علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
شہاب بھائی نے درست کہا کہ ’وقوف‘ کا لفظ ’وقف‘ سے نکلا ہے۔ وقف کے معنی رُکنا، ٹھہرنا اور کھڑے ہوجانا ہے۔ اس سے صیغۂ امر ’قِف‘ہے، یعنی رُک جاؤ یا ٹھہر جاؤ۔ قرآنِ مجید کی آیات کے درمیان میں بعض مقامات پر چھوٹا سا ’قِف‘ لکھا ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہاں رُک جاؤ، ملا کر نہ پڑھو۔ بھید یا اشارے کے لیے عربی لفظ ’رمز‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ رمز کی جمع ’رموز‘ ہے۔ رُکنے یا نہ رُکنے کے لیے جو مختصر اشارے یعنی رموز استعمال کیے جاتے ہیں اُن کو ’رموزِ اوقاف‘ کہا جاتا ہے۔ ’اوقاف‘ وقف کی جمع ہے۔’وقف‘ ہی سے ’وقفہ‘ بنا ہے، جس کا مطلب ہے تھوڑی دیر رُک جانا، فرصت فراہم کرنا، ڈھیل یا مہلت دینا، ملتوی کردینا اور تاخیر کرنا۔ وقفہ دینے ہی کو ’توقف‘ کرنا کہتے ہیں۔ دیکھیے شیخ ابراہیم ذوقؔ، بے چارے، وقفے اور توقف کے مابین کیسے پھڑپھڑا رہے ہیں:
کیا قہر ہے، وقفہ ہے ابھی آنے میں اُس کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
کوئی مخیر شخص اپنی کسی چیز کی ملکیت سے دست بردار ہوکر اُسے افادۂ عام کے لیے مخصوص کردے تو اس عمل کو ’وقف کرنا‘ کہتے ہیں۔ ایسی جائداد ’وقف‘ کہلاتی ہے۔ ’وقف‘ کا کوئی خاص مالک نہیں ہوتا، ہر شخص اسے استعمال کرسکتا ہے اور ہر شخص اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مسلمان اللہ سے اجر کی خاطر ’وقف للہ ‘ کرتے ہیں۔ کوئی شخص کسی کام میں ایسا مصروف اور منہمک ہوجائے کہ دوسرے کاموں سے اُس کا کوئی واسطہ نہ رہے تب بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے دن رات یا اپنی زندگی اس کام کے لیے وقف کردی ہے۔ ’وقف‘ میں سپرد کردینے یا سپرد ہوجانے کا تصوربھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلسل ناکامیوں اور مسلسل غم و اندوہ سے گزرنے والا بھی ’وقفِ ناکامی‘ یا ’وقفِ غم‘ ہوجاتا ہے۔ مثلاً آزادؔ اپنے محبوب کو ملتفت کرنے کی ناکام کوششوں سے تنگ آکر کہتے ہیں :
کب تک آخر وقفِ ناکامی رہے
کام آجاؤ کسی ناکام کے
وقف کے واؤ کو شروع سے ہٹاکر آخر میں لگا دیں تو ’قفو‘ بن جاتا ہے اور مطلب اُلٹ جاتا ہے۔ ’قفو‘ کے معنی ہیں پیچھے پیچھے چل پڑنا، اتباع یا پیروی کرنا۔ اسی سے لفظ ’قافیہ‘ بنا ہے۔ قافیہ پیمائی کرنے والوںکا قافیہ اکثر تنگ ہوجاتا ہے۔ رحمٰن کیانی مرحوم نے تو ہم سب کا قافیہ تنگ کردیا تھا۔آج کے مردِ مسلمان کو ’اونچی اونچی چھوڑنے‘ کا مشغلہ چھوڑدینے کا مشورہ دیتے ہوئے کیانی صاحب کہتے ہیں:
لاف و گزاف چھوڑ کہ اے مردِ بے خبر
از قاف تا بہ قاف ترا قافیہ ہے تنگ
دوسرے مصرعے میں پہلے قاف سے مراد قطبِ شمالی ہے اور دوسرے قاف سے مراد قطبِ جنوبی۔
/channel/ilmokitab
مولانا ابو العرفان خان ندوی(وفات ۱۷ نومبر ۱۹۸۸ء) تحریر: مولانا سراج الدین ندوی
Читать полностью…روشنی مجھ سے گریزاں ہے
کلام وآواز: سید اقبال عظیم
پیشکش اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=roshni-mujh-say-gurazan, Roshni Mujh Say Gurazan
داستان زندگی
بیان وآواز: جمال میاں فرنگی محلی
پیشکش اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=dastan-e-zindagi, Dastan E Zindagi
صور من حياة الصحابة--- حبيب الأنصاري رضي الله عنه- بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله
Читать полностью…آہی جائے گی سحر
کلام وآواز: مجروح سلطانپوری
پیشکش اردو آڈیو ڈاٹ کام
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=aa-hi-jaigi-sehr, Aa Hi Jaigi Sehr
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔وہ مست ہو ہو کے مجلس میں بھنڈ کرتے ہیں۔۔۔ احمد حاطب صدیقی*
ہمیں خوشی ہے کہ اس صفحے پر ہم جو دو چار سطریں گھسیٹ لیتے ہیں ان پر لسانیات کے جید اہلِ علم بھی نظر عنایت فرماتے ہیں۔ اس عنایت سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور لاعلمی میں کمی۔ ہرنئی بات جان کر نئی خوشی ہوتی ہے۔ جی خوش ہوجائے تو مارے خوشی کے جی چاہنے لگتا ہے کہ اپنے کالموں کے قارئین کو بھی ان علمی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔
پچھلے کالم میں ہم نے اپنا ہی بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ ہماری یہ خوش فعلی سلیم بھائی کو خوش آئی۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم صاحب جامعہ ملک عبدالعزیز رابغ، سعودی عرب میں کلیۃ العلوم و الآداب کے استاذ ہیں۔ ہمارے اُستادی دکھانے پر آپ نے ہم سے خوش ہوکر لکھا:
’’کیا خوب بھانڈا پھوڑا ہے۔ زبردست۔ سنسکرت میں ایک مادّہ ہے ’بھن/بھنڑ‘ جس کے معنی ہوتے ہیں آواز کرنا، کہنا، پکارنا، شور مچانا۔ ہم کبھی اتنا غصے میں ہوتے ہیں کہ کچھ بامعنی کہنے کو نہیں ہوتا۔ منہ ہی منہ میں کچھ کہنے لگتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ’’بھُنبھُنا رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح مچھر، مکھی وغیرہ بھی زیادہ ہوں تو ان کے پروں کی آواز ہوتی ہے، جسے’ بھِنبھِنانا‘ کہتے ہیں۔ اصل تو آواز ہے لیکن آواز نہ ہو تب بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ انسان کو، ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے، چیزوں کو ذخیرہ کرنے کا خیال ہوا، کہ ہر وقت ضرورت پڑنے پر بار بار بستی سے باہر نہ جانا پڑے۔ اس نے برتن بنائے۔ شاید برتنوں کے آواز نکالنے کی صفت بہت پہلے پہچان لی گئی تھی۔ چمچ، تھالی، لوٹا، مٹکا، گھڑا، کوئی ایسا برتن نہیں جسے بجایا نہ جا سکے یا بجایا نہ جاتا ہو۔ جہاں چار برتن ہوتے ہیں آپس میں ٹکراتے ہی ہیں۔ بڑے برتنوں میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے تو نیچے سے گلے تک بھرتے ہوئے آواز آتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب برتن بھر جانے کو ہے۔ شاید آواز ہی کی مناسبت سے انہیں بھانڈ، بھانڈا اور بھنڈا کہا گیا۔ حاطب بھائی! آپ نے بھانڈے کا بھانڈا بالکل درست پھوڑا ہے۔ لیکن بھانڈا پھوٹ جانا اہم کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم اپنا کھانا دوسروں میں بانٹ کر نہیں بلکہ دوسروں سے چھپا کر کھاتے ہیں اور چھپا کر لے جاتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ تجسس ہوگا کہ کون کیا لے کر جا رہا ہے۔ ویسے بھی کچھ لے جاتے ہوئے راستے میں بھانڈا پھوٹ جائے تو سب ظاہر ہوجاتا ہے، ورنہ گھر میں تو سب کو معلوم ہی ہوتا ہے کہ بھانڈے میں کیا ہے۔ سنسکرت سے مشتق کئی مقامی بولیوں میں بھنڈا سے ’ہنڈا‘ ہوگیا۔ پیتل کے گھڑوں کو اب بھی ہنڈا کہتے ہیں۔ اس کی تصغیر ہانڈی اور ہنڈیا ہے۔ جہاں بہت بڑے بڑے بھانڈوں میں گیہوں، چاول وغیرہ ذخیرہ کیا جاتا ہے اس جگہ کو ’بھنڈار‘ کہتے تھے اور اس کا افسر ’بھنڈاری‘ کہلاتا تھا۔ بھنڈار کی طرح ’کوٹھار‘ بھی ہوتا تھا اور اس کا نگراں ’کوٹھاری‘ کہلاتا۔ اب یہ عہدے تو نہ رہے لیکن بہت سے بنیوں کے خاندانی نام بھنڈاری اور کوٹھاری ہوتے ہیں۔ درباروں میں جو بھانڈ ہوتے تھے ان کی وجہِ تسمیہ بھی آواز اور اعلان ہے۔ راجاؤں کے ہاں ’بھانڈک‘ ہوتے تھے جن کا کام منادی کرنا ہوتا تھا۔ راجا جی کسی مہم سے لوٹے تو پرجا میں ان کی کامیابی کے قصوں کا، بڑھا چڑھا کراونچی آواز میں، اعلان کرنا ان کی ذمے داری ہوتی۔ پھر زوال ہوا تو بغیر کسی مہم یا کامیابی کے دربار میں راجا جی کا بکھان کرنا ان کا فرض ٹھہرا۔ سچ، جھوٹ، چاپلوسی، نقالی، گانا، بجانا، جیسے بھی راجا جی خوش ہوں۔ ’بھانڈ‘سرکاری اعلان کرنے سے شروع ہوئے تھے، دھیرے دھیرے نقال، جوکر، ناچ گانے اور کرتب دکھانے والے بن گئے‘‘۔
بھانڈوں سے متعلق مفصل معلومات کی فراہمی پر ہم اپنی اور اپنے قارئین کی طرف سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ ’بھانڈ‘ سرکاری اعلان کرنے سے شروع ہوئے تھے۔ ہماری ناقص و ناہنجار رائے میں یہاں صیغۂ ماضی استعمال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس قسم کے سرکاری بھانڈ اور بھانڈک اب بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر بکثرت پائے جاتے ہیں، اور آپ نے آخری سطور میں جن جن مشاغل کا ذکر کیا ہے، اُن تمام مشاغل کے تقاضے وہ بیک وقت نبھاتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک خاتون کا ایک ’بصریہ وبائی‘ ہوگیا۔ بہ الفاظِ انگریزی اُن کی ایک ایسی ‘Video viral’ ہوگئی جس میں وہ عالمی قماش کے ایک بھانڈ یا بھانڈک کی پریس کانفرنس میں ’بھنڈ‘ کرتے ہوئے چیخ چیخ کر غزہ میں قتل عام بلکہ قتل عوام بند کرنے کا مطالبہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی ’بھنڈاری‘ بھی اُن کو پکڑ کر باہر کا راستہ دکھانے پر مستعد و مامور نظر آرہے ہیں۔ ’بھنڈ کرنا‘ اپنے’کرانچی‘ والوں کی معروف اصطلاح ہے۔ مفہوم ہے ’رنگ میں بھنگ ڈالنا‘ یا بدنظمی کرنا۔ یہی اصطلاح، اسی مفہوم میں انشاء اللہ خان انشاؔ کے ہاں بھی مل جاتی ہے:
شراب اُن کو کہیں مت پلائیو انشاؔ
وہ مست ہو ہو کے مجلس میں بھنڈ کرتے ہیں
ہمارے خیال میں جون کے اشعار ہوں، یا منٹو کے افسانے، یا پھر مجروح کے گیت، ان میں پیش ہونے والے بہت سے خیالات کو درست نہ سمجھتے ہوئے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ کہ ان کی اثر پذیری در اصل ان کے بےساختگی، سادگی اور دل کو چھو لینے والے موضوعات میں مضمر ہے۔ ہمارے دینی علمی طبقے کو ان سے سبق لینا چاہئے، ہمارے یہاں سے بے تحاشا مضامین اور کتابیں آرہے ہیں، لیکن انہیں پڑھ کر کیا کبھی دل پر چوٹ لگتی ہے؟۔ کہیں کچھ اثر بھی ہوتا ہے؟ کیا کبھی انہیں پڑھ کر آنکھیں بھی گیلی ہوتی ہیں، اس بزم میں بارہا کہ چکے ہیں، اور اب بھی کہتے ہیں، کہ ہماری تحریروں کے انبار کا کبھی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے، ان موضوعات کے بارے میں کبھی سوچنا چاہئے کہ ہمارے احساسات اور زندگیوں سے کہاں تک ان کا تعلق ہے، اور جو زبان ہم استعمال کرتے ہیں، وہ کہاں تک قارئین کے دلوں میں اترپاتی ہے۔ اگر نہیں اترتی ہے تو آخر اس کے اسباب کیا ہے؟۔ ہمیں اس پرسنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ جو زبان اور اسلوب ہم اپنی تحریروں اور تقریروں میں اپنائے ہوئے ہیں، اور جن موضوعات کو ہم نے ان کا محور بنایا ہوا ہے، ان میں دلوں کے تار چھیڑنے کی کہاں تک سکت باقی ہے؟۔ جب تک زندہ زبان میں زندہ موضوعات ہماری تقریروں اور تحریروں کا محور نہیں بنیں گے، اس وقت تک ہمارے زبان وقلم سے نکلنے والی ہزاروں تقریریں، اور مضامین و کتابوں کے انبار کی حیثیت کباڑئیے کے مال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کیا ہم اس تعلق سے اپنے محاسبہ کے لئے تیار ہیں؟
2023-11-10
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
المدد المدد یا خدا یا خدا
کلام واواز : اعجاز رحمانی
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=al-madad-al-madad, المدد المدد يا خدا يا خدا
ریل گاڑی وہ واحد ایجاد ہے جس کا رومان ابھی تک جوں کا توں قائم ہے۔ باقی سب ایجادات کی ہمیں عادت ہوگئی ہے اور وہ ہماری زندگی کے شب و روز میں ایک یکسانیت کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں، ریڈیو ، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون ، کمپیوٹر، یہاں تک کے ہوائی جہاز بھی اپنا تحیر کھوچکے ہیں جب کہ ایک رواں ٹرین میں اب بھی اولین حیرت کے سب سامان روزِ اول کی مانند ہیجان خیزی میں مبتلا کرتے ہیں، ہم آج بھی ہر ٹرین کو اُسی پرمسرت حیرت اور کسی حد تک اداسی سے تکتے جاتے ہیں جیسے گئے زمانوں کے لوگ پہلی بار ایک ٹرین کو چھک چھک کرتے گزرتے دیکھتے تھے۔
ٹرین میں عجب طلسم ہے کہ یہ زائل ہوتا ہی نہیں ۔
(مستنصر حسین تارڑ)
(لاہور دیوانگی)
چند اشعار اور شاعر کے نام پیش کئے جارہے ہیں ، جو شاعر سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں...
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(پنڈت مہتاب رائے تاباں) بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 29
جہاں ہم خشتِ خم رکھ دیں ، بِنائے کعبہ پڑتی ہے
جہاں ساغر پٹخ دیں ، چشمۂ زمزم نکلتا ہے
(ریاض خیرآبادی) بحوالہ سوانحی انسائیکلو پیڈیا صفحہ 312
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
(ظریف لکھنوی) بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 251
چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
(مرزا محمد علی فدوی) بحوالہ برمحل اشعار اور ان کے مآخذ صفحہ 30
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
(احمد حسین امیر اللہ تسلیم) بحوالہ جدید شاعری ،صفحہ 197
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کرلو تیر کو
(وزیر لکھنوی) بحوالہ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ صفحہ 103
منقول
" فرمایا کہ جو لوگ گناہ کو صغیرہ ( چھوٹا ) سمجھ کر جرأت کرلیتے ہیں، بڑی غلطی کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ گناہ صغیرہ ہے، اور یہ نہ دیکھا کہ گناہ کس ذات کا ہے ؟؟ اگر یہ مراقبہ ( تصور، دھیان ) کرلیتے تو سمجھ لیتے کہ اس لحاظ سے تو صغیرہ بھی اکبر الکبائر ( بڑے گناہوں سے بھی بڑا ) ہونا چاہئے " ۔
( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 15، صفحہ نمبر: 267 ) ۔
/channel/ilmokitab
ایک ملاقات مولانا عبد المتین منیری کے ساتھ
مشہور محقق و اسکالر اردو کے مایہ ناز ادیب ، پیکر علم ودانش،دریاۓمعلومات کے غواص اور معروف حلقہ (علم و کتاب )کے بانی و مدیر مولانا عبد المتین منیری صاحب کی بنگلور آمد پر شائقین علم و کتاب اور باذوق احباب کے لئے ایک پروگرام مولانا عبد المتین منیری کے ساتھ ایک ملاقات کے *عنوان سے(مصلے مور مارکیٹ جے محل بنگلور* ) نزد جے محل پارک میں 29اکتوبر 2023بروز اتوار ساڑھے سات بجے شام میں منعقد کیا گیا ۔پروگرام اپنے مقررہ وقت پر شروع ہواجس میں شہر بنگلورکے باذوق علماء واحباب نے شرکت کی ۔خوشی کی بات یہ رہی کہ اس خالص ادبی محفل میں شبلی زمانہ اور جنید عصر ،زاھد بے مثال سلسلہ رفاعیہ کے عظیم بزرگ حضرت مولانا سید محمد مصطفی رفاعی بھی شروع سے آخر تک شریک رہے ۔اسی کے ساتھ مشہور قلم کار اور جنوب ہند کے باکمال مصنف حضرت مولانا ڈاکٹر راہی فدائی بھی تشریف لائے اور اپنے قدوم میمنت سے مجلس کی رونق میں اضافہ فرمایا ۔
آغاز مجلس میں پروگرام کا تعارف اور پروگرام کے گل سر سبد محترم جناب مولانا عبد المتین منیری کا احقر نے تعارف کرایا۔اس موقعہ پر مولانا نے ہمیں بڑی سختی سے کہا کہ تعارف میں ہمیں تعریف بالکل پسند نہیں اور مبالغہ تو بالکل برداشت نہیں ۔مولانا منیری کی یہ تواضع اور خاکساری نے تو جان ہی نکال دی آپ کی اس ادائے دلبری نے بے حد متاثر کیا
خیر !تعارف کرایا گیا ۔جس میں احقر نے کہا کہ: مولانا کسی بہت بڑے ادارے سے نہ فارغ ہیں نہ وابستہ ۔اس کے باوجود علم و معلومات کا ایک بحر ناپیدا کنار اور فہم و بصیرت کی ایک نادر مثال ہیں ۔کثرت مطالعہ ،قوت مشاہدہ اور حفظ و اتقان میں اسلاف کی یادگار ہیں ۔ مثال دیتے ہوئے کہا کہ: جس طرح مور تخت و تاج اورباغ وبہار کا محتاج نہیں ہوتا،جہاں وہ پر کھول دیتا ہے وہیں چمن کھل جاتا ہے ۔مولانا منیری کی ذات بھی علمی کمالات سے اس طرح مزین ہے کہ انھیں اپنے علمی افادات کے لئے کسی ادارے کی ضرورت نہیں وہ خود ایک ادارہ اور چلتی پھرتی انجمن ہیں ۔وہ علم کی کہکشاں ہیں ۔
مولانا نے تقریباً سوا گھنٹے تک اپنا پر مغز اور علمی محاضرہ پیش فرمایا۔ جس میں انھوں نے
اپنے موضوع سے متعلق قیمتی اور نادر معلومات سے حاضرین کو روشناس کرایا ۔
اس خالص علمی محفل میں مولانا موصوف نے ( ڈیجیٹل لائبریری کی اہمیت اور اس سے استفادہ کا درست طریقہ ) کے حوالے سے جو باتیں پیش فرمائیں وہ انھیں کا حصہ تھیں ۔
بطور خاص آپ نے مولانا دریابادی کی تحریروں کو پڑھنے کی گذارش کی اور خود اپنے بارے میں کہا کہ میں نے ایک طویل عرصے تک سیکھنے کی غرض سے ان کی تحریروں کو نقل کیا ہے ۔اور اب جو کچھ ہمارے پاس انداز و واسلوب ہے یہ سب اسی محنت کا ثمرہ ہے اسی لئے میں مولانا دریا بادی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں ۔
انھوں نے اپنے محاضرے میں علماء کے لئےمطالعہ جاری رکھنے پر بہت زور دیا۔کہا:ایک عالم دین کی علمی صلاحیت یا تو گھٹے گی یا بڑھے گی ۔ایک ہی سطح پر نہیں رہ سکتی ۔اگر مطالعہ جاری رہا تو صلاحیتیں پروان چڑھیں گی اور اگر مطالعہ رک گیا تو صلاحیتیں کند ہو جائیں گی۔ اس لئے علماء کے لئے مطالعہ اور کتب بینی کی عادت انتہائی ضروری ہے ۔ایک عالم دین کو روزانہ کم از کم سو صفحات کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔
محاضرہ کے بعد محترم جناب ڈاکٹر راہی فدائی نے مولانا عبد المتین منیری کے ساتھ اپنی محبتوں اور کا اظہار فرمایا ۔انھوں نے مولانا کے تعلق سے فرمایا کہ: مولانا کہتے ہیں کہ میں ایک عام سے مدرسے کا فارغ ہوں -حالانکہ جس مدرسے کے یہ فارغ التحصیل ہیں وہ کوئ معمولی ادارہ نہیں تھا اپنے وقت کا وقیع اور مرکزی ادارہ تھا پورے بر صغیر میں تنہا وہی ایک ایسا ادارہ تھا جہاں شروع سے اخیر تک ساری تعلیم عر بی میں ہوتی تھی۔ گویا وہ عربی میڈیم مدرسہ تھا ۔جمالیہ عربک کالج کے نام سے یہ ادارہ تھا ۔جس میں تدریس کے لئے باقاعدہ مبعوثین بھی آتے تھے ۔مولانا منیری کے تعلق سے فرمایا کہ وہ بہت قابل ہو کر بھی بہت منکسر المزاج انسان ہیں ۔ہم ان کی تحریروں کے شیدائی ہیں اور منتظر رہتے ہیں ۔
اس کے بعد دعا ہوئ اور پھر کتاب الطعام کا اجراء ہوا تمام شرکاء اس سے بھی خوب مستفید ہوے کیونکہ آج کا یہ کھانا بنگلور کے روایتی انداز سے ہٹ کر خالص بھٹکلی انداز میں بناکر پیش کیا گیا تھا ۔
اس پروگرام کے انعقاد میں مولانا سمیع اللہ ندوی رفاعی اور مصدق بھائ بھٹکلی کا خصوصی تعاون رہا ۔میں ذاتی طور پر ان کا بہت شکر گذار ہوں
شرکاء مجلس میں محترم جناب عبد الغفور صاحب باقوی زید مجدہ، محترم جناب مفتی حبیب القدوس صاحب قاسمی جناب ڈاکٹر فاروق صاحب، رحیمی شفا خانہ اور جناب مولانا مدثر صاحب مدرس جامعہ مسیح العلوم بنگلور، جناب نعمت اللہ حمیدی راشٹریہ سہارا بنگلور قابل احترام شخصیات میں سے ہیں یہ حضرات اخیر تک شریک محفل رہ کر حوصلہ افزائی فرماتے رہے ۔
مولانا کی تقریر کسی اور موقع پر شائع کی جائیگی انشاء اللہ
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔از قاف تا بہ قاف ترا قافیہ ہے تنگ... احمد حاطب صدیقی*
سرزمینِ مقدس سعودی عرب کے ایک عقل مند شہر جدہ میں سید شہاب الدین سرگرداں تھے کہ ’بے وقوف‘ کسے کہتے ہیں؟ اس سعی و سرگردانی میں اُنھوں نے ہر طرف سر مارا، مگر سراسر ناکامی ہوئی۔ بالآخر وہ اپنی تلاش میں کامیاب ہو ہی گئے، یعنی ہم تک پہنچ گئے۔
لکھتے ہیں:’’محترم حاطب صدیقی بھائی! یہ بتائیے کہ یہ جو لفظ ’بے وقوف‘ ہے الفاظ کی ترکیب سے اس کا وہ مفہوم تو نہیں نکلتا جن معنوں میں یہ بولا جاتا ہے۔ ’بے‘ فارسی کا لفظ ہے جو اُردو میں بھی مستعمل ہے اور جس کا مطلب نفی ہے، جیسے بے کار، بے مثال اور بے حد وغیرہ۔ ’وقوف‘ عربی کا لفظ ہے جو ’وقف‘ سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب رُکنا یا ٹھہرنا ہے۔ جیسے ’وقوفِ عرفہ‘ وغیرہ۔ اب ان دونوں الفاظ سے ’بے وقوف‘ کے وہ معنے کہاں سے نکل آئے، جن معنوں میں یہ بولا جاتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ تحقیق کریں کہ اس بے وقوف کی اصلیت کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟‘‘
شہاب بھائی! آپ کا تجزیہ پڑھ کر ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ فارسی اور عربی دونوں بوڑھیوں نے مل کر کم سِن اُردو کو ’بے وقوف‘ بنایا ہے۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ ’ وقوف‘ کا مطلب محض کھڑا ہونا، رُکنا اور قیام کرنا نہیں ہے۔ ’وقوف‘ کے معنوں میں شعور، سلیقہ، ادراک، علم، سمجھ، فہم، لیاقت، قابلیت، مہارت، تجربہ، مشق، جاننا، آگہی اورواقفیت بھی شامل ہیں۔ مرزا شوقؔ لکھنوی کی مثنوی’ ’فریبِ عشق‘‘ میں آیا ہے:
نہیں اچھے بُرے کا ان کو وقوف
کالے گورے پہ کچھ نہیں موقوف
اسی طرح جنابِ اخترؔ (غالباً اخترؔ علی گڑھی) نے بھی کسی کا وعظ سن کر تبصرہ فرمایا ہے:
واعظ کو کیا ہے کشف و کرامات کا وقوف
ہے بے وقوف اس کو نہیں بات کا وقوف
ہنر سیکھنا اور کام جاننا اُس کام یا ہنر سے ’وقوف پیدا کرنا‘کہلاتا ہے۔ پس، جس شخص میں ’وقوف‘ نہ ہو، یعنی جو شخص لاعلم، جاہل، احمق، ناسمجھ اور بے شعور ہو اُس کو ’بے وقوف‘ کہا جاتا ہے۔ ’بے‘ یقینا حرفِ نافیہ ہے اور ’بغیر‘ یا ’بدون‘ کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اسی طرح ’نا‘ بھی حرفِ نفی ہے۔ مگر ہم کسی کو ’ناوقوف‘ نہیں کہتے۔ ’نا‘ لگانا بہت ضروری ہو تو’ناواقف‘ کہہ دیتے ہیں۔ بے وقوف نہ کہا، ناواقف کہہ دیا۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم ’بے‘ کی بابت بتاتے ہیں کہ ’’یہ لفظ فارسی ترکیبوں میں عموماً اسمائے غیر صفت وغیر مشتقات یعنے اسمِ مصدر،اسمِ جامد اور نیز ان الفاظ پر جن میں یائے مصدری ہو، لگایا جاتا ہے جیسے بے دانش، بے علم، بے شعور، بے زر، بے روزگار، بے ہنر، بے ادبی‘‘۔
اس تعریف کی روشنی میں ہم یائے مصدری والے الفاظ بے زری، بے روزگاری اور بے ہنری تو بولتے ہیں، مگر نازری، ناروزگاری اور ناہنری نہیں بولتے۔ حرفِ نفی ’نا‘ کے متعلق بھی مولوی صاحب لکھتے ہیں:
’’نا، اکثر مشتقات اور صفات پر آتا ہے یعنے اسمِ فاعل، اسمِ مفعول، صفت مشبہ پر جیسے نابالغ، نامسموع، ناشائستہ، ناپسند‘‘۔
یعنی بے بالغ، بے شائستہ اور بے پسند نہیں بولا جاتا مگر ہر قاعدے کی مستثنیات بھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا بے اُمید اور بے امیدی کی جگہ نااُمید اور نااُمیدی استعمال کرنا صحیح سمجھا جاتا ہے۔ اسی زمرے میں ہم جیسے ناچیز، نامراد، ناہنجار اور نااہل بھی شامل کردیے جاتے ہیں۔
بے وقوف تو بے وقوف ہی رہے گا، جب تک اپنے اندر ’وقوف‘ پیدا نہ کرلے۔’واقف‘ عربی میں ’کھڑے ہونے والے‘ کے لیے بولا جاتا ہے، مگراُردو میں یہ لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا، ہمیشہ اسمِ صفت کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو میں ’واقف‘کا مطلب جاننے والا، ماہر، آگاہ اور مُطّلع لیا جاتا ہے۔ صورتِ حال اور حال احوال سے باخبر شخص ’واقفِ حال‘ کہلاتا ہے۔ جو شخص اپنے کام سے اچھی طرح آگاہ ہو اور جو شخص ہم سے کسی طرح آگاہ ہوجائے دونوں کو ’واقف کار‘ کہتے ہیں۔ اسی سے اسمِ صفت ’واقف کاری‘ بنا لیا گیا ہے، مطلب جان پہچان اور شناسائی ہے۔ ’واقفیت‘ کا لفظ بھی جان پہچان کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلکہ برصغیر میں سرکاری دفاتر سے اپنا کام نکلوانے کے لیے ’واقفیت‘ لازمی ہے۔ سو، واقفیت نہ ہو تو’واقفیت پیدا‘ کرلی جاتی ہے۔ ’موقِف‘ بھی کھڑے ہونے کی جگہ یا قیام گاہ کو کہتے ہیں۔ مگر اردو میں یہ لفظ ’نقطۂ نظر‘ کے لیے وقف ہے۔ اوپر شوقؔ کے شعر میں لفظ ’موقوف‘ آیا ہے۔ اس کا مطلب بھی روکا ہوا یا ٹھہرایا ہوا ہے۔ تاہم اُردومیں ’موقوف‘ کا استعمال منحصر، برخاست یا ختم کردینے کے معنوں میں ہوتا ہے۔ ’موقوفی‘ برخاستگی یا بندش کو کہتے ہیں۔
مولانا غلام رسول مہر۔ تحریر: پروفیسر محمد ایوب قادری
Читать полностью…مولانا عزیر گل ۔ تحریر محمد عادل صدیقی( الشریعہ مارچ ۱۹۹۰ء)
Читать полностью…جب حضور آئے (۲۷ )۔۔۔ظلمت کدوں میں نئی صبح کے آثار۔۔۔ نسیم حجازی
دُنیا نزع کے عالم میں تھی، ظلم کی اندھی اور بہری قوتوں کے سامنے انسانی ضمیر کے سارے حصار منہدم ہوچکے تھے۔ مظلوموں اور بے بسوں کے لیے اپنے مقدر کی تاریکیوں کے ہجوم سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ زیر دستوں میں فریاد کی سکت نہ تھی اور بالا دستی کو یوم حساب کا خوف نہ تھا۔ یہ دُنیا ایک رزم گاہ تھی جہاں افراد، قبائل اور اقوام ایک دوسرے کا گوشت نوچ رہے تھے۔ امن، عدل اور انصاف کے متلاشیوں کی چیخیں، گمراہی، جہالت اور استبداد کی آہنی دیواروں سے ٹکرانے کے بعد خاموش ہوچکی تھیں۔ روم و ایران کے تاجدراوں کی قبائیں اپنے محکوموں کے خون میں ڈوبی ہوئی تھیں اور صحرائے عرب کے باشندوں کی قبائلی عصبیتیں اپنے فرزندوں سے تازہ آنسوئوں کی طلب گار تھیں۔
پھر یکایک مکہ کی برہنہ چٹانوں اور بے آب و گیاہ وادیوں پر پروردگار عالم کی ساری رحمتوں کے دریچے کھل گئے اور فرزندان آدم کی مایوس اور تھکی ہوئی نگاہیں عرب و عجم کے ظلمت کدوں میں ایک نئی صبح کے آثار دیکھنے لگیں۔
انسانی تاریخ کا سب سے مبارک وہ لمحہ تھا جب حضرت آمنہؓ خالق ارض و سما کی ساری نعمتوں اور کائنات کی تمام مسرتوں اور سعادتوں کو اپنی آغوش میں دیکھ رہی تھیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے مجروح اور ستم رسیدہ انسانیت کو یہ مژدہ سنا رہے تھے کہ عبدالمطلبؓ کا پوتا اور عبداللہؓ کا بیٹا ان دُعاؤں کا جواب ہے جو خانہ کعبہ کی بنیاد اُٹھاتے وقت حضرت ابراہیمؑ کی زبان پر آئی۔ یہ وہی ہادی اکبر ہے جس کی بشارت حضرت عیسیٰؑ نے دی ہے۔ یہ خدا کے ان برگزیدہ بندوں کے سپنوں کی تعبیر ہے جو ماضی کی ہولناک تاریکیوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو پُکارتے تھے۔
اے زمانے کے مظلوم اور مقہور انسانو! یہ تمھارا نجات دہندہ ہے۔ قیصر و کسریٰ کے استبداد کی چکی میں پسنے والے غلامو! تمھارے آلام و مصائب کا دور ختم ہو چکا ہے۔ جہالت اور گمراہی کی تاریکی میں بھٹکنے والو! یہ تمہیں سلامتی کا راستہ دکھائے گا۔ عدل و انصاف کے متلاشیو! اس کے ہاتھ ظلم کے پرچم سرنگوں کر دیں گے۔ یتیموں، بیوائوں اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے انسانو! یہ تمھارا سب سے بڑا وسیلہ ہے!!
/channel/ilmokitab
وطن اپنے زیر استعمال الکٹرونک چیزیں لے جاتے ہیں تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ مسائل پیش آتے ہیں، اس مرتبہ سفر کے آخری ہفتے لیپ ٹوپ کا ڈی ڈرائیو کراش ہوگیا، اور اس میں سے چھ سو جی بی ڈاٹا ڈیلیٹ ہوگیا، لہذا علم وکتاب پر پوسٹ کرنے کے لئے جو مواد مرتب کرکے رکھا تھا وہ مکمل ضائع ہوگیا، اب وہ مواد تو مختلف جگہوں پر موجود ہے، لیکن اسے از سر نو منظم کرنا بہت محنت طلب کام ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ صور من حیاۃ الصحابہ وغیرہ جو سلسلے جاری ہیں وہ مکرر پوسٹ نہ ہوں، اب شاید ایسا نہ کرنا ممکن نہ ہو۔ لیکن اب یہ مواد مکرر آبھی جائے تو بہتوں کے لئے وہ نیا ہوگا۔ کیونکہ یہ مواد ان کی شمولیت سے پہلے پوسٹ ہوا ہے، دعا کریں، گروپ کے جس معیار کو قائم رکھنے کی کوشش ہورہی ہے، اس میں کامیابی کی توفیق دے۔
Читать полностью…شارجہ میں شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب اللمحات کے محققہ ایڈیشن کا رسم اجراء شروع ہوگیا ہے،
Читать полностью…مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
کلام وآواز: فیض احمد فیض
پیشکش اردو آڈیو ڈاٹ کام
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=mujh-say-pehli-si-muhabbat, Mujh Say Pehli Si Muhabbat
شاعر کی آواز میں مزید کلام کی لنک
https://audio.bhatkallys.com/speakers/faiz-ahmed-faiz/
’بھنڈ مارنا‘ بھی ہمارے کراچی والوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ مراد ہے لاف زنی کرنا، شیخی مارنا اور بے سروپا، احمقانہ باتیں کرنا۔ قدیم اردو میں ’بھنڈیلا‘ پھکڑ باز اور جگت باز کو کہا جاتا تھا۔ پہلے زمانے میں جگت باز سرکار دربار میں بھنڈ مارا کرتے تھے، اب بھی غالباً یہی مشغلہ ہے، مگر ارتقا کے مراحل طے ہوجانے کے بعد اس منصب کا نام بھنڈیلا، بھانڈ، بھانڈک یا جگت باز نہیں رہا، وزیر اطلاعات ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ سنسکرت سے مشتق کئی مقامی بولیوں میں ’بھنڈا‘ سے ’ہنڈا‘ ہوگیا،جس کی تصغیر ہانڈی اور ہنڈیا ہوئی، جب کہ اس کی ’تکبیر‘ کا ذکر پچھلے کالم میں نظیرؔ اکبر آبادی کے اس مصرعے میں آچکا ہے کہ …’پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے‘۔ اچھا ہوا کہ ہنڈا، ہانڈی اور ہنڈیا وجود میں آگئے۔ ورنہ ہمارے گھروں میں بھنڈا، بھانڈی اور بھنڈیا بات بات پر بھنڈ مارتے دکھائی اور سنائی دیتے۔
ہندی اور فارسی الفاظ کو ملا کر بنائی جانے والی تراکیب میں سے ایک ترکیب ’بھنڈار خانہ‘ بھی لوگوں میں رائج ہے۔ حالاں کہ ’بھنڈار‘ (گودام) میں ’خانہ‘ کا تصور پہلے سے موجود ہے۔ نقار خانے کی طرح ’بھنڈار خانے‘ میں بھی کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کیسے سنائی دے؟ چھوٹے چھوٹے بھانڈے آپس میں لڑجائیں تو وہی اچھا خاصا بھنڈ مچا دیتے ہیں۔ بھنڈار خانے میں تو بڑے بڑے بھانڈوں سے بڑے بڑے بھانڈے ٹکراتے ہیں۔ اُن کی باہمی سر پھٹول سے جو غدر مچتا ہے، اُس کا بھگتان ہماری پوری قوم اپنے سیاسی ’بھنڈار خانے‘ میں کھڑی یا پڑی آئے دن بھگتا کرتی ہے۔
لغت میں بھنڈار اور بھنڈاری تلاش کررہے تھے کہ ایک لفظ ’بھنڈارا‘ مل گیا، جس کا مطلب ہے ہندو فقیروں اور جوگیوں کی ضیافت۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی لفظ کا مطلب کھوپڑی بھی ہے اور پیٹ بھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ نوراللغات میں لکھے ہوئے اس فقرے کو پڑھ کر ہم اپنی کھوپڑی سہلائیں یا پیٹ؟ ’’…شمشیر آب دار میان سے باہر نکال لوں اور ایسا ہاتھ لگاؤں کہ بھنڈارا کُھل جائے‘‘۔
صاحبو! یہ ساری باتیں لفظ ’بھانڈا‘ سے نکلی تھیں۔ بھانڈا کا ایک صوتی رشتے دار ’بھونڈا‘ بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے بے ڈول، بدصورت اور بد وضع۔ اِس بھونڈے کی مؤنث ’بھونڈی‘ کہلاتی ہے۔ شکل صورت میں یہ بھی اپنے مذکر جیسی ہوتی ہے۔ لیکن مذکر ومؤنث دونوں کا مشترکہ اسم صفت ’بھونڈاپن‘ ہے، کیوں کہ ’بھونڈی‘ میں بھی اچھا خاصا ’بھونڈا پن‘ پایا جاتا ہے۔ بھونڈے پن میں بدتمیزی، بدتہذیبی، بد سلیقگی اور پھوہڑپن بھی شامل ہوجاتا ہے۔
بھنڈ، بھانڈ، بھانڈا، بھنڈا، بھانڈک، بھنڈار اور بھنڈاری کا مطلب تو محترم سلیم بھائی نے اچھی طرح سمجھا دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ ہماری ایک پیاری سی ترکاری ‘Lady Finger’ کو سنسکرت، ہندی یا اُردو میں ’بھنڈی‘ کیوں کہا جانے لگا ہے؟
کیا عجب کہ اس کا سبب یہ ہو کہ یہ بھی پیٹ میں پہنچتے ہی مست ہو ہوکر بھنڈ کرنے لگتی ہے۔ مگر ایسا کیوں کرتی ہے؟ کوئی حکیم صاحب (مثلاً حکیم عارف عبداللہ صاحب) ہی اس کا بھانڈا پھوڑ سکتے ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
Https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
یوم اقبال کا پیام
لکھنٶ میں 8/اپریل 1942 کوشاعر مشرق علامہ اقبال کی یاد میں نواب بہادر یار جنگ کی زیر صدارت ” یوم اقبال “ بڑی دھوم دھام اور بڑے اہتمام سے منایا گیا ۔ اس محفل میں مدیر صدق مولانا عبد الماجد دریابادی کا درج ذیل پیام پڑھ کر سنایا گیا :
جس کی زندگی خود ایک پیام تھی ، جس کا سارا کلام بس ایک پیام ہی تھا ۔ اس کی سالانہ یادگار کے موقع پر کوٸی دوسرا کیا پیام دے !
یہ لکھنٶ شہر وہی ہے جو پیش پیش تھا اقبال کی اردو شاعری پر نکتہ چینی میں ، حرف گیری میں ۔ یہ بندش کم زور ، وہ ترکیب سست ، لفظ غلط ، مصرعہ مہمل ۔ آج یہی شہر ہے کہ امڈا چلا آرہا ہے داد دینے کو ، خراج عقیدت پیش کرنے کو!---- ایسا ہی ہوا کرتا ہے جب شاعر کا قال حال بن جاتا ہے اور فاعلاتُٗ فاعلات آب حیات میں تبدیل ہوچکی ہوتی ہے ! شاعر اب شیطان کا نقیب نہیں ، اللّٰہ کا مرید بن جاتا ہے ۔ اس کا کلام اب ناسوتیوں کی راگ راگنی نہیں ، لاہوتیوں کا نغمہ بن جاتا ہے ۔ اعتراض اب تبدیل ہوجاتا ہے اعتراف میں اور انتقاد اعتقاد میں!
اقبال ہند کا تھا ۔ پیام وہ دے گیا ، جو صدیوں پیش تر ایک رومی دے گیا تھا ۔ شرح اس پیام کی جو دونوں کے آقا و سردار عرب کے ایک امیﷺ کا پیام تھا ۔ پیام بندوں کا نہیں ، بندوں کے مالک کا ، پیام افضل البشر کا بھی نہیں ، خود خالق بشر کا ۔ وَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَاَنتُم مُّسلِمُونَ. جیو مسلمان ، مرو مسلمان ، اٹھو مسلمان!
ہفتہ وار صدق لکھنٶ۔ 27/ اپریل 1942
Https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
*بات سے بات: جون ایلیا کے اشعار کی مقبولیت کا راز*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*
کل جون ایلیا کے یوم پیدائش کی مناسبت سے محترم معصوم مرادآبادی کے کالم کے بعد جون کی شاعری اور شخصیت پر جناب محمود دریابادی اور دیگر احباب کے کئی ایک مضامین اور پیغامات پر نظر پڑی، احباب کی دلچسپی کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ جون چاہے نہ چاہے ان سب کے محبوب شاعر ہیں۔
جون کا نام ہم نے پہلے پہل غالبا ۱۹۷۸ء میں سنا تھا، جب وہ ہندوستان تشریف لائے تھے، اور اس وقت کے مقبول عام ادبی مجلے بیسویں صدی دہلی نے مشاعروں میں پیش کردہ آپکے کلام کو پیش کیا تھا، پھر آپ کو دبی میں مشاعرہ بہ یاد فیض ۱۹۸۶ء میں بالمشافہ یہی اشعارسننے کا موقعہ ملا،اس کے بعد وہ دبی کے مشاعروں میں جب بھی شریک ہوئے، ان میں ضرور حاضری ہوئی۔
جہاں تک ہماری معلومات ہیں، وہ ایک بہت پڑھے لکھے شیعہ خاندان سادات امروہہ کے ایک فرد تھے، وہ ایک نرے شاعر تھے، انہیں کسی تحریک یا نظرئے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، وہ شاعری کی رو میں بہ نکلتے تھے، آپ ان کی زندگی کو مجاز لکھنوی، اور اختر شیرانی جیسے شاعروں اور ادیبوں میں سعادت حسن منٹو سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
جہاں تک ان کے شعروں کا تعلق ہے وہ آسان بحروں میں اور عام فہم ہوتے ہیں، یہ بات ان کی نثر میں نہیں ہے، یہ خاصی گنجلک اور فلسفیانہ نوعیت کی ہے، جب یہ سب رنگ ڈائجسٹ سے وابستہ تھے تو اس میں آپ کے لکھے انشائیوں کی بڑی شہرت تھی، خامہ بگوش (مشفق خواجہ ) نے اپنے کالم سخن در سخن میں آپ کی نثر کی خوب گھسائی کی تھی، بہر حال آپ کی نثر کا ادبی پایہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
جون کے بھائی کمال امروہوی (پکار، مغل اعظم، محل، رضیہ سلطانہ ) جیسی فیلموں کے عظیم ترین مکالمہ نگار کی حیثیت سے جانے مانے ہیں، اور رئیس امرہوی مایہ ناز شاعر، اور محمد نقی پاکستان کے روزنامہ جنگ سے وابستہ سینیر صحافی، اردو شعر وادب وصحافت کے لئے ان سب کی عظیم خدمات ہیں۔
جون پر جو تحریریں ہماری بزم میں پوسٹ ہوئی ہیں، ان پر سرسری نظر ڈالنے پر احساس ہوا کہ ان میں لکھنے والوں کے دل کی بات واضح طور پر سامنے نہیں آئی۔ یہ کہنا کہ جون کے پڑھنے کا انداز لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا، ہماری رائے میں زیادہ وزنی نہیں ہے، ہم نے انہیں مشاعروں میں دھت حالت میں اپنا توازن کھوتے ہوئے قابل رحم حالت میں دیکھا ہے، اس وقت جب ہماری زبان سے ان کے بارے میں کوئی ناپسندیدگی کی بات نکلتی تھی تو بہت سے جوان ہمارے پر خفا ہوتے تھے۔ اس حالت میں بھی وہ ان کے لئے محترم اور قابل عزت ہوتے تھے ۔
ہماری رائے میں جشن جون ایلیا دبی کے موقعہ پر صدر مشاعرہ مجروح سلطانپوری نے اپنے صدارتی تاثر میں آپ کی شاعری کو چند جملوں میں سمیٹ دیا ہے،اس میں آپ نے نے فرمایا تھا کہ:
((یہ گفتگو کرتے ہیں شعر میں، بظاہر اونچی اڑان نہیں لیتے حالانکہ ہوتی ہے، اور میرے نزدیک یہ اپنی طرز کے واحد شاعر ہیں اردو زبان کے ہندوستان پاکستان کہیں بھی، اور میرے بڑے پسندیدہ ، اس قدر مشکل طرز ہے ان کا کہ ہر ایک کے بس کا بھی نہیں، گفتگو کو شعر بنا دینا ، بھئی ایک دفعہ بنا دیجئے دو دفعہ بنادیجے،یہ مسلسل اس طرح بناتے چلے جائے، یہ ان کا ہنر ہے))
مجروح صاحب کو یہ کہنے کا حق ہے، کیونکہ آپ بھی اپنے دور کے عظیم اور مقبول شعراء میں شمار ہوتے تھے، آپ کے کئی ایک اشعار کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے، دنیا بھر میں ملکوں ملکوں اور کونے کونے میں پھیلے آپ کے اردو گیتوں کی مقبولیت میں کوئی آپ کا ہمسر نہیں۔ لیکن مقبولیت کی انتہاء کو کبھی آپ نے معیار کی بلندی نہیں سمجھا، ایک زمانے میں آپ کے لکھے ہوئے ایک گیت نے مقبولیت کی تمام حدیں پار کی تھیں۔ اس گیت کے بول تھے۔
((نہ بیوی نہ بچہ۔۔۔ نہ باپ بڑا نہ میا۔۔۔ د ہول تھنک از ڈیٹ کہ بھیا۔۔۔ سب سے بڑا روپیہ))
اسے خوبصورت آواز کے رفیع یا کشور کے بجائے مسخرے محمود نے اپنی بھونڈی سی آواز میں گایا تھا، مجروح صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ان کا سب سے غیر معیاری لیکن سب سے مقبول گیت تھا۔
راہبر سوگئے
کلام: اعجاز رحمانی
https://youtu.be/I-0hM72fLe4?si=972SbnxztdR5Vctz
29اکتوبر 2023کو محترم جناب مولانا عبد المتین منیری صاحب کے کاشانہ برنی بنگلور آمد کے موقع پر موصوف کے محاضرہ پیش کرنے کے بعد عالی جناب مولانا ڈاکٹر ظہیر احمد راہی فدائی صاحب نے مولانا منیری صاحب کا تعارف کرایا ۔ڈاکٹر صاحب جنوب ہند کے مشہور ادیب ،نقاد شاعر اور محقق شمار ہوتے ہیں شعر و نثر دونوں صنفوں میں ان کی تصانیف ہیں ،جنوب ہند کی باکمال شخصیات ،مدرسہ باقیات الصالحات کی تاریخ ،اس کا مسلک اور کئ قابل قدر شعری مجموعے اہل علم کے درمیان ان کی پہچان بنے ہوئے ہیں ۔
انھوں نے اپنے تعارفی کلمات میں جہاں مولانا منیری صاحب کی صلاحیتوں اوران کی بلند اخلاقی ،عاجزی وانکساری کا کھل کر اعتراف کیا وہیں مولانا کی مادر علمی جمالیہ عربک کالج چنئی کا تعارف اور اس کے بانیاں میں سے جمال محمد مدراسی کے ندوۃ العلماء لکھنو اور جامعہ ملیہ دہلی پر احسانات کا تذکرہ بھی کیا۔
خلیل الرحمن قاسمی برنی
عشق میں حساب کتاب کہاں ہوتا ہے؟
دلچسپ و عجیب
مولانا رومی ایک دن خرید و فروخت کے سلسلے میں بازار گئے۔ ایک دکان پر جا کر رک گئے۔ دیکھا کہ ایک عورت کچھ سودا سلف لے رہی ہے۔ سودا خریدنے کے بعد اس عورت نے جب رقم ادا کرنی چاہی تو دکان دار نے کہا،“عشق میں حساب کتاب کہاں ہوتا ہے، چھوڑو پیسے اور جاؤ۔“ مولانا رومی یہ سن کر غش کھا کر
گر پڑے۔ دکان دار سخت گھبرایا اس دوران وہ عورت وہاں سے چلی گئی۔ خاصی دیر بعد جب مولانا رومی کو ہوش آیا تو دکاندار نے پوچھا،“مولانا صاحب آپ کیوں بے ہوش ہوئے؟“ مولانا رومی نے جواب دیا، “میں اس بات پر بے ہوش ہوا کہ تم دونوں میں اتنا قوی اور مضبوط عشق ہے کہ آپس میں کوئی حساب کتاب نہیں جب کہ اللہ کے ساتھ میرا عشق کتنا کمزور ہے کہ میں تسبیح کے دانے بھی گن گن کر گراتا ہوں۔“ —...
خلیل الرحمن قاسمی برنی صدر ادارہ علمی مرکز بنگلور
Читать полностью….🤪😅😅
ایک پروفیسر کی بیگم نے پرندوں کی دوکان پر ایک طوطا پسند کیا اور اُس کی قیمت پوچھی۔ دوکاندار نے کہا محترمہ قیمت تو اس کی زیادہ نہیں ہے لیکن یہ اب تک ایک طوائف کے کوٹھے پر رہا ہے لہذٰا میرا خیال ہے اسے رہنے ہی دیں کوئی اور پرندہ دیکھ لیں۔ پروفیسر کی بیگم کو طوطا کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا تھا ، کہنے لگیں ’’ بھئی اب اسے بھی تو پتہ چلے شریفوں کے گھر کیسے ہوتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے طوطے کی قیمت ادا کی اور پنجرہ لے کر گھر آ گئیں۔ پنجرے کو ڈرائنگ روم میں ایک مناسب جگہ لٹکایا تو طوطے نے ادھر اُدھر آنکھیں گھمائیں اور بولا
’’ واہ ، نیا کوٹھا ! یہ کوٹھا تو پسند آیا بھئی۔‘‘ بیگم کو اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ خاموش رہیں۔ تھوڑی دیر بعد اُن کی بیٹیاں کالج سے لوٹ کر گھر آئیں تو انہیں دیکھ کر طوطا بولا،
’’ اوہ نئی لڑکیاں آئی ہیں‘‘۔
بیگم کو غصّہ تو آیا لیکن پی گئیں یہ سوچ کر کہ ایک دو دن میں طوطے کو سدھا لیں گی۔ شام کو پرو فیسر صاحب اپنے وقت پر گھر لوٹے۔
جیسے ہی انہوں نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا طوطا حیرت سے چیخا
’’ ابے واہ جاوید! تو یہاں بھی آتا ہے ؟ ‘‘
اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔۔۔۔
جاوید صاحب اُس کے بعد سے گھر سے غائب ہیں۔۔
😝😝