوبی ہند میں قاضی بدر الدولۃ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے زمانے کی بدعات و سیئات کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کو مٹانے کی کوشش کی(۴۳۷ )۔آپ کی کتاب فوائد بدریہ اردو زبان میں سیرت النبیﷺ کے موضوع پر مطبوعہ اولین کتاب مانی گئی ہے۔قاضی بدر الدولۃ کے والد شرف الملک مولانا محمد غوث مدراسی (وفات : ۱۲۳۸ھ ) سلطنت والاجاہی میں مدارالمہام کے منصب پر فائز تھے، ساتھ ہی ساتھ آپ کا علمی مقام بھی بہت بلند تھا، آپ کی کتاب" نثر المرجان فی رسم القرآن" ، قرآن کریم کے رسم املا پر ایک عظیم ترین مرجع سمجھی جاتی ہے، اس کتاب کا نیا ایڈیشن (۱۴ ) جلدوں میں ابھی چند سال قبل مصر سے شائع ہوا ہے۔ کوکن عمری نے آپ کی کتاب دوستی کے سلسلے میں واقعہ نقل کیا ہے کہ نواب عظیم الدولۃ (ریاست آرکاٹ) نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی امداد واعانت سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تو وہ انہیں ایک لاکھ روپیہ دیں گے۔ جب وعدے کے ایفا کا وقت آیا اور نواب عظیم الدولہ اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے تو مولوی صاحب نے کہا انہیں ایک لاکھ روپیہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ قاموس کا وہ نسخہ دے دیجئے جو سرکاری کتب خانے میں موجود ہے۔ چنانچہ نواب عظیم الدولہ نے یہ نسخہ انہیں دے دیا اور یہ نسخہ اب تک خاندان میں محفوظ ہے۔ اس پر جو عبارتیں ہیں ان کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ محمد بن الشیخ حجر الشافعی نے صفحہ صفحہ اور سطر سطر کو اصل نسخہ سے مقابلہ کیا اور شریف مکہ نے یہی نسخہ سلطان روم(خلیفہ عثمانی ) کو بطور تحفہ بھیجا تھا۔ مولانا عبدالحق بن سیف الدین الترک الدہلویؒ نے اس کا مطالعہ کیا تھا مولوی غلام علی آزاد بلگرامیؒ کی ملکیت میں بھی چند دن یہ نسخہ رہا۔ انہوں نے شعبان۱۱۷۳ھ کی تاریخ لکھی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد بلگرامیؒ کے ذریعہ یہ نسخہ اورنگ آباد سے مدراس پہنچا اور والا جاہی سرکاری کتب خانے میں داخل ہوا تھا (۱۶۲ )۔

Читать полностью…

علم و کتاب

میں مولانا فارقلیط پر سالانہ یادگاری مجلہ شائع کیا جس کی ترتیب وتیاری کی ذمہ داری اس کتاب کے مرتب سہیل انجم کے حصہ میں آئی۔ انھوں نے شب وروز محنت کرکے ایک واقعی یادگار مجلہ تیار کیا جسے علمی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے بعد سہیل صاحب نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور2012ء میں مولانا پر لکھے گئے مضامین اور ان کے کچھ اداریوں کا مجموعہ ’’مولانا محمد عثمان فارقلیط ، حیات وخدمات‘‘ کے نام سے شائع کیا جو 256؍ صفحات پر مشتمل تھا۔ اس کے بعدانھوں نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کاوش کی اور 2014ء میں 304؍ صفحات پر مشتمل ایک اور کتاب ’’عظیم صحافی مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریے‘‘ شائع کی جس میں مولانا کے ڈیڑھ سو سے زائد اداریوں اور مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ کتاب بہت مقبول ہوئی اور اب شائقین کو تلاش کے بعد بھی نہیں مل پارہی ہے ۔ سہیل انجم پر مسلسل اس کا تقاضا تھا وہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کریں۔ اس کے پیش نظر انھوں نے سابقہ دونوں کتابوں پر از سر نو نظر ڈالی اور مزید مضامین اور اداریے جو دستیاب ہوئے انھیں شامل کتاب کرکے ایک تیسری کتاب مرتب کر دی۔ یہ کتاب ’’مولانا محمد عثمان فارقلیط: صحافی، مناظر، مفکر‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں مرتب کا پیش لفظ ہے جس میں مولانا فارقلیط کے احوال وخدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرا مضمون مولانا فارقلیط کے صاحبزادے محمد فاروق کا ہے ’’ہمارے والد مولانا محمد عثمان فارقلیط‘‘۔ اس میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ مولانا کے گھریلو احوال پر لکھا ہے جو ان کے علاوہ کوئی اور نہیں لکھ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ پروفیسر اختر الواسع کا مضمون ’’قلم کی حرمت کے امانت دار ‘‘اور فاروق ارگلی کا ’’مایہ ناز صحافی ‘‘ہے۔
*پہلا باب* حرفِ اعتراف ہے جس میں ملک کے اٹھارہ اہل قلم نے مولانا فارقلیط کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کے فکر وفن پر روشنی ڈالی ہے۔ جن میں مولانا امداد صابری، مالک رام،مولانا قاضی اطہر مبارکپوری، پروفیسر نثار احمد فاروقی، پروفیسر ضیا الحسن فاروقی، مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا اخلاق حسین قاسمی اور مولانا عتیق الرحمن سنبھلی جیسے نامور لوگ شامل ہیں۔
*دوسرا باب* خود نوشت ہے ۔ الجمعیۃ سے سبکدوشی کے بعد مولانا نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے عنوان سے اپنے حالات لکھنے شروع کیے تھے جو مکمل نہ ہوسکے۔ یہ حالات آزادی سے پہلے اخبار زمزم لاہور کے زمانے تک ہیں۔ اس کے بعد کے حالات مولانا کے چچازاد بھائی سلیمان صابر نے لکھے ہیں۔ اس باب میں مولانا کے دو اداریے بھی ہیں۔ ایک روزنامہ الجمعیۃ کا پہلا اداریہ اور دوسرا اس کا بالکل آخری اداریہ جس کے بعد مولانا الجمعیۃ سے سبکدوش ہوگئے۔
*تیسرا باب* مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب مضامین ہے جس میں مولانا کے دو درجن سے زائد انتہائی اہم مضامین ہیں ۔
*چوتھا باب* مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریے ہے جوکتاب کا سب سے اہم باب ہے اور کتاب کی نصف ضخامت کے بقدر ہے۔ اس کے ذیلی عناوین یہ ہیں :
مسلمانوں سے خطاب ۔ عالم اسلام۔ فرقہ وارانہ فسادات۔ اخبارات کا رول اور رویہ۔ ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی۔ اردو کا مسئلہ۔ سنگھ پریوار اور ہند وپاک تعلقات۔
کتاب کے مرتب سہیل انجم صاحب خود معروف صحافی وادیب اور تحقیقی مزاج، منفرد انداز اور دلآویز اسلوب کے حامل صاحب قلم ہیں جن کی نگارشات متعدد اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ سہیل صاحب نے 1958ء میں ضلع بستی(موجودہ سنت کبیر نگر)میں ایک علمی خانوادہ میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ایک معتبر عالم، بہترین ادیب وشاعر اور اعلیٰ پایے کے مقرر تھے، سہیل صاحب نے اپنی ’ نقش برآب‘ میں اپنے والد ماجد کا بڑا عمدہ خاکہ لکھا ہے۔ سہیل انجم 1985ء سے میدان ِ صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنی خوش گفتاری، سنجیدہ مزاجی اور اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ اپنی شگفتہ نگاری اور حق گوئی وبے باکی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے ہزاروں مضامین ومقالات اور درجنوں کتابیں شائع ہوکر قبول عام حاصل کرچکی ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں کو مختلف اکیڈمیوں کی جانب سے انعام سے نوازا گیا ہے۔ ابھی گزشتہ سال اردو اکیڈمی لکھنؤ نے ان کی کتاب ’’نقش برسنگ‘‘ کو پچیس ہزار روپے کے انعام سے نوازا اور اسی سال مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے اس کتاب کو پندرہ ہزار روپے کا انعام دیا۔ وہ 2002ء سے عالمی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے منسلک ہیں۔
اس کتاب کی ترتیب واشاعت پر سہیل انجم صاحب لائق صد مبارکباد ہیں کہ ان کی کاوشوں کی بدولت علم وصحافت کی موجودہ دنیا مولانا فارقلیط جیسے عظیم صحافی وصاحب قلم سے متعارف ہوئی۔ رب کریم اسے قبول عام کی دولت سے نوازے۔ آمین۔
ضیا ء الحق خیرآبادی
ایڈیٹر مجلہ رشد وہدایت ومدرس دارالعلوم تحفیظ القرآن ، سِکھٹی، مبارکپور اعظم گڈھ
4؍جمادی الاخریٰ 1445ھ مطابق18؍دسمبر 2023ء دوشنبہ

Читать полностью…

علم و کتاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

*تعارف کتاب*

*مولانا محمد عثمان فارقلیط* : صحافی، مناظر، مفکر
مرتب : *سہیل انجم*
صفحات : 512 قیمت :700
ناشر: مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد ضلع مئو (یوپی)
رابطہ : 9235327576

*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*

*مولانا محمد عثمان فارقلیط* اردوصحافت کے آفتاب وماہتاب تھے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک ان کا قلم اپنی تمامتر جولانیوں کے ساتھ رواں دواں رہا۔ مولانا کے انتقال پر تقریباً نصف صدی کا عرصہ ہورہا ہے اور اس عرصہ میں ہم نے مولانا کو مکمل طور پر فراموش کردیا ہے۔ ہماری نسل نو مولانا کے کارناموں سے کیا واقف ہوتی اکثر لوگوں کو ان کا نام بھی معلوم نہ ہوگا کہ یہ کون تھے اورتقسیم ہند کے بعد ملت اسلامیہ ہند کے ٹوٹے حوصلوں میں جان ڈالنے اور اس کے اندر سے خوف کی نفسیات کو دور کرنے میں ان کے قلم کا کیا کردار رہا ہے۔ ان کے اداریوں کو پڑھ کر آج بھی دل میں ایمان کی حرارت دوڑ جاتی ہے اور سیاسی بصیرت اور شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ جزائے خیردے معروف صحافی وصاحب قلم سہیل انجم کو کہ انھوں نے اس علم کُش اور کتاب بیزار ماحول میں مولانا کی حیات وخدمات پر لکھے گئے مضامین اور ان کے اداریوں اور منتخب مضامین کو کتابی شکل دینے کی ہمت کی۔ ان شا ءاللہ اس کتاب کے ذریعہ ہماری نسل نو کو مولانا کے افکار ونظریات کی اہمیت وافادیت معلوم ہوگی اور اس کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔
اردو زبان کے وہ صحافی جن کا نام کسی بھی اخبار کی مقبولیت اور اس کو وقار واعتبار عطا کرنے کا ضامن ہوتا تھا،جن کی تحریروں کے شیدائی عوام وخواص سبھی ہوتے تھے، ان یکتائے زمانہ صحافیوں میں ایک نمایاں نام مولانا فارقلیط مرحو م کا بھی تھا جن کے قلم سے نکلے ہوئے اداریے اور مضامین ادبی، سیاسی ا ور حکومتی حلقوں میں دیانتدارانہ صحافت کی علامت اور سند سمجھے جاتے تھے ۔ مولانا محمد عثمان فارقلیط ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہونے والے ایک عام انسان تھے لیکن انھوں نے اپنی ذاتی محنت وکاوش، ذوق مطالعہ اور شوق ودلچسپی سے اپنا ایک مقام بنایا ۔ صحافت تو خیر ان کا طغرائے امتیاز ہے، وہ ایک بہترین مناظر اور بلندپایہ مفکر بھی تھے۔ ان کی دینی وعلمی زندگی کا آغاز آریوں، پادریوں اور قادیانیوں کے ساتھ مناظرہ سے ہواجس میں انھوں نے فریق مخالف کو اپنی مدلل باتوں سے لاجواب کردیا۔ اس کے بعد وہ میدانِ صحافت میں آئے تو پوری زندگی اسی میں گزار دی جس کا آغاز بھی اخبارالجمعیۃ سے ہوا اور اختتام بھی اسی پر ہوا۔ اس کی تفصیلات اس کتاب میں موجود ہیں۔مولانا کی پوری زندگی خدمت لوح وقلم میں گزری۔ بلاشبہ انھوں نے ہزاروں نہیں لاکھوں مضامین مختلف اخبار وجرائداور مجلات میں لکھے۔ اگر کوئی صاحب ہمت صرف ان کا انتخاب شائع کردے تو درجنوں جلدیں تیار ہوجائیں گی۔ مولانا نے پوری زندگی حق وصداقت کا پرچم بلند رکھا، قلم کی عزت وحرمت پر کبھی آنچ نہ آنے دی اور نہ ہی عصمت صحافت کو تار تار ہونے دیا۔ مولانا فارقلیط اپنے دینی افکار ونظریات اور پختہ ایمان وعقیدہ کے ساتھ مخلصانہ وبے باکانہ انداز میں ملک وملت اورقوم کے مفاد میں میدان صحافت میں ڈٹے رہے اور ان کا قلم اندیشۂ سودوزیاں کی پروا کیے بغیر پوری روانی کے ساتھ چلتا رہا جس کے نتیجہ میں انھوں نے قید وبند کی صعوبت بھی برداشت کی اور جانی ومالی نقصان بھی اٹھایا لیکن اپنے اصول اور ضمیر سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کے قلم کی صداقت، انداز کی لطافت، تحریرکی جاذبیت اور موضوع کی اہمیت وافادیت کا اعتراف ان کے ہم عصر ادبا واہل قلم نے کھلے دل کے ساتھ کیا ہے اور ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ جس کے نمونے اس کتاب کے باب اول میں ان کی شخصیت پر لکھے گئے مضامین میں جابجا ملیں گے۔
میںنے مولانا فارقلیط کا نام تو بہت پہلے سے سن رکھا تھا لیکن ان کی اہمیت وعظمت اس وقت پیدا ہوئی جب ماہنامہ ضیاء الاسلام کے قاضی اطہر مبارکپوری نمبر کے لیے قاضی صاحب کی خود نوشت کاروان حیات کا مسودہ پڑھا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ میری صحافتی زندگی کے استاذ ورہنمامولانا فارقلیط تھے ،جن کی سرپرستی میں ڈھائی سال تک وہ بحیثیت معاون مدیر زمزم سے منسلک رہے۔ انھوں نے ان کے متعدد قیمتی مشوروں کا ذکر اس کتاب میں کیا ہے جس سے مولانا فارقلیط کی عبقریت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں قاضی صاحب نے ان کی دوکتابوں کا ذکر کیا ہے جن کا نام کلید خود شناسی اور رہنمائے عقل ہے۔ یہ دونوں کتابیں لاہور سے شائع ہوئی تھیں اس لیے قاضی صاحب کے علم میں تھیں۔ چونکہ مولانا کا تمام وقت صحافت کی خدمت میں صرف ہوگیا اس لیے وہ تصنیف وتالیف کے لیے اپنے آپ کوفارغ نہ کرسکے۔اردو دنیا کے نامورادیب وصحافی مولانا عبدالماجد دریابادی کو مولانا فارقلیط سے بڑا گہرا تعلق تھا ،انھوں نے اپنی نمازجنازہ پڑھانے کے لئے جن لوگوں کو نامزد کیا تھا ان میں ایک مولانا فارقلیطؒ بھی تھے ،اور جن بزرگوں سے مرنے کے بعد دعاء مغفرت کرانے کی تاکید کی تھی ان

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر محمود احمد غازی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد غزالی کی رحلت پر علم وکتاب واٹس اپ گروپ پر موصولہ چند مراسلے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

اللہ مغفرت کرے، دارالمصنفین اعظم گڑھ کی صد سالہ تقریبات کے موقعہ پر ملاقات ہوئی تھی، بڑے خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے، دارالمصنفین کو دیکھ کر ان کی بانچھیں کھل رہی تھیں، اور بہت خوش نظر آرہے تھے، چونکہ وہ جج کے منصب پر فائز تھے لہذا انہیں بغیر ویزا کے انڈیا آنا ممکن ہوسکا تھا، ورنہ پڑوس سے بہت سارے اہل علم کی اس موقعہ پر شرکت کی خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی۔ سنا ہے کہ ڈاکٹر محمود غازی سے زیادہ علمی صلاحیت کے حامل تھے، لیکن وہ اپنے پروفیشن اور تدریس سے وابستگی کی وجہ سے عام حلقوں میں زیادہ متعارف نہ ہوسکے، ہمارے بزرگ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی صاحب غالبا آپ کے ماموں لگتے ہیں، اللہ آپ کا سایہ تادیر باقی رکھے اور آپ کو صحت وعافیت رکھے،جس کاندھلوی خانوادے نے برصغیر کو کئی صدیوں تک علم وتحقیق سے روشن کیا، اب یہ شمعیں بجھتی جارہی ہیں، اور ان کی جگہ لینے والا کوئی نظر نہیں آرہا ہے، اللہ اس قوم کی حفاظت کرے۔ ہم خاص طور پر حضرت مولانا نور الحسن راشد صاحب کی خدمت میں بھی تعزیت پیش کرتے ہیں، ان کے خانوادے کے لئے یہ عظیم صدمہ ، اور امت کے لئے بڑا خسارہ، ہمارے ساتھیوں مین ڈاکٹر سید عزیر الرحمن صاحب اور سید محبوب الرحمن صاحب کے تاثرات کا انتظار رہے گا، یہ دونوں ان سے ذاتی طور پر واقفیت رکھنے والے لوگ ہیں(ع۔م۔م)

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر محمد حمید اللہ۔۔۔ اسلام کی فلاحی ریاست(فائل سائز 108 mb)

Читать полностью…

علم و کتاب

علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کی زندگی پر جناب مسعود احمد برکاتی ( مدیر ہمدرد نونہال کراچی) کے تاثراتی مضمون سے اقتباس۔
۱۹۷۸ ء میں رٹائرمنٹ کے بعد اسی ادارے سے وظیفہ یاب ہو گئے ، جس سے وہ اپنی سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ ۱۹۹۳ء میں فرانسیسی حکومت نے اپنے ملازمین اور وظیفہ خواروں کی تنخواہوں میں تخفیف کی تو ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ اور زیادہ تنگ ہو گیا۔ ان کے الفاظ ہیں "مجھ کم معاش کے لیے یہ ایک شدید دکھ ہے۔ اللہ مالک ہے ۔" لیکن اس کم معاشی میں بھی ڈاکٹر صاحب کی دُھن میں فرق نہیں آیا۔ قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا لیکن عمر کا آخر اثر ہوتا ہے۔ صحت میں بھی فرق آنے لگا تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے نام خطوط میں اس کا اظہار کرنے لگے تھے کہ بیمار ہوں ، بہت تھکا ہوا ہوں۔ علاج جاری ہے۔ ایک باران کو آپریشن کے لیے ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔ ایک بار مثانے کی بیماری کی وجہ سے ڈھائی مہینے شفا خانے میں رہنا پڑا لیکن بیماری سے پھر بھی نجات نہیں ملی۔ آخران کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ *کسی نے ان کی چیک بک چُرالی اور کہنا چاہیے کہ ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی ۔ ان کی عمر بھر کی عادت یہ رہی کہ لوگوں کی مدد کرتے تھے لیکن اپنے لیے کسی سے کبھی قرض بھی نہیں لیا۔ اب نوبت یہ پہنچ گئی تھی کہ کھانے کو کچھ نہ تھا اور کئی دن بھوکے پیاسے رہ کر آخر کمزوری سے نڈھال ہو کر گر گئے ۔ ہسپتال پہنچائے گئے اور پھر آخر کار ان کے بھائی کی پوتی فلوریڈا (امریکا) سے آکر ان کو اپنے ساتھ لے گئیں* ۔ کئی سال بستر پر گزار کر آخر ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی ایک تاریخ چھوڑ گئے۔
مکمل مضمون بھٹکلیس ڈاٹ کام کی درج ذیل لنک پر دستیاب ہے(عبد المتین منیری)
https://bhatkallys.com/articles/read/allama-dr-muhammad-hameedullah-by-masud/

Читать полностью…

علم و کتاب

اچھی زندگی گزار نے والے موت کو خیر کی قوت سے زیر کر لیتے ہیں۔ جسمانی وجود ختم ہونے کے بعد وہ زندہ جاوید ہو جاتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے اس عارضی زندگی کو اہمیت نہیں دی بلکہ انسانوں کی اخلاقی اور دینی ثروت میں اضافے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔ کسی نامور علمی شخصیت کے گزر جانے پر اکثر کہا جاتا ہے کہ علم کا آفتاب غروب ہو گیا لیکن دیکھا جائے تو علم کا آفتاب کبھی غروب نہیں ہوتا ، بلکہ اس کی حرارت میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ جس شخصیت کی رحلت پر ہم ایسے الفاظ کہتے ہیں ، دراصل اس شخصیت کا کارنامہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس نے علم کی روشنی کو مزید پھیلایا اور بڑھایا۔ علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب اپنی تقریباً ایک صدی کی زندگی میں اپنی گراں قدر تصانیف کے ذریعے سے علم کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ کرتے رہے۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر صاحب نے سکونت کے لیے کشادہ کمروں ، خوب صورت اور پر آسائش فرنیچر ، کتابوں کی ترتیب و تنظیم کے لیے وسیع الماریوں کی ناگزیریت کو اپنے عمل سے غلط ثابت کر دیا۔ ایک پرانی عمارت کی چوتھی منزل پر ایک مختصر سے فلیٹ میں پہنچنے کے لیے برقی آلات کے سہارے سے بے نیاز ایک معمر منحنی انسان کا عزم ہی کام آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اسی گوشتہ عافیت میں رہتے، سوتے بھی تھے، پڑھتے لکھتے بھی تھے اور اسلامی ادب کی ثروت میں حیرت انگیز اضافے بھی کرتے تھے۔ ان کا کوئی معاون بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ کھانا پکانے کے لیے بھی کوئی ملازم نہیں تھا۔ موبائل فون کے اس دور میں عام فون سے بھی ان کا گھر محروم تھا۔ کار کا تو کوئی سوال نہیں ۔ آنا جانا پیدل ہوتا تھایا زیر زمین میٹرو کام آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ہر خط کا جواب دیتے تھے۔ کارڈ پر خط لکھتے تھے۔ کوئی صاحب علم مہمان پیرس آتا تو کوشش کر کے خود اس کے پاس پہنچ جاتے۔ مہمان نوازی میں بھی پورے مسلمان تھے۔ اہل علم اور ضرورت مندوں کی مدد اس طرح ہوتی تھی کہ واقعی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب عمر بھر تنہار ہے، ازدواجی زندگی سے نا آشنا لیکن اس کی کوئی توجیہ و تاویل نہیں کرتے تھے۔ اس سنت کی پیروی نہ کر سکنے کا اعتراف فرماتے تھے۔ احتیاط کے تقاضے کے تحت پیرس میں گوشت کھانا ترک کر دیا تھا۔ ربع صدی سے زیادہ تارک اللحم رہے مگر صحت مند اور فعال بھی ۔ ڈاکٹر صاحب کی فعال زندگی بھی اس کا ثبوت ہے کہ حرکت اور سادہ غذا میں صحت ہے۔ ڈاکٹر صاحب تصویر کھینچنے، کھنچوانے کو دینی لحاظ سے صحیح نہیں سمجھتے تھے، اور ان کا عمل بھی اس کے مطابق تھا۔ ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کوئی اُن کی تصویر نہ کھینچے۔ ۱۹۸۲ء میں پیرس میں ماہ نامہ یونیسکو کورئیر کے ایڈیٹروں کی میٹنگ تھی ۔ یونیسکو کے اس تعلیمی، تہذیبی اور سائنسی عالمی رسالے کے پوری دنیا سے دو درجن سے زیادہ ایڈیشن مختلف زبانوں میں نکلتے ہیں ۔ ۱۹۷۷ء سے اس کا اردو ایڈیشن "یونیسکو پیامی" کے نام سے ہمدرد فاؤنڈیشن ، حکومت پاکستان کے تعاون سے شائع کرتا تھا۔ (لیکن افسوس کہ حکومت نے ۱۹۹۰ء میں ہم کو اردو اور علم کی اس خدمت سے روک دیا ، کیوں کہ یونیسکو سے متعلق کوئی کام حکومت کے واسطے اور اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ ) یونیسکو پیامی کے مدیر حکیم محمد سعید تھے اور میں شریک مدیر ۔ ہم ایڈیٹروں کی اس میٹنگ میں شرکت کے لیے پیرس گئے تھے اور ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب دو بار ملنے ہوٹل تشریف لائے ۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ مجھے خیال آیا کہ اس لمحے کو محفوظ کر لیا جائے ۔ میں ڈاکٹر صاحب اور حکیم صاحب کو باتیں کرتا چھوڑ کر اپنے کمرے سے کیمرا لے آیا۔ بٹن دبانے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ لیا اور اپنا ہا تھ اپنے چہرے کے سامنے کر لیا۔ حکیم صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ یہ غیر شرعی حرکت ہے لیکن کیمرا اپنا کام کر چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا چہرہ آدھا چھپا ہوا ہے لیکن یہ تصویر میرے سفرنامے دو مسافر دو ملک میں محفوظ ہوگئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے اپنے دور حکومت میں ڈاکٹر صاحب سے عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی خدمت کرنی چاہی ۔ ڈاکٹر صاحب میاں نواز شریف کی دعوت پر چند دن کے لیے ۱۹۹۲ء میں پاکستان آئے بھی، لیکن انھوں نے یہاں مستقل قیام اور کسی قسم کے سرکاری تعاون کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ حکومت سے وابستہ ہونے کا مطلب نوکر شاہی کی گرفت میں آنا ہے جس کے بعد آزادانہ علمی کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب پیرس میں رہ کر جس طرح اپنی مرضی اور اپنے انداز کی زندگی گزار رہے تھے اس کے نتیجے میں انھوں نے قابل رشک تحقیقی تصنیفی ، تدریسی اور تبلیغی کام کیے۔ وہ کہتے تھے کہ پاریس میں بڑے بڑے کتب خانے ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد میں ہر موضوع پر اور ہر زبان میں کتابیں ہیں جو پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں نہیں ۔ انھوں نے ایک بار یہ بھی لکھا کہ "میرا پاکستان آبسنا بے معنی ہے۔ میری اپنی تالیفیں سات زبانوں میں ہیں اور یوں مزید کئی زبانوں میں پڑھ لیتا ہوں ، اس لیے علمی کام میں بڑی سہولت ہے ۔" ( ڈاکٹر صاحب پیرس کو اپنے خطوط میں پاریس ہی لکھا کرتے تھے ) ۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel